Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > قاہرہ ماضی اور حال

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

قاہرہ ماضی اور حال
ARI Id

1688711613335_56116722

Access

Open/Free Access

Pages

۱۴

قاہرہ ماضی اور حال

مسافر کے قویٰ جواب دے چکے تھے مگر جسمانی تھکن سے زیادہ روحانی آسودگی مسافر کو رت جگے پراکسا رہی تھی ۔کیا واقعی میںقاہرہ میں ہوں ؟اپنے آپ سے بار بار اس سوال میں خوشی کی وہ سرشاری تھی جو تھکاوٹ کے احساس کو مغلوب کر رہی تھی ۔ایک طرف قاہرہ شہر کی بڑی عمارات اور فلک بوس مینار اپنی حقیقت مجھ پر آشکار کر رہے تھے تو دوسری طرف میری پیشوائی کے لیے ایک عظیم تہذیب ،ایک بزرگ تاریخ ،قرآنی آیات کے عملی نمونے اور چشم کشا تفسیریں چشم براہ تھے۔مصری تہذیب اور تاریخ کے بارے میں تھوڑی بہت جانکاری تھی مگر شہر قاہرہ کب وجود میں آ یا اور کن کن اقوام نے اس کو اپنا مسکن بنایا ۔ اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ معلومات نہ تھی ۔اس کے باوجود میں سحر قاہرہ سے آزاد نہ تھا۔ اس شہر کے رعب و دبدبے اور اس کی تاریخی حیثیت سے چشم پوشی ممکن نہ تھی ۔کہتے ہیں کہ یورپ کے تہذیبی مرکز پیرس کو جب چھینک بھی آتی ہے تو یورپ کو زکام ہو جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی اعزاز عرب دنیا میں قاہرہ کو حاصل ہے براعظم افریقہ کا یہ شہر جو ابتدائے اسلام میںہی عربی شہر بن گیا تھا اور زبان و مذہب عربوں کا اختیار کر لیا تھاوہ آج عرب دنیا کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا اور علم و فنون کی درسگاہوں کا محور و مرکز بن چکا ہے اس لیے قاہرہ میں جو سماجی ،سیاسی لہر اٹھتی ہے وہ پوری عرب دنیا میں محسو س کی جاتی ہے ۔اس میںکوئی مبالغہ نہیںہے کہ مغربی افریقہ سے مشرقِ وسطیٰ تک پھیلی ہوئی عرب دنیا پر ثقافتی اور علمی سطح پر حکمرانی مصرکی ہے ۔

قاہرہ یونانی شاعر ہومر کا کوئی مردہ شہر نہیں جو تاریخ کی نظر سے اوجھل ہو ۔قاہرہ ائیر پورٹ پر مصری اور انگریزی کھانوںکے ایک بڑے ریستوران کے بغل میں ایک کتاب گھر بھی تھا جس میں مصری تہذیب ،تاریخ فراعنہ،عثمانی ،مملوکی اور جدید مصری سیاسی اور معاشرتی احوال پر عربی ، فرانسیسی،انگریزی اور روسی زبانوں میں کئی کتابیں اور کتابچے موجود تھے ۔اتنی ڈھیر ساری تہذیبوںکے مسکن قاہرہ کے بارے میں جب تاریخ کی کتب کی ورق گردانی کی تو جانکاری کی بے چینی کا فشار مزید بلند ہو گیا ،معلوم ہواکہ قاہرہ دریائے نیل کے کنارے براعظم افریقہ کا سب سے بڑا جبکہ دنیا کا سترہواں بڑا شہر ہے جس کی موجودہ آبادی تقریباََ ڈیڑھ کروڑ ہے ۔آبادی کے اضافے نے دریا کے مشرق و مغرب کے خط کو مٹا دیا ہے ۔کسی زمانے میں یہ شہر دریا کے مشر قی کنارے آباد تھا ۔آبادی بڑھتی گئی ضروریات نے تصرفات کو جنم دیا تو انیسویں صدی میں شاہ اسماعیل نے مغربی کنارے ایک جدید بستی بسائی،یوں دریا قدیم و جدید شہر کے درمیان حد فاصل بن گیا۔ حکمران اور ثروت مند طبقے نے مغرب سے مشرق پر عنان حکومت کَس دی ۔مشرق میں عبادت گاہوں مساجد اور غربت جبکہ مغرب میں فلک بوس عمارات ،سرکاری دفاتر اور جاہ و حشم نے ڈیرے ڈال دیے ۔شاہ اسماعیل کی جدید بستی سے قبل بھی مصری حکمرانوں کی اقامت گاہیں اور دارلحکومت وقتاََ فوقتاََ تبدیل ہوتے رہے ۔ حضرت عیسیٰ ؑ سے تین ہزار سال قبل فرعون مینس نے بالائی اور زیریں مصر کو ملا کر جس علاقے میں اپنا پایہ تخت بنایا تھا وہاں پر موجود میمفص کے آثار اب بھی اس دور کی شاندار روایات و عمارات کے امین ہیں۔یہ علاقہ موجوہ قاہرہ سے خاصے فاصلے پر ہے ۔تاریخ میں ہیلیو پولیس اور اسکندریہ سے مصریوں پر حکمرانی بھی منقول ہے ۔

مسافر کو زیادہ دلچسپی اس کتاب سے تھی جس میں مسلمانوں کی قاہرہ میں آمد کا تذکرہ تھا۔ اس کتاب میں مسلمانوں کی آمد کا سال ۶۴۲ء لکھا ہوا تھا ۔مسلم سپہ سالار عمرو ابن العاص نے یہاں فتح کے جھنڈے گاڑے ۔پہلا فوجی مستقر اس جگہ کو بنایا جہاں مسلم افواج نے خیموںکی بستی بسائی ۔ عربی میں خیمے کو فسطاط کہتے ہیں اسی لیے شہر کا نام فسطاط ہی کہلایا اور اسی فسطاط میں بننے والی مسجد براعظم افریقہ کی پہلی مسجد بن گئی ۔

اسلام دشمنی میں پیش پیش وہ عمر و ابن العاص جو نجاشی کے دربار میں سفیر رسولؐ عمر بن امیہ خمری کو قتل کرنے حاضر ہوئے تھے کو اسلام کی آفاقیت کا احساس و ادراک ہوا تو اسلام دوستی میں بھی کسی سے کم نہ رہے ۔ذا ت السلاسل اور سواع کی مہمات پر نبی اکرمؐ کے نائب بن کر گئے اور کامیاب لوٹے ۔مدینہ سے دس دن کی مسافت پر رہائش پذیر بنو قضاعہ کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے او ر سواع دیوی کے عبادت گزاروں کی سر کوبی کر نے کے بعد مصر کو مشرف بہ اسلام کرنے ہزاروں کلومیٹر فاصلہ طے کر نے والے اس جرنیل کے بارے میں مسافر سوچوں میں مگن تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا ،میں  نے مڑ کر دیکھا تو وجیہہ خوش پوش آدمی نے مجھے السلام علیکم کہا۔پوچھا آپ دکتور الطاف یوسف زئی ہیں ؟میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ان سے پوچھا آپ مجھے کیسے جانتے ہیں وہ میری بات سمجھنے سے قاصر تھے ۔یہی سوال جب میں نے انگریزی زبان میں پوچھاتو عربی لہجے میں انگریزی زبان میں یوں گویا ہوئے ’’دکتورہ بسنت تو لدمی اباوت یو‘‘’’مائی نیم از محمد علی‘‘۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...