Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مراتب اختر شخصیت و فن > ۔ شیخو شریف کا تاریخی پس منظر

مراتب اختر شخصیت و فن |
مہکاں پبلشرز
مراتب اختر شخصیت و فن

۔ شیخو شریف کا تاریخی پس منظر
ARI Id

1688721480270_56116762

Access

Open/Free Access

Pages

24

شیخو شریف کا تاریخی پس منظر

شیخو شریف

                شیخو شریف اوکاڑہ سے فیصل آباد جانے والی سڑک پر بنگلہ گوگیرہ سے 8کلو میٹر شمال مشرق میں اوکاڑہ شہر سے تقریباً 30کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ رینالہ خورد سے براستہ ستگھرہ بھی تقریباًاتنا ہی سفر بنتا ہے۔یہ علاقہ کبھی ضلع ساہیوال میں شامل تھا جو ادب کے لحاظ سے مردم خیز سر زمین شمار کی جاتی ہے۔ مجید امجد، منیر نیازی، جعفر شیرازی، گوہر ہوشیار پوری، ظفر اقبال اور حاجی بشیر احمد بشیرجیسے نامور شعرا کے اس شہر کی بنیاد اس وقت رکھی گئی جب 1864میں ریلوے لائن بچھ جانے کے بعد گوگیرہ سے ضلعی ہیڈ کوارٹر منتقل کرتے ہوئے گورنر پنجاب سر رابرٹ منٹگمری کے نام سے نیا ضلع بنانے کا اعلان کیا گیااور لاہور ملتان ریلوے لائن پر واقع ساہیوال کو منٹگمری کا نام دیا گیا۔1915تک مختلف انتظامی تبدیلیوں کے بعد یہ ضلع تحصیل پاکپتن، تحصیل اوکاڑہ، تحصیل دیپالپور اور تحصیل منٹگمری کی شکل میں آچکا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس ضلع کے انتظامی ڈھانچے میں تو کوئی تبدیلی نہ ہوئی البتہ عوام کے پر زور اور دیرینہ مطالبہ پر 14نومبر 1966کو ضلع منٹگمری کا نام دوبارہ ساہیوال رکھ دیا گیا۔(۱) یکم جولائی 1982کو جب ضلع اوکاڑہ کا قیام عمل میں لایا گیا تو شیخوشریف کا علاقہ ضلع اوکاڑہ میں آگیا۔

شیخو شریف کے گر د تاریخی مقامات

ستگھرہ

                شیخو شریف سے جنوب مشرق میں 8کلومیٹر کے فاصلہ پر ستگھرہ کا تاریخی قصبہ واقع ہے۔ ستگھرہ کو بعض جگہ صد گھرہ بھی لکھا گیا ہے۔ ستگھرہ اور صد گھرہ میں فرق صرف ’’س‘‘ اور ’’ص‘‘ کا ہے۔

مولانا نور احمد فریدی، قصرِ ادب ملتان والے ایک سن رسیدہ عالم اور جہاں دیدہ مورخ تھے۔ ان کی تحقیق ملاحظہ کی جائے تو یہ قصبہ پہلے ’’ستگھرہ‘‘ ہی کہلاتا تھا۔ ’’ست‘‘ کا معنی سچا اور ’’گھرہ‘‘ گھر سے نسبت ہے۔ یعنی ’’سچا گھر‘‘ یہ قصبہ ہندوئوں کا ایک تیرتھ استھان تھا اور پورے ہند کے لئے عقیدت کا مرکز تھا جیسے کہ مسلمانوں کے لئے ’’بیت اللّٰہ‘‘۔ اور صاحبِ شجرۃ الانوار سید اصغر علی شاہ گیلانی لاہوری ثم پشاوری نے ’’بالا پیر‘‘ جناب کے ذکر اور گیلانی سادات کے حلب سے اُچ آنے اور اُچ سے ست گھرہ آنے کے ذکر میں اس کو صد گھرہ سے موسوم کیا ہے۔ ’’س‘‘ اور ’’ص‘‘ کے فرق سے ’’صوتی‘‘ لحاظ سے تو وہی نام کہنے سننے میں رہا لیکن ’’س‘‘ اور ’’ص‘‘ کے تبادلے نے واضح کر دیا کہ میر چاکر خان بلوچ کے حلیف ایک سو بلوچ گھر تھے جو خاندانی اور اعلیٰ بلوچ گھرانے یا قبائل تھے۔آج کے دور میں اس قصبہ کے ارد گرد اُن ایک سو گھرانوں کی بستیوں کے آثار کھنڈرات ، ٹبوںاور ٹیلوں کی صورت میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ستگھرہ آج نہ تو ’’ست گھرہ‘‘ ہے نہ ’’صدگھرہ‘‘رہا۔ ایک وقت تھا جب لاہور اور ملتان کے درمیان یہ قصبہ معروف مقام تھا۔ مغل بادشاہ بابر کے عہد میں مغل فوجوں اور پھر شیر شاہ سوری کے عہد میں پٹھان لشکروں کی مشہور اور آسان، لاہور اور ملتان کے درمیان ایک قریب ترین اور قدیم ترین گزرہ گاہ پر واقع ہے۔(۲)

                ۹۳۳ ہجری کے آخر تک ملتان کی لنگاہ سلطنت زوال پزیر ہونا شروع ہوئی تو نواب چاکر خان رند نے یہاں قابض ہونے کی پوری کوشش کی ۔ انہوں نے ستگھرہ کو پایہ تخت بنایا اور بلوچ سلطنت کی بنیاد رکھی۔ وہ اس ریاست کی دلی تک وسعت کا خواہاں تھا مگر اس نے لاہور یا ملتان کو پایہ تخت بنانے کی بجائے ستگھرہ کو ترجیح دی۔میر چاکر خان نے پرانے ستگھرہ کے شمال میں لاہور ملتان گزر گاہ کے قریب نئے شہر کی بنیاد رکھی کیونکہ پرانا شہر تمام تر ہندوئوں کی آبادی پر مشتمل تھا۔ لہٰذا مسلم آبادی کے لئے ایک نئے شہر کی ضرورت تھی تا کہ دونوں قومیں اپنے اپنے مذہبی رسم و رواج میں آزاد رہیں۔ اس نئے شہر صد گھرہ کی مضبوط فصیل تھی اور اس کے اندر عالیشان محلات، دیوانِ عام و دیوانِ خاص تیار کروائے گئے۔ دریائے راوی سے نہر کی طرز کی چھاڑیں نکلوائیں تاکہ دل کشا باغات اور بہترین پھلوں کے لگوائے گئے پودوں کی سیرابی ہو سکے۔خوشنما پھولوں کے تختے سجوائے اور اس شہر کو بہشت ِ بریں کا نمونہ بنایاگیا۔ اِن نہروں کے ارد گرد نشیبی زمین کو قابلِ کاشت کروا کر غلّہ اور اجناس کی کمی کو فراوانی میں بدل دیا گیا۔ باقی جنگلات کو مال مویشی کی چراگاہ کے طور پر تحفظ دیا۔ ’’ست گھرہ‘‘ کی پرانی ہندو آبادی کے نشانات ایک تالاب شکستہ، ایک مڑھی اور اچھا رام کے شمشان یا سمادھی پرایک شکستہ عمارت کی شکل میں آج کی آبادی کے جنوب میں موجود ہیں۔

                مغل دور کے ستگھرہ کی ایک نشانی مرزا فرید بیگ کی قبر، میر چاکر خان کے قلعہ یا مقبرہ کے مغرب میں سیّد واجد علی شاہ، سیّد نادر علی شاہ مرحومین پسران سیّد کرم علی شاہ کے ڈیرہ میں مسجد کے قریب موجود ہے۔باقی بلوچ راجدھانی کے آثار دربارِاقدس بالا پیر امیر قدس اللّٰہ کے ملحقہ قبرستان کے اردگرد چکوک 11/1-R,14/1-R,15/1-R,12/1-R,12/G-D کالے پور، موضع مردانی اور دیگر ملحقہ چکوک کی زرعی زمینوں میں ٹیلوں کی صورت میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔یہ آثار تو تحصیل و ضلع اوکاڑہ میں موجود ہیں۔ اس سے آگے تحقیق شدہ مآثر تو لاہور اور ملتان کے درمیان اور بھی پائے گئے ہیں۔ یعنی کوٹ میر چاکر، شاہوبلوچ، خان کمال، کوٹ میرن خان، گشکوری، گورگیجن یہ سب آبادیاں میرچاکر کے بیٹوں اور حلیف قبائل کے نام پر آج بھی موجود ہیں۔

گوگیرہ

                شیخو شریف سے 8کلومیٹر جنوب مغرب میں گوگیرہ کا شہر ہے۔ 1849میں جب انگریزوں نے دریائے ستلج اور راوی کے درمیان کے علاقہ پر قبضہ کر لیا تو پاکپتن کو ضلع کاصدر مقام بنایا مگر صرف تین سال بعد دریائے راوی سے 8کلومیٹر دور شیر شاہ سوری کی بنائی سڑک پر واقع گوگیرہ کو ضلعی صدر مقام بنایا اور اس کے ساتھ ہی موجودہ ضلع فیصل آباد، جھنگ اور شیخوپورہ کے 20دیہات بھی ضلع گوگیرہ میں شامل کر دئیے۔ اس وقت اس ضلع کی پانچ تحصیلیں تھیں۔ تحصیل گوگیرہ، تحصیل ہڑپہ، تحصیل سیّدوالا، تحصیل حجرہ اور تحصیل پاکپتن پر مشتمل ضلع گوگیرہ کا صدر مقام 1864تک گوگیرہ میں رہا اور پھر ساہیوال تبدیل کر دیا گیا۔

جنگِ آزادی میں گوگیرہ کا کردار اور برکلے کا قتل

23مئی1857 کو لیفٹیننٹ الفنسٹن ڈپٹی کمشنر گوگیرہ کو ایک نیم سرکاری خط کے ذریعے اطلاع ملی کہ میرٹھ اور دہلی کے فوجیوں نے بغاوت کرکے تمام انگریز افسروں کو مار ڈالاہے اس لئے میاں میر چھاونی لاہور کے دیسی سپاہیوں سے ہتھیار لے لئے گئے ہیں۔اسی دوران یہ خبریں اس علاقے کے رہنے والوں اور دیسی سپاہیوں تک بھی پہنچ گئیں۔لیکن اس سے پہلے کہ وہ منصوبہ بندی کرتے لیفٹیننٹ الفنسٹن نے بڑی چالاکی سے دیسی فوجوں سے اسلحہ واپس لے لیا۔اس وقت خزانے پر بھی دیسی فوج کا پہرہ تھا۔وہاں سے بھی اسے ہٹا دیا گیا۔خزانے پر کیپٹن ٹرانسن کی پولیس بٹا لین کے 24 سپاہیوں اور ایک صوبے دار کی ڈیوٹی لگا دی اور جیل پر بابا سمیوان سنگھ اور کھیم سنگھ کے آدمی لگا دیئے گئے اور دیسی فوج کو کچھ دستوں کی حفاظت میں لاہور بھیج دیا ۔(۳)

                ابتدا میں تو دہلی اور میرٹھ کے حالات سے یہاں کے لوگوں کو آگاہی رہی اور لوگوں کو جنگ کی ترغیب بھی دی جاتی رہی۔ کہا جاتا ہے کہ رائے احمد خاں کھرل نے مقامی لوگوں کے کچھ دستے بنا کر دہلی بھی روانہ کئے بعد ازاں ڈاک پر پابندی لگ جانے کی وجہ سے لوگوں کو تازہ ترین صورت سے آگاہی ممکن نہ رہی۔اسی دوران کھرل برادری کا ایک آدمی جس کا نام شامند تھا سرسا جیل سے رہا ہو کر آیا تو اس نے روہتک، حصار، میرٹھ، دہلی اور دوسرے شہروں کے حالات مقامی لوگوں کو بتائے اور ساتھ ہی انہیں ذہنی طور پر جنگ لڑنے کے لئے تیار کیا۔شامند کی بتائی ہوئی باتیں بھی جلتی پر تیل کے مترادف تھیں لیکن لڑائی کا آغاز ’’بیلی لکھوکا‘‘کے ایک گاؤں سے ہوا۔وہاں مالیہ کی وصولی کرنے والے سرکاری اہلکاروں کو لوگوں نے مالیہ ادا کرنے سے انکار کر دیا اور وہاں سے مار بھگایا۔ اس واقعہ کے بعد سرکارنے جوئیہ قبیلہ کے مردوں عورتوں اور بچوںکو قید کر کے ان پر مظالم کے پہاڑ ڈھادیے یہ خبر جب راوی کے غیور لوگوں تک پہنچی توان کے جذبات مزید بھڑک اٹھے۔ رائے احمد خان کھرل نے ڈپٹی کمشنر گوگیرہ لیفٹیننٹ الفنسٹن سے ملاقات کی اس ملاقات میں ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنربرکلے بھی موجود تھا۔برکلے نے کہا کہ اگر جوئیہ قبیلہ کے لوگ مالیہ کی ادائیگی کے لئے تیار ہو جائیں توان کی رہائی ممکن ہو سکتی ہے۔لیکن رائے احمد خان کھرل نے کہا کہ ان کے ذمہ گورنمنٹ کی کوئی رقم نہ ہے اور نہ وہ دینے کے لئے تیار ہیں اور آپ لوگوں نے انہیں رہانہ کیا تو لوگوں کی ہمدردیاں جنگ آزادی کے مجاہدین سے اور زیادہ ہو جائیں گی۔رائے احمد خان کھرل کی یہ دھمکی کار گر ثابت ہوئی اور انہوں نے بغاوت کے ڈر سے اسی دن جوئیہ قبیلہ کے گرفتار شدگان کو رہا کر دیا۔

                جوئیہ قبیلہ کے رہا ہونے والے افراد نے رائے احمد خان کھرل کو یہ بتایا کہ جیل کے اندر اور بھی بہت سارے بے گناہ قیدی موجود ہیں جن کا جرم یہ ہے کہ وہ بغاوت کے جذبات رکھتے ہیں۔

                ان قیدیوں میں مراد فتیانہ کا ماموں دلاور فتیانہ بھی تھا۔رائے احمد خان کھرل نے جیل کے قیدیوں سے داروغہ حشمت علی کے ذریعے ملاقات کی۔ رائے احمد خان کھرل نے ان قیدیوں کوگڑ،تمباکو اور کھانے پینے کی اشیاء دیں اور ان کے ساتھ بات چیت کر کے جیل توڑنے کا منصوبہ بنایا۔رائے احمد خان کھرل کے جانے کے بعد جب برکلے نے قیدیوں کا معائنہ کیاتو گڑ وغیرہ اور کھانے پینے کی دوسری چیزیں دیکھ کر اس کو رائے احمد خان کھرل کے جیل آنے کا پتہ چل گیا۔برکلے نے اسی وقت داروغہ حشمت کو نوکری سے نکال دیاحشمت علی نے برکلے کو کہا کہ ’’رائے احمد خان کھرل میرا سرپرست ہے اور میں اس کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا۔‘‘

                8جولائی1857 کو سرکاری اہلکار پولیس ساتھ لیکر دوبارہ بیلی لکھو کا مالیہ وصول کرنے پہنچے تو وہاں کے لوگ بھاگ کر دریا عبورکر گئے اور وہاں سے مجاہدین اکھٹے کرنے کے بعد کشتیاں قبضے میں لے لیں اور پاکپتن پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔

                26اور27 جولائی کی درمیانی رات رائے احمد خان کے منصوبے کے مطابق سیاسی قیدیوں میں سے سرکردہ آدمیوں نتھوپروکا، ٹھوبہ رجوکا، سردارا بھوجوآنہ اور چاوا وٹو نے گوگیرہ جیل توڑ کر قیدی باہر نکالنا شروع کر دئیے ایک عورت کو دیوار عبور کراتے ہوئے اس کے بچے نے رونا شروع کیا تو جیل کے محافظوں کو پتا چل گیا اور انہوں نے گولی چلا دی۔اس وقت سارے قیدی جیل سے باہر جیل کے احاطہ میں آ چکے تھے انہوں نے جیل کے محافظوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی تو ان کی مدد کرنے کے لئے تھوڑی دور چھپے رائے احمد خان اور اس کے ساتھی بھی وہاں پہنچ گئے اور انگریز سپاہیوں پر باہر سے حملہ کر دیا۔بہت سارے قیدی انگریزوں کا گولہ بارود لے کر بھاگ گئے۔ اس لڑائی میں 145قیدی مارے گئے اور ان کی لاشیں جیل کے قریب ایک کنویں(باگڑکی ڈل)میں پھینک دی گئیں۔ 100سے زیادہ انگریز سپاہی بھی مارے گئے جن میںڈپٹی سپرٹنڈنٹ منچورڈ بھی شامل تھا جس کو رائے احمد خان کی چلائی ہوئی گولی لگی تھی۔مسٹر برکلے اور کیپٹن رچرڈنے اس ہنگامے پر قابو پا لیا۔سرجان لارنس چیف کمشنر پنجاب تک یہ خبر پہنچی تو اس نے فوراً لیفٹینینٹ الفنسٹن کی جگہ میجر مرسڈن کو ڈپٹی کمشنر گوگیرہ تعینات کر دیا۔چاوا وٹونے ایک سکھ کے گھر میں پناہ لی مگر سردارا بھو جوانہ نے مخبری کر دی۔چاوا باہلک وٹو کی یقین دہانی پر برکلے کے سامنے پیش ہو گیا مگر اس کو پھانسی چڑھا دیا گیا۔چاوا وٹو کی پھانسی اور مرنے والے قیدیوں کی لاشوں کو کنویں میں پھینکنے کے واقعات کی وجہ سے انگریزوں کے خلاف نفرت مزید بڑھ گئی۔

                رائے احمد خان کھرل کو جیل میں بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا مگر جرم ثابت نہ ہونے پر اور بغاوت کے ڈر سے رہا کر دیا گیا مگر احمد خان اور اس کے سرکردہ ساتھیوں پر یہ پابندی لگا دی گئی کہ یہ لوگ گوگیرہ سے باہر نہ جائیںتاکہ یہ لوگ اکھٹے ہو کر بغاوت کی منصوبہ بندی نہ کر سکیں۔

                اگست کا مہینہ پر سکون گزر گیا اور کسی قسم کی گڑبڑ نہ ہوئی البتہ اس عرصہ میں مجاہدین نے در پردہ جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔مجاہدین کا مرکز تو جھامرہ تھا مگر پنڈی شیخ موسیٰ، محمد پور، ہڑپہ، چیچہ وطنی، مرادکے کاٹھیا، جلہی، گڑھ فتح شاہ اور بیلی لکھو کا میں مجایدین کے کئی اجلاس ہوئے اور رائے احمد خان کھرل ہر جگہ لوگوں کو جنگ پر آمادہ کرنے کے لئے پہنچا۔جو قبائل ایک دوسرے کے دشمن تھے احمد خان کے کہنے پر وہ بھی اختلافات بھلا کر ایک ہو گئے۔سوجا بھدرو نے بھی جگہ جگہ جا کر لوگوں کو آزادی کی جنگ کیلئے ابھارا۔ایک رات ’’مراد کے کاٹھیا‘‘کے قریب رائے احمد خان کی سربراہی میں تمام قبائل کااکٹھ ہوا جس میں کھیم سنگھ کا بھیجا ہوا ایک شخص ڈانگی سنگھ جو کوٹ دیوا مل کا رہائشی تھا لڑائی کا نقشہ چوری کرتے ہوئے پکڑا گیاجسے مسکین شاہ نے موقع پر ہی مار ڈالا۔ان دنوں ہی احمد خان کھرل اور مراد فتیانہ راتوں رات والئی ریاست بہاولپور ملک حاصل خاں کے پاس پہنچے اور وہاں سے سات بندوقیں لے آئے۔اس کے ساتھ ہی احمد خان نے کچھ ساتھیوں کو بندوقیں بنانے پر لگا دیا۔رائے احمد خان کی کوششوں پر جھنگ کے بھروانہ اور ساہیوال کی قومیں فتیانہ، ترہانہ، مردانہ، کھرل، وٹو، کاٹھیا، بگھیلا، جنجوعہ، لک اور نول لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو گئے۔احمد خان کے قبائل کے درمیان رنجش ختم کروا کر اتحاد قائم کرنے والے کاموں میں پیر نادر شاہ قریشی، ولی داد مردانہ اور مراد فتیانہ نے اہم کردار ادا کیا۔

کمالیہ میں اکٹھ

                جب انگریزوں کو اپنے مخبروں کے ذریعے پتہ چلا کہ راوی کے جیالے مجاہد در پردہ ایک بڑے حملے کی تیاری کر رہے ہیںتو وہ گھبراگئے اور تمام سرداروں کی طرف پیغام بھیجا کہ17ستمبر1857کو سرفرازخان کھرل کے ڈیرے پہ آ کر حکومت سے بات چیت کریں۔دراصل انگریز آزادی کے اس قافلے کے قائدین کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھے مگر مجاہدین کے رہنما اس چال کو سمجھ چکے تھے اس لئے انہوں نے ایک دن قبل 16ستمبرکوسرفراز خان کے ڈیرے پر اپنا اکٹھ کر لیا اور اس اکٹھ میںتمام سرداروں نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر حلف دیااور دوسرے دن باقاعدہ حملہ کا منصوبہ بنا کر اپنے اپنے علاقوں کو چل پڑے مگر سرفرازخان اور ماچھیا لنگڑیال حلف سے منحرف ہو گئے اور انگریز سرکار کو مخبری کر دی جس پر انگریز فوجیں فوراً حرکت میں آگئیں۔

                انگریزوں نے کمالیہ کی حفاظت کیلئے ایک گھوڑسوار دستہ بھیجا۔ ملتان اور ہڑپہ کے کمشنروں کو تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کرنے کے لئے دو قاصد روانہ کیے جنہیں محمد پور کے نزدیک مردانوں نے قتل کر دیا اور سرکاری خطوط جلا دیے۔پورا ضلع میدان جنگ بن چکا تھا انگریزوں نے بھی ہاتھ پاؤں مارے بلکہ ایک قاصد پھر ہڑپہ روانہ کیا۔سارا سرکاری ریکارڈ اور قیدی تحصیل کی عمارت میں لائے گئے تاکہ زیادہ بہتر انداز سے دفاع کیا جا سکے۔اسسٹنٹ کمشنر برکلے کی سربراہی میں ایک دستہ رائے احمد خان کی گرفتاری کیلئے روانہ ہواتاکہ احمد خان کو دریا عبور کرکے جھامرہ پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے لیکن احمد خان اس دستے کے پہنچنے سے پہلے ہی دریا عبور کر گیااور دریا کے دوسرے کنارے کھڑے ہو کر رائے احمد خان نے برکلے کو للکارا کہ وہ انگریزوں کو اس سرزمین سے نکالے بغیر نہیں بیٹھے گا۔

17اور18ستمبر1857کی درمیانی رات کو برکلے اور لیفٹیننٹ الفنسٹن نے مل کر جھامرہ پر حملہ کر دیا احمد خان نے جب بہت زیادہ فوج دیکھی تو کچھ دیر مقابلہ کرنے کے بعد وہاں سے نکل گیا۔انگریزوںنے جھامرہ کو آگ لگا دی اور مرد،عورتیں،بچے اور مال ڈنگر پکڑ کر لے گئے۔اس واقعہ کے بعد کھرلوں کے کچھ خاندانوں نے احمد خان کو آزادی کی جنگ لڑنے سے جواب دے دیا البتہ وٹو،فتیانہ،کاٹھیا اور دیگر اقوام اس کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں۔

18ستمبر1857کو مجاہدین اکبر کے نمبر دار جیوے خاں کو لوٹنے کے لئے اکٹھے ہوئے مگر برکلے کی بروقت مدد کی وجہ سے وہ بچ گیا۔برکلے نے دہشت پھیلانے کے لئے پنڈی شیخ موسیٰ کو آگ لگادی۔ ایسے حالات دیکھ کر مجاہدین نے گوگیرہ پر حملہ کا پکا ارادہ کر لیا۔20 ستمبر کو مجاہدین نے گوگیرہ کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔اسی دن ڈپٹی کمشنر لیفٹیننٹ چیسڑ کے بلانے پر برکلے بھی واپس گوگیرہ آگیا اور اس دن لاہور سے کرنل پیٹن بھی اپنی سپاہ اور تو پیں لے کر پہنچ گیا۔مجاہدین جب گوگیرہ کے پاس پہنچے تو انگریز سپاہ نے اپنی توپوںکے منہ کھول دیے۔مجاہدین کے پاس صرف لاٹھیاں، کلہاڑیاں اور برچھے وغیرہ تھے۔جب سامنے سے زبردست گولہ باری ہوئی تو وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے اور فتح پور کے جنگل میں جا چھپے۔(۴)

                مجاہدین پچھلے کچھ دنوں سے چک نمبر 20گشکوریاں میں ایک ویران جگہ ’’نورے کی ڈل‘‘ پر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے مگر ڈھاراسنگھ کے ملازمین نے مخبری کر کے انگریزوں کو اس تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا تو انگریز یہاں حملہ آور ہو گئے۔کیپٹن بلیک گھوڑسوار دستہ کے ہمراہ حملہ کے لئے تیار تھا اور لیفٹیننٹ چیسڑ اس کے ساتھ تھا۔ وہ مسلح بہ آتشیں اسلحہ تھے جبکہ مجاہدین کے پاس روایتی ہتھیار لاٹھیاں اور برچھے وغیرہ تھے مگر مجاہدین دفاع کرنے میں کامیاب رہے اور کیپٹن بلیک اپنے بہت سارے سپاہی مروا بیٹھا۔اب کیپٹن مچل تازہ دم فوج جس میں سکھ سپاہیوں کی پوری بٹالین تھی لیکر آیا بڑے گھمسان کی جنگ ہوئی۔مجاہدین بڑے حوصلہ سے لڑے۔20پرائیں ڈھول بجا بجا کر مجاہدین کے حوصلے بڑھاتے رہے۔رائے احمد خان کھرل اور اس کا بیٹا محمد خاں، کلو، کرم علی،دانا،مکھنا،سارنگ،جھنڈا،باہلک،رحم،عبدل فتیانہ،نواب،میاںنبی بخش اور جمانہ ولد بیگا اس بے جگری سے لڑے کہ آج بھی یہ سرزمین ان پر فخر کرتی ہے۔

                رائے احمد خان کھرل نماز عصر پڑھ رہے تھے کہ ڈھارا سنگھ اور کھیم سنگھ نے رائے احمد خان کی طرف اشارہ کر کے انگریزوں کو اس کی پہچان کروا دی تو انگریز فوج کے سپاہی گلاب رائے بیدی نے گولی مار کر احمد خاںکو زخمی کر دیا رائے احمد خان اٹھ کر اپنے گھوڑے پر سوار ہونے لگا تو ڈھاراسنگھ اور کھیم سنگھ نے انگریزوں سے کہا کہ احمد خان گھوڑے پر سوار ہو گیا تو تمہاری خیر نہیں۔ گلاب رائے نے دوسری گولی ماری جس سے آزادی کا یہ متوالا شہید ہو گیا۔انگریز احمد خان کھرل کا سر کاٹ کر گوگیرہ لے گئے اور مجاہدین اس کا دھڑ اٹھا کر جھامرہ لے گئے۔انگریزوں نے بیگا ولد سارنگ کا بھی سر کاٹ لیا اور نمائش کیلئے یہ دونوں سر گوگیرہ جیل کی دیوار پر رکھ دیے مگر رات کو ایک مراثی یہ دونوں سر چرا کر جھامرہ پہنچ گیا اور یہ سر دھڑ سے علیحدہ دفنائے گئے۔1976میں جب رائے احمد خاںکھرل کا مقبرہ بنا تو سر کو بھی وہاں سے نکال کر دھڑ کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔رائے احمد خان کھرل کی شہادت کے بعد علاقے کے لوگ سر پر کفن باندھ کر نکل آئے اور انگریزوں نے بھی ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔

                برکلے جس کو معرکہ گشکوریاں کے دن (21ستمبر کو)گوگیرہ اور ملتان کے درمیان رابطہ بحال کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا وہ راستے کی تمام آبادیوں کو نذر آتش کرتا ہوا ہڑپہ کی طرف بڑھا۔نورشاہ کے قریب’’میاں مستانہ‘‘کے دربار کو جلانے کے بعد ’’کوڑے شاہ‘‘ کی آبادی کی طرف پلٹا اور ’’مہرشاہ‘‘والے پتن کے قریب ڈیرہ لگایا۔مجاہدین کو بھی اس بات کی اطلاع مل گئی وہ پہلے ہی رائے احمد خان کی موت کا بدلہ لینے کے لیے بے چین تھے لہٰذا جلہی، گڑھ فتح شاہ اور محمد پور سے سارے مجاہدین کوڑے شاہ جمع ہو گئے۔یہاں پر مجاہدین کی تعداد پہلی تمام لڑائیوں سے زیادہ تھی۔22ستمبر کو جب برکلے کوڑے شاہ سے محمد پور کی طرف کوچ کرنے کے لئے تیار ہوا تو اِسے جنگل میں چھپے مجاہدین کی مخبری ہوئی وہ جنگل کی طرف بڑھا جہاں مجاہدین نے اس کی فوج پر حملہ کر دیا عصر تک لڑائی ہوتی رہی۔ برکلے لڑتا لڑتا دریا کے بیٹ میں پہنچ گیاجہاں اس کا گھوڑا دلدل میں پھنس گیا اتنے میں مراد فتیانہ نے اس پر نیزہ سے وار کیا اور نیزہ اس کی ذرہ چیرتا ہوا پسلیوں سے پار ہو گیا۔برکلے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور زمین پر گر پڑا۔اس کے زمین پر گرتے ہی سوجے بھدرو اور اس کے بھائیوں نے لاٹھیوں کے وار کر کے برکلے کو جہنم واصل کردیا۔اس معرکہ میں انگریزوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ولی داد مردانے نے بیسیوں فوجیوں کے سر اتار کر دریا میں پھینکے۔ فتیانے اور ترہانے برکلے کا سر نیزے پر چڑھائے ڈھول بجاتے شام ڈھلے جلہی جا پہنچے۔

                انگریز سرکار کو جب برکلے کی موت کی خبر پہنچی تو مخبروں نے بتایا کہ اس وقت مجاہدین کی تعداد سوا لاکھ کے قریب ہے اور وہ سیّد والا سے لے کر تلُمبہ تک کا علاقہ آزاد کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ساتھ یہ خبر بھی پہنچی کہ 17ستمبر سے تحصیل ہڑپہ پر کاٹھیے قابض ہو چکے ہیں۔ اس پر انگریز سرکار نے کمشنر جھنگ،کمشنر لاہور،کمشنر ملتان کے علاوہ شورکوٹ لیہ اور گجرانوالہ کی فوجی چھاونیوں سے امداد طلب کر لی۔23ستمبر کو لیفٹیننٹ الفنسٹن، کیپٹن بلیک اور چیسڑ محمد پور پہنچے۔محمد پور کو تیسری مرتبہ نذر آتش کیا اور 25ستمبر کو ہڑپہ پہنچ کر ہڑپہ آزاد کروایا۔مجاہدین نے ہڑپہ سے نکل کر پرانی چیچہ وطنی کے قریب ملتان سے آنے والے میجر چیمر لین کو گھیر لیا جس نے اپنی جان بچانے کے لیے ایک سرائے میں پناہ لی۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ اب انگریزوں کو اپنی جان بچانا بھی مشکل ہو گئی ہے۔اس جنگ میں مسلمان خواتین نے بھی مجاہدین کا برابر کا ساتھ دیا۔میجر چیمر لین نے ملتان اور لاہور کی فوجی چھائونیوں کو مدد کی درخواست کی۔ 26ستمبر کو کرنل پیٹن چیچہ وطنی کی طرف روانہ ہواتو راستہ میں مجاہدین نے اس پر گوریلا طرز کے حملے کر کے اس کی فوج کو بھاری جانی نقصان پہنچایا۔کرنل پیٹن چیچہ وطنی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا مگر اپنے بھاری توپ خانہ کے باوجود چیمر لین کو آزاد نہ کرا سکا۔کیپٹن سنواور کمانڈر میک اینڈریوز بھی اپنے دستے لے کر چیچہ وطنی پہنچ گئے۔ بندوقوں اور توپوں سے مسلح انگریز فوج برچھیوں،لاٹھیوں او رنیزوں سے مسلح کاٹھیوں سے 25ستمبر سے یرغمال بنائے میجر چیمر لین کو29ستمبر کو بڑی مشکل سے رہا کروانے میں کامیاب ہوئی۔کرنل پیٹن اور کیپٹن سنو کو واپسی پر محمد پور کے قریب مجاہدین نے بہت نقصان پہنچایا اور کیپٹن سنو زخمی ہو گیا۔اس کے بعد مجاہدین نے جھنگ سے آنے والے کیپٹن ٹرانسن کی فوج پر بھی گوریلا حملے کیے مگر بھاری توپ خانے کی وجہ سے کامیابی نہ ہو سکی۔

                اب تمام مجاہدین جلہی میں فتیانوں کے پاس جمع ہونے شروع ہو گئے۔جب انگریزوں کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے بھی جلہی کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور میجر چیمرلین کیپٹن سنو میجر ہملٹن اور میجر مرسڈن کی سپاہ نے جلہی کوگھیرے میں لے لیا ۔صرف لنگڑیال قبیلہ ہی انگریزوں کے ساتھ تھا باقی تمام قبائل متحد تھے۔انگریز فوج توپوں اور بندوقوںسے لیس تھی جب کہ مجاہدین آتشیں اسلحہ نہ ہونے کے باوجود جذبہ آزادی سے سرشار مقابلہ کر رہے تھے اور گولے برساتی توپوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دشمنوں پر گوریلا حملے کر کے ان کے سپاہیوں کو جہنم واصل کر رہے تھے۔ جونہی موقع ملتاتوپوں کے منہ گھاس پھوس سے بھر دیتے۔ان مجاہدین نے20دن تک توپوں کا مقابلہ صرف لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے کیا اور کئی بار حملہ آور فوج کو واپسی پر مجبور کر دیا۔اس بات سے پریشان ہو کر انگریزوں نے ملتان اور گوگیرہ سے مزید مدد کی درخواست کی تو ملتان سے کیپٹن ڈیلین مزید توپیں لے کر پہنچ گیا۔

                23اکتوبر کو تمام انگریز افسروںنے پوری تیاری سے جلہی پر حملہ کر دیا۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ پورے پنجاب کی توپوں کا منہ جلہی کی طرف تھا اور مجاہدین لاٹھیوں اور برچھیوں سے مقابلہ کر کے توپوں کا مذاق اڑا رہے تھے۔اس زبردست حملہ میں انگریزوں نے جلہی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی مگر انگریزوں کو ماسوائے ان ڈھول بجانے والوں کے کچھ ہاتھ نہ آیا جنہوں نے ڈھول بجا بجا کر مجاہدین کو وہاں سے نکل جانے کا موقعہ فراہم کیا۔انگریزوں نے ان ڈھول بجانے والوں کو پکڑ کر توپوں سے اُڑا دیا۔

                انگریز فوج مجاہدین کا پیچھا کرتی ہوئی 24اکتوبر کو ہڑپہ پہنچی،25کو کمیر،26کو جیون شاہ،27اکتوبر کو شیخو (شیخو پر دو بار چڑھائی کی گئی کیوں کہ رائے احمدخان، شیخو کے سید عبدالرزاق سجادہ نشین چہارم کا مرید تھا)28اکتوبر کو رسول پور میں پڑاؤ کیا۔آخر کار میجر مرسڈن نے کچھ چرواہوں کو لالچ دے کر مجاہدین کے ٹھکانے کا پتہ لگا لیا۔جہاں حملہ کرنے پر کچھ مجاہدین شہید ہو گئے اور کچھ نے بھاگ کر جان بچائی۔

                نتھو اور رجب کاٹھیا 7نومبر کو گرفتار ہوئے جبکہ مامند کاٹھیا پہلے ہی گرفتار ہو چکا تھا۔12نومبر کو آزادی کے دوسرے قائدین نے بھی گرفتاری دے دی جن میں نادر شاہ قریشی،ولی داد مردانہ،موکھا وہینوال ،ماجھی بشیرا شامل تھے۔11جنوری کو بہاول فتیانہ بھی لڑتا ہوا گرفتار ہو گیا۔انگریز سرکار نے ان لوگوں سے لاکھوں روپے جرمانہ وصول کیا۔کئی لوگوں کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیابہت سے لوگ قیدی کر لئے گئے اور کچھ کو ضلع بدر کر دیا گیا۔کافی لوگوں کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں اور کئی لوگوں کو کالے پانی کی سزا ہوئی۔

                موکھا وہینوال،ولی داد مردانہ،ماجھی بشیرا،لال ولد گاجی کاٹھیا،محمد یار مردانہ،رحمت خان، قادامردانہ اور دوسرے مجاہدین کو کالے پانی بھیج دیا گیا۔جب جہاز سمندر میں کچھ فاصلے پر گیا تو سب مجاہدین نے وہاں سے بھاگ جانے کا منصوبہ بنا لیا مگر ماجھی بشیرے نے کہا کہ’’میں مخبری کر دوں گا‘‘اس بات پر موکھے وہینوال نے ولی داد مردانے کو کہا کہ تو ماجھی کی منت کر۔ولی داد نے اپنے ہاتھ ماجھی کی طرف بڑھائے اور کہا ’’دوست ایسے نہیں کرتے‘‘اور ساتھ ہی اس کی گردن پکڑی اور اسے مار کر سمندر میں پھینک دیا اور باقی سب لوگوں نے جہاز سے چھلانگیں لگا دیں۔کئی دن سمندر میں تیرنے کے بعد کنارے لگے اور چھپتے چھپاتے گھروں تک پہنچے۔ولی داد مردانہ مخبری ہو جانے پر پھر گرفتار ہو گیا اور بعد میں موکھا وہینوال بھی پیش ہو گیا اور اس طرح انگریز ضلع ساہیوال پر قابض ہو گئے۔

 

شیخوشریف کے ارد گرد اقوام

بلوچ

                اس قوم کا اصل وطن تو مکران تھا مگر بعد میں یہ قوم کوہ سلیمان کے زیریں علاقے پر قابض ہوگئی۔ بلوچوں کی بہت ساری گوتیں ہیں ۔ بلوچ سردار جلال خان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بیٹوں کے نام رند، ہوت، لاشاری اور کورائی تھے جبکہ بیٹی کا نام جاٹو تھا۔ یہ پانچ ہی تھے جن کے ناموں پر گوتیں بنیں۔ اب تک ان گوتوں کو انہیں ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچوں کی کئی اور گوتیں بھی ہیں۔ بلوچ اپنا سلسلۂ نسب حضرت امیر حمزہ سے بتاتے ہیں۔ مگر کچھ بلوچ اس بات سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضرت امیر حمزہ کی کوئی اولاد نہ تھی اُنکا سلسلہ نسب حضرت ابراہیم ؑسے ملتا ہے۔ میں نے بہت کوشش کی مگر مجھے اس دعوے کا کوئی ثبوت نہ ملا اور نہ ہی دعوے دار اس کا ثبوت فراہم کر سکے۔ تاہم ان کے عربی النسل ہونے میں کوئی شک نہیں۔

                یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بلوچ اصل میں حلب کے مقام پر آباد بلوس قوم کے موجودہ جانشین ہیں۔ جو عراق سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور مقامی زبان میں بلوس کی بجائے بلوچ مشہور ہو گئے۔ پرانی روایات کے تحت بلوچ قبائلی وفاداری کے پابند ہیں۔ قبیلے کے سردار کا فیصلہ معاملات کے تصفیہ کے لئے قیمتی سمجھا جاتاہے۔ بلوچ مہمان کے تحفظ اور تواضع کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ دشمن پر چھپ کر وار نہیں کرتے۔ درمیانہ قد، بہادر اور اعتدال پسند ہیں۔ بلوچوں کے چہرے لمبے اور بیضوی، نقوش تیکھے، داڑھی اور مونچھیں گھنی اور سر کے بال لمبے اور گھنگریالے ہوتے ہیں۔ ذہین اور اپنے آپ کو حالات کے سانچے میں ڈھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

1555 میں ایک بلوچ سردار مغل بادشاہ ہمایوں کے ہمراہ ہندوستان آیا۔ ہمایوں کے دوبارہ ہندوستان فتح کرنے میں بلوچوں کے مدد کرنے کے صلہ میں میر چاکر کو ساہیوال کا علاقہ بطور جاگیر ملا۔ویسے تو پنجاب میں بلوچوں کی مشہور گوتیں لغاری، دریشک، گوپنگ اور جتوئی ہیں۔ تاہم علاقہ ساہیوال میں جتوئی، رند اور گادھی بلوچ آباد ہیں۔ گادھی بلوچوں کو دوسروں کے مقابلہ میں بہتر کاشتکار بتایا گیا ہے۔ ایبٹسن نے اس قوم کو درج ذیل الفاظ میں سراہا ہے ’’حالت جنگ میں بھی دشمن کی عورتیں اور بچے بلوچوں کی تحویل میں محفوظ ہوتے ہیں۔(۵)

                شیخو شریف کے نواح میں دریائے راوی کے کنارے موضع شہامند بلوچ ، داد بلوچ اور چک خان کمال میں بلوچ کثرت سے آباد ہیں ۔ دوسری طرف چک 15/7-R اور شمال مغرب میں بلوچوں کی مشہور جھوکیں ہیں۔ جن میں جھوک آہلو، شہا مند کی جھوک اور میر کی جھوک زیادہ مشہور ہیں۔

کھرل

                کھرل راجپوت الاصل ہیں اور اپنا تعلق بھوپا سے جوڑتے ہیں۔ جو راجہ کرن کی پشت سے تھا اور اُس نے حضرت جہانیاں جہاں گشت کے دست حق پرست پر اسلام قبول کیا تھا اور بقیہ زندگی مرشد کے شہر اُچ شریف میں گزار دی۔ عہدعالمگیری میں کمالیہ کے کھرلوں کو اہمیت رہی۔ جنگ ِآزادی 1857 ء میں سرفراز خاں کھرل تو انگریزوں کا ساتھی تھا مگر باقی قوم رائے احمد خاں کھرل کے زیر قیادت راوی کی دوسری غیورذاتوں کے ساتھ مل کر انگریزوں سے برسرپیکار رہی۔

الفنسٹن کھرل قوم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سرکشی اور حوصلہ مندی میں کاٹھیا قوم کے علاوہ یہ سب ذاتوں سے سبقت رکھتی ہے۔ کھرلوں کا قد و قامت دیگر ذاتوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ محنتی اور جفاکش ہیں۔(۶)

                علاقہ میں رہائش پذیر کھرلوں کی ذیلی اقوام کے حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ بشیرا، پربیرا، ربیرا، ساہی، پروکا، جلوکا اور سبوکا برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ شیخو شریف کے قریب راوی کے کنارے جھامرہ، موضع چوکھنڈی، چک بشیرا، چک بلوانہ، ٹبی پربیرا، موضع سبوکا اور چک 55/G-Dکے علاقے میں کھرل قوم آباد ہے اور علاقائی سیاست میں اس قوم کا بڑا اہم کرداررہا ہے۔

وٹو

                شیخو شریف کے نواح میں آبادقوموں میں وٹو قبیلہ بھی قابل ذکر ہے۔ وٹو قوم کے متعلق مشہور ہے کہ سیالکوٹ کی بنیاد رکھنے والے راجہ سالہان یا سہلوان کے دو بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا دیپا چند تھا جس نے دیپالپور کی طرح ڈالی جبکہ چھوٹا بیٹا سرسا تھا۔ سرسا راجہ کی بے شمار رانیاں تھیں اس نے ہندوستان میں ضلع حصار میں سرسا رانیاں کی بنیاد رکھی اور اپنے نام کے ساتھ سرسارانیاں کہلانا فخر محسوس کیا۔ راجہ سرسا کی جتنی رانیاں تھیں سب سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئے۔ سرسارانیاں کا علاقہ زیادہ تر اس وقت بارانی ہی تھا اور بارشوں کے ہونے پر یہاں کے لوگ بارانی رقبہ میں فصلات باجرا، کنگنی،جو ،چنے اور دالیں کاشت کرتے۔ انہی فصلات پر ان کی زندگی کا انحصار تھا یا پھر جانور پالنا بھی ان کا پیشہ تھا۔ زمانہ گزرتا گیا آخر کار اس علاقہ میں کئی سال بارشیں نہ ہوئیں اور اس خطہ میں قحط پڑ گیا تو اس راجہ سرسا کی اولاد نے جو کئی گھروں اور افراد پر مشتمل تھے نقل مکانی کر کے دریائے ستلج کے کنارے بنگلہ فاضلکا اور اس کے مضافات میں آ کر ڈیرے ڈالے۔ چونکہ دریائے ستلج کے دونوں کناروں پر پہلے سے بھٹی راجپوت آباد تھے اس لئے وہ آنے والے راجپوتوں یعنی سرسا راجہ کی اولاد کا وجود برداشت نہ کر سکے اور انہیں مار بھگانے کے لئے ان پر حملہ کردیا۔ جب آنے والے راجپوتوں نے دیکھا کہ ان پر بلا وجہ اور اچانک حملہ کیا گیا ہے تو انہوں نے ان بھٹی راجپوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بڑی خون ریز جنگ کے بعد ہر دو قبیلوں کے سرداروں نے صلح کے پیغام ایک دوسرے کی طرف بھیجے تو ان قبیلوں کے مابین ایک صلح کا معاہدہ طے پاگیا۔ معاہدہ میں طے پایا کہ دریائے ستلج کا شرقی کنارہ آنے والے راجپوتوں کی ملکیت ہوگا اور غربی کنارہ بھٹی راجپوتوں کا رہے گا۔ یہ بھی طے پایاکہ کسی بھی قبیلہ کے جانور یا آدمی دوسرے قبیلہ کے علاقہ میں چلے جائیں تو وہ اس معاہدہ کے تحت واپس کرنے ہوں گے۔ کچھ عرصہ اس معاہدہ پر قائم رہنے کے بعد شرقی کنارے کے راجپوتوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کی اور بھٹی راجپوتوں کے جانور اور آدمی جو دریا پار شرقی کنارے پر چلے گئے تھے واپس دینے سے انکار کر دیا۔ جس پر بھٹی راجپوتوں نے کہا کہ شرقی راجپوتوں نے ان پر اچانک جنگ کرنے کا اپنے دلوں میں وٹ رکھ لیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے معاہدہ صاف دل سے نہیں کیا بلکہ ’’وٹ‘‘یعنی رنج رکھا۔ بعد میں بھٹی راجپوتوں نے شرقی راجپوتوں کو وٹ والے راجپوت کہنا شروع کر دیا اور پھر بگاڑ پیدا کر کے مقامی لوگ انہیں وٹو کہنے لگے۔

 راجپوت وٹو کئی گوتوں میں ہیں اور یہ سب گوتیں اپنے اپنے سرداروں جو راجہ سرسا کے بے شمار بیٹوں کے ناموں پر ہیں۔ مثال کے طور پر راجپوت وٹو تیجکا، وٹو ٹھکر کا، راجپوت وٹو لادھو کے، راجپوت وٹو مالے کے، راجپوت وٹو بجیدے کے وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔ ان راجپوت وٹوئوں کو حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکر ؒ نے مشرف بہ اسلام کیا اب بھی یہ راجپوت وٹو دریائے ستلج کے کنارے اور اس کے مضافات میں کئی دیہاتوں میں آبادہیں۔(۷)

                جنگ ِآزادی کے آغاز 1849ء میں راجپوت وٹو قبیلہ کے کچھ جانبازوں نے رائے احمد خاں کھرل کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف علم بغاوت کرنے والے مجاہدین کے ساتھ مل کر انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ رائے احمد خاں کھرل کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اس جنگ میں حصہ لینے والے دیگر قبائل کی فہرستیں مرتب کرنا شروع کیں تو راجپوت وٹوئوں کی بھی فہرست بنائی اور سرکاری کاغذات میں نہ صرف انہیں باغی لکھا گیا بلکہ جرائم پیشہ بھی قرار دیا گیا۔ اس کے برعکس جن سرداروں نے انگریز حکومت کا ساتھ دیا ان کو خطابات کے علاوہ جاگیریں بھی دی گئیں اور قوم کی بجائے انگریز سے وفاداری کرنے والے یہ جاگیردار آج بھی ہم پر مسلط ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن وٹو جرائم پیشہ کا کاغذات مال اور حکومت برطانیہ کے پولیس ریکارڈ میں عمل چلا آرہا تھا تقسیم پاک و ہند کے بعد 1956/57کے بندو بست کے وقت ان کی ذات سے جرائم پیشہ کا لفظ حذف کردیا گیا۔ اب یہ خالص راجپوت وٹو لکھے پڑھے جاتے ہیں۔

 

شیخو شریف کی وجہ تسمیہ اور آمد سادات

                بانی شیخو شریف سیّد حسن بخش المعروف حسنین سائیں سلطان پور میں رہائش پزیر تھے۔(۸) آپ دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کے رویوں سے تنگ آکر پہلے سلطان پور سے لاہور آئے مگر یہاں بھی دستار و سجادگی کے جھگڑے دیکھے تو بد دل ہو کر تلاشِ حق اور طلب خدا وندی میں ہجرت کر کے دیپالپور آئے اور وہاں سے ستگھرہ پہنچے اور چاہ توتاں والا(موجودہ شیخو شریف) میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔(۹)

                آپ پانچویں پشت میں حضرت سیّد عبدالرزاق المعروف شاہ چراغ گیلانی القادری (جن کاروضہ مبارک شارع قائداعظم عقب لاہور ہائی کورٹ واقع ہے) کے پوتے ہیں اور آٹھویں پشت میں حضرت سیّد محمد غوث المعروف بالا پیر امیرقدس اللّٰہ سرہ العزیز (جن کاروضہ نواح ستگھرہ محل وقوع چک نمبر 11/1.R ضلع اوکاڑا میں واقع ہے) کے پوتے ہیں۔

شیخو، شریف بننے سے پہلے ’وجھیرہ ‘ تھا نواب چاوا وجھیرہ کا سپوت۔اللّٰہ جانے وجھیرہ کوئی نام تھا یا قوم پیشہ، حرفہ تھا یا کوئی خطاب و لقب تاریخی اسناد سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ جب مغل بادشاہ بابر ہندوستان میں در آیا تو اس کے ایک نو مسلم حلیف لشکر کے دستہ کا سردار وجھیرہ کہلاتا تھا۔ ہندو تھا کہ سکھ اللّٰہ بہتر جانتا ہے۔ سننے میں یہ آیا ہے کہ وجھیرہ کھرل تھا۔ اور کھرل تو کسی زمانہ میں بہت بڑی شے تھا بلکہ آج بھی اکثر پایا جاتا ہے۔ مشہور یہ کہ کھرل اور سیال ہندوراجپوت بلکہ ’’راجواڑے‘‘ تھے۔ یہ بابا فریدالدینؒ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ یہ بہت دیر کی بات ہے۔ بابا صاحب کا عہد تو ہندوستان کے مسلمان سلاطین خاندانِ غلاماں، غالباً بلبن کا عہدتھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کھرل مخدوم’’ صدرالدین عارف‘‘ کے ہاتھ پر مسلمان ہوا تھا۔ یہ صاحبؒ حضرت بہاء الحق زکریا ملتانی سہروردیؒ کے فرزندِ ارجمند تھے۔ کچھ بھی ہوبہر حال کھرل اور سیال ہندوستان میں ’’احدی‘‘مسلمان کہلانے کے حقدار ضرور ہیں۔(۱۰)

                ایک عرصہ تک سید حسن بخش المعروف حسنین سائیں شیخو وجھیرہ کی طرف سے ملنے والی رہائش میں رہائش پزیر رہے۔ چاہ توتاں والا میں شیخو وجھیرہ کے علاوہ اس کے کچھ مزارعین اور ہنر مند بھی آباد تھے اس لئے ستگھرہ میں دوسری شادی ہو جانے کے بعد آپ نے علاحدہ رہائش کا ارادہ فرمایا اور نئی سکونت گاہ کے لئے چاہ توتاں والا سے مشرق کی جانب کچھ فاصلے پر واقع چاہ پیپل والا کو پسند فرمایا۔

 یہی جگہ آج کے شیخو شریف کا محل وقوع ہے۔ پیپل والے کھوہ (چاہ،کنواں) کو ’’بیر والا کھوہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کنواں سید منظور حسین بن سید سردار عالم سائیں کے ڈیرہ میں تھا۔ بعد میں اس کو پاٹ دیا گیا اور یہاں مکانات تعمیر ہو چکے ہیں اس کنوئیں کے شمالی جانب حسنین سائیںؒ نے اپنی رہائش کے لئے ایک احاطہ اور چند سرکنڈوں کے جھونپڑے تعمیر کروائے جنہیں حجرات کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ احاطہ چاردیواری کے اندر والے حجرہ میں آپ کی رہائش تھی اور چاردیواری کے باہر والے چھپّر میں دو ایک منتخب خادم اور آنے جانے والے مہمان عقیدت مندوں کا عارضی قیام رہتا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ جگہ اصحاب صُفہ کی متابعت میں ’’صفہ‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ صفہ کے دائیں جانب والا چھپر نماز کے لئے مخصوص تھا بلکہ یہ شیخو شریف کی پہلی مسجد تھی جس کی بنیاد حسنین سائیںؒ نے اپنے دست ِاقدس سے رکھی۔ سرکنڈوں کے یہ دونوں چھپر ایک لحاظ سے تعلیمات قادریہ غوثیہ کی پہلی درس گاہ بھی کہے جاسکتے ہیںکیونکہ فارغ اوقات میں آپؒ آنے والے عقیدت مندوں اور مستقل پاس رہنے والوں کو دعوتِ حق و صداقت اور اسلامی رسم ورواج کی تعلیم دیتے اور تربیت فرماتے تھے۔ آج اسی جگہ ایک شاندار مسجد کی عمارت ہے۔‘‘(۱۱)

                اب شیخو شریف کو شہرت مل چکی تھی۔ آپ کے آنے سے یہاں ادب اور ذکرو فکر کی محفلوں کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ میلادالنبیﷺ کے حوالے سے محافل منعقد ہوتی تھیں اور مریدین کی روحانی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لئے ہر ماہ کی گیارھویں پر طالبین حق کا اکٹھ ہوتا تھا۔ اس طریقہ پر یہ سلسلہ جاری رہا اور اب تک جاری ہے۔

 

حوالہ جات

۱۔            مشتاق عادل، تاریخِ ساہیوال،ساہیوال: مہکاں پبلشرز، ۲۰۰۹ئ،ص ۱۷

۲۔            افضال حسین گیلانی، سیّد، حیات الامیر(جلددوم)، شیخو شریف: ادارہ صوت ہادی، ۲۰۰۸ئ،ص ۷۵

۳۔            مشتاق عادل، تاریخ ساہیوال، ص۱۷

۴۔            ایضاً،ص۲۳

۵۔            ایضاً،ص۱۳۴

۶۔            ایضاً،ص۱۴۳

۷۔            اللّٰہ دتہ نسیم سلیمی، میاں،تاریخ دیپالپور، لاہور: سنی پبلشرز، ۱۹۹۳ئ،ص ۱۶۵

۸۔            افضال حسین گیلانی، سیّد،سوانح حیات سید حسن بخش المعروف حسنین سائیں،شیخو شریف: ادارہ           .            صوتِ ہادی، ۲۰۰۶ئ،ص۱۲

۹۔            ایضاً،ص۳۳

۱۰۔          ایضاً،ص۷۰

۱۱۔          ایضاً،ص۹۷

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...