Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > وادی سینا

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

وادی سینا
ARI Id

1688711613335_56116724

Access

Open/Free Access

Pages

۱۹

وادیِ سینا

جس وادی مقدس طویٰ کا ذکر قرآن میں ملتا ہے اس کی وسعت قلبی واضح نظر آ رہی تھی ۔ گرمی سے نڈھال پیاسی وادی نے اپنی چونچ بحیرہ احمر میں ڈال رکھی تھی ،بحر ہند کا پانی جزیرہ نما عرب کے یمنی ساحلی علاقے راس منہلی اور براعظم افریقہ کے راس سیاں کے درمیا ن کوئی بیس میل کی ایک تنگ گھاٹی سے گزر کر افریقہ اور ایشیا کے درمیان حدِ فاضل کھینچتا ہے جو وادیٔ سینا پہنچ کر دوحصو ںمیںمنقسم ہو جا تا ہے مشرقی حصے کو خلیج عقبہ جبکہ مغربی حصے کو خلیج سویز کہا جا تا ہے ۔قاہرہ سے وادیٔ سینا جاتے ہوئے خلیج سویز کو عبور کرنا پڑتا ہے ۔اس حصے میں موسیٰ  ؑنے اپنی قوم کو فرعونی مظالم سے نجات کے لیے پار کرایا تھا اور اسی بحر میں فرعون منفتاح غرق ہوا تھا۔

مصر ،سعودی عرب،اسرائیل اور اردن کی سرحدیں خلیج عقبہ میں ملتی ہیں ۔سعودی عرب اسی ساحل ’پر نیوم‘ نامی بستی بسا رہا ہے ۔اس جدید بستی کے بارے میں یہ بات کہی جا رہی کہ یہاں عیش و عشرت کے وہ سارے ذرائع موجودد ہوں گے جن کے لیے مغرب و مشرق کے عیاش طبقات دنیا کے کسی بھی کونے میں جانے سے انکار نہیں کرتے ۔

جہاز نے سمت بدلنے کے لیے جب داہنا پنکھ نیچے کیا تو کھڑکی سے خلیج سویز ایک نیلے ربن کی طرح نظر آ رہی تھی ۔محمد علی نے اشارہ کیا کہ وہ پانی خلیج سویز ہے ۔انہوں نے نہر سویز کی لمبائی چوڑائی اور اس پر برطانوی ،امریکی اور فرانسیسی قبضے کی تاریخ بھی بیان کی او ر بڑے فخر سے جمال عبدالناصر کی بہادری اور اس نہر کے قومیانے کے عمل کو سراہا ۔ انہوںنے کہا کہ ۱۸۶۹ء میں تعمیر ہونے والی اس نہر سے انگلستان اور ہندوستان کے درمیان اس بحری فاصلے کو افریقہ کے گرد چکر لگا کر طے کیا جاتا تھا جو چار ہزار میل کم ہو گیا ۔ میں نے کہا اس سے شاید مصر کو فائدہ ہوا ہو گا مگر ہندوستان خاص طور پر مسلمان ہندوستانیوں کا نقصان ہوا ۔اس نے تعجب سے پوچھا وہ کیسے ؟ میںنے کہا انہی دنوں میں مغل بادشاہت ہندوستان سے ختم ہوئی اور انگریز راج کا دور دورا۔انگریزوں نے ہندوستان کو غلام بنانے کے لیے اسی نہر میں اپنے بحری بیڑے ڈال کر ’’سونے کی چڑیا‘‘ یعنی ہندوستان پر قابض ہوئے ۔محمد علی نے کہا یہ بھی میرے لیے ایک خبر ہے ۔

جہاز کے شہپر نے دریچے اور نیلی ربن کے درمیان بصری راستہ روک لیا مگر چشم تخیل کا دریچہ ابھی کھلا تھا ۔مسافر نے محمد علی سے پوچھا کہ تمھیں ایک اور خبر نہ دوں کہ اس نہر کے کھودنے اور بحر احمر کو بحیرہ روم سے ملانے سے حضرت عمر فاروقؓ نے فاتح مصر حضرت عمرو ابن العاص کو روکا تھا ۔علی نے پوچھا کہ کیوں اس میں کیا قباحت تھی ؟ حضرت عمر  ؓ تو بہت بڑے منتظم اور رعوام کے خیر خواہ حکمران تھے ان کے دورِ خلافت میں تو کئی نہریں بنائی گئی تھیں ۔میں نے کہا اس وقت عمرو ابن العاص ؓکو روکنے کا ان کا فیصلہ درست تھا۔ ہجرت کے اٹھارویں برس جب نجد میں قحط نے ڈیرے ڈالے تو انھوں نے تمام گورنروں کو حکم دیا کہ مکہ اور مدینہ میں اناج اور غلے کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔سب سے بڑا مسئلہ شام اور مصر سے سرزمین نجد کو ترسیل کا تھا ۔ خشکی کا راستہ دور افتادہ اور سفر کے لیے کٹھن تھا ۔عمرو ابن العاص ؓ نے حضرت عمرؓ کے کہنے پر قاہرہ سے چند میل کے فاصلے پر واقع قسطاط سے ایک نہر نکالی یوں دریائے نیل کو بحر احمر سے ملا دیا ۔مصر سے اناج جہازوں اور کشتیوںمیں لاد کر مدینہ منورہ کی قریبی بندرگاہ میں اتارا جا تا ۔مسافر اس تحیر میں گم تھا کہ ۶۹ کلومیٹر نہر ان قحط زدہ انسانوں نے صرف چھے ماہ کے قلیل عرصے میں کیسے کھودی ہو گی۔اقبالؔ نے الجھن دور کر دی کہ ’’مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ‘‘

انہی کی طرح بے تیغ سپاہیوں نے جنگ خندق میں ساڑھے تین میل لمبی تیس فٹ چوڑی اور پندرہ فٹ گہر ی خندق صرف بیس دنوںمیں تیار کی تھی ۔محمد علی نے کہا آپ نہرِ امیرا لمومنین کی بات کر رہے ہیں ۔میںنے کہا جی ہاں اور اسی نہر کی کامیابی نے حضرت  عمرو ابن العاص کو یہ تقوویت بخشی کہ خلیفتہ المسلمین سے اجازت مانگی کہ فرما نامی علاقے سے بحیرہ روم کا درمیانی فاصلہ بہت کم ہے ان کو ایک نہر کھود کر ملا نہ دیا جائے ؟ توخلیفہ نے منع کیا اور خط لکھ بھیجا کہ اگر ایسا ہوا تو یونانی بحری بیڑوں میں بیٹھ کر سرزمین عرب پر حملہ آور ہو جائیں گے اور جو حاجی حجاز مقدس کے لیے عازم سفر ہوتے ہیں ان کو لوٹ لیا کریں گے ۔حضرت عمرؓ کی دور اندیشی سے حجاز کے حاجی تو یونانی حملوں سے محفوظ رہے مگر افسوس انیسویں صدی کے آخری قرن میں بننے والے اس راستے نے ہندوستان پر مسلمانوں کے خلاف انگریزو ں کی گرفت مزید مستحکم کی اور ہندوستان سے انگلستان ترسیلات ِ زر جبکہ انگلستان سے ہندوستان ترسیلات ِ آلاتِ حرب میں آسانی ہوئی۔

جہاز آسمان کی فضائوں سے اتر کر زمین پر دوڑنے لگا تو چشم تخیل نے بھی انگڑائی لی۔ محمد علی نے کہا یہ شرم الشیخ ہے مصر کا ایک صحت افزا مقام یہاں لاکھوں سیاح ہر سال آتے ہیں عام طور پر یہاں موسم شدید گرم ہو تا ہے مگر جنوری اور فروری میں معتدل ہو تا ہے تم اچھے موسم میں آئے ہو ان دنوں گرمی زیادہ نہیں ہوتی،سمجھو بہار ہے ۔میںنے کہا بہار تو ہر جگہ خوبصورت ہوتی ہے میںنے کشمیر ،سوات اور مانسہرہ کی بہاریں دیکھی ہیں ۔یخ بستہ اور برفیلے پہاڑوں پر جب بہار آتی ہے تو ہر سو ہریالی بچھ جاتی ہے پھول کھل اٹھتے ہیں اور پرندے خوشی سے چہچہانے لگتے ہیں یوںلگتا ہے زمین اپنی ساری خوبصورتی آسمان کے سامنے آشکار کر رہی ہے اور چشمِ فلک سے محبت کا خراج مانگ رہی ہو۔چیڑ ، چنار اور صنوبر کے درخت اپسرائوں کی مانند مہکتے پھولوں کے درمیان کھڑے ناظرین کو مسحور و مسرور کرنے میں اپنی تما م تر خوبصورتی نچھاور کر رہے ہوتے ہیں ۔حسن بے پراوہ کو اپنی بے حجابی پر کوئی ندامت محسوس نہیں ہو رہی ہوتی ۔شرم الشیخ میں بھی بہار کی خوبصورتی کم نہ تھی بلاشبہ یہاں چیڑ و چنار کے درخت ناپید تھے اور سبزہ ہریالی کی جگہ ریگ ریگستان اور اٹھکیلیاں سوجھتی پر وا بحیرہ احمر سے اڑ کر نیل گگن اور نیل کے مسکن تک اپنی رعنائیاں اور لطافتیں بکھیرتی ہے۔اس کی خوش نصیبی ہے کہ قدیم شہنشاہوں کے مقبروں اور نبیوں کے نقوش پا سے ہم کلام ہو کر ایشیا اور افریقہ کے مقدس شہروں کی عظمتِ رفتہ کے الہامی نغمے الاپتی ہے ۔ہم ہوائی مستقر سے ایک خوبصورت لیمو زین گاڑی میں بیٹھ کر جولی حویلی گالف ریزرت پہنچے وہاں دکتورہ بسنت ہماری منتظر تھیں ۔ مخصوص عربی لباس زیب تن کیے بسنت نے عربی لہجے میں اردو بولتے ہوئے کہا ’’مرحبا مرحبا یا دکتورالطاف مصر میں آپ کااستقبال ہے ‘‘اردو نگر سے ہزاروں میل دور ایک عرب خاتون اسے اردو زبان میں اتنا طویل جملہ اتنی روانی او ر آسانی سے سن کر خوشی کی انتہا نہ رہی ۔سر پر گلابی رنگ کا سکارف اور اودے رنگ کا مختصر کوٹ پہنے خو ش شکل بسنت کی آنکھوں میں خوشی کے جلوے دیدنی تھے ۔ان کی گفتگو سن کر یوںلگا :

ڈلی ہو مصر کی جیسے زبان ایسی تھی

میں دیکھوںلہجہ کبھی دیکھوں شین قاف بدن

میرا اور محمد علی کا سامان ہوٹل میں موجود ملازمین میں سے ایک کے حوالے کر کے دکتورہ بسنت ہمیں ہوٹل کی لابی میں لے گئیں جہاں طنطا یونیورسٹی کے رئیس جامعہ اور مصری حکومت کے ایک وزیر کانفرس کے مندو بین سے مصافحہ کرتے اور گال سے گال ملاتے ہوئے بغل گیر ہوتے ۔مجھے مصافحے اور معانقہ میںکوئی دقت نہیں تھی مگر گال سے گال ملانے والا مرحلہ مشکل تھا۔مجھے اس سے پہلے کبھی اس کیفیت و حالات سے گزرنے کا تجربہ نہیں ہوا تھا ۔ اس لیے غلطی ہو گئی اور وزیر موصوف کی گال سے گال لگانے کی بجائے ان کی گال پر ہونٹ رکھ دیے ۔اس کام میں ہندوستانی سفارت خانے سے آئے دکتور لیاقت علی تجربہ کار ثابت ہوئے۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے ملک کا وزیر اعظم نریندر مودی بھی جھپی ڈالتا ہے ، آپ نے کہیں ان سے تو نہیں سیکھا۔انھوںنے کہا میں نے یہ سلیقہ یہاں مصر میں آ کر سیکھا ہے میںمصر میںہندوستانی سفارت خانے میں کلچرل اتاشی ہوں ۔مصر میں جہاں جہاں تعلیمی اور تہذیبی جمگھٹے ہوتے ہیں تو میرے سرکاری فرائض میں شامل ہے وہاں جانا اور حکومت ہند کا مؤ قف پیش کر نا اور مصری عوام اور دارلحکومت سے اپنے دیش کی سمبندھنوں کو مضبوط بنانا ۔ میں نے کہا سرکاری کانفرنسوں کو جمگھٹا اچھا کہا ہے آپ نے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...