Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

جدید مآخذ تحقیق (تحصیل اور ماخذ کا اشاریاتی مطالعہ) |
حسنِ ادب
جدید مآخذ تحقیق (تحصیل اور ماخذ کا اشاریاتی مطالعہ)

روزینہ یاسمین تحقیق کے آئینے میں
Authors

ARI Id

1688708586360_56116661

Access

Open/Free Access

Pages

۱۲

روزینہ یاسمین نے شعبہ اردو یونیورسٹی آف سیالکوٹ کے زیر اہتمام ایم ایس اردو کا تحقیقی مقالہ ’’ ماخذ اور تحصیل ‘‘ کا تو ضیحی اشاریہ مرتب کیا ہے۔ اشاریہ سازی لائبریری کا سائنسی علم ہے۔ہندوستان میں اشاریہ سازی کی ابتداخدا بخش پٹنہ لائبریری سے ہوئی۔ محققین نے اشاراتی کتب اور فہارس کو قدر سے دیکھا۔ اشاریہ سازی اور فہارس سے وقت کی بچت ہوتی ہے اور محقق ان دیکھے سفر کی صو بت سے محفوظ رہتا ہے اور علوم و فنون کے سنگم رہبری کی نشاندہی کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی کتب کی افادیت بڑھتی جائے گی اسے علم وادب کا دروازہ اور علوم وفنون کی کلید کہا جاتا ہے۔کلید کے بغیر علم وادب کا دروازہ نہیں کھلتا۔ مولفہ نے  اس اشاریہ کے ذریعے اردو شعرو ادب کی دنیا میں داخل ہونے والے نئے محققین کے لئے علمی در،وا کیا ہے۔انھوں نے علمی سمندر میں اضطراب پیدا کر نے کی شعوری کاوش کی ہے۔ روزینہ  اپنے مقالے میں رسائل وجرائد کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہے’’ رسالہ ان مطبو عات کو کہتے ہیں جو وقفے سے بار بار شائع ہوتے ہیں۔ وہ ماہانہ ، دو ماہی ، سہہ ماہی ، ششمائی اور سالا نہ  بھی ہو سکتے ہیںجنھیں جریدہ بھی کہتے ہیں‘‘

اہل قلم کی ان رسائل و جرائد میں تخلیقات اورنگار شات شائع ہوئیں۔ شعر وادب اور دیگر علوم وفنو ن کی اشاعت میں رسائل وجرائد نے اہم کر دار ادا کیا۔ ا ن رسائل و جرائد کی افادیت اظہر من الشمس ہے ۔ان رسائل وجرائد نے جہا ں کھتارسس کا کام کیا وہیں سائنسی ترقی کاراستہ اورنئے شعرا ادباکو بھی متعارف کر ایا۔آج کے نامور تخلیق کاروں کی ابتدائی نگارشات رسائل ہی میں شائع ہوئیں۔ وہی اردو کے اولین معمار کہلائے۔ ان میں نیاز فتح پوری ، مجنو ں گورکھ پوری ، ڈاکٹراختر حسین رائے پوری ، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر عبادت بریلوی  اور ڈاکٹر جمیل جالبی شامل ہیں۔ ان رسائل و جرائد کے نہ ہونے سے اردو ادب اور علوم و فنون کی ترقی نہ ہوتی ، علم وفنون کا فقدان ہوتا، افراد کا تزکیہ نہ ہوتا،معاشرے میں نیکی کا وجود نہ ہوتا ، غزل نہ ہوتی ،افسانہ ہوتا اور پیار نہ ہوتا۔

 مولفہ نے اپنے تحقیقی مقالے میں ہندوستان میں شائع ہونے والے مختلف رسائل و جرائد پر بھی روشنی ڈالی ہے ان کے بقول ’’رسائل و جرائدعلمی وادبی ، سیاسی و سماجی ، مذہبی ، معاشرتی ، اخلاقی ، ثقافتی اور اقداری ہوتے ہیں جن میں مختلف موضوعات پر معاشی ، سائنسی ، معاشرتی علمی ، ادبی اورتحقیقی مضامین شائع ہوئے۔ جو آئندہ نسلو ں کی راہبری و رہنمائی کا فریضہ سر انجام دیں گے۔ہم رسائل وجرائدکو مختلف علوم وفنون کا خزانہ کہہ سکتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے اپنے علم اور دل چسپی کے پس منظر میں طبعیات ، نباتات ، معاشیات ، حیوانات ، کیمیا ، ریا ضات ، تاریخ ، فلسفہ ، سیاسیات ، تعلقات عامہ اور فنون لطیفہ پر بہت سے مضامین لکھے بلکہ بہت سیرسائل جرائد کا اجرا بھی کیا۔ انھو ں نے ماہرین فن کو اپنی طرف متوجہ کیا اور بہت سے علمی وادبی حلقے قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ ان ماہرین فن نے اپنی دل چسپی کے پیش نظرمختلف مو ضو عات پر ان گنت تحقیقی مضامین لکھ کر نئے لکھنے والو ں کو اپنی طرف متوجہ کر کے علوم وفنون کے ذ خیرے کو مالا مال کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

  روزینہ نے اپنے مقالے میں ہندوستان میں شائع ہونے والے رسائل و جرائد  کے پس منظر میں اردوصحافتی خد مات کا ذکر بھی کیا ہے۔ اس کے بقول ’’ راجہ رام موہن رائے نے ہندوستان میں بیداری کی لہر پیدا کرنے کے لئے ایک رسالہ ’’ تحفۃ الموحدین ‘‘ فارسی زبان میں جاری کیا تھا‘‘ رام چندر ہندو  مذہب کوچھوڑ کر عیسائی ہو گئے تھے انھوں نے اپنے رسالے  کو عیسائیت کی تبلیغ کے لئے وقف کیا تھا۔ اسی رسالے میں یوسف کمبل پوش کے سفر نامہ اور  استاد نصیر الدین اور بہادر شاہ ظفر کا کلام بھی شائع ہوا تھا۔ انھو ں نے اردو کے پہلے جریدے ’’خیر خواہ‘‘ کا بھی خوب تذکرہ کیا ہے۔جنگ آزادی 1857 ء کے بعد اردو صحافت ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئی اور بہت سے رسائل آسما ن ادب پر نمودار ہوئے۔ مصنفہ نے ہندوستان میں خواتین کی تعلیم و تربیت کی ترجمانی کرنے والے رسائل و جرائد اخبار النسا،دہلی، تہذیب نسواں،  لاہور خاتوں ، علی گڑھ، حور ، کلکتہ ، عصمت ، کراچی اور پہلی ، لاہور کا بھی ذکر کیا ہے۔

معین الدین عقیل نے ’’ اسلامک ریسرچ  اکیڈمی ‘‘کراچی کے زیر اہتمام ایک علمی وادبی ، تحقیقی اور سوانحی جریدہ ’’ تحصیل‘‘ کا اجراکیا۔اس کی مجلس مشاورت اور ادارت میں اندورن اور بیرون ملک کے نامور ادیب شامل ہیں اس جریدے نے چند شمارو ں کے بعد علمی وادبی اور تحقیقی دنیا میں اپنی جگہ بنا لی اور اس کا شمار ملک کے معروف جرائد میں ہونے لگا بقول روزینہ’’ تحصیل کا شمار عصر حاضر میں صحافتی ادب کے معروف رسائل میں ہوتا ہے جسے منفرد تحقیقی کام کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے ‘‘ جبکہ ’’ ماخذ‘‘ کا اجرا 2020ء میں گوجرانوالہ سے ہو ا۔ اس کی مجلس مشاورت اور ادارت میں نامور ادیب شامل ہیں۔ یہ ہائر ایجوکیشن سے منظو ر شدہ ہے اس میں علم وادب کے علاوہ اطلاقی اور سائنسی مضامین بھی شائع ہوئے ہیں۔روزینہ نے عرق ریزی سے تحصیل اور ماخذ کا اشاریہ تیا رکیا ہے۔

 اسی تحقیقی کام نے ان کے اندر علمی شمع روشن کر دی ہے۔ اب اسلام آباد کی کسی یونیورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی سکالر ہیں۔ وہ اخلاص اور دل وجا ں سے علم وادب سے جْڑی رہی تو مسقبل کی اچھی نقاد اور اچھی نثار ثابت ہونگی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...