Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > خان الخلیلی بازار

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

خان الخلیلی بازار
ARI Id

1688711613335_56116752

Access

Open/Free Access

Pages

۸۷

خان الخلیلی بازار

مسجد حسین کے باہر دالان میں بڑی تعداد میں ریستوران موجود ہیں جہاں کھلی فضا میں سیکڑوں میز اور کرسیاں لگیں تھی ۔چند مصری نوجوان گٹار بجا رہے تھے باقی لوگ محظوظ ہو رہے تھے۔نماز کے وقت موسیقی بند تھی ۔دکتور محمود نے کہا یہ ذہنی ہم آہنگی مصری قوم کا خاصہ ہے وہ ایک دوسرے کو بہ زور نہیں روکتے ۔مذہب اور محبت ہم مصریوں کی گھٹی میں ہے مگر ہم اس کے ذریعے ایک دوسرے کوجنت یا جہنم رسید نہیں کرتے ۔ہم جیو اور جینے دو کے اصولوں پر زندگی گزارتے ہیں ۔محمود کی گفتگو میرے دل میں ترازو ہو رہی تھی ۔میری فکر جیو اور جینے دو کے آفاقی اصول کو پاکستانی معاشرے میں ٹٹول رہی تھی ،مگر میری یہ تلاش بے سود تھی ۔مذہبی دھڑے بندیوں ،قوم پرستی ،لسانی تفاوت ،علاقائی بغض اوپر سے حکمران طبقے کی اس ملک اور عوام کے ساتھ چیرہ دستیوں نے پاکستانی معاشرے سے ان دونوں اصولوں کو ناپید کر دیا ہے ۔ مسافر اس سماجی اور مذہبی تخریب پر اپنی سوچوں میں غلطاں تھا جو نائن الیون کے بعد پاکستانی سماج میں انتہا کو پہنچی کہ اس دوران چہل قدمی کرتے کرتے ہم مسجد حسین سے اچھا خاصا فاصلہ طے کر چکے تھے اچانک دکتور محمود نے کہا کہ ہم خان الخلیلی بازار میں کھڑے ہیں ۔فکری پرواز سے زمینی حقائق کی طرف پلٹے تو اپنے آپ کو ایک تنگ مگر مصروف بازار میں پایا ۔چودھویں صدی کے اواخر میں ترک عثمانی دور میں بننے والے اس بازار کا پرانا نام ’’ترکی بازار تھا ‘‘جو بعد میں خان الخلیل کے نام سے مشہور ہوگیا ۔مجھے اس بازار میں لاہور کی انار کلی اور بنکاک کی نانا سٹریٹ کی شبیہ نظر آئی جہاں ہجوم کی حالت یہ تھی کہ ’’نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے‘‘والی کیفیت بنی تھی ۔یہاں زیورات ، پرانے دور کے فرنیچر ،آلاتِ موسیقی ،قالین اور کپڑوں کی دکانیں ، چمڑے کی بنی اشیا ء تانبے اور جست سے بنے برتن ،عطر فروشوں کی دکانیں لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھیں ۔دکتور محمود نے کہا جب سے یہ بازار وجود میں آ یا ہے کبھی بند نہیں ہوا دن ہو یا رات بازار کھلا رہتا ہے ۔خان الخلیلی بازار میں قہوہ خانوں اور حقے شیشے کی دکانیں زیادہ آباد تھیں ۔پورا بازار جب گھوم کر تھکن بڑھ جائے تو یہاں حقہ دخانی اور قہوہ پانی سے لوگ سواد اٹھاتے ہیں ۔دکانوں کے باہر تھڑوں پر بوڑھے مصری براجمان شیشے کے ’سوٹے‘‘لگاتے بازار میں آئے سیاحوں کے ساتھ مسکراہٹوں کے تبادلے کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔اکثریت کی خواہش ہوتی ہے کہ باہر سے آئی کوئی گوری میم اس کے پہلو میں بیٹھ کر اس کے حقے سے دو تین کش لگائے۔مغرب سے آئی گوری میمیں جب مصری بابوں کی اس ’’گڈ آفر‘‘سے محظوظ ہو کر ان سے گہرا معانقہ کرتی ہیں تو بابوں کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کی بشاشت دیدنی ہوتی ہے ۔

مسافر نے دکتور محمود سے پوچھا کہ مصر کا وہ بازار کہاں ہے جہاں غلام فرخت ہوتے تھے جہاں حضرت یوسف ؑ کی بھی فروخت ہوئی تھی ۔کہنے لگے وہ بازار تاریخ کی کتابوں میں مل سکتاہے مگر عصرِ حاضر کے مصر میں اس بازار کا کوئی پتہ نہیں ،اس نے کہا عصر حاضر کو چھوڑیں موسیٰ ؑ کے فرعون کو بھی معلوم نہ تھا کہ ان سے پہلے مصر کے ایک بادشاہ حضرت یوسفؑ نام کے کوئی شخص بھی گزرے ہیں ۔خان الخلیلی کی دکانوں کی پشت پر رہائشی گھر تھے ۔مکانات اور دکانیں آپس میں اس انداز میں پیوست ہو گئے تھے کہ تفریق مشکل تھی ۔ ان کے بیچوں بیچ کیفے تھے جہاں رقص و سرود کی محفلیں جمتی تھیں ۔مصری رقص کو عربوں میں بالخصوص اور باقی دنیا میں بالعموم شہرت حاصل ہے ۔مصری حسینائیں جسم کے انگ انگ کو ساز و آواز کے ساتھ کمال ربط سے حرکت دیتی ہیں ۔ جوشؔ ملیح آ بادی نے رقص کو اعضا کی شاعری کا نام دیا ہے مصری حسینائوں کا رقص اس کا بیّن ثبوت ہے ۔دکتور محمود نے مجھ سے پوچھا کہ پاکستانی معاشرے میں بھی رقص پسند کیاجاتاہے؟میںنے پاکستانی اور ہندوستانی فلموں میں رقص دیکھے ہیں۔میں نے ہنس کر کہا آپ نے برا رقص دیکھا ہے۔اس رقص کے بارے میں پیر و مرشد مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب شامِ شعر یاراں میں اچھی گفتگو کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ یونہی خیال آیا کہ ’’رقص ‘‘عربی زبان کا لفظ ہے ذرا لغت میں اس کے معنی تو دیکھیں ۔بعض اوقات لغت دیکھنے سے بھی نیا شوشہ یا شگوفہ ہاتھ لگ جاتا ہے ۔ اس لفظ کے معنی ہیں اونٹ کی اچھلتے اور کودتے ہوئے دوڑ گویا شتر مع شتر غمزوں کے ۔ حیرت ہوئی کہ جس عرب نابغہ روزگار نے یہ لفظ ایجاد کیا اس نے ہزاروں برس بیشتر پوپ راگ اور رقص کی ایسی رئیلسٹک تصویر کھینچ کے رکھ دی کہ جس قدر اش اش کریں کم ہے ۔ جس قسم کے ڈانس اور جس قماش کے ڈانسر آج کل چینلز پر دکھائے جا رہے ہیں ان میں جسم کا صرف ایک حصہ استعمال کیا جاتا ہے ۔

 یوسفی لکھتے ہیں کہ ہر جذبے اور ہر ایسی خواہش کا اظہار و اعلان جس سے گھر بگڑے ،اب صرف کولھوں کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔ہم تو بچپن سے یہی سنتے اور سمجھتے آئے تھے کولھے صرف بیٹھنے ،پتلون کو پھسلنے سے باز رکھنے اور اسکول میں بید لگوانے کے لیے بنائے گئے ہیں ۔ اب تو یہ دیکھا کہ پوری ایموشنل رینج یعنی جذبات کی ساری سرگم کولھوں سے اس طرح ادا کی جا تی ہے کہ کیا بتائیں دل پر چھری سی چل جاتی ہے ۔مٹکے مٹکانے اور ٹھمکا لگانے یعنی Hip swing اور Wigglingکو فنونِ لطیفہ کا درجہ دینے کا کریڈٹ ان چینلز کو جاتا ہے ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...