1688708536651_56116631
Open/Free Access
۱۱۷
دروازہ
دہلیز پہ بیٹھی ایک بڑھیا چہرے کی جھریاں سہلا رہی تھی
اس کی دھندلائی آنکھیں بیتے دنوں پہ نوحہ کناں تھیں
جیسے یادوں کی آگ آنسوئوں سے بجھا رہی ہو
نحیف ہاتھوں میں وقت کا تحفہ تھامے
ڈھلکتے آنچل سے بے خبر نجانے کن دنیائوں میں گم تھی
اپنی صدا سے دور کئی صدائوں میں گم
دھندلی آنکھوں سے ماضی میں جھانک رہی تھی
وہ دل کش چہرے اور حسین منظر
کچی دیواریںاور کھلے در
روشن طاقچے اور جھلملاتی چلمنیں
بچوں کی اٹھکیلیوں سے مہکتے آنگن
چاندنی میں نہائے مسکراتے چہرے
پیپل کے پتوں کی سرسراہٹ اور جھولوںکی آوازیں
کیاریوں میں پھولوں پر بیٹھی مکھیوں کی بھنبھناہٹ
کچی دیوار کے طاقچے میں بیٹھی ایک گڑیا
بابا کے شانوں پہ بیٹھی ہوا میں جھومتی ہوئی ایک بچی
بڑھیا کو دیکھ کرسوال کرتی ہے
’’یہ گڑیا طاقچے میں اکیلی کیوں ہے؟
اس کا گڈا ، اس کا سانوریا کہاں گیا؟‘‘
بڑھیا داہنے ہاتھ سے جھریاں صاف کرتے ہوئے کہتی ہے
’’بٹیا۔۔۔! زندگی بچھڑنے کا نام ہے
کبھی گڈا پہلے بچھڑ جاتا ہے ،کبھی گڑیا
یہ میرے سفید ژولیدہ بالوں کو دیکھتی ہو
نجانے کتنے پھول ان میں سجنے کو بے تاب رہتے تھے
اب حالات کی سیاہ چادر میں دبکے رہتے ہیں
یہ کلائیاں دیکھو جن پہ لوہے کے کنگن رہ گئے ہیں
کبھی پھولوں کے گجرے ہوتے تھے
کانچ کی چوڑیاں بھی ان کو بار لگتی تھیں
یہ خمیدہ کمر دیکھ رہی ہو
کبھی شاعر اس کے قصیدے بیان کرتے تھے
انسان بھی کتنا بے بس پجاری ہے
تمام عمر خواہشوں کو پوجتا ہے
یہ مٹی کا پتلاجسے اذیتوں بھرے ساٹھ ستر برس دے کر
اوندھے منہ زمین پر گرا دیا گیا
جن میں سے آدھے خواہشیں نگل جاتی ہیں
کچھ بھوکے بھیڑیے بھی ہیں جو خواہشوں کا بدن نوچ کھاتے ہیں
بٹیا۔۔! یہاں ہر نفس گم ہے
کوئی فضائوں میں کوئی سزائوں میں
کوئی وفائوں میں، کوئی جفائوں میں
تم سے اگر ہو سکے تودروازے کے اُس پار ہی رہنا
اِس پار تو اذیتوں کے سوا کچھ نہیں
اس طرف درد ہیں، چھبن ہے
صحرا ہے، دہشت ہے ،وحشت ہے‘‘
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |