Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > سینٹ کھیترائن

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

سینٹ کھیترائن
ARI Id

1688711613335_56116733

Access

Open/Free Access

Pages

۴۲

سینٹ کیتھرائن

دھب سے طویل مسافت کے بعد ہم سینٹ کھترائن پہنچے ۔دکتوریحی ٰ نے مجھ سے پوچھاکہ تمھیں اس علاقے کے بارے میں جانکاری ہے ؟میں نے کہا ،مجھے نہیں معلوم ، اس نے کہا بہت اہم مقام ہے ،یہاں جبلِ موسیٰ ہے جہاں حضرت ِموسیٰؑ اور ربِ کریم ہم کلام ہوئے تھے ۔یہاں حضرت موسیٰؑ کو آگ دکھائی گئی اور پیغمبری دلوائی گئی ۔سبزے اور ہریالی سے بے خبر اس تنگ گھاٹی میں نہتے ،بے بس اور جنگی سامان سے ماورا اپنی قوم کو چین و امن اور آرام کی زندگی کے متلاشی موسیٰؑ کو خداوندِ کریم حکم دیتے ہیں کہ (اذہب الافرعون انہ طغیٰ ) فرعون کی طرف جائو ،بہت سرکش ہو گیا ہے ۔

میں تحیر اور وجد کی کیفیت میں تھا ،مجھے اپنے آپ کو بار بار یہ یقین دلانا پڑ رہا تھا کہ میں واقعی اس مقام پر کھڑا تھا جہاں تجلیات الٰہی کا ظہور ہوا تھا ۔میرے لیے یہ مقا م مانوس بھی تھا اور اجنبی بھی،میں یہاں پہلی دفعہ آیاتھا مگر یوں لگ رہا تھا جیسے میں یہاںکے کونے کونے سے واقف ہوں قرآنی آیات کی عملی نشانیاں میری آنکھوں کے سامنے تھیں میں بچپن سے مطالعہ قرآن کی وجہ سے اس علاقے اور یہاں ظہور پذیر ہونے والے واقعات سے با خبر تھا مگر آج با نظر ہو گیا ،پہلے ایک عام انسان تھا مگر آج اس نظارے نے خاص بنا دیا ۔سینا کی گرمی میں مجھے سردی سی محسوس ہو رہی تھی ،میری جسمانی حالت میری روحانی حالت کے ساتھ ایک کیفیت میں رہنے اور ساتھ دینے سے عاری تھی ۔دکتوریحیٰ نے پوچھا کیف الحال یا اخی ؟میں نے کہا قرآن کی بہت ساری آیات کا بصری مطالعہ کر رہا ہوں، جن کا متحمل میرا گناہ گار اور ناتواںجسم ہو نہیں سکتا اس لیے کچھ کپکپی سی طاری ہو گئی ہے ۔

میں نے دکتورہ شائمہ سے پوچھا کہ حیرت ہے اتنے بڑے برگزیدہ پیغمبروں کی سر زمین کا نام سینٹ کیتھرائن کے نام سے کیسے رکھا گیا ۔شائمہ نے پوچھا تم کو معلوم ہے سینٹ کیتھرائن کون تھی ؟میں نے نفی میں سر ہلایا ۔وہ بولی ایک سادھو خاتون تھیں جو باز نطینی حکمرانوں کی عیسائیت کے خلاف مہم جوئی اور عیسائیوں کی سر کوبی سے بننے والی خوف اور تشدد کی فضا سے بھاگ کر یہاں مقیم ہوئیں ۔

اس کی دیکھا دیکھی باقی لوگ بھی ان ہی تنگ گھاٹیوں کی طرف ہجرت کر آئے ۔ اسی کے نام سے اس علاقے کا نام سینٹ کیتھرائن رکھا گیا ۔دکتوریحیٰ نے سینٹ کیتھرائن میں موجود ایک خانقاہ کی طرف اشارہ کر کے کہا اس خانقاہ کی تاریخی حیثیت بھی نرالی ہے ۔ ظہور اسلام کے بعد جب ساری خانقاہیں ختم کر دی گئیں یا مساجد میں منتقل کر دی گئیں تو اس خانقاہ کو اس لیے ختم نہیں کیا گیا کہ اس کے نہ گرانے کی ضمانت ایک خط کے ذریعے نبی آخر الزماں حضرت محمد ؐ نے دی تھی ۔

سطح سمند سے سات ہزار پانچ سو فٹ بلندی پر واقع’’طور‘‘پہاڑوں سے مختلف ہے۔  اس کی شکل اور اس کے پتھروں کو دیکھ کر اس بوڑھے بابا کو یا د کر نے لگا جو ہمارے گائوں کے محلوں میں گھر گھر سرمہ بیچا کرتا تھا ۔یہ سرمہ وہ چارسدہ کے ایک قصبے دلدار گڑھی سے لاتا تھا۔ اس کے بہ قول یہ سرمہ ’’کوہِ طور‘‘سے لائے گئے ایک خاص پتھر کوکوٹ کر تیار کیا جاتا ہے۔ بابے کے اس دعوے میں حقیقت کتنی تھی خدا معلوم ،مگر جبل ِ موسیٰ ؑ کا پتھر واقعی کچھ سرمہ نما تھا ۔ اس پہاڑ کی تقدیس تین آسمانی مذاہب یہودیت ،عیسائیت اور اسلام میں مسلمہ ہے ۔ابتدائی عیسویں دور میں اس پہاڑ پر صرف مذہبی اکابرین کو چڑھنے کی اجازت تھی اور وہ بھی ننگے پائوں۔ جبلِ موسیٰ ؑ پر چڑھنے کی ابتدا ہارون پہاڑی سے شروع ہوتی ہے ۔یہاں حضرت ہارون ؑ کی یاد میں عیسائی گرجا اور ایک مسجد بنی ہے ۔ یہودیوں کے پیغمبر ہارونؑ کی یاد میں گرجا اور مسجد کی صورت میں عیسائیت ،یہودیت اور اسلام کی ہم آہنگی کا ایک حیران کن مظہر نظروں کے سامنے تھا ۔یہ وہی وادیٔ مقدس ہے جہاں سامری نے بنی اسرائیل کی عبادت کے لیے اس وقت سونے کا بچھڑا بنایا جب حضرت موسیٰ ؑ اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور ان سے محوِ کلام ہونے جبلِ موسیٰ  ؑپر موجود تھے ۔وہ جگہ اس علاقے سے تقریباََ سات کلومیٹر دور اوپر پہاڑ کی طرف ہے جہاں پیدل پہنچنے کے لیے آٹھ سے دس گھنٹے درکار ہوتے ہیں ۔مسافر کے ذہن میں سورہ طہٰ کی آیتیں تیرنے لگیں ۔یہاں سے موسیٰ  ؑ دیدارِ خداوندی کے لیے جب روانہ ہوئے تھے تو ملاقات والی جگہ پر وقت سے پہلے پہنچ گئے تھے ۔موسیٰ  ؑ کی جگہ کوئی بھی بشر ہوتا یہی کرتا ،محبوب سے ملاقات ہو تو عاشق کا دوڑے دوڑے جانا تو بنتا ہے ’’تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ ‘‘۔ مگر اﷲ تعالیٰ جب موسیٰ کو احساس دلاتے ہیں کہ تم سے غلطی ہو گئی ،وقت کی پابندی باقی قرینوں سے مقدم ہے ،تم کو پہلے نہیں آنا چاہیے تھا ،تمھارے پیچھے سامری نے یہودیوں کو بچھڑے کی عبادت پر لگا دیا ہے ۔ حضرت موسیؑ واپس آئے اور حکم دیا کہ اپنے اپنے قبیلے کے مرتد شدہ اور سامری کے جھانسے میں آئے ہوئوں کو دین موسوی پر ایمان رکھنے والے اہلِ ایمان قتل کر دیں ۔تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے کہ تقریباََستر ہزار یہودی اس میدان میں قتل ہوئے ۔

میں نے دکتور یحیٰ سے پوچھا کہ کیا اب بھی لوگ پیدل جاتے ہیں تو انھوں نے کہا کہ نہیں وہ جسمانی طاقت اور پختگی اب لوگوں میںکہاں اب لوگ اونٹ وغیرہ کی سواری لیتے ہیں۔ اوپر چڑھ کر جبل مناجات بھی واضح نظر آتا ہے جہاں حضرت شعیب ؑ کی رہائش تھی ۔ یہاں حضرت موسیؑ کا دس سال تک قیام رہا اور پھر حضرت شعیب ؑ کی صاحبزادی سے عقد ہوا۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...