Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > حدیقۃ العجائب

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

حدیقۃ العجائب
ARI Id

1688711613335_56116740

Access

Open/Free Access

Pages

۵۶

حدیقۃ العجائب

التحریر چوک کے ایک حصے میں ایک بڑی اور عالی شان عمارت ایستادہ تھی میں نے  دکتور محمود سے پوچھا یہ کیا ہے بولے ھذاٰ حدیقۃ العجائب ۔عجائب گھر پر نگاہ ڈالی تو مسافر کے دل میں تحریر چوک کی قدرو منزلت سوا ہو گئی جہاں عصرِ حاضر کے مصری نوجوان بہتر مستقبل کے لیے عصری فرعونوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں اور ماضی کے فرعونوں کو بہ طور عبرت اپنی آغوش میں جگہ دی ہے ۔ عجائب گھر میں داخلے کے لیے ٹکٹ لینا ضروری تھا ۔مسافر کو اہلِ فراعنہ کی لاشوں اور لکی ایرانی سرکس کے جانوروں میںکوئی فرق محسوس نہ ہوا سچ کہا میرے رب نے ’’اب تو ہم صرف تیر ی لاش بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوںکے لیے نشانِ عبرت بنے ‘‘۔

غیر ملکیوںکے لیے یہ ٹکٹ تین سو مصری پائونڈ کا تھا مصریوں کے لیے ایک سو پچاس جبکہ مصری طالب علموں کے لیے ساٹھ مصری پائونڈ ۔ دکتور محمود نے کوئی جگاڑ لگایااورہم بغیر ٹکٹ کے اندر داخل ہو گئے عجائب گھر کی مرکزی عمارت کے سامنے ایک بہت بڑے دالان میں کچھ ٹوٹے ہوئے اور خراب مجسمے رکھے گئے تھے ،ان کے درمیان میں پیادہ روشیں بنائی گئی تھیں یہ تما م پیادہ روشیں عجائب گھر کی مرکزی عمارت تک جا کر ایک بڑے رستے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔یہاں سے ہم سیڑھیاں چڑھے تو ایک خود کار مشین کے ذریعے تلاشی بھی لی گئی ۔صدر دروازے سے گزر کر ہم ایک بڑے ہال میں داخل ہوئے۔ جہاں اہل فراعنہ کے کئی میٹر طویل مجسمے اس انداز میں رکھے گئے تھے جیسے ان کا دربار لگا ہو اور امورِ سلطنت پر اجلاس جاری ہو ۔میں نے ایک قوی ہیکل فرعونی مجسمے کے قریب جا کر دکتور محمود کوکہا کہ اس کے ساتھ میری تصویر بنائو انھوں نے کہا یہ امنونس سو م ہے اور ساتھ میں ان کی ملکہ اور تین بیٹیاں ہیں ۔ امنونس کے چہرے سے دہشت اور ظلم کے آثار ٹپک رہے تھے۔امنونس کے سامنے ایک کشتی تھی جس کی لمبائی پچاس ساٹھ فٹ تھی ۔یہ بادشاہ خوفو کی کشتی تھی ۔مرکزی ہال سے جڑے بغلی کمرے بھی کمرے کم اور ہال زیادہ دکھتے تھے ۔ یہاں بھی مصری فراعین کے مجسمے محفوظ تھے۔اس کے علاوہ یونانی بادشاہوں اور اکابرین کے مجسمے بھی بڑی تعداد میں رکھے گئے تھے۔ایک ہال میں پتھر ،لکڑی اور دوسری دھاتوں سے بنے تابوتوں کاایک جہان آباد تھا ، عجائب گھر کی دوسری اور تیسری منزل میں حنوط شدہ لاشوں سے منسلک اشیاء طلائی مٹکے ،کمر بند ،بازو بند کے ساتھ ساتھ چاندی کے برتن ،کرسیاں ،میزیں ،چھوٹی بڑی کشتیاں، چا در ، کپڑے ،جوتے ،چپل (سونے ،لوہے اور چمڑے سے بنے)دستانے ،موزے غرض انسانی ضروریات کی ساری چیزیں ، سقارہ اور الاقصر کے شاہی قبرستانوں سے نکالی گئی تھیں جویہاں نمائش کے لیے رکھ دی گئی تھیں۔ دوسری منزل کے مرکزی برآمدے میں میاں بیوی فراعین یویا اور توویا کی لاشیں رکھی گئیں تھیں جن کے سر کے بال اور ناک ہونٹوں کے کنارے آج بھی سلامت تھے۔صرف شوہر صاحب کے دائیں پائوں کی بڑی انگلی سے ایک دو انچ کے برابر گوشت اتر چکا تھا۔عام مصری اور فراعین میں عموما ًطویل القامت ہوتے ہیں جبکہ یویا اور تویا کے قد زیادہ طویل نہ تھے ۔دونوں میاں بیوی قد کاٹھ میں برابر تھے ۔

عجائب گھر کی دوسری منزل سے منسلک ایک کشادہ بغلی راہداری تھی جو ایک کشادہ برآمدے سے منسلک تھی۔یہاں بہت ساری گوریوں اور مشرقِ بعید خصوصاََ جاپانی سیاحوں نے قطار بنائی ہوئی تھی ،ساتھ ہی ایک اور ٹکٹ گھر تھا جہاں مشہور اور بڑے فراعین کی حنوط شدہ لاشیں رکھی گئیں تھیں ۔ٹکٹ گھر کے ساتھ آویزاں معلوماتی تختی پر ان کے نام درج تھے۔ سعن عال دوم ،آمن ہوتب ،تو تھموسس اول ، دوم ،سوم اور پنجم کے ساتھ ساتھ آمن ہو تب دوم ،موسیٰ ؑ کی اپنے گھر میں پرورش کرنے والے رعمیسس دوم اس کے والد میت سیتی اول ، رعمیسس کے بیٹے منفتاح وغیرہ۔۔۔میں نے  دکتور محمود سے پوچھا ان کو الگ کیوں رکھا گیا ہے کہنے لگے ان کے مظالم زیادہ تھے ،زندگی گزارنے کا ڈھنگ اچھوتاتھا ،پوری مصری اور افریقی تہذیب میں انہی کے نام کا ڈھنڈورہ پیٹا جا تا تھا ۔جس فرعون نے اہلِ مصر سے اولادِ نرینہ کے جینے کاحق چھینا اسی کے گھر میں ا ﷲ تعالیٰ نے موسیٰ کی پرورش کا اہتمام کیا ۔تاریخ کی کتابوں میں اس کی وجاہت اور بہادری کے تذکرے ملتے ہیں۔جنگ اور محبت میں اس نے جیت کے جھنڈے گاڑے مصر کے خزانوں کو سونے سے لبریز کیا ۔یہودیوں کی مقدس سر زمین فلسطین کو تین سال کے اندر اندر اپنی بادشاہت میں شامل کیاا وروہاں سے بہت سارے یہودی بہ طور غلام لے آئے ،اپنی جنگی اور انتظامی فتوحات کو شعرا اور گویوں سے لکھوا کہلوا کر ان رزمیہ نظموں اور قصیدوں کو شاہی مقبروں اور چوراہوں پر کندا کروایا اور اس کے بدلے میں خود کو کئی سو بیویوں کا انعام دیا ۔سو بیٹوں اور بچاس بیٹیوں کو والد رعمیسس دوم نے خوش شکل بیٹیوں کو بھی نہیں بخشا اور بیٹیوں سے جنی اولاد نے چار سو سال تک فرعونیت کو دوام بخشا۔

 دکتور محمود سے میں نے پوچھا کہ یویا اور تویا کو بڑے فرعونوں کی بیٹھک سے باہر کیوں رکھا گیا ہے کیا یہ کم برے تھے ۔انھوں نے کہا فرعون کم برے نہیں ہوتے ہاں کم شہرت والے ہو سکتے ہیں مگر مخلوق خدا کو اذیت دینے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھتے ۔ایسے ہی ایک غیر مقبول بادشاہ اور اس کی والدہ کی کہانی ایک کتاب میں، میںنے پڑھی تھی جو ایک گمراہ کن ماحول کے پر وردہ تھے۔ دونوں اکثر جوا کھیلتے ،کھیل بہت آسان تھا اور لمحہ بھر میں ختم ہو جاتا تھا ۔ایک پانسا تھا جس پر ایک سے لے کر چھے تک ہندسے لکھے ہوئے تھے۔ایک نمبر بادشاہ لیتا اور ایک نمبر اس کی والدہ ،پانسا پھینکا جاتا ۔اگر دونوں نمبر نہیں آتے تو کھیل برابر۔ بادشاہ کا نمبر نکل آ تا تو والدہ شرط میں لگی رقم ادا کرتی اور والدہ جیت جاتی تو سعادت مند بیٹا شرط میںلگا ہوا غلام ہا ر جاتا ۔ جسے محترمہ جیت کی خوشی میں شوقیہ ذبح کرتی ۔ماں بیٹے کے آدھ گھنٹے کے کھیل کے نتیجے میں سو پچاس غلام بے وجہ مارے جاتے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...