Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > لغراں > 2 حضرت ابوانیس محمدبرکت علی قدس سرہ العزیز

لغراں |
مھر گرافکس اینڈ پبلشرز
لغراں

2 حضرت ابوانیس محمدبرکت علی قدس سرہ العزیز
ARI Id

1688708616775_56116685

Access

Open/Free Access

Pages

17

مختصر سوانح حیات بانی و تاجدار دارالاحسان

حضرت ابوانیس محمد برکت علی قدس سرہ العزیز

 

ولادت باسعادت

                آپؒ کا نام محمدبرکت علی کنیت ابوانیس اور لقب باوا جی سرکار ہے۔ آپ بروز جمعرات 27 ربیع الثانی 1329ھ بمطابق 27 اپریل 1911ء برھمی ضلع لودھیانہ میں دھاریوال جٹ خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد کا اسم گرامی نگاہی بخش اور والدہ محترمہ جنت بی بی تھیں۔

                آپؒ  مادر زاد ولی تھے۔ آپؒ کی والدہ نیک خاتون تھیں جو حضور اقدسﷺ پر کثرت سے درود بھیجا کرتیں والد ماجد بھی نہایت صالح اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے فوج میں ملازم تھے آبائی پیشہ کھیتی باڑی تھا اہل اﷲ سے محبت اور خدمت ان کا وطیرہ تھا۔ اکثر ایک مجذوب کی خدمت میں حاضری دیتے جس نے شادی سے بھی قبل آپؒ کی آمد کی خوشخبری ان الفاظ میں دے دی تھی۔

                نگابیا تیری قسمت میں کچھ نہیں البتہ تیرے ہاں ایک لڑکا ہوگا بڑا زبردست یہ پیشن گوئی آپؒ کی ولادت باسعادت سے پوری ہوئی۔ آپؒ کے دادا کے دادا باباجی وندو شاہؒ  درویش الوراء بھی صاحب حال بزرگ تھے۔ دریائے ستلج کے کنارے (وندے) رہا کرتے۔ اسی مناسب سے وندو شاہ کہلائے ان کا مزار صدر ملیک نامی گاؤں میں ہے۔ والد ماجد برھمی میں والدہ ماجدہ آدھی کوٹ ضلع خوشاب میں محو استراحت ہیں۔

بچپن

                آپؒ کی طبیعت بچپن ہی سے نیکی کی طرف راغب تھی۔ سنجیدہ طبیعت اور خلوت پسند تھے۔ قرآن کریم کی تعلیم اپنے گاؤں سے حاصل کی۔ پھر مروجہ تعلیم کے لیے ہلواڑہ جانے لگے۔ گاؤں کی پہلی مسجد کی تعمیر کی سعادت بھی آپؒ کے حصے میں آئی۔ آپؒ کا زیادہ وقت وہیں تلاوت قرآن کریم اور ذکر و فکر میں گزرتا۔

خانگی زندگی:

                سولہ سال کی عمر میں آپؒ کی شادی کر دی گئی زوجہ محترمہ کا نام برکت بی بی تھا جو نہایت سادہ طبیعت نماز روزہ کی پابند اور خدمت گزار تھیں ان کو سرکارؒ  نے مخدومہ دارالاحسان کے لقب سے نوازا ان کے بارے میں شہ ولایت حکیم سید امیر الحسن صاحب سہارنپوریؒ نے فرمایا حضور اقدسﷺ کے صحابہ کرام میں جو مقام ابو طلحہ کی بیوی کا تھا میرے مریدوں میں وہی مقام برکت بی بی کا ہے۔

                ان کے بطن سے سے آپؒ  کی پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے ایک بیٹا کم سنی ہی میں فوت ہو گیا دوسرا بیٹا 45 سال کی عمر میں چار بچے چھوڑ کر مالک حقیقی سے جا ملا۔ تین بیٹیاں بھی وفات پا چکی ہیں۔ دو بیٹیاں مع اہل و عیال حیات ہیں۔ ماشاء اﷲ مخدومہ دارالاحسان کی قبر سالار والا دارالاحسان میں ہے جہاں ایک بیٹا اور بیٹی بھی انہی کے پہلو میں مدفون ہے۔

فوج میں شمولیت:

                آپؒ کے والد ماجد کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا بھی میری طرح فوج میں شامل ہو اور بڑا افسر بنے جب اسی خواہش کے اصول کی خاطر 9 اپریل 1930ء کو بابا اکریر والا نے سفارش کی اور صوبیدار پاکھر سنگھ راجوآنہ فوج میں بھرتی کروانے کے لیے لے کر گئے تو عجیب بات ہوئی کہ کسی بھی میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ کے بغیر کیپٹن ڈاکٹر ایم این کھنہ نے دیکھتے ہی سلیکٹ کر لیا ابتداء میں آپؒ بوائے کمپنی کے لیے موزوں سمجھے گئے بعد میں انڈین آرمی اسپیشل ایجوکیشن کورس پاس کر کے وائی کیڈٹ منتخب ہوئے اور آپؒ کے کور کمانڈر جنرل وِچ آپؒ  کی باوقار شخصیت کے بڑے مداح تھے اور آپؒ کو اپنا دوست گردانتے عام نوجوانوں میں بھی آپؒ کے ظاہری حسن اور نیک نفسی کے چرچے عام تھے۔ ملازمت کا زیادہ عرصہ رڑکی چھاؤنی میں گزرا وہاں کا کورکمانڈر نظم و ضبط کی پابندی اور پیشہ ورانہ فرائض کی بجاآوری کی بدولت آپؒ سے بہت خوش تھا وہ آپؒ کی سیرت و کردار کی مثالیں دیا کرتا اور نہ صرف عزت سے پیش آتا بلکہ آپؒ کی تقلید میں رمضان المبارک کا پورا مہینہ دن کے وقت کھانے پینے سے باز رہتا۔

سیرت و کردار:

                آپؒ صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت ذکرِالٰہی میں مستغرق رہتے۔ خود فرمایا کہ وہ انگریزی راج میں ایک کورکمانڈر کے اہلمد تھے۔ انتہائی مصروفیت اور بے پناہ ذمہ داری کے باوجود بلاناغہ ہر روز نیم روز سے پہلے گیارہ ہزار مرتبہ اسماء الحسنیٰ اور نیم روز کے بعد بارہ ہزار مرتبہ اسماء النبیﷺ باقاعدگی سے پڑھا کرتے۔

                رُڑکی کینٹ میں قیام کے دوران روزانہ پیدل پیراں کلیر شریف حاضری دیتے افسران بالا اس امر سے آگاہ تھے مگر وہ کبھی مزاحم نہ ہوئے بلکہ جنرل وچ نے کہا کیسی عمدہ بات ہے کہ آپ پیران کلیر شریف جاتے ہو کنجریوں کے بازار نہیں جاتے۔

                آپؒ روزازل سے اﷲ کے سپاہی تھے مگر جب حالات نے آپؒ کو انگریز فوج کا سپاہی بنا دیا تو آپؒ نے فوج ڈسپلن کی مکمل پابندی کی۔ آپؒ کی باوقار شخصیت کے متعلق کورکمانڈر ہر تین ماہ بعد جنرل ہیڈکوارٹر میں یہ رپورٹ  بھیجتا کہ برکت علی ہماری انڈین فوج کا سب سے باکمال اور باکردار فرد ہے۔ آپؒ  فرماتے تیرے لیے یہ ضروری ہے کہ تو گھڑی کی طرح چلے تیری چابی کبھی بند نہ ہو اور تو کبھی نہ رُکے اور نہ تجھے کوئی روک سکے اور تیرے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ توبہ نہ کرے اور یہ نہ کرے اور یہ نہ کرے۔

بیعت طریقت:

                آپؒ نے شاہ ولایت حکیم امیر الحسن سہارنپوریؒ کے ہاتھ پر 9ربیع الثانی 1363ھ بروز جمعرات پیران کلیرشریف میں بیعت فرمائی۔ حکیم صاحبؒ  نے فرمایا میری کمر دباؤ جب آپؒ نے کمر دبائی تو کہا:

پنجابی سے لی تھی اور پنجابی کو دے دی

جس کی قسمت میں تھی وہ لے گیا

                واضح رہے کہ حکیم صاحب کے پیر حضرت قادری شاہ عبدالکریم تصربور شریف ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے۔ حکیم صاحب آپؒ  سے نسبت شفقت فرماتے۔ اکثر مرا چاند کہہ کر پکارتے، بلانا ہو تو کسی کو کہہ دیتے اے فوج والے کو بلاؤ حکیم صاحب نے فرمایا اگر تو پیر ہوتا تو ستلج سے لے کر اٹک تک کوئی اور پیر نہ ہوتا۔

فوج سے سبکدوشی:

                آپؒ اگر فوج میں رہتے تو جرنیل کے رینک تک جا سکتے تھے لیکن آپؒ نے ہر چیز پہ لات مار کر اﷲ کا فقیر بننا پسند کیا۔ ٹھاٹھ باٹھ اور افسرانہ طرزِزندگی پر فقر، درویشی کو ترجیح دی اور حضور اقدسﷺ کے اس سعید رشید منزل پہ گامزن ہونے کے لیے 22 جون 1954ء بمطابق 1 رجب المرجب 1364ھ فوج سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔

                آپؒ نے خود فرمایا یہ سعید و رشید منزل حضور اقدسﷺ کی سنت مطہرہ کی عین اتباع کی منزل ہے۔

                آپؒ نے سرکاری وردی بدن سے اُتار کر کرتہ شلوار پہن لی اور اعلان کر دیا کہ یہ بندہ اب انگریزی حکومت کا ملازم نہیں رہا اﷲ کے در کا فقیر ہے۔ حکومت جو بھی سلوک مجھ سے کرے گی تیار ہوں۔ میں نے اپنا کورٹ مارشل خود کر لیا ہے اور سزائیں قبول کر لیں۔

                گولی، عمر قید، بارہ پتھر

                اس فیصلہ پر سبھی انگشت بدنداں تھے کیونکہ جنگ دوم کا زمانہ تھا۔ اتحادیوں کو ایک ایک سپاہی اورافسر کی اشد ضرورت تھی ان حالات میں ایک انتہائی ذمہ دار عہدہ پر فائز افسر کا فوج سے مستعفی ہونا اپنی جان سے کھیلنا تھا۔ فوج کے افسران نے دلجوئی، سہولت اور مروّت کا ہر حربہ آزمایا مگر آپؒ اپنی بات سے نہ ٹلے بلا آخر بہت سے مراحل طے کر کے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ حالانکہ انگریز کی حکومت میں کسی راجے مہاراجے کو بھی اُن سے انحراف کی جرأت نہ تھی۔

یومِ استقامت:

                سرکارؒ اس دن کو ہمیشہ یوم استقامت کے نام سے یاد فرماتے تھے۔ آپؒ نے مقالاتِ حکمت میں لکھا:

دیکھنے والا دن تو وہ دن تھا

                عزم استقامت سے آراستہ بال بال سے خمار ٹپکنے لگا لہرا لہرا کر چلا اٹھلا اٹھلا کر بڑھا۔ غفلت کے پردے چاک کر کے علائق کی زنجیریںتوڑ کر ہر شے سے منہ موڑ کر موت حیات سے بے نیاز رہتی منزل کی جانب دیوانہ وار بڑھتا چلاگیا۔

                اس کی ایک ہی جنبش سے راہ کی رکاوٹیں دم توڑ گئیں۔ اس کی یلغار کے آگے تند و تیز ریلے بھی نہ ٹھہر سکے۔ طوفان اس کا طواف کرنے لگا۔ گرداب خضرِ راہ بن گئے۔ ابلیس کا غرور خاک میں مل گیا۔ اس کی تنی ہوئی گردن جھک گئی۔ سارے منصوبے بکھر گئے۔ ہتھیار دھرے کے دھرے رہ گئے۔ وساوس خناس کھسیانے ہو کر رہ گئے۔

                اقتدار عدولت کا غرور گھٹنے ٹیک گیا۔ دنیااپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ اس کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہو گئی۔ مگر اس سے آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا۔

تین بنیادی مقاصد:

                آپؒ وہاں سے سیدھے کلیر شریف پہنچے اور وہاں تین کام کرنے کا عہد کیا۔ جس کا آپؒ نے ذکر دارالحکمت کی افتتاحی تقریب میں ان الفاظ سے کیا:

’’چالیس سال گزرے میں نے حضرت سیّدنا مخدوم علاء الدین علی احمد صابر کلیری قدس سرہ العزیز کے حضور پیش ہو کر قول کیا کہ میں دنیا و مافیہا سے کلیتاً دستبردار ہو کر اپنی باقی ماندہ زندگی اﷲ کے کاموں کے لیے وقف کرنا ہوں چنانچہ میں نے تین کام کرنے کا عہد کیا:

۱۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ذکر

۲۔ دین اسلام کی دعوت و تبلیغ

۳۔ اﷲ کی مخلوق کی بے لوث خدمت

پھر ایک اور وعدہ کیا کہ جس دنیا سے آج متنفر اور بے زار ہو کر اﷲ کی طرف آیا ہوں جب تک میں اس دنیا میں زندہ رہوں گا اﷲ کی قسم اس کی کسی بھی چیز کو اور کسی بھی رنگ میں قبول نہیں کروں گا۔‘‘

قیامِ پاکستان اور ہجرت:

                گویا قیام پاکستان سے دو سال قبل ہی اس عظیم منصب کی تربیت شروع ہو گئی تھی اور اﷲ تعالیٰ نے آپؒ کو لوگوں کی رشد و ہدایت اور دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد آپؒ 27 اگست 1947ء کو پاکستان تشریف لائے اور متعدد جگہوں سے ہجرت کرتے ہوئے ضلع فیصل آباد میں سالار والا ریلوے سٹیشن کے قریب ڈیرہ لگایا۔ یہ رقبہ آپؒ کو اپنے والد محترم کی زرعی اراضی کے عوض ملا تھا یہ جگہ آپؒ کی تشریف آوری سے قبل ایک ویران جنگل تھا۔ یہاں آپؒ مسلسل چالیس سال لگاتار جدوجہد کی شب و روز ذکر و فکر تصنیف و تالیف دعوت و تبلیغ اور خدمت خلق میں مصروف رہے۔ حتیٰ کہ یہ جگہ ذکرِالٰہی کی صداؤں سے گونجنے لگی اور طالبانِ حق جوق در جوق یہاں پہنچنے لگے۔ اس جگہ آپ نے خوبصورت مسجد مدرسہ قرآن کریم، محل ملنسار اصحاب بزرگ لائبریری اور دارالحکمت تعمیر کرائے اور ادارۂ دارالاحسان کے نام سے موسوم فرما کر واقف اسلام کر دیا۔

                صاحب توکل کے لیے نہ وطن ہے نہ جائیداد نہ کسب نہ روزگار نہ مال نہ سوال صبح کرے تو شام کا اور شام کرے تو صبح کا نہ ذخیرہ ہو نہ فکر اور نہ ہی زندگی کی اُمید خواہشات کی قربانی سب سے بڑی قربانی ہے اور مہاجر الی اﷲ ہی خواہشات کو قربان کر سکتا ہے دُنیا دار نہیں۔ آپؒ نے اپنی جملہ خواہشات کو سمیٹ کر عشقِ الٰہی کی آگ میں جھونک دیا اور ہر تمنا کو جلا کر بھسم کردیا اﷲ کی راہ تو ساری کانٹوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں شب بیداریاں بھی ہیں سحرخیزیاں بھی رسوائیاں بھی ہیں جگ ہنسائیاں بھی۔

آخری ہجرت بطرف کیمپ دارالاحسان:

                اگرچہ اﷲ کے بندوں کا کوچ و قیام اﷲ ہی کی مرضی کے ماتحت ہوتا ہے مگر سرکارؒ نے فرمایا امن وسلامتی سے زندگی گزارنے والا بندہ کبھی ہجرت نہیں کرتا جو بندہ زندگی سے تنگ آ جاتا ہے ہجرت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

                چنانچہ جب آپؒ کو 1984ء میں اپنی محنت شاقہ سے بنائی بستی سے ہجرت کر کے کیمپ دارالاحسان آنا پڑا تو مکان چونکہ مکین سے ہی آباد رہا کرتے ہیں۔ سو وہاں کی ساری رونقیں بھی دالو وال کے اجاڑ کھتانوں میں پہنچ گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں قرآن کریم محل دفاتر دارالاحسان مسجد لنگرخانہ اور مطب وغیرہ بن گئے اور اﷲ کے اس فقیر کی سکونت کی برکت سے یہ جنگل بھی منگل بن گیا۔ ماشاء اللہ فضاؤں میں (یاحی یا قیوم) کی مدھ بھری صدائیں گونجنے لگیں اور یہ خطہ ارض رشک آسمان بن گیا۔

ذکر و تبلیغ:

                آپؒ صاحب کمال و صاحب حال بزرگ اور روحانی اقتدار کے نقیب بھی شب و روز اﷲ تعالیٰ کے ذکر و فکر کے علاوہ انسانیت کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے اور لوگوں کو نیک کام کی ترغیب دیتے رہے سرکارؒ نے فرمایا۔

                بندے کی سب سے بڑی خدمت بندے کو دین کی طرف بلانا اور اﷲ کی راہ پہ چلانا ہے۔ دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں آپؒ نے غیرمسلم عالمی سربراہوں کو دعوت نامے بھیج کر سنت رسولﷺ کو زندہ کرنے کا شرف حاصل کیا۔ 600 کے قریب تبلیغی مراکز اندرون و بیرون ممالک میں حلقہ ہائے ذکر منعقد کرتے ہیں اپنی تبلیغی جماعتوں کے کارکن دارالحکمت میں مریضوں کی خدمت کی سعادت حاصل کرتے ہیں اس کے علاوہ آپؒ کے مبلغ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں اور جیل خانہ جات وغیرہ کے دوش بدوش ریل گاڑیوں اور بسوں میں بھی جدید اسلوب کے ساتھ ذکر و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا۔

                بے شک خالق کائنات اپنی جس تخلیق پہ خود بھی نازاں ہے وہ اسی قسم کے بندے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کا ذکر و شکر کرتے اس کی راہ میں زندگی گزارتے اور بھلائی اورفلاح کا راستہ بتاتے ہیں زندگی کے کینوس پہ سب سے خوبصورت اور دیرپا رنگ ہمارے آقا روحی فِداہؐ کا رنگ ہے۔ آپﷺ کی زندگی کا راستہ وہ ہے جسے اﷲ نے اپنے بندوں کی آسانی کے لیے تجویز اور پسند کیا۔ آپﷺ کے نقشِ قدم پہ چلنا دنیا اور آخرت میں بھلائی کا سامان ہے۔

خدمتِ خلق:

                حضرت ابوانیس محمد برکت علی قدس سرہ العزیز نے ذکرِالٰہی اور دعوت و تبلیغِ اسلام کے ساتھ مخلوق کی خدمت کا بھی حق ادا کر دیا ماشاء اللہ۔ آپ نے فرمایا:

                خدمت وسیع المعنی منزل ہے نہ اس کی کوئی حد ہے اور نہ اس تک رسائی کہ جہاں تک کوئی پہنچے شب و روز ساری و طاری رہتی ہے۔

                آپؒ نے معذور مفلوک الحال بیوگان و مساکین اور نادار طلباء کے لیے وظائف مقرر کیے غریب لڑکیوں کی شادیوں کے انتظامات قیدیوں اور کوڑھیوں کے لیے خاص اہتمام سردیوں میں بستر آٹا کپڑا وغیرہ بیوگان کو گھروں میں پہنچانے کے علاوہ بیمار مخلوق کی بے لوث خدمت کا جو نمونہ دارالحکمت المعروف یہ دارالشفاء کی صورت میں پیش کیا۔ اس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی آپؒ نے دارالاحسان میں دارالحکمت کا شعبہ قائم کر کے دیسی دواؤں سے روزمرہ علاج کے علاوہ آنکھوں کا علاج کے لیے سال میں دو مرتبہ فری آئی کیمپ کا سلسلہ بھی شروع کیا مریض کو اپنا محسن اور اﷲ کا مہمان سمجھ کر اس کی خدمت کو سعادت جانا کسی مریض سے ایک پائی تک وصول نہ کی یہ سلسلہ 1976ء سے شروع ہوا اور اکتوبر1996ء تک 41 ششماہی فری آئی کیمپ لگوائے جو آج بھی سال میں دو فری آئی کیمپ لگتے ہیں۔

عاشقِ رسولﷺ:

                حضرت ابوانیس محمد برکت علی قدس سرہ العزیز سچے عاشق رسولﷺ تھے۔ جنہوں نے زبانی کلامی نہیں۔ عملاً عشق کا اظہار کیا اور ساری عمر سنت کی اتباع میں گزاری کتاب العمل بالسنۃ سنت مطہرہ کے اعمال پہ مشتمل مقبول الاسلام مستند عملی نصاب ہے جس پر آپؒ نے تادمِ آخر عمل کیا آپؒ نے فرمایا:

م              حضور اقدسﷺ سے عشق میرا مذہب

م              محبت میری ملت اور

م              اتباع میری منزل ہے۔

                اﷲ رسولﷺ سے عشق کا دوسرا منہ بولتا ثبوت قرآن کریم محل کی شاندار اور قابل دید عمارات ہیں جن میں قرآن کریم کے ضعیف نسخہ جات کو خوبصورت انداز کے ساتھ محفوظ رکھنے کے علاوہ ایسے نادر قلمی نسخے بھی موجود ہیں جو قرآن کریم کے ساتھ سرکارؒ کے پیار کی رازداں مثال ہے۔

اﷲ کا فقیر:

                آپؒ اﷲ کے در کے فقیر تھے اور آپؒ  کو فقیر کی وہ دولت حاصل تھی جس کے لیے حضرت ابراہیم ادھمؒ کو چالیس شہزادوں کی بادشاہت کو خیرباد کہنا پڑا اور جس کے متعلق حضوراقدسﷺ نے فرمایا (اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُمِنِّیْ)  ’’فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔‘‘

                سرکارؒ نے فرمایا:

                توکل و استغنا فقر کی وہ متاع ہے جسے پا کر وہ ہفت اقلیم کی بادشاہی کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتا اﷲ کا یہ فقیر فقر کی آبرو بن کر استغنا کی علامت بنا جس نے فقری میں شاہی کی اور آنے جانے والوں کو دنیاوی جاہ و حشمت اور مال و دولت سے بے نیازی کا سبق دے کر یہ ثابت کر گیا کہ فقیر صرف اپنے اﷲ کے در کا فقیر ہوتا ہے۔

مسافرانہ زندگی:

                حضور اقدسﷺ نے فرمایا: دنیا میں یوں رہو گویا تم ایک پردیسی ہو یا ایک مسافر جو کسی راستے سے گزر رہا ہو اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو۔

                آپؒ  نے اپنی ساری زندگی مسافروں کی طرح گزار دی۔ کل کے لیے کوئی بھی شے بچا کر نہ رکھی۔ فرمایا:

م              مسلمان کا مسافر کی طرح رہنا رہبانیت نہیں عین اسلام ہے۔

م              جہاں سے تو آیا ہے وہیں جانے کا سفر اختیار کر آتے وقت تیرے پاس کچھ نہ تھا جاتے وقت بھی کچھ نہ ہو۔

م              آج کا کھانا کھا چکنے کے بعد کل کے لیے کوئی بھی شے جمع کر کے نہ رکھنا میری طریقت کا مایا ناز اصول ہے جو کبھی نہیں بدلا اور کبھی نہیں بدلنا زندہ رہا توکل کی روزی کل ملے گی ان شاء اللہ۔

خانقاہی نظام:

                فقر و درویشی اور خانقاہی نظام کا معیار قائم کرنے میں حضرت ابوانیس محمد برکت علی قدس سرہ العزیز کی خدمات تاریخ تصوف کا ایک سنہری باب ہیں۔ سرکارؒ نے فرمایا:

’’خانقاہی نظام یہ تھا اور ہے

کھا

کھلا

بچا کر مت رکھ

کل کی روزی کل ملے گی

اور خانقاہی نظام میں اﷲ اﷲ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی اور صاحب کی بابت تو میں نہیں جانتا البتہ میں اس نظام کا پابند ہوں۔‘‘

وراثت:

                آپؒ نے کوئی گدی نشین نہیں چھوڑے اور نہ ہی کوئی ورثہ یہ وہ خوبی ہے جو انبیائے کرام کی سنت تازہ کرتی ہے۔ کسی نبی نے دنیاوی جائدیاد نہیں چھوڑی۔ نبی کی وراثت علم عمل صالحیت اور تقویٰ ہے جو اس کا حامل ہو گا وہی وارث علوم نبوت ہو گا۔

                سرکارؒ نے فرمایا:

’’فقیر کی میراث کا وارث فقیر ہوتا ہے اور فقیر کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا مگر اﷲ صرف اﷲ‘‘

درجات و کمالات:

                سرکارؒ نے فرمایا: کسی ولایت میں نہ کشف ضروری ہے نہ کرامت لیکن ہر ولایت میں ذکر ضروری ہے اور طاعت ذکر و طاعت تیری منزل کے دو نشاں ہیں یہ نشان گرنے نہ پائیں۔ ذکر و طاعت کی منزل مستغنی عن المدارج ہوتی ہے تبلیغ و خدمت کے سوا کسی بھی کمال کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی ذکر الٰہی سے بہتر اور کوئی کمال نہیں۔

                اﷲ کے ذکر کے لیے کمالات و کرامات سے فارغ ہو۔

وصیت؍وصیت:

                سرکارؒ نے فرمایا: ہمارے تین کام ہیں:

۱۔ذکرِالٰہی

۲۔تبلیغ الاسلام

۳۔مخلوق کی بے لوث خدمت

                ان تین کاموں کے سوا کسی چوتھے کام میں کبھی مشغول نہیں ہوتا۔ کسی کے تذکرے تبصرے تنقید تنقیص یا الزام کا ہرگز برا نہیں، نہ ہی بد دل ہوں بلکہ پوری یکسوئی سے اپنے تین بنیادی مقاصد کی طرف متوجہ رہیں۔

روزمرہ کے معمولات:

                آپؒ کی زندگی انتہائی سادہ اور غیر ضروری تکلّفات سے پاک تھی خوراک میں تکلف اور نہ لباس میں نشست و برخاست میں رکھ رکھاؤ نہ میل جول میں موٹے کھدر کا لباس پہنتے، سردیوں میں سریر عمامہ اورگرمیوں میں ٹوپی ہوتی ننگے پاؤں پھرتے صرف طہارت اور وضو کے لیے معمولی چیل استعمال کرتے کھانے میں جو کچھ مل جاتا کھا لیتے لنگر کی خشک روٹی لسی کے ساتھ شوق سے تناول فرماتے عمدہ کھانوں یا میوہ جات سے رغبت نہ رکھتے بعض اوقات کئی کئی روز بغیر آرام کیے معمولات میں محو رہتے۔ خود فرمایا:

’’رات کو نہیں جب تھک جاتے سو جاتے۔ آپؒ زندگی اور بندگی میں ڈسپلن کے سختی سے قائل تھے اپنے اوقات کار کو منٹوں اور سیکنڈوں تک میں منظم اور منضبط کیا ہوا تھا جب کوئی بات یا شخص معمولات میں مزاحم ہوتا چہرہ پر جلال کے آثار نمایاں ہوتے۔‘‘

سرکارؒ نے فرمایا:

’’عقلمند بنا کرو۔۔۔ ایسی جگہوں پر ایسی باتیں مت کیا کرو۔

زیادہ دیر مت ٹھہرا کرو۔ دعا لے کر رخصت ہوا کرو۔ اگر مگر مت کیا کرو۔ آپ یہاں دُعا کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ اﷲ کا ذکر کریں اور درود شریف پڑھیں۔ اپنی اپنی دعا مانگیں اور قبولیت پر ایمان لائیں۔ دعا ہو گی چھٹی شکریہ۔‘‘

                قرآن کریم کی تلاوت کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ پندرہ ہزار چار سو انسٹھ آیات قرآن کریم پڑھنا آپؒ کا معمول تھا۔ 21ذیقعد النجیب 1412ھ سے قرآن کریم سماعت فرماتے روزانہ آٹھ لاکھ باون ہزار چورانوے کلمات طیبات کا وِرد فرماتے۔

                آپؒ بے حد رقیق القلب تھے۔ خصوصاً حضرت امام حسینؓ کا تذکرہ کرتے یا سنتے ہوئے بہت گریہ و زاری کرتے سال میں تین مرتبہ عاشورہ عید میلاد النبی اوراپنے پیر و مرشدؒ کے یوم وصال پہ تبلیغی اجتماع کا اہتمام فرماتے علاوہ ازیں شب برات پہ باجماعت صلوٰۃ الخیر پڑھائی جاتی۔

وصال و تدفین:

                سرکارؒ نے فرمایا حضرات گرامی میرا اس دنیا میں رہنا ایک مسافر کی طرح ہے اورمسافر کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا مگر ضرورت کا بالکل ہی مختصر سامان اورمیں اپنے تئیں ان مردوں میں شمار کرتا ہوں جو قبروں میں ہیں اور مردوں کو کوئی طلب و تمنا نہیں ہوتی مگر یہ اور صرف یہ کہ اﷲ تعالیٰ انہیں دوبارہ زندگی بخشے۔

                بلاشبہ آپؒ  شب و روز ذکرِالٰہی میں محوو منہمک رہے اوراسی ذکر کی حالت محویت میں امر الٰہی آن پہنچا اور آپؒ 16رمضان المبارک 1417ھ بمطابق 26جنوری 1997ء بروز اتوار بوقت ظہر مالک حقیقی سے جا ملے۔

                {اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ}

                آپؒ  کے وصال مبارک کی خبر آنا فاناً پوری دنیا میں پھیل گئی نمازِجنازہ کا وقت اگلے روز ظہر کے بعد رکھا گیا۔ بیرون ممالک سے پہنچنے والے عقیدت مندوں کے علاوہ آپؒ کے چاہنے والوں اور ملک میں بسنے والے لوگوں کا ایک انبوہِ کثیر تھا۔ جو اﷲ کے اس فقیر کی نمازِجنازہ میںشرکت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے آیا ہوا تھا۔

                راہِ حق کے اس شہید کی لحد کھودی گئی تو مٹی سے مشک وغیرہ کی خوشبو آنے لگی۔

                تربت نے بسم اﷲ کہا قبر کی مٹی نازاں و فرحاں اپنی خوبی قسمت پہ جھوم اُٹھی۔ آپؒ کی وصیت کے مطابق صابرؒ صاحب والی کُلّی میں دفن کیا گیا۔ آپؒ کے اس آستانۂ عالیہ کی فضائیں ذکرِالٰہی کے نور کی برکت سے ہمہ وقت منور رہتی ہیں اور درود و سلام کے پھولوں سے معطر یہ در سب کے لیے کھلا ہے۔ حاضری کا سلسلہ روزافزاں ہے اور اس رُشد و ہدایت کے چشمہ صافی سے ہر کوئی اپنی طب و ظرف کے مطابق دینی و دنیاوی فیض پا رہا ہے۔

                ماشاء اﷲ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...