Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > التحریر چوک

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

التحریر چوک
ARI Id

1688711613335_56116739

Access

Open/Free Access

Pages

۵۴

التحریر چوک

کبری الجامعہ کے علاوہ قاہرہ میں دریائے نیل پر ایک پل اور بھی ہے جس کو ۱۲ اکتوبر پل کہا جاتا ہے ۔مسافر دکتور محمود سے وجہ تسمیہ پوچھی تو اس نے کہا عرب اسرائیل جنگ کی یاد میں یہ پل بنایاگیا ہے ۔اس پل کے کنارے قاہرہ ٹاور ہے جس کی بلندی نے باقی عمارتوں کو ماند کر رکھا ہے ۔ ڈوبتے سورج کی سرمئی روشنی میں قاہرہ کے مینار کی نکھری رنگت نقرئی نظر آنے لگی جس نے اس کی وجاہت اور قد کاٹھ میں بڑھوتری پیدا کر دی تھی ۔

۱۲ اکتوبر پل کے دوسرے کنارے ’’التحریر ‘‘کے نام سے ایک بڑا چوک ہے ۔اس نام سے میری شناسائی چند سال پہلے اس وقت ہوئی جب سابقہ مصری صدر حسنِ مبارک کے طویل دور حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع ہوئی ۔تحریک جب احتجاج میں بدلی تو مرکزی حیثیت التحریر چوک کوملی جہاں مصری نوجوانوں نے کئی ہفتوں تک دھرنا دیا اور آخر کار حسن مبارک نے پہلے حکومت چھوڑی اور پھر جیل جانا پڑا ۔سیاست کے ماہرین نے اس تحریک کو ’’عرب بہار ‘‘کا حصہ گردانا جو عرب ملکوں میں مطلق العنان بادشاہوں کے خلاف شروع ہوئی تھی ۔بیسوی صدی کی ساتویں دہائی کے اواخر میں ’’مرگ برشاہ‘‘اور ’’شاہ رفت‘‘کی جو آوزیں تہران کی مرکزی شاہراہوں اور چوکوں میں سنی گئی تھیں۔عرب بادشاہوں کو بھی مطلق العنانی کے خلاف ایسی ہی آوازوں کا سامنا کر نا پڑا ۔اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ انقلاب خواہ کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہو جائے اس کی داستان ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ امید اور عمل ،بیداری اور خود شناسی ،جنوں اور لہو کی داستان بھی کبھی پرانی ہو سکتی ہے؟زمانہ اس کو بار بار دہراتا ہے فرق صرف نام ،مقام اور وقت کا ہو تا ہے ۔

از انقلاب زمانہ عجب مدار کہ چرخ

ازیں فسانہ و افسوں ہزار دار دیار

میں انقلاب کے اس تخیلاتی جلوئوں کے کچوکے دل و دماغ میں محسوس کرتا ہوا اپنے چہار سو بے خبر عرب اسرئیل جنگ کے یا د گار پل سے اچھا خاصا راستہ طے کر چکا تھا کہ  دکتور محمود نے میرا دھیان اپنی طرف کرتے ہوئے کہا ۔۔۔آپ التحریر چوک میں کھڑے ہیں ۔۔۔مسافر کو دکتور محمود کی تخیل میں رخنہ اندازی کچھ اچھی نہیں لگی مسافر کچھ دیر اور انقلابی تخیل میں رہنا چاہتا تھا ۔

تحریر چوک بھی فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح کئی بغلی شاہراہوں کا مرکز ہے۔درمیان میں فلک بوس لوہے کے پلر کے ساتھ ٹیک لگا کر چوک کے چاروں طرف سے آنے والی کشادہ شاہراہوں پر نظر ڈالی اور دکتور محمود سے پوچھا کہ عرب بہار کے وہ نوجوان اب کہاں ہوں گے کیونکہ انقلاب کی کلیاں پھول بنی ہی نہیں تھیں ،صرف گھوڑے پر زین کی تبدیلی ہوئی اور سب کچھ ختم ہو گیا ۔ دکتور محمود جواب سے کنی کترانے لگے ۔ان کے چہرے پر خوف اور لا علمی کے آثار واضح تھے لڑکھڑاتی زبان سے مجھے کہنے لگے ملکی سیاست پر کوئی دسترس نہیں،مجھے نہیں معلوم وہ لڑکے کون تھے اور اس انقلاب کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما تھے ۔میں نے پیچھا نہیں چھوڑا مزید پوچھا۔۔۔ آپ تو اس کے چشم دیدگواہ ہیں ۔جواب دیا میرا علاقہ قاہرہ سے دور ہے مجھے کچھ بھی نہیں معلوم کیا ہوا ۔اس کی دھڑکنیں تیز اور غیر متوازن تھیں وقت کے جبر اور فرعون کے دیس میں مجھ جیسوںکے چبھتے سوال کسی بھی مصری کی دھڑکنوں کے توازن کو متزلز ل کر سکتے ہیں ۔ان کی لڑکھڑاتی زبان مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ ’’یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری‘‘میں نے ایک اور دائو کھیلا پوچھا میڈیا خصوصاََ مغربی میڈیا میں تو اس کا بہت چرچا تھا ۔وہ ہونٹوں پر خفیف مسکراہٹ لا کر بولے میں میڈیا نہیں دیکھتا اور مغربی میڈیا تو بالکل بھی نہیں میں نے کہا اچھا ہی کرتے ہیں جو نہیں دیکھتے ۔آپ کے ہی ایک مصری صحافی محمد حسنین نے زبردست بات کہی ہے کہ مغرب عالمی ذرائع ابلاغ پر اتنی کامل دسترس رکھتا ہے کہ وہ جب چاہے تیسری دنیا کے کسی بھی لیڈر کو سارے جہاں میں بدنام کر نے کی مہم چلا کر پنجرے میں بند پرندے کی طرح بے بس کر دے اور چاہے تو کسی بھی لیڈر کو خواہ کتنا ہی نکما کیوں نہ ہو اتنا عظیم و بے مثال اور ایسا نابغہ ٔ  عصر بنا کر پیش کر دے کہ ہم سا ہو تو سامنے لائو والی بات ہو جائے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...