Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > دریائے نیل

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

دریائے نیل
ARI Id

1688711613335_56116737

Access

Open/Free Access

Pages

۴۹

دریائے نیل

ہم قاہرہ یونیورسٹی اور حدیقہ الحیوان سے پیدل کبری الجامعہ پہنچے جس کے نیچے دریائے نیل رواں دواں تھا ۔میں نے یہاں اس پانی میں ٹھہرائو اور بردباری محسوس کی نیل اپنے ہزاروں میل کے بہائو کاا ظہار چیخ چیخ کر نہیں کر رہا تھا ۔ہم نے تین مصری جنین کے دو ٹکٹ لیے اور لانچ میں بیٹھ گئے ۔لانچ کی خستہ حالی بھی مصری عوام کی معیشت کی طرح زبوں حال اور نا تواں تھی ۔لانچ میں بیٹھتے ہی مجھے  دکتور ہ شائمہ کی بات یاد آئی ۔انہوں نے کہا تھا کہ ایک مصری کہاوت ہے کہ جو بندہ دریائے نیل کا پانی پی لے وہ دوبارہ مصر ضرور آ تا ہے ۔میں نے چلتی لانچ سے ہاتھ دریا میں ڈالا اور اوک بھر پانی پیا ۔لانچ کی ایک کھڑکی میں سبز رنگ کی بوتل نظر آئی میں نے بوتل کو نیل کے پانی میں خوب دھویا اور اس کودریا کے پانی سے بھرا ، دکتور محمود بولے اس کاکیا کرو گے میں نے کہا یہ سبز رنگ کی بوتل ہے اور پاکستان کا سرکاری رنگ سبز ہے میں اس سبز رنگ کے ساتھ نیل کا اشتراک چاہتا ہوں میری خواہش ہے کہ مصر اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب ہوں ،اس پانی اور بوتل کی طرح ۔میں نے  دکتور محمود سے پوچھا نیل کا پانی کہاں سے نکلتا ہے اس نے کہاں سوڈان میں کوئی دور جگہ ہے ۔میں نے پوچھا وہاں کو نسا گلیشئیر ہو سکتا ہے جہاں سے یہ پانی آ تا ہے کہنے لگے افریقہ میں گلیشئیر نہیں ہوتے یہ کوئی پاکستان تو نہیں ،پھر کہنے لگے کوئی دو جھیلیں ہیں وہاں سے یہ پانی آ تا ہے ۔اس حوالے سے میں معلوماتی کتب سے رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ ہم جسے ایک دریائے نیل سمجھ رہے ہیں دراصل یہ دو دریائوں نیل ارزق اور نیل ابیض کا مجموعہ ہے ۔ نیل ارزق اپنی طوالت کے باعث لمبے بہائو کا موجب بنتا ہے تو نیل ابیض میں پانی کی بہتات میں زمینوںکے لیے ذرخیزی کا سامان ہے۔ابیض افریقہ کی مہان جھیلوں کے مرکزی جنوبی روانڈ ا سے ہوتا ہوا تنزانیہ یو گنڈا کو پار کر کے سوڈان میں قدم رنجہ فرماتا ہے اور ارزق ایتھوپیہ کی جھیل سے جنوب مشرق کی طرف رختِ سفر باندھے مشکل پہاڑی سلسلوں اور کئی ڈھلوانوں سے گزرتا ہوا سوڈان میں خرطوم کے قریب نیل ابیض سے بغل گیر ہو جاتا ہے ۔سوڈانی حکومت نے اپنی زمینوں اور پانی کو ترسے عوام کی پیاس نیل سے بجھائی یا نہیں اس کا جواب کسی سوڈانی باشندے کی شکل دیکھ کر تلاش کیا جا سکتا ہے مگر مصری بادشاہ جمال عبدالناصر نے اسوان کے مقام پر ۱۹۷۰ ء میں نیل پر بند باندھ کر مصری عوام کو ایک بڑ ا تحفہ دیا ۔پانچ ہزار دو سو پچاس مربع کلومیٹر پر مشتمل اس ڈیم میں دس کڑور ستر لاکھ کیوسک پانی جمع کر نے کی گنجائش ہے ۔اس ڈیم کا کچھ حصہ سوڈان میں ہے جس کو جھیل نوبیہ کہا جاتا ہے جس کا زیادہ حصہ مصر میں واقع ہے ۔یو گنڈا اور ایتھوپیا کی جھیلو ں سے نکلنے والا ارزق اور ابیض گیارہ ممالک کے تقریباََ چالیس کروڑ انسانوں اور اس سے زیادہ چرندوں اور پرندوں کی آبی ضروریات پوری کر نے کے لیے ساڑھے چھے ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے اسکندریہ کے قریب بحیرہ روم سے جا ملتا ہے ۔

دریائے نیل جب سوڈان میں داخل ہو تا ہے تو اس کی رفتار سست پڑ جاتی ہے اور اس کو قریب قریب سات سو کلو میٹر دلدلی زمین سے واسطہ پڑتا ہے ۔اس دلدلی زمین پر اگی گھاس پاپائرس نیل کو دبوچ لیتی ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں نیل نظر نہیں آ تا اور تا حدِ نگاہ پاپا ئرس کی وہ گھاس نظر آتی ہے جس کی ٹہنی پر ہاتھی کھڑا ہو تو ہاتھی گرنے سے رہا ۔افریقہ میں اس کے راستے میں کئی جنگلات آتے ہیں۔جس میں ہاتھی ،شیر ،گینڈے جنگلی بھینسیں ،ہرن ،دریائی گھوڑے اور مگر مچھ کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں ۔پرندوں کی ہزار اقسام اور حشرات الارض کی بے شمار قسمیں اس کے علاوہ ہیں ۔

لانچ دریائے نیل میں فراٹے بھر رہی تھی اور میں نیل کی بے کراں وسعتوں کو اپنے تخیل میں سمیٹنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا  دکتور محمود نے مجھے تاریخ اور تخیل کی خوابیدگی سے بیدار کیا کہنے لگے دریائے کے کنارے یہ چھو ٹی بڑی لانچ دکھائی دے رہے ہیں؟  میں نے اثبات میں سر ہلایا تو کہنے لگے دراصل یہ ہوٹل ہیں جہاں سیاح آ کر ٹھہرتے ہیں۔’’بہت مہنجے ہو تے ہیں ‘‘(مصر ی عربی میں ج کو گ اور گ کو ج کی جگہ بولا جا تا ہے) دکتور محمود کے چہرے سے پر تعیش زندگی کے حصول کی حسرت ٹپک رہی تھی وہ اس وقت اس بے بس پنچھی کی طرح نظر آ رہا تھا جو اچھے مستقبل کے لیے اڑان بھرنا چاہتا ہے مگر دوسرے مصری ہنر مند نوجوانوںکی طرح اس کی مشیت اور معیشت کسی اور کے قبضے میں تھی وہ بہت کچھ کر نا چاہتا ہے مگر بیچارہ کیا کر سکتا ہے جیب خالی ،شہر خالی،جام خالی ،سفرہ خالی ، ساغر و پیمانہ خالی ۔

ان رہائشی لانچوں کے ساتھ قاہرہ ٹاور اپنے ہو نے کا احساس دلا رہا تھا۔اس کی طویل قامتی دیدنی تھی ساتھ میں بہت سارے ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے دفاتر اور مصری ٹیلی ویژن کی عمارت نمایاں طور پر نظر آ رہے تھے ۔نیل کے گرد اتنے مہنگے دفاتر اور یہاں پر غیر ملکی سیاحوں کے لیے لانچوں میں بنی اقامت گاہوں پر دکتور محمود نظر ِ حسرت ڈال رہے تھے ۔ میں ان کی حسرتوںکا مزید قتلِ عام نہیں دیکھ سکتا تھا ۔میں نے موضوع بدلنے کے لیے کہانی چھیڑ لی ، پوچھا دریائے نیل میں جب سیلاب آتا تو بہت تباہی مچاتا مگر اس دریا میں پانی کی کمی بھی خشک سالی اور بربادی کی نشانی بنتی اس لیے جب اس کا پانی کم پڑتا تو اس میں روانی اور پانی پیدا کر نے کے لیے کسی خوش شکل کنواری نار ی کو پھینک دیا جاتا۔اس طریقے سے نیل خوش ہو جاتا اور پانی و روانی کو جاودانی ملتی ۔کہنے  لگے جی بالکل درست۔میں نے کہا یار کس قدر مظلوم تھے اس زمانے کے لوگ کہ لڑکے فرعون قتل کرواتا اور خوش شکل لڑکیا ں نیل ہڑپ کر جا تا ۔آنکھوں میں چمک اور چہرے پر شریر مسکراہٹ لا کر کہنے لگے مگر دیکھو پھر بھی نہ لڑکوں کی کمی رہی اور نہ خوبصورت ناریوں کی ۔ میں نے کہا تم نے ناریوں کے ساتھ خوبصورت کا لفظ لگایا مگر مجھے تو مصری مرد زیادہ خوبصورت ، وجیہہ اور جاذب نظر لگے ۔بلاشبہ مصری عورت خوش قسمت ہے جس کو اتنے خوبصورت اور ملنسار مرد ملے ۔میںنے بات جاری رکھتے ہو ئے کہا کہ مزے کی بات یہ ہے کہ لڑکوں کے قتلِ عام سے فرعون کو موسیٰ ؑ نے روکا تو لڑکیوں کے قتل عامِ سے حضرت عمرؓ نے جن کو فاتح مصر عمرو ابن العاص نے لڑکیوں کو نیل کی روانی کے لیے دریا میں پھینکنے کی رسم کی اطلاع دی تو حضرت عمر ؓ نے دریائے نیل کے نام خط لکھا کہ تم اگر اپنی مرضی سے بہہ رہے ہو تب تمھاری مرضی اور اگر اﷲ تعالیٰ واحد و قہار تمہیں جا ری رکھتا ہے تو ہم اﷲ تعالی سے دعا گو ہیں کہ و ہ تجھے رواں رکھے ۔خط کی پرچی امیر عسکر نے نیل میں پھینکی اور اگلے ہی دن دریا ئے نیل میں وہ روانی آئی کہ خشک سالی تر سالی میں بد ل گئی ۔ دکتور محمود نے کہا واقعی ان دو بڑی شخصیات کی عظمت اور ہم مصریوں پر ان کے احسانات کسی سے پوشیدہ نہیں اور تا قیامت ممنون رہیں گے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...