Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > سیر گیری اور ترمینل نمبر۱

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

سیر گیری اور ترمینل نمبر۱
ARI Id

1688711613335_56116723

Access

Open/Free Access

Pages

۱۶

سیر گری اور ترمینل نمبر1

قاہرہ سے شرم الشیخ جانے کے لیے نیل نامی ہوائی کمپنی کے جہاز میں محمد علی نے میرے ساتھ سفر کرنا تھا جلد ہی ہم دونوں میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوئی اور مصریوں کے بارے میں میری رائے اچھی بننے لگی ۔قاہرہ کے ائیر پورٹ کے ترمینل نمبر 1پر عجیب چہل پہل تھی ، بھانت بھانت کے لوگ ،بھانت بھانت کی بولیاں بولتے عجیب و غریب لباس زیب تن کیے جوق در جوق اس ترمینل کی انتظار میں ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے تھے۔سرخ،کالے ،بھورے ،زرد جتنے انسانوں کے رنگ اس سے زیادہ بولیاں ۔مسافر نے کرنسی تبادلے کی دکان پر موجود ایک خوش گفتار مصری سے پوچھا کہ یہ لوگ کن کن علاقوں سے یہاں آتے ہیں اور اس ترمینل سے کس منزل کی طرف جا رہے ہیں؟۔جواب ملا کہ دنیا بھر سے آتے ہیں؟مگر زیادہ تر لوگ روس سے آتے ہیں ۔میرے استفسار پر کہ اس ترمینل میں رقوم کے تبادلے کی کتنی دکانیں ہیں،اس نے کہا چار ۔پوچھنے پر پتہ چلا کہ صرف ایک دکان پر روزانہ تقریباََایک لاکھ امریکی ڈالر مصری پائونڈ میں تبدیل ہوتے ہیں چار دکانوں پر یہ تبادلہ ماہانہ ایک کڑو ر بیس لاکھ تک ہوتا ہو گا یہ آمدنی صرف سیر گری سے حاصل ہو رہی ہے ۔اس ترمینل سے اسکندریہ اور شرم الشیخ کی طرف صرف ان جہازوں کو اڑان بھرنے کی اجازت تھی جو مصری عوام و حکومت کی ملکیت میں تھے اور جہازوں کے کرائے بھی ان سیاحوں نے ڈالر وں میں بھرنے ہوتے ہیں ۔

مسافر نے سال پہلے عصرِ حاضر کے ’’مہا گرو‘‘اور ’’استاذالاساتذہ ‘‘ Googleجس کے شاگرد قریہ قریہ ،کوچہ کوچہ ا ور یم بہ یم پائے جاتے ہیں ،سے پوچھا کہ انسان سیر گری پر سالانہ کتنا خرچ کرتا ہے تو جواب دیتے دیر نہ لگی کہنے لگے دنیا بھی کی سالانہ آمدنی کا دس فیصد سے زیادہ سیرو تفریح میں اڑ جاتا ہے ۔اس پیشے سے وابستہ انسانوں کی تعداد تین سو تیرہ ملین بتائی جو پوری دنیاکے نوکر پیشہ اور تجارت پیشہ افراد کا نو فیصد سے زیادہ بنتا ہے ۔مسافر کو تین سو تیرہ کا ہندسہ بھا گیا ۔اﷲ کے دین کو شرپسندوں سے بچانے کے لیے نبی آخر الزماں ؐ نے بدر کے میدان میں جن جانثاروں کو اتارا تھا ان کی تعداد بھی تین سو تیرہ تھی ۔دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان جو آج بس رہے ہیں اس کی وجہ یہی بدری سپاہی ہیںکہ جن کے پا س صرف آٹھ تلواریں ،چھے زرہیں ،جنگلی لکڑی کے ترشے ہوئے تیر،ستر اونٹ اور صرف دو گھوڑے تھے جبکہ مقابلے میں قریشی لشکرِجرار ۔طبلِ جنگ بجنے سے پہلے نبیؐ خدا سے دعا مانگتے ہیں ۔ ’’ْخداوند !اگر یہ چند جانیں آج ختم ہو گئیں تو پھر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہو گا ۔‘‘اے میرے مولا تیرے نام اور دین کی سربلندی کے لیے میں اتنے ہی نام لیوا جمع کر سکا آج ان مخالفین پر غلبہ عطافرماتا کہ آنے والی نسلوںتک یہ دین مبین پہنچے ۔نبی کو بشارت ہوئی ۔ ’’وکلمتہ اﷲ ھی العلیا‘‘۔

میں نے سیر گری میں سب سے زیادہ کمانے والے ممالک کی فہرست پر نگاہ ڈالی تو وہاں صرف ایک مسلمان ملک ترکی کو دسویں نمبر پر کھڑا دیکھا ۔نیل کی ہوائی کمپنی کے جہاز میں ساتھ بیٹھے عین شمس یونیورسٹی کے پروفیسر محمد علی سے پوچھا کہ اقوامِ عالم نے ہم سے منہ کیوں پھیر لیا ہے۔ اب دنیا جہاںکے لوگ مسلمان ملکوںکی طرف جانے سے کیوںکتراتے ہیں۔اس کے باوجود کہ تاریخ ،تہذیب اور فطرت سے معمور خطے مسلمانوںکے زیرِ تسلط ہیں ۔دکتور علی نے جواب دیا ’’تیرا رزم‘‘۔نائن الیون کے واقعے کے بعد دنیا ہم سے نفرت کرنے لگی ہے ۔ہم سے ان کو خوف آتا ہے ،وہ دنیا کے امن کے لیے ہمیں ناسور سمجھتے ہیں ان کے خیال میں اگر دنیا کو اس وقت کوئی بڑا خطرہ ہے تو وہ مسلمانوں سے ہے ۔میں نے کہاکہ نائن الیون کے واقعے کے پیچھے تو امریکی رویہ تھا جو وہ عرصہ دراز سے مسلمانوں کے ساتھ برت رہا تھا۔عراق،فلسطین ، ایران اور کشمیر میں ہونے والے مظالم کے پیچھے جو قوتیں کارفرما ہیں ان کوامریکیوںکی شہہ حاصل ہے ۔ میں نے علی صاحب سے پوچھا کہ نائن الیون کے بدلے کے لیے افغانستان اور پاکستان کی سر زمین کو کیوں چنا گیا ۔ہزاروں فوجیوں کو زرہ بکتر پہنا کر B-52 ، F-16 اور ڈرون طیاروں سے ان ممالک کے نہتے شہریوں کو ڈیزی کٹر اورکارپٹ بمبوں سے کیوں نشانہ بنایا گیا ۔جن کے نوے فیصد آبادی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ جڑواں مینار (Twin Towers)کس بلا کا نام ہے اور وہ ہوا باز کون تھے جنھوں نے امریکی معیشت کی اس دیو ہیکل نشانی کو تارِ عنکبوت ثابت کیا۔میں نے محمد علی سے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ نائن الیون کے اس حملے میں شامل انیس قزاقوں میں پندرہ سعودی عرب ،دو متحد عرب امارات ااور ایک لبنانی تھا جبکہ ان کا سرغنہ محمد عطا مصری تھا ۔محمد علی جو جہاز کی کھڑکی سے دریائے نیل کی روانی کا مزہ لے رہا تھا چونک اٹھا اور حیرت سے مجھے تکتے ہوئے کہنے لگا یہ تو میرے لیے خبر ہے ۔میں نے ٹھنڈی آہ بھری ۔حضرتِ غالبؔ نے کان میںکہا ، خاک ہو جائو گے ’’تم ‘‘’’اس ‘‘کو خبر ہونے تک ۔میںنے محمد علی سے پوچھا کہ جب امریکہ اور اس کے اتحادی افواج کلسٹر بمبوں سے ہسپتالوں ،اسکولوں ،مدرسوں ،کھیل اور تفریح کے میدانوں غرض ہر جگہ بارود کی بوائی کر رہی تھیں اور ڈیزی کٹر اور کارپٹ بمباری سے معصوم اور نہتے افغان اور پاکستانی عوام کے خون سے خوف اور دہشت ،قتل و غارت اورتباہی اور بربادی کے وہ مناظر عالمی امن کے چہرے پر پینٹ کر رہے تھے۔ ہر ’’مہذب‘‘ چہرہ خونخوار نظر آنے لگا اور تورا بورا ،گوانتا ناموبے نے ہلاکو اور چنگیزی بربریت کو بھی شرمسار کر کے نئی علامتوں اور استعاروں کو جنم دیا تو ان واقعات کی ’’خوشبو‘‘آپ تک نہیں پہنچی؟میرے چہرے پر غصے اور خفگی کے آثار سے محمد علی کو میری کیفیت کا اندازہ ہو گیا اور گفتگو کا رخ موڑنے کے لیے مجھ سے پوچھاتم پہلی دفعہ مصر آئے ہو نا؟یہ نیچے جبلِ طور ہے اور وہ ہموار زمین جو نظر آ رہی ہے وہ وادیٔ سینا ہے ۔ علی صاحب کا تیرکارگر ثابت ہوا ۔جہاز نے اپنا ایک شہپر ہلکا سا جھکایا اور ایک ایسی وادی کی طرف مڑا جس نے مسافر کی ذہنی پرواز بھی اپنے ساتھ موڑ لی۔ مسافر کا ذہن اور جہاز دونوں مانوس صحرا اور نامانوس فضا میں محوِ پرواز تھے۔

بہ قول شخصے فضا میں راستے کہاں ہوتے ہیں صرف راستے کا احساس ہوتا ہے ۔فضا بے کراں اور بے نشاں ہے نہ کسی پرانے قافلے کا نقشِ قدم نہ کسی نئے کارواں کے لیے سنگ میل موجود، نہ پس انداز اور زادِ راہ ۔فضا پاک ہے اور اس کا مرکب بہت لطیف ،اس لیے فضا میں مادہ تقریباََ معدوم ہو جا تا ہے اور سمت موہوم ۔صرف ایک خلا رہ جا تا ہے ۔ہر طرف خلا ہی خلا ایک خلا کے بعد دوسرا خلا فکر کو اس کا سرا نہیںملتا ۔تاہم اس خیال سے ڈھارس ہوتی ہے کہ اگر خلا بسیط ہے تو کوئی محیط بھی تو ہو گا ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...