Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > نیل کے سنگ > ’’نیل کے سنگ‘‘پر ایک نظر

نیل کے سنگ |
حسنِ ادب
نیل کے سنگ

’’نیل کے سنگ‘‘پر ایک نظر
Authors

ARI Id

1688711613335_56116760

Access

Open/Free Access

Pages

۱۰۹

نیل کے سنگ ‘‘پر ایک نظر

                                                                                                                ایڈوکیٹ بشیر مراد

                                                                                                                                آزاد کشمیر

شاعری کے لیے کچھ نہیں کرنا پڑتا یہ کھڑے کھڑے ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات تو سوئے سوئے بھی سر زد ہو جاتی ہے کہ اس کا تعلق آمد سے ہے جس کے لیے جامد ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ لیکن نثر کا معاملہ الگ ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ اکڑوں ہو کے بیٹھنا پڑتا ہے۔ یعنی یہ وہ ریاضت ہے جو حالت رکوع میں کی جاتی ہے۔

نثری اصناف میں سفر نامہ تو اور بھی جوکھم کا کام ہے کہ اس کی طلب میں سفر بھی کرنا پڑتا ہے جو بسا اوقات انگریزی کا Suffer ثابت ہوتا ہے۔ گویا یہ ادب کی ایسی صنفِ گراں بار ہے جس کو صنفِ نازک کی طرح قابو کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے حصول کے لیے شدید مارا ماری اور بے تحاشا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ پہلے سفر کرنے کا سلیقہ اور پھر اسے بیان کرنے کا قرینہ ہونا چاہیے۔

ہمارے دوست ڈاکٹر یوسف میر کی محبت کہ ڈاکٹر الطاف یوسف زئی کا مصری سفر نامہ ارسال کیا۔ مشاہدہ عام ہے کہ یوسف نام کے لوگ خوب صورت ہوتے ہیں۔ پھر بندہ ذات کا بھی یوسف زئی ہو اور مصر سے محبت نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ پس یہ طے ہے کہ یہ سفر نامہ سراسر فطری محبت کا شاخسانہ ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو پڑھ کر دیکھ لیجیے۔

کچھ سفر نامے تو محض سفر کی صعوبت برادشت کرنے کی خاطر لکھے جاتے ہیں جن کے پڑھنے سے قاری کو بھی شدید تھکاوٹ ہوتی ہے۔ اس قبیل کے سفر نامے یوں شروع ہوتے ہیں۔

’’میں صبح سویرے جاگا ، ناشتہ کیا، گاڑی کا ٹکٹ لیا، گاڑی میں بیٹھا۔مسافر آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ڈرائیور جاگ رہا تھا چناں چہ میں سو گیا۔ شام فلاں جگہ آنکھ کھلی،ہوٹل کے تہ خانے میں جگہ نہیں تھی ، بالائی منزل پرکمرہ ملا۔ پیٹ بھر کے کھانا کھایا اور دوبارہ سو گیا۔ اگلے دن پھر سویرے جاگااور۔۔۔ ‘‘ اور پھر سے گزشتہ کل کے سارے معمولات ونامعقولات لگ بھگ اسی چلن سے دہرا دیے جاتے ہیں۔ایسے سفر نامے پڑھنے کے بعد قارئین کرام حیران و پریشان سوچتے ہیںکہ اگر ان صاحب کو کسی ذاتی تکلیف کے زیرِ اثر یونہی بے مقصد گھومنا پھرنا تھا تو ہمیں اپنے ساتھ باندھ کے کیوں خجل کیا۔

دوسرے طرز کے سفر نامے وہ ہوتے ہیں جو مقصدیت کے حامل ہوتے ہیں اور اس کے پڑھنے کے بعد پڑھنے والے کا دامن با مقصد معلومات سے بھر جاتا ہے۔ اس سر مستی اور سرشاری سے ہم کنار قاری سفری زچگیاں بخوشی بھول جاتا ہے۔

’’نیل کے سنگ‘‘ بھی ایک ایسا ہی با مقصد اورباوقار سفر نامہ ہے جس کے مطالعے سے جہاںزبان و بیان کی سطوت اور دل کشی عیاں ہوتی ہے وہاں مصر کی تاریخ و ثقافت باتصویر نظر آتی ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے آپ کبھی فراعینِ مصر کے ساتھ دست و گریباں ہوتے ہیں اور کبھی حسینانِ مصر کے ہاتھوں چاک داماں۔۔۔ کہیں عرب کے ریگزاروں

 کی جھلک تو کہیں یورپ کے سمن زاروں کی مہک۔۔۔

ڈاکٹر الطاف یوسف زئی کی وسعتِ نظر کبھی ہندوستان کی تاریخ کی سمت اُٹھتی ہے تو کبھی کشمیر کے لالہ زاروں میں بہنے والے شفق رنگ لہو کا طواف کرتی ہے۔ ان کے فکر و نظر کی یہ گہرائی اور گیرائی عمیق کا مشاہدہ کرتی ہے اور اسی مطالعے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے جس کی تفہیم کے لیے قاری کو بھی بالغ نظر ،باشعور بلکہ با وضو ہونا چاہیے۔کرۂ ارض کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا باقی بچا ہو جہاں ہمارے سفرنامہ نگاروں نے دھمال نہ ڈالی ہو۔ ایک ایک ملک کے درجنوں سفرنامے موجود ہیں ۔ ظاہر ہے نہ تو مناظر اتنی سرعت سے اپنی ہئیت تبدیل کرتے ہیں اور نہ ہی ایک تصویر کو بار بار دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے میں اچھے تخلیق کار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح دوسروں سے خود کو الگ کرتا ہے اور کس زاویے سے نقشِ کہن کو اپنے تازہ تخیل کے رنگوں سے رنگین کرتا ہے۔

’’نیل کے سنگ‘‘ پڑھنے سے یہ احساس پختہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر یوسف زئی نہ صرف اس فن سے آشنا ہیں بلکہ اسے برتنے کا ہنر بھی خوب جانتے ہیں۔ بظاہر وہ ایک کہنہ جادہ و منزل کے راہ رو ہیں جس کی روداد پہلے بھی رقم ہو چکی ہے لیکن انھوں نے اپنی جودتِ طبع سے ایک ایسی جوت جگائی ہے کہ ہمیں پرانی راہوں پر نئی روشنی کی قندیلیں جگمگاتی نظر آتی ہیں۔

جہاں ان کے تخیل کی کار فرمائی ہمیں شش جہات کے مناظر دکھاتی ہے تو وہاں روایت اور جدت کے امتزاج سے ابھرتا ہوا ان کا اسلوب ہمیں قوسِ قزاح کے رنگوں سے ہم کنار کرتا چلا جاتا ہے۔ رنگوں کی اس رنگا رنگی میں رنگا ہوا قاری با رضا و رغبت ان کے تخیل کے ساتھ اڑان بھرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ایک تخیل کار کا معجزہ ہے کہ وہ قاری کو جو

 دکھانا چاہتا ہے قاری اسی سہولت سے دیکھتا چلا جاتا ہے ورنہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ادھر سفرنامہ نگار چولستان کے دشت کی ریگ پھانک پھانک کے ہلکان ہو رہا ہے تو اُدھر قاری صاحب ہنوز ملتان کے گلگشت میں ہی مٹر گشت فرما رہا ہے۔ اس پر اگر سفر نامہ نگار زیادہ کھینچ تان کرتا ہے تو وہ کتاب بند کر کے لمبی تان لیتا ہے۔

اس کے برعکس ڈاکٹر الطاف یوسف زئی کو یہ فن خوب آتا ہے کہ وہ قاری کو اپنی انگلی تھماکر آرام سے گھما پھرا سکتے ہیں۔بلکہ موقع پا کر اغوا بھی کر سکتے ہیں۔

ہمیں وہ رشید احمد صدیقی ، مشتاق احمد یوسفی اور مختار مسعود کے معتقدین کی صف میں نظر آتے ہیں اور جو اہلِ ادب ان مرحوم و مغفور بزرگوں کو قریب سے جانتے ہیںوہ یہ بھی ضرور مانتے ہیں کہ تینوں اپنے اپنے اسلوب کے پیش امام تھے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...