Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > نیل کے سنگ سنگ

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

نیل کے سنگ سنگ
Authors

ARI Id

1688711613335_56116757

Access

Open/Free Access

Pages

۹۷

نیل کے سنگ سنگ

                                                                                                پروفیسر غضنفر علی

                                                                                                (جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دہلی، ہندوستان)

کچھ لوگ دیکھی ہوئی دنیا کو بھی ٹھیک سے دیکھ نہیں پاتے کہ وہ نگاہوں میں آتی تو ہے مگر پتلیوں سے نکل جاتی ہے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دنیا کو خود تو جی بھر کر دیکھتے ہی ہیں، اپنی دیکھی ہوئی اس دنیا کو دوسروں کی آنکھوں میں بھی منتقل کر دینا چاہتے ہیں۔ ان کی اس چاہ کے پیچھے منشا یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے رنگ و آہنگ کو ان دیدوں تک بھی پہنچا دیں جن کی نگاہیں پپوٹوں کے اندر بند رہتی ہیں اور پلکوں کی چلمنوں سے کبھی باہر نہیں نکل پاتیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرح دوسرے بھی دیکھیں کہ دنیا کتنی حسین ہے۔ اس کی فضائوں میں کیسی رنگینی ہے۔ اس کی ہوائوں میں کس قدر سنگینی ہے۔ اس کی ادائوں میں کیسی دل نشینی ہے۔ وہ بھی یہ منظر دیکھیں کہ جب جہاز کے جھروکوں سے  جھانکتے ہیں تو منظر کیسے بدل جاتے ہیں، کیا کیا کس روپ میں ڈھل جاتے ہیں، دیکھیں کہ لمبی چوڑی عمارتیں ماچس کی ڈبیا بن جاتی ہیں، چوڑی چوڑی سڑکیں یہاں تک کہ شاہراہیں بھی سکڑ کر پگڈنڈیوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔ اونچے اونچے پیڑ گل بوٹے دکھائی دینے لگتے ہیں،پہاڑ ، دریا، گائوں، شہر سب سفید روئی کے گالوں میں چھپ جاتے ہیں۔ آسمان قریب آجاتا ہے۔ زمین دور ہو جاتی ہے۔ سجی سنہری پھول کی مانند کھلی کھلی سی رنگین تتلیاں ٹرالیوں میں پانی کی ننھی منی پیاری پیاری سی بوتلیں اور رنگ برنگی ٹافیاں لے کر چلتی ہیںتو مسافروں کی آنکھوں میں پیار اُمڈ آتا ہے اور بنا پیاس کے بھی ہونٹ پھڑپھڑااُٹھتے ہیں۔

غیر ملکی شہریوں کی حیرت انگیز رونقیں، دل فریب محفلیں، محفلوں کی چہلیں، جسموں کی زقندیں، عیش و عشرت سے سجی بستیاں اور مدمست کر دینے والی مستیاں جب آنکھوں میں آتی ہیں تو یک لخت دیکھنے والے کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ قدیم عجائبات، جدید ایجادات، انسانی اختراعات، حربی آلات، تکنیکی فتوحات، مشینی آلات، جنت نشان مکانات، نئے افکار خیالات جب سامنے آتے ہیں تو خالق اور مخلوقات دونوں کی عظمتوں پر بے ساختہ لبوں سے واہ واہ اور طرح طرح کے تحسینی کلمات نکل پڑتے ہیں۔

جن لوگوں نے چاہا کہ وہ اپنی دیکھی ہوئی دنیا کو دوسروں کو بھی دکھائیں ان میں سے ایک الطاف یوسف زئی بھی ہیں۔ الطاف یوسف زئی کی دیکھی ہوئی دنیا خوب صورتی اور لطافت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ اسم با مسمٰی بھی ہیں۔

ان کی پر لطف تحریر بتاتی ہے کہ وہ الطاف ہیں۔ ان کے خوش افکار اور خوش اظہار دونوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے اندر اوصافِ یوسفی بھی رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان کی نگاہیں دورانِ سفر ایسے مقامات پر ٹھہرتی ہیں جو اپنے وجود میں ظاہری یا باطنی کوئی نہ کوئی خوب صورتی ضرور رکھتی ہے جو کسی نہ کسی پہلو سے پُر لطف ضرور ہوتے ہیں۔ الطاف یوسف زئی کی لطافت اور وصفِ یوسفی کو ثابت کرنے کے لیے اُن کے سفر نامہ ’’ نیل کے سنگ‘‘ کے مختلف حصوں سے ماخوذ یہ چند اقتباسات ہی کافی ہوں گے۔

’’ مصر والے راستوں کو اگر شاہراہِ بزرگ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ہزارہا سالوں سے ہزار ہا انسانوں نے اس سر زمین پر اپنے نقوش چھوڑے ۔کشادہ جبیں اور روشن خیال رہروانِ شوق نے اس سر زمین کو نسلِ انسانی کے لیے منبعِ نور بنایااور دلوں کو بینائی بخشی‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’مسافروں کی جہاز میں جلد بیٹھنے کی خواہش جس رفتار پر چل رہی تھی ،گھڑیال کی سوئیاں اس کے ساتھ قدم ملا کر چلنے سے عاری تھیں۔ لمحہ موجود منجمد تھا اور شوقِ پرواز کو پر لگے ہوئے تھے‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’اس مسجد کی خوبصورتی بے مثال تھی۔ داغی شیشے سے بنی یہ مسجد واقعی ایک شاہکار تھی۔ یہاں برقی قمقموں کی منور روشنیاں داغی شیشے سے منعکس ہوتیں تو پرزم کی طرح کئی رنگوں کی قوسِ قزح بکھیرتیں‘‘۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ایک طرف شہر کی بڑی عمارات اور فلک بوس مینار اپنی حقیقت مجھ پر آشکار کر رہی تھیں تو دوسری طرف میری پیشوائی کے لیے ایک عظیم تہذیب، ایک بزرگ تاریخ، قرآنی آیات کے عملی نمونے اور چشم کشا تفسیریں چشم براہ تھیں‘‘۔

ان اقتباسات میں صوری اور صوتی خوبصورتی موجود ہے۔ غور سے ان کے جملوں کو پڑھیں تو ان سے منعکس ہونے والا معنوی حسن بھی محسوس ہو گا۔ مسافر نے اپنی رودادِ سفر کے بیان میں اس بات کی کوشش کی ہے کہ اس کا بیان پیکر بن جائے ۔ بیان ہونے والا منظر دکھائی بھی دینے لگے۔ اس کاوش کی ایک عمدہ مثال بھی دیکھیے:

’’بقول شخصے فضا میں راستے کہاں ہوتے ہیں ، صرف راستے کا احساس ہوتا ہے۔ فضا بے کراں اور بے نشاں، نہ کسی پرانے قافلے کا نقشِ قدم محفوظ، نہ کسی نئے کارواں کے لیے سنگِ میل موجود ہ۔ نہ پس انداز اور نہ زادِ راہ۔ فضا پاک ہے اور اس کا مرکب بہت لطیف۔اس لیے فضا میں مادہ تقریباً معدوم ہو جاتاہے اور سمت موہوم ۔صرف ایک خلا رہ جاتا ہے۔ ہر طرف خلا ہی خلا۔ ایک خلا کے بعد دوسرا خلا۔ فکر کو اس کا سرا نہیں ملتا۔ پھر بھی اس خیال سے ڈھارس بندھی ہے کہ اگر خلا بسیط ہے تو کوئی محیط بھی تو ہوگا‘‘

اس سفر نامے میں اس طرح کے بہت سارے پیکر ہیں جو پڑھنے والے کو زمین سے کھینچ کر کبھی جہاز کے کیبن میں کھڑکی والی سیٹ پر بٹھا دیتے ہیں، تو کبھی کسی محفل میں پہنچا دیتے ہیں، کبھی کسی ریستوران کی میز پر لے جا کر کسی غیر ملکی ٹورسٹ سے اس طرح ملوا دیتے ہیں کہ دونوں بے زبانی کے باوجود ہم نوا بن جاتے ہیں۔

اگر کوئی مجھ سے کہے کہ میں الطاف یوسف زئی کے اس سفر نامے ’’نیل کے سنگ‘‘ کی کچھ خوبیاں بیان کردوں تو عرض کروں گا کہ اس تحریر کی پہلی خوبی یہ ہے کہ مسافر اپنے سفرنامے ’’نیل کے سنگ‘‘ میں اپنے ساتھ دوسروں کو شریک کر لینے میں کامیاب ہے۔

دوسری خوبی یہ ہے کہ لمحہ موجود میں عرصہ گزشتہ کو کھینچ لانے کے ہنر سے بھی واقف ہے اور اس کا یہ ہنر اس بات پر دال ہے کہ اس نے دنیائے جہان کی تاریخ کی سیر کی ہے اور اس کی بھول بھلیوں میں بھی داخل ہوتا رہا ہے۔ مسافر کو جدید صورتِ حال سے آگاہی اور عصری آگہی سے بھی شناسائی ہے۔

ایک وصف یہ ہے کہ اس کی مذہبی معلومات معقول ہیں اور ان معقول معلومات کا استعمال بھی جانتا ہے۔ اس کی تحریروں سے ملت کا درد بھی مترشح ہوتا ہے ۔

ایک حسن یہ بھی ہے کہ وہ سفر خطبہ دینے یا طلبہ کو پڑھانے کے لیے نہیں کرتا بلکہ اس کے اسفار کا مقصد تہذیبوں کا پڑھنا اور نئے آفاق کا سمجھنا بھی ہوتا ہے۔

ایک قابلِ قدر کمال یہ بھی ہے کہ الطاف یوسف زئی اس سفر نامے میں ایک افسانوی کردار گھڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ دکتور محمود جو ان کی خدمت اور راہنمائی کے لیے مامور کیے گئے ہیں، انھیں اپنے سفر نامے میں الطاف یوسف زئی نے ایک افسانوی کردار بنا دیاہے جس سے سفر نامے میں ڈرامائیت اور بعض مقامات پر افسانوی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ مثلاً:

’’دریا کے کنارے سرکار نے بیٹھنے کے لیے خوب صورت اور آرام دِہ جگہیں بنائی ہیں جہاں نیل کے تازہ ہوا کے جھونکوں کی سرمستی میں یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہیں۔۔۔۔۔ میں نے دکتور محمود سے پوچھا کہ ’’آپ نے کبھی کسی کے ساتھ نیل کے کنارے پُر لطف وقت بِتایا ہے؟‘‘، بولے’’ہائے میرے نصیب۔۔۔۔ میری غربت اس راہ میں بڑی رکاوٹ ہے‘‘۔میں نے پوچھا،’’اس پُر لطف وقت کے لیے کون سی امارت ضروری ہے، بس دوست بنائو، نیل کے کنارے بیٹھو اور چند جنین کے پھول خرید کر پیش کرو۔‘‘

’’الطاف صاحب! آپ بھی بادشاہ ہو، محبوب پیسے کے بغیر ساتھ نہیں بیٹھتا۔‘‘

اس طرح کی اور بھی کئی صورتِ حال مختلف مقامات پر دیکھنے کو ملتی ہیں جو کہانی کا مزہ دیتی ہیں۔ کہیں کہیں کچھ ایسے جملے بھی دکھائی دیتے ہیں جو الطاف صاحب کی سیاسی بصیرت کی غمازی کرتے ہیں ۔ان کے یہ دو اقتباسات ملاحظہ کیجیے:

’’ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ انقلاب کتنا ہی پرانا کیوں نہ ہو جائے،اس کی داستان ہمیشہ تازہ رہتی ہے ۔امید اور عمل ،بیداری اور خود شناسی ،جنون اور لہو کی داستان بھی کہیں پرانی ہو سکتی ہے۔ زمانہ اس کو بار بار دہراتا ہے۔ فرق صرف نام، مقام اور وقت کا ہوتا ہے۔ ‘‘

’’لانچ کی ایک کھڑکی میں سبز رنگ کی بوتل نظر آئی۔ میں نے بوتل کو نیل کے پانی میں خوب دھویا اور اس کو دریا کے پانی سے بھرا۔دکتور محمود بولے ،’’اس کا کیا کرو گے؟‘‘۔

 میں نے کہا،’’یہ سبز رنگ کی بوتل ہے اور پاکستان کا سرکاری رنگ اور جھنڈے کا رنگ بھی سبز ہے۔ میں اُس سبز رنگ کے ساتھ نیل کے پانی کا اشتراک چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ مصر اور پاکستان ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ اس پانی اور بوتل کی طرح۔‘‘

نیل کے سنگ، چلنے اور ساحلِ نیل تک پہنچنے کے دوران یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سفر نامہ سیرو سیاحت کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں منشائے مسافت ، سودائے سیاحت ، تماشائے کشف و کرامت ،ہوائے سیاست، بے گانگی ِ قرابت، ادائے لطافت، فضائے ملک و ملت ، سیلیِ صعوبت، لکھنے والے کی علمیت، تخلیقیت،بیان کی اثریت سبھی کچھ منعکس ہوتا ہے۔ ساتھ ہی راز ہائے سر بستہ منکشف ہوتا ہے۔ اوراقِ زیستِ گم گشتہ سامنے آتے ہیں۔ تجرباتِ جدیدہ اور مشاہدات نادیدہ نظر آتے ہیں اور ان سب سے قلب و جگر سکون پاتے ہیں۔

ایک اچھے، معلوماتی ،تخلیقی اور موثر سفرنامے لکھنے اور اپنے سنگ دریائے نیل کی ٹھنڈی ہوائوں اورمصرکی مسرور فضائوں کی سیر کرانے پر میری طرف سے الطاف یوسف زئی کو بھرپور داد اور مبارک باد۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...