Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > ’’نیل کے سنگ‘‘ایک تاثر

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

’’نیل کے سنگ‘‘ایک تاثر
Authors

ARI Id

1688711613335_56116759

Access

Open/Free Access

Pages

۱۰۵

نیل کے سنگ:ایک تاثر

                                                                                                ڈاکٹر شفیق انجم

                                                (نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، نمل، اسلام آباد)

ہمارے محترم دوست ڈاکٹر الطاف یوسف زئی مرنجاں مرنج شخصیت ہیں۔ ملکوں ملک سیر کرتے ہیں خوش باش رہتے ہیں اور دوستوں کو خبر دیتے رہتے ہیں کہ بھئی زندگی کو یوں دیکھو۔ دنیا گول مٹول سی ایک گڑیا ہے، اس کے دھنک رنگ چہرے پہ نظریں جمائے رکھو اور چلتے رہو، زندگی بھلی لگے گی۔

ابھی کل ہی کی بات ہے ان کا سفر نامہ ’’تھائی لینڈ کے رنگ‘‘ پڑھا اور دیر تک اس کا جادو اثر دکھاتا رہا۔ اب ’’نیل کے سنگ‘‘ پڑھ رہا ہوں تو گویا دوہرے جادو کے حصار میں ہوں۔ مصر ایک ملک نہیں،ایک جادو نگری ہے۔ اس نگری کو جانے والے کم ہی سلامت دل لوٹتے ہیں۔ جہاں ایمان سنبھالے رکھنا بھی اک کام ہے لیکن دل کا جانا تو یقینی بات ہے۔ ڈاکٹر الطاف یوسف زئی نے بڑی کدو کاوش سے ایمان سنبھالے رکھا ہے لیکن دل کے معاملے میں حسبِ روایت جیت بازارِ مصر ہی کی ہوئی ہے۔ گو ہمارے مسافر کا سفر ایک علمی مقصد کے تحت تھا اور گو اس میں کچھ شک و شبہ نہیں کہ ہمارے مسافر کا سینہ وادیِ سوات کے منزہ پانیوں جیسا شفاف ہے لیکن مصر تو مصر ہے۔ باوضو نگاہیں بھی یہاں اس جادو کے سامنے بے بس ہو جاتی ہیں جو سامری کے زمانے سے بھی بہت پہلے نیل کی پیدائش کے ساتھ ہی اس مٹی پانی میں پھونک دیا گیا تھا۔

سفر نامے میں ایسے کئی مقامات آتے ہیں جہاں مسافر اس جادو کے زیرِ اثرعجب از خودرفتگی کے عالم میں نظر آتا ہے۔ مجھے وہ منظر بہت ہی بھلا لگا ہے جب کسی نسائی آواز کی گرفت میں مسافر چلتی لانچ میں نیل کا پانی اوک بھر پیتا ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں قریب پڑی خالی بوتل بھی نیل کے پانی سے بھر لیتا ہے ۔اس وقت یہ اندازہ نہیں ہو پاتا کہ مسافر اس بوتل بھر پانی کا کیا کرے گا۔ عقدہ تب کھلتا ہے جب سفر نامے کا اختتام اسی بوتل پر ہوتا ہے۔ یہ ڈرامائی سین ہے۔ یہاں وہ دل پذیر داستان جسے پورے سفر نامے میں سفرنامہ نگار نے شعوری کوشش کے ساتھ ابھرنے نہیں دیا۔ مباداکہ وقار پر حرف آئے ؛ جوش کرتی ہوئی سامنے آجاتی ہے۔ مسافر وقتِ رخصت ائیرپورٹ پر ہے اور شدتِ جذبات میں نیل کے پانی سے بھری بوتل غٹا غٹ پیے جارہا ہے۔ یہاں وقت رک جاتا ہے۔ سفری روداد ختم ہو جاتی ہے، لیکن قاری کے ذہن میں لکھت چلتی رہتی ہے۔۔۔ گو ہمارے سفرنامہ نگار انکسار پسند ہیں اور اپنی لکھت کے معاملے میں بھی بے نیاز لیکن واضح ہے کہ ان کے اندر ایک بڑا کہانی کار بیٹھا ہے۔ سفرنامے میں اگر سفر کے ساتھ ساتھ ناول کا سا لطف آئے اور ڈرامے کا سا اثر محسوس ہو تو جان لینا چاہیے کہ لکھنے والا غیر معمولی لکھاری ہے۔

غیر معمولی لکھاری روداد، ماجرایا کہانی کی تدریج ترتیب اور پیش کش کے ساتھ زبان و اسلوب پر بھی خصوصی نظر رکھتا ہے ۔ہر لکھاری کی اپنی پسند اور ترجیح ہوتی ہے۔ اسلوب بنانا بھی ایک کام ہے لیکن جب لکھت ایک والہانہ وجد کے ساتھ اترے تو اس نزول میں اسلوب بھی ساتھ ہی اترتا ، سنورتا چلا جاتا ہے۔ ’’نیل کے سنگ‘‘ میں یہی صورت ملتی ہے۔ بہت فطری انداز میں سب کچھ بیان ہوا اور ایسے دریچے بھی مسلسل ہیں جن سے اس متن کی سمت جھانکا جا سکتا ہے،جو بیان نہیں ہوا۔ یہ یک پرتی لکھت نہیں کہ محض بیرون کا عکس دکھائے اور دروں تشنہ رہے۔ اس میں اچھی خاصی گہری گپھائیں ہیں، کسی پر اسرار سمت میں جاتے رستے ہیں، کسی رکی ہوئی چپ کیفیت اور ان کہی کے نشان ہیں۔ قاری اس اسلوبی روش سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ ایک اچھی اور بڑی لکھت کو ایسے ہی ہونا چاہیے۔

جہاں تک سفر کے مقامات و مناظر ،سفر رفیق کرداروں اور تاریخ و تہذیب کے حوالوں کا تعلق ہے؛ اس سفر نامے میں اختصار کے باوجود یہ سب کچھ ایک خاص اعتدال کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔گو مصر میں سفر نامہ نگار کا قیام زیادہ طویل نہیں تھا لیکن مسافر نے چشمِ تصور میں صدیوں کے منظر دیکھے اور کمال ہنر مندی کے ساتھ اس مختصر روداد میں بیان کیے ہیں۔ بنیادی مکالمہ ان کا اپنے آپ ہی سے رہالیکن مزید کی تلاش و پیش کش میں انھوں نے اپنے رفقا سے خوب کام لیا ہے۔ ڈاکٹر علی، ڈاکٹر محمود، ڈاکٹر بسنت، ڈاکٹر شائمہ، شاہندہ وغیرہ اس سفرنامے کے ایسے کردار ہیں جن سے اس کہانی میں بیسیوں رنگ اترے ہیں۔ اسے لکھاری کی خوبی کہیے کہ کہیں بھی انھوں نے اپنے آپ کو ان کرداروں پر حاوی کرنے کی کوشش نہیں کی۔یہ کردار مسافر ہی کی طرح جاذبِ نظر پُر اثر اور متاثر کن ہیں۔ ان تمام کرداروں میں بھی وہی خلوص اور اپنائیت جھلکتی ہے جو مسافر کے اپنے کردار میں ہے۔ سفرنامہ نگار نے ان کی الگ الگ شخصیت کو ابھارنے میں بڑی تخلیقی مہارت دکھائی ہے۔ کمال یہ ہے کہ کسی بھی کردار کے تعارف و تعریف میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی لیکن قاری ان کو ایسے پہچان لیتا ہے گویا سامنے بیٹھے ہیں۔ رنگ روپ، تیور، مزاج، اندازِ گفتگو ،سماجی و علمی حیثیت اور دل کی اچھائی اور نیک خصلتی۔۔۔ بہت کچھ بہت سہولت کے ساتھ لکھت میں سمویا گیا ہے۔

’’نیل کے سنگ‘‘ میں مسافر اور قاری کا سفر الگ الگ نہیں بلکہ ہم رکابی کی صورت لیے ہوئے ہے۔ سفر نامہ نگار بڑی خوبی اور ہنر کے ساتھ پڑھنے والے کو اپنے ساتھ دوڑائے رکھتا ہے۔ قاری مسافر کے ساتھ ایک جہاز سے دوسرے ،ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل، ایک بس سے دوسری، ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگم بھاگ چلتا ہے۔ تھکتا ہے، دم لیتا ہے اور پھر چلنے لگتا ہے۔ شرم الشیخ جاتا راستا ہو ،گیزہ جاتی سڑک ہو، نیل کی لانچ ہویا تحریراسکوئر یا بازار ہائے قاہرہ کا پیدل سفر۔ مساجد، مقابر،درس گاہیں، سیر گاہیں۔۔۔ سب کچھ نہ صرف دکھائی دیتا ہے بلکہ محسوس بھی ہوتا ہے۔ خوش الحان قاریوں کی آوازیں ،اذانوں کی صدا ، موسیقی۔۔۔قہوے کی حدت اور ذائقہ، جسموں جسم ترچھے تیکھے نقش، چہروں کی خوشی و ملال۔۔۔ اہرامِ مصر کے پہلو بہ پہلو رواں دواں نیل اور شہرِ جدید و قدیم ۔۔۔ یہیں کہیں تاریخ کا نقاب اترتا ہے ، یوسف و زلیخا کا مصر ، فراعین و موسیٰ کا مصر، حسنِ مبارک اور آج کا مصر، ساحلوں کے کنارے کنارے کی بستیاں، صحرائوں کی آبادیاں اور تاریخ کے جھروکوں سے سر ابھارتے خوش رنگ عجوبہ نگر ۔۔۔لوگ بدلے ہیں، چہرے اورلباس بدلے ہیں، مسافر اور مسافتیں بدلی ہیں، لیکن وقت کا دھارا رواں دواں ہے۔ ہمارے مسافر کی لکھت اختتام پذیر ہوتی ہے اور وہ دیکھتا ہے، نفرتتی، زلیخااور قلوپطرہ کا دیس اور کایا کلپ ہوتی ہے۔ سامنے بسنت اور شائمہ اور شاہندہ کھڑی مسکرارہی ہیں۔ ۔۔اور یہ سب کچھ قاری بھی دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔

یہ ایک حیرت انگیز سفرنامہ ہے۔ لکھنے والے نے اسے کمال عالمِ وجد میں لکھا ہے اور یہ وجد قاری کی طرف بھی منتقل کر دیا ہے۔ ہم وجد و محویت میں پڑھتے جاتے ہیں اور مصر کا جادو،لکھاری کی لکھت سے ہم آہنگ ہو کر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔سفر کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن تصور کہانی چلتی رہتی ہے۔ یہی اس تحریر کا کمال ہے۔ کہ قاری قاہرہ کے ائیر پورٹ پر کہیں رک جاتا ہے۔ واپسی کی کہانی معلق ہو جاتی ہے۔ کوئی رخصت ہو کر بھی وہیں رہ جاتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...