Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > مسجد سلطان حسن اور رفاعی مسجد

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

مسجد سلطان حسن اور رفاعی مسجد
ARI Id

1688711613335_56116746

Access

Open/Free Access

Pages

۷۲

مسجد سلطان حسن اور رفاعی مسجد

قلعے کے دائیں طرف سلطان حسن اور بائیں جانب رفاعی مسجد کی بلند و بالا عمارات دامنِ دل کھینچتی ہیں ۔ان دونوں مساجد کے درمیان ایک کشادہ شاہرہ ہے جوان مساجد کے آخر میں ایک وسیع و عریض باغیچے میں اختتام پذیر ہوتی ہے ۔راستے کے دو نوں جانب دو فٹ چوڑی اور اتنی ہی اونچی دیوار ہے جس نے راستے کی حنا بندی کی ہوئی ہے ۔دکتورہ بسنت نے اپنے پرس سے ایک چادر نکالی اور اس دیوار پر بچھا دی ۔اس کے بعد انھوں نے ڈبل روٹی ، کھیرے ،پنیر اور جیم کی ایک ڈلی چادر کے اوپر چن دی ۔پرس کے اندرونی جیب سے چھری نکالی ڈبل روٹی کو درمیان سے کاٹا اس کے اندر کھیرے اور پنیر کو جیم لگا کر رکھ دیا اور ہمارے سامنے پیش کر دیا ۔دکتورہ بسنت کی اس پرخلوص دعوتِ شیراز پر کون نہ مرتا۔

مصری عورت فرعون کے زمانے سے تاحال بااختیار ہے ۔امورِخانہ داری سے امورِ حکمرانی تک یہ باہمت عورت پدر سری معاشرے میں بھی اپنے حقوق اور فرائض سے لطف اندوز ہوتی رہی ہے ۔دعوتِ شیراز کے بعد ہم الرفاعی مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو ایک خاتون اور دو مرد ہماری طرف آئے اور مجھ سے پوچھا کہ آپ ہندوستان سے آئے ہیں ۔میں چونکہ شلوار قمیض میں تھا اس لیے ان کو میرے مصری نہ ہونے پر یقین ہو گیا۔میں نے کہا میں پاکستان سے ہوں ۔انھوں نے مجھے چالیس جنین کی ٹکٹ پکڑا دی تو میرے میزبانوںکو مصری محکمہ سیاحت والوںکی یہ حرکت بری لگی ۔احمد نے ان سے یہ کہا کہ یہ مسلمان ہیں ایک مسلمان کے مسجد میں داخل ہو نے پر آپ ان سے ٹکٹ لیں گے ؟انھوں نے کہا یہاں لوگ نماز توپڑھتے نہیں تاریخ دیکھنے آتے ہیں اس لیے ٹکٹ لینا ضروری ہے ۔

مسجد رفاعی دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا ۔یہ قرونِ وسطیٰ کی عمارات کی بڑی نشانی ہے۔ مسجد کل بارہ ستونوں پر ایستادہ ہے۔آٹھ ستون دیواروں کے ساتھ پیوست ہیں ، مرکزی گنبد کو چار ستونوں نے اٹھایا ہوا ہے ،ہر ستون کی چوڑئی تقریبا دس فٹ اور بلندی پچاس میٹر سے زیادہ ہے ۔ان ستونوں پر نقش ونگار اسلامی فنِ تعمیرات کا بہترین نمونہ ہیں۔ دلفریب غالیچوں اور دیواروں پر منفرد نقش و نگار نے اس مسجد کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا تھا ۔مسجد کے اندر رفاعی فرقے سے وابستہ احمد رفاعی کا مزار بھی ہے ۔اہلِ صوف کے نزدیک احمد رفاعی کی فکر اور سوچ کی اہمیت کے پیشِ نظر ان کے پیرو کاروں کی تعداد اچھی خاصی ہے ۔اس مسجد میں احمد رفاعی کے علاوہ بھی کئی حکمرانوں کے مزارات ہیں جن میں اسماعیل پاشا اور شاہ فاروق جو آخری مصری بادشاہ تھے اور اہلِ مصر میں ان کی نیک شہرت و سیرت کو مقبولیت حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی بھی کچھ عرصے کے لیے یہاں آسودہ خاک رہے ،بادشاہ سلامت انیس سو چالیس میں جنوبی افریقہ میں وفات پا گئے تھے ۔جنگ عظیم دوم کے اختتام پر رضا شاہ پہلوی کاجسدِ خاکی ایران بھجوا دیا گیا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ رضا شاہ کے تعلقات شاہ فاروق کے ساتھ قدرے اچھے تھے کہ اپنے جانشین صاحبزادے محمد رضا شاہ کی شادی شاہ فاروق کی بیٹی سے کر دی ، مگر نبھ نہ سکی ، شہزادی کو تہران میں دریائے نیل اور ایران میں بحیرہ روم کی کمی محسوس ہوئی اور تو اور موصوفہ کو یہ بھی گلہ تھا کہ سسرالیوں کو بادشاہت کا سلیقہ نہیں اس کام میں ابھی یہ کم سن ہیں ۔ دوسرے فریق نے بھی لحاظ نہیں رکھا دعویٰ کیا جب رضا شاہ کی میت مصر سے ایران منتقل ہوئی تو تابوت کے ساتھ وہ تلائی تلوار موجود نہ تھی جو بہ وقتِ تدفین ان کے ساتھ رکھی گئی تھی ، شاہ فاروق کو پسندآگئی اور رکھ لی ۔اس مسجد میں رضا شاہ پہلوی کے بیٹے محمد رضا شاہ کی قبر اسی پرانے سسرال میں دیکھ کر عبرت آمیز تاسف ہوا۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ سے درآمد شدہ ماربل کے تعویذ میں مدفون محمد رضا شاہ کے جاہ و حشم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ موصوف جب پہلی مرتبہ پاکستان آئے تو پاکستان کا ہر باشندہ بادشاہ کے دورے کی وجہ سے مسرور تھا ۔لوگوں نے کبھی اتنی دلچسپی کسی اور سر براہ کی آمد پر نہیں دکھائی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قیام پاکستان کا اولین دور ہجرت ،شہادت ،حد بندی کی بے انصافیوں ،جہاد کشمیر ، قائد اعظم کی علالت ،کپڑے اور کوئلے کی قلت ،سر یے اور سیمنٹ کی گرانی اور بہت سی اداسیوں اور افسردگیوں پر مشتمل تھا ۔لوگ اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے تھک گئے تھے اور دو گھڑی دل بہلانے کسی موقع کی تلاش میں تھے ۔وہ کام جو دوسری جنگ عظیم کے بعد فیسٹیول آف برطانیہ اور برسلز کی نمائش نے طویل لڑائی سے تھک کر چور ہونے والے یورپی باشندوں کے لیے سر انجام دیا تھا وہی کام اہلِ پاکستان کے لیے ہزامپریل مجسٹی شہنشاہ ایران کے دورے نے کیا ۔بہ قول مختار مسعود یہ پاکستان میں کسی بھی سربراہِ مملکت کا پہلا دورہ تھا ۔پہلے پہل تجربے کا نیا پن اور اشتیاق کا عالم اوریہ خوف بھی فطری تھا کہ کہیں استقبال میں ناتجربہ کاری کی وجہ سے کوئی کسر نہ رہ جائے ۔تعلیم یافتہ طبقہ بات بات پر عجم سے دیرینہ تعلقات کا حوالہ دے رہا تھا۔فارسی جاننے والے زمین پر پائوں نہ رکھتے تھے ۔ عام آدمی یہ سوچ کر خوشی سے دیوانہ ہو رہا تھا کہ اپنی آنکھوں سے ایک مسلمان بادشاہ کو دیکھ سکے گا ۔

رائل پاکستان ائیر فورس لڑاکا ہوائی جہازوں کے ایک سکوارڈ نے زاہدان سے شہنشاہ ایران کے فلائنگ فوٹرس ہوائی جہاز کو اپنی حفاظت میںلیا اور کراچی کی جانب پرواز شروع کی۔ چار جہاز فضا میں شہنشاہ کے جہاز کے اوپر تھے اور باقی چار اس کے نیچے،شہنشاہ کا جہاز کراچی اترا ۔وہ دروازے سے نکل کر سیڑھی پر کھڑے ہوئے تو فیوری سکوارڈ نے جھک کر سلامی دی اور فضامیں گم ہو گیا ۔استقبال کے لیے خواجہ ناظم الدین اور لیاقت علی خان کے علاوہ ایک لاکھ شہری بھی تھے جو ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہائوس کے درمیان جگہ جگہ کھڑے تھے ۔ہوائی اڈے پر گارڈ آف آنر کے دستے کی کمان لفٹیننٹ کرنل یحیٰ خان نے کی ۔مسلح افواج کے تینوں بدیسی سربراہ بھی سج دھج کر وہاں کھڑے تھے ۔رئر ایڈ مرل جے ڈبلیو جے فورڈ ،جنرل سرڈ گلس گریسی ،ائروائس مارشل آرایجر لے ۔

مسافر ماضی کے اوراق میں گم محمد رضا شاہ پہلوی کی قبر پر ٹکٹکی باندھے دنیا و مافیھا سے بے خبر تھا کہ دکتور محمود نے کہا ایرانی انقلاب کے بعد شاہ ایران کو کسی مغربی ملک حتی کہ امریکہ نے بھی قبول نہیں کیا حالانکہ یہ انہی کا پروردہ تھا ۔میں نے کہا یا دکتور جب یہ مطلق العنان حکمران بادشاہی سے معزول کیا گیا تو اگلے دن اخبارات میں صرف دو لفظی سرخی لگی ’’شاہ رفت‘‘نصف صدی کی پہلوی سلطنت کا قصہ دو لفظوں میں تمام ہوا اور پیرس میں جوآیت اﷲ خمینی کو خبر ملی تو ان کا ردِ عمل بھی دو لفظی ہی تھا ۔۔۔اﷲ اکبر۔

مسجد الرفاعی کے سامنے مسجد سلطان حسن ہے ۔اس مسجد کی خوبصورتی اور دیدہ زیبی تو مسلمہ ہے مگر مسافر کو جس چیز نے متاثر کیا وہ یہاں کے چار کمرے تھے جو چاروں فقہا حنفی ، شافعی ، مالکی ،حنبلی کے مدرسین اور طلبا ء کے لیے بنا گئے تھے ۔یہاں ’’یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان‘‘کا عملی نمونہ نظر آ رہا تھا ۔دکتورہ بسنت نے کہا اس مسجد کے بنانے والے سلطان حسن نے اس کی تعمیر ۱۳۶۱ء میں شروع کی اور چار سال بعد یہ مسجد جب تکمیل کو پہنچی تو سلطان حسن غائب ہو گئے اس کے بعد ان کا کوئی پتہ نہیں چلا کدھر چلے گئے۔میںنے کہا جہاں چاروں فقہا کے پیروکاروںکے لیے جگہیں مختص ہوں ایسی خوبصورت مسجد بنانے والے غائب نہیں ہوتے، دلوں میں رہتے ہیں ۔ سلطان حسن مسجد چونتیس میٹر لمبی اور اتنی ہی چوڑی ہے ۔ اس مسجد کے مرکزی حصے میں ایک بڑا وضو خانہ ہے جس پر لکڑی کا دلکش گنبد سایہ فگن ہے ۔وضو خانے میں اب پانی ناپید ہے لوگ اب اس جگہ تصویریں بناتے ہیں ہم نے بھی یہاں احمد کے کیمرے میں عکس بندی کی ۔مسجد کی دیواریں اور محرابوں میں کانسی کی کھڑکیاں بنائی گئی تھیں ۔ جن کے ارد گرد دیدہ زیب ماربل کو بیل بوٹیوں سے مزین کیا گیا تھا ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...