1688708536651_56116639
Open/Free Access
۱۳۱
تندوردہک رہا ہے
تندور دہک رہا ہے
لوگ بھوکے پڑے ہیں
سب کے بدن سوکھے پڑے ہیں
یہ خواہشوں کے مارے معصوم انسان
انسانوں کے جنگل میں،ضرورتوں کے مارے
معاش کے درخت کاٹتے اور ضرورت کی شاخیں جمع کرتے
اور دیکھتے ہیں
کہیں بہار کی رنگینیاں تو کہیں خزاں کے ویرانے
کہیں خوشیوں کے سریلے گیت تو کہیں آرزوئوں کے ماتم
کوئی ٹانگیں پسارے پڑا ہے تو کوئی محوِ سفر ہے
کہیں شکار کی تاک میں جال پھیلائے ہوئے مکڑیاں
پھن پھیلائے ہوئے زہریلے سانپ
دندناتے ہوئے خونیں بھیڑیے
چالاکیوں کے پھندے لگائے لومڑ
چھلانگیں لگاتے ہوئے چیختے بندر
کوئی سوکھی لکڑیاں چن رہا ہے
کوئی ہری شاخیں کاٹ رہا ہے
کوئی تندور کے لیے ۔۔۔کوئی پیٹ کے لیے
شام کو تھکے ہارے یہ تہذیب کے پروردگار
یہ ارتقا کے پیشوا، گھروں کو لوٹتے ہیں
دہکتا ہوا تندور انھیں اپنی طرف بلاتا ہے
تندورچی سب کو مسکرا کر دیکھتا ہے
اپنی دھن میں گیت گاتا ،روٹیاں لگاتا ہے
دھوئیں سے آلودہ چندھی آنکھوں سے سب کو دیکھتا ہے
انسان بھی کیا ہے۔۔؟
کوئی تندور کی آگ میں جلتا ہے تو کوئی حسد کی
روٹیاں پک رہی ہیں
تندور دہک رہا ہے
لوگ بھوکے پڑے ہیں
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |