Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > مارجرجس ، مفارہ، مریم اور موم بتی

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

مارجرجس ، مفارہ، مریم اور موم بتی
ARI Id

1688711613335_56116750

Access

Open/Free Access

Pages

۸۲

مارجر جس ،مفارہ ،مریم ؑ اور موم بتی

مسجد عمر و بن العاص کے قریب ہی ایک پرانا کلیسا مارجر جس ہے جو اپنی قدامت اور طرزِ تعمیر کی وجہ سے نہ صرف عیسائی بلکہ مسلم ،یہودی اور دوسرے مذاہب کے زائرین اور سیاحوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کر تا ہے ۔مارجر جس سے منسوب کنویں کو عیسائی مقدس مانتے ہیں ،اطمینان ِ قلب کے لیے ایک یادگار بھی یہاں بنی ہے جہاں زائرین موم بتیاں جلاتے ہیں ۔ اس کلیسا کے ساتھ ہی ایک اور کلیسا المفارہ ہے جو دو عیسائی پیشوائوں سرجیوس اور باخس کی یاد میں تعمیر کیا گیا ہے ۔یہاں حضرت عیسی ؑ کے ان دونوںپیرو کاروں کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ المفارہ کے صدر دروازے پر ایک بڑا بورڈ آویزاں ہے جس پر اس سفر کا نقشہ کھینچا گیا ہے جس کے بارے دعویٰ ہے کہ حضرت عیسیؑ کی پیدائش کے بعد حضرت بی بی مریم نے فلسطین کے اس وقت کے بادشاہ کے خوف سے کیا تھا ۔ دس سال مصر میں جلا وطنی کے بعد واپسی کے سفر میں جن جن راستوں مقامات سے ہو کر بی بی مریمؑ گزری تھیں نقشے میں انھیں واضح کیا گیا ہے ۔ مسافر کوبی بی مریم ؑ کے اس سفر اور نقشے میں موجود سفری لکیروں نے تاریخ کی ورق گردانی کی جانب راغب کیا کہ آیا حضرت بی بی مریم ؑ نے واقعی یہ سفر کیا تھا یا عیسائی زائرین کو تاریخ اور حقائق سے دور رکھ کر صرف سیاحت کے فروغ کی خاطر یہاں ایک مذہبی کشش پیدا کر نے کے لیے کہانی گھڑی گئی ہے ۔

اس حوالے سے جامعہ کراچی کی تاریخ کی پرو فیسر اور کئی کتابوں کی مصنفہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی رائے معتبر لگی ۔وہ لکھتی ہیں کہ مسلم مورخین کے مرتب کردہ تاریخی بیانیے کے مطابق حضرت مریم ؑ ہیکل سلیمانی کے ایک متولی عمران کی بیٹی تھی ۔عمران کی بیوی حنہ بنت فاقود ایک عمر رسیدہ اور بانجھ خاتون تھیں ۔ایک بار حنہ نے ایک پرندے کو دیکھا جو اپنے بچے کی چونچ میں کھانا ڈال رہا تھا ۔ان کے دل پر چوٹ لگی اور منت و زاری سے بار گاہ ایزدی میں اولاد کے لیے دعا مانگی ۔دعا قبول ہوئی حنہ کو بڑھاپے میں حمل ٹھہرا ۔انھوں نے شکر گزاری کے طور پر نذرمانی کہ وہ ہونے والے بچے کو بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کر دیں گی ۔قرآن کی سورۃ العمران کی آیت پینتیس بھی اس بیانیے کی تصدیق کرتی ہے ۔اﷲ نے حنہ کو بیٹی سے نوازا۔انھوں نے بیٹی کا نام مریم یعنی خدمت گزار خادمہ رکھا اور بیت المقدس کے متولیوں کے حوالے کیا ۔بچی شیر خوار تھی تو کفالت کا مسئلہ پیش آ یا ،ہر متولی کی خواہش تھی کہ وہ چند ماہ قبل فوت ہو جانے والے عمران کی اس بچی کی کفالت اپنے ہاتھوں میں لے ۔قراندازی ہوئی تو فال حضرت زکریاؑ کے نام نکلا جومعصوم مریم ؑ کے خالو بھی تھے ۔ جب حضرت مریم  ؑ سنِ رشد کو پہنچیں تو ہیکل کے محراب میں معتکف ہوگئیں ،جب کبھی حضرت زکریاؑ ان کی خبر گیری کے لیے جاتے اور ان کے پا س کھانے پینے کی اشیاء دیکھتے تو تعجب سے پوچھتے کہ یہ چیزیںکہاں سے آئی ہیں۔ حضرت مریم  ؑ جواب دیتیں اﷲ کے پاس سے ۔۔۔’’وہ جسے چاہے بے حساب رزق دیتا ہے ‘‘ حضرت مریم  ؑ (جن کی عفیفگی اور پاکبازی کی گواہی قرآن میں ہے)کے پاس ایک بار فرشتہ آیا اور انھیں بیٹے کی خوش خبردی تو معصوم مریم  ؑ ششدر رہ گئیں ۔فرشتے نے نام بتا یا کہ اس کا نام مسیح ابنِ مریم  ؑ ہو گا اور اﷲ کے مقرب بندوں میں سے ہو گا اور لوگوں کے ساتھ گہوارے میں بھی کلام کر ے گا ۔

حضرت عیسیٰ ؑ کی معجزانہ ولادت کا وقت قریب آ یا توحضرت مریم  ؑ ایک دور دراز مقام پر چلی گئیں ۔زچگی کی تکلیف اوپر سے بھوک پیاس اور تنہائی سے بے چین ہوئیں تو کہنے لگیں کاش میں اس سے پہلے مر جاتی اور نام و نشان مٹ جا تا مرا ۔ایسے میں ایک فرشتہ ان کے پاس آیا تسلی دی ،جس کھجور کے درخت کے نیچے بیٹھی تھیں اس کی شاخیں ہلائیں تو پکی کھجوریں ٹپک پڑیں اور قریب ہی سنگلاخ پتھروں سے شفاف پانی کا چشمہ ابل پڑا ۔بیٹے کی پیدائش کے بعد حضرت مریم  ؑ کا اپنے علاقے میں آ نا لوگوں کا اظہارِ نفرت کر ناحضرت مریم  ؑ کا خاموش رہنا اور حضرت عیسیٰ ؑ کا گہوارے سے گویا ہونا کہ ’’میں اﷲ کا بندہ ہوں ،اسی نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا، مجھے بابرکت کیا ،جہاں بھی رہوں۔ زندگی بھر کے لیے نماز اور زکوۃ کی پابندی کا حکم دیا اور اپنی والدہ کا حق ادا کر نے والا بنایا اور مجھ کو شقی نہیں بنایا ۔سلام ہومجھ پر جبکہ میں پیدا ہوا اور جبکہ میں مروں اور جب کہ میں زندہ کر کے اٹھایا جائوں ‘‘

بہ قول نگار سجاد ظہیر مسلم مؤرخین کا یہ بیانیہ اس بات پر منتج ہو تاہے کہ گہوارے سے حضرت عیسیٰ  ؑ کی گفتگو سے یہودی علماء مطمئن ہو گئے اورحضرت مریم  ؑ ہیکلِ سلیمانی میں دوبارہ متعکف ہو گئیں ۔جب حضرت عیسیٰ  ؑ تیس برس کے ہوئے اور انھوں نے یہودی حکمرانوں کی غلط کاریوں پر گرفت شروع کی تو حکمرانوںنے بدلے میں حضرت مریم  ؑ پر زنا کا بہتان دھرا اور تاریخ سے کھلواڑ شروع کیا ۔حضرت مریم کے اخلاقی اور روحانی مرتبے کو گھٹاکر بد اخلاقی کی داغ بیل ڈالی اور حضرت عیسیٰ ؑ کی گہوارے کی گفتگو سے منکر ہوئے ۔ یہودیوں کی حضرت عیسیٰ ؑ سے بغض اور عداوت تو فطری تھی کہ انھوں نے نبوت کا اعلان کر کے دین عیسوی کی بنیاد رکھی مگر حیرت ہے کہ نصرانیوں نے اسرائیلیات کو رد کر نے کی بجائے ان میں مزید اضافہ کیا اور کہانیاں گڑھیں کہ بہتان کے خوف سے بی بی مریم فلسطین سے مصر چلی گئیں اور وہاں دس برس مقیم رہیں ۔

اس کلیسا کی تاریخی حیثیت بلا شبہ غلط روایات پر مبنی ہے مگر ان کے نام پر بنے اس کلیسا کی عمارت کی دلکشی اور تعمیراتی خوبصورتی دیدنی ہے ۔اس کو معلق کلیسا بھی کہا جاتا ہے جو صرف دیواروں پر کھڑا ہے نہ ہی اس کی بنیادیں ہیں اور نہ ہی چھت کے سہارے کے لیے کوئی گہرائی اور گیرائی والے ستون ۔میں نے دکتور محمود کو کہا کہ قدرت نے بی بی مریم کی پاک دامنی کے اشارے اس کلیسا کی تعمیر میں بھی دیے ہیں جس طرح فلسطین سے مصر ہجرت کی اس جھوٹی روایت کا نہ سر ہے نہ پیر ویسے ہی اس عمارت کی بنیادیں ناپید ہیں ۔ کلیسا کے صدر دروازے سے داخل ہوں تو ایک خوبصورت صحن آپ کا استقبال کرتا ہے جہاں فن بائبل کی دلکش ہنر وری دیکھی جا سکتی ہے ۔صحن سے تقریبا َ انتیس سیڑھیوں کی بلندی پر واقع اس کلیسا کی تعمیر کے متضاد دعوے ہیں ۔ایک روایت ہے کہ یہ عمارت چھ سو نوے عیسویں کی تعمیر ہے بعض روایات کے مطابق اسے دوسری اور تیسری صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پوپ ابراہیم نے نو سو اسی عیسوی میں اس کو دوبارہ تعمیر کیا ۔اس کلیساکی چھت الٹی رکھی کشتی کی مانند نظر آتی ہے کلیسا کے اندر بی بی مریم ؑ ، حضرت عیسیٰ  ؑ اور ان کے حواریوں کی شبیہیں خوبصورت چوکھٹوں میں آویزاں ہیں ۔ماربل اور مختلف رنگوں کے گرینائیٹ سے مزین اس کلیساکی دلفریبی اپنی مثال آ پ ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...