Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > مصر، مذہب اور مساجد

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

مصر، مذہب اور مساجد
ARI Id

1688711613335_56116748

Access

Open/Free Access

Pages

۷۷

مصر ،مذہب اور مساجد

مغرب کا وقت قریب تھا ہم احمد کی گاڑی میں بیٹھ گئے ہماری اگلی منزل جامعہ الازہرہ تھی ۔ فرعون ،پیرامڈ ،ابوالہول ،مسجد علی ،مسجد رفاعی اور مسجد حسن کے بعد اب جامعہ الازہر اور مسجد حسین ۔ایک دن میں جتنے مقامات دیکھے ان کا تعلق مذہب سے بنتا ہے ۔ مصریوں کو عبادت اور عبادت گاہوں سے عشق ہے چاہے فرعون کا زمانہ ،عیسائیوں کا یا مسلمانوں کا ۔ سکون قلب اور فرض عبودیت کے حصول و بجا آوری کے لیے عبادت گاہیں تعمیر کرنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔جیزہ کے اہراموں سے لے کر سینٹ کیتھرائن ،قاہرہ کے گرجا گھروں اور مسجدوںکی ایک لمبی فہرست ہے ۔ مصری نہ صرف اچھے عبادت گزار ہیں بلکہ عمارت گر بھی ہیں۔ میں نے کسی عبادت خانے کی عمارت بے ڈول ،بے مزہ اور غیر متواز ن نہیں دیکھی ۔ تعمیر اور عبادت ہر دو حوالوں سے مصری مساجد آباد نظر آتے ہیں ۔ جہاں اذان کی آواز کان میںپڑی وہیں کاروبارِ زیست رک جاتا ہے اور عبودیت کا اہتمام شروع ہو جاتا ہے ۔قرآن سے مصریوںکی محبت کوئی پوشیدہ راز نہیں ہر گھر میں حفاظ موجود ہیں اور ہر مسلمان مصری کو قرآن کا ایک بڑا حصہ ازبر ہے ۔قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنے میں شاید ہی کوئی دوسرا مسلمان مصریوں کا مقابلہ کر سکے ۔ویسے تو خوش الحانی کے اس فن کو بہت سے قرأ نے برتا ہے مگر مجھے قاری عبدالباسط کی تلاوت نے زیادہ اپنی طرف راغب کیا ہے ۔ مصر میں انیس سو ستائیس میں پیدا ہونے والے اس خوش الحان قاری کی تجوید مصری مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور باقی مسلم دنیا کے لیے بالعموم ایک تحریک بنی اوراب بھی بہت سے مصری اور غیر مصری قرأ اُن کے تتبع میں انہی کی طرح تلاوت کرتے اور داد وصول کرتے ہیں ۔کہا جا تا ہے کہ ملکہ برطانیہ ایلزبتھ دوم قاری صاحب کی بڑی مداح تھیں اور جب تر کی یا مصر جا نا ہوتا تو قاری باسط سے سورۃ الرحمن کی تلاوت ضرور سنتیں ۔

مسافر قاہرہ کی ایک بڑی شاہرہ کے ایک نکڑ پر کھڑا تھا سامنے مسجد حسین اور خان الخلیلی بازار دین و دنیا کی علامت کے طور پر نظر آرہے تھے ۔ساتھ ہی ایک کشادہ سڑک تھی جس کے دوسرے سرے پرجامعہ الازہرکے میناروں پر لگے لائوڈ سپیکر سے خطیب دین و دنیا کے مابین ربط وتوازن پر خطبہ دے رہا تھا ۔دکتور محمود نے پوچھا پہلے کہاں جائیں میں نے جواب دیا دین ودنیا کی طرف جانے سے پہلے ربط و توازن کا توشہ لیتے ہیں ۔ محمود کو میری بات سمجھنے میں کوئی دشوار ی نہ ہوئی انھوں نے مسجد الازہر شریف کی راہ لی ۔بارش کی وجہ سے مسجد کی سیڑھیوں پر پھسلن زیادہ تھی ہم نے جوتے اتار کر پا برہنہ مسجد میں قدم رکھا تو محسوس ہوا کہ دین میں توازن قائم رکھنا آسان کام نہیں ۔ہم کم و بیش ہزار سال پرانی عمارت میں کھڑے تھے ،یہ عمارت مسلم دنیا میں دینی و مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات پر بھی تحقیقی و تنقیدی نگاہ رکھنے میں ایک مستند حوالے کے طور پر جا نی جاتی ہے ۔میں نے دکتور محمود سے کہا کہ یہ عمارت بھی ہنر مندی کا اعلیٰ نمونہ ہے ۔انھوں نے جواب دیا کہ یہ عمارت تیونس کے شہر القیروان کی جامع مسجد عقبہ بن نافع دارلحکومت تونسیہ کی جامع مسجد الزیتونہ سے بڑی حد تک مماثلت رکھتی ہے ۔ دکتور محمود سے عقبہ بن نافع کا نام سنا تو جیسے ایمان تازہ ہو گیا ۔کیا کمال کے انسان تھے ۔ حضرت امیر معاویہ ؓ کے دور میں افریقہ کے گورنر مقرر ہوئے ۔افریقہ میں اسلام کی جڑیں اور مزید مضبوط کر نے کے لیے ان کوخیال آیا کہ یہاں اسلامی عسا کر کے لیے چھائونی اور مسلمانوں کے لیے ایک خوبصورت شہر آباد ہو ۔ اس حوالے سے عمرانیات ، حربیات اور جغرافیے کے ماہرین سے مشورے کیے جس جگہ کا انتخاب کیا وہاں ایک خوفناک اور گھنا جنگل تھا جو موذی زہریلے حشرات الارض اور درند و چرند کا مسکن تھا ۔حضرت عقبہ بن نافع کے لشکر میں اٹھارہ صحابی موجود تھے ۔آپؓ نے بھی اُن برگزیدہ صحابہ  ؓ کو جمع کیا اور اس گھنے جنگل میں لے گئے پھر بآوازِ بلند اعلان فرمایا کہ اے درندو اور موذی جانورو!ہم اﷲ کے آخری رسولؐ کے صحابہ ہیں اور ہم اس جگہ ایک بستی بسانا چاہتے ہیں لہٰذا تم سب یہاں سے نکل جائوورنہ ہم تم کو قتل کر دیں گے ۔اعلان ہوتے ہی سارے درندے اور حشرات غول در غول اس جنگل سے نکلنا شروع ہوئے ،شیر اپنے بچوں ،بھیڑیئے اپنے پلوں ،سانپ سنپولیوں کو اٹھائے جنگل سے جوق د ر جوق اس انداز میں نکل رہے تھے کہ حاضرین پر سکتہ طاری ہو گیا ۔اس کے بعد جنگل کو کاٹ کر القیروان کو بسایا گیا ۔بلا شبہ صحابہ رسولؐ کی تعظیم و تکریم میں جنگلی درندوں اور جانوروں نے اپنے مسکن اجاڑ کر مسلمانوں کو گھر بسانے کی سہولت جس شہر کے بسانے میں دی ہو وہ مسلمانوں کے تعظیم و حرمت رکھتا ہے ۔

حضرت عقبہ بن نافع ؓ کی ایک کرامت بھی تاریخ کی گواہ ہے کہ افریقہ میں جہاد ِ اسلام زوروں پر تھا علاقوں کے علاقے فتح ہو رہے تھے تو ایک دفعہ لق و دق صحرا میں مسلمانوں کے لشکر پر پیاس کا غلبہ ہوااور تمام لشکر تشنگی سے مضطرب تھا ۔سپہ سالار حضرت عقبہ بن نافع گھوڑے سے اترے دو رکعات نفل پڑھی اور خدا سے پانی کے لیے دعا مانگی ۔ دوران دعا آپؓ کے گھوڑے نے اپنے کھر سے زمین کریدنا شروع کی ،آپؓ نے اٹھ کر دیکھا تو اس کریدی ہوئی جگہ میں پتھر نظر آ رہا تھا ۔جب وہ پتھر ہٹایا گیا تو وہاں سے ایک چشمہ پھوٹ پڑا پانی اس قدر زیادہ تھا کہ سارا لشکر اور گھوڑے سیر اب ہوئے اور مجاہدین اپنے مشک بھی بھر کر روانہ ہوئے اور اس واقعے کوکون بھلا سکتاہے جب حضرت عقبہ بن نافع شمالی افریقہ میں اسلام کا پرچم بلند کر نے کے بعد بحر اوقیانوس تک پہنچتے ہیں تو فرطِ جذبات سے اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال کر خدا وند کریم سے مخاطب ہوئے کہ اے لم یزل اگر یہ سمندر میری راہ میںحائل نہ ہوتا تو زمین کے آخری کونے تک تمھارا نام بلند کر تا چلا جاتا۔ علامہ اقبال نے اس تاریخی واقعے کوا پنی شہرہ آفاق نظم ’’شکوہ‘‘میں یوں بیان کیا ہے ۔

دشت تو دشت ہیں دریابھی نہ چھوڑے ہم نے

بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے

صقلیہ سے تعلق رکھنے والے ایک فاطمی گورنر نے جامعہ الازہر کا سنگِ بنیا د رکھا اور تقریبا دو سال چار ماہ میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی ابتدا میں اس کا نام مسجد القاہرہ تفویض کیا گیا اور کچھ عرصہ تک اسے اسی نام سے پکارا جاتا رہا بعد میں اس کانام فاطمی حکمرانوں نے دختر رسولؐ سیدہ فاطمۃالزہراؓکی نسبت سے جامع مسجد الزہرا اور پھر الازہر رکھ دیا ۔ابتدا میں اس پر اہلِ تشیع کی تعلیمات غالب رہیں مگر گیارہ سو اکہتر میں جب صلاح الدین ایوبی نے عنانِ حکومت سنبھالی تو اہلِ سنت کی تعلیمات کا دور دورہ ہوا۔اس مسجد کے چار مینار ہیں جو الغوری ،قطبی ،اقبعویہ اور کستخدا کے نام سے موسوم ہیں ۔تقریباََ بیس ہزار نمازیوںکی گنجائش رکھنے والی اس مسجد کی کشادگی تین مرحلوں میں ہوئی ۔یہاں طلبا کی بہت بڑی تعداد ہے جن میں مصریوں کے علاوہ دنیا بھر سے آنے والے طلبہ شامل ہیں ، میں نے شلوار قمیض پہنے ایک چپٹی ناک والے طالب علم کو دیکھا تو کچھ اپنا اپنا سا لگا میں نے اس کے ساتھ پشتو زبا ن میں بات کی تو وہ پشتو سے نابلد اور شیستان کا نکلا میں نے ان سے پاکستانی طالب علموں کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے یہاں اچھی خاصی تعداد میں پاکستانی طلبہ پڑھتے ہیں ۔نماز کے بعد مسجد کے ستون سے ٹیک لگائے علماء مختلف ٹولیوں میں بیٹھے اپنے شاگردوں کو درس دینے میں مشغول تھے ۔ہر معلم کے لیے ستون کے ساتھ ایک کرسی بھی رکھی گئی تھی جس پر اس معلم کا نام درج تھا ۔مسجد اور اس میں بچھے قالینوںکی صفائی اور دھول چٹائی جدید مشینوں سے کی جا رہی تھی ۔مسجد کے اندر وائی فائی کے بوسٹر جگہ جگہ نصب تھے ۔جیب کتروںسے ہوشیار،اپنے جوتوں کی حفاظت خود کیجیے اور اپنے موبائل فون بند کیجیے جیسے تنبیہی بورڈ اور اور اشتہات یہاں مفقود تھے ۔ہمارے قریبی ستون کے پاس ایک عالم ’’و انتم الا علون ان کنتم مو منین ‘‘پر درس دے رہے تھے ۔ گفتگو اس بات پر ہو رہی تھی کہ دین و دنیا کی کامرانی تب ملے گی جب تم مومن بنو ،مسافر کو اس مجلس ِ علمی کی آخری صف میں جگہ ملی ۔مولوی صاحب کی باتیں عربی زبان میں تھیں ۔ مگر دل و دماغ کو متاثر کر رہی تھیں ،میں نے دل و دماغ کوان کے وائی فائی بوسٹر سے منسلک کیا اور گھنٹہ ڈیڑھ تک اپنے روح اور جسم کے خالی انباکس کو ان کی منطقی گفتگو سے لبریز کرتا رہا ۔دکتور محمود اس دوران میری عکس بندی کر نے لگے اور درس کے اختتام پر کہنے لگے یا دکتور تم بھی ’’الازہری ‘‘بن گئے مبارک ہو ۔میں نے کہا کاش ایسا ہوتا ۔ ’’الازہری‘‘ بننا بہت بڑا اعزاز ہے مگر میں نے ایسے الازہری بھی دیکھے ہیں جو لاالہ کی نہ خبر گیر ی رکھتے ہیں اور نہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے پر لرزتے ہیں وہ صرف نام کے الازہری ہیں ایک دانا نے کیا اچھی بات کی ہے کہ جامعاتی اور رسمی تعلیم کا حکمت و دانش سے کوئی علاقہ نہیں ۔فکرو نظر کا بھی تعلیمی اسناد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔سندیافتگی اور ہنرکاری کی منزلیں جدا ہیں ۔درسی تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ مگر ان منزلوں کے راستے اور ہیں ،سنگلاخ اور دشوار گزار ۔۔۔تلوے چھلنی ہو جاتے ہیں جسم چور چور اور لیر و لیر ہو جاتا ہے ۔جسم آرام طلب ہے کسب کمال کے لیے اسے بے آرام ہو نا پڑتا ہے ۔ تب عزیز جہاں شوی کی منزل آتی ہے اور آدمی مڑ کر دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے ۔ذرا سی بے آرامی اور اس کا اتنا بڑا صلہ ۔قدرت کتنی فیاض ہے ۔انسان کتنا نا سمجھ ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...