Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > کانفرنس یا جمگٹھا

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

کانفرنس یا جمگٹھا
ARI Id

1688711613335_56116725

Access

Open/Free Access

Pages

۲۳

کانفرس یا جمگٹھا

طنطا یونیورسٹی کی یہ کانفرس بھی ایک جمگھٹا ہی تھی ۔موضوع جس قدر شاندار اور    موقع و محل کے مطابق تھا منتظمین اور مندو بین اس قدر اناڑی اور بے محل و بیزار ۔ہر مقرر کو دہشت گردی کے اسباب و عوامل ،اس سے گزرنے والی اقوام کی تکالیف اور اس عفریت سے بچائو کے تدابیر کو بیان کر نے کے لیے صرف پانچ منٹ دیے گئے تھے۔دو منٹ تو جامعہ طنطا کے ارباب و اختیار و اقتدار کی قصیدہ گوئی میں گزر جاتے کہ اتنے اہم موضوع پر سیمینار رکھا ،کچھ وقت تالیوں اور باقی میں دہشت گردی پر بات ہوتی ۔

کانفرس ہال میں مسافر کے قریب دکتورہ ایمان تشریف فرما تھی ،ایمان صاحبہ کے مقالے کا موضوع اردو افسانے پر دہشت گردی کے اثرات تھا ۔مجھے عربی نما لہجے میں کہنے لگیں کہ بہت خوف زدہ ہوں زندگی میں پہلی دفعہ کسی کانفرس میں مقالہ پڑھ رہی ہوں میرے لیے دعا کریں۔میں نے کہا’’درود شریف پڑھیں خوف ختم ہو جائے گا ‘‘تھوڑی دیر بعد مجھ سے کہنے لگیں ’’زبردست نسخہ بتایا آپ نے ،میں تو بہت بہادر ہو گئی ہوں۔‘‘ دکتورہ مونا،دکتورہ بسنت،دکتور محمد علی کے مقالوںکے موضوعات پاکستانی سماج اور ادب پر دہشت گردی کے اثرات کااحاطہ کر رہے تھے ۔ان کے مقالوںمیں اگر کسی کو انہماک سے سنا تو وہ شاید وہ میں ہی تھا باقی لوگوںکو پاکستانی مسائل اور پاکستان میں دہشت گردی سے کوئی سرو کار نہ تھا ۔ افغانستان ،روہنگیاکے بارے میں اس کانفرس کے منتظمین اور مقررین نے کوئی لب کشائی نہیں کی ۔یہاں تک کہ مسئلہ کشمیر اور ہندوستان میں ہندوتوا کے شکار کروڑوں مسلمانوں کی حالت زار پر بھی یہ عربی منتظمین عجمی (گونگے)بنے تھے اور جو تھوڑا بہت میرے اکسانے پر بولتے بھی تو ہندوستانی حکومت کے مؤقف کے ہم خیال نظر آتے ۔مجھے یہ بات کھٹکتی کہ سعودی عرب ،عرب امارات ،سوڈان ،نائیجیریااور مصری مقررین کا پاکستانی مؤقف سے زیادہ ہندوستانی مؤقف کی طرف جھکائو کیوںہے؟ پاکستانی تو ان اسلامی ممالک پر پڑنے والی ہر افتاد اور مصیبت میں برابر کے شریک ہوتے ہیں ۔عرب اسرائیل جنگ میں پاکستانی عوام اور حکومت نے کھل کر اسرائیل کی مخالفت کی۔ہم اسرائیل دشمنی میں اس حد تک آ گے آ گئے ہیں کہ اپنے سبز پاسپورٹ کے سرورق پر لکھا ہے کہ یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ باقی دنیا کے سار ے ممالک کے لیے کا آمد ہے۔سابق پاکستانی وزیر خارجہ خورشید قصوری اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک بین الاقوامی کانفرس میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی تو انھوںنے پوچھا کہ آخر پاکستانی ہم سے اس قدر بیزار کیوں ہے ،ہم سے اتنی نفرت اور دوری خود عربوں کی نہیں جتنی آپ پاکستانیوںکی ہے ۔

عراق ،شام ،اردن اور فلسطین پر پاکستانی عوام کا مؤقف اس قدر غیر متزلزل ہے کہ سرکاری سطح پر حکومت اگر کسی کمزوری یا مصلحت کا شکار ہو جائے تو عوام سڑکوں پر نکل آتے ہیں،سڑکیں بند سرکاری املاک پائے مال ،جلسے اور جلوس معمول بن جاتے ہیں ۔یہاں تک کہ جمعہ کے جمعہ مساجد میں علما حکومت وقت کو متنبہ کرتے ہیںکہ عربوں کا ساتھ دو ۔ ادھر مسئلہ کشمیر پر بڑے ممالک تو در کنار خود فلسطین کے مرحوم لیڈر یاسر عرفات کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہم کشمیر پر ہندوستان سے اختلاف نہیں کر سکتے اس سے فلسطین کی آزادی کے خلاف ہندوستانی مؤقف میں تیزی آتی ہے۔میںنے یہ ساری صورتِ حال جامعہ الازہر کے دارالترجمہ کے پروفیسر دکتور خالد کے سامنے پیش کی تو چائے کی لمبی سِپ لیتے ہوئے مسکرا کر کہنے لگے اسلامی امہ کے حوالے سے جو کرب پاکستانی عوام رکھتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں مگر بین الاقوامی قرابت داری صرف رشتہ دار ی اور مذہب داری کی بنیاد پر نہیں ہوتی ۔ایک گھر میں تین بھائیوں میں دو بھائی ایک دوسرے سے تیسرے کے نسبت زیادہ قریب اس لیے نہیں ہوتے کہ تیسرا سگا نہیں بلکہ ان دو کے مفادات ایک دوسرے سے پورے ہوتے ہیں ۔بین الاقوامی تعلق داری میں بھی اسلامی براداری سے زیادہ کاروباری اور ذاتی مفاد کا عمل دخل ہوتا ہے ۔پاکستان بے شک ایٹمی طاقت ہے اور پاکستانی عوام کے مسلم دنیا کے لیے مخلص جذبات اور پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی مسلم دنیا معترف ہے مگر پاکستان کی سیاسی اور معاشی پسماندگی باقی دنیا سے ہم رکابی میں رکاوٹ ہے۔لوگ اپنے آقا کے مذہب پر ہوتے ہیں ۔کسی زمانے میں پاکستان اسلامی دنیا کا آقا اور پیشرو بھی رہا ہے مگر اب ایسا نہیں ، اب نہ پاکستان ہاتھی رہا اور نہ اس کے پائوں میں سب کا پائوں ۔متحدہ عرب امارات سے آئی پروفیسردکتورہ امل نے ایک اور توجیہ پیش کی ۔ان کا مؤقف تھا کہ پاکستانی جس قدر محنتی ، جفا کش ،امانت دار اور وفادار ہوتے ہیں وہ ہم امارات والوں سے زیادہ شاید ہی دوسرے عرب جانتے ہوں مگر آپ کے ہاں بنیادی مسئلہ حکومت اور حکمرانوں کا ہو تا ہے ۔امارات میں کام کر نے والے پاکستانی محنت کش ایک خطیر زر مبادلہ اپنے ملک کو بھیجتے ہیں مگر ان کے اقامتی مسائل اور سفری سہولیات کے حوالے سے پاکستانی سفارت خانہ کوئی خاص مدد نہیں کرتا ۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کو دوسرے ممالک میں موجود اپنے شہریوں کا کچھ پتہ نہیں ۔ایسے میں ان ممالک کوپاکستانی مسائل سے کیا لینا دینا ۔دوسری اہم بات یہ کہ پاکستانی سفارت خانے میں ایسے پیشہ ور اور محبِ وطن لوگ نہیں ہوتے جیسے ہندوستانی سفارت خانے میں  ہوتے ہیں ۔دوسری اقوام کو اپنے مؤقف (چاہے درست ہو یا غلط)کا ہم خیال بنانے کے جو گر ہندوستانی سفارت کار آزماتے ہیں اس سے آپ کے سفارت کار نابلد اور بے خبر ہیں ۔ پاکستانی سفارت کار ی کسی زمانے میں بین الاقوامی معاملات میں بڑی قابلِ قدر تھی مگر اب ایسا نہیں ۔دکتورہ امل کی اس گفتگو پر دکتورہ بسنت نے مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرس میں پاکستانی سفارت خانے سے میں نے بار بار رابطہ کیا ،میں خود تین دفعہ پاکستانی سفارت خانے گئی تاکہ ان کا کوئی نمائندہ اس بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہو اور یوں پاکستان کی سرکاری حوالے سے نمائندگی ہو جائے مگر سفارتی عملے کو اس کانفرس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جبکہ ہندوستان کے سفارت خانے ہم نے صرف ایک فون کال ملائی اس کے بعد ان کا نمائندہ خود بھی ہم سے رابطے میں تھا اور انھوں نے ہمیں دہشت گردی کے بارے میں ہندوستانی مؤقف پر مبنی کچھ وڈیوز اور گاندھی جی کے اہنسا اور مساواتِ انسانی پر مبنی پیغامات بھی بھیجے ۔دکتورہ امل نے کہا ارے بسنت تم سے غلطی ہوئی اگر تم ان کو بتاتی کہ یہ کانفرس طنطا یو نیورسٹی میں نہیں بلکہ شرم الشیخ جیسے سیاحتی علاقے میں ہے تو بہت سارے مندوبین پاکستانی سفارت خانے سے مع اہل و عیال آ جاتے ۔

کانفرس مجموعی طور بد نظمی کا شکار رہی ۔بڑے ہا ل کے بجائے بغلی کمروں میں پانچ پانچ منٹ کے مقالے پیش ہوئے جس سے نہ پیش کر نے والے مطمئن تھے اور نہ سننے والوں پر کوئی اثر ہوا۔آخری دن رئیس جامعہ اور اعلیٰ انتظامی عہدہ داروں نے سٹیج پر نشست جمائی اور کانفرس کے معتمد نے دو دن کی کار گزاری انتہائی پرجوش انداز میں بیان کی ۔وہی روایتی درباری جملے یونیورسٹی انتظامیہ کی تعریفیں اور اچھی کانفرس کے انعقاد پر مبارک بادیں پہلے سے لکھے ہوئے کانفرس کے حاصلات کو پڑھا گیا اور پھر تحیا مصر کی صدائیں بلند ہوئیں ۔

یہ فروری ۲۰۱۹ء کی ستائیس تاریخ تھی مانسہرہ کے خوبصورت گھنے جنگل جا بہ پر ہندوستانی فضائیہ نے جو حملہ کیا تھا جس میں ایک کوا مار کر اور چند چیڑ کے درختوں کو نقصان پہنچا کر ہندستانی حکومت اور میڈیا یہ واویلا کر رہے تھے کہ جیش محمد نامی جہادی تنظیم کے مدرسے میں سینکڑوں مجاہدین قتل کر دیے گئے ۔اس حملے کے جواب میں پاکستانی ہوابازوں نے دو ہندوستانی جنگی طیارے مار گرا کر ایک ہندوستانی پائلٹ ابھی نندن کو پاکستانی حدوود سے گرفتار کر لیا تھا ۔دو ایٹمی ممالک جنگ کے دہانے پر تھے اور جنگ سے باز رکھنے کے لیے بین الاقوامی طاقتیں پچھلے دروازوں سے سفارت کاری میں مصروف تھیں ۲۵ فروری کی جا بہ حملے پر خوشی کی ترجمانی لیاقت اور اس حملے سے رنجیدگی کے اثرات میرے چہرے پر عیاں تھے ،جابہ اور میری یونیورسٹی کے درمیان فاصلہ ایک کلومیٹر سے بھی کم ہے اور میں دشمن فضائیہ کی گھن گرج کو ہزاروں میل دور شرم الشیخ میں محسوس کر رہا تھا ۔مگر ۲۷ فروری کو جو اس کانفرس کی بھی آخری تاریخ تھی خوشی اور رنجیدگی نے ہم دونوں کے چہروں پر باہمی تبادلہ کر لیا تھا ۔لیاقت کی کوشش تھی کہ میرے ساتھ کم ہی ملاقات ہو بالکل اسی طرح جس طرح دو دن پہلے میری کوشش تھی ۔میں شعور ی طور پر پہلی صف کی اس نشست پر بیٹھ گیا جو لیاقت صاحب کی نشست کے ساتھ تھی ۔لیاقت صاحب کو ابھی نندن اور طیاروں کے گرنے سے زیادہ اپنی نوکری کی فکر تھی ۔میرے ساتھ ایک نشست میں خوشگوار موڈ میں بیٹھنا اس کی نوکری کے لیے خطرہ تھا کیونکہ وہ مسلمان تھا اور ہندوستانی ذرائع ابلاغ میری اور اس کی اٹھک بیٹھک کی تصویر وہ بھی ایک بین الاقوامی کانفرس کی جس کا موضوع دہشت گردی ہو، اگر تشہیر پا لے تو بیچارہ پھر سے دکن کے کسی پرائمری سکول میں عربی اختیاری مضمون کی پڑھائی پر تعینات ہو جائے گا ۔میں نے لیاقت سے پوچھا کہ کچھ پریشان ہو؟جواب دیا نہیں تو ۔پریشان کیوں ہوں گا ۔بس ایک فکر لاحق ہے کہ شرم الشیخ سے قاہرہ کے لیے جس جہاز سے میں نے جا نا ہے اس کے نکلنے کا وقت قریب ہے اور رئیس جامعہ کی تقریر لمبی ہو رہی ہے۔میں نے کہا فکر نہ کریں آپ کو بھی ابھی نندن والے جہاز میں پہنچادیں گے ۔بس اس کی چائے ختم ہو تو آپ بھی ساتھ ہو لینا ۔کہنے لگے الطاف بھائی آپ کو اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں ۔رئیس جامعہ نے مندوبین کو مصری السسیی حکومت کی دہشت گردی کے خلاف اقداما ت اور خو ش حال ترقی پسند روشن خیال مصر کی نوید سنائی ۔انھوں نے اس بات پر سامعین سے تالیاں بجوائیں کہ بے شک ہندوستان اور پاکستان جنگ کے دہانے پر ہیں مگر آج ہم نے دکتورالطاف یوسف زئی اور جناب لیاقت علی کو ایک نشست پر بٹھا دیا ہے تقریرکے اختتام پر کانفرنس کے منتظمین میں تعریفی اور توصیفی اسناد تقسیم کی گئیں اور جنہوں نے مقالے پڑھے تھے ان سے ہاتھ تک نہیں ملایا گیا ۔ہال سے باہر لابی میں مقالہ نگار اپنی اپنی اسناد کے حصول کے لیے ایسے دست و گریباں تھے جیسے غریب ممالک کے لوگ راشن کی تقسیم کے وقت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں ٹوٹ پڑتے ہیں۔جامعہ الازہر سے آئے دکتورہ رعشہ،دکتور خالد اور دکتور عبدالمجید نے رئیس جامعہ کو آڑھے ہاتھوں لیا کہ اپنی یونیورسٹی کے کلرکوں اور بابوئوں سے ہاتھ ملاکر اسناد دینے کا وقت تمھارے پاس ہے اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں اور باہر ممالک سے آئے پروفیسروں اور سائنسدانوں کے لیے تمھارے پاس کوئی وقت نہیں ۔مسافر کو اندازہ ہو ا کہ بابوئوں کی حکومت اور ان کو خوش رکھنے کی روایت نہ صرف پاکستان بلکہ ہر جگہ موجود ہے ۔

رشید احمد صدیقی نے بابو مزاجی اور بابو برتاوے کے بارے میں کیا خوب بات کہی ہے کہ بابو قومیت سے آزاد ہوتا ہے ۔نہ مسلم ،نہ عیسائی ،نہ ہندو،نہ پارسی ،نہ چھوت ،نہ اچھوت آفس میں مسلسل بیٹھے رہنے اور کچھ اس سبب سے کہ سارا دفتر و دفتر ی راز اس کے سر میں ہوتے ہیں ۔جس کے بوجھ سے اس کی گردن مختصر اور توند بڑھ جاتی ہے جس کو بھرنے کے لیے اسے اوروں سے زیادہ فکر ہوتی ہے ۔اس کا معدہ اکثر کمزور ہوتا ہے ۔ باتیں بہت کرتا ہے جتنا خود سمجھتا ہے اتنا اوروں کو سمجھنے نہیں دیتا ۔ہر چیز قبول کرلیتا ہے اس اصول کی بنا پر کہ کچھ آتا ہی تو ہے جا تا تو نہیں ۔۔۔اس پر جتنا بھروسا ہوتا ہے دوسروں پر نہیں ہو تا ۔جس طرح قانون کا اصول ہے کہ بادشاہ سے کوئی بے جا بات سرزد نہیں ہوتی اس طرح بابو سے بھی کوئی غلطی نہیں ہوتی ۔ممکن ہے یہ اس وجہ سے کہ بابو کی نظر ہمیشہ غلطی کی شناخت و دریافت پر ہوتی ہے ۔وہ ہر معاملہ اور ہر کاغذ اس نظر سے جانچتا ہے کہ کہیں کسی کو ناجائز فائدہ تو نہیں پہنچ رہا ہے لیکن ناجائز نقصان پہنچ رہا ہے تو وہ خیر ہے ۔

اسناد کے حصول کی اس دھکم پیل میں میری نظر دکتورہ بسنت پر پڑی وہ ایک کونے میں پریشان کھڑی تھیں ۔میں نے ان کے قریب جا کر مبارکباد دی کہ آپ کی یونیورسٹی نے ایک اچھے موضوع پر کانفرس منعقد کی ۔مگر ان کے چہرے پر افسردگی کے ڈیرے تھے ۔ انھوں نے میری سند اپنی فائل سے نکال کر مجھے پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ رئیس جامعہ نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے سند نہیں دی ۔میں نے کہا مجھے کوئی افسوس نہیں مجھے خوشی ہے کہ میں آپ کے ہاتھوں سے وصول کر رہا ہوں میری نظر میں اگر مصر سے کوئی اچھا چہرہ اور اچھا تاثر ہے تو وہ آپ ہیں آپ نے مجھے بلایا اور مہمانداری کا حق ادا کیا مجھے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ ہم پاکستان میں بھی ایسے ہی رئوسائے جامعات کو بھگت رہے ہیں ۔خوئے دلنوازی سے بے بہرہ ایسے روسا بلند نگہی ،سخن کی دلنوازی اور پر سوزیٔ جاں کے قریب سے بھی نہیں گزرے ہوتے ۔ ان کی ریاست میں بابوبا اختیار اور استاد بے دست و پا ہو تا ہے ۔

عام مصریوں کی طرح دکتورہ بسنت جو ہر وقت بلند آواز کے ساتھ لہرا لہرا گفتگو کرتیں اور مخاطب کو والہانہ انداز میں اپنا مدعا بیان کرتیں آج خلاف معمول چپ چپ اور گم صم تھیں ۔ بڑی مشکل سے وہ لب کشا ہوئیں تو مجھ سے کہنے لگیں میرے خاندان میں کوئی پولیس میں نہیں ، کوئی فوجی افسر یا کوئی سینئر پروفیسر نہیں ،کسی کے پاس کوئی سرکای عہدہ نہیں، ورنہ آج رئیس جامعہ اپنی تقریر میں میرا بھی ذکر کرتا میں نے بھی اس کانفرس کو کامیاب بنانے میں بڑی محنت کی ہے۔پاکستانی اور ہندوستانی ایمبیسیوں کے چکر کاٹے ہیں وہاں سے لیاقت صاحب اور پاکستان سے آپ کو بلانے کا سہرا میرے سر ہے مگر مجھے کوئی شاباشی نہیں ملی ۔بسنت سنا رہی تھی اور میں سنتا جا رہا تھا آج مجھے ایک مختلف بسنت کا سامنا تھا اپنے حق کے لیے بات کر نے والی نڈر اور معصوم بسنت ۔ان کی اس کیفیت میں ان کے چہرے پر گہری اداسی اور سوگواری کی پرچھائیں واضح تھی جو ان کے حسن و جمال میں مزید اضافے کا موجب تھی ۔بالکل اس پھول آئے پیڑ کی طرح جو صحرائے سینا میں سحر کے کہر آلود اجالے میں اور بھی دلکش دکھائی دیتا ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...