Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > جدید مآخذ تحقیق (تحصیل اور ماخذ کا اشاریاتی مطالعہ) > اردو کے ادبی اور تحقیقی رسائل و جرائد کا تعارف

جدید مآخذ تحقیق (تحصیل اور ماخذ کا اشاریاتی مطالعہ) |
حسنِ ادب
جدید مآخذ تحقیق (تحصیل اور ماخذ کا اشاریاتی مطالعہ)

اردو کے ادبی اور تحقیقی رسائل و جرائد کا تعارف
ARI Id

1688708586360_56116663

Access

Open/Free Access

Pages

۱۷

اردو کے ادبی اور تحقیقی رسائل و جرائد کا تعارف

رسالہ کسے کہتے ہیں؟

رسالہ ان مطبوعات کو کہتے ہیں  جو وقفے وقفے سے بار بار شائع ہوتے ہیں۔ رسالے کو مجلہ یا جریدہ بھی کہتے ہیں۔کچھ رسائل پندرہ روزہ ، ماہانہ ، دوماہی، سہ ماہی، ششماہی اور سالانہ ہوتے ہیں۔تحقیقی وادبی رسائل اپنے عہد کے تخلیقی سفر کے اہم ترین دستاویزات شمار ہوتے ہیں۔جہاں وہ ایک طرف اہل قلم کے نگار شات سے قارئین کو استفادہ کا موقع دیتے ہیں۔ وہاں ناقدین ، مؤرخین اور محققین کے لیے بھی ایسا مواد فراہم کرتے ہیں۔ جس سے کسی مخصوص عہد کے ادبی و تحقیقی رجحانات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اردو زبان وادب کے ارتقا میں ادبی  و تحقیقی رسائل نے ہمیشہ بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ادبی رسائل عوام کی ذہنی تربیت میں ایک مؤثر اور فعال کے قوت کے طور پر کام کرتے ہیں۔آج کا ادب جب ماضی کا حصہ بن جاتا ہے۔ تو ادبی رسالہ ہی اس خزینے کو تحفظ عطا  کرتاہے۔ اور یہ تنقید و تحقیق کے لیے بنیادی ماخذ کی حیثیت اختیار کرجاتاہے۔

رسائل کی اقسام :

رسائل و جرائد قوم کا ایک اہم اثاثہ اور ترجمان ہوتے ہیں۔جو بڑے وسیع پیمانے پر علمی و ادبی، سیاسی و سماجی، مذہبی و تہذیبی ، معاشرتی و ثقافتی اور اخلاقی و اقداری وغیرہ علمی ذخائر کا منبع اپنے اندر سمیٹ کر رکھے ہوتے ہیں۔اس وقت دنیا بھر میں ہر قسم کے رسائل شائع ہو رہے ہیں۔جو طبیعات، نباتات ، حیوانات ، کیمیا،ریاضی،معاشیات، تاریخ، فلسفہ ، سیاست، بین الاقوامی معاملات و تعلقات عامہ، فنون لطیفہ، تحقیقی و ادبی اور خصوصی غرض ہر موضوع فن اور رجحان سے متعلق مواد شائع کرتے ہیں۔

اردو ادب کی صحافتی روایت رسائل کا آغاز

برصغیر میں اردو رسائل کا آغاز انگریزی رسائل سے شروع ہوا۔ اس دور میں انگریز اپنے مشنری کے کاموں کے لیے اخبار یا رسائل شائع کرتے اور اپنی مذہبی تعلیم کا کام لیتے۔اس مقصد کے لیے جورسائل شائع ہوئے ان میں "ڈگ درشن "،"سما چار درپن " وغیرہ شامل تھے۔ یہ دونوں رسائل 1818ء میں جان کلارک مارش مین کی ادارت میں شائع ہوئے۔ راجہ رام موہن رائے نے ہند میں بیداری کی لہر پیدا کرنے کے لیے رسالہ " تحفۃ الموحدین" جو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے عربی میں جاری کیا۔ راجہ رام موہن نے اسے فارسی میں پیش کیا اور اس کا دیباچہ عربی میں لکھا۔ اس کے علاوہ ایک اور انگریزی رسالہ جو سہ ماہی تھا جاری کیا گیا۔ اس کا نام "ایشیا ٹکمیسولینی اینڈ بنگال رجسٹر" تھا۔ یہ رسالہ 1785 ء میں شائع ہوا۔ اس کے مدیران مسٹر گارٹن اور مسٹر جے وائیٹ تھے۔ اس رسالے میں اخلاقی اور تاریخی مضامین کے علاوہ شاعری بھی تھی۔

اردو کا پہلا ماہانہ جریدہ

اردو کا پہلا ماہانہ جریدہ" خیر خواہ ہند" تھا۔جو عیسائی مذہب کی تبلیغی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جاری کیا گیا۔اس جریدے کے ایڈیٹر آرسی ماتھر تھے۔یہ رسالہ 1837ء میں جاری ہوا۔"خیر خواہ ہند " میں پہلی مرتبہ علمی اور تبلیغی قسم کے مضامین کو خبروں پر فوقیت دی گئی۔ اس رسالے کے بعض مفید مضامین کا انتخاب کتابچوں کی صورت میں بھی شائع کیا گیا۔1857ء  کے ہنگاموں کی وجہ سے یہ جریدہ بند ہوگیا لیکن جیسے ہی حالات بہتر ہوئے تو اس "خیر خواہ ہند" کو جاری کردیا گیا۔

رام چندر پہلے اردو صحافی

اٹھارویں صدی کے وسط میں ہندوستان میں ایک طبقہ پیدا ہو رہا تھا جو رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ا ور فکر و مزاح کے لحاظ سے انگریز تھے۔ رام چندرخود بھی انگریزوں سے متاثر ہو کر اپنا مذہب ہندو سے عیسائیت میں تبدیل کر لیا۔ اور اسی کلچر کے حامی تھے۔ انہوں نے ماہانہ جریدہ "خیرخواہ ہند" جاری کیا۔ " خیر خواہ ہند" 1847 ء  میں ماہوار علمی رسالہ کے طور پر شائع ہوا۔

ماہنامہ " خیر خواہ ہند" ستمبر 1847 ء میں جاری ہوا اور نومبر 1847 ء سے اس کا نام تبدیل کرکے " محب ہند" رکھ دیا، کیونکہ " خیر خواہ ہند" کے نام سے ایک اور رسالہ مرزا پور سے بھی نکل رہا تھا۔اس رسالے میں جو نادر ادبی مضامین شامل ہوئے ان میں یوسف خان کمبل پوش کے سفر نامے ، بہادر شاہ ظفر اور شاہ نصیر کی غزلیں بہت اہم ہیں۔ "محب ہند" کی نوعیت علمی تھی لیکن اس نے فروغ ادب میں نمایا ں کردار ادا کیا۔

1857ء سے پہلے تحقیقی اور ادبی رسائل            

1857ء سے پہلے تحقیقی و ادبی رسائل کا تجزیہ کیا جائے تو اس کی کوئی واضح جہت نظر نہیں آتی۔ آغاز میں ہفتہ وار اخبارات ہی کو ادبی مضامین اور شعری تخلیقات کی اشاعت کے لیے استعمال کر لیاجاتا تھا۔اخبارات کا مقصد اخبار رسانی تھا۔اس دور میں چونکہ ادبااور شعرا معاشرے میں اہم افراد شمارہوتے تھے اس لیے ان کے بارے میں خبروں کو نمایاں حیثیت دی جاتی تھی۔ ادبی محفلوں کی روداد اور مغلیہ دربار میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات عوام الناس میں بہت مقبول تھے۔رام پور کے مشنری اداروں نے ادبی صحافت کو فروغ دیا۔ اور ان سے تبلیغ مذہب کا کام لیا۔

دلی کالج کے رسائل و اخبارات "فوائد الناظرین" اور "محب ہند" نے ہندوستانی جریدہ نگاری کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ادبی صحافت میں گلدستوں کی ترویج اور ان کی مدد سے شعرو شاعری کو فروغ حاصل ہوا۔مولوی کریم الدین نے 1845 ء میں پہلا گلدستہ "گل رعنا" دلی سے اور "معیار الشعرا" دوسرا گلدستہ شو نارائن آرام نے آگرہ سے 1845 ء میں ہی جاری کیا۔

اس دور کے ادبی رسائل میں اہل علم کی دلچسپی تو نظر آتی ہے ،لیکن ایسابھی محسوس ہوتا ہے کہ انہیں عوام کی سرگرم اعانت حاصل نہیں تھی۔لیکن اس کے باوجود یہ کہنا درست ہے کہ اس دور کے رسائل نے مستقبل کی ادبی صحافت کے لیے زرخیز زمین تیار کی اور 1857 ء کے بعد جو ادبی رسائل منظر عام پر آئے ان کی بنیاداسی زمین سے پڑی۔

عہد سرسید میں ادبی و تحقیقی رسائل و جرائد

1857ء کے ہنگاموں اور افراتفری کے دور کے بعد  انیسویں صدی کے آخر میں صحافت میں تفکر اور تجدید کا رجحان نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ اس دور میں کسمپری ،خوف اور جبر و قہر کی کیفیت تھی۔ ایسے میں سرسید نے قوم میں ایک نئی روح پھونکی اور گرتی ہوئی حالت کو سنبھالا دیا اور قوم کو مشورہ دیا کہ وہ نئے تقاضوں سے روشناس ہونے کی جدوجہد کریں۔ اس سلسلے میں انہوں نے "علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ"3 مارچ1866 ء کو اور"تہذیب الاخلاق" 1896 میں جاری کیے۔سرسید کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی ،مولانا شبلی نعمانی ، مولانا  محمد حسین آزاد ، رتن ناتھ سرشار اور عبدالحلیم شرر کا ادبی اور صحافتی کردار قابل تعریف ہے۔ اس دور میں سہ روزہ اور ہفتہ روزہ مثلا" اودھ اخبار " اور " اودھ پنج  " خبری یا ادبی ضروریات  پوری کرتے رہے۔

اودھ اخبار 1859 ء میں منشی نول کشورنے لکھنؤ سے جاری کیا ،پہلے ہفت روزہ تھا۔1874 ء میں روزنامہ بن گیا۔ مولوی غلام محمدخان تپش، پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولوی احمد حسن شوکت، عبدالحلیم شرر، سید امجدعلی، مرزا حیرت دہلوی، ادارہ تحریر سے وابستہ رہے۔ منشی غلام محمد خان تپش اور رتن ناتھ سر شار کے عہدادارت میں اخبار نے بڑی مقبولیت حاصل کی۔ ماہانہ رسائل کی طرف سے بھی پیش قدمی ہو چکی تھی۔

"اودھ پنج " رسالہ اُردو کا ایک مزاحیہ ہفت روزہ تھاجسے منشی سجاد حسین نے 1877 ء میں لکھنؤسے جاری کیا۔ یہ اخبار سیاست کو ظرافت کا جامہ پہنا کے پیش کرتا تھا۔"اودھ پنج" کا ابتدائی دور طنزو مزاح کا لطیف اور شائستہ دور تھا۔ بعد ازاں اور گاہے بگاہے اس میں ابتذال، پھبتیاں اور زاتیات کو نشانہ بناناجیسے عناصر بھی شامل ہوتے گئے۔اودھ پنج کے قلم کا ر سر سید اور ان کی تحریک کے سخت مخالف تھے۔"اودھ  پنج" کے اہم شاعر اکبر الاآبادی سر سید پر تلخ وترش ظریفانہ حملے کرنے میں پیش پیش رہے۔

بیسویں صدی کے تحقیقی و ادبی رسائل

بیسویں صدی کے آغاز ہی سے تعمیر نو کا آغاز ہو چکا تھا اور ادبی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئی تھیں۔ اردوادب کی جو خدمت سرسید احمد  کے دور میں  ڈپٹی نذیر احمد اور خود سرسید نے کی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سید امیر علی، شیخ عبدالقادراور علامہ اقبال جیسے تعلیم یافتہ لوگوں نے اس کو جاری رکھا لیکن اب چونکہ مسلمانوں کی اپنی جدوجہد آزادی کی تحریک شروع ہوچکی تھی اس دوران مسلم لیگ کا قیام ہوا پھر ادبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے رسائل کی ضرورت محسوس ہونے لگی کہ ان کو کتابی شکل میں پڑھا اور محفوظ کیا جا سکے۔اس سلسلے میں سب سے پہلے اپریل 1901ء میں "محزن" جاری ہوا۔ "محزن "کا اجراء اس دور کا ایک اہم ادبی واقعہ ہے۔فروری 1903ء میں "زمانہ" اور مولانا حسرت موہانی نے 1903ء میں ہی  علی گڑھ سے "اردوئے معلیٰ" جاری کیا۔ مولانا محمد حسین آزاد نے 1912ء میں "الہلال"  جاری کیا۔

چند خواتین کے جرائد

اس دور میں حقوق نسواں کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ لیکن اس کو عام کرنے کے لیے خواتین کی تعلیم وتربیت کے پیش نظر رسائل کی اشاعت ہوئی۔ ان میں سے چند رسائل درج ذیل ہیں۔

1۔ "اخبار النساء  " دہلی

                یکم اگست 1884ء کو رسالہ " اخبار النساء " مولوی سید احمد دہلوی نے جاری کیا۔ یہ خواتین کا پہلا باقاعدہ رسالہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہ رسالہ مہینے میں تین بار شائع ہوتا ہے۔ اس میں شامل مضامین میں عورتوں کی خانہ داری کے امور کے علاوہ ان کی تعلیمی حالت سدھارنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

2۔"تہذیب نسواں" لاہور

سید ممتاز علی نے "تہذیب نسواں" کے نام سے ایک ہفتہ وار رسالہ یکم جولائی 1898ء کو اپنے ادارہ دارالاشاعت لاہور سے جاری کیا۔اور اس میں عورتوں کے سماجی ، تہذیبی ،مذہبی اور فکری مسائل کو زیر بحث لایا جاتا تھا۔"تہذیب نسواں" 1949ء تک باقاعدگی سے چھپتا رہا۔ ولایتی معلومات ،دستر خوان پر اور محفل تہذیب اس پرچے کے مستقل عنوانات تھے۔

3۔ "خاتون"علی گڑھ

علی گڑھ سے ماہنامہ "خاتون" جنوری 1904ء میں جاری ہوا۔اس کے ایڈیٹر شیخ محمد عبداللہ تھے۔جو تعلیم نسواں کے سیکشن سیکرٹری بھی تھے۔ اس رسالے کا مقصد خواتین میں تعلیم کو پھیلانا اور پڑھ لکھی خواتین میں میں علمی مزاق پیدا کرنا تھا۔ یہ رسالہ چند سال تک اپنی جذبات کامیابی سے سر انجام دیتا رہا۔

4۔"حور"کلکتہ

ماہ نامہ" حور" بیگم قتیل انصاری نے ستمبر 1923ء میں کلکتہ سے جاری کیا تھا۔یہ رسالہ حرف دو (2) سال تک ہی شائع ہوا۔ اس کا ایک خاص نمبر 100 صفحات پر مشتمل تھا۔

5۔"عصمت"کراچی

عصمت خواتین کا سب سے قدیم پرچہ ہے۔اس کی ابتدا مولانا راشد الخیری نے 1908ء  میں کی تھی ، اس کا مقصد خواتین کو روشن خیال بنانا تھا۔ اور تعلیم کو عام کرنا تھا۔اردو زبان و ادب میں اتنی طویل عمر کسی اور پرچے نے نہیں پائی۔ عصمت کے یاد گار نمبروں میں "طلائی جوبلی" نمبر 1958ء اور " الماسی جوبلی " نمبر 1968ء شامل ہیں۔

6۔"سہیلی " لاہور

ماہ نامہ "سہیلی" لاہور سے 1924ء میں زہرہ بتول کی ادارت میں جاری ہوا۔ 1939ء میں اس کی ادارت خدیجہ بیگم نے سنبھال لی۔ 1928ء میں "سہیلی" کا ایک شاندار سال نامہ شائع ہوا۔

7۔"عکس نو" لاہور ، کراچی

ماہنامہ"عکس نو" مارچ 1956 ء میں حسن زمانی عالمگیر کی ادارت میں جاری ہوا۔ اس کے ابتدائی پرچوں میں سید وقار عظیم ، حجاب علی امتیاز، عابد علی عابد، امتیاز علی تاج، شوکت تھانوی ، عبدالرحمان چغتائی جیسے ادبا کے نام نظر آتے ہیں۔1971ء کے بعد اس کے اثر و عمل کا دائرہ محدود ہو گیا۔

پاکستان کے تحقیقی اور ادبی رسائل

آزادی سے پہلے ادبی رسائل لاہور، دہلی ،لکھنؤ، ممبئی اور بھوپال سے شائع ہوئے تھے اور اشاعت کے مراکز  بھی وہیں تھے۔ تقسیم کے بعد صرف لاہور میں اشاعت کے مراکز تھے۔ اسی لئے کافی مشکلات پیش آئیں۔ لیکن پھر کراچی اور آہستہ آہستہ دوسرے شہروں ملتان ، فیصل آباد اور راولپنڈی وغیرہ میں جرائد کی اشاعت شروع ہوگئی اور بہت سے عہدساز جرائد جاری ہوئے۔

1۔"اردو "کراچی

سہ ماہی رسالہ " اردو" اورنگ آباد، کراچی سے جنوری 1921 ء میں بابائے اردومولوی عبدالحق نے جاری کیا تھا۔ اردو نے اظہار کا علمی انداز پیدا کیا، تحقیق میں طلب ، صداقت اور تلاش حق کو اہمیت دی۔ مولوی عبدالحق نے 1948 ء میں ہندو ستان چھوڑا تو کراچی آتے ہی "اردو" رسالہ جولائی 1949ء میں دوبارہ شروع کر دیا۔اس پرچے کی ادارت میں مولوی عبدالحق کے علاوہ شیخ محمد اکرم ، ممتاز حسین،فضل کریم فضلی ، ہاشمی فرید آبادی ، عندلیب شادانی، سید عبداللہ اور قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی کے نام شامل ہیں۔1962 ء میں " اردو" کی ادارت جمیل الدین عالی اور مشفق خواجہ کے سپرد ہوئی۔1962 ء  انجمن ترقی اردو نے تنظیم نو کے بعد رسالہ " اردو" کو دوبارہ جاری کیااور "بابائے اردو"نمبر شائع کیا۔ جنوری 1969 ء میں ایک خصوصی شمارہ " بیاد غالب" پیش کیا۔ رسالہ" اردو" اب بھی تحقیق ادب کی خدمت اعلیٰ پیمانے پر سر انجام دے رہا ہے۔ لیکن اب یہ بے قاعدگی کا شکارہے۔

2۔"ہمایوں"لاہور

میاں بشیر احمدنے جنوری 1922ء میں لاہور سے "ہمایوں" کا آغاز کیا۔آزادی کے بعد"ہمایوں"میں متعدد تبدیلیاں آئیں۔ دسمبر1948ء میں یوسف ظفر کی جگہ شیر محمد اختر نے لی۔دسمبر 1948ء میں مظہرانصاری نے معاون مدیر کی نشست سنبھالی۔اکتوبر 1952ء میں ناصر کاظمی معاون مدیر مقرر ہوئے۔ اور" ہمایوں" کے آخری شمارے جنوری 1957ء  تک منسلک ہے۔"ہمایوں'نے اسلام اور اردو زبان کے استحکام کو اہمیت دی۔ افسانوں میں معاشرتی مسائل کو پیش کیا اور تخلیقی اصناف کو زیادہ اہمیت دی گئی۔

3۔"نیرنگ خیال" لاہور

ماہ نامہ " نیرنگ خیال" جولائی 1924ء میں منظر عام پر آیا تو اس کا مقصد دنیا کے ہر شعبہ خیال کو ادلی لباس پہنانا تھا۔ اس کے مضامین میں پختگی اوار متانت پائی جاتی ہے۔

آزادی کے بعد"نیرنگ خیال" کا دور عروج ختم ہو چکا تھااور نئے رسائل معرض وجود میں آ چکے تھے۔"نیرنگ خیال" کا پہلا دور جتنا دور تابناک تھادوسرا دور اتنا ہی ضعیف اور مردہ تھا۔

"نیرنگ خیال" کا تیسرا دور سلطان رشک کی ادارت میں شروع ہوا اور تا حال جاری ہے۔1967ء میں جو تبدیلی معرض عمل میں لائی گئی تھی اس کے مطابق حکیم یوسف حسن "نیرنگ خیال" کے مدیر اعلیٰ اور سلطان رشک مدیر مقرر ہوئے۔ 1967ء کے سالنامہ پر محمد صدیق کا نام مدیر اعزازی کے طور پر درج ہے۔ "نیرنگ خیال" نے1967ء سے 1988ء تک ایک ضخیم" غزل نمبر" دو جلدوں میں "گولڈن جوبلی نمبر" چینی " افسانہ نمبر" ،" خصوصی پانچ سواں نمبر"کے علاوہ متعدد" خاص نمبر" ، " اردو کانفرنس نمبر" اور "سالنامے" پیش کیے۔

4۔"اورینٹل کالج میگزین"لاہور

علوم شرقیہ کی تحقیق کا نامور جریدہ" اورینٹل کالج میگزین" فروری 1925ء کو لاہور سے جاری ہوا۔پروفیسر محمد شفیع اس کے مدیر اول تھے۔اغراض و مقاصد کے تحت لکھا گیا کہ اس پر چے کا مقصد طلباء میں تحقیق کا شوق پیدا کرنا اور مشرقی علوم کی تحریک اور تقویت بھی ہے۔مارچ 1972ء میں کالج کے جسٹس صد سالہ تاسیس کے موقع پر ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ایک خصوصی شمارہ مرتب کیا۔1982ء میں جامعہ پنجاب کا صد سالہ جشن منعقد ہوا تو "اورینٹل کالج میگزین"کا ایک شمارہ خاص ڈاکٹر وحید قریشی نے مرتب کیا۔

" اورینٹل کالج میگزین" بظاہر ایک کالج میگزین ہے لیکن اس طلبہ کی دستبرد سے ہمیشہ آزاد رکھا گیا ہے۔اور اس کے قلمی معاونین میں یونیورسٹی کے نامور اساتذہ ، محقق اور نقاد شامل رہے ہیں۔

5۔"ادبی دنیا"لاہور

1929ء میں مولانا تاجور نجیب آبادی نے"ادبی دنیا"کے عہد ساز دور کا آغازہوا۔اس دور میں اردو کے جدید شاعر میراجی ، صلاح الدین احمد کے شریک مدیر تھے۔ 1947ء کے فسادات میں مولانا صلاح الدین کا تھر اور کتب خانے کا جلا دیا گیا۔ اس واقعہ نے ان پر مثبت اثرات مرتب کیے اور انہوں نے "ادبی دنیا" کو نئے سرے سے شروع کیااوراس طرح دسمبر1948ء میں 16 ماہ کے تعطل کے بعد "ادبی دنیا" کے چوتھے دور کا آغاز ہوا۔اور اس میں "مباحث امروز" ،"آمینہ عالم" ،"ادبیات خارجہ"، "دخترپارمینہ"،"مکتوبات" جیسے عنوانات کا اضافہ کردیا۔"ادبی دنیا" کے آخری دور کی ابتداء 1965ء میں مولانا صلاح الدین کے " یاد گارنمبر" سے ہوئی۔اس پرچے کے مدیر مولانا حامد علی خان تھے۔

پاکستانی تعلیمی اداروں کے اہم تحقیقی اور ادبی مجلات

مختلف تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں میں طلباء کی ذہنی اور جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق کی طرف بھی توجہ دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں تعلیمی اداروں میں رسائل کی اشاعت کا آغاز کیا گیا جو طلبااوراساتذہ کے علمی اور ادبی ذوق وشوق کا آئینہ دار ہوتے ہیں۔ان میں چند مشہور جرائد  درج ذیل ہیں۔

1۔"راوی" لاہور

"راوی" گورنمنٹ کالج لاہور کاادبی مجلہ "راوی" کا پہلا شمارہ 1960ء میں شائع ہوا۔ پہلی دفعہ اکتوبر 1911ء میں دو اوراق اردو زبان میں شائع ہوئے۔لیکن 1916ء تک مدیر کا نام اردو میں درج نہیں ہوا۔ اکتوبر1919ء میں پرچے کی ادارت احمد شاہ بخاری (پطرس)نے سر انجام دی۔آزادی کے بعد "راوی" کو خاص نمبروں کی صورت دینے کا رجحان پیداہوا۔اپریل1969ء کوپروفیسر محمدمنور مرزاکی نگرانی میں "راوی" کا " غالب نمبر" شائع ہوا۔ 1981ء میں " پندرہویں صدی ہجری نمبر" اور 1983ء میں مشرف انصاری کی نگرانی میں مولانامحمد حسین آزاد نمبر شائع ہوا۔

2۔"کریسنٹ"لاہور

"کریسنٹ" اسلامیہ کالج لاہور کا مجلہ ہے اور اس مجلے کو قدامت اور علمی متانت کا اعزاز حاصل ہے۔ آزادی کے بعد اس جملے نے " شبلی نمبر" ،"حالی نمبر" اور " تا ثیر نمبر" شائع کیے۔

3۔"اورینٹل کالج میگزین" لاہور

"اورینٹل کالج میگزین" علوم مشرقیہ کی تحقیق کا نامور جرید ہ ہے۔ جو فروری 1925ء سے شائع ہو رہا ہے ، اور اب تک باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ یہ جریدہ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کا ترجمان ہے۔ اور س کے موجودہ مدیر اعلیٰ اورینٹل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی ہیں۔ اس جریدے کا مقصد طلبہ میں شوق تحقیق پیدا کرنا ہے۔ یہ سہ ماہی جریدہ ہے۔ اورینٹل کالج کا پرنسپل ہی میگزین کا مدیر بھی ہوتا ہے۔

4۔"تحقیقی جریدہ"

جی سی ویمن یونیورسٹی،سیالکوٹ سے شائع ہوتا ہے۔یہ تحقیقی و تنقیدی مجلہ ہے جو سال میں دو بار شائع ہوتاہے۔" تحقیقی جریدہ" 2017ء سے باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔

5۔ "دریافت"

"دریافت"نیشنل یونیورسٹی آف لینگویجز اسلام آباد سے جاری ہوتا ہے۔ اس جریدے کے ایڈیٹر رشید امجد اور ڈاکٹر عزیز احمد خان ہیں۔ "دریافت" ادبی،تحقیقی اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اور تسلسل سے جاری ہو رہا ہے۔

6۔"زبان وادب"

"زبان و ادب "جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کا تحقیقی مجلہ ہے۔ جو ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان سے منظور شدہ ہے۔ اس مجلے میں تحقیقی مضامین ماہرین کے تجزیے کے بعد شامل کیے جاتے ہیں۔ "زبان و ادب" سال میں دوبار شائع ہوتاہے۔

7۔ "اردو ریسرچ جرنل"

"اردو ریسرچ جرنل" بہاول پور زکریا یونیورسٹی ملتان کے زیر اہتمام شائع ہونے والا ایک تحقیقی مجلہ ہے۔ یہ ششماہی مجلہ ہے ،اور اس کا آغاز 2001ء سے ہوا۔ اردو کے علاوہ دیگر مضامین جیسے عربی، سرائیکی، اسلامیات اور انگریزی کے مضامین بھی اس میں شائع ہوتے ہیں۔

مندرجہ بالا اردو جرائد کا مختصر جائزہ لینے کے بعد میں نے اپنے مقالے کے لیے جن جرائد کا انتخاب کیا ان کے نام ادبی وتحقیقی ششماہی مجلہ "تحصیل" اور سہ ماہی مجلہ "ماخذ" ہیں۔ زیربحث دونوں جرائد عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق علمی اور ادبی تحقیق کی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ جو مستقبل کے طلبااور محققین کے لیے معیاری اور تحقیقی مواد فراہم کرنے کا عمدہ سر چشمہ ہیں۔ذیل میں "تحصیل" اور "ماخذ"کا ترتیب وار تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔

تحقیق اور تحقیقی جرائد

تحقیق کا مطلب ہے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہت ا حتیاط کے ساتھ سائنسی  طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے تجزیاتی مطالعہ کرناجس سے مسئلے کا حل یا خود مسئلہ کھل کر  سامنے آجائے تحقیق کسی بھی موضوع پر کی جا سکتی ہے۔تحقیق کا عمل دشوار گزار ہوتا ہے۔اس کے لیے محقق کو اپنے موضوع کے لحاظ سے محنت اور جدوجہد کر نی پڑتی ہے۔ مختلف کتب اور جرائد کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے محقق کووقت درکار ہوتاہے۔اور مواد کی تلاش میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ان مشکلات سے بچنے  کے لیے علم اشاریہ وجود میں آیا۔ ذیل میں دو جرائد ادبی و تحقیقی رسالہ " تحصیل " اور " ماخذ' کا تو ضیحی اشاریہ پیش کیا جا رہا ہے۔

ادبی و تحقیقی  مجلہ"تحصیل"

اردو کے معروف نقاد ادیب ڈاکٹر معین الدین عقیل کے زیر سرپرستی ادبی و تحقیقی مجلہ "تحصیل" اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی سے جاری  ہوتا ہے "تحصیل" میں ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان میں بین الاقوامی معیار کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔"تحصیل" میں اردو زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کے معیاری تعلیمی مضامین بھی شائع ہوتے ہیں۔ "تحصیل " میں متعدد تحقیقی مضامین ،تراجم، نایاب اور محفوظ شدہ مخطوطات ،کتب و مضامین پر لکھے گئے تبصرے اہم شخصیات کی وفیات،سوانحی خاکے بھی شامل ہوتے ہیں۔

"تحصیل" اس لحاظ سے بھی نہایت اہم خصوصیات کا حامل ہے کہ اس میں نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک سے بھی مایہ ناز دانشورانہ اور اساتذہ کے مقالات کو شامل کیا جاتا ہے۔"تحصیل" کا شمار عصر حاضر میں صحافتی ادب کے ان رسائل و جرائد میں ہوتا ہے جنہیں منفرد تحقیقی کام کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس ادبی جریدے کی بدولت ایسے  نامور شعراادبااور محققین کی تحریریں منظرعام پر آئیں جو گوشہ گمنامی میں تھے۔ "تحصیل" کی ایک اور امتیازی خصوصیات ایسی نادر و نایاب دستاویزات  سے متعارف کروانا ہے جو کہ خاص طور پر محققین اور طلباء کو بہت مشکل سے میسر آئی ہیں۔ تحصیل کے اب تک نو شمارے منظر عام پر آ چکے ہیں اور دسواں زیر طبع ہے۔

مجلس مشاورت

"تحصیل "کی مجلس مشاورت کے اراکین ،مدیران، اور ناشرو طابع کے اسمائے گرامی اس طرح سے ہیں۔اکرم چغتائی( لاہور)، انور معظم (بھارت)، تنویر واسطی (ترکی )،حسن بیگ(انگلستان)ڈاکٹررفیع الدین ہاشمی( کراچی )،عارف نوشاہی(اسلام آباد )،عطا خورشید( بھارت )،منیر واسطی( کراچی )،نجیبہ عارف (اسلام آباد)، نگار ظہیر، سجاد ظہیر (کراچی )،وقار احمد زبیری( کراچی )،اظہر فاروق (بھارت )،سونا گاایمی(جاپان)

مجلس ادارت

تحصیل کے مدیر اعلی جناب ڈاکٹرمعین الدین عقیل ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔  نائب مدیر ان میں جاوید احمد خورشید اور خالد امین کے نام درج ہیں۔

ناشر و طابع

ادبی وتحقیقی مجلہ "تحصیل" کے ناشر ارشد بیگ ہیں اور تمام شمارے ادارہ معارف اسلامی کراچی سے شائع کیے جاتے ہیں۔

جولائی2017ء سے یہ مجلہ باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے۔ اور اس کے معیار اور مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تحصیل کی اشاعت کے ادوار کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔تحصیل (کراچی )ششماہی جلد :1 شمارہ :1 ،جولائی۔  دسمبر 2017ء

2۔تحصیل (کراچی )ششماہی جلد :1 شمارہ2 ،جنوری-جون 2018ء

3۔تحصیل (کراچی )ششماہی جلد :1 شمارہ 3 ،جولائی۔  دسمبر  2018ء

4۔تحصیل (کراچی )ششماہی جلد :1 شمارہ :4 ، جنوری-جون 2019ء

5۔تحصیل (کراچی )ششماہی جلد :1 شمارہ 5 ،جولائی۔  دسمبر  2019ء

6۔تحصیل (کراچی )ششماہی جلد :1 شمارہ :6، جنوری-جون 2020ء

7۔تحصیل (کراچی )ششماہی جلد :1 شمارہ7،جولائی۔  دسمبر 2020ء

8۔تحصیل (کراچی )ششماہی جلد :1 شمارہ:8، جنوری-جون 2021ء

9۔تحصیل (کراچی )ششماہی جلد :1 شمارہ9 ،جولائی۔  دسمبر 2021ء

ادبی و تحقیقی مجلہ "ماخذ"

"ماخذ" ایک ادبی تحقیقی سہ ماہی مجلہ ہے جو گوجرانوالہ سے شائع ہوتا ہے۔ ماخذ کا پہلا سہ ماہی  شمارہمارچ2020ء کو منظر عام پر آیا۔اور اب تک باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔"ماخذ "ہائیر ایجوکیشن  آف پاکستان سے منظور شدہ ہے۔"ماخذ  "سماجی علوم کے تمام شعبوں میں اصلی اور معیاری تحقیق شائع کرتا ہے۔"ماخذ "تعلیمی اور علمی و تحقیقی جریدہ ہے جو اطلاقی اور نظریاتی مسائل کو اردو زبان کے ساتھ ساتھ فارسی ،عربی اور دیگر علاقائی زبانوں میں بھی حل کرتا ہے۔"ماخذ " میں مقالہ جات اور مضامین  دور حاضر سے شائع کئے جاتے ہیں۔ اقبالیات ، علمی اور معلوماتی مقالہ جات ، کتاب تبصرہ اور  نامور شخصیات کی سوانح نگاری خاص  موضوعات ہیں۔مدیران کی کوشش ہے کہ ہر شمارے کے ذریعے وہ قیمتی اثاثہ جواب تک  محققین قارئین کی نظروں سے اوجھل رہا ہے اسے" ماخذ "کے  ذریعے سامنے لایا جائے۔

مجلس مشاورت

"ماخذ "کی مجلس مشاورت میں جو ممبران شامل ہے ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔"پروفیسر ڈاکٹرتحسین فاراقی "(لاہور)، "پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد"(ملتان)، "پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس "(کراچی)،" پروفیسر روبینہ شاہین"(پشاور)،" پروفیسر خواجہ محمداکرام الدین" ،(نئی دہلی)،" پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم"(مصر )،"پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار" (ترکی)اور "پروفیسر سویامانے یاسر"( جاپان) وغیرہ۔

مجلس ادارت

"ماخذ "کے مدیر اعلیٰ پروفیسر ڈاکٹر رشید امجد اور نائب مدیر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ شہناز کا نام درج ہے۔

"ماخذ" کی اشاعت کے ادوار درج ذیل ہیں۔

1۔ماخذ(گوجرانوالہ)سہ ماہی جلد:1شمارہ 1،جنوری  ۔مارچ2020ء

2۔ماخذ(گوجرانوالہ)سہ ماہی جلد:1شمارہ 2،اپریل۔جون2020ء

3۔ماخذ(گوجرانوالہ)سہ ماہی جلد:1شمارہ 3،جولائی ۔ستمبر2020ء

4۔ماخذ(گوجرانوالہ)سہ ماہی جلد:1شمارہ 4،اکتوبر۔دسمبر2020ء

5۔ماخذ(گوجرانوالہ)سہ ماہی جلد:2شمارہ 5،جنوری  ۔مارچ2021ء

6۔ماخذ(گوجرانوالہ)سہ ماہی جلد:2شمارہ 6،اپریل۔جون 2021ء

7۔ماخذ(گوجرانوالہ)سہ ماہی جلد:2شمارہ 7،جولائی ۔ستمبر2021ء

8۔ماخذ(گوجرانوالہ)سہ ماہی جلد:2شمارہ 8،اکتوبر۔دسمبر2021ء

9۔ماخذ(گوجرانوالہ)سہ ماہی جلد:3شمارہ 9،جنوری  ۔مارچ2022ء

اشاریہ سازی کے بارے میں

اشاریہ سازی یا اشاریہ مرتب کرنا ایک ایسا فن ہے جس میں رسائد و جرائد،کتابی مواد کے اندراجات کی ترتیب کے لیے مختلف طریقہ ہاے کار واضح کیے جاتے ہیں۔اشاریہ سازی کے بغیر کسی بھی قسم کی تحقیق کو مؤثر طور پر انجام تک پہنچانے کا تصور نہیں کیا جاتا۔اشاریہ سازی کو انگریزی میں"Indexing"کہتے ہیں۔

اشاریہ سازی لائبریری سائنس کا ایک اہم علم  ہے۔ جو آج کے دور کے محققین کے لئے بہت آسانی فراہم کرتا ہے۔ کوئی بھی طالب علم یا محقق جب اپنے موضوع پر کام کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ ان پر بنے ہوئے اشاریے دیکھتا ہے۔ یہ وہ چابیاں ہیں۔ جو تحقیق کا دروازہ کھولتی ہیں۔محقق کو مطلوبہ مواد تک آسان رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ اور متعلقہ معلومات و موضوعات آسانی سے منظم انداز میں مل جاتے ہیں۔اشاریہ سے محقق، لائبریری سٹاف اور قارئین کا وقت بچتا ہے۔اردو میں اشاریہ سازی کا کام بہت دیر سے شروع ہوا جبکہ یورپی ممالک اور زبانوں  میں اشاریہ سازی پر توجہ بہت قبل سے دی جا رہی ہے کیونکہ دانشور اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ کسی زبان کا علمی و تحقیقی کا م اس وقت تک مستند نہیں ہو سکتا جب تک اس زبان میں اشاریہ کی کتاب موجود نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اشاریہ اور اشاریہ سازی پر بہت ساری کتابیں موجود ہیں۔

اردو میں سب سے پہلے اشاریہ سازی کی طرف کس نے توجہ دی یہ کہنا ذرا مشکل ہے، اگر چہ اردو میں اشاریہ سازی کی عمر زیادہ نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اب تک اس پر مستقل کام نہیں ہوا ہے۔ پاکستان میں " نیشنل بک سنٹر " اور "مقتدر ہ قومی زبان" نے اشاریہ سازی پر کافی کام کیا ہے۔ ان اداروں نے اردو ادب ، تاریخ ، اسلامیات، سائنس اور انجنئیرنگ کے مختلف موضوعات کے الگ الگ اشاریے تیار کیے ہیں۔

اشاریہ کسی بھی ماخذ میں موجود اہم موضوعات ، اشخاص اور دیگر اہم چیزوں کی نشاندہی کرتاہے۔جس کی بناء  پر محقق یا قاری کو متن یا ماخذ کی مکمل ورق گردانی نہیں کرنا پڑتی بلکہ وہ کم سے کم وقت میں اشاریہ کی مدد سے اپنے مطلوبہ موضو ع تک رسائی حاصل کرلیتا ہے۔

اشاریہ کی مدد سے کسی بھی ادیب یا شاعر کے بارے میں بہت قلیل وقت میں بہت زیادہ اور بہترین معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں،اس کے علاوہ تحقیق کے لیے مطلوبہ مواد،ادباوشعرا کی تخلیقات اور سوانح کے علاوہ نادرونایاب تصاویر،عکس ہائے،تحریر،ادبی کارنامے،کتابوں کے نام،معلومات کی فہرست غرض ہر طرح کی ضروری معلومات سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔

جب محقق کے سامنے کتب اور رسائل کے اشاریے موجود ہوتے ہیں تو وہ اپناتحقیقی کام مؤثر طریقے سے انجام تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

الغرض اشاریہ سازی کی مدد سے کتاب میں مذکوراشخاص اور معلومات کو بآسانی تلاش کیا جا سکتا ہے۔محققین اور خاص طور پر طلبا کو پوری فائلوں کو کھنگالنے کی بجا ئے آسانی سے اپنے موضوع  تک رسائی حاصل ہو سکے کیونکہ ایک تحقیقی مقالہ کو مکمل کرنے کے لیے وقت کی کمی ہوتی ہے۔ محددو وقت  میں کام مکمل کرنا ہوتا ہے۔اس طرح اشاریہ سے محقق کو  اپنا کام بر وقت مکمل کرنے کی سہولت حاصل ہو جاتی ہے۔

٭٭٭٭٭٭

 

تحقیقی و ادبی مجلہ" تحصیل"

                شمارہ ۔ 1 ( جلد اول)

                جولائی۔دسمبر         2017ء

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

3 تا 54

مقالہ نگار:

سلطانہ بخش

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

بھگونت رائے، راحت کاکوروی نایاب مثنویاں

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ میں اردو مثنوی کے آغاز و ارتقاء کی تفصیلات  پیش کی گئی ہیں۔ بھگونت رائے راحت کاکوروی کی نایاب مثنویوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ راحت سے پہلے مثنوی کا تاریخی لحاظ سے جائز ہ لیا گیا ہے۔راحت کی ترجمہ شدہ اور اخذ شدہ مثنویاں ان کے پلاٹوں کے ساتھ ان کی اشاعتوں کی تفصیلات کا ذکر کیا گیا ہے۔"راحت "نے فارسی مثنوی کے نہ صرف اردو تراجم کیے بلکہ ان کو اردو میں نظم میں تبدیل کرکے اس روایت کو برقرار رکھا۔

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

55تا 66

مقالہ نگار:

ظفر احمد صدیقی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

صنفِ قصیدہ، شعریات، تہذیب اور تاریخ

توضیحاتِ مقالہ:

اردو، فارسی اور عربی کلاسیکی صنف قصیدہ کی اہمیت کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔قصیدہ نگاری کی تاریخ اور تہذیبی روایات عربی، فارسی اور اردو قصیدہ نگاری کا مقام و مرتبہ اور قصیدہ گو شعرا کا ذکر کیا گیا ہے۔

مضمون میں ایک تفصیلی عنوان محمد بن بدر جاجر کی بیاض"مونس الااحرار فی دقائق الاشعار"جس میں انہوں نے 14 ابواب میں 187اشعار کے قصائد جمع کیے اور ان کو عنوانات کے اور اپنے تاثرات کی خوبصورتی  کے ساتھ تقسیم کیا ہے۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

67تا 82

مقالہ نگار:

افضل حق قریشی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

نوادر عبدالرحمٰن بجنوری، سربیا اور بلغاریہ میں اسلام کی صورت حال

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون عبدالرحمن بجنوری کے دو نایاب  مضامین سربیااور بلغاریہ میں اسلام کی صورتحال کو واضح کرتا ہے مضمون نگار کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں مضامین جن کی  ترمیم مولانا محمد علی جوہر نے با ترتیب 11 جون 1913ء اور 22 جون 1913ء  میں کی۔ یہ دونوں مضامین "باقیات بجنوری"اور" یادگار بجنوری "میں شامل نہیں۔مضمون میں سربیا اور بلغاریہ کے مسلمانوں کے تفصیلی حالات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

83تا 98

مقالہ نگار:

حمزہ فاروقی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

غلام رسول مہر اور صبحِ آزادی

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالے  میں جنوبی ایشیا کے اس ہنگامہ خیز اور کشیدہ صورتحال کے بارے میں ہے جب تقسیم ہند و پاک کے عمل میں ظلم ناانصافی اور جبر سے کام لیا گیا۔

جون کی تقسیم کے منصوبے کے بند ہونے والے دیگر دو عوامل کے خلاف  تھے بد قسمتی سے یہ شق فیصلہ کن طور پر پاکستان کے خلاف گئی اور ان کو جو خدشات تھے کہ مسلم اکثریت والے علاقے نقصان میں جائیں گے وہ سچ ثابت ہوئے۔

مقالہ نمبر

5

 

صفحہ نمبر

99تا 114

مقالہ نگار:

نسیم  فاطمہ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

شیخ المشاطئخ میاں جمیل احمد شرقپوری:علم پروری، کتاب دوستی اور کتب خانہ داری

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں جمیل احمد شرقپوری کی شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جمیل احمد ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انسان پرور اور فہم و تدبر ان کا خاصہ تھا۔جمیل احمد نے برصغیر پاک و ہند میں دین اسلام کی تبلیغ و ترویج سے مشرق و مغرب میں دین اسلام کو پھیلایا ۔جمیل احمد کا تعلق سلسلہ نقشبندیہ سے تھا۔تصوف ان کی زندگی کا نمایاں پہلو تھا۔سب سے زیادہ  تصوف پر 1445 کتب جمع تھیں۔جمیل احمد نے انتقال سے پہلے اپنی تمام کتب پنجاب یونیورسٹی لاہور کو عطیہ کر دیں۔

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

115تا 134

مقالہ نگار:

جمیل احمد رضوی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اٹھا رویں اور انیسویں صدی   کا پنجاب سلسلہ چشتیہ کی تجدید وارتقا اور لنگر کی روایت

توضیحاتِ مقالہ:

ڈاکٹر ساجدہ سلطان علوی جو کہ علوی انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز ہیگل یونیورسٹی مونٹریال, کینیڈا میں ہند اسلامی تاریخ کی پروفیسر ایمریٹس ہیں۔انہوں نے بہت سی ریسرچ پر مبنی مضامین لکھے 2004ء  میں ساجدہ علوی نے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران چشتی صوفی ازم کی ترقی پر ایک تحقیقی پراجیکٹ شروع کیا یہ منصوبہ 2003ء تا2014ء تک پایہ تکمیل تک پہنچا۔اس منصوبے میں خواجہ نور محمد معاروی اور ان کے چار بڑے خلفاکا ذکر کیا گیا۔قاضی محمد عاقل ،خواجہ محمد سلیمان تونسوی ،خواجہ محمد معاروی ،خواجہ فخر الدین دہلوی کے ہونہار شاگرد تھے۔زیر نظر مضمون میں لنگر یعنی مفت باورچی خانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔لنگر سے فلاح معاشرہ  کا تصور اور اہمیت واضح کی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

135تا 140

مقالہ نگار:

عارف نوشاہی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

ریاض الاسلام عہد وسطیٰ کی ہند اسلامی اور ہند ایرانی تاریخ کے ایک مورخ

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون نگار ریاض الاسلام جوکہ قرون وسطیٰ کی ہند اسلامی اور ہند ایرانی تاریخ کے حوالے سے ایک اعلیٰ تاریخ دان تھے  ان کے ساتھ اپنی یادیں اور مختصر سوانح عمری اور ان کی تصنیفات کا ذکر گیا ہے۔  زیر نظر مضمون میں ریاض الاسلام کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصنیفات کا ذکر کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

141 تا 158

مقالہ نگار:

رفیع الدین ہاشمی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

چند نادر اقبال نمبر

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ علامہ محمد اقبال کے تین نایاب اقبال نمبروں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اقبال ایک عظیم شاعر اور فلاسفر تھے۔ان کے یہ تینوں اقبال نمبر علامہ اقبال کی زندگی میں ہی مرتب ہوئے۔ان اقبال نمبروں میں پہلا معروف ادبی رسالہ "نیرنگ خیال" دوسرا اقبال نمبر" نور التعلیم "اورتیسرا اقبال نمبر"اختر  لاہور"  شامل ہیں۔

مضمون نگار نے اقبال نمبروں کی تحقیق میں پی ایچ ڈی کی طالبہ یاسمین کوثر کی باریک بینی سے کی گئی تحقیق کو سراہا ہے۔ مضمون میں مواد کے علاوہ  اقبال نمبر کی دوسری  معلومات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے  مثال کے طور پر نمبروں کے ایڈیٹو ریل میں مطلوبہ الفاظ کیا ہیں اور اعداد کے اداریہ میں کیا بات کی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

9

 

صفحہ نمبر

159تا 164

مقالہ نگار:

سہیل عمر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

نغمہ جبریل آشوب ایک استفسار

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں علامہ اقبال کی بال جبریل کی غزل کے آخری شعر پر تبصرہ کیا گیا ہے اور اس شعر کو سمجھنے کے لئے بہت سے دوسرے تبصروں سے مدد لی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

10

 

صفحہ نمبر

165تا178

مقالہ نگار:

نگارسید سجاد ظہیر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

علامہ اقبال کے تصورِ تاریخ کے تشکیلی عناصر

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون میں علامہ اقبال کے تصور تاریخ کو تشکیل دینے والے عناصر کی وضاحت کی گئی ہے۔ مضمون نگار نے علامہ اقبال کی تحریروں سے متعلقہ حوالہ دیتے ہوئے تاریخ کے بارے میں اقبال کے تصور کو واضح کیا۔ اقبال نے اپنی شاعری اور افکار سے تاریخ کی روشن مثالوں کے ذریعے ان کو مستقبل کے لیے تیار کیا جس کے لیے انہوں نے قرآن مسلمان مفکرین اور اہل مغرب کی تاریخ سے استفادہ حاصل کرنے کی ترغیب دی۔

مقالہ نمبر

11

 

صفحہ نمبر

179تا 201

مقالہ نگار:

ارشددمحمود ناشاد

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اقبال کے چند فارسی اشعار و قطعات، غیر مطبوعہ شرح از صوفی تبسم

توضیحاتِ مقالہ:

زیرِ نظر مقالے میں صوفی غلام مصطفی تبسم  جو کہ بیسویں صدی کے سب سے منفرد اور نامور مصنفین میں سے ایک ہیں۔صوفی تبسم نے اپنی علمی ادبی اور تخلیقی استعداد کو مختلف علمی و ادبی میدانوں میں استعمال کیا ہے۔

اقبال کے افکار کو نوجوانوں سے متعارف  کروانے کے لیے غلام مصطفی تبسم نے ریڈیو پاکستان میں پروگرام کا ایک سلسلہ شروع کیا۔اس پروگرام میں اقبال کے اردو اور فارسی کے مشکل اشعار کی تشریح کرکے ان کو عام فہم بنایا گیا ۔پروگرام کا نام "  اقبال کی شاعری "  تھا ۔اس سلسلہ وار پروگرام میں فارسی کے 100اور اردو کے 100 اشعار کو کتابی شکل میں شائع کیا جو فارسی کے غیر مطبوعہ اشعار ہیں۔ان پر بھی مضمون نگار نے روشنی ڈالی ہے۔

مقالہ نمبر

12

 

صفحہ نمبر

202تا 216

مقالہ نگار:

مسعود حسین سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

امتیاز علی عرشی کے تحقیقی و تنقیدی کام ایک اشاریہ

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ میں امتیاز علی خان عرشی  جو کہ بیسویں صدی کے محققین میں اپنی تحقیق و تدوین کے لئے اپنے شاندار کارناموں کی وجہ سے نہ صرف مشہور تھے بلکہ قابل تقلید بھی تھے کی کتابوں اور مضامین کا اشاریہ مرتب کیا گیا ہے۔امتیاز علی عرشی نے رضا لائبریری رام پور ہندوستان کے اردو اور عربی مخطوطات کو خود ترتیب  دیا اور اپنی قابلیت پر حکومت ہند کی طرف سے سرٹیفکیٹ آف آنر اور ساہیتہ ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

عرشی کو ماہر غالبیات بھی کہا جاتا ہے عرشی کی اس عقیدت اور محبت کی وجہ سے "مکاتیب غالب" اور  "دیوان غالب "منظر عام پر آئیں۔مضمون میں عرشی کے مقالات ، مضامین ،کتب، اور ان پر لکھی گئی کتاب کا اشاریہ  اور اس کی تفصیلات درج ہیں اور مطالعہ کے ان شعبوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔جس کے لیے اسی کو بے پناہ شہرت ملی ۔غالب مطالعہ :سوانحی مطالعہ،لسانیات، درسیات عربی ادب، تفسیر، تاریخ اور اشاریہ سازی شامل ہے۔ اشاریے میں عرشی کے اعزاز میں مرتب کی کتب کی تفصیل درج ہے اشاریے  میں عرشی  مضامین کو کلیدی الفاظ میں تقسیم کرکے درج کیا گیا ہے۔اردو اور عربی کی تفصیلی فہرست، مخطوطات ،غالب اسٹڈیز ،عرشی پر لکھی گئی کتب اور تجزیہ کر کے لکھے گئے مضامین کی فہرست تاریخ اور سوانحی نوٹس درج ہیں۔

مقالہ نمبر

13

 

صفحہ نمبر

217تا 246

مقالہ نگار:

خالد ندیم

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اشاریہ منظوماتِ اقبال

توضیحاتِ مقالہ:

زیرنظر اشار یہ اس لیے اہمیت  رکھتا ہے کہ اس میں منظومات اقبال کی جملہ منظو ما ت درج کرنے سے اس مشکل کو دور کیا گیا جو کسی نظم کو تلاش کرنے میں پیش آتی تھی کیونکہ  نظم پر یہ  پہلا اشاریہ ہے جو کہ مضمون  نگار نے  علامہ اقبال کی نظموں  پر مرتب کیا۔ نظموں کے ذیلی عنوانات کا بھی نظم کے عنوان کے ساتھ بریکٹ میں ذکر کیا گیا ہے۔اور ایک ہی عنوان والی  نظموں کے ساتھ ابتدائی سطروں کا ذکر کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

14

 

صفحہ نمبر

245تا 258

مقالہ نگار:

عطا خورشید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مولانا آزاد لائبریری میں عہدِ کتب شاہی کے مخطوطات

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں مولانا آزاد لائبریری علی گڑھ بھارت میں موجود کچھ نادر مخطوطات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مقالہ نگار نے لائبریری میں موجود نوادرات کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ شاہی نوادرات قطب شاہی دور کے ہیں۔ وہ کتابیں جو پہلے شاہی کتب خانے میں تھیں پھر ان کو مولانا آزاد لائبریری میں منتقل کر دیا گیا۔ وہ نسخے  یاکتب جوقطب شاہی بادشاہوں کے لیے یا ان کے کہنے پر لکھی گئیں اور وہ اب  مولانا آزاد لائبریری میں موجود ہیں۔

""مثنوی گوئی وچوگان"_"مجمع البحرین"،دیوان شمس الدین طبسی"،"نسب نامہ قطب شاہی"،"تفسیر جلالین"،ترقیمہ عبارت"،رسالہ سیدیہ"،اور" مثنوی قضا وقدر"، مضمون نگار  کے مطابق شاہی دور کے بارے میں اس وقت  تک کوئی تحقیقی کام نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ مولانا آزاد لائبریری میں موجود کتب سے استفادہ حاصل نہ کریں۔

مقالہ نمبر

15

 

صفحہ نمبر

259تا 288

مقالہ نگار:

ذبیح اللہ صفا

 

سید حسن عباس

 

 

عنوان مقالہ:

ایران کی سماجی علمی، ادبی صورتِ حال۔عربوں کے حملے سے تیسری صدی ہجری کے آخر تک

توضیحاتِ مقالہ:

مقالہ نگار نے عربوں کے ایران پر حملے سے لے کر تیسری صدی ہجری تک ایران کے سیاسی، سماجی ،علمی اور ادبی ماحول کو سمجھنے کے لئے تاریخی جائزہ لیا ہے۔ مضمون میں کئی سماجی ،سیاسی اور عسکری تحریکوں پر بھی بحث کی گئی ہے۔

مقالے میں "موالی" قبیلے کا بھی ذکر ہے جو عرب کی سرزمین پر موجود تھا۔شعوبیہ تحریک کا بھی کردار اس حوالے سے ہے کہ ایرانیوں کو اقتدار میں لانے میں کردار ادا کیا۔شعوبیہ تحریک عرب کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتی تھی ان کے غرورو تکبر کی وجہ سے ان کے خلاف تھی۔

مقالہ نمبر

16

 

صفحہ نمبر

289تا 304

مقالہ نگار:

مرکنڈے کٹجو

 

نیاز سواتی

 

 

عنوان مقالہ:

بھارت میں اردو کا المیہ

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ میں ہندوستان میں اردو کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ یہ مضمون برطانوی نوآبادیات کواس غلط نظریے کی وجہ سمجھتاہے۔جو اس خطے کو تقسیم کرنا اور اس پر حکومت کرنا چاہتے تھے۔مختصر یہ کہ منصف نے نصیحت کی کہ اردو مصنفوں کو صرف سادہ زبان استعمال نہیں کرنی چاہئے بلکہ سنسکرت کا بھی استعمال کرنا چاہئے پھر ہی اردو کو بھارت میں محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔

مقالہ نمبر

17

 

صفحہ نمبر

305تا 324

مقالہ نگار:

مرزا خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

گوشہ ٔ نوادر’’تحفۃ الہند‘‘ اردو زبان کی اولیں لغت

توضیحاتِ مقالہ:

گوشہء نوادر" میں مضمون نگار نے اس مضمون "تحفتہ الہند" جو اردو زبان کی اولین لغت کہلائی جاتی ہے کے آغاز ارتقا کے بارے میں بحث کی ہے اور مرزا خان کی یہ تصنیف ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کے مختلف موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اردو زبان کے ابتدائی ناموں " برج بھاشا","کھڑی بولی" کو شامل کیا ہے۔

"تحفۃ الہند "کے بارے میں محققین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہ ایک قدیم اور سب سے اولین اردو زبان کی لغت ہے جس میں بہت سے فارسی کے معنی بھی شامل کر دیے ہیں اور یہی نہیں بلکہ دیوناگری رسم الخط میں بھی تحریر کر دیا گیا ہے۔اس کتاب کی تصنیف میں سات ابواب علم عروض،  بیان و بدیع، موسیقی، علم مباشرت ،علم قافیہ کے متعلق تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔اردو دنیا میں تحفتہ الہند کو متعارف کروانے میں سب سے پہلے مسعودبن رضوی نے کام کیا اور فارسی سے قواعد کو اردو  میں ترجمہ بھی کیا۔ مضمون میں لغت کے چند ابتدائی اوراق کا عکس پیش کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

18

 

صفحہ نمبر

325تا 327

مقالہ نگار:

جاوید احمد خورشید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

وفیات، سرسوتی دتلا

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ میں جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے محققین جانتے ہوں گے کہ کو یتا دتلا ایک نو عمر کے طور پر سامنے آئیں۔کویتا دتلا نے زبان ،تعلیم ،مذہب کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا۔ کو یتا دتلا نے بہت مختصر عمر پائی۔کویتا دتلانے ریاستوں کی خود مختاری اور نوآبادیاتی نظام پرتحقیق کی۔ اس سلسلے میں ان کے اس کام کی اشاعت لا اینڈ ہسٹری ریویو کے مئی کے شمارے میں شامل ہے۔کویتا دتلا کے تحقیقی موضوعات میں سیاست، سماج اور جدید جنوبی ایشا کی ثقافتی تاریخ ہے۔

کو یتا دتلا ایک نو عمر محقق جس کے پیج پر اتنے کم عرصے میں قابل ذکر اور قابل تقلید تحقیقی کام نظر آتا ہے۔ ان کے خاص موضوعات جدید جنوبی ایشیا ،سرکار برطانیہ،مذہب، سیاست، تصور قومیت، بحر ہند اور مطالعات منفی امتیاز ہیں۔

مقالہ نمبر

19

 

صفحہ نمبر

328تا 331

مقالہ نگار:

جاوید احمد خورشید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

پاکستان میں جماعت اسلامی کا حلقہ خواتین ، حامیان نو جدیدیت

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں امینہ جمال نے اس کتاب کو جو ان کے پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹریٹ کے لئے تحریر کردہ مقالے پر مبنی ہے میں سات ابواب ہیں اس میں" ضمیمہ"، "فرہنگ"،" الفاظ معنی "،"کتابیات" اورموضوع وار فہرست شامل ہے۔

مصنفہ کے مطابق اسلامی جماعت کا تصور جنوبی ایشیا میں روایتی تصور اسلام کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے ان کی کتاب کا مقصد خواتین کا اسلام کے منصوبوں میں شامل کرنا ہے۔

مقالہ نمبر

20

 

صفحہ نمبر

1تا 16

مقالہ نگار:

ایم اکرام چغتائی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Wahadat al wajood and Wahadat al shahood: so me observation with special reference to Punjabi poetry

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ میں ابن العربی  دنیائے  اسلام کے ممتاز صوفی ،عارف اور محقق ہیں۔ تصوف میں  آپ کو شیخ اکبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کہ بارے میں تصورات اور فکر کو واضح کیا گیا ہے

وجودیہ"اور" شہودیہ"کے کٹر پیروکاروں کے متضاد نظریات کے علاوہ ان کے درمیان مصالحت کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔جیسا کہ ہندوستان کی ایک انقلابی مفکر اور ماہر الہیات شاہ ولی اللہ نے اشارہ کیا کہ ہم تشبیہ اور استعارہ کو ایک طرف چھوڑ دیں۔تصوف کے ان دو مکاتب فکر میں ہندوستانی دانشوروں کے بہت سے نامور نمائندوں خصوصا برصغیر کے صوفیشعراکو بہت متاثر کیا "میر درد"، "ابن العر بی" اور" احمد سرہندی"  کی فکر سے متاثر ہونے والے پیروکار اور عظیم پنجابی صوفی شاعر "بلھے شاہ" جن کو پنجاب کا"رومی" بھی کہا جاتا ہے۔

مقالہ نمبر

21

 

صفحہ نمبر

17تا 42

مقالہ نگار:

سید تنویر واسطی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Republican Turkish poets represtative poems with Turkish terts and their English translation

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں ترکی کی شاعری کے دونوں ادوار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مضمون میں جمہوریہ ترکی کے پہلے پچاس سالوں کے دس بڑے شعراکی چند نظمیں اصل اور انگریزی ترجمے کے ساتھ متعارف کروائی گئی ہیں۔سلطنت عثمانیہ کی جمالیاتی اور اسلوبیاتی ترقی چھ صدیوں کے دوران اپنے عروج پر پہنچی ہے۔اس کے بعد1923ء میں سلطنت کی جگہ جمہوریہ ترکی نے لیلی،اور شاعرانہ میراث نے اظہار کے نئے ذرائع اور طریقوں کی تلاش کی۔

مقالہ نمبر

22

 

صفحہ نمبر

43تا 58

مقالہ نگار:

انور معظم

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Identification virus Identies: The Muslims religious identity syndrome

توضیحاتِ مقالہ:

زیر بحث مضمون میں ہندوستانی شناختوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔جن کی اپنی ایک الگ تاریخ ہے۔مضمون میں بنیادی طور پر سماجی ہندوستان کا منظر پیش کیا گیا ہے اور اس میں اردو شاعری کی کچھ مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔مضمون نگار نے میرتقی میرکی شاعری کو ثقافت کا بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ گزشتہ 65 برسوں کے دوران ہندوستانی ثقافت سیاسی،انتخابی  شناخت کی ثقافت میں تبدیل ہوگئی ہے۔مضمون  ان اہم ز مروں کے تحت کلسٹر شدہ شناختوں کی بھی وضاحت کرتا ہے جیسے جنس ، ثقافت,ز بان، نسل اور  نظریہ۔ مسلمانوں کی  مذ ہبی شناخت اور ان کی ذیلی شناختو ں  کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

23

 

صفحہ نمبر

59تا64

مقالہ نگار:

حسن بیگ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Henry Beveridge and Annette Beveridge: late ninteenth century scholors of the early Mughal period

توضیحاتِ مقالہ:

 انیسویں صدی کے آخر کے اسکالرز "ہنری بیورج "اور اینٹ بیورج" کے پیش کردہ مغل بادشاہ بابر سے جہانگیر تک  کے مغل دور کے علمی  کاموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔مضمون میں نہ صرف علماء کی زندگیوں پر بلکہ علما کے کارناموں پر بھی بحث کی گئی ہے۔ مضمون میں اس بات کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ بعد کے علماء ان مصنفین کی تخلیقات  کے مرہون منت ہیں۔

مقالہ نمبر

24

 

صفحہ نمبر

65تا100

مقالہ نگار:

حسن عمر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Religious Tolerance: some observaton in the context of islam west encounter

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالے میں مذہبی رواداری کے کثیر جہتی تصور کی چھان بین کرنا ہے۔ جس میں اخلاقی,نفسیاتی،سماجی،قانونی،سیاسی اور مذہبی جہتیں شامل ہیں۔راوداری کی جہت کا تعلق یا اظہار اسلامی روایات کے اندر پایا جاتا ہے اور روشن خیالی کے بعد مغربی افکار میں کیسے داخل ہوا؟ سیکولر راوداری کے معاملے میں ایک مثبت اور کھلے ذہن کے رویے کا سامنا کرنا پڑے گا جو مذہبی حیثیت سے ایک دوسرے کے لیے راوداری کی نوعیت کی پالیسیوں اور قوانین  کو تحریک دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اسلامی روایات ، اور عملی طور پر مذہبی راوداری اور اپنے عقیدے پر عمل کے درمیان تعلق سے متعلق بہت سے سوالات کے زبردست جوابات فراہم کرتی ہیں۔

مقالہ نمبر

25

 

صفحہ نمبر

101تا 108

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Shah Wali Ullah Al Fauz al Kabir fiusual al tafsir

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون عظیم عالم شاہ ولی اللہ کے ذہین اور مربوط نقطہ نظر کو وضاحت سے پیش کرتا ہے اور اس بات کی بھی وضاحت کرتا ہے کہ مسلمانوں کو زندہ رہنے کے لیے قرآنی علوم کا مطالعہ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ عصری تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے شاہ ولی اللہ کی توجہ  قرآن اور اس کی تفسیری تفصیلات اور اس کے ترجمہ و تفسیر کی وضاحت کے اصولوں پر مرکوز ہے۔اس مشکل دور میں شاہ ولی اللہ قرآن کی اہمیت اور تفسیر کے ذریعے مسلمانوں کو مذہبی معدومیت سے بچانا چاہتے تھے

مقالہ نمبر

26

 

صفحہ نمبر

109تا118

مقالہ نگار:

سونا ایمی کو

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Learn in Urdu write in the vernacular translating process of commentary of Holy Quraan in south Asia

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ پوری دنیا میں بالعموم اور جنوبی ایشیا میں بالخصوص قرآن کی ماخذ زبان عربی کے علاوہ قرآن کی تفسیر لکھنے کی مختلف نوعیت  کو اجاگر کرنے کی کو شش کرتا ہے۔ مضمون میں سات سو ستر تفسیر کی کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ اردو کی زبان میں لکھی گئی اور یہ کتابیں 1986ء تک لکھی گئیں۔ مضمون میں اردو کتاب " تفہیم القرآن " کے مکمل اور جزوی تراجم کا بھی ذکر کیا گی جو کہ جنوبی ایشیا کی اب تک لکھی گئی سب سے  اہم قرآن کی تفسیروں میں سے ایک ہے۔

مقالہ نمبر

27

 

صفحہ نمبر

119تا 154

مقالہ نگار:

نجیب عارف

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

List of manuscripts relating to india and ceylon held in the national library of scotland

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ سکاٹ لینڈ کی نیشنل لائبریری میں موجود بھارت اور سیلون  سے متعلق مخطوطات کے تراجم کی فہرست کے بارے میں ہے۔نیشنل لائبریری آف سکاٹ لینڈ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہر کتاب کو کاپی کرنے کا حق رکھتی ہے اس کے نتیجے میں ہر ہفتے پانچ ہزار کتابیں اس لائبریری کو بھیجی جاتی ہیں۔ یہ اسکاٹ لینڈ کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔ لائبریری میں تاریخی نقشے، دستاویزات، کاغذات اور خطوط کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ لائبریری میں ہندوستان اور سیلون دونوں ممالک کے متعلق مجموعے، مخطوطات، یاداشتیں اور دیگر اشیاء شامل ہے۔ محققین کی سہولت کے لیے مندرجہ بالا فہرست کی اسکین شدہ تصویر بھی دی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

28

 

صفحہ نمبر

155تا157

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Book Review the conference of the birds

توضیحاتِ مقالہ:

کتاب پر تبصرہ : "پیر فرید الدین عطار "،پرندوں کی کانفرنس ،پینگوئن کتب، یوکے،سید منیر واسطی نے اس تبصرہ میں مشہور شاعر "فرید الدین عطار" جو کہ فارسی نظم کے مشہور شاعر کا افسانہ ہے۔بنیادی طور پر ان پرندوں کی تمثیل ہے۔جو مردو ں کے لیے علامت ہیں۔اپنے رب اور خالق کو تلاش کرتے ہیں۔ مردوں کی نمائندگی کرنے والے جانوروں کا تمثیلی استعمال اتنا ہی قدیم ہے جتنا  قدیم یونانیوں کا "افکم دربندی" نے اس کتاب کا ترجمہ  کیا ہے "منطق الطیر" برصغیر میں کئی مرتبہ چھپ چکا ہے۔

اس کے روایتی تعارف سے اجتناب کیا ہے اور معلو ماتی تعارف جو اسلام میں صوفی روایت کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔اور تصور اسلام سے باہر نہیں ہے۔

مقالہ نمبر

29

 

صفحہ نمبر

158تا159

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

A tribute to professor Ali Mohsin Siddiqi

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں نگار نے پروفیسر علی محسن صدیقی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔"پروفیسر علی محسن صدیقی" شعبہ ایم اے اسلامیات ،عربی اور فارسی جامعہ کراچی میں بحیثیت فیکلٹی آف اسلامک اسٹیڈیز میں اسلامی علوم کے طویل عرصے تک استاد رہے اور بعد میں ڈین بھی رہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد " پروفیسر محسن علی صدیقی"فیڈرل بی ایریا کراچی  کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔ انہوں نے ایک لائبریری بنائی جس میں ماخذ مواد جمع کیا کیونکہ وہ تحقیق کا ارادہ رکھتے تھے۔اپنے کیریئر کے دوران اپنی تنقیدی اپریٹس کے ساتھ" قصیدہ کعب " کا ترجمہ کیا تھا۔پروفیسر صدیقی نے بیس سے زائد اسلامی تاریخ کی کتابوں کی تصنیف، تدوین یا تراجم کیے۔اپنے شاگرد ڈاکٹر نگار سجادسے کافی تعاون کیا۔پروفیسر  صدیقی نے بڑی لگن سے اپنے تحقیقی منصوبوں کو آگے بڑھایا۔ناشتے کے بعد اپنی پڑھائی میں مصروف ہو جاتے۔ اور رات گئے تک یہ سلسلہ چلتا۔ مضمون نگار نے اپنے ساتھ شفقت کے لمحات کو یاد کیا ہے جو ان کے ساتھ پروفیسر صدیقی نے گزارے۔  اور ان کی تدفین اور جنازہ میں بھی شریک ہوئے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...