Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > عورت اور مصری تہذیب

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

عورت اور مصری تہذیب
ARI Id

1688711613335_56116730

Access

Open/Free Access

Pages

۳۸

عورت اور مصری تہذیب

قدیم مصری تہذیب میں اکثر و بیشتر بادشاہ اپنی بہن سے شادی کرتا حتیٰ کہ بیٹی سے بھی شادی رچائی جاتی تھی ۔اس کے لیے تاویل یہ پیش کی جاتی کہ شاہی خون خالص رہے۔ فرعونی دور کی تحریروں کو جب ڈی کوڈ کیا گیا تو معلوم ہو ا کہ مصری شاعری میں لفظ بھائی بہن محبوب اور محبوبہ کے معنوںمیں بھی استعمال ہوتا تھا ۔بادشاہوں کے حرموں میں بہنوں کے علاوہ سینکڑوں کنیزیں رکھنے کا شوق اپنی جگہ مگر متوسط آمدنی والے مصر کے عام لوگ یک زوجگی پر قانع رہتے تھے ۔خانگی زندگی بدیہی طور پر بڑی حد تک بہتر تھی۔عورت کو طلاق دینا آسان نہ تھا ۔عقد میں آنے والی عورت کو جائیداد میں اچھا خاصا حصہ ملتا۔ایک مغربی مفکر کا قول ہے کہ کسی بھی قدیم یا جدید تہذیب نے عورت کو وہ بلند قانونی رتبہ نہیں دیا جتنا وادی ِ نیل کے باشندوں نے دیا۔ اپنی تند خو (سقراطی) بیویوں کو گھر میں بند رکھنے کے عادی یونانی سیاح یہ آزادی دیکھ کر ششدر رہ جاتے ۔ فرعونی دور کے ادب میں عورت کی حیثیت اور عظمت کے گُن گائے جاتے تھے۔ مصری عورت سے محبت ایک قومی فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ مصری مرد کو صرف مصری عورت سے ہی قلبی اور جنسی وابستگی کی ترغیب دی جاتی۔ ایک مصری بزرگ اپنے سننے والوں کو سمجھاتے ہیں کہ’’ باہر سے آنے والی ایسی عورتوں سے ہوشیار رہو ۔یہ گہرے پانیوں کے بھنور کی مانند ہوتی ہیں‘‘۔اسی طرح ایک مصری اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’اگر تم نے اپنا گھر کامیابی کے ساتھ سجا سنوار لیا ہے اور خوب صورت ترین بیوی تمھاری آغوش میں ہے تو اس کا پیٹ بھرو اور کمر پر کپڑا ڈالو۔اس کی خوشی کا سامان مہیا کرو کیوں کہ یہ منافع بخش کھیتی ہے۔اگر تم نے اس کا دل توڑا تو خبردار یہ سب کچھ تباہ کر دے گی‘‘۔

فرعون کے زمانے میں مصری عورت پر کوئی سماجی قدغن نہ تھی کہ مرد سے تعلق کا انداز کس طرح رکھے ۔وہ بڑی آسانی کے ساتھ جنسی معاملات کو موضوعِ بحث بناتی۔ معاشقوں میں بھی عموماً عورت شروعات کرتی۔خود سپردگی کی صرف خواہش نہ رکھتی بلکہ کھلم کھلا اظہار پر بھی قادر تھی۔ اس کی ایک بڑی مثال زلیخا کی وہ حرکت تھی جس سے حضرت یوسفؑ بھاگتے ہیں اور راستے میں زلیخا کے شوہر ملتے ہیں اور وہ سمجھ جاتے ہیں کہ دعوتِ گناہ عورت کی طرف سے ہے۔ سو ان کے اندر کوئی جوشِ مردانگی پیدا نہیں ہوتا اور نہ اس معاملے کو غیرت کا مسئلہ بناتے ہیں۔ بلکہ یوسف ؑ کو کہتے ہیںبس خاموش رہو یعنی مٹی پائو یہ عورتیں بس ایسی ہی ہوتی ہیں۔ عصرِ حاضر کی مصری تہذیب نے بہت ساری چیزوں کو تبدیل کر دیا ہے مگر عورت ذات کو جو شخصی آزادی حاصل تھی اسے برقرار رکھا اور مصری عورت آج بھی بہت سارے فیصلوں اور معاملوں میں باقی ایفر و عرب دنیا سے زیادہ بااختیار اور باعمل ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...