Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ارشاد ڈیروی (فن تے شخصیت) > ارشاد ڈیروی کا تخلیقی سفر

ارشاد ڈیروی (فن تے شخصیت) |
حسنِ ادب
ارشاد ڈیروی (فن تے شخصیت)

ارشاد ڈیروی کا تخلیقی سفر
Authors

ARI Id

1688708562111_56116648

Access

Open/Free Access

Pages

13

ارشاد ڈیروی کے فن و شخصیت کا اگر تحقیقی جائزہ لیا جائے ، تو اسی کی دہائی میں ’’ نین سوالی‘‘ لے کر1995ء میں ادبی منظر نامے پر نمودار ہوتا ہے، جس میں ان کے ڈوہڑے ، قطعے ، گیت اور ابتدائی  دور کی غزلیں شامل ہیں، مگر یہ ابتدائی چیزیں اس بات کی غماز ہیں کہ:

’’دل طائر میں اڑنے کا ابھی امکان باقی ہے‘‘

’’نین سوالی ‘‘ کا چاہئے ڈوہڑا ہو یا گیت ، قطعہ ہو یا غزل امکانات سے بھرپور ہے، ارشاد ڈیروی ایک بااعتماد شاعر ہیں انھیں اپنے کام اور کلام پر مکمل یقین ہے، کلامِ شاعر یزبان شاعر مشاعرے اورسٹیج  پہ سننے کا انھیں ایک اپنا لطف ہے۔

ارشاد ڈیروی کے مجموعہ ہائے کلام کے ناموں پر اگر غور کیا جائے تو ان کے تلازے اور علامتیں انھوں نے شعوری اور غیر شعوری طور پر استعمال کیے ہیںان کے پیچھے ایک ایک داستان مل سکتی ہے، شاعر کا الفاظ کا استعمال اگرچہ بظاہر غیر محسوس انداز ہی ہوتا ہے ، مگر

تیرگی میں دیکھنے کو چشمِ بینا چاہیے

ہر لفظ کی تہہ میں ایک بات ہوتی ہے، اور درحقیقت بات وہی ہوتی ہے ارشاد ڈیروی کی خصوصیت اور انفرادیت یہ ہے ، کہ وہ صرف شاعرہی نہیں یعنی خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں رہنے والا ہی نہیں بلکہ ایک محنت کش بھی ہے، اور مزدور بھی جن کے بارے میں ملتا ہے، الکاسب  حبیب اللہ یعنی محنتی اللہ کا دوست ہے۔ان کے’’نین سوالی ‘‘  لب ورخسار کا نہیں پوچھتے ، بلکہ دل دہلادینے والے حسرت زدہ سوالی نین ہیں، یہ وہی سوال ہیں جن کے بارے میں فیض احمد فیض نے کہا تھا!

مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ

یا جیسے اسی شاعر ایک اور مقام پر کہا تھا

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا

ارشاد ڈیروی کی شاعری میں بھی وسیب کے مسائل موجود ہیں ، مَیں اس شاعر کی ہمت کو  داد ، دینے بغیر نہیں رہ سکتا کہ نین سوالی لے کر ریت سفر کرکے بھی یہ ’’خواب‘‘ دیکھتا ہے، اور وہ خواب بھی ن م راشدؔ کی طرح کے خواب ۔۔۔اس کے خواب سوتے جاگتے کے خواب ہیں، اچھے دنوں کی اُمید رکھتا ہے، اور اپنے غم زدہ وسیب کو حوصلہ دیتا ہے، آس دلاتا ہے، بقول ناصر کاظمی !

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ

غم نہ کر  زندگی پڑی ہے ابھی

ان خوابوں کو وہ اپنی سرائیکی غزلوں، نظموں اور قطعوں کی پُر اثر زبان عطا کرتا ہے، بعد ازاں، خواب دیکھنے والا یہ شاعر عذابِ دید بھی رکھتا ہے، دُکھتی آنکھوں کے نصیب ہی روگٖ  ہوتے ہیں، اور 1994ء میں ارشاد ڈیروی ’’روگٖ‘‘ منظر عام پر لاتا دکھائی دیتا ہے،’’نین سوالی ‘‘کے بعد ارشادڈیروی کا دوسرا  شعری پڑاؤ ’’ریت سفر‘‘ ہے ،ارشاد ڈیروی لالہ صحرائی ہے ، جس کی وضاحت خود اس شعر کے روپ میں کرتے دکھائی دیتے ہی۔

اساں تاں ہیں ریت سفر دے پیرورانْے راہی

ساڈٖے چھالے رت نیں ڈٖیندے بھاہ نہ بٖال ہنالہ

زندگی کے سفر کو ارشاد ڈیروی صاحب نے ریت سفر، سے تعبیر کیا ہے، کہ ہمارے طبقہ کی زندگی کا سفر ایسے ہے، جیسے کوئی ریت میں سفر کرئے ، ریت سفر کا اندازہ صرف وہی کر سکتا ہے، جس نے یہ علیٰ تجربہ کیا ہو، اس کی رفتار اور کے لیے کس قدر توانائی اور ہمت درکار ہے، اس پر تبصرہ کے لیے میں تو بس اتنا ہی کہوں گا، کہ ارشاد ڈیروی صاحب نے عارفانہ رنگ میں قلم توڑ دیا ہے، اور یہ نام ریت سفر ہی کافی ہے، اس کے اندر اتنی ریت سفر کی گہرائی اور گیرائی موجود ہے، اس میں شامل ایک ایک غزل اور ایک ایک نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

نین سوالی عنواں پرُتجسس ہے، قاری سوچتا ہو گا، کہ ان کے نینوں میں بھلا وہ کون سے سوال ہیں ، ان کتاب کا مطالع بتاتا ہے، کہ ان کے سوال محبت کے بارے ہیں نہیں بلکہ بقول شاعر!

تیری آنکھیں سوال کرتی ہیں

میری ہمت جواب دیتی ہے

ان کے سوال ان کے سماج کے ہیں ان کے سوال ڈوہڑوں نظموں ، گیتوں ، غزلوں کے رنگ میں صاحبانِ اقتدار واختیار سے  بڑے معصومانہ اور حسرت بھرے انداز میںاسی دھرتی کے مایہ ناز فرزند محسن نقوی نے کہا تھا!

اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ

دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

                ارشادؔ ڈیروی کو عوام کی بھوک ننگ غربت محرومیوں اور مجبوریوں کے روگٖ ، گھائل کر چکے ہیں ، یہی وجہ ہے، کہ ایک بار بھر سے 1994ء میں اس کو کچھی کر ہر دل عزیز صنف ڈوہڑے کا سہارا لینا پڑجا رہے  اور ارشاد ڈیروی اے ٖوہڑے 1994ء کی صورت اپنے اس کرب اور درد کا کُھل کے اظۃار کرتا ہے، جس کے اس کے دل کی بھڑاس نکالتا ہے، اور خوب نکالتا ہے۔ارشاد ڈیروی کے اگر فن کی بات کی جائے تو ارشاد ڈیروی کا کلام !

از دل خیزد ہر دل ریزد

یعنی ہر دل عزیز ہے ، ارشاد ڈیروی عوام کا  نبض شناس شاعر ہے ، یہ ریت سفر لکھتا نہیں بلکہ ریت سفر کرتا ہے۔لہذا اس کا مشاہدہ بھی ہے، اور تجربہ بھی کنہ مشق ہے، طبع موزوں رکھتا ہے، شاعری کے جملہ رموز سے بخوبی آگاہ ہے، یہی وجہ ہے ، کہ اس کی شاعری میں دریائے سندھ کی سی روانی اور طغیانی ہائی جاتی ہے، اس کی شاعری عصری حسینت سے مالا مال ہے، اس نے صرف محبوب اور محبوبیت کو موضوع نہیں بنایا بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو کو سمونے کی بھرپور کوشش کی ہے،ارشاد ڈیروی کی شاعری سہی ممتنع کا بہترین نمونہ ہے، ارشاد ڈیروی کے ہاں مشکل اور طویل ؓحروں کے کامیاب تجربے بھی ملتے ہی ، وسیع المطالعہ شخص ہے ، جس کیباعث خیال کو باندھنے میں اسے ذخیرہ الفاظ کی مشکل پیش نہیں آتی، اس کی شاعری فکری وفنی پر دو لحاظ سے لایٔق دا دوتحسین ہے۔یہاں پر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ایوب صاحب آف فیصل آباد کا ذکر کرنا بھی ازحد ضروری سمجھتا ہوں جن کا اصل میدان تو اگرچہ پنجابیذبان و ادب ہے مگر انہوں نے ارشاد ٖڈیروی صاحب کے سرائیکی زبان میں کی جانے والے اس کام کو موضوعِ تحقیق بناکر علم دوستی اور ادب نوازی کا عملی ثبوت پیش کر دیا ہے کہ :

عاصم محبتوں کے قبیلے کا ہے اصول

ہوتی نہیں ہے کوئی ذات چاند کی 

ڈاکٹر ایوب صاحب کا یہ موضوعِ تحقیق میں حدوں اور سرحدوں کی نفی کی دلیل ہے۔ان کا دنیائے ادب میں یقین ہے کہ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے خالقِ لوح و قلم ڈاکٹر ایوب صاحب کے اس جذبہِ تحقیق و خدمتِ ادب یوں ہی قائم دائم رکھے اور ارشاد ڈیروی صاحب کے لیے دُعا ہے ،اللہ کرئے زورِ رقم اور زیادہ  ہو۔۔

                                                                                پروفیسر عاصم بُخاری میانوالی

                                                                                                0301-6765514

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...