Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > نیل کنارے دو دل ہارے

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

نیل کنارے دو دل ہارے
ARI Id

1688711613335_56116738

Access

Open/Free Access

Pages

۵۲

نیل کنارے دو دل ہارے

مصری نوجوان ان دو شخصیات کے ممنون ہوں نہ ہوں دریائے نیل کی ممنونیت سے انکار نہیں کر سکتے ۔دریا کے کنارے سرکار نے بیٹھنے کے لیے خوبصورت اور آرام دہ جگہ بنائی ہے یہاں نیل کی تازہ ہوا کے جھونکے کی سر مستی میں یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں ایک دوسری سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہیں ۔مصر میں مرد و زن کے اختلاط پرکوئی سرکاری یا سماجی پابندی نہیں عورت اپنی زندگی کا ساتھی بڑے اعتماد کے ساتھ نا صرف چن سکتی ہے بلکہ اس کا اظہا بھی برملا کر تی ہے ۔ میرے خیال میں شاید ہی کسی دوسرے مسلم ملک میں عورت کو یہ اختیار حاصل ہو جو مصری عورت کو حاصل ہے ۔دریائے نیل کے کنارے جوان جوڑوں کی بیٹھک دریا کے حسن میں اضافے کا موجب بنتی ہے ۔مصری لڑکیاں جدید مغربی لباس کے اوپر خوش رنگ کوٹ زیب تن کر کے اور سر پر دوپٹے کی جگہ سکارف پہنے انتہائی جاذبِ نظر دکھاتی دیتی ہیں ۔تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیٹھے ان جوڑوں کے درمیان سوڈان او ر دوسرے غریب افریقی ممالک کی خواتین گھومتی نظر آتی ہیں جو ہاتھوں میں خوش رنگ گلدستے لیے ان محب اور محبوب کی خوش گپیوں میں مخل ہو کر رنگ میں بھنگ ڈال کر مطالبہ کرتی ہیں کہ ہم سے پھول خرید کر اپنے دوست کو پیش کرے ۔میں نے سوڈانی خاتون سے پوچھا کہ دن میںکتنے گلدستے فروخت کرتی ہو ،بولی دن اچھا ہو تو سو جنین کے پھول نکل جاتے ہیں میں نے  دکتور محمود سے پوچھا کہ آپ نے کبھی کسی کے ساتھ نیل کے کنارے پر لطف وقت بتایا ہے ،بولے ہائے میرے نصیب میری غربت اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔میں نے پوچھا اس پر لطف وقت کے لیے کونسی امارت ضروری ہے ۔ بس دوست بنائو کنارے بیٹھو جنین کے پھول خرید کردو، مسکراتے ہوئے کہنے لگے، الطاف صاحب آپ بھی بادشاہ ہو محبوب پیسے کے بغیر ساتھ نہیں بیٹھتا ۔مصری نوجوان نسل کا بڑا مسئلہ معیشت ہے اور ہم نے شادی کو معیشت سے منسلک کیا ہے ۔ جس کے پاس پیسہ ہو گا وہی پر لطف زندگی گزار سکے گا اور جو میری طرح کنگال ہو گااس کے پاس محبوبہ آنے سے رہی ۔میں نے اس خوش پوش نوجوان کے اند ر خوش مزاج اور خوش بصیرت انسان کو مزید تلاشنا چاہا تو ان سے کہا کہ خلیل جبران تو کہتا ہے کہ ہر نو جوان کی زندگی میںکوئی انسان ضرور آ تا ہے جوشباب کی رات میں اچانک ہی کسی موڑ سے نمودار ہو جاتا ہے اور اس کی تنہائیوں میں پیار کی ایک ہلچل سی مچا دیتا ہے اور اس کی خاموش بے کیف راتیں پیار کے مدھ بھرے نغموں سے گونجنے لگتی ہیں ۔ دکتور محمود خلیل جبران کے لہجے میں اورعجیب طنزیہ اور مزاحیہ پیرائے میں کہنے لگے ۔اے میرے عہدِ غربت کے رفیق ۔۔۔میرا محبت کا زمانہ گزر چکا ۔ میرے حسین خواب توریزہ ریزہ ہو کر بکھر چکے ہیں ۔اب تو صرف کربناک یادیں باقی ہیں جو غیر مرئی پروں کی طرح میرے ارد گرد پھڑ پھڑاتی ہیں اور آنسو بن کر میری آنکھوں سے ٹپکتی رہتی ہیں ۔ دکتور محمود کے اس جبرانی انداز نے مجھے بہت محظوظ کیا اور ہم دونوں کے قہقہوں سے بہت سارے جوڑوں کی توجہ ہماری طرف ہو گئی ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...