Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

جیزہ
ARI Id

1688711613335_56116744

Access

Open/Free Access

Pages

۶۳

جیزہ

مسافر کی اگلی منزل جیزہ تھی جو زیریں قاہرہ سے کوئی اٹھارہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے یہاں لے جانے کا انتظام دکتورہ بسنت کے ذمے تھا ۔ان کے ہمراہ ان کے دو بچے اور خوش پوش و خوش شکل شوہر احمد بھی تھا ۔احمد سے معانقے کے بعد ہم ان کی گاڑی میں بیٹھے اور جیزہ کی طرف روانہ ہوئے ۔دریائے نیل ایسے ہم رکاب تھا جیسے کسی نے اہرام تک سیاحوں کو پہچانے کی ذمہ داری لگائی ہو ۔آپ قاہرہ کے جس بھی حصے میں ہوں نیل اپنی موجودگی اور ہم رکابی کا احساس دلاتا ہے ۔مصری جیزہ کو گیزہ بولتے ہیں ۔یہاں دنیا کے سات عجوبو ں میں سے ایک عجوبہ آباد ہے جو اصل میں فراعین مدفن ہیں ۔قاہرہ سے جیزہ تک سڑک کشادہ ہے مگر پشاور کے قصہ خوانی بازار اور لاہور کی پرانی انار کلی کی طرح سڑک ریڑھی بانوں ،چائے اور شیشہ کے کھوکھوں ،غیر قانونی بس اڈوں اور سڑک پر چونچ نکالی ویگنوں ،بساط بچھائے سنیا سیوں اور میوہ و سبزی فروشوں نے تل دھرنے کو جگہ نہیں چھوڑی تھی ۔یہ تو دکتورہ بسنت کے شوہر احمد کا کمال تھا کہ اس اژدھام میں بھی پر سکون اعصاب کے ساتھ گاڑی کو اہرام تک بہ حفاظت پہنچایا ۔احمد صاحب نے سیاحوں کی بھیڑ میں جا کر ہمارے لیے ٹکٹ خریدے ۔ہم پیدل ایک ڈھلوان پر روانہ ہوئے ہمارے سامنے تین مخروطی اہرام اپنے مکمل قد کاٹھ کے ساتھ ایستادہ تھے۔دکتورہ بسنت نے کہا یہ مصر کے عظیم اہرام ہیں ۔یہ خوفو کا اہرام ہے دوسرا خافراع کا اور تیسرا میکادر کا ہے ۔میں نے پوچھا اور ابولہول کہاں ہے انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے کہا وہ بیٹھا ہے مگر ہم اس کی پشت پر ہیں اس کا چہرہ دیکھنے نیچے جا نا ہو گا ۔

ریت گرد اور دھول مٹی سے اٹے بلندو بالا مدفنوں میں واقعی ایک کشش تھی ۔جیزہ کی صاف فضا اور کھلے آسمان میں مخروطی پیرا میڈ اپنے ہونے کا احساس دلا رہے تھے ۔میں نے دکتورہ بسنت سے پوچھا کہ اردو کے صاحب اسلوب ادیب مختار مسعود کی کتاب ’’آوازِ دوست‘‘پڑھی ہے ؟اس میں اہرام مصر بنانے والوں کے حوالے سے بڑی خوبصورت بات لکھی ہے ۔انھوں نے کہاکتاب تو نہیں پڑھی مگر نام سنا ہے ۔میں نے کہا مختار مسعود اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب اہرام مصر کا معمار موقع پر پہنچا تو اس نے صحرا کی وسعت دیکھ کر فیصلہ کیا کہ عمارت بلند ہونی چاہیے۔پھر اس نے بھری بھری اور نرم ریت کو محسوس کیا اور سوچا کہ اس عمارت کو سنگلاخ بھی ہونا چاہیے ۔جب دھوپ میں ریت کے ذرے چمکنے لگے اسے خیال آ یا کی اس کی عمارت شعاعوں کو منعکس کرنے کے بجائے اگر جذب کر لے تو اچھا تقابل ہو گا ۔ہوا چلی تو اسے ٹیلوں کے نصف دائرے بنتے بگڑتے نظر آئے اور اس نے اپنی عمارت کو نوک اور زاویے عطا کر دیے ۔اتنے فیصلے کر نے کے بعد اسے طمانیت حاصل نہ ہوئی تو اس نے طے کیا کہ زندگی تو ایک قلیل اور مختصر وقفہ ہے وہ کیوں نہ موت کو ایک جلیل اور پائیدار مکان بنا دے ۔دکتورہ بسنت کو مختار مسعود کی پیچیدہ گفتگو تو سمجھ میں نہ آئی مگر وہ اس بات پر خوش تھی کہ وہ اپنے مہمان کو جہاں لائی ہے وہ جگہ اور اس کے فنِ تعمیر سے متاثر ہے ۔

 کہا جاتا ہے کہ مصر میں ایک سو اڑتیس اہرام ہیں ۔مگر ان عمارات میں بڑی عمارت بادشاہ خوفو کا مدفن ہے ۔ماہرین علم الآثار کے بہ قول یہ عمارت چار سو پچپن فٹ بلند ہے اور اس کا احاطہ تیرہ ایکڑ ہے ۔اس کی تعمیر میں پچیس لاکھ کے قریب چونا پتھر کے بلاکس استعمال ہوئے ہیں جبکہ تعمیر کا دورانیہ تقریباََ دو عشروں پر محیط ہے ۔مسافر نے عشروں کو دنوں میں تبدیل کیا تو معلوم ہو ا کہ اندازََ ایک درجن پتھر روزانہ نصب کیے گئے ۔سمندری آثارِ قدیمہ کی محقق مائی ایلریانی سے میں نے پوچھا کہ بیس سے اسی ٹن ایک ایک بلاک کو اس ریگ زار تک کیسے پہنچایا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ تقریباََ آٹھ سو کلومیٹر دور سے نہر کھود کر اور بہت سارے جانور مار کر ان کے چمڑوں میں ہوا بھر کر ان سے کشتیاں بنا کر ان پر یہ پتھر لاد کر جیزہ پہنچائے گئے ۔حیرانی سے میری بھنویں ماتھے پر چڑھ گئیں ۔میں نے کہا یہ کام فرعون ہی کر سکتے تھے عام انسانوں کا اتنا دل گردہ نہیں ۔وہ بولی ہنر مندوں نے ان پتھروں کو اس سلیقے سے پیوست کیا ہے کہ آپ ان کے درمیان اے ٹی ایم کارڈ بھی نہیں گھسیڑ سکتے ۔ان پتھروں پر جو لپائی کی گئی ہے وہ صدیوں تک قائم رہی اور جب تک وقت کی ریخت و شکست اور زلزلوں کی وجہ سے لپائی اکھڑ گئی تو ایک مسلمان بادشاہ ناصر الدین الحسین نے اس سے ایک قلعہ اور مسجد تعمیر کی تھی ۔

مسافرنے دکتورہ بسنت سے پوچھا کہ فراعین اہرام کیوں تعمیر کرتے تھے تو انھوںنے سوچے بغیر جوا ب دیا بادشاہ تھے ،بڑے لوگ تھے ،بنانے کی سکت رکھتے تھے اس لیے بنا دیے ہوں گے ۔میں نے گوگل استاد اور ہیروڈٹس سے جواب مانگا تو انھوں نے بھی ’’کیوں‘‘بنائے تھے سے کنی کترائی ہاں البتہ کیسے بنائے تھے کا تفصیلی جواب دیا ۔ مسافر ایک بار مظفر آباد کے جلال بابا پارک کی بغل میں واقع کے ایچ خورشید لائبریری میںکشمیر میں حمد نعت کی روایت کے حوالے سے اپنے دوست شاگرد محمد یوسف میر کے ساتھ کتب کی پھرولا پھرولی کر رہا تھا کہ ایک خستہ حال اور دیمک زدہ کتاب ہاتھ لگ گئی ۔ سرورق ندارد ،مصنف اور چھاپہ خانے کے نام والے صفحات بھی اڑ گئے تھے ۔کتاب کے موضوعات ببلونی ،سومیری اور فراعینی تواریخ پر مبنی تھے ۔

’’کیوں‘‘بنانے کا جواب اس کتاب میں موجود تھا۔ کتاب کا مصنف لکھتا ہے کہ ان کا مقصد تعمیراتی سے زیادہ مذہبی تھا ۔اہرام مقبرے تھے نسل در نسل قدیم ترین مقبرے ۔عوام کی طرح فراعین کا اعتقاد بھی یہی تھا کہ ہر زندہ جسم میں ایک ہمزاد ’’کا ‘‘آباد ہے جو سانس کے نکل جانے سے مرتا نہیں اور یہ کہ اگر گوشت کو بھوک،تشدد اور زوال سے محفوظ کر لیا جائے تو یہ ہمزاد بھی مکمل طور پر زندہ رہتا ہے ۔

مصنف ایک اور گتھی سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہرم یعنی پیرامیڈ مصری لفظ پی۔ ری ۔ مس یعنی بلندی سے ماخوذ ہے نہ کہ یو نانی لفظ پیرامیڈ یعنی ’’آگ ‘‘سے ۔ہرم اپنی بلندی بناوٹ اور لا فانیت کے ذرائع کے طور پر استحکام کا متقاضی تھا اور اگر مختلف ٹھوس اشکال کا کوئی گروپ بلا مزاحمت زمین پر گرائے جانے سے جو قدرتی شکل اختیار کر تا (اپنے چار کونوں کے علاوہ)اہرام بھی ویسے ہی ہیں ۔پھر ہر دوام اور شکوہ کے لیے بھی تھا چناںچہ پتھروں کو دیوانہ وار صبر و سکون کے ساتھ یوں اوپر نیچے ڈھیر کیا گیا جیسے وہ سیکڑوں میل دور پتھر کے کانوں سے کان پکڑ نہیں لائے گئے بلکہ سرِ راہ اگ آئے ہیں ۔

میں نے دکتورہ بسنت سے پوچھا کہ مصری فراعین اپنی لاشوں کے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء ،جنگی آلات ،سونے جواہرات غرض کیا کیا دفناتے تھے تو اس حوالے سے ان کا عقیدہ کیا تھا ؟ جواب ملا جو ہندوستان میں ہندوئوں کا عقید ہ تھا ۔جب وہ وفات پاتے تو نہ صرف اسباب و اشیاء بلکہ عورتوں ،بیویوں اور غلاموںکو بھی ’’ستی‘‘کرتے تا کہ ابدی زندگی میں بھی ان کے عقیدے کے مطابق ان کی خدمت گزاری اور عیش و عشرت کا سامان مہیا ہو سکے ۔ دکتور محمود سے مسافر نے پوچھا کہ ’’کا ‘‘کا درازیٔ حیات کا تصور اگر فراعین کے ذہنوں میں نقش تھا تو پتھروں ،لوہے ،سونے کی بڑی بڑی سلوں سے تابوت بنا کر اس میںجسموں کو بقائے ابدی بہم پہنچانا چہ معنی دارد؟دکتور محمود نے جواب دیا کہ ’’کا‘‘کا مضبوط اور غیر متزلز ل عقیدہ فراعین میںموجود تھا ۔مگر اطمینانِ قلب بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔انسان کو اپنے جسم سے محبت ہے اور اسی جسم کے ساتھ دوبارہ زندہ ہو نے یا ابدی طور پر زندہ رہنے کی خواہش انسان سے بہت کچھ کرواتی ہے ۔شاید اسی مقصد کے لیے انتہائی محنت سے حنوط کاری کر کے ان اجسام کو تابوتوں میں مدفون کیا گیا اور آج بھی ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ان فراعین کے جسموں میں صرف گوشت اور چمڑے چمٹے ہوئے ہیں بلکہ بالوں میں بھی بال برابر فرق نہیں آ یا ۔

ہیرڈوٹس کے مطابق حنوط کاری کرتے وقت پہلے ایک لوہے کے آنکڑے کے ساتھ مغز انسانی کو نتھنوں کے راستے باہر نکالا جاتا ،اس کے بعد کھجوری شراب سے پیٹ کو دھو کر عطر چھڑکا جاتا۔املتاس ،لوبان اور دیگر ادویات نما عطریات سے پیٹ بھرا جاتا ااور دوبارہ سی دیا جاتا ۔اس کے بعد جسم کو خام شورے میں دو ماہ دس دن تک ڈبوئے رکھنے کے بعد مومی کپڑے میں لپیٹ کر اس کپڑے کے اوپر گوند لگایا جاتا ،پھر جسم کو قیمتی تابوتوں میں بند کر کے اہراموں کے اندر بنے کمروں میں رکھ کر ساتھ قیمتی اشیا چھوڑآتے ۔یوں ان کا دبدبہ دنیا اور مذہبی ہر حوالے سے مسلم ہو جاتا ۔

ہم خوفو کے مقبرے سے اترائی میں چل پڑے اور تقریباََبیس پچیس منٹ پیدل راستہ طے کر نے کے بعد ابوالہول کے سامنے کھڑے ہو گئے ۔میرا خیال تھا کہ میں ابوالہول کے عظیم الجثہ قامت کو چھو سکوں گا مگر ایسا ممکن نہ تھا ۔کئی ایکڑ پر محیط ابوالہول کو چاروں طرف سے خار دار تار لگا کر اس کے پنجوں کے نیچے سے خوفو اور خافراع کے مقبروں تک جانے والی سرنگوں میں ارضیات اور علم الآثار کے ماہرین کام کر رہے تھے ۔مجھے ان سرنگوں میں جانے کا کوئی خاص تجسس نہ تھا ۔ مجھے ابوالہول کے خارجی حسن سے لطف لینا تھا اور یہ لطف جتنا دور سے دیکھنے میں ملتا درون خانوں سے نہ ملتا ۔ابوالہول بھی آئل پینٹنگ ،ادھیڑ عمر کی عورت اور پہاڑ کی طرح ہے جتنا فاصلے سے دیکھو گے زیادہ کشش محسوس کرو گے ۔احمد نے مجھ سے مختلف پوز بنوا کر اپنے موبائل کیمرے میں عکس بندی کی میں نے دکتور محمود سے پوچھاکہ ابوالہول تو عربی زبان کا لفظ ہے ۔فراعین اور مصری اس زمانے میں اس کو کس نام سے پکارتے تھے ۔بولے فرعونک نام مجھے نہیں معلوم مگر ابوالہول یعنی خوف کا باپ اس کو فاطمی دور ِحکومت میں عربوں سے ملا۔اس سے پہلے اس کا نام ’’بلھیت‘‘تھا ۔ شیر کے دھڑ اور انسانی سر والے ابوا لہول کو جب میں نے بلھیت کہہ کر پکارا تو اس کی وجاہت اس کا رعب اور دبدبہ ماند پڑ گیا ۔یوںلگا جیسے یہ طلسمی وجود مجھ سے ناراض ہو گیا ہو ۔میں نے محمود کو کہا ابوالہول لفظ میں جو شان و شوکت ہے وہ بلھیت میں نہیں ۔

مصر کے ابوالہول سے مستعار یونانیوں نے بھی ایک ابوالہول اسا طیر تراشا ہے ۔ ان کے دیو مالائوں میں ایک مادہ ببر شیرنی ہے جس کا چہرہ نسوانی اور کندھوں کے ساتھ پنکھ لگے ہیں۔ اس کے حوالے سے یونانی کہاوت ہے کہ یہ ابوالہول مؤنث ہے جو ییوٹیا کی ایک اونچی پہاڑی پر رہا کرتی تھی اور جو شخص اس کے سامنے سے گزرتا وہ اسے ایک معمہ حل کرنے کو دیتی جو درست حل نہ بتاتا اس کو ہڑپ کر جاتی بالآخر ایک ہیرو اوڈ پس نے اس کے معمے کا درست حل بتا دیا اور یوں اس کی موت واقع ہو گئی ۔دکتورہ بسنت بولی یہ معمہ کیا تھا ۔میں نے کہا یونانی قصہ گو ہومر کا کہنا ہے کہ معمہ یہ تھا کہ وہ کون ہے جو صبح چار ٹانگوں پر چلتا ہے دوپہر دو ٹانگوں اور پھر شام کو تین ٹانگوں پر۔

ابوالہول کی لمبائی ۱۸۹فٹ اور اونچائی ۶۵ فٹ ہے ۔دور سے پہاڑ کی طرح نظر آنے والا یہ مجسمہ ہزاروں سال قبل ایک چٹان کو تراش کر بنایا گیا تھا ۔اس کی انسانی شکل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ فرعون خافرع کی شبیہ ہے جبکہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ خافرع کے بھائی رید ی دِف سے ملتی ہے ۔Lime stoneکو تراش کر بنائے گئے ابوالہول کے مجسمے میں کئی رنگ اور شیڈز کی آمیزش اور ملمع کاری کی گئی ہے ۔ہزاروں سال گزرنے کے باوجود یہ رنگ اب بھی تازہ ہیں ۔اس کے سر پر ایک روایتی فرعونی رومال ہے اور اس کی پیشانی پر ناگ کی شبیہ صاف دکھائی دیتی ہے ۔ناگ کی شبیہ کو قدیم مصری ودجت اور رومال کو دیوتا ہورس کے پھیلے ہوئے پروں کا عکس سمجھتے ہیں ۔

کسی زمانے میں دریائے نیل ابوالہول کے قدموں سے ہو کر گزرتا تھا ۔صحرا نشینوں سے زیادہ پانی کی قدر کس کو ہو سکتی ہے ۔شاید ابوالہول کو ایک ایسے دریا کی نگرانی سونپی گئی ہو گی جو خشک سالی سے بھی دوچار ہوتا تھا جیسا کہ ان کا عقیدہ تھا کہ ابوالہول ہی ان کی حفاظت پر مامور ہے اور اس کے ہوتے ہوئے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔بہر حال ان اساطیری روایات سے زیادہ میں اس کے جمالیاتی پہلو پر یقین رکھتا ہوں کہ بادشاہ اکثر جھیلوں اور دریائوںکے قریب محلات بنا کر فطری حسن سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ مصر کے بادشاہوں نے بھی نیل کے کنارے اپنے مسکن اور مدفن بنا کر جمالیاتی حظ کے حصول کی کوشش کی ہو گی اور کیوں نہ ہو کہ وہ موت کے بعد ابدی زندگی کے خواہش مند اور متلاشی تھے ۔ابوالہول کے بالکل سامنے ایک چھوٹی سی مسجد ہے ۔ احمد صاحب نے کہا کہ یہاں رش بہت زیادہ ہوتا ہے آج جمعہ بھی ہے اس لیے ہمیں جلدی مسجد جانا چاہیے ۔جمعہ کا خطبہ شروع تھا خطیب صاحب جنگ تبوک میں مسلمانوںکی کسمپرسی اورخلفائے راشدین کی سخاوت پر بحث کر رہے تھے ۔لن تنا ا لبرحتی تنفقو مما تحبون کے ذیل میں صحابہ رسولؐ کے جذبہ ایثار کا تذکرہ کر رہے تھے ۔جہاںجہاں رسولِ خداؐ کا ذکر آتا حاضرین جہراً درود پاک پڑھنے لگتے ۔میں جس جگہ بیٹھا تھا وہاں سے کھڑکی میں ابوالہول اور خوفو کا مقبرہ واضح نظر آ رہا تھا ۔مسافر کو اس چھوٹی سی مسجد سے خوفو کا دبدبہ اور ابوالہول کی دہشت ماند پڑتی دکھائی دے رہی تھی ۔ان دونوں کی شکل ایک کھلونے سے بڑھ کر نہ تھی۔ انہ طغیٰ کے خلاف جنگ جو جنگ حضرت موسیؑ نے شروع کی تھی پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کے نام لیوائوں اور صحابہ رسول نے اس کی تکمیل کر دی تھی ۔ وکلمتہ اﷲ ھی العلیا کی آوازیں دہشت کی علامت اور خوف کے باپ کے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ مصری باشندے حضرت ابراہیم ؑ اور آلِ ابراہیمؑ پر درود و سلام بھیج رہے تھے مسافر نے ٹکٹ پر لگے ابوالہول کے کان میں کہا و تعزو من تشا ء وتذل من تشاء بیدک الخیر۔ اب تمھاری حیثیت اہلِ مصر کے لیے تماشے کے کھلونے اور اساطیر لا ولین کے سوا کچھ نہیں ۔ دکتور محمود نے پوچھا کہ اہرام دیکھ کر کیا تاثر لے کر جا رہے ہو۔میں نے کہا یہاں میں نے اہرام بھی دیکھا اور حرم خدا بھی ، فراعین کے ان مقابر اور ابوالہول کے مجسمے کی شان و شوکت ،جمال و جلال ،قوت و ہیبت ،رعب و دبدبہ واضح نظر آتا ہے جبکہ اس چھوٹی سی مسجد میں صرف آدھی خوبیاں جھلک رہی ہیں ۔شان ہے مگر شکوہ ندارد ،جمال ہے مگر جلال ناپید ،ایمانی قوت ہے مگر ہیبت محال ، رعب کا اثر ہو تا ہے مگر دبدبہ نظر نہ آیا ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...