Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > جدید مآخذ تحقیق (تحصیل اور ماخذ کا اشاریاتی مطالعہ) > تحصیل (کراچی )ششماہی جلد : 1 شمارہ : 1 ،جولائی۔ دسمبر 2017ء

جدید مآخذ تحقیق (تحصیل اور ماخذ کا اشاریاتی مطالعہ) |
حسنِ ادب
جدید مآخذ تحقیق (تحصیل اور ماخذ کا اشاریاتی مطالعہ)

تحصیل (کراچی )ششماہی جلد : 1 شمارہ : 1 ،جولائی۔ دسمبر 2017ء
ARI Id

1688708586360_56116664

Access

Open/Free Access

Pages

۳۳

تحقیقی و ادبی مجلہ" تحصیل"

                شمارہ ۔ 2        جلد اول

                جنوری۔ جون           2018ء

صفحہ نمبر              توضیحات مقالات    مقالہ نگار عنوانات   نمبر شمار

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

5تا 30

مقالہ نگار:

رشید حسن خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

گنجینہ ٔ  معنی کا طلسم: رنگا رنگ معنویت کی دریافت

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ میں غالب کی شاعری میں استعمال کیے گئے الفاظ کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔تاکہ واحد الفاظ، مرکب الفاظ اور ان کے علاوہ بھی بہت سے ایسے الفاظ جو غالب نے اپنی شاعری میں استعمال کیے۔ مضمون نگار نے غالب کے بیس کے قریب اشعار پر بحث کی ہے جو غالب کے مختلف معروف کاموں میں غلط نقل ہوئے ہیں۔املا اور ہجے کے بارے میں بھی دلچسپ معلومات ہیں جو پڑھنے اور حوالہ دینے کے قابل ہیں۔مقالہ نگار نے" قادر نامہ غالب" کا ذکر کیا ہے کہ اس کو لفظوں کی گنتی میں نہیں   کیا گیا لیکن قادر نامہ کی دو غزلوں کو شمار کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

31تا 50

مقالہ نگار:

عارف نوشاہی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

علی رضا نقوی ، پاکستان کے ایک لائق فارسی شناس اورفائق لغت نگار

توضیحاتِ مقالہ:

مقالہ نگار نے سید علی رضا نقوی کے بارے میں اپنی یادوں کو بیان کیا ہے جو کہ بعد میں علمی وظائف کے طور پر بھی سامنے آتی ہیں۔مقالے میں سید علی رضا نقوی کی لغت نگاری اور فارسی زبان میں برصغیر میں تذکرہ نویسی پر ان کی باریک بینی سے کی گئی تحقیق کے حوالے سے متعلق حوالہ جات موجود ہیں۔ سید علی رضا نقوی کو پاکستان میں اسی لیے بھی اہمیت حاصل ہوئی کہ انہوں نے پاکستان میں مقیم غیر ملکی لوگوں کے لیے سبق آموز تحریر یں تیار کیں۔ مقالہ نگار نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ جن کی کتاب کو ایران میں سال کی بہترین کتاب قرار دیا گیا ان کے متعلق پاکستان میں اکثر لوگ ناواقف ہیں اس میں میڈیا کا کردار بھی افسوسناک رہا جس نے لوگوں کو علی رضا نقوی سے بے خبر رکھا۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

51تا102

مقالہ نگار:

ابرار عبدالسلام

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

انیسویں صدی میں اردو تاریخ گوئی، تاریخی ناموں کی روایت کا فروغ

توضیحاتِ مقالہ:

انیسویں صدی عیسوی میں اردو تاریخ کے بارے میں مصنفین میں پائے جانے والے مختلف رجحانات  کے بارے میں زیر بحث مقالہ میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اسی طرح 217 کتابوں کے عنوانات اور ذاتی ناموں کے ساتھ اہم نوٹس کا ذکر کیا گیا ہے کتابوں کے عنوان اور ان کے پس منظر کے بارے میں مفید معلومات درج ہیں۔

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

103تا 108

مقالہ نگار:

حسن بیگ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

عبدالرحیم خان خاناں، ہندو توا کا پرچار

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون میں عبدالرحیم خان خانان کی شاعری کے ساتھ جو سیاست کی گئی اس کی تفصیل پیش کی گئی ہے اور اس سلسلے میں جو وہ بھارت کی نئی پرانی حکومتوں کے رجحانات کو سامنے رکھ کر تجزیہ کرتا ہے کہ کس طرح عبدالرحیم خان خانان کے شاعرانہ کام کو بغیر کسی شہادت یا ثبوت کے اپنے نقطہ نظر کے تحت شائع کیا جاتا رہا۔ہندوستانی گورنمنٹ نے حال ہی میں دہلی میں ایک کانفرنس منعقد کی جس میں انہوں نے اپنے نقطہ نظر اور سوچ کے مطابق پوسٹر کے ساتھ نمائش  پیش کی اس میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ان سے منسوب شاعرانہ کام کے بہت کم ثبوت ہیں۔ ایڈیٹرز اپنے خیالات کو شامل کرکے ان کے کام کو پیش کر رہے ہیں خاص طور پر ایک سوچ جس کا نام "ہندوتوا"ہے۔

مقالہ نمبر

5

 

صفحہ نمبر

109تا 118

مقالہ نگار:

ایم خالد فیاض

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

گیان چند جین کی اشک شناسی اور ناول’’گرتی دیواریں‘‘

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون ڈاکٹر گیان چند جین کی کتابوں کے مندرجات پرروشنی ڈالتا ہے اوپندر ناتھ اشک کے کاموں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں اردو ادب کی مختلف اصناف جیسے ڈراموں، شاعری، مختصر کہانیوں اور ناولوں میں" اشک" کے تسلسل کو تسلیم کیا گیا  ہے۔

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

119تا 158

مقالہ نگار:

ابو ریحان البیرونی

 

عطش درانی

 

 

عنوان مقالہ:

یاقوت

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ البیرونی کی کتابThe precious " stones " ایک معرکتہ الآراتصنیف ہے۔جو طبعی کیمیا اور علم جواہر کے بارے میں ہے۔اس کا اردو ترجمہ عطش درانی نے کیا عربی متن کو ترمیم کرکے حیدرآباد دکن سے شائع کیا عربی متن کا انگریزی ترجمہ حکیم محمد سعید نے کیا۔اس مقالے میں کتاب کی فصل دوئم کے باب اول کو تاریخی ،ادبی اور تکنیکی  لحاظ سے پیش کیا جا رہا ہے جو کہ قیمتی اور نایاب جواہر یاقوت کے بارے میں معلومات اور حواشی پر مشتمل ہے۔

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

159تا 167

مقالہ نگار:

مجلس ادارت

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

پاکستان میں فہرست نویسی نسخہ ہائے خطی فارسی کا ایک اختصاص

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مقالہ ایک تبصرے پر مشتمل ہے اس میں فارسی کاموں کا غیر معمولی کیٹلاگ جس میں  "فہرست ہائے نسخہ خطی  پاکستان"کی چار جلدوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس میں پاکستان کے فارسی مخطوطات کے335مجموعوں کا احاطہ کیا گیا ہے اس کیٹلاگ کی بھاری مقدار یں مختلف لائبریریوں، ذاتی ذخیروں اور عجائب گھروں میں محفوظ شدہ سات ہزار سے زیادہ مخطوطات کی تفصیلات فراہم کرتی ہیں یہ غیر معمولی کام ڈاکٹر عارف نوشاہی نے کیا۔کیٹلاگ کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ کیٹلاگ میں مخطوطہ کے متعلقہ معلومات کی وضاحت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

108تا 175

مقالہ نگار:

عطا خورشید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

جامعات میں تحقیق : کچھ تسامحات، کچھ استدراکات

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون کا مقصد جامعات میں اردو تحقیق کے اہم کاموں کا تجزیہ کرنا ہے جس میں تشخیص کے معیارات، غیر منصوبہ بند موضوعات اور ان سب سے بڑھ کر دنیا بھر کی اکیاسی یونیورسٹیوں میں ہونے والی ادبی تحقیق کے تمام حاصل شدہ نتائج کے حوالے سے مختلف مسائل اٹھائے گئے ہیں مضمون میں اردو ادبی تحقیق کے پس پردہ اسباب پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

9

 

صفحہ نمبر

176تا 185

مقالہ نگار:

محمد عاصم قریشی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

انیسویں صدی کا ہندوستان: جدید موثر اسلامی تحریکات ایک عصری تناظر

توضیحاتِ مقالہ:

 امریکہ میں مقیم ایک افغان مسلمان مصنف تمیم انصاری  اپنے زمانے کے مسلم مصلحین عبدالوہاب ، سر سید احمد خان ،جمال الدین افغانی کو اپنی کتاب"Destiny Disrupted " میں مرکوز کیا ہے اس کام کا مقصد اندرونی اور بیرونی خطرات کے خلاف ان کی جدوجہد کو اجاگر کرنا ہے۔ مصنف نے مختصراًان کے اسلامی منصوبوں کے کردار کی وضاحت کی ہے۔جسے وہابی تحریک، علی گڑھ تحریک اور اسلامی جدیدیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔اور جو اصطلاحات کیں ان سے متعلق کچھ چھوٹے مسائل پر بھی بحث کی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

10

 

صفحہ نمبر

186تا 198

مقالہ نگار:

مرزاخان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

گوشہ نوادر تحفۃ الہند اردو زبان کی اولین لغت

توضیحاتِ مقالہ:

"تحفۃ الہند" کا اولین عکس قسط اول تحصیل کے شمارہ نمبر1جولائی دسمبر2017ء میں شامل کیا گیا تھا "تحفتہ الہند" کی دوسری قسط تحصیل کے دوسرے شمارے میں شامل ہے کیونکہ ابھی تک "تحفتہ الہند" کا مکمل متن شائع نہیں ہوا ہے۔لہذا اس کے مختلف اجزاء یا ابواب ہی شائع ہوئے ہیں اس شمارے میں بھی تو "تحفتہ الہند" کے کچھ صفحات کا عکس دیا گیا ہے۔ "تحفتہ الہند" کئی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے یہ چونکہ اردو زبان کی اولین لغت شمار ہوتی ہے اسی لئے اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔اس لغت میں اردو زبان کے ابتدائی روپ مثلا کھڑی بولی ،برج بھاشا، "ہندوستانی" وغیرہ کے علاوہ اس میں علم عروض، علم قافیہ ،علم بیان و بدیع ، علم موسیقی، علم مباشرت ،  علم قافیہ کے متعلق معلومات درج ہیں۔

مقالہ نمبر

11

 

صفحہ نمبر

1تا 16

مقالہ نگار:

انور معظم

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Real cause of decline of Muslim culture suspension of Hikmah Atantive Analysis

توضیحاتِ مقالہ:

زیرنظر مقالہ میں مسلم ثقافت کے زوال کا ایک تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ جب تک مسلم ثقافت حکمت اور قرآن کو لے کر چلتی رہی کامیاب رہی اس کی جڑیں مضبوطی سے پھیلتی رہیں  لیکن جیسے ہی حکمت سے انحراف کیا مسلم اْمہ زوال پذیر ہونا شروع ہوئی اور نظرانداز ہونا شروع ہو گئے اور یہ مضمون مسلم ثقافتوں کے  زوال کے عوامل  پر بھی روشنی ڈالتا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اسلام کو سمجھنے کے لئے حکمت قرآن کی بجائے منگول مذہبی طریقوں کو بنیادی جگہ دی کتاب اور حکمت کی  بجائے دوسرے طریقوں کو اپنایا۔

مقالہ نمبر

12

 

صفحہ نمبر

17تا 38

مقالہ نگار:

محمد اکرام چغتائی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Dr Daud Rahbar First Pakistani Teacher in Turkey march 1954 to August 1959

توضیحاتِ مقالہ:

زیر بحث مقالہ ترکی میں داؤد رہبر کی یاداشتوں کا احاطہ کرتا ہے ، ڈاکٹر داؤد رہبر نے انقرہ، ترکی میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا مضمون میں مختصربتایا کیا گیا ہے کہ انہیں ترکی میں کیسے اور کس نے شمولیت کی سفارش کی تھی۔

مضمون میں اردو زبان و ادب کے بہت سے معروف ناموں جیسے مولوی عبدلحق ، مولانا صلاالدین احمد ، مشفق خواجہ ،اعجاز حسین بٹالوی ،ضیا محی الدین، سید صمد حسین رضوی اور آغا بابر کے خطوط کے ذریعے ان کے ترکی کے کے دور کی تفصیلات سامنے آئیں۔ جن کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

13

 

صفحہ نمبر

39تا 70

مقالہ نگار:

محمد سہیل عمر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

شہدا بالقسط Wilness for fair play repairing historical memory the case of Jerusalem

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں فرتھسٹ مسجد کے بارے میں تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ اور اس امکان کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسجد کو دوبارہ کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ مسلمانوں کی مذ ہبی اور جذباتی وابستگی مسجد سے تھی اور اس کو حاصل کرنا اعزاز سمجھتے تھے۔

مقالہ نمبر

14

 

صفحہ نمبر

71تا 94

مقالہ نگار:

افتخار شیخ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

English and Pakistani Culture Shiblee, Iqbal and Arnold or ambivalenc Revisited

توضیحاتِ مقالہ:

انگریزی کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کے ثقافتی تعامل کی تاریخ کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جو کہ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں لیکن پھر بھی شناخت کے لحاظ سے الگ الگ ہیں۔رویوں اور نقطہ نظر کے لحاظ سے بھی ہر ایک کی اپنی نمائندہ ثقافتی خصوصیات ہیں جن کا احاطہ کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

15

 

صفحہ نمبر

95تا 116

مقالہ نگار:

James Freezer A millar

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Cataloge of manuscripts in the persic, Arabic and Sunskerrit language

توضیحاتِ مقالہ:

جیمز فریزر نے شمارہ " تحصیل " میں فارسی ،عربی  اور سنسکرت زبانوں پر مشتمل مخطوطات کا ایک کیٹلاگ پیش کیا ہے۔"تحصیل" نے یہاں پر اس نادر کیٹلاگ کی کاپی پیش کی ہے جو محقق اور طلبا کے لیے اور قارئین کے لیے مفید ثابت ہو گی۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

تحقیقی و ادبی مجلہ" تحصیل"

                شمارہ ۔ 3                                جلد اول

                جولائی۔۔دسمبر                        2018ء

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

5تا 40

مقالہ نگار:

نجیبہ عارف

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

انیسویں صدی کے ریختی گو شعرا ایک نادر و غیر مطبوعہ ماخذ

توضیحاتِ مقالہ:

زیرِ نظر مضمون میں ایک ایسی تصنیف کا تعارف کروایا گیا ہے جس کا کام یا عنوان اس سے پہلے منظر عام پر نہیں آیا اور مصنف کا نام  عبدالغفور ناسخ ہے اور یہ کام ریختی شاعروں کا ہے۔ ریختی انیسویں صدی میں اردو شاعری کی ایک صنف ہے اور یہ ایک معروف ادبی لائبریری "انڈین انسٹی ٹیوٹ" میں محفوظ ہے یہ اپنی نوعیت کے نادر کاموں میں سے ایک ہے کیونکہ  یہ شاعر اور معاشرے کے بارے میں بہت کچھ دکھاتا ہے۔ یہ کام بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔جس میں شاعروں کی تفصیلات دکھائی گئی ہیں  ان میں سے اکثر عاشور کے شاگرد  ہیں۔"ناسخ" کے متعلق ان کی تخلیقات کے مختصر احوال پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ تصنیف کے  ساتویں باب پر روشنی ڈالتا ہے جس میں ناسخ نے اس دور کے سات معروف شاعروں کے مقالے بیان کئے ہیں۔

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

41تا 58

مقالہ نگار:

عارف نوشاہی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مثنوی فخریۃ النظام کا نو دریافت مخطوطہ

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون کا مقصد غازی الدین خان کی مثنوی فخریتہ النظام پر مبنی پی ایچ ڈی کے مقالے کا تجزیہ کرنا ہے۔غازی الدین خواجہ فخر الدین چشتی دہلوی کے شاگرد تھے۔خان نے اپنے سرپرست کی زندگی کو بیان کرنے کے لیے دو کام کیے۔فخریتہ النظام ابھی تک غیر مطبوعہ ہے اور نثری تصنیف مناقب فخریہ 1884ء  حیدرآباد دکن سے شائع ہوئی ہے۔ریسرچ اسکالر عظمیٰ عزیز خان نے مثنوی کی تدوین کی۔ اس نے اپنے تحقیقی کام کی بنیاد دو مخطوطات پر رکھی۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

59تا 88

مقالہ نگار:

فیض الدین احمد

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

جلیانوالہ باغ کا سانحہ: محرکات و عوامل

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں جلیانوالہ  باغ کے قتل عام اور اردو شاعری میں اس درد ناک منظر کی دلخراش منظر کشی کا مختصر بیان فراہم  کیا گیا ہے۔ جلیانوالہ  باغ کا واقعہ 1919ء  کو پیش آیا۔ یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا۔ اردو کے بہت سے نامور شعرا اس واقعے کو دیکھنے کے لئے زندہ تھے اور اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ کس طرح اور کون اس کا ذمہ دار تھا واقعہ کے بارے میں اکبر الاآبادی جو اردو شاعروں میں ایک بڑا نام رکھتے تھے نے اس واقعے کی مذمت کے لئے اشعار لکھے۔بہت سے معروف اور غیر معروف شعرا شامل ہیں۔ جنہوں نے اس واقعہ پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

89تا 104

مقالہ نگار:

محمد راشد شیخ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

سورت کا ایک علمی خانوادہ

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون "سورت "(گجرات کا اہم شہر) سے تعلق رکھنے والے مصنفین اور اسکالرز کی تعداد کے لحاظ سے کتابیں لکھنے اور مرتب کرنے کی ایک طویل روایت کی تصویر پیش کرتا ہے۔جس کے لیے مضمون نگار نے اردو فارسی اور انگریزی زبانوں کے مستند ماخذات کی تصدیق کی ہے اور رضی الدین احمد جسے"بخشومیاں"کا لقب دیا جاتا ہے، کا تحقیقی کام "حدیقہ احمدی"تھا علاقے کے فکری منظر نامے کی مختصر سوانح عمری کو پیش کرتا ہے۔جس میں بہت سے غیر معروف شاعروں اور ادبیوں کو زیر بحث لایا گیا ہے کیونکہ  اس موضوع پر 444کاموں سے استفادہ کرنے کے بعد یہ کتاب مرتب کی گئی ہے۔اس کے علاوہ یہ کام ڈاکٹر عبدالرحمان بارکر  کے مجموعے میں محفوظ کیا گیا جو آئی ایس اے ٹی سی کو المپور ملائیشیا میں محفوظ ہے۔             

مقالہ نمبر

5

 

صفحہ نمبر

105تا 136

مقالہ نگار:

خالد امین

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

تحریک اتحاد اسلامی: معاصر وعلمی و ادبی تحریکوں پر اثرات

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح "دارالعلوم" اور" ندوۃ العلما" نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں اسلام ازم کی راہ ہموار کی اور مسلمانوں میں دنیا پر راج کرنے کی روح پھونکی۔سر سید نے اس منصوبے کی حمایت کے لیے بہت محنت کی اور اس کے ساتھ ہی وہ برطانوی حکومت کی بھی حمایت کررہے تھے۔مضمون میں اسلام ازم کے نظریات کی حمایت میں دارالعلوم کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے دیوبند سے تعلق رکھنے والے بہت سے علمائے کرام نے عوام کو متحرک کرنے کے لیے بہت محنت کی اور بہت سا لٹریچر  تیار کیا۔ ندوۃ العلماء ان تین اہم منصوبوں میں سے ایک ہے جو اسلام ازم کے جذبات کی حمایت کرتے ہیں

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

137تا 150

مقالہ نگار:

دائود عثمانی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

میر غلام بھیک نیرنگ کی ایک نادر تحریر : اردو زبان اور افسانہ نگاری

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کا مقصد انگریزی تنقید کے اصولوں پر مبنی ترجمہ شدہ مختصر کہانی کا جائزہ لینا تھا۔مضمون میں کہانی کے پلاٹ کو بیان کی گیا ہے۔اور کچھ ایسے شعبوں کو دکھایا گیا ہے۔جہاں مضمون نگارمصنف کے قائل تھے۔

مضمون میں ترجمہ کا تعارف میں نیرنگ کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا گیا ہے۔جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سیاسی اور سماجی طور پر سرگرم تھا۔

اس مقالے میں میرغلام بھیک نیرنگ کے ایک مضمون اردو زبان اور افسانہ نگاری کا متن ضروری نو ٹوں کے ساتھ پیش کیا ہے جو 1903ء میں ماہنامہ "محزن" لاہور میں شائع ہو ا تھا۔

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

151تا2 16

مقالہ نگار:

سلطانہ بخش

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

سید حسن شاہ ضبط

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون سید حسن شاہ ضبط کی مختصر سوانح عمری اور نثری اور شاعرانہ کاموں پر مشتمل ہے۔ضبط سید عبداللہ کی نسل سے تھے۔ جسے عام طور پر مظلوم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ضبط  کا ناول "نشتر" اردو زبان میں اس صنف کے ابتدائی کاموں میں سے تھا۔ضبط کی فارسی میں سے ایک نظم کوان کے بھائی جن کا نام  میر حسن شاہ حقیقت تھا ،نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔جس کا عنوان "غضب عشق "تھا حقیقت کے بیٹے محسن علی محسن کو "تذکرہ سراپا سخن "شعرااردو کے لیے بھی جانا جاتا تھا۔سراپا سخن تذکرہ کی مختلف تصانیف میں سے ایک تھی جس میں 733شعراکی سوانح حیات شامل ہیں۔ نایاب کام انسانی جسم کے حصوں پر شاعری پر مشتمل ہے۔اردو  اور فارسی کے بہت سے تذکرہ مصنفین نے ضبط کی مختصر زندگی کا احوال لکھا ہے جس میں ان کے اشعار بھی شامل ہیں۔ شاعری میں ضبط کی دلچسپی کی وجہ سے اردو کلاسیکی دور کے استاد شاعر شیخ قلندر بخش جرات سے رابطہ کیا بعد میں جرات نے انہیں اپنا شاگرد تسلیم کر لیا ۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

163تا 178

مقالہ نگار:

عارف نوشاہی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

محمد ایوب قادری بر عظیم کی اسلامی تاریخ و تہذیب کے ترجمان

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون میں محمد ایوب قادری کے گیارہ غیر  مطبوعہ خطوط پیش کئے گئے ہیں جو مضمون کے مصنف اور دیگر محققین کو جہاں ضروری نوٹ کے ساتھ لکھے گئے۔ محمد ایوب قادری کے مختصر تعارف کے ساتھ مضمون میں یہ معلومات موجود ہیں کہ قادری اپنی پوری زندگی میں کتب اور نایاب تحریریں جمع کرنے کے کتنے شوقین رہے۔قادری ایک باکمال آدمی تھے۔ اور جس طرح سے بعض نادر کلاسیکی فارسی متون کی تدوین کی گئی۔ وہ اب بھی حوالہ دینے کے لیے موزوں ہے۔اہم دستاویزی معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔

مقالہ نمبر

9

 

صفحہ نمبر

179تا 218

مقالہ نگار:

معین الدین عقیل

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

خواجہ حسن نظامی اور ڈاکٹر غلام یزدانی

توضیحاتِ مقالہ:

ایک متن پیش کیا گیا ہے جس کا عنوان خواجہ حسن نظامی از ڈاکٹر غلام یزادنی ہے۔ خاکہ نگاری کی صنف پر توجہ مرکوز کرنے والے کسی بھی مجموعے میں متن غیر ترمیم شدہ رہا۔ خاص طور پر معروف مصنف خواجہ حسن نظامی کے لکھے ہوئے خاکے ڈاکٹر سلیمان شاہ  جہانپوری نے ایڈ یٹ کئے ہیں لیکن اس میں جو متن تیار کیا جارہا ہے وہ شامل نہیں۔اس خاکے کے مصنف ڈاکٹر غلام یزدانی  خود اپنے ہم عصروں میں ایک جانا پہچانا نام ہیں۔اور انہیں اسکالر شپ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ اس مضمون میں خواجہ حسن نظامی کے متعلق بہت سی نئی معلومات دی گئی ہیں۔

مقالہ نمبر

10

 

صفحہ نمبر

178تا 218

مقالہ نگار:

ایچ بلوغ مین

 

نیاز سواتی

 

 

عنوان مقالہ:

ترجمہ : برعظیم کی فارسی لغات تقابل، خصوصیات تجاویز

توضیحاتِ مقالہ:

یہ اردو ترجمہ انیسویں صدی کے ہندوستان میں فارسی لغت نگاری کے بارے میں گہرا تجزیہ فراہم کرتا ہے۔جو جرمن متشر ق اور فارسی زبان و ادب کے ا سکالر ہینرج بلاک مین نے لکھا ہے جس نے اپنے کیریئر کا بیشتر حصہ ہندوستان میں گزارا۔ ترجمہ میں ساٹھ سے زائد فارسی لغات کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ مشہور فارسی کے مندرجات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔فارسی لغات میں "برہان قات" ایک اہم تذکرہ کے طور پر کیا ہندوستان میں  اس پر شدید تنقید بھی ہوئی۔ غالب نے بھی شدید تنقید کی۔

مقالہ نمبر

11

 

صفحہ نمبر

219تا 230

مقالہ نگار:

جاوید احمد خورشید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

کراچی منظم بد نظمی کا شکار شہر

توضیحاتِ مقالہ:

کراچی شہر کے حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔کراچی میں تشدد کے واقعات اور پس منظر کے بارے میں تفصیل سے بات کی گئی ہے۔کراچی میں تشدد کے واقعات کی تاریخ نئی نہیں ہے۔تقسیم ہند کے بعد شہر میں وہ آبادی جو بے گھر تھی۔اس آبادی نے کراچی کی رہائش گاہوں میں بحران کو جنم دیا۔مہاجر تنظیم  ایم کیو ایم اور سندھیوں کے درمیان نسلی کشیدگی ، بدامنی اور تشدد میں اضافے کا باعث بنی۔1970ء کی دہائی کے اوائل میں یہ فسادات پھیلے۔ کراچی کے کچھ حصے جرائم کے اڈے بن چکے ہیں اور تشدد میں اضافے کا باعث بن چکے ہیں۔

مقالہ نمبر

12

 

صفحہ نمبر

231تا 246

مقالہ نگار:

مرزا خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

گوشہ نوادر تحفۃ الہند اردو زبان کی اولین لغت (قسط سوم)

توضیحاتِ مقالہ:

اردو زبان کی لغت" تحفتہ الہند" کی پہلی اور دوسری قسط" تحصیل "کے شمارہ اول دوئم میں پیش کی ہیں تو" تحفتہ الہند" کی تیسری قسط "تحصیل" کے  اس شمارہ 3 میں شامل کی گئی ہے۔"

مقالہ نمبر

13

`

صفحہ نمبر

1تا 76

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Mavlid or Nativity poem by Suleman Selebi

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں میلاد کے متعلق بتایا گیا ہے۔ یہ شاعرانہ کلام ہوتا ہے۔ جسے نبی ﷺکو مخاطب کر کے لکھا جاتا ہے۔سلیمان سلیبی نے آپﷺکے لیے پیش کیا۔آپﷺ کی تعریف میں صدیوں سے شاعرانہ کلام لکھا جاتا رہا ہے جو ترکی زبان، اردو اور ملائی جیسی زبانوں میں لکھا جاتا ہے اور پڑھا جاتا ہے۔اور  مذہبی ادب میں شاعری کی ایک الگ صنف قرار پائی۔"میلاد " کے مصنف 1950ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بہترین تعلیم حاصل کی۔ ترکی میں میلاد کی بہت اہمیت بتائی گئی ہے اورنعت کو سب سے بڑی اولین اسلامی نعتیہ  نظم تسلیم کرتے ہیں۔

مقالہ نمبر

14

 

صفحہ نمبر

77تا 90

مقالہ نگار:

شہاب یار خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Shakespeare and Iqbal:

an illumination(ishraq context)

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون میں" شیکسپیئر  اور اقبال" کے ادبی کاموں میں مشترک خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔جو دونوں شاعروں میں کئی جگہ مماثلت نظر آتی ہے۔ "علامہ اقبال کے مکالمے کی  ساخت"  شیکسپیئر" کے مکالمے کی ساخت سے ملتی جلتی ہے۔ زبان دانی اور موضوعات میں مشترک نسبت پائی جاتی ہے۔ مقالے میں دونوں شاعروں کے بنیادی موضوعات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ دونوں کا نقطہ نظر اشراقی  ہے۔

مقالہ نمبر

15

 

صفحہ نمبر

91تا 100

مقالہ نگار:

غزل فاروقی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Translation historical consciousness by M Hasan Askri

توضیحاتِ مقالہ:

"محمد حسن عسکری "کا مقصد تھا کہ ان کو پڑھنے والے بہت سے سامعین کا یہ حق ہے کہ وہ اس ترجمہ سے مستفید ہوں کیونکہ ان کی تحریروں میں سے یہ ایک بہترین تحریر تھی۔ اس میں پاکستانی ادب کے حالات کا گہرائی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ جس سے یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔کہ ہم نے اپنی تاریخ کو کتنا نظر انداز کیا ہے۔ یہ تحریر ترجمہ کے مطالعے کے دو حصوں یا اجزا کی وضاحت کرتی ہے۔ایک ترجمے کا "نظریہ "دوسرا "ادبی فن "کے طور پر ترجمہ کی مشق  ، ترجمے کو پڑھنے سے دلچسپی، ترجمے کے مطالعے کی بڑھتی ہوئی تعلیمی موجودگی طلبا اور اساتذہ کو سمجھنے میں مدد فراہم کر سکیں گے کہ آیا ترجمہ کسی دوسری زبان میں بالکل وہی چیزیں پیش کر سکتا ہے۔

مقالہ نمبر

16

 

صفحہ نمبر

101تا 102

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Obituary Mrs. Hamida Akhtar Hussain Raipuri

توضیحاتِ مقالہ:

مسز حمیدہ اختر حسین رائے پوری ایک ممتاز مصنفہ تھیں۔ جو زبان و ادب کے دانشور حلقوں میں ایک معروف نام تھا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نامور خطاط کی اہلیہ تھیں۔مضمون نگار کے مطابق فہمیدہ اختر کو خراج تحسین پیش کرنا ذاتی نوعیت کا ہے۔

مقالہ نمبر

17

 

صفحہ نمبر

103تا 104

مقالہ نگار:

منیر اواسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

شمشاد فقیر: ایک اصل لیکن بھولی ہوئی شاعرہ

توضیحاتِ مقالہ:

"شمشاد فقیر "کو ایک اصل لیکن بھولا ہوا شاعر کہنا ان معنوں میں درست ثابت ہو سکتا ہے کہ شمشاد فقیر کوان کی اصلیت اور وژن کے لیے یاد نہیں رکھا گیا وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔امیر گھرانے سے تعلق تھا۔وہ ایک دلکش سوانح عمری کے مصنف بھی تھے جو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد شائع ہوئی۔ بے سہارہ لوگوں کے لئے ٹرسٹ بھی شروع کیا۔اپنا شعری مجموعہ ’’عنقیہ‘‘مضمون نگار کو دیا۔وہ اپنے اگلے شعری مجموعے کی تیاری کر رہے تھے۔ زندگی بھر ایک بے حس دنیا کی بے حسی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے  1998ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔

مقالہ نمبر

18

 

صفحہ نمبر

105تا106

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

A tribute kareem Bakhsh Khalid

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون نگار کریم بخش خالد اور علامہ شمس بریلوی سے متعلق اپنی یادداشتیں بیان کرتے ہوئے ان کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔ کریم بخش خالد کو سیرت نبوی پر سندھی میں لکھی گئی کتاب پر پہلا انعام دیا گیا۔محب وطن پاکستانی تھے۔ قائد اعظم کی قیادت میں جدوجہد آزادی کے گواہ  اور شریک رہے۔ فرقہ پرستی کو نہ پسند کرتے تھے۔

"علامہ شمس بریلوی "بہت سی اسلامی کلیات کی ہمہ گیر مترجم تھے۔ سیاست سے متعلق معاملات میں بہت سرگرم تھے۔ "علامہ شمس بریلوی" کی صاحبزادی کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں ملازم تھیں۔"علامہ شمس" اسلامی کتابوں کے مصنف بھی تھے۔" سیرت الرسول"پر سیرت ایوارڈ  ملا۔"علامہ شمس" نے عربی، فارسی، اردو کی اہم تصنیفات کے کلام کا ترجمہ کیا۔ مدینہ پبلشنگ ہاؤس کے ساتھ طویل اور پرجوش وابستگی رہی۔ "جہان شمس"  ان کی کامیابیوں ان کی زندگی ان کے کیریئر کے متعلق بہت سی معلومات فراہم کرتی ہے۔

مقالہ نمبر

19

 

صفحہ نمبر

107تا108

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Allama Sham Brelvi

توضیحاتِ مقالہ:

ہندوستان کے مولوی محمد برکت اللہ اور مصر کے احمد فادلی نے مشترکہ طور پر ٹوکیو ، جاپان سے محفوظ شدہ دستاویزات اسلامی بھائی چارے کو مرتب کیا۔ اسلامی بھائی چارے نے دیگر مذاہب کے ساتھ برادرانہ جذبات کو فروغ دیا۔اس  جریدے کا نقطہ نظر اسلامی تھا۔برطانوی پالیسیوں پر تنقید کی وجہ سے پابندیوں کی زد میں رہا۔ ٹوکیو، جاپان میں اسلامی تعلیمات پھیلیں جس کی وجہ سے وہاں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ برکت اللہ ٹوکیو یونیورسٹی میں اردو علوم کے بانی رہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

تحقیقی و ادبی مجلہ" تحصیل"

                شمارہ ۔ 4         جلد اول

                جنوری۔ جون 2019ء

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

5تا 22

مقالہ نگار:

انور معظم

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

غالب کی مذہبی تعقل پسندی کی جہات

توضیحاتِ مقالہ:

غالب کی تخلیقات سے پہلے اردو شاعری میں پیش کرنے کے لئے بہت سے موضوعات تھے۔  احساسات و جذبات کی جمالیاتی تخلیق کو شاعری کا حسن سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت اردو شاعری میں خیالات یا فکری نوعیت پر بہت کم توجہ دی جاتی تھی۔ اور اردو شاعری کی نوعیت حسی بھی زیادہ تھی اس مضمون کا مقصد  غالب کے فارسی اشعار فراہم کرنا ہے۔تاکہ اس بات کا ثبوت دیا جا سکے کہ کس طرح غالب نے اپنی شاعری میں عقلی سوچ کی قدر کی۔یہ مضمون غالب کو اپنی شاعری میں عقلیت پسند ثابت کرنے کے لئے بہت سے سوالات پیش کرتا ہے۔

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

23تا 28

مقالہ نگار:

محمد اقبال مجددی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

حکیم رحیم الدین طرب دہلوی

توضیحاتِ مقالہ:

                حکیم رحیم الدین طرب دہلوی یا انیسویں صدی کے اردو اور فارسی زبان کے صوفی شاعر تھے۔ تدوین و ترجمہ نگاری میں دلچسپی لیتے تھے اس مضمون کا مقصد شاعر کی زندگی اور کام کو پیش کرنا ہے۔مضمون میں ان کی کتب کی مختصر تفصیل دی گئی ہے جس میں ان کا ترجمہ شدہ فارسی کام بھی شامل ہے۔ترجمہ شدہ فارسی تحریریں صوفیانہ  موضوعات پر مشتمل ہیں۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

29تا 46

مقالہ نگار:

احمد سعید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

ہندوستان میں مسلم مالیات کی سرگزشت

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بارے میں ایک جامع تصویر پیش کی گئی ہے خاص طورپر انشورنس کے کاروبار میں ہندوؤں کے مقابلے میں مسلمان تاجر بہت کم تھے۔ مضمون میں بڑے بڑے بینکوں کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جنہوں نے مسلمانوں کو اس صورتحال میں استحصال سے بچایا۔مضمون میں ان مالی معاملات کا گہری نظر سے مظاہرہ و  مشاہدہ کیا گیا ہے جو مسلمانوں کو درپیش تھے۔         

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

47تا 62

مقالہ نگار:

عارف نوشاہی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

نذر صابری اسلاف  کے کاروانِ تحقیق سے بچھڑے ہوئے ایک محقق اور ادیب

توضیحاتِ مقالہ:

عارف نوشاہی تحقیق اور کتابیات کے بڑے کام کے بارے میں بہت مشہور ہیں اور ان کے کریڈٹ پر بہت ساتحقیقی کام ہے۔منٹ اور  درست تفصیلات اس کا ایک اور قابل ذکر اور اہم کام ہے اس مضمون میں عارف نوشاہی نے نذر صابری کے خطوط پیش کیے ہیں  نذر صابری نے فارسی زبان میں بہت سا تحقیقی کام کیا ہے۔اور بہت سے فارسی کلاسیکی متون کی تدوین کی ہے۔ نذر صابری نے تقریبا تین دہائیوں تک عارف نوشاہی کو خطوط لکھے۔ اس مضمون کے چار حصے ہیں۔عارف نوشاہی نے اس کے دوسرے حصے میں اپنی بھرپور یادیں مختصر تفصیلات کے ساتھ شیئر کی ہیں جو انتہائی نایاب ہیں مضمون کا ایک اور حصہ نذر صابری کے تخلیق کردہ کاموں کی کتابیات کی تفصیلات کے ساتھ درج ہے

مقالہ نمبر

5

 

صفحہ نمبر

63تا70

مقالہ نگار:

محمد اکرام چغتائی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

ایلوئس اشپرینگر کی اردو خدمات

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کا مقصد ہے کہAloyssprengerکے اردو کاموں کو اجاگر کیا جائے کیونکہ وہ قرون وسطی ٰ کے مغرب پر اسلامی ثقافت کے اثرات کو فراخ دلی سے تسلیم کر نے والے پہلے مغربی اسکالر ہیں۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش تھی۔مشرق میں گزارے تیرہ برسوں کے دوران انہوں نے ادب کی تخلیقات کو جمع کرنے کے وسیع مواقع حاصل کیے اور انہیں لکھنؤ کی لائبریریوں کی فہرست بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے ملازمت دی گئی اور دو سال انہوں نے مصر کا سفر کیا۔

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

71تا 86

مقالہ نگار:

عصمت درانی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مولوی عزیز الدین عزیز ایک تاریخ گوشاعر

توضیحاتِ مقالہ:

مولوی عزیز الدین عزیز بہاولپور کے نواب صادق محمد خان کے قابل اعتماد ساتھی تھے۔ وہ بہت ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے ان کا خاص کام تاریخ گوئی تھا۔ جس کے وہ ماہر بھی تھے کسی واقعہ کا سال دکھاتے ہوئے تحریر کا فن کے علاوہ  خطاط ،درباری شاعراور مفتی بھی تھے۔ان کے خطاطی  میں شاندار کاموں کی وجہ سے انہیں بہاولپور کے نواب نے "یاقوت کا نام دیا تھا۔مضمون  میں شاعر کی زندگی اور کام کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا گیا  ہے۔

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

87تا 104

مقالہ نگار:

ارشد محمود ناشاد

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

حکیم محمد یوسف حضروی اور ان کا سفر نامہ’’سیرِسوات‘‘

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں حکیم محمد یوسف جعفری کی زندگی اور کام کے بارے میں تفصیلات فراہم کی گئی ہے۔خاص طور پر ان کی سفری تحریر "سیرسوات" یہ ان کے نو کاموں کی وضاحت کرتا ہے۔سفری تحریر کے بارے میں یوسف حضروی کے تصور کا بھی حوالہ دیا گیا کہ ایک سفرنامہ نگار کو اپنے قارئین کے سامنے اس علاقے کی حقیقت پر مبنی تصویر پیش کرنی چاہیے سفرنامہ لکھنے کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یوسف حضروی نے بہت سی چیزوں پر گفتگو کی ہے۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

105تا 261

مقالہ نگار:

رفاقت علی شاہد

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

کریم الدین صفت مراد آبادی احوال و آثار

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں پہلی بار" کریم الدین صنعت مراد آبادی " کی زندگی خاص طور پر تاریخ پیدائش اور رام پور کے نواب فیض اللہ خان کے ساتھ ان کی دوستی اور معاصر مآخذوں پر تحقیق کی کوشش کرتا ہے یہ ان کے کاموں کی تعداد اور وہ کہاں محفوظ کیے گئے ہیں اس کے بارے میں بتاتا ہے۔ شاعر کریم الدین صنعت مراد آبادی کی زندگی اور کام کے متعلق بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔مضمون کے دوسرے حصے میں شاعر کے ادبی کاموں کی تفصیل دی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

9

 

صفحہ نمبر

127تا 144

مقالہ نگار:

ساجد صدیق نظامی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اردو میں فنی و تکنیکی نثر تھامس نان جینرنگ، کالج روڈ کی خدمات

توضیحاتِ مقالہ:

اردو زبان کے بارے میں زیادہ تر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ جدید سائنسی موضوعات یا مباحث بیان کرنے سے قاصر ہے۔اردو زبان بھی جدید سائنسی موضوعات سے بحث کرتی ہے خاص طور پر اٹھارہویں صدی میں کی گئی حیدرآباددکن کے نواب شمس الامرا اور حکمرانوں کی کوششیں,دہلی ٹرانسلیشن سوسائٹی اور علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی نے گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔

مقالہ نمبر

10

 

صفحہ نمبر

145تا 184

مقالہ نگار:

فیض الدین احمد

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

قحطِ بنگال کا آشوب اور اردو شاعری

توضیحاتِ مقالہ:

1943ء میں بنگال میں قحط اور اسے اردو شاعری میں کیسے بیان کیا گیا۔ اس مضمون میں اس کی تفصیل بتائی گئی ہے۔ 1943ء میں بنگال کی سنگین صورتحال، تاریخی بیان اور اردو شاعری میں اس تصویر کشی کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ مضمون کے آغاز میں برطانوی حکومت کی ظالمانہ پالیسیوں کا ذکر ہے۔مضمون میں قحط کے خلاف اردو شاعری سے بہت سی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ اردو شاعروں نے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے بہت اصناف  استعمال کیں جن پر شعری تنقید بھی کی گئی ہے۔ اس دور کی شاعری میں خواتین اور بچوں کے دکھوں کی بھی تصویر کشی کی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

11

 

صفحہ نمبر

`185تا 198

مقالہ نگار:

خالد امین

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

سید ابوالاعلیٰ مودودی اور سلطنتِ عثمانیہ

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مقالہ میں نوجوان سید ابوالاعلیٰ مودودی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے گواہ ہیں۔ یورپی ممالک کی طرف سے عثمانیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور الزام تراشی شروع کی گئی اس مضمون کا یہ مقصد ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ مولانا مودودی نے اپنے سامعین کو ایک واضح تصویر فراہم کرنے کے لیے اپنی تحریروں کا ترجمہ کیا۔ محمد علی جوہر نے برصغیر میں مسلمانوں کو  یورپی مظالم سے آگاہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سید محمد جعفری کے ذریعے محمد علی جوہر کے اعتراف میں تالیف کردہ مضمون اس بات کا گواہ ہے کہ سید مودودی نے ان کی کتنی تعریف کی۔ مضمون اپنے موضوع سے متعلق بہت سے متعلقہ بنیادی ذرائع  پر مشتمل ہے۔

مقالہ نمبر

12

 

صفحہ نمبر

199تا 214

مقالہ نگار:

جاوید احمد خورشید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

ماخذ تحقیق کتابیات ،تصنیفات، مقالات و دیگر از ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہان پوری

توضیحاتِ مقالہ:

ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری وہ واحد پاکستانی اسکالر ہے جنہوں نے نصف صدی سے زیادہ ابوالکلام آزاد کی زندگی اور کارناموں پر کام کیا۔ابو سلیمان شاہ جہاں پوری ہندوستان میں اپنے ملک پاکستان سے زیادہ قابل تعریف ہے جہاں وہ تقسیم کے فورا بعد ہجرت کر گئے۔انہوں نے بہت سے کاموں میں برصغیر کی تقسیم سے پہلے کی تاریخ پر توجہ مرکوز کی ہے۔ انہوں نے خاص طور پر دیوبند کے علما کرام کے خطے کی فکری تاریخ کو بیان کرنے والے کام تیار کیے ہیں۔ان کی تقریبا تمام تخلیقات ان کے ہم عصروں کے لکھے ہوئے سوانحی خاکے اور ان کی کتابوں کے جائزے شامل ہیں۔

مقالہ نمبر

13

 

صفحہ نمبر

215تا 222

مقالہ نگار:

محمد سہیل عمر

 

محمد عمید فاروقی

 

 

عنوان مقالہ:

سوہنی ماہی وال نسوانی کرداروں کی علامتی معنویت(ترجمہ)

توضیحاتِ مقالہ:

سوہنی ماہیوال کی کہانی پنجاب اور سندھ کی مشترکہ ادبی روایات کو پیش کرتی ہے یہ کہانی دریائے چناب کے گرد گھومتی ہے۔مشہور صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی نے سندھی زبان میں اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے دریا سے کہانی کو کھولا ہے۔پانی جو اس میں علامتی  قدررکھتا ہے۔ شاعر نے سوہنی کو تسلی دینے کے لیے جو الفاظ شاعری میں استعمال کیے ہیں وہ تیرھویں صدی کی صوفی شاعری میں کثرت سے استعمال کیے۔سوہنی ماہیوال کی کہانی ایک مشترکہ روایات کا اشتراک  بھی ہے۔

مقالہ نمبر

14

 

صفحہ نمبر

223تا 234

مقالہ نگار:

محمد عمید فاروقی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

خود نوشت حاجی غلام محمد منشی

 

توضیحاتِ مقالہ:

ایک انگریزی متن کا یہ اردو ترجمہ حاجی غلام محمد منشی کی سوانح عمری کو پیش کرتا ہے سوانح عمری ایک نسبتاً طویل وقف ،دیباچہ ، دس انتہائی مختصر ابواب پر مشتمل ہے۔اس کے لکھنے کی وجہ سوانح عمری میں ان کی کاوشوں کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے جو دسویں باب میں ہے۔ سوانح  عمری انگریزی متن کا  یہ اردو ترجمہ خودنوشت کو پیش کرتا ہے۔

مقالہ نمبر

15

 

صفحہ نمبر

235تا 238

مقالہ نگار:

معین الدین عقیل

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

تبصراتی شذرہ ارمغان حجاز کا جاپانی ترجمہ

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں اردو کاموں کے جا پانی تراجم کے ساتھ ارمغان حجاز کی جاپانی زبان میں منتقلی کو پیش کرتا ہے۔کئی اردو کلاسیکی اور جدید تحریریں جاپانی زبان میں پیش کی گئیں۔ پہلی بار جاپانی بابائے اردو نے "باغ و بہار "کا اردو ترجمہ کرنا شروع کیا بہت سے لوگوں نے راستہ بنایا۔

مقالہ نمبر

16

 

صفحہ نمبر

239تا 259

مقالہ نگار:

میرزا خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

گوشہ نوادرِ تحفۃ الہند اردو زبان کی اولین لغت(قسط چہارم)

توضیحاتِ مقالہ:

"تحفتہ الہند" میں شامل مواد کا عکس دیا گیا ہے۔ گوشہ نوادر  کے تحت  یہ سلسلہ جاری ہے اور "تحفتہالہند"  اردو زبان کی اولین لغت کی قسط چہارم اس شمارے میں شامل کی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

17

 

صفحہ نمبر

1تا 22

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

George Remond,s reports on the 9/11 -12 Turco Italian warm Libya

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں لیبیا کے دفاع کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے والے عثمانی افسر  کی یاداشتیں  پیش کی گئی ہیں۔ ایک اہم عصری ماخذ  فرانسیسی میگزین"illustration" کے جنگی نمائندےGeorge remondکی بھیجی گئی رپورٹس بھی میگزین میں شامل ہیں۔ اس  مضمون کا مقصد لیبیا  میں "remond"کے تجربات اور ان کے ترک فوجیوں کے ساتھ ملاقاتوں کے بارے میں ہے جو سلطنت عثمانیہ سے آئے تھے۔ان کا مقصد افریقہ میں آخری عثمانی سرزمین کا دفاع کرنا تھا۔

مقالہ نمبر

18

 

صفحہ نمبر

23تا 40

مقالہ نگار:

فیصل نذیر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Deconstructing deconstruction post - colonial theory, post modernism and post structurlism

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون جدیدیت اور مابعد ساختیات  کے درمیان واضح فرق کی وضاحت کرتا ہے اور دلیل پیش کرتا ہے کہBhaba'sکے ما بعد نوآبادیات کے نظریہ میں اپنی کلیدی اصطلاحات، ابہام ،درمیانہ پن، دوغلہ پن وغیرہ مابعد جدیدیت کے مسائل سے ماخوذ ہیں۔ مضمون میں دریدہ،اولیمن اور فوکالٹ کے ما بعد ساختیات کے حوالے سے اور اس کی روشنی میںbhaba'sکے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور نوآبادیاتی تنقید میں مابعد جدیدیت پر بھی تنقید کی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

19

 

صفحہ نمبر

41تا 78

مقالہ نگار:

محمد سہیل عمر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

De-colonozing psychology some remarks from the Marginalize perspective

توضیحاتِ مقالہ:

لوگوں کو تین ناگزیر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے مثلا مسئلہ فطرہ، سماجی مسئلہ ،مذہبی مسئلہ۔ اس مضمون میں عصر حاضر میں مذہب کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔اب یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ مذہب ایک قدیم تو ہم پرستی بلکہ مذہبی جبلت انتہائی طاقت ور ہے۔ عقیدہ اور مذہب کے درمیان دراڑنے آخر کار جدید سائنس کو اس کے موجودہ حالات کے درمیان لا کر کھڑا کر دیا ہے جس کی وجہ سے جدید سائنس متضاد ہو گئی ہے۔مضمون میں اسی بات کی وضاحت کی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

20

 

صفحہ نمبر

79تا 88

مقالہ نگار:

محمد عثمان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Al Gazali A crridor of hope for a living theological paradigm

توضیحاتِ مقالہ:

امام غزالی کواشعری مکتبہ کلام الہیات کے ماہر کے طور پر مانا جاتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد غزالی پر لگائے گئے الزامات کا تجزیہ کرنا ہے کیونکہ غزالی کو امت مسلمہ کے زوال کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔وہ  اسلامی تاریخ میں عقلیت پسندی کی موت کا لازمی سبب تھے اور ان کے فلسفے سے بھی کوئی فائدہ نہ ہو سکا اس سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے فلسفہ میں فلسفے کی تلقین نہیں کی۔ غزالی لسانیات میں شاندار تھے غزالی نے اپنے یادگار کام  میں توحید کی وضاحت کی ہے۔

مقالہ نمبر

21

 

صفحہ نمبر

89تا 104

مقالہ نگار:

محمد شعیب خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Socio polotical and administrative develoment in Bahawalpur state during victorian Era 1837- 1901

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون کا مقصد انیسویں صدی کے ہندوستان میں ریاست بہاولپور کے لیے برطانوی کردار کو تلاش کرنا ہے۔ریاست بہاولپور کی تاریخ کو وکٹوریہ دور کے دو مرحلوں میں تقسیم کیاجا سکتا ہے ریاست نے انگریزوں کے لئے اپنی عزت، وفاداری اور  عقیدت کا مظاہرہ کیا اور اس کے بدلے میں انگریزوں نے انہیں سہولیات  فراہم کیں۔ مضمون میں انتظامی ترقی، اعلی ثقافت ، تعلیم ، صحت اورریلوے، مذہب اور پرنٹنگ پریس اور اخبارات جیسے  پہلوؤں کا احاطہ کرتاہے۔ بلدیات، تاریخیں اور قانون سازی  کے بارے میں بھی وضاحت کی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

22

 

صفحہ نمبر

105تا 118

مقالہ نگار:

ماہ رخ خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Emotions Expression and Barriers of Communication in Shakespears seven ages of man

توضیحاتِ مقالہ:

شکپیئر نے اپنی نظم ’’Seven ages of man‘‘زندگی کو ایک اسٹیج کے طور پر پیش کیا ہے اور اسے انسان کی فطرت اور رویے میں ہونے والی تبدیلیوں کی بنیاد پر سات  مراحل میں تقسیم کیا ہے۔ نظم کا موضوع زندگی  کا دور ہے جو بچپن سے شروع ہوکر موت پر ختم ہوجاتا ہے۔ اس مضمون کا مقصد انسان کی زندگی کے ہر مرحلے میں درپیش رکاوٹوں پر بات کرنا ہے۔شکپیئر کی انسانی نفسات کے بارے میں گہری آگاہی کو نظم میں پیش کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

23

 

صفحہ نمبر

119تا 122

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Book Rerick Maqulat e Barkati Dr Shuail Barkati

توضیحاتِ مقالہ:

سید منیر واسطی نے علامہ حکیم محمود احمد کی کتاب مقالات برکاتی پر تبصرہ پیش کیا ہے یہ کتاب علامہ محمود احمد کے جمع کردہ مضامین، تجزیے اور انٹرویوز پر مشتمل ہے۔جو مختلف جرائد میں شائع ہوئے نیز وہ بھی جو 9 فروری 2013ء کو ان کی وفات کے وقت شائع نہیں ہوئے تھے۔آخر میں قائد اعظم اکیڈمی کے ڈائریکٹر خواجہ رضی حیدر کی نثری  شاعری دی  گئی ہے۔ حکیم محمود احمد کی کتب اور مقالات کی کتابیات بھی درج ہیں۔

مضمون نگار نے مسز راشدہ آفتاب اقبال کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان کے ساتھ اپنی یادوں کو شیئر کیا ہے۔ مضمون نگار کی خواہش تھی کہ راشدہ سے دوبارہ ملاقات ہو لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا لیکن ان کی زیر دستخطی کتاب مضمون نگار کے لیے کسی خزا نے سے کم نہ تھی۔               

مقالہ نمبر

24

 

صفحہ نمبر

123تا 124

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Obituary a tribute to Mrs. Rashida Aftab Iqbal

توضیحاتِ مقالہ:

بغیر فہرست شدہ مشرقی مخطوطات کا ایک وضاحتی کیٹلاگ جو ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ اور ثقافت سے متعلق ہے۔ جسے رائل ایشیاٹک سوسائٹی نے اپنی آخری کی طباعت شدہ کیٹلاگ کی اشاعت کے بعد سے حاصل کیا ہے۔جس میں تمام عربی ،فارسی، اردو اور ترکی کے مخطوطات کو بیان کیا گیا ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

 

تحقیقی و ادبی مجلہ" تحصیل"

                شمارہ    5       جلد اول

                جولائی،دسمبر         2019ء

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

1تا 16

مقالہ نگار:

عارف نوشاہی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

عبدالرحیم خانِ خاناں یادداشت اور مہر سے مزین کنز الاعمال

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون شیخ علی متقی کے"کنز العمال " کے نایاب مخطوطہ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ جو اس وقت بخارا، ازبگستان کی مشہور لائبریری میں موجود ہے۔اس مخطوطہ پر عربی زبان میں ڈاک ٹکٹ اور نوٹ موجود ہیں۔جو عبدالرحیم خان خاناں نے لکھے تھے مضمون میں خان خاناں کے ریمارکس کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا ان کی اپنی ذاتی لائبریری بھی تھی۔ ان کی لائبریری میں رکھے کچھ مخطوطات منظر عام پر آ چکے ہیں ۔مزید یہ کہ مضمون میں ان پر اب تک شائع ہونے والی اردو ،انگریزی اور فارسی کی تصانیف کا ذکر ہے۔

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

17تا 46

مقالہ نگار:

احمد سعید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مولانا ظفر علی خان کی اسلامی بازار تحریک کمزور مسلم معیشت

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون میں اسلامی بازار کے تصور کی وضاحت کی گئی ہے جو ایک اردو شاعر معروف ایڈیٹر اور سیاسی شخصیت مولانا ظفر علی خان نے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں کو مسلم تاجروں سے 75 فیصد اشیائے خوردونوش اور ضرورت کی دیگر اشیاء خریدنے پر آمادہ کیا تھا۔ اس تصور کا مقصد مسلمانوں کی معاشی بہبود کو بڑھانا تھا کیونکہ مسلمان اس وقت معاشی طور پر پسماندہ تھے۔ مولانا ظفر علی خان نے عوامی اجتماعات منعقد کیے اور مسلمانوں کو اس پر توجہ دینے کی ترغیب کے لیے ایک نظام وضع کرنے کی پیشکش کی۔اپنی مجلسوں میں انہوں نے آپ ﷺ کی تعلیمات کا اشتراک کیا جیسا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو تجارت کرنے کی ترغیب دی۔ مولانا نے نہ صرف اپنے مراکز میں اس تصور کی حمایت کی اور مسلمانوں کی اکثریت کو قائل کرنے کے لیے ہندوستان کے کچھ حصوں کا سفربھی کیا۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

47تا 64

مقالہ نگار:

سلطانہ بخش

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

چند این منظوم اسلامی صوفیانہ تمثیل کا نقشِ اول

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون کا مقصد مولانا داؤد کی چودھویں صدی کے مثنوی کے فن کو متعارف کروانا ہے ۔شاعر نے تصوف کے موضوع کو استعمال کرنے کے لئے تمثیل لکھی۔اس کی صنف تمثیل ہے جس میں شاعر نے اپنے زمانے کے قارئین کو مسحور کرنے کے لیے تصوف کے بہت سے موضوعات پر بحث کی ہے مثنوی کا روایتی آغاز تھا جیسے حمد نعت اور منقبت۔

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

56تا 80

مقالہ نگار:

نجیبہ عارف

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

1868 کی دہلی کا شماریاتی جائزہ ایک اہم دستاویز کا قلمی نسخہ

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون میں اٹھارویں صدی کے اوائل میں دہلی کے مقامات اور لوگوں کے بارے میں اعداد و شمار کا اشتراک کرنا ہے جو ایک ایسے مخطوطہ میں موجود ہے جیسے ایڈنبرا یونیورسٹی کے اورینٹل مینواسکرپٹس کے سیکشن میں محفوظ کیا گیا ہے ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے مقامی مشیروں کے ذریعے ایسے سروے کرواتی تھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ایسٹ انڈیا کپمنی کے حکم پر کیا گیا ایک سروے ہے۔شہر کے اعداد و شمار اس میں موجود معلومات کی نوعیت کو ظاہر کرنے کے لئے تیار کئے گئے ہیں۔

مقالہ نمبر

5

 

صفحہ نمبر

81تا84

مقالہ نگار:

حسن بیگ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

علامہ شبلی نعمانی کی ایک غیر معروف علمی خدمات

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون ایک عربی تصنیف کے پیچھے کی مختصر کہانی پر روشنی ڈالتا ہے۔ عربی زبان کی کتاب  "امتحان الالباء لکافتہ الاطباء  "  اور اس کا اردو میں ترجمہ یہ کام بنیادی طور پر حکیموں جڑی بوٹیوں کی دوائیں استعمال کرنے والے روایتی معالجین کے تعلیم اور امتحانی سوالات و جوابات سے متعلق ہے۔

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

85تا102

مقالہ نگار:

بصیرہ عنبرین

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

’’اسرارِ خودی بیاض اور مطبوعہ کلام تقابلی مطالعہ

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں علامہ اقبال کی 1923ء میں شائع ہونے والی تصنیف مثنوی "اسرار خودی "کے منتخب اشعار کا اس کے دو بیاضوں کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے تاکہ اقبال اکیڈمی لاہور کی طرف سے اس کے وسیع پیمانے پر شائع شدہ متن میں ترمیم کا ذکر کیا جا سکے۔

مضمون نگار نے بیاض سے مختلف اشعار کا ذکر کیا ہے۔مثنوی کا 1923ء کا متن اس کا تیسرا ایڈیشن تھا۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1915ء اور ڈوسرا ایڈیشن 1918ء میں شائع ہوا سب سے پہلے شاعر علامہ اقبال کی بہت سی درستگیاں پیش کرتے ہیں۔کیونکہ  اس پر تنقید کی گئی تھی۔ علامہ اقبال کو اس میں کچھ تبدیلیاں کرنی پڑی تھیں اس میں شامل عنوانات  بڑی حد تک مختلف ہیں بیاض کے مندرجات  سے پتہ چلتا ہے کہ مثنوی  اس وقت اپنے آخری نسخے تک نہیں پہنچی تھی دوسری بیاض کا بھی یہی حال ہے یہ بیاض  چند اشعار سے خالی ہے جو بعد میں شائع ہونے والے اس کے آخری نسخے میں شامل ہیں۔

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

103تا108

مقالہ نگار:

ظفر حسین ظفر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مولانا سید ابولاعلیٰ مودودی : دو غیر مطبوعہ خط

توضیحاتِ مقالہ:

 مضمون میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نامور عالم اور سوانح نگار مولانا غلام رسول مہر کو بالترتیب 1962ء اور 1952ء میں لکھے گئے دو نایاب خطوط کا اشتراک کیا گیا ہے۔ مضمون میں نوٹس اور وضاحتیں شامل ہیں۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

109تا136

مقالہ نگار:

راشد شیخ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

علامہ عبدالعزیز میمن: اردو زبان میں تالیفات و مقالات

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون معروف عربی اسکالر اور ماہر لسانیات علامہ عبدالعزیز میمن کی اردو تخلیقات کو پیش کرتا ہے اپنے پسندیدہ شاعر ابو الاعلیٰ معاری کی شاعری سے متاثر ہوکر انہوں نے اردو میں بھی اپنی تخلیقات کے بارے میں لکھا مضمون میں ان کے مختصر اردو اقتباسات پیش کئے گئے ہیں۔ اپنی ایک تحریر میں معاری نے ادب کے بارے میں ابن خلدون کے تصور کو بیان کیا ابن خلدون نے ادب کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ یہ زبان, تاریخ ,لغت ،قوافی، اخلاقیات، اخبار اور تصنیف کا منظم مطالعہ ہے۔

مقالہ نمبر

9

 

صفحہ نمبر

137تا 152

مقالہ نگار:

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

بقا غازی پوری : سوانح اور شاعری

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون کا مقصد بقا غازی پوری کی زندگی کا احوال اور تین زبانوں اردو، فارسی اور عربی میں شاعری سے انتخاب فراہم کرنا ہے۔ غازی پوری مولوی عبدالاحد شمشاد لکھنوی کے شاگرد تھے۔ غازی پوری سرسید احمد خان کو خط لکھتے تھے اور اس کے بارے میں سرسید احمد خان نے انہیں علی گڑھ یونیورسٹی میں اپنے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی مضمون میں ان کے کاموں کا اعتراف کیا گیا ہے۔بہت سے طلبا ان سے  شاعری کی تربیت لیتے تھے ان کی شاعری مختلف گلدستوں میں شائع ہوئی۔

مقالہ نمبر

10

 

صفحہ نمبر

153تا164

مقالہ نگار:

مورا کامی آسوکا

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

امرائو جان ادا اور شاہد رعنا محرکات تخلیق

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں مرزا ہادی رسوا کے اردو ناول امراؤ جان ادا کے پیچھے جو محرکات تھے ان کو اجاگر کیا گیا ہے قاری سرفراز حسین اعظمی  کا نام شاہد رعنا تھا۔اور خاص طور پر ان کے درباریوں کے تصورات نے اپنے ناول کے ذریعے رسوا کی مخالفت کی راہ ہموار کی اعظمی  نے اپنے ناول میں شریف مردوں کے ساتھ شادی کرنے والی عورتوں کی مخالفت نہیں کی دوسری طرف رسوا نے ان کی مخالفت کی دونوں  ناول نگاروں نے خواتین کے کرداروں کی تصویر کشی کی۔ جو اپنی زندگی کو شریف  خواتین کے طور پر گزارنے کی خواہش رکھتی ہیں ۔

مقالہ نمبر

11

 

صفحہ نمبر

165تا 184

مقالہ نگار:

بی بی امینہ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اردو لغت (تاریخی اصول پر) میں مندرج اسناد امثلہ تجزیہ

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون میں اردو لغت تاریخی اصول پر کے اندراجات کے پیچھے  فراہم کردہ سیاق و سباق کے مختلف نمونوں کی وضاحت کرتا ہے۔ اس لغت کی22 جلدیں ہیں۔ پہلی جلد 1977ء میں شائع ہوئی اور آخری 2010ء میں شائع ہوئی۔ لغت میں 750 سال پرانے ماخذ کا استعمال کیا گیا۔ یہ بہت سی مثالیں دیتا ہے۔جہا ں لغت نے اپنے مقرر کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی مضمون میں ان کے خلاف اندراجات کی فہرست فراہم کی گئی ہے جن کا شاعری اور نثر دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور ان کو استعمال کرنے کے لیے جو ذرائع منتخب کیے گئے ہیں ان میں سے جو قابل اعتماد ہیں ان کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

12

 

صفحہ نمبر

185تا192

مقالہ نگار:

جاوید خورشید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مالدیپ دھیویہی زبان عربی ، فارسی اور اردو کے مشترک الفاظ

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کا مقصد مالدیپ کے جزیروں کی دھیویہی زبان کی اردو کے ساتھ مماثلت کو تلاش کرنا ہے۔دھیو یہی زبان جزائر کی تاریخ فراہم کرتی ہے یہ زبان جدید ہند آریائی زبانوں سے بہت متاثر ہے اس زبان کے ابتدائی نسخوں میں عربی زبان کے الفاظ دھیو یہی زبان میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔ بہت سے محققین نے اس زبان اور اس کے لوگوں پر تحقیق کی ہے اور خطے کی دوسری زبانوں کے ساتھ اس کے تعلقات کو تلاش کرنے کے لئے بہت کوشش کی ہے۔

مقالہ نمبر

13

 

صفحہ نمبر

1تا 30

مقالہ نگار:

میرزا خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

تحفۃ الہند زبان کی اولین لغت: قسط پنجم

توضیحاتِ مقالہ:

تحفۃ الہند میں اردو زبان کی اولین لغت قسط پنجم پیش کی گئی ہے اور یہ سلسلہ" تحصیل "کے پہلے شمارے سے لے کر قسط وار شائع کیا جا رہا ہے جو کہ ایک بہت عمدہ کاوش ہے اس میں لغت کا عکس پیش کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

14

 

صفحہ نمبر

31تا44

مقالہ نگار:

محمد اکرام چغتائی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Aloys Sprenger in London

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون میںAloyssprengerکے12 خطوط جو29جولائی1942ء کوبھیجے گئے ان کوپیش کیاگیاہے، جو لندن یونیورسٹی کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔یہ خطوط سو سائٹی آف ڈفیوڑن آف نالج دفتر کے انچارج ڈیوڈکونولی کوبھیجے گئے ہیں۔ اس نے لغت  کے حروف تہجی A سے خلاصہ تصنیف کیا۔

مقالہ نمبر

15

 

صفحہ نمبر

45تا58

مقالہ نگار:

محمد سہیل عمر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Anthropocosmic vision: The Lightof Dharma in all Wisdom Traditions

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون ان دھرمی اصولوں کے بارے میں وضاحت کرتا ہے جو اب تک دھندلے ہو چکے ہیں۔مضمون میں حکمت کی روایات یا عا لمی مذاہب جیسے ہندو مت ،بدھ مت، ذرتشت، یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا اشتراک کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

16

 

صفحہ نمبر

59تا 62

مقالہ نگار:

شہاب یار خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Lost Tradition of Balkanian Drama of the Ottoman Era

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کا مقصد عثمانی دور کے بلقانی ڈرامے کی کھو ئی ہوئی روایات کو اجاگر کرنا ہے اس غلط فہمی کو دور کرنا ہے کہ شیڈوتھٹر بنیادی طور پر" سیرا گلی" تک محدود  تھا۔جہاں دربار اور حرم کی خواتین اسے دیکھ سکتی تھیں۔

مقالہ نمبر

17

 

صفحہ نمبر

63تا68

مقالہ نگار:

 سہیل عمر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Translation of Gayatri Mantra and Iqbal

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون ترجمہ گائتری منتر اور اقبال ہے۔اقبال نے اپنی نظم آفتاب کے ذریعے گائتری کا ترجمہ پیش کیا ہے۔آفتاب پہلی بار محزن  میں1902ء میں شائع ہوئی تھی۔اس میں  رگ وید کی اس قدیم اور مشہور دعا کو متعارف کروایا گیا تھا۔ جس میں نظم میں  روشنی کی علامت کو تصوف میں اس کے مشابہ نظریات کے ذریعے بیان کیا گیا تھا۔مضمون میں نظم آفتاب میں روشنی سے پیدا ہونے والے  اظہار کی  وضاحت کی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

18

 

صفحہ نمبر

69تا86

مقالہ نگار:

غلام مصطفیٰ خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Archival Annexure

توضیحاتِ مقالہ:

خاکی اردو کا ایک نامعلوم صوفیانہ شاعر تھا قلمی نام خاکی اور سید محمد عرف مدن صاحب تھا۔خا کی ہندوستان کا ایک عظیم صوفی شاعر ہے لیکن خاکی کے متعلق ان کے ادبی اور شاعرانہ کام کے حوالے سے کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ سوائے اس کے جو خاکی کے کیے ہوئے کام سے جمع کر سکیں۔ خاکی کا مکمل دیوان حبیب گنج لائبریری علی گڑھ میں محفوظ ہے اور اب تک دستیاب واحد  نسخہ ہے اس میں خط نسخ میں لکھی ہوئی اٹھارہ سو سے ذیادہ آیات ہیں۔ خاکی کی شاعری میں غزل، قصیدہ اور 55 آیات پر مشتمل ایک مثنوی ہے۔ جس میں بعض مذہبی عقائد کی تشبیہات ہیں۔

مقالہ نمبر

19

 

صفحہ نمبر

87تا 119

مقالہ نگار:

دامیر خیری

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Book Review Iqbal اقبال سب کے لیے

پروفیسر شہاب یار خان پی ایچ ڈی کی تدوین مطبوعہ ابن سینا ،پبلشنگ ہاؤس بچوں کے لیے اقبال کی شاعری بہت متاثر کن اور منفرد ہے۔اقبال کے تخلیق کردہ کاموں اور شاعری نوجوانوں کی مناسب تربیت ان میں نظم وضبط کے اصول پیدا کرنے کی خواہاں ہے۔ اس مجموعہ کا ترجمہ رضاکار طلبہ کے ایک گروپ نے کیا۔ "بوسنیا کے نوجوان "اقبال کی نظم بچے کی نماز سے متعلق بہت دلچسپی کا باعث بنی۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تحقیقی و ادبی مجلہ" تحصیل"

                شمارہ ۔ 6۔ جلد اول

                جنوری۔ جون 2020ء

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

1تا 30

مقالہ نگار:

عارف نوشاہی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

لایق جونپوری کی مثنوی سادہ پرکار

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون کا مقصد فارسی مثنوی سادہ اور پر کار کے حقیقی مصنف کے بارے میں معتبر تفصیلات فراہم کرنا ہے اس مضمون میں بہت سے اشعار کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کام عبدالقادر بیدل کی بجائے لائک جونپوری کی تصنیف ہے۔ٹونک ، ہندوستان میں محفوظ شدہ مخطوطہ کے مصنف کے طورپر عبدالقادر بیدل کا نام کام کے ترقیمہ میں موجود ہے۔اس کے مدیر نے 22 افراد کا دبیاچہ لکھا ہے جس میں عبدالقادر بیدل کو اس کے شعر سے منسوب کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

31تا82

مقالہ نگار:

عبدالعزیز ساحر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

تاریخ المشائخ چشت (جلد پنجم) استدراک و تسامحات

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کا مقصد ستر(70) سے زائد اقتباسات پر روشنی ڈالنا ہے۔بہت سی  شخصیات کے نام اور مقامات جنہیں پروفیسر خلیق احمد نظامی کی معروف اردو تصنیف تاریخ المشایئح  چشت جلد پنجم نے غلط طریقے سے شامل کیا ہے۔اسے چشتی حکم کی مستند تصانیف میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ مضمون میں پبلشرز کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ جنہوں نے اس کام کو پرنٹنگ میں آنے کے بعد تیار کیا ہے۔ مضمون شیئر کرتا ہے کہ غلطیوں کی تعداد   کے باوجود یہ کام اب بھی معلومات کا ایک قابل ذکر ذریعہ ہے اور خاص طور پر مصنف کا انداز تحریر واقع  قابل تعریف ہے۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

83تا100

مقالہ نگار:

محمد راشد شیخ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

کردار ساز اساتذہ اور ان کے چند واقعات

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون ان اساتذہ پر روشنی ڈالتا ہے جنہوں نے نہ صرف مضبوط لوگ پیدا کیے بلکہ ان کی شراکت دوسروں کے لیے مثالیں قائم کرتی ہے یہ مضمون پندرہ مثالی اساتذہ پیش کرتا ہے جن پر کوئی بھی معاشرہ فخر کر سکتا ہے یہ بے لوث اساتذہ اپنے شاگردوں کی نہ صرف مدد کرتے تھے بلکہ وہ اپنے معمولی مالی وسائل سے اپنے شاگردوں کی مالی معاونت بھی کرتے تھے۔

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

101تا 114

مقالہ نگار:

تنزیل الصدیقی الحسینی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مولانا محمد اکرم خان علمی ، ادبی و صحافتی خدمات

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون کا مقصد مولانا محمد اکرام خان کی زندگی اور کارناموں کو پیش کرنا ہے جنہوں نے بہت فعال، سیاسی اور فکری زندگی گزاری۔ انھوں نے بنگلہ دیش میں صحافت کا آغاز کیا۔جس میں مسلمانوں کی آواز اور مسائل کو پیش کیا گیا۔انہوں نے تحریک پاکستان میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا انہوں نے پانچ جلدوں پر مشتمل تفسیر لکھی جو۔بنگلہ زبان میں قرآن پاک  کی پہلی مکمل طویل تفسیر تھی۔ مولانا محمد اکرم خان نے حضرت محمدﷺ کی سوانح حیات "مصطفی سیرت" بھی لکھی۔ مصطفی سیرت کو بنگلہ زبان میں وہی اہمیت حاصل ہے جو اردو زبان میں سیرت النبیﷺکوحاصل ہے انہوں نے بنگلہ دیشی لوگوں کی سماجی تاریخ بھی لکھی۔ وہ خود شاعر تھے اور پاکستان نامہ شائع ہوا تو اس میں ان کی شاعری مرتب کی گئی تھی۔

مقالہ نمبر

5

 

صفحہ نمبر

115تا 128

مقالہ نگار:

ارشد محمود ناشاد

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

گوشہ خطوطِ سید ابوالاعلیٰ مودودی: مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے تین نادر اور غیر مطبوعہ خط

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون مولانا سید ابوالا علی مودودی کے مرزا عزیز فیضانی دارپوری کو لکھے گئے۔ تین  غیر مطبوعہ خطوط پیش کرتا ہے۔ داراپوری ایک شاعر، نثر لکھنے والے اور بہت سے خبررساں اداروں کے اخبار ایڈیٹر تھے۔مضمون میں داراپوری کے کاموں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔آغاز میں مولانا کے خطوط کا مختصر اسلوب پیش کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

129تا 150

مقالہ نگار:

ظفر حسین ظفر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

خطوط مودودی بر نام چوہدری غلام محمد

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے غیر مطبوعہ خطوط پیش کرتا ہے جو مولانا کے قریبی ساتھی چوہدری  غلام محمد کو لکھے گئے تھے۔ شروع میں مصنف نے مولانا کے پہلے سے شائع شدہ خطوط پر مشتمل کتابوں اور مجموؤں کے بارے میں تفصیلات بتائیں  مضمون خطوط میں سامنے آنے والی شخصیات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا ہے۔

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

151تا154

مقالہ نگار:

مجلسِ ادارت

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

خطوطِ مودودی بہ نام حکیم قاری احمد پیلی بھیٹی

توضیحاتِ مقالہ:

جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے غیر مطبوعہ خطوط مختلف امور پر ان کے خیالات کے بارے میں معلومات کا خزانہ ہے۔زیر نظر مضمون ان کے چار غیر مطبوعہ خطوط پیش کرتا ہے جو معروف  خطیب ،حکیم اور مدیر قاری احمد پیلی بھیٹی کو بھیجے گئے ہیں مولانا مودودی نے اس سلسلے میں جو خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ان کے لسانی نقطہ نظر کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

155تا 158

مقالہ نگار:

معین الدین عقیل

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مکاتیب مولانا ابوالا علیٰ مودودی بر نام معین الدین عقیل

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مختصر مضمون مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کے غیر مطبوعہ خطوط پیش کرتا ہے جس میں مولانا نے مصنف کو رسیدیں بھیجی تھیں جنہوں نے مولانا کو اپنی کتابیں اور ایک پمفلٹ تحریک پاکستان اور مولانا مودودی کوبھیجا تھا۔مصنف نے مولانا سے ان کی رہائش گاہ لاہور اچھرہ میں  ملاقات کا تجربہ بیان کیا ہے۔

مقالہ نمبر

9

 

صفحہ نمبر

159تا168

مقالہ نگار:

ڈیوڈ واٹریسن

 

منیب الحسن رعنا

 

 

عنوان مقالہ:

ترجمہ: محسن حامد کا ناول’’ عالم گیریت کا تناظر‘‘

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں محسن حامد کے ناول کو موضوع بنایا گیا اور اس ناول کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ناول میں عالمگیریت اور اس کے تناظر میں اقدار اور ثقافتی سرگرمیوں کی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے رویے نے سرحدوں سے پرے انسانی شناخت کو ضروری سمجھا۔  

مقالہ نمبر

10

 

صفحہ نمبر

169تا185

مقالہ نگار:

اکرام چغتائی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

گوشہ نوادر: ایک قدیم فہرستِ کتب

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون 1850ء سے پہلے کے ممتاز مشرقی ڈاکٹر آیلوئس سپرینگر کی مرتب کردہ کتابوں کا ایک اشاریہ شیئر کرتا ہے جسے برلن کے اسٹیٹ لائبریری میں محفوظ کیا گیا تھا۔ برصغیر میں اپنے تیرہ سال کے دور میں اس نے عربی، فارسی، ترکی اور اردو کاموں کی کتابوں اور مخطوطات پر مشتمل اشاریہ مرتب کیا سپرینگر رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن سے وابستہ تھے اپنی تنظیم کے دوران کی بہت سی لائبریریوں میں موجود عربی، فارسی اور ترکی زبانوں کے کام نکالے۔ مورخ سرہندی ایلیٹ نے انہیں موتی محل،ٹاپ خانہ اور لکھنؤ کی فرخ بخش لائبریریوں میں موجود کاموں کی کتابیات مرتب کرنے کی دعوت دی۔ انہوں نے مذکورہ کتب خانوں کی بنیادپر کتابوں کا ایک  اشاریہ مرتب کیا جو آٹھ جلد وں پر اختتام پذیر ہوا۔

مقالہ نمبر

11

 

صفحہ نمبر

1تا8

مقالہ نگار:

انور معظم

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

ٖFor Consideration of the Muslim Elite for world peace a proposal

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کا مقصد ادارہ سازی کی اہمیت کے لیے قرآن پاک کی بنیاد پر رہنما اصولوں کا اشتراک کرنا ہے۔مسلم معاشروں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ قرآن کی تعلیمات کو علمی و سماجی، اقتصادی، سیاسی، فکری ،تعلیمی اور ثقافتی اداروں میں تبدیل کرنے کے نقطہ نظر کو نظر انداز کرنا ہے۔

مقالہ نمبر

12

 

صفحہ نمبر

9تا 24

مقالہ نگار:

منیر واسطی سید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Maulana Rahmatullah khairanvi: Turkish Facts of his life and work

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون مولانا رحمت اللہ کیرانوی کی زندگی اور ان کے کاموں سے متعلق ہے جن کی علمی و مذہبی کتابیں عربی، فارسی اور اردو میں شائع ہوئی اور انگریزی، ترکی دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ کیے گئے۔اردو میں دو مکمل ماخذ تاریخی کرداروں کے ساتھ ساتھ اس وقت کے ثقافتی حالات سے متعلق تفصیلات بھی پیش کرتے ہیں ۔کیرانوی نے اٹھارہ کتابیں لکھیں۔جو دہلی، آگرہ،استنبو ل  سے شائع ہوئیں۔ کیرانوی کی کتابوں کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

مقالہ نمبر

13

 

صفحہ نمبر

25تا 85

مقالہ نگار:

محمد سہیل عمر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Iqbal's Vision of civilization Modernity and Nationalism are his Ideas Relevant today

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون جمہوریت قوم پرستی اور کمیونزم کے بارے میں اقبال کے تصور کو پیش کرتا ہے اور انہوں نے واضح کیا کہ یہ دراصل سامراج  کے جبر کے پہلو ہیں۔ان کا خیال تھا کہ امت مسلمہ انسانیت کے لیے نمونہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی انسانیت کے جذبے کے ساتھ امت کو زندہ کرنے کے لیے پہل کریں۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

تحقیقی و ادبی مجلہ" تحصیل"

                شمارہ ۔ 7       جلد اول

                جولائی۔۔دسمبر        2020ء

 

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

1تا28

مقالہ نگار:

احمد سعید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

شملہ وفد: ایک نیا تناظر

توضیحاتِ مقالہ:

آغا خان سوم کی قیادت میں پینتیس  ممتاز مسلم رہنماؤں پر مشتمل ایک مسلم وفد نے اکتوبر 1906ء کو گورنر جنرل لارڈ منٹو سے ملاقات کی جس میں مسلم آبادی کے کچھ مطالبات پیش کیے ان میں سے ایک الگ انتخابات کا مطالبہ بھی تھا جس نے قیام پاکستان کی راہ ہموار کی اس مضمون کا مقصد ان جرائد پر روشنی ڈالنا ہے جنہوں نے جداگانہ انتخابات کے مطالبے کو تسلیم کروانے کے لیے سخت جدوجہد کی ان میں چند جرائد کے نام ماہ نامہ ،ڈیکن ریویو، ہفتہ وار، وطن، لاہور، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ،سول اینڈ ملٹری گزٹ آرکائیول ریسرچ وغیرہ

اخبارات پر مبنی ذرائع کے علاوہ مصنف نے بہت سے ادبی ذرائع اور خواجہ عبدالرؤف عشرت لکھنوی کی ایک مفصل نظم کا ذکر بھی کیا ہے اس کے علاوہ مضمون میں ہندو اخبارات کا ذکر کیا گیا جو مسلمانوں کے لئے بد زبانی کرتے  اور اپنے قارئین کو گمراہ کرتے تھے

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

29تا45

مقالہ نگار:

عارف نوشاہی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

خان آرزو سے منسوب ایک بیاض

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں سراج الدین علی خان آرزو سے تاریخی طور پر منسوب ایک بیا ض جنگ کے نایاب فارسی نسخے کا تنقیدی جائزہ لیا گیا یہ نسخہ اسلامی مشاورتی اسمبلی لائبریری تہران  میں محفوظ ہے۔ بیاض اکہتر صفحات پر مشتمل ہے اور 88 شاعروں کی تخلیقات کو شامل کرنے کے لئے ہاتھ سے لکھی گئی ہے۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

46تا50

مقالہ نگار:

محمد اکرام چغتائی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

خیری برادران اور جرمن نژاد مستشرقین علمی و فکری روابط

توضیحاتِ مقالہ:

خیری برادران عبدالستار حیدری اور عبدالجبار حیدری بیسویں صدی کے اوائل میں اپنا وطن چھوڑنے کے بعد قاہرہ مصر چلے گئے اس مضمون میں ان کی خدمات کو بیان کیا گیا ہے

خیری برادران آکسفورڈ  یا کیمبرج جا سکتے تھے  لیکن انہوں نے اپنے مشن کے لیے ایک ایسے الگ ملک کا انتخاب کیا جہاں وہ نوآبادیاتی طاقتوں کے چنگل سے آزاد ہو کر کام کر سکیں گے۔جامعہ الازہر میں مفتی عبدہ ان کے استاد تھے۔  وہ مصر سے بیروت چلے گئے۔

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

51تا64

مقالہ نگار:

عصمت درانی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مولوی حافظ عزیزالدین عزیز علوی ساعت ساز

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کا مقصد مولوی حافظ عزیز الدین ساعت ساز کے بارے میں غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے کیونکہ  ایک اور مولوی عزیز الدین بھی تھے جن کا قلمی نام عزیز صاحب اور خطاط تھے۔دونوں شعرا کی شاعرانہ تخلیقات ایک دوسرے میں ضم ہو گئیں۔ ساعت ساز اپنے عنوان "ابورجہ" کی وجہ سے بہت جانے جاتے تھے اور ان کی ایک کتاب "نظم الوراثہ" پر  ان کا عنوان درج ہے دوسری طرف عزیزالدین خوشنودی کا لقب "یا قوت" راقم تھا۔ جو نواب صادق محمد خان نے دیا تھا۔

مقالہ نمبر

5

 

صفحہ نمبر

65تا78

مقالہ نگار:

محمد سہیل عمر

 

خالد ندیم

 

 

عنوان مقالہ:

رقعاتِ سرمد کا ایک کامیاب مخطوطہ

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون سرمد کے 23رقعات کو مکمل طور پر بیان کرتا ہے۔جو چار حصوں پر مشتمل ہے۔صوفی اور شاعر سرمد کی مختصر زندگی رکعت کا فارسی متن ان کا انگریزی اور اردو ترجمہ ایک گہری صوفیانہ حقیقت سے بھری ہوئی ہیں۔ سرمد ایک ایرانی یہودی تھا  جس نے اسلام قبول کیا فارسی میں تین سو رباعیات تحریر کیں۔

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

79تا106

مقالہ نگار:

محمد یامین عثمان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

علامہ اقبال اور عطیہ فیضی باہمی روابط کے تاریخ ساز اثرات

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ علامہ اقبال کی فارسی شاعری لکھنے کی تحریک کے پیچھے بیگم عطیہ فیضی کا ہاتھ تھا اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ شاعر کے ساتھ اس کا رشتہ لندن میں کیسے شروع ہوا علامہ اقبال نے عطیہ فیضی سے 1970ء میں لندن میں ملاقات کی جب وہ اپنی تعلیم کے حصول کے لیے  وہاں گئے۔عطیہ بھی وہاں تھی لیکن اس نے وہاں پر اپنی تعلیم مکمل نہیں کی۔عطیہ فیضی نے ایک عشائیہ میں علامہ اقبال سے متاثر ہوکر ان کا ذکر انہیں حافظ کی شاعری کا حافظ بتاکر کیا۔

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

107تا126

مقالہ نگار:

خالد ندیم

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اردو میں فرضی مکتوب نگاری نوعیت اور روایت

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں اردو کے بہت سے معروف ادیبوں اور شاعروں کے لکھے گئے خطوط پر تنقیدی بحث کرنے کی کوشش کی گئی ہے ان خطوط  میں خط لکھنے والوں کے ذہن میں کوئی خاص اور مخصوص وصول کنندہ نہیں تھا  یعنی ان کو خیالی خطوط بھی کہا جا سکتا ہے ان خیالی مضمون نما خطوط کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ان خیالی خطوط میں مصنفین اور اسکالرز کی ان معلومات اور مسائل کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جن کو اپنی متواتر تحریروں میں شیئر نہیں کرتے۔خیالی مضمون نما خطوط کی مثالیں ایم اسلم کے خط کا جواب، محمد یونس کی قیدی کے خطوط، مجنوں گورکھپوری کے پردیسی کے خطوط شامل ہیں۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

127تا142

مقالہ نگار:

شمس بدایونی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

خطوط شمس الرحمان فاروقی بہ نام شمس بدایونی

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون معروف نقاد شاعر افسانہ نگار شمس الرحمان  فاروقی کے غیر مطبوعہ خطوط اور ای میلز کو پیش کرتا ہے جو ڈاکٹرشمس بدایونی کو بھیجے گئے تھے۔خطوط دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ پہلے حصے میں 13 خطوط ہیں اور دوسرے حصے میں 4 خطوط ای میل دیے گئے ہیں۔پہلا خط 20 ستمبر 1989ء کاتھا۔ آخری خط 4 جون 2020ء کو لکھا گیا ہے۔ خطوط قارئین کو شمس الرحمان کے تلخ تبصروں کے  کے ساتھ ساتھ ادبی بات چیت دیکھنے کا ایک دل چسپ موقع  فراہم کرتے ہیں۔شمس الرحمٰن فاروقی نے مولانا شاہ آسی سکندرپوری ،امام احمد رضا خان اور علامہ اقبال کے بارے میں ڈاکٹر بدایونی کی تنقیدی فہم کے جواب میں واضح کیا کہ فقہ اور احادیث کے متعلق وہ ڈاکٹر بدایونی سے زیادہ علم رکھتے تھے۔

مقالہ نمبر

9

 

صفحہ نمبر

143تا 158

مقالہ نگار:

عارف نوشاہی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

پروین شاکر کے خطوط( فارسی ادب سے)

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظرمقالے  میں اردو کی مشہور شاعرہ پروین شاکر کے چار غیر مطبوعہ خطوط پیش کیے گئے ہیں۔جو مضمون مصنف کو لکھے گئے تھے۔خطوط فارسی زبان سیکھنے کی طرف فطری رجحان  کو ظاہر کرتے ہیں۔پروین شاکر نے فاصلاتی تعلیم کے ذریعے فارسی زبان سیکھنے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔

پروین شاکر نے فارسی شاعری کی ایرانی شاعرہ فرخ زاد کی تعریف میں ایک نظم لکھی۔انہوں  نے فرخ زاد کی فارسی شاعری کو بہت اچھے انداز میں پیش کیا۔پروین شاکر نے مقالے کے مصنف کی طرف سے فارسی ادب کی نئی اور پرانی کتابوں کی پیشکش کو قبول کرنے سے گریز کیا خطوط کی لکھائی صاف ،قابل فہم اور رواں تھی۔

مقالہ نمبر

10

 

صفحہ نمبر

159تا174

مقالہ نگار:

محمد تنزیل الصدیقی الحسینی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

قاضی احتشام الدین مراد آبادی : عملی و ادبی خدمات

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون میں قاضی احتشام الدین مراد آبادی کی مختصر زندگی کا خاکہ اور علمی خدمات پیش کی گئی ہیں۔ ان کی ادبی اصناف میں شاعری، تراجم اور کتاب مقدس کی تفسیر، تفسیر اکسیر اعظم جیسے اہم اور قابل قدر کارنامہ تھے۔ ان کی تفسیر میں اردو نثر بہت ہی واضح اور سادہ محاورہ  ہے جو ان کے ہم عصروں میں نایاب تھا۔  قرآن پاک کی تشریحات کرتے ہوئے آپ سرسید احمد خان پر تنقید کرتے ہیں اور اپنی تفسیر میں ان کو جواب دہ ٹھہراتے ہیں۔انہوں نے 1884ء میں "مظہرالاسلام "جیسے رسالوں کی تدوین بھی کی۔ ان کا شعری محاورہ اتنا ہی سادہ ہے جتنا کہ ان کی نثر ہے انہوں نے اپنا قلمی نام فرہاد رکھا۔

مقالہ نمبر

11

 

صفحہ نمبر

175تا188

مقالہ نگار:

حسن بیگ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

وقائع بابر: چند صراحتیں

توضیحاتِ مقالہ:

معروف دانشور مظہر محمود شیرانی کے وقائع بابر کے اردو متن کے جائزے میں کوئی متعلقہ حوالہ نہیں دیا گیا ہے پروفیسر یونس جعفری دہلی  یونیورسٹی کے شعبہ فارسی میں کام کرتے تھے اڈیٹر کی درخواست پر اصل فارسی متن کو اردو میں پیش کیا ہے۔وقائع بابر کے اردو زبان پر اس کے مدیر نے ذکر کیا ہے کہ اصل تصنیف بابر نامہ پہلے ہی ترکی اور فارسی زبانوں میں شائع ہو چکی ہے جس کا عنوان ہے۔ "وقائع بابری "ان زبانوں میں عنوان اختیار کیا گیا ہے وہ درست ہے جیسا کہ محمد ظہیر الدین بابر اپنی تحریر میں بعض اوقات لفظ وقار لکھتے ہیں۔ متعلقہ ذرائع کی بنیاد پر ٹیکسٹ ایڈیٹر واضح کرتا ہے کہ بابر نامہ کو "تزک بابری" میں جائزہ لینے والوں سے غلطی ہوئی ہے۔

مقالہ نمبر

12

 

صفحہ نمبر

189تا 198

مقالہ نگار:

خالد امین

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

وفیاتِ پروفیسرِ احمد سعید

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں خالد امین مضمون نگار نے پروفیسر احمد سعید کے متعلق اپنی عقیدت کو پیش کیا ہے پروفیسر احمد سعید ایم اے او کالج لاہور اور اسلامیہ کالج لاہور میں تاریخ کے استاد کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔انہوں نے اسلامیہ کالج کی صد سالہ تاریخ کے موقع پر دو جلدوں پر مشتمل کتاب’’اسلامیہ کالج لاہور‘‘کی صد سالہ تاریخ کے نام سے لکھی وہ 25 سے زائد کتب کے مصنف تھے۔ علمی اور تحقیقی کام پر ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی ملا۔  وہ بہترین استاد اور اعلیٰ اخلاق کے مالک اور انسان پرور تھے۔

انہوں نے اپنی ایک کتاب ایم اے او کالج کے دو افراد کے نام کی۔  جن میں ایک کالج کی گھنٹیاں بجانے والا دوسرا سائیکلوں کی دیکھ بھال کرنے والا تھا۔ یہ دونوں ایم اے او کالج کے ملازم تھے۔ تحریک پاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح، مولانا ظفر علی خان، زمیندار,انقلاب ,وطن اور پیسہ اخبار ان کے خاص موضوعات تھے۔

مقالہ نمبر

13

 

صفحہ نمبر

1تا14

مقالہ نگار:

شہاب یار خاں

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Shakspear and The fall of civilization

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون شیکسپیئر کے زمانے میں طاعون کی بیماری پھیلنے سے متاثر ہونے کے بارے میں ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آجکل ہم کرونا وائرس کی وجہ سے مایوسی اور خوف  کا شکار ہیں۔ بے روزگاری اور خوف زدہ صورتحال سے دوچار شیکسپیئر لاک ڈاؤن میں تھا اور اس کے لندن شہر والے بھی اسی طرح گھر میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔ شیکسپیئر ایک ڈرامہ نگار تھا زندگی اس کے سامنے ہر طرح سے بدل رہی تھی۔اور وہ اپنے تمام تاثرات ،خدشات اور امیر اورغریب لوگوں کے شکوک و شبہات کا اندراج کرنا چاہتا تھا۔

مقالہ نمبر

14

 

صفحہ نمبر

15تا18

مقالہ نگار:

جاوید احمد خورشید

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Obituary Dr Syed Munir Wasti dies silently

توضیحاتِ مقالہ:

ڈاکٹر منیر واسطی کئی کتابوں کے مصنف تھے وہ اعلیٰ سطح پر بطور ایک محقق کے جانے جاتے تھے۔ وہ ایک دانشور فیملی سے تعلق رکھتے تھے وہ بہت کم گو اور نرم مزاج انسان تھے وہ فیض احمد فیض کے استاد تھے وہ جامعہ کراچی میں انگریزی کے استاد تھے وہ 25 نومبر 2020ء کو وفات پا گئے اور انھیں جامعہ کراچی میں ہی دفن کیا گیا ۔

 ٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تحقیقی و ادبی مجلہ" تحصیل"

                شمارہ ۔ 8        جلد اول

                جنوری۔ جون           2021ء

 

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

1تا 28

مقالہ نگار:

محمد اکرم چغتائی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

1857سے قبل جرمنی میں اردو فارسی اخبارات

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں برصغیر میں1857ء سے پہلے شروع ہونے والے نادرونایاب اردو اور فارسی اخبارات کو پیش کیا گیا ہے جو اس وقت برلن جرمنی کی مرکزی لائبریری میں محفوظ  ہیں۔اردو میں صحافت اور تحقیقی کام کی تاریخ نے کبھی ان اخبارات کا حوالہ نہیں دیا۔1857ء سے پہلے شروع ہونے والے گیارہ اخبارات تھے اٹھ اردو میں باقی فارسی میں یہ دہلی، لکھنؤ، آگرہ، بنارس دہلی بریلی کلکتہ سے شائع ہوئے۔محفوظ شدہ اخبارات چار سو انتالیس صفات پرمشتمل ہیں۔اردو جرائد کی تعریف میں کبھی بھی بنارس کے زائرین ہند کا ذکر نہیں کیا گیا۔       

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

29تا 40

مقالہ نگار:

عارف نوشاہی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان کے پچاس سال

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کے مصنف ان برسوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کا گہری نظر سے مشاہدہ کرنے اور اپنی علمی قابلیت کی وجہ سے دونوں ممالک پاکستان اور ایران کے درمیان ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے والی سرگرمیوں کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

41تا48

مقالہ نگار:

محمد اسلم انصاری

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

ترجمہ قرآن حکیم از علامہ محمد مارما ڈیوک پکھتال

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون مارما ڈیوک پکھتال نے قرآن پاک کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا اس پر روشنی ڈالتا ہے اس انگریزی ترجمے سے انگریزی زبان کے سیکھنے والے طبقے کو کافی فائدہ پہنچا مارما ڈیوک بطور مترجم اور ناول نگار کے بہت شہرت رکھتے تھے اور نامور انگریزی مترجمین   نے ان کی حیثیت کوخوب  پہچانا اور سراہا۔ علامہ رشید رضا جو کہ محمد عبدوکے شاگرد ہیں۔ انہوں نے ترجمے کا جائزہ لیا۔ترجمہ مکمل کرنے کے بعد وہ جانتا تھا کہ ان کے ترجمہ کے کام کو اس وقت تک خوش آمدید نہیں کہا جائے گا جب تک الازہر یونیورسٹی کے علمااسے قبول نہ کریں۔               

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

49تا84

مقالہ نگار:

لیلیٰ عابدی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

انیسویں صدی کی اردو لغت غیر معیاری اسالیب زبان

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کا مقصد انیسویں صدی کے اردو لغات میں اردو الفاظ کے بے ہودہ بول چال کے استعمال کو تلاش کرنا ہے۔اس میں لغت نگاروں کے کے ذریعے زبان کے اس طرح کے استعمال کے لئے اردو کے بہت سے مساوی الفاظ کا ذکر ہے۔ مضمون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وقت ہماری اردو کیا تھی ؟اس میں اردو کی معروف لغات، لغت نگاروں اور شعرا کا حوالہ دیا گیا ہے۔اردو لغت نگاروں میں ان الفاظ کو اپنی تخلیقات میں شامل کرنے کا کوئی معیار نہیں تھا۔لغت نگاروں  کا سماجی پس منظر ان الفاظ کے لئے مختلف معیارات کا باعث بنا۔

مقالہ نمبر

5`

 

صفحہ نمبر

85تا 119

مقالہ نگار:

ٹی آر رینا

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

رشید حسن خان کی فارسی دانی بر عظیم کے کلاسیکی سرمایہ

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون برصغیر میں کلاسیکی فارسی کے بارے میں معروف تحقیق اردو کی متعدد متون کے مدیر رشید حسن خان کی مختصر سوانح حیات اور نقطہ نظر پیش کرتا ہے جو زیادہ تر ان کے شائع شدہ اور غیر مطبوعہ خطوط پر مبنی ہے۔رشید حسن خان نے علامہ شبلی کی فارسی تصنیف کی تدوین کی ہے جس میں ان کی استعاروں اور تشبیہات کے منفرد استعمال کو مدیر نے سہراہا  ہے۔خان نے خاقائی  کے کام کا بھی تنقیدی  تجزیہ کیا۔

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

120تا 150

مقالہ نگار:

ظفر حسین حجازی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

علامہ اقبال اور مغربی تہذیب کی فکری بنیادیں

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں امت اسلامیہ اور انسانیت کے خلاف مغربی نظریہ کے بارے میں علامہ اقبال کے تنقیدی نقطہ نظر پر  بحث کی گئی ہے۔سائنسی  نظریات کے بارے میں ان کی سمجھ نے انہیں الحاد اورسراسر سرمایہ داری کی طرف راغب کر دیا۔ انسانوں کے درمیان دشمنی ، خود غرضی ،انا پرستی اور مادیت پرستی ان کے تقاضوں کی مشترکہ خصوصیات ہیں۔ یورپی علماء نے انیسویں صدی میں کچھ علمی بحث کو نیا اور تازہ سمجھا جس پر عربی علماصدیوں پہلے بحث کر چکے تھے آئن سٹائن کے نظریے کی بنیادی باتیں ماضی میں اسلامی اسکالر نے پہلے ہی زیر بحث لائی تھیں۔

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

1تا18

مقالہ نگار:

حسن بیگ

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Assessment of Urdu Babarnam as by Uzbek Researcher

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں پی ایچ ڈی کے تحقیقی کام پر تبصروں کے بارے میں وضاحت کرتا ہے بابر نامہ کے اردو تراجم اور اصل نثر کی زبان کے مخطوطہ سے ان کا موازنہ کرتاہے۔ مضمون میں ان غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو پی ایچ ڈی کے تحقیقی کام میں نہیں ہونی چاہیے مضمون میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ریسرچ سکالر کو1924 ء میں خجستہ سلطانہ بیگم کی تدوین کردہ بابر نامہ کے اصل کام کا انتخاب کرنا چاہئے تھا تاکہ اس کا ترکی زبان کے نسخے ؎سے موازنہ کیا جا سکے۔ اس کے برعکس ریسرچ سکالر عالم نے نصیر الدین حیدر کے اردو تراجم کا انتخاب کیا جس کی تدوین عبیداللہ قدسی نے کی۔ تحقیقی کام کے بنیادی ترجمے میں خجستہ سلطانہ بیگم کا تعارف اور نوٹس شامل نہیں ہیں۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

19تا32

مقالہ نگار:

محمد اسد حبیب

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Udas Naslain A theorical Analasis of Abdullah Hussain Urdu Novel

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون ترجمہ کی تکنیک اور طریقہ کار کا جائزہ لیتا ہے۔ عبد االلہ حسین  کا ناول "اداس نسلیں" مصنف نے خود لکھا اور’’The reary Generation‘‘کے نام سے انگریزی میں ترجمہ کیا اور ترجمہ کرتے ہوئے عبداللہ حسین نے ترجمہ کی تکنیک اور ترجمے کے طریقے کی طرف بہت خاص  توجہ دی۔ ترجمہ کی نوعیت اور اصل متن اور  ترجمہ شدہ  متن کے درمیان تعلق کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نتائج نکالے گئے۔مضمون  نگار ترجمہ کے مقصد کا اندازہ لگاتا ہے اورسامعین پر ہدف کے متن کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے جسے ماخذ متن کے ذریعے تخلیق کیا گیا ہے۔

 

تحقیقی و ادبی مجلہ" تحصیل"

                شمارہ ۔9   جلد اول

                جولائی۔۔۔دسمبر 2021ء

 

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

1تا40

مقالہ نگار:

انور معظم

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

عقلیت پسند سید جمال الدین افغانی: اسلامی سوشل ازم کی حمایت

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کا مقصد سید جمال الدین افغانی کے نظریے کو اجاگر کرنا ہے۔ جس کے مطابق اسلام اور اس کے نازل کردہ قوانین عقلیت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔ اور اس طرح مسلمان مذہبی سماجی اخلاقیات کی بنیاد پر اپنے عقیدے کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی طور پر متحد ہو سکتے ہیں۔

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

41تا 72

مقالہ نگار:

شمس بدایونی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

پروفیسر حنیف نقوی کے خطوط بنام شمس بدایونی

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں پروفیسر حنیف نقوی کے پچیس غیرمطبوعہ خطوط پیش کئے گئے ہیں جو ڈاکٹر شمس الدین بدایونی کو بھیجے گئے ہیں۔یہ خطوط اردو حروف کے بہت سے دوہے اور ایک شعر "سطر" کے بارے میں بہت سی مفید معلومات سے بھرے ہوئے ہیں۔ جو اقوال کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

73تا 86

مقالہ نگار:

یوسف چوہان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اصول ادبی تنقید: نفسیاتی مکتبہ فکر اور سائنسی طریق کار

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون کا مقصد آئی اے رچرڈز کے اردو تراجم اور ان کے ماہرین مثلا ڈاکٹر جمیل جالبی، بلال احمد زبیری، ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے حوالے سے اہم ادبی تنقید کے اصولوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔تقریبا تمام اردو مترجمین نے ایمانداری اور روانی سے ترجمہ کرنے کی وکالت کی۔مضمون میں اردو مترجمین کے رجحان کو ظاہر کیا گیا ہے۔ جنہوں نے ماخذ متن  کے اسلوب کی پیروی نہیں کی۔مضمون نگار متن کا ترجمہ کرتا ہے۔ ا صطلاحات کا ترجمہ کرنا ہر متر جم  کے لئے بہت دشوار ہوتا ہے۔

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

87تا136

مقالہ نگار:

سید عامر عالم رضوی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اردو رباعی تنوعات اسالیب و موضوعات

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون دکنی دور سے لے کر آج تک پھیلے ہوئے اردو کے مرکوف شعرا کو پیش کرتا ہے۔تاکہ تجزیہ کیا جا سکے کہ شاعری کلاسیکی، رومانویت سماجی، سیاسی اور دیگر وسیع موضوعات کو کس طرح پیش کرتی ہے۔میر تقی میر نے بھی اپنے جذبات و احساسات کے  اظہار  کے لیے  اس فورم  کا استعمال کیا۔ دہلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے شعرا جن میں مرزا غالب، ذوق ،ظفر، مومن نے اپنے اپنے جذبات کی عکاسی کی ہے۔

مقالہ نمبر

5

 

صفحہ نمبر

137تا150

مقالہ نگار:

محمد زبیر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

صحرائے راجپوتانہ کا ایک گمنام فارسی شاعر فیض عثمانی

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون معروف محقق حافظ محمود شیرانی کے ایک نامعلوم فارسی شاعر فیض عثمانی کے بارے میں ایک مضمون پیش کرتا ہے یہ مضمون مظہر محمود شیرانی کی 8جلدوں میں مدون رہا۔یہ مضمون محقق کی برسی کے موقع پر 15 اکتوبر 1980ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا۔اس مضمون میں ان کے فارسی اشعار کو نعت ،حمد ،غزل کی مختلف شکلوں میں دکھایا گیا ہے۔ اس مضمون میں ان کی شاعری پر مختصر تبصرہ کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

151تا 158

مقالہ نگار:

فضل کریم

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

بلوچی افسانوں کے اردو تراجم، آغاز و ارتقا

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں بتایا گیا ہے کہ بلوچی زبان میں ترجمہ کب اور کیسے شروع ہوا۔بلوچی زبان میں سب سے پہلے مذہبی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا۔ مذہبی متون کا بلوچی ترجمہ 1876ء میں مکتبہ درخالی سے وجود میں آیا۔ جس میں قرآن پاک اور دیگر اسلامی متون کا بلوچی اور بریلوی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تھا کہ عیسائی مشنریوں کی کوشش کا مقابلہ کیا جاسکے جو اس وقت بلوچستان کے لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے سرگرم تھے۔ بلوچی زبان میں ادبی ترجمہ کا آغاز1950ئ  میں ہوا۔جب مولانا خیبر محمد ندوی کے زیر اہتمام "ماہنامہ" عمان" نے بہت تعاون کیا۔

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

159تا169

مقالہ نگار:

محمد اکرم چغتائی

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

جرمنی میں قدیم اردو مطبوعات 1857سے قبل

توضیحاتِ مقالہ:

جرمنی میں قدیم  اردو مطبوعات کے متعلق ایک مقالہ "تحصیل" شمارہ ہشتم جنوری جون 2021ء میں تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔جس میں 1857ء سے قبل کے نادر ونایاب اخبارات کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے جو ڈاکٹر لوئیس اسپرنگر جرمنی جاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔زیر نظر مقالہ میں  عربی، فارسی اور اردو کی نادر ونایاب کتب پر مفید معلومات دی گئی ہیں جو عرصہ دراز سے گمنامی میں پڑی رہیں۔ مضمون نگار نے بہت محنت اور کوشش سے نادر و نایاب ذخیر ے کو شائع کرنے کا ارادہ کیا اور اس سلسلے میں محمد اکرام چغتائی نے اردو کتب کے سرورق پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاکہ محققین و قارئین اس قیمتی ذخیرے سے واقف ہو سکیں  اور ان کی موجودگی کا بھی ان کو علم ہو سکے۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

 1تا 12

مقالہ نگار:

شہاب یار خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

New Begning as a pseudoconcept in Shakespearan art

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون کا مقصد شیکسپیئر کے اس تصور کو پیش کرنا ہے جس میں زندگی کا نئے سرے سے آغاز کیا جائے۔ایک ایسا آغاز جس میں ماضی کے پچھتاوے کا احساس بھی ہو اور نئے آغاز کے لیے تبدیلی ضروری ہے۔شیکسپیئر کے ڈرامے کے سیاسی ڈھانچے میں ہونے والی تبدیلی بلکل اس قسم کی ہے جو ہم دنیا بھر کے سماجی ،تعلیمی اور سیاسی نظاموں میں محسوس کرتے ہیں۔مخصوص افراد اور سیاسی جماعتوں کا عروج و زوال اس کے بنیادی اصولوں کو ازسرنو متعین کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔انسانی فطرت اور  عجز و انکساری،لالچ، ظلم اور جہالت،خود غرضی ، انا پرستی نام اور چہرے بدلنا اور کردار بدلنے کے علمبردار وہی رہتے ہیں اسی وجہ سے تبدیلی کا تصور جعلی اور بے معنی نظر آتا  ہے۔

مقالہ نمبر

9

 

صفحہ نمبر

13تا22

مقالہ نگار:

محمد صہیب خان

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

The Administration of colonel Minchin: A new Era of development and prosperity for the Bahawal Pur state

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون ایک تاریخی شخصیت کرنل منچن کے بارے میں ہے جو مغلیہ سلطنت کے زوال پذیر سالوں میں ابھرنے والی ریاست بہاولپور میں اہم امور سرانجام دے رہے تھے۔نواب محمد بہاول خان چہارم کے انتقال کے بعد ریاست بہاولپور کے ا مور کی دیکھ بھال کے لئے کرنل منچن 1866ء میں اسسٹنٹ کے طور پر تعینات کیا گیا۔وہ درحقیقت بہاولپور میں انقلابی تبدیلیاں لائے بعد میں ان کے ماتحتوں جانشینوں نے ان کی پیروی کی اور ان کے طرز حکمرانی کو اپنایا۔

مقالہ نمبر

10

 

صفحہ نمبر

23تا40

مقالہ نگار:

محمد ذیشان اختر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

Modernity in Pakistan fantastic roots and where to find them

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون پاکستان میں جدیدیت کی مقبولیت پر روشنی ڈالتا ہے۔ بنیادی اور اطرافی جدیدیت کی لہرنے اردو ادب کو بخوبی اپنی لپیٹ میں لے کر بہت حد تک اثر انداز کیا لیکن یہ لہر انگریزی سرپرستی سے شروع ہوکر پاکستان میں جدیدیت کے خاتمے  پر جا پہنچتی ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تحقیقی و ادبی مجلہ" ماخذ "

شمارہ ۔ 1        جلد اول

مارچ                      مئی 2020ء

 

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

1تا 12

مقالہ نگار:

اللہ یار ثاقب رضا

 

ڈاکٹر مشتاق عادل

 

 

عنوان مقالہ:

نذیر احمد کے ناولوں میںتکنیکی رجحانات

توضیحاتِ مقالہ:

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کی سیاسی ، سماجی،معاشرتی ،معاشی اور تہذیبی  حالت بہت خراب تھی اور ان حالات سے مسلمانوں کے ذہنی اور اخلاقی رویوں میں بھی نمایاں تبدیلیاں آئیں۔اسی انتشار اور خانہ جنگی کے دور میں سر سید تحریک کے تحت جو شعرااور ادبا نے مسلمانوں کی مدد کی۔ان میں ڈپٹی نذیر احمد بھی تھے۔جنہوں نے ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کے تحت مسلمانوں کی عقلی اور اخلاقی تربیت کے لیے لکھا۔اردو ناول نگاری میں ڈپٹی نذیر احمد نے پہلی دفعہ تکنیک کا استعمال کیا جس کے تحت انہوں نے اپنے خیالات کو بہتر اور موثر انذاز میں قارئین تک پہنچایا۔انہی تکنیکی ر جحانات کا تفصیل سے تجزیہ کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

13تا23

مقالہ نگار:

عرفان پاشا ڈاکٹر

 

ڈاکٹر محمد امجد

ڈاکٹر عابد

 

عنوان مقالہ:

 جدید اردو شاعری میں دہشت گردی

توضیحاتِ مقالہ:

بیسویں صدی میں عالمی دہشت گردی نے جہاں زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔ خصوصا9/ 11کے  بعد عالمی سطح پر دہشت گردی نے سماجی زندگی پر بہت اثر کیا۔اس طرح ادبااور شعراکو بھی دہشت گردی نے متاثر کیا اور انہوں نے اپنی شاعری میں دہشت گردی کے رجحان کی بھر پور مذمت  کی اور اردو شاعری میں دہشت گردی کو پیش کیا۔ ان شعرا میں منصورآفاق ،عباس تابش،ریاض مجید ،کشور ناہید اور تبسم کاشمیری نمایاں ہیں۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

24تا34

مقالہ نگار:

محمد مقصود حسین شاہ

 

ڈاکٹر ظفر حسین ہرل

 

 

عنوان مقالہ:

پروفیسر محمد یونس حسرت فکاہیہ شاعری کے تناظر میں

توضیحاتِ مقالہ:

پروفیسر محمد یونس حسرت ایک ڈراما نگار مترجم ،اشاریہ نویس ، محقق اور مدون تھے۔پروفیسر محمد یونس بچوں کے ادیب اور شاعر بھی تھے۔ انہوں نے نہ صرف بچوں کے لیے ادب تخلیق کیا  بلکہ بڑوں کے لیے بھی شاعری کی۔ انہوں نے لوگوں کے مسائل کو مزاحیہ شاعری کے ذریعے بیان کیا۔ وہ معاشرے میں پھیلی ہوئی خامیوں اور مسائل کو اپنی شاعری کے ذریعے منظر عام پر لا کر ختم کرنے کے خواہشمند تھے۔ اس مضمون میں ڈاکٹر یونس حسرت کی فکا ہیہ شاعری کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

35تا44

مقالہ نگار:

رخسانہ بلوچ ڈاکٹر

 

ڈاکٹر محمد افضال بٹ

 

 

عنوان مقالہ:

سندی تحقیق اور تدوین

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون سندی تحقیق میں اردو تالیف کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس وقت نوے فیصد سندی تحقیق فکشن کے گرد گھومتی ہے۔آٹھ سو سال پرانی  شاعری فی الحال  تحقیق سے باہر ہے۔ خاص طور پر کلاسیکی متون کی تالیف نہ ہونے کے برابر ہے۔  سندی تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

مقالہ نمبر

5

 

صفحہ نمبر

54تا62

مقالہ نگار:

خالد ندیم

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اردو میں فرضی مکتوبات نگاری کی چند مثالیں

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں فرضی خطوط کا ذکر کیا گیا ہے۔ایسے خطوط جس میں مصنفین اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے لکھتے تھے جن میں کسی خط کا جواب تو نہیں ہوتا لیکن پھر بھی مصنف ایک مضمون لکھتا ہے۔یہ مضامین سنجیدہ تنقیدی تحریر یں ،خیالات کاپرچار ،تاثراتی،ادبی تحریریںاورمضامین ہوسکتے ہیں۔انہیں فرضی مکتوب کہا جاتا ہے

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

36تا78

مقالہ نگار:

حمیرا خالد

 

ڈاکٹر شاہد اقبال کامران

 

 

عنوان مقالہ:

اسلامی فقہ کی تشکیل جدید اور اقبال

توضیحاتِ مقالہ:

اقبال مشہور مذہبی اسلامی مفکر تھے۔اور ان کی اسلامی فکر کی ابتدا ہوئی۔اقبال نے اجتہاد کی وضاحت اس نظریے کے ساتھ کی کہ وہ آزادانہ فیصلے کا اظہار کرے لیکن فیصلے سے آزاد نہ ہو اور قرآن و سنت سے آزاد نہ ہو۔ اقبال نے کبھی بھی غیر فعال رویے کو قبول نہیں کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ نہ تو قدامت پرستی اور نہ ہی جدیدیت اچھی ہے بلکہ توازن ہونا چاہیے۔    

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

79تا 102

مقالہ نگار:

ارشد بیگم ڈاکٹر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مرزا سعید کے کرداروں کی نفسیاتی کشمکش مغربی فکر کے تناظر میں

توضیحاتِ مقالہ:

مرزا سعید اردو کے عظیم ناول نگار ہیں۔ان کے ناولوں پر مغربی ادب اور تہذیب و ثقافت کا بہت گہرا اثر ہے۔ انہوں نے" خواب ہستی  " اور" یاسمین " کے کر داروں میں نفسیاتی کشمکش کو پیش کیا ہے۔ مشرقی ممالک کے لئے  مغرب  خوابوں کی دنیا ہے۔ اور بہت سے لوگ مغرب جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔مرزا سعید کے ناول ان  کی نفسیاتی کشمکش پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اپنے ہم معاصرین کی طرح وہ بھی تعلیم کو مسلمانوں کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ اس مقالے میں انہی مسائل کے پس منظر میں مغربی ممالک کی نفساتی کشمکش کے بارے میں تفصیلی مطالعہ کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

103تا116

مقالہ نگار:

شگفتہ فردوس ڈاکٹر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

معاصر مزاحمتی شاعری میں خواتین کا کردار

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں عصری مزاحمتی شاعری میں خواتین کے کرداروں اور ان کے شاعرانہ تاثرات کا احاطہ کیا گیا ہے۔سماجی جبر ،معاشی استحصال ،سیاسی محکومی اور طوق کسی قوم یا معاشرے کے افراد میں مزاحمتی رویے کے ابھرنے کی بنیادی وجوہات ہیں۔ترقی پسند تحریک نے عالمی سطح پر استعماری قوتوں کے خلاف مزاحمتی شاعری کو بھی فروغ دیا۔حقوق نسواں نے  بھی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائی اور سماجی پابندیاں بھی مزاحمتی ادب کی شکل میں سامنے آئیں۔

مقالہ نمبر

9

 

صفحہ نمبر

117تا133

مقالہ نگار:

سبینہ اویس اعوان ڈاکٹر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اقبال کا تصور نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر ایک تفصیلی جائزہ

توضیحاتِ مقالہ:

اقبال کی شاعری میں خاص طور پر نوجوان نسل کے لئے ایک پیغام ہے۔علامہ اقبال کا مجموعہ کلام جاوید نامہ عوام میں مقبول تحریر تھی۔ یہ نظم مسلم نوجوان نسل کے لیے ایک رہنما اصول پیش کرتی ہے۔انہوں نے نہ صرف اپنے بیٹے کو مخاطب کیا بلکہ نوجوان لیڈروں میں اپنا نظریہ پیش کرنے کی کوشش بھی کی۔ اقبال نوجوان نسل کے بارے میں بہت پر امید تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں استعمال کرکے ایک نئی دنیا کو تشکیل دے سکتا ہے۔ اقبال کا نصب العین آپ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے کردار کی تشکیل اور انقلاب لا سکتے ہیں۔

مقالہ نمبر

10

 

صفحہ نمبر

134تا141

مقالہ نگار:

محمد شوکت علی

 

جاوید اقبال

ڈاکٹرعرفان

 

عنوان مقالہ:

اقبال شناسی کی روایات میں اہم اقبال نمبرز

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون میں ان مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جو قیام پاکستان سے قبل اقبال نمبر شائع کرتے تھے۔ ان رسالوں میں" نیرنگ خیال"،" جو ہر" اور "طلوع اسلام" قابل  ذکر ہیں۔قیام پاکستان کے بعد اہم رسائل کے کام پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان جرائد کے مطالعہ سے نہ صرف اقبالیات پر بلکہ  اقبالیات کی دلچسپی کا بھی پتہ چلتا ہے۔ان رسالوں نے نہ صرف پاکستان میں اقبال کی تفہیم کو اجاگر کیا بلکہ اقبال کی بین الاقوامی شہرت میں بھی اضافہ کیا۔ اس مضمون کو پڑھ کر ایک عام قاری اقبال کے متعلق ان جرائد  کے کردار سے آسانی سے واقف ہو سکتا ہے۔

مقالہ نمبر

11

 

صفحہ نمبر

142تا 151

مقالہ نگار:

ڈاکٹر نازیہ یونس

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

عشق بخیر کا جمالیاتی منظر نامہ

توضیحاتِ مقالہ:

"عشق بخیر" ایک معروف ہم عصر شاعر رحمان فارس کی خوبصورت نظموں کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب آرٹ ،محبت ،خوبصورتی، قدرتی مناظر اور نسائی خوبصورتی کی جمالیات کی جزئیات کی تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ نظم کے بعد نظم، آیت کے بعد آیت رحمان فارس نے اپنی محبت کی جادوئی طاقت اور خوبصورتی کی تفصیلات کو اس دلکش انداز سے پیش کیا ہے کہ قارئین محسور ہو جاتے ہیں۔ رحمان فارس شاندار تخیل اور فن  کو اس کی بہترین شکل کو فروغ دینے کے لیے ایک پر جوش و جذبے سے کام کرتے ہیں۔نسائی خوبصورتی کی اور جمالیات نقطہ نظر اتنی  مہارت سے پیش کیا گیا ہے کہ قارئین دیر تک اس کے اثر سے نکل نہیں پاتے۔

مقالہ نمبر

12

 

صفحہ نمبر

152تا 161

مقالہ نگار:

شائستہ حمید خان ڈاکٹر

 

ریحانہ کوثر

ماجد مشتاق

 

عنوان مقالہ:

ٖغلام عباس اور چیخوف کا موضوعاتی اشتراک

توضیحاتِ مقالہ:

یہ تحقیقی مضمون دونوں افسانوی مصنفین غلام عباس اور چیخوف کے تقابل سے متعلق ہے۔ دونوں ہی ادب کی دنیا کے معتبر نام ہیں۔ ان دونوں نے اپنے عہد کے ادب کو فروغ دینے کے لیے بہت سی مشہور اور بے مثال مختصر کہانیاں لکھیں۔ غلام عباس اور چیخوف مختلف  جگہوں پر رہنے کے باوجود ان کے خیالات، موضوعات اور فنی تحریروں میں کافی مماثلت تھی۔دونوں مصنفین کا موضوع عام انسان اور اردگرد سے لیا گیا ہے۔ ان کی بنیادی فکر اور مختصر کہانیوں کا موضوع انسانوں کی زندگی کے لئے لکھنا ہے۔

مقالہ نمبر

13

 

صفحہ نمبر

162تا178

مقالہ نگار:

فرزانہ اقبال ڈاکٹر

 

ڈاکٹر ندیم حسن

 

 

عنوان مقالہ:

اردو کے پردہ نشین مضمون نگار خواتین (ماقبل 1930) افسانے سے حقیقت تک، ایک تحقیقی جائزہ

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون ان خواتین مضمون نگاروں کے بارے میں ہے جو سماجی ،نسائی مسائل کی وجہ سے اپنے مضامین فرضی ناموں سے شائع کرتی تھیں۔ ان خواتین مضمون نگاروں کو  اردو مضمون نگاری کی تاریخ میں پردہ نشین کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس تحقیقی مقالے میں ان مضمون نگار خواتین کی خدمات اور ان کی سماجی مجبوریوں اور ان کی تخلیقات کی اشاعت کے لئے ان کی کوششوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ محققین نے ان کے اصلی ناموں اور خاندانی پس منظر پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

مقالہ نمبر

14

 

صفحہ نمبر

179تا 190

مقالہ نگار:

محمد آصف ڈاکٹر

 

محمد اشرف

 

 

عنوان مقالہ:

ریگ دیروز راشد کے تصورِ ماضی کی ایک جمالیاتی تجسیم

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون راشد کی نظم "ریگ دیروز" کے بارے میں ہے۔ جس میں شاعر ماضی کے تصور کو جمالیاتی اور فنی دلکشی پر غور کرتے ہوئے دریافت کرتا ہے۔راشد کا خیال ہے کہ ماضی بانجھ پن،  عدم پن کی علامت ہے۔ راشد کے مطابق ماضی  تباہی ،پسماندگی ،ظلم و جہالت ،آمریت زندگی کے قدیم تصور سے مغلوب ہے جس کا مستقبل کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ راشد اپنی تخلیقی اظہار کے لئے پرانے  فارسی، عربی اور مشرقی ادب سے استفادہ کرتے ہیں لیکن وہ ماضی کے استعاروں سے کوئی تعلق نہیں دکھاتا۔ ماضی کے خلاف پہلا رد عمل ان کی شاعری کا بنیادی جزو ہے اور اس کی جھلک اس نظم میں بھی نظر آتی ہے ۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

تحقیقی و ادبی مجلہ" ماخذ "

شمارہ ۔ 2         جلد اول

جون۔ اگست             2020 ء

 

مقالہ نمبر

1

 

صفحہ نمبر

1تا 18

مقالہ نگار:

روبینہ شاہین

 

ڈاکٹر محمد الطاف یوسف زئی

پروفیسر ڈاکٹر عامر سہیل

 

عنوان مقالہ:

گردشِ رنگِ چمن کا اسلوبیاتی مطالعہ معنیاتی تناظرات

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں "گردشِ رنگِ چمن"میں اسلوبیاتی خصوصیات کا معنیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔اسلوب بیان اطلاقی لسانیات کی اہم شاخوں میں سے ایک ہے۔یہ تحقیقی  نثر اور شاعری سے متعلق  ہے۔اس کے چار بنیادی شعبے ہیں جیسے صوتیات ، مورفولوجی ،نحو اور معنوی ہیں۔بعض اوقات ہم نظم و ضبط کے پانچویں شعبے عملیت پر بھی بحث کرتے ہیں۔

مقالہ نمبر

2

 

صفحہ نمبر

18تا 28

مقالہ نگار:

انور علی ڈاکٹر

 

ڈاکٹر طاہر عباس

 

 

عنوان مقالہ:

اردو افسانے میں صوبہ خیبر پختونخواہ کی ایک رسم ’’سورہ‘‘ کا تجزیہ

توضیحاتِ مقالہ:

پختونوں میں بے شمار صفات ہیں۔جو ان کو روشن خیال ظاہر کرتی ہیں لیکن ان کے کچھ نقصانات بھی ہیں اور کچھ ایسے رسم و رواج  اب بھی موجود ہیں جو صدیوں سے چلتے ہیں لیکن پختون ان کو پسند نہیں کرتے۔ اس مقالے کا مقصد پختونوں کو ایک الگ روشن راہ دکھانا ہے۔

مقالہ نمبر

3

 

صفحہ نمبر

29تا40

مقالہ نگار:

امتیاز حسین

 

ڈاکٹر سعدیہ طاہر

 

 

عنوان مقالہ:

انشائیہ اردو ادب میں

توضیحاتِ مقالہ:

انشائیہ کو اردو ادب میں نثر کی ایک صنف کے طور پر جانا جاتا ہے پہلے تو انشائیہ کو سمجھنے کے بارے میں کافی بحث ہوئی اور اس کے حق اور خلا ف بے شمار مضمون لکھے گئے۔ پچھلے ساٹھ سالوں میں انشائیہ پر ہونے والے کام کو دیکھ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ انشائیہ نے  اردوادب میں زبردست ارتقائی منازل طے کی ہیں۔

مقالہ نمبر

4

 

صفحہ نمبر

41تا54

مقالہ نگار:

فہمیدہ تبسم ڈاکٹر

 

ڈاکٹر ارم صبا

 

 

عنوان مقالہ:

اکیسویں صدی اردو نظم اور ڈرامائی عناصر(منتخب مطالعہ)

توضیحاتِ مقالہ:

مضمون کے مطابق اکسیویں صدی کی اردو شاعری اور ڈرامائی عناصر ادبی تحریکیں اور رجحانات سے اردو ادب میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ لوگ اپنے ادبی خیالات اور رجحانات کا اندازہ اپنی سوچ کے مطابق کرتے ہیں جن حالات سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ شاعری کی تین اہم  اقسام ہیں۔ بیانیہ ،ڈرامائی اور گیت۔جن کا احاطہ کیا گیاہے۔

مقالہ نمبر

5

 

صفحہ نمبر

55تا71

مقالہ نگار:

دبیر عباس

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

اسلم انصاری کی رباعی

توضیحاتِ مقالہ:

زیر نظر مضمون اسلم انصاری کی شاعری میں اہم صنف سخن قربانی کے متعلق ہے۔اسلم انصاری عصر حاضر کے ممتاز اردو شاعر اقبال شناس، محقق اورنقاد بھی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف اردو بلکہ عربی، فارسی شاعری کی۔ انھوں نے اردو میں نظم اور غزل کے علاوہ ر باعی لکھنے کا بھی کامیاب تجربہ کیا۔

مقالہ نمبر

6

 

صفحہ نمبر

72تا79

مقالہ نگار:

روبینہ یاسمین

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

محمد عاطف کی اردو غزل میں رومانی عناصر

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں محمدعاطف کی اردو غزل میں رومانوی عناصر کو پیش کیا گیا ہے۔ رومانیت انسانی فطرت کا نچوڑ اور انسانی معاشرے کا بنیادی وصف ہے۔انسانی زندگی رومانیت کے بغیر بے رونق ہے۔ محبت اور جذبہ انسانی تعاملات اور شاعرانہ اظہار کی خصوصیات ہے۔

مقالہ نمبر

7

 

صفحہ نمبر

80تا87

مقالہ نگار:

صائمہ علی ڈاکٹر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

جون ایلیا کی غزل کا لسانی مطالعہ

توضیحاتِ مقالہ:

جون ایلیا کی شاعری میں زبان بھی اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے جتنی کہ عقل۔ جون ایلیا کا کلاسیکی روایت سے گہرا تعلق ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں کافی شاعرانہ اظہار بھی ہے۔ وہ کلاسیکی روایت سے قریبی تعلق رکھنے کے باوجود اپنی شاعری میں گرامر کے ضوابط اور  ملازمین کے فرسودہ اور سخت الفاظ کی نفی کرتا ہے۔

مقالہ نمبر

8

 

صفحہ نمبر

88تا99

مقالہ نگار:

شگفتہ فردوس ڈاکٹر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

بیم و رجا کے تناظر میں وزیر آغا کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

توضیحاتِ مقالہ:

وزیر آغا ایک ہمہ گیر اور پرعزم شخص کا نام ہے۔ جن کے تجربات و مشاہدات سے ادبی دنیا مستفید ہوئی ہے۔ انہوں نے شاعری اور ادب کی دیگر اصناف میں اپنی شناخت بنائی اور ثقافتی تناظر میں اپنی شاعری کو ایک نئی سمت دی۔اس تحقیقی مقالہ میں ان کی شاعری کا اسی تناظر میں تجزیہ کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

9

 

صفحہ نمبر

100تا112

مقالہ نگار:

نادیہ یونس ڈاکٹر

 

 

 

 

عنوان مقالہ:

مستنصر حسین تارڑ کے ناول ’’شہر خالی، کوچہ خالی‘‘ کا سماجی ،نفسیاتی تجزیہ

توضیحاتِ مقالہ:

مستنصر حسین تارڑ کا شمار عہد حاضر کے مقبول اور معروف ناول نگاروں میں ہوتا ہے۔"شہر  خالی کوچہ خالی " ناول covid-19 کے بارے میں ہے۔ اس ناول " شہر خالی کوچہ خالی" میں covid-19 کے دوران عوام کے تاثرات اور جذبات کو بیان کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

10

 

صفحہ نمبر

113تا125

مقالہ نگار:

شائستہ حمید خاں ڈاکٹر

 

واصف لطیف ڈاکٹر

سفیر حیدر

 

عنوان مقالہ:

گلوبلائزیشن اور اردو ،پنجابی ادب

توضیحاتِ مقالہ:

عالمگیریت کے مثبت اور منفی اثرات نے سب کو متاثر کیا ہے۔ہم عالمگیریت کی رفتار میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔ اس مضمون میں عالمگیریت کے اردو، پنجابی ادب پر اثرات کا ایک تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے جو کہ انسانیت کے ساتھ ساتھ مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کے درمیان برسرپیکار ہیں۔

مقالہ نمبر

11

 

صفحہ نمبر

126تا 141

مقالہ نگار:

وانگ یو ٹونگ

 

ڈاکٹر ارشد بیگم

زینت افشاں ڈاکٹر

 

عنوان مقالہ:

اردو اور چینی ضرب الامثال و محاورات کا تجزیاتی مطالعہ

توضیحاتِ مقالہ:

اس مضمون میں تفصیل سے بتایا گیا کہ محاورہ کیا ہے اور محاورے کی مختلف اقسام اور معنی کو مثالوں کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ اردو اور چینی زبانوں کے معروف محاورات اور ضرب الامثال کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

12

 

صفحہ نمبر

142تا155

مقالہ نگار:

فرزانہ اقبال ڈاکٹر

 

ڈاکٹر ندیم حسن

ڈاکٹر ولی محمد

 

عنوان مقالہ:

مادرِ تہذیبِ نسواں محمدی بیگم حیات ، شخصیت اور خدمات

توضیحاتِ مقالہ:

محمدی بیگم اردو مضمون نگاری کی تاریخ میں قابل مضمون نگار تھیں۔انہوں نے تہذیب النسواں میں درجنوں مضامین لکھے تھے۔ اس تحقیقی مقالے میں محققین نے ان کی خاندانی پس منظر،کیریئر ،مولوی ممتاز علی کے ساتھ تعلقات کا تنقیدی تجزیہ کیا گیا ہے۔

مقالہ نمبر

13

 

صفحہ نمبر

156تا171

مقالہ نگار:

حافظ سیف اللہ خاں

 

ڈاکٹر محمد آصف

 

 

عنوان مقالہ:

مکاتیب اقبال بنام جرمی۔۔ ایک تنقیدی جائزہ

توضیحاتِ مقالہ:

مولانا غلام قادر جرمی اور علامہ اقبال کے درمیان خطوط کا یہ مجموعہ ان کے درمیان مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات کی ایک شاندار مثال ہے۔ اس سے  نہ صرف ان دونوں عظیم ہستیوں کی ذاتی زندگی کا پتہ چلتا ہے بلکہ ان کے روحانی تعلق ، کردار اخلاق ،اقدار و خصوصیات اور فکری صلاحیتوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔

مقالہ نمبر

14

 

صفحہ نمبر

172تا186

مقالہ نگار:

ثمرینہ لیاقت ڈاکٹر

 

ڈاکٹر نازیہ

شرمین نعیم

 

عنوان مقالہ:

لسانیات کے تاریخی تناظر میں لسانی خاندانوںکا تحقیقی جائزہ

توضیحاتِ مقالہ:

یہ مضمون لسانی تاریخ اور زبانوں کے خاندان کی تجزیاتی تحقیق کے بارے میں ہے۔ زبان لفظوں کے ذریعے احساسات کو ظاہر کرنے کا طریقہ ہے لیکن نہ صرف الفاظ کے ذریعے ہم اپنے احساسات کا اظہار کرتے  ہیں بلکہ اس کا اظہار اپنے رویے، اپنی تحریر اور  ہاتھ کی علامت کے ذریعے بھی کر سکتے ہیں۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...