Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > قدیم و جدید قاہرہ

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

قدیم و جدید قاہرہ
ARI Id

1688711613335_56116735

Access

Open/Free Access

Pages

۴۵

قدیم و جدید قاہرہ

مسافر دکتورمحمود کے ساتھ قاہرہ کے تنگ ،تاریک اور دھول مٹی سے اٹے بازار میں چہل قدمی کر رہا تھا ۔دکتورمحمو د نے کہا یہ قاہرہ قدیم ہے میں نے کہا اور غریب بھی اس نے مسکراتے ہوئے کہا غریب بھی اور فقیر بھی بہت ہے ۔میں نے کہا فقر بہت بڑی نعمت ہے۔ دکتورمحمود بولے ہاںمگر اس نعمت کے ثمرات قاہرہ جدید والے سمیٹ رہے ہیں ۔یہ فقیر لوگ رات دن محنت کر کے بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی حاصل کرتے ہیں مگر ان کے نوالے قاہرہ جدید کے باسیوں کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔رعایا قدیم میں جبکہ حکمران طبقہ جدید میں قیام پذیر ہے ۔

مصریوں کی پسندیدہ خوراک پُول ہے ۔بغیر مرچ مصالحوں کے حلیم کی طرح دکھائی دینے والی اس خوراک میں چھوٹے سائز کا لوبیا ڈالا جاتا ہے ۔ساتھ میں سلاد ، جو پلیٹ کی بجائے چھوٹے کاسے میں پیش کیا جاتا اس کے اندر تھوڑا سا پانی بھی ہوتا ہے ۔سلاد اور پول روٹی کے ساتھ تناول کرنے کے بعد سلاد کا بچ جانے والا پانی زیادہ خوش ذائقہ ہوتا ہے ۔دکتور محمود نے مشورہ دیا کہ رہ جانے والا پانی پیا کرو اس کی لذت پول سے بھی زیادہ ہوتی ہے ،میں نے کہا ایک یونانی کہاوت ہے کہ کسی بھی تخلیق کار کا فن پارہ سوسال سے زیادہ عوامی پذیرائی حاصل نہیں کر پاتا اگر وہ صرف پانی پیتا ہو ۔ یہ جو مصر میں فنونِ لطیفہ ،رقص اور مجسمہ تراشی کے خوبصورت نمونے تخلیق ہوئے ہیں اس کے پیچھے بھی اس سلادی پانی اور پول کا ہاتھ تو نہیں ؟۔کہنے لگے آپ کونہیں معلوم مصری بہت کچھ پیتے ہیں میں نے پوچھا مثلاََ؟کہنے لگے جیسے شیشہ ،چلم ،تمباکواور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ۔مصر میں چلم نوشی کی دکانیں بھی پول کے ٹھیلوں کی طرح جگہ جگہ پائی جاتی ہیں ۔ جہاں چھوٹے بڑے ،بوڑھے باجماعت چلم نوشی و دخانی کرتے رہتے ہیں ۔عجب بات یہ ہے کہ اس کو مصر میں سماجی برائی نہیں سمجھا جاتا ۔لوگ دکانوں کے اندر دکانوں کے سامنے چلم کشیدتے ہیں اور دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں ۔شیشہ پینے والوں میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شامل ہوتی ہے ۔ مسافر نے اس بارے میں دکتور محمود سے استفسار کیا تو انھوں نے کہا ہاں شیشہ پینا مردو زن کے لیے معیوب بات نہیں ہمارے معاشر ے نے اسے قبول کر لیاہے ۔ہمیں اس سے کوئی سماجی فرق نہیں پڑتا ۔مسافر کو دکتور محمود کی صاف گوئی اور سچ گوئی اچھی لگی ۔انھوں نے اپنے معاشرے میں کیے جانے والے کام پر جھوٹ موٹ کا پردہ نہیں ڈالا۔

ہم مزلقأ ارض للوأ جنرل بس سٹینڈ سے ایک مزدے میں بیٹھ کر قاہرہ یونیورسٹی کے قریب اترے ۔محمود نے حسرت سے یونیورسٹی کی طرف دیکھ کر کہا کاش یہاں مجھے نوکری مل جائے ،یہ میری آئیڈل یونیورسٹی ہے ۔یہاں سائنسی علوم کے ساتھ ساتھ فنون کی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔ دکتور محمود نے سیکیورٹی گارڈ سے اجازت لے کر یونیورسٹی گیٹ سے اندر جا کر مجھے آواز دی کہ تم بھی آ جائو۔یہاں ہم اسلامی فنِ تعمیر کے ایک عمدہ نمونے یعنی یونیورسٹی کی مرکزی عمارت کو پس منظر میں رکھ کر عکس بندی کی ۔یونیورسٹی سے کچھ فاصلے پر حدیقۃ الحیوان کے سامنے مرکزی شاہرہ پر ایک بڑے چوراہے میں ابوالہول کا دیو ہیکل مجسمہ نصب تھا ۔اس کے ساتھ ایک خاتون کا مجسمہ بھی تھا ،ابوالہول نے خاتون کے سر پر سایۂ عاطفت کیا ہوا تھا ۔ مسافر کو ابوالہول کی یہ حرکت معنی خیز لگی ۔میں نے وضاحت طلب کی تو دکتور محمود بولے آپ کو یہاں اکثر جگہوں پر ابوالہول کے مجسمے لگے نظر آئیں گے ۔ہمارے ہاں ابوالہول کو مصر کی حفاظت کا دیوتا سمجھا جا تا ہے ۔میں نے پوچھا اور عورت۔۔۔؟اس نے کہا عورت خود مصر ہے یعنی مصر پر ابوالہول کا سایہ ہے ۔یہ جو ابوالہول کے پنجوں کے بل بیٹھنے کا انداز ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ ہر وقت چست و تیار بیٹھا ہوتا ہے مصر کی حفاظت میں ،میں نے دکتور محمود سے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ابوالہول سے ایک نسبت امریکہ کی مجسمہ آزادی کی بھی ہے ۔محمود چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ لا کر کہنے لگا کیسی نسبت جوڑتے ہیں آپ دکتور الطاف ۔کہاں ہزاروں سال کی تاریخ کا امین ابوالہول اور کہاں ڈیڑھ صدی سے بھی کم عمر کا مجسمہ ۔میں نے کہا آپ کی بات درست ہے مگر شاید آپ کو معلوم نہیں اس مجسمے کوبنانے والے فرانسیسی مجسمہ ساز بار تھولدی جب ۱۸۵۵ء میں مصر آیا تو ابوالہول کو دیکھ کر متاثر ہوا اور سوچا کہ ایسی ہی یادگار اور ان مٹ نشانی اُسے بھی بنانی چاہیے ۔ان دنوں نہر سویز کے ذریعے مشرق و مغرب کو ملانے کی باتیں گردش میں تھیں اور یہ منصوبہ بنایا جا رہا تھا کہ بحری جہاز مغرب سے براستہ سویز کنال بحر احمر کے راستے مشرق کی جانب سفر کرے ۔ان جہازوں کو سوئے قطار رکھنے کے لیے اطلاعی مینار کی ضرورت محسوس ہوئی تو بار تھولدی نے اپنا منصوبہ مصری حکمران اسماعیل پاشا کے سامنے پیش کیا ۔بار تھولدی نے اس مینا ر کا نام ’’مصر مشرق کے لیے روشنی کا مینار‘‘رکھا اور مشورہ دیا کہ اس کو نہر سویز کے جنوبی داخلی راستے پر نصب کیا جائے ۔مجسمہ بناتے وقت تھولدی کے ذہن میں یہ بات تھی کہ مصری تہذیب کی زندہ علامت عورت ہی ہو سکتی ہے ۔ انھوں نے اس مجسمہ مینار کا نقشہ ایک ایسی مصری کسان لڑکی کے روپ میں تیار کیا جس نے سکارف پہنا ہوا تھا اور ہاتھ میں مشعل تھی ۔دکتور محمود بولے تو پھر یہ مجسمہ امریکہ کیسے پہنچا۔میں نے کہا آ پ کے بادشاہ ابتدا میں راضی تھے مگر بعد میں اس منصوبے کی لاگت کا سن کر دست بردار ہو گئے بعد میں جب امریکہ کی آزادی اور انقلاب کی صد سالہ تقریبات کا انعقاد امریکہ نے کیا تو فرانسیسی دانشوروں نے امریکہ کو اس موقع پر تحفہ دینے کی خواہش ظاہر کی ۔بار تھولدی نے اسی مجسمہ آزادی میں تھوڑی تبدیلی کی ہاتھ میں مشعل کی جگہ کتاب پکڑائی مصری دہقانی لڑکی کا لباس اتار کر یونانی لڑکی کا لباس پہنایا ۔ پیر میں ٹوٹی ہوئی زنجیر کو ظلم سے نجات جبکہ سر پر تاج کے سات کونے بنا کر سات براعظموں اور سات سمندروں کی یونانی کہاوت علامت کے طور پر پیش کیا ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...