Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مراتب اختر شخصیت و فن > ۔ خاندان مراتب اور ادب

مراتب اختر شخصیت و فن |
مہکاں پبلشرز
مراتب اختر شخصیت و فن

۔ خاندان مراتب اور ادب
ARI Id

1688721480270_56116763

Access

Open/Free Access

Pages

46

خاندان مراتب اور ادب

                سیّد مراتب علی اختر کے اجداد سے لے کر اب تک گیلانی سادات ادب کے پودے کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ یوں تو تصوف اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے اس لئے اہل تصوف کا ادب شناس اور صاحب ذوق ہونا لازمی امر ہے مگر اس خاندان کی ہستیاں جنھوں نے خود شعر کہے ان کا ذکر کچھ یوں ہے۔

حضرت شیخ غوث محمد اُچی

                آپ سادات شیخو کے جدّامجد ہیں آپ صاحبِ دیوان شاعر تھے اور آپ کا دیوان ’’دیوانِ قادری‘‘ کے نام سے موجود ہے۔(۱)پروفیسر ڈاکٹر محمد جمیل قلندر اس پر تحقیق کر رہے ہیں۔آپ مشاہیر و اکابرسادات حسنی ہیں حضرت غوث ِاعظمؒ سے نسبت آبائی ہے۔ صاحبِ عظمت و کرامت، واقفِ منقول ومعقول تھے۔ عبادت و ریاضت اور زہدوورعمیں یکتائے روزگار تھے۔

سیّد اصغر علی گیلانی صاحبِ شجرۃ الانوار رقم طراز ہیں کہ سیّد محمد کے بزرگوں میں سے اوّل سید ابوالعباس بن سید صفی الدین سیدعبدالقادر جیلانیؒ اپنے چھوٹے بھائی سید ابو سلیمان کے ساتھ 656ہجری میں ہلاکو خاں تاتاری کے حملہ بغداد اور قتل و غارت کے وقت بغداد سے نکل کر روم آگئے۔ پھر جب کچھ امن و امان ہوا تو حلب میں آکر اقامت گزین ہوگئے۔ سید محمد غوث یہیں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت اپنے والد سے حاصل کی۔ عنفوان شباب میں پدر بزرگوار کی اجازت سے مختلف ممالک اسلامیہ کی سیر و سیاحت کو نکلے ، حرمین الشریفین کی حج و زیارت سے مشرف ہوئے۔ عراق، عرب، ایران، خراسان، ترکستان اور سندھ و ہند کی طویل سیاحت کی۔ یہاں کے اکابر علماء وفضلا اور مشائخ و صوفیا سے ملاقاتیں کیں۔ لاہور بھی تشریف لائے۔چندے یہاں قیام کیا پھر ناگور چلے گئے۔ یہاں ایک مسجد تعمیر کی۔ غرض اسی طرح سیرو سیاحت کرتے ہوئے واپس حلب پہنچے اور والد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ ایک دن دوران گفتگو عرض کی کہ فقیر کا دل یہ چاہتا ہے کہ اقلیم ہند میں کسی جگہ سکونت اختیار کر لوں۔حضرت کا کیا ارشاد ہے؟ انہوں نے فرمایا۔’’میں چراغِ سحری ہوں ، کچھ توقف کرو، میری وفات کے بعد تمہیں اختیار ہوگا جہاں جی چاہے رہنا۔پس آپ اپنے والد سید شمس الدین بن سید شاہ میر بغدادی گیلانی کی وفات کے بعد براستہ خراسان ملتان آئے اور اُچ کے مقام پر سکونت اختیار کی۔ صاحبِ شجرۃ الانوار نے آپ کا ورودِ اچ 887ہجری لکھا ہے۔ اس وقت شاہ حسین لنگاہ متوفی908ھ حاکم ملتان و سندھ سکندر لودھی متوفی 923ھ بادشاہِ ہند تھا۔ دونوں آپ کے حلقہ ارادت میں داخل تھے۔آپ کے وجودِ مسعود سے سلسلہ قادریہ ہندوستان میں پھیلا۔(۲)

                 آپ نہ صرف شعرو شاعری سے محبت کرتے تھے بلکہ خود بھی شاعر تھے۔ آپ قادری تخلص کرتے تھے اور اکثر شاعری حضرت شیخ عبدالقادرکی منقبت کی صورت میں کی۔ مولانا عبدالرحمن جامی صاحبِ نفحات الانس نے آپ کے فضائل کی خبر پا کر اپنے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں بھیجے۔ روایات کے مطابق حاکم ملتان شاہ حسین لنگاہ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت غوثِ اعظم کہہ رہے ہیں کہ اپنی بیٹی کا نکاح میرے فرزند سید محمد سے کر دے لہٰذا اس نے ایسا کر دیا مگر اس بی بی کے بطن سے حضرت سید محمد کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد سید ابوالفتح حسینی جن کی آبائی نسبت چار واسطوں سے سید صفی الدین بانیِ اچ جو کہ سید ابواسحاق گازرونی المعروف بہ میراں بادشاہ لاہوری کے ہمشیرہ زاد تھے تک پہنچتی ہے۔ آپ نے ان کی دختر سے شادی کی جن کے بطن سے چار لڑکے پیدا ہوئے۔ جن میں بزرگ ترین سید عبدالقادر ثانی دوم عبداللّٰہ ربانی سوم مبارک حقانی چہارم سید محمد نورانی تھے۔ موخرالذکر لا ولد فوت ہوئے۔ سید ابوالفتح جو بانی اُچ کی اولاد میں سے تھے انہوں نے اچ کی متعلقہ زمین اپنی چار لڑکیوں میں تقسیم کر دی تھی۔ نیز آبادی اُچ گیلانیاں اُچ بخاریاں سے الگ، یہ حصہ زمین وہ ہے جو سیدہ فاطمہ زوجہ محترمہ حضرت سید محمد غوث کے حصہ میں آئی تھی۔دیوانِ قادری میں شامل آپ کی ایک غزل کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں:

دلِ آشفتہ می گوید حدیثِ زُلف جاناں را

کہ تا مجموع گرداند ازیں جمع پریشان را

ہوای کُنونِ میخانہ کنون گر می زندراہم

مقامِ اصلی است آری مدام آن اہل عرفان را

اگر خواہی کہ کفر و دین بَیکدم می زنی برہم

زند بہ ارغوان چوگان ، بگوآن نامسلمان را

دہانش با شکر گفتم ، لبش عُناب گفتامن

حدیث بس شُگرف است ، این چگونی کوی مرجان را

مرا در قلزم حیرت نہنگِ عشق شد گشتی

مقیمِ عالمِ وحدت چہ داند ساز و سامان را؟

ہمہ عالم پر از عشق است و ہر سو طور با موسی

چو خضر از جانب ظلمت برآور آبِ حیوان را

ہلا اے قادری کردند عقل ونقل از حکمت

کمال از عشق می باید بحمد اللہ مردان را(۳)

 

مخدوم عبدالقادر ثانی ؒاُچوی

                آپ شیخ محمد غوث کے فرزندِ ارجمند ہیں اور شیخ عبدالقادر ثانی کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ ظاہری و باطنی کرامات ، عمدہ اوصاف اور کمالات کے مالک تھے۔ اکثر غیر مسلم آپ کے مشاہدہ جمال اور معائینہ کمال کے سبب توبہ کر کے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ اچ شریف میں حضرت غوث الثقلین کے حقیقی وارث اور کمال میں انہیں کے تابع ہیں اسی لیے آپ کو شیخ عبدالقادر ثانی کہا جاتا ہے۔

حکایت ہے کہ آپ نے اپنی نوجوانی نہایت ہی نازو نعم اور آسودگی میں بسر کی۔ آپ عیش و نشاط کے اتنے دلدادہ تھے کہ گانے بجانے کی کئی چیزیں اونٹوں پر لاد کر آپ کے ساتھ جاتی تھیں۔ لیکن سجادہ مشیخیت اور مقام تربیت و ہدایت پر نشست کے بعد ہر قسم کے گانے بجانے اور قوالی سے بھی پرہیز کرنے لگے۔ اور اپنے مریدوں معتقدوں اور طلب گاروں کو بھی قوالی وغیرہ سننے سے نہایت سختی سے منع کرتے تھے۔ اگر اچانک قوالی وغیرہ کا کوئی بول آپ کے کان میں پڑ جاتا تو بار گاہِ الٰہی میں اتنی گریہ زاری کرتے کے جان نکلنے کے قریب ہوجاتی۔ آپ پر حالتِ جذب کی ابتدا کا واقعہ اس طرح ہے کہ ایک دن اُچ کے جنگل میں شکار کھیل رہے تھے کہ ایک تیتر عجیب و غریب آواز میں نالہ و فریاد کر رہا تھا۔ ایک درویش بھی جنگل میں گھوم رہا تھا اس نے تیتر کی آواز سن کر آپ کو دیکھ کر کہا۔ ’’سبحان اللہ‘‘۔ ایک دن آئے گا کہ یہ نوجوان بھی اس تیتر کی طرح نالہ و فریاد کرے گا۔ درویش کی بات آپ پر خاص اثر کر گئی۔ان پر ایک خاص حالت طاری ہوگئی۔ غیر اللہ سے دل ٹھنڈا پڑ گیا۔ پھر اس کے بعد روزانہ ان پر جذب کے اسباب، شوق کے آثار اور محبت الٰہی کے انوار کی مسلسل بارش ہونے لگی اور نتیجہ یہ نکلا کہ غیر اللّٰہ سے تعلق چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے ہوگئے۔

ایک حکایت یہ ہے کہ آپ کے والد کے پاس کہیں سے مخمل کے تھان آئے انہوں نے آپ کے پاس یہ کہہ کر بھجوائے کہ ان سے اپنا لباس بنوا لو۔ لیکن آپ نے اس کپڑے سے اپنے شکاری کتوں کے لئے جھولیں سلوا لیں۔ اس واقعہ کی اطلاع جب آپ کے والد بزرگوار کو ہوئی تو انہوں نے آپ کو بلوا کر ڈانٹ ڈپٹ کی۔ اسی رات آپ کے والد گرامی نے خواب میں حضرت غوث اعظم کو فرماتے ہوئے سنا کہ تم اپنے دوسرے بیٹوں کی دیکھ بھال کرو۔ عبدالقادر ہمارا بیٹا ہے اس کی تربیت ہمارے ذمہ ہے۔ اس واقعہ کے ساتھ ہی آپ پر جذب و حال کی فروانی ہوگئی۔ توبہ کر کے تمام عیش و نشاط و لذت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ گانے بجانے کے آلات توڑ دئیے شکاری جانور چھوڑ دئیے سر منڈا سلوک کی راہ لی۔ آپ کے والد ماجد نے اپنی حیات میں ہی سب بھائیوں کے سامنے صاحب سجادہ مقرر کر دیا۔ آپ کے دوسرے بھائی بادشاہ وقت کے ملازم خاص تھے۔ آپ بہت عرصہ پہلے بادشاہ کی طرف سے مقرر کردہ مسندِشیخ الاسلام کو چھوڑ چکے تھے۔ والد ماجد کی وفات کے بعد بادشاہ نے باوجود اندرونی کدورت کے آپ کو سجادہ نشینی اور دیگر امور کے تمام کاغذات اور مناسب وظیفے کی بحالی کا نیا فرمان جاری کر دیا اور اپنے خاص چوبداروں کے ذریعے آپ کے پاس بھیجا لیکن آپ نے جواب دیاکہ ہمیں کسی چیز کی حاجت نہیں رہی بادشاہ کی مرضی ہے جسے چاہے یہ سب کچھ دے دے۔ غرضیکہ بادشاہ کے غیظ و غضب اور دشمنوں کے ہاتھوں پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کیا اور پائے ثبات میں ذرالغزش نہ آئی۔بادشاہ کی طرف سے معذرت اور مصالحت کے فرمان کے جواب میں حضرت مخدوم ثانی نے یہ اشعار لکھ کر بھیج دئیے۔

بہ ہیچ باب ازیں باب روئے گشتن نیست

ہر آنچہ برسرِ ما میرود مبارک باد

کسے کہ خلعت ِ سلطانِ عشق پوشید است

بحلّہ ہائے بہشتی کجا شود دل شاد(۴)

 

امام حیدر بخشؒ

                امام حیدر بخش مراتب اختر کے اجداد میں ایک بزرگ اور صاحب طرز شاعر ہوئے ہیں۔ نہ صرف شاعر تھے بلکہ پاک و ہند میں سلسلہ عالیہ قادریہ کے ایک عظیم شیخ و مرشدتھے۔ آپ نے ظاہری تعلیم اپنے والداور دوسرے بڑے علماء وقت سے حاصل کی۔ آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ (۵) آپ روحانی پیاس بجھانے کے لئے لاہور تشریف لائے اور چچا سیّد مجتبیٰ کے دستِ اقدس پر بیعت کی کچھ وقت ان کی خدمت میں رہے اور اصلاح قلب کے بعد واپس سلطان پور چلے گئے۔ وہیں آپ کا وصال ہوا اور آپ کا مزار شریف بھی وہیں ہے۔ وسطی پنجاب کی اکثر سلسلہ قادریہ گیلانیہ کی بیعت کا سلسلہ آپ تک پہنچتا ہے ۔ آپ صاحبِ دیوان شاعر تھے مگر آپ کا دیوان سکھا شاہی کے دوران ضائع ہو گیا تھا۔ ’’سیّد حیدر شاہ بخش المشہور حیدر شاہ فقیری بودندہ بوس و دیوان در نظم دارندبعہد تسلط سکھان بر لاہور‘‘ (۶)آپ کے اشعار زبان زدِ عام و خاص ہیں۔

                الف۔         اللہ کو ایک کر مانو

                ب۔           با  نوا کوئی اور نہ جانو

                ت۔           ترک سبھی سے کریے

                ث۔           ثابت کر پائوں دھریے

                ج۔            جلال اسی سے ڈریے

                ح۔            حرام کی ڈھونڈ نہ کریے

سیّد حسن بخش المعروف حسنین سائیںؒ

                بانی شیخو شریف سید حسن بخش المعروف حسنین سائیں ایک معروف شاعر اور ولی کامل تھے۔آپ کا خاندانی اور والدین کی طرف سے تجویز کیا گیا نام ’’سید حسن بخش‘‘ تھا۔ ’’حسنین سائیں‘‘ کے لقب سے مشہور خلائق ہوئے۔ آپ کے عقیدت مندوں میں ہندو سکھ اور دیگر غیر مسلم قبائل بھی کثرت سے شامل تھے جو آپ کے اس لقب کے اوّل میں ایک ’’سابقہ‘‘ کا اضافہ کر کے آپ کو ’’داتا حسنین سائیں‘‘ پکارتے تھے۔

                حسنین سائیں اپنے سے زیادہ دوسروں کی ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ جو چیز ہاتھ آتی وہ دوسرے حاجت مندوں میں تقسیم فرما دیتے۔ اسی لئے خلق خدا کی زبان پر ’’داتاحسنین سائیں‘‘ جاری ہوگیا۔ اور آج تک یہی عرفِ عام و خاص ہے۔ یہی صفت اہل ِبیت رسولﷺ کا نشانِ امتیازی ہے۔

                آپ کے فارسی زبان میں منظم شجرہ میں سے حمد و نعت کے اشعار کا نمونہ یہ ہے۔

حمد

حمد گوئیم بے قیاس از جان و دل

آنکہ پیدا کرد آدم راز گل

خلقت ہژدہ ہزار عالم نمود

از عدم نجشید تشریفِ وجود

خاکی را از خلائق برگزید

رُوحِ خود در قالب او را دمید

در حقِ انساں چنیں گفتہ خدا

سِرِّاومائیم واو شد سرِّ ما(۷)

نعت

اشرفِ انساں محمد احمد است

ہر دو عالم مست جام از او شد است

رحمت للعالمین فرمود ، حق

برسر آدم ازاں دارو سبق

از طفیلش انبیاء و اولیاء

یافتہ راہ در حریم کبریا

اے خدا! بفرست تو صلوٰۃ را

بردے و بر آل پاک با صفا(۸)

سیّد سید محمد گیلانیؒ

                خاندانِ سادات شیخو شریف میں سیّد سید محمد ولی کامل ہو گزرے ہیں۔آپ کو شاعری کا خاصہ ملکہ تھا۔ مگر باقاعدہ صنف کے طور پر نہیں اپنایا۔ آپ کی ولادت عروجِ ماہ ذوالحجہ 1180ھ بمطابق 1769ء میں حضرت بی بی خاتونؒ بنت سید غلام مرتضیٰ گیلانی کے بطن اطہر سے ہوئی۔ ’’حیات سید محمد گیلانی‘‘ میں ہے کہ آپ کے والد داتا حسنینؒ فرماتے ہیں کہ میرے فرزندسیّد سید محمد کی پیدائش سے قبل ہی مجھے رویائے صادقہ کے ذریعے بشارتیں ملنی شروع ہو گئیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت بالا پیر امیرؒ کے مزار پر معتکف تھا۔ اور اعتکاف کے آخری دنوں میں ایک رات میں نے دیکھا کہ حضور بالا پیر امیرؒ کے مزار کی پائینتی کی جانب جو ون کا درخت ہے اس کی پتیاں اچانک روشن ہو گئیں ہیں۔ درخت کی شاخیں مجھ پر جھکتی آ رہی ہیں۔ اسی وقت عالم مراقبہ میں حضرت بالا پیرؒ نے مجھ سے فرمایا۔’’ابو محمد عنقریب تمہاری سیادت میں ترقی ہوگی۔‘‘داتا حسنین فرماتے ہیں قبل ازیں مجھے اس نام سے کسی نے نہیں پکارا تھا۔ میری اہلیہ ان دنوں امید سے تھی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ باری تعالیٰ مجھے فرزند عطا فرماوے گا اور میں اس کا نام محمد ہی رکھوں گا۔ سید حسنین سائیں فرماتے ہیں کہ اکثر چلتے ہوئے یا تنہائی میں بیٹھے ہوئے میرے کان میں غیبی آواز آتی۔’’حسن بخش تمہیں پاکیزگی نسب و نسل مبارک ہو۔‘‘ اور میرے دل کو انجانی سی خوشی محسوس ہوئی۔

آپ کی والدہ ماجدہ بیان فرماتی ہیں کہ سید محمد سے پہلے میرے دو بچے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوئے لیکن آپ کی بار دوران حمل مجھے جس قدر بشارتیں اور خواب میں بزرگوں کی زیارتیں ہوئیں پہلے نہ ہوئی تھیں۔ چنانچہ ایک بار میں نے خواب میں آنحضرت رسول مقبول ﷺ اور حضرت علیؓ کو دیکھا کہ حضرت علیؓ کے ہاتھوں میں سرخ رنگ کے کپڑے میں لپٹا ہوا ایک نوزائیدہ بچہ ہے رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’علی یہ بچہ اس کو دو‘‘ میں نے وہ بچہ مولا علی ؓ کے دستِ مبارک سے گود میںلے لیا۔ دیکھا کہ بچہ کچھ نحیف اور بیمار ہے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللّٰہ ﷺ یہ تو بیمار ہے۔آپ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا۔ ’’علی اس پر ہاتھ پھیرو‘‘ چنانچہ مولا علیؓ نے مجھ سے بچہ لے کر اس پر ہاتھ پھیرا ۔ پھر آنحضرت ﷺ نے بچے کے چہرہ کو دونوں ہاتھوں میں لے کر لعاب دہن لگایا۔اور فرمایا’’بیٹی یہ بچہ میرا ہے۔ اب یہ کبھی بیمار نہ ہوگا۔‘‘ جناب بی بی خاتون فرماتی ہیں کہ جب آپ پیدا ہوئے تو واقعی آپ نحیف اور کمزور تھے مگر ایام شیر خوارگی میں ہی آہستہ آہستہ تندرست ہوگئے۔(۹)

                آپ عربی اور فارسی علوم پر مکمل دسترس رکھتے تھے ۔ ادب سے دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کی شاعری ایک منظوم بدعا کی صورت میں ملاحظہ ہو جو آپ نے سمیلی نامی شخص کو دی جس نے چوری کا بھینسا آپ کے کہنے پر واپس نہ کیا تھا۔آپ نے فرمایا تھا سمیلی توں نے میری بات نہیں مانی تمہیں پرسوں تک پتہ چل جائے گا۔

چھڈ جا سمیلی جھگیاں

ککڑ تیرے بلیاں کھادے

خالی ہوگیاں کھڈیاں

رَن تیری دی مجھلی پاٹی

ٹاکیاں لاوے بھگیاں

چھڈ جا سمیلی جھگیاں(۱۰)

                ابھی تیسرا دن نہ گزرا تھا کہ احمد شاہ ابدالی کے پوتے زمان شاہ قابلی کے ایک آوارہ گرد لشکر نے موضع سمیلی ساہوکا پر ہلّہ بول دیا اور اس قدر قتل عام کیا کہ گلیاں لاشوں سے بھر گئیں۔ خود سمیلی بھی مارا گیا۔ جو لوگ بچ گئے انہوں نے بھاگ کر جان بچائی۔ کہتے ہیں کہ وہ گائوں تو اسی نام سے موجود ہے مگر ساہوکا قوم بالکل نیست و نابود ہو چکی ہے۔

ناصر شہزاد

                سادات شیخو شریف میں ایک اہم نام سید ناصر شہزاد کا ہے جو 19دسمبر1937ء کو شیخو شریف میں پیدا ہوئے اور 22دسمبر 2007کو 70سال کی عمر میں وفات پا گئے۔(۱۱) ناصر شہزاد جو مراتب اختر کے ماموں زاد اور پھوپھی زاد تھے ان کی  شاعری کا پہلا مجموعہ ’’چاندنی کی پتیاں‘‘ 1964میں چھپا۔ 40برس بعد 2004میں دوسرا شعری مجموعہ ’’بن باس‘‘ چھپ کر سامنے آیا۔ ان کا تیسرا شعری مجموعہ ’’پکارتی رہی بنسی‘‘۲۰۰۸ء میں چھپا۔ ناصر شہزاد کی نثری تخلیقات میں’’کون دیس گیو‘‘ (حیات مجید امجد) کے علاوہ خطوط پر مشتمل نسخہ ’’خط لکھیں گے‘‘ اور دیباچوں کا مجموعہ ’’ناصر شہزاد کے دیباچے ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ناصر شہزاد کی شاعری کے بارے مجید امجد یوں کہتے ہیں:

جب اس نے قلم اُٹھایا اس زمانے میں بہت پہلے سے اردو غزل ایک بنے بنائے کلیے کے تابع تھی جہاں جہاں اوروں نے اس کے تسلیم شدہ موضوعات کو رد کر کے نئے تصورات کے بیان کے لئے نئے رنگ اور نئے زاویے ڈھونڈے وہاں ناصر شہزاد نے پرانے قصوں ،لوک گیتوں اور صحیفوں کی روایت کو غزل کے پیرائے میں بیان کیا جو رُوحوں کے نہاں ترین گوشوں میں سدا جھلکتی رہی ہے لیکن سوچوں اور نظروں کی دنیا سے دور تر تھی۔ اس کا یہ بالکل نیا تجربہ تھا۔ یہ تجربہ اپنے ساتھ نئے الفاظ لایا۔ ایسے الفاظ اور ایسی ترکیبیں جو اس سے پہلے غزل میں کبھی استعمال نہیں ہوئی تھیں۔ اس نے الفاظ کی ان منظور شدہ فہرستوں کو یکسر منسوخ کر دیا جن کے بغیر کوئی غزل ذی تغزل شمار نہیں ہو سکتی تھی۔ اب یہاں نئی بستیاں ، نئے لوگ، نئے نام کے پھول، نئے نئے نام کے پرند، ایک نیا موسم اور ایک نئی دنیا نظر آتی ہے۔ اس دنیا سے مختلف جو اس سے پہلے کی غزل میں منقوش نظر آتی ہے ۔ یہ لوگ، یہ چہرے، یہ بن، یہ پھول، یہ بستیاں اس ان دیکھی میراث کا حصہ ہیں جو ہر انسان کے ذہن کی آغوش میں ہے۔ اسی کی تاثیر انگیزی سے اس مسرت کے سراغ ملتے ہیں جو ہماری ثقافت کا بھولا ہوا نام ہے، یہاں نئی بستیاں، نئے لوگ اس لحاظ سے نئے ہیں کہ وہ اب معرض وجود میں آئے ہیں بلکہ وہ اس لحاظ سے نئے نہیں ۔ اس سے پہلے اردو غزل کے اندر ان کے ذکر کو جگہ نہیں ملتی تھی۔ درحقیقت یہ لفظ ، یہ نام، یہ شبد، بہت پرانے ہیں۔ پرانے پنجابی گیتوں ، فراموش شدہ ہندی دوہوں، پرانی بھاشائوں میں انہی کا جادو ہے۔ یہ لفظ اردو غزل میں نئے ہوں تو ہوں لیکن پنجاب، سندھ، ملتان، بنگال اوردوسرے علاقوں کی بولیوں میں زمانوں سے رائج ہیں۔ اس جادو کو جگانے کے لئے شاعر کی ذہنی کاوش ایک ادق عمل ہے۔ اس دنیا اور اس کی تڑپتی ہوئی حقیقتوں کے دھارے پر بہتے ہوئے اس نے اس سب کچھ کو جو اس کے سامنے ہے پرانے قصوں اور روایتوں کی شکل میں دیکھا پھر اسی شکل کو اسی ہیولے کو شعروں میں منتقل کر دیاہے۔ لوہے ،سیمنٹ، بجری، کولتار سے ڈھلی ہوئی صداقتوں سے ظہور میں آنے والی پیچیدگیوں کی دنیا میں اس نے اس احساس کی ترجمانی کی جسے وقت کا تیشہ نہیں کاٹ سکتا۔ اس کی یہ غزلیں سچی محبت کے گیت ہیں ، مکھڑوں اور نینوں کی مدحیں ہیں۔ پگڈنڈیوں اور پنگھٹوں کی کتھائیں ہیں۔ بادلوں اور پروائیوں کی کوتائیں ہیں۔ ان کے آہنگ کی سب سے نازک اور جذبیلی سطح وہ ہے جہاں پر پریتم کی یاد میں آنسو بہانے والی سجنیوں اور سکھیوں کی کہانی آتی ہے۔(۱۲)

پروفیسر ڈاکٹر گوہر نوشاہی نے ان الفاظ میں ناصر شہزاد کی شاعری کو سراہا ہے:

ناصر شہزاد کی شاعری میں لفظ زندہ تجربہ بن کر آتا ہے۔ ہر لفظ اپنی جگہ ایک فرد بھی ہے اور ایک قبیلہ بھی اور یہی وہ خصوصیت ہے جو اُس کو اُس کے معاصرین سے بالخصوص اور دیگر شعراء سے بالعموم مختلف کرتی ہے۔ میں اپنے شعری نظریات میں بڑا سخت آدمی ہوں اور بن بلائے مہمان کی حیثیت سے لفظوں کو کاغذ پر اُتارنا گناہ سمجھتا ہوں۔ ناصر شہزاد کی شخصیت میں مجھے ایک ہی بات پسند ہے اور وہ ہے نفی ذات اور منکسر مزاجی۔ یہی میرے نزدیک تخلیقی فنکار یا تخلیقی لگن رکھنے والے شخص کی نشانی ہے۔ ناصر شہزاد کے ساتھ یہ بات بھی خاص ہے کہ وہ روحانی سرچشمے جس سے اس نے تحریک شعر حاصل کی ہے۔ اُن کا شجرہ بزرگوں اور دوستوں کی فیض صحبت سے ملتاہے۔ (۱۳)

ناصر شہزاد کے گیتوں کے بارے میں پروفیسرؤ آلِ احمد سرور کی رائے یوں ہے:

گیت میں پہلا نام بھی شہزاد کا ہے اور آخری بھی۔(۱۴)

ناصر شہزاد کے چند اشعار درج ذیل ہیں جن سے ان کے ادبی مقام و مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

حمد

جڑے تجھی سے سرا سری داستانوں کا

تو بادشاہ ہے زمینوں کا آسمانوں کا

کنارِ نہر پہ یہ سرکنڈوں کی اونچی قطار

کہ جیسے دوار کھلا ہو نگار خانوں کا

گلاب زاروں میں پنچھی کریں تری توصیف

تو راہ گزاروں میں ساتھی ہے ساربانوں کا

ابھی سمے سے کہو راہ پر جمے نہ تھمے

ہے منتظر ابھی دریا جہاز رانوں کا

پنپ رہا ہے پپیہے کی نرم ’’پی ہو‘‘سے

صدی کے تٹ سے پھسلتا سفر زمانوں کا

                نعت

رنگ مانندِ سحر ، پھول سا چہرہ ہو گا

سوچتا رہتا ہوں میں تجھ کو تو کیسا ہو گا

درشنا تیرے کئی ورشنا دل کی خاطر

دل پپیہے کی طرح پیاسا نراسا ہو گا

دیں کا آئین محمدؐ ہیں تو تزئین حسین

ایسا نانا نہ کوئی ایسا نواسا ہو گا

لوحِ محفوظ ترے نام کی نکہت سے نہال

پستکِ علم پہ تو۔۔۔ تیرا اُجالا ہو گا

دھیان میں بکھرے چٹانوں سے اذانوں کی صدا

دل نے سینے میں رکھا شہرِ مدینہ ہو گا

 اور غزل کے شعر دیکھیے:

دیکھوں تجھے تو روح کا صحرا سلگ اُٹھے

چاہوں تجھے تو تیری لگن میں مٹھاس ہے

______

آ کے اس بن میں کبھی پھر نہ ملے دو پریمی

گھاس پگڈنڈیوں سے جھیل سے کاٹی نہ گئی

______

یاد آیا روح کو تجھ سے بچھڑنے کا وہ پل

پھول کل ایک شاخ پر جب کھل کے مرجھانے لگا

______

زندگی جب بھی کسی شئے کی طلب کرتی ہے

میرے ہونٹوں پہ تیرا نام مچل جاتا ہے

                ناصر شہزاد نے کئی گیت بھی لکھے ۔ناصر شہزاد کے گیت کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں:

لاگی نگر میں ساونی

آری سکھی من بھاونی

لاگی نگر میں ساونی

گرج برج کر بدرا چھایا

ناچا مور پپہیا گایا

رت ساون سہانی

آری سکھی من بھاونی

یونہی بتائے سارے زمانے

پاٹے مدھو بن ،جھنگ مگھیانے

ڈال کہیں اب چھائونی

آری سکھی من بھاونی

سیّد افضال حسین گیلانی

                سیّد افضال حسین گیلانی مراتب علی اختر کے چھوٹے بھائی ہیں۔ 12اکتوبر 1942کو پیدا ہونے والے  سیّدافضال حسین گیلانیپنجابی ، اردو ، عربی اور فارسی زبان پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ان کے شعری مجموعے ’’ونّاں دی چھاں تے سسّی‘‘، ’’بدلے رنگ دھریکاں‘‘ تے ’’آہیں+آڑنگ=آہر‘‘ چھپ چکے ہیں جبکہ آپ کی نثری تخلیقات میں ’’حیات الامیر‘‘ جلد اوّل،دوم، حیات سیّدسیدمحمد سائیں اور حیات حسنین سائیں‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ان کا کلام ماہِ نو، پنجابی ادب، لہراں، مہکاںاور ورولے میں چھپ چکا ہے۔اپنی شاعری کے بارے میں سیّد افضال حسین گیلانی کہتے ہیں:

میں اپنے کلام بارے نہ کجھ آپ آکھنا چاہندا واں تے نہ ہی اپنے لگدیاں توں سننا چاہندا ہاں۔ ایہہ سارا کم جانواں ، بیگانیاں تے دوجیاں لئی چھڈ دِتا ہے۔ اہل دل تے سخن شناس میرے سخناں دی آپ صرافی کر لین گے۔ حسن دی خوبی تاں اوہ اے جہندی سوکن تعریف کرے۔ اپنے موہوں میاں مٹھو بنن دی کی لوڑ اے۔(۱۵)

                سیّد افضال حسین گیلانی کی شاعری کے حوالے سے اُن کی کتاب ’’وناں دی چھاں تے سسّی‘‘ میں شامل ایک مضمون میں سیّد علی ثانی ،ان کی شاعری کو سراہتے ہوئے رقم طراز ہیں:

خیال کی نظامت کے ساتھ ساتھ الفاظ کے نظامت اور تراکیب کی بندش اور نزاکت کمال درجہ کی ہے اور پھر خاص بات یہ ہے کہ جو زبان اس شاعری میں استعمال کی گئی ہے اور کوئی سرکاری درباری نہیں یہ وہ پنجابی نہیں جو لکھی اور پڑھی پڑھائی جاتی ہے اور جس کا تعارف آج کے پنجابی ادب میں کرایا جاتا ہے بلکہ یہ وہ پنجابی ہے جو خالصتاً بولی جاتی ہے۔ اگرچہ اس میں تمام علاقوں کی زبان دانی کا رنگ ہے مگر اس میں ضلع ساہیوال سے لے کر جھنگ کے علاقہ کا اثر خاص طور پر غالب ہے۔ اور اعلیٰ شاعری کا خاصہ یہی ہوتا ہے کہ اس کا لب و لہجہ کتاب کی بجائے کلام سے زیاد مناسبت رکھتا ہو۔(۱۶)

معروف شاعر ناصر شہزاد نے ان کی کتاب ’’کافی اے یار دا ویہڑہ‘‘ میں افضال حسین گیلانی کے بارے میں لکھا ہے:

جب کسی کو اپنا دین اور ایمان بنا لیا جائے تو ایقان و عرفان کی منزل قریب تر ہوجاتی ہے۔ افضال گیلانی نے بالا پیر کے دربار سے اپنے لئے جاودانی قصے کرتا رکئے ہیں۔ جن کی چمتکار اُن کے جیون کے اُن ماہ سالوں کو اپنے محیط میں لئے ہوئے ہے۔ جن کے بسیط ان کی جوانی کے لئیق دنوں تک چلے گئے ہیں۔ بالا پیر کے دربار کے سامنے شمالی سمت کی طرف انہوں نے اپنے بنوائے ہوئے حجرہ میں بیٹھ کر دن رات بالا پیر کو سوچا اور لوچا ہے۔ دن رات ان کے دھیان کو اپنے من کے شبستان سے گزرا ہے۔ ان کے  َبیت دوہے اور کافیاں کہی ہیں۔۔ جو صرف کافیاں ہی نہیں بلکہ پنجابی زبان میں تیز تنک اور خواب ُخنک موشگافیوںکے ساتھ ساتھ انگبیں شعروں کی قندیلیں بھی ہیں اور تاویلیں بھی:

 

دیگر ویلا اے ، وقت کویلا اے

نیڑے شاماں۔۔۔چارے لاہماں

نظراں ماراں میںؤ واٹ نہاراں میں

پیار ترے دا پیا ساہاں میں بھر کے دیویں کاسہ(۱۷)

سیّد افضال حسین کی کافیوں کے چند نمونے:

میریا سچیا مالکا!                     مینوں تیرا آسرا

تیرے بِنا کسے کول نہ                       میرے درداں دا دوا

مرشد توں رب نما                   مینوں تیرا آسرا!

جد وی زمانے دل نوں دکھایا  تیرے پیار نے آن بچایا

واہ واہ لجپایاںتوں نبھائیاں        میریاسچیا مالکا۔۔۔

تینوں شرماں میریا سائیاں       میرے کول نہ کجھ چنگیائیاں

للّٰہ بخشو جو پیاں خطائیاں       میریا سچیامالکا۔۔۔۔

٭٭٭                                       

محمد دا جانی غوثِ جیلانی ایہہ نبیاں دی بن کے ہے تصویر آیا

کفر دے ہنیرے تے شرکاں دے گھیرے دے وچہ پھڑ کے حیدر دی شمیر آیا

 ایہہ سب غوث پیاسے نے تیرے کرم دے

پئے تینوں جھکدے شہنشاہ عجم دے

نبوت رسالت امامت ولایت تے قرآن دی بن کے تفسیر آیا

تیری شان اعلیٰ، تیرا نام بالا

تیرے در دا ذرّہ ہے چن توں نرالا

ایہہ چن تارے ، سورج نے تیرے سوالی ہر اک تیتھوں ہی لے کے تنویر آیا

٭٭٭       

سیّد افضال گیلانی کی داستانِ سسی پنجابی دوہڑوں کی صورت موجود ہے اور خصوصاً دیوڑھ بند کے حوالہ سے آپ بے مثل شاعر سمجھے جاتے ہیں:

نکیر قبر وچہ آن کے پچھدن ، دس کون تیرا کی ناں اے ۔ کہڑی تھاں اے

تیرا رب رسول تے دین کہڑا ، دس پورا پتہ نشاں اے ۔ نال نہاؤں اے

میں قاصد ہاں رب تیرے دا ، میں گھِنناں حلف بیاں اے ۔ جانا تاں اے

افضالؔ سسی ہتھ بنھ کے اُٹھی ، توڑے آیا پنل خاں اے ۔ ٹھارن ہاں اے

 

نازک پیر ملوک سسی دے ، جنہاں بھار حنا نہ چائے ۔ تھل وچہ آئے

حُسن تے جوبن دے پھل کلیاں ، گئے لُو دے وچہ کُرمائے ۔ گئے مرجھائے

کدیں تھک کے باندھی کدیں کوک کے اٹھدی کدی ٹُردی پیر لنگا اے ۔ آبلہ پا اے

افضالؔ شہادت بند بند دیسی ، جیویں سسی وقت لنگھائے ۔ جو سر آئے

 

کامل عشق سسی دا یارو ، ودی تھل وچ بھان بھلیندی ۔ کھوج مریندی

عقل خردکوں چھوڑ دتوسوں ، پئی عشق کوں توڑ چڑھیندی ۔ پریت نبھیندی

ہک ہک کھوج سمجھے کعبہ ، پئی ادبوں طواف کریندی ۔ نفل نِتیندی

ویکھ ایمان افضالؔ سسی دا ، وَدی شتر دے کھوج چمیندی ۔ سجدے ڈیندی

 

نہ پو اس کھاڑے نی سسیے اس عشق دے راہ نی پٹھڑے۔ کئی گئے مُٹھڑے

اس راہ دے وچہ ہن خار ہزاراں کئی گئے ہن راہ وچہ کُٹھڑے۔راہ تو گھتھڑے

بھل ذات صفاتاں عشق دے راہ وچہ ہٹ بیٹھے تے نہ اُٹھڑے۔ سوہنے مکھڑے

افضالؔ وانگوں آباد رہے ہن دردوں ڈھن اپُٹھڑے۔ جان تے رٹھڑے

سیّدسید علی ثانی گیلانی

                سیّد سید علی ثانی مراتب اختر کے بھتیجے اور سید افضال حسین گیلانی کے فرزند ارجمند ہیں اورادب کے پودے کی آبیاری میں مصروف ہیں۔ سید علی ثانی نے مراتب اختر کی سوانح حیات ’’حسبِ مراتب‘‘ کے نام سے لکھی ہے جو 2006میں چھپی۔ تصوف کے بنیادی عوامل پر آپ کی تصنیف 2003میں آئی۔سید موسیٰ پاک شہید کی کتاب ہدایت المریدین کا حاشیہ بھی سید علی گیلانی کی ادیبانہ کاوشوں کا مظہر ہے۔ سید غوث عبدالقادر جیلانی کی سیرت و سوانح حیات ’’انیس المظاہر فی سیرت سید عبدالقادر‘‘ کی تحقیق و تعلیق سیّد سید علی گیلانی کی بہترین ادبی کاوش کی صورت میں 2011ء میں سامنے آئی جو اس وقت تک سیرت کی جدید ترین کتاب ہے اور بیک وقت سیرت، سوانح اور تنقید کی مٹھاس لئے ہوئے ہے۔ آپ ادارہ صوت ہادی بھی چلا رہے ۔

صوتِ ہادی

                صوتِ ہادی اصل میں ایک ادبی پرچہ تھا جو مراتب اختر کے والد ِمحترم اورسیّد سید علی ثانی کے داداحضور سید محمد حسین گیلانی نے شروع کیا اور کچھ عرصہ بعد بوجوہ بند ہوگیا۔ سیّد سید علی گیلانی نے صوتِ ہادی پرچہ بھی دوبارہ شروع کیا اور اسے ایک ادارہ کا رنگ دے کر کئی کتب بھی چھاپیں ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ صوت ہادی نے 5 خاص شمارے شائع کئے ہیں اور12کتب شائع کرنے کا اعزازبھی اس ادارے کو حاصل ہے۔ بلاشبہ یہ سیدعلی گیلانی کی ادب دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

سیّد عون الحسن غازی

                سیّد عون الحسن غازی مراتب اختر کے بھانجے ہیں اور معروف شاعر اور ادیب ہیں۔ انہوں نے مراتب اختر پر ایک کتاب ’’نقد مراتب‘‘ 2004میں ترتیب دی اور مراتب اختر پر مجید امجد، افتخار جالب، ڈاکٹر سید محمد زکریا، ظفر اقبال، انور سدید، تبسم کاشمیری، ڈاکٹر گوہر نوشاہی، اور جعفر شیرازی جیسی معروف شخصیات کے مراتب کے فن وشخصیت کے حوالہ سے مضامین کو یکجاکر کے شائع کیا۔

                عون الحسن کے بارے میں معروف ادیب و نقاد زاہد حسن لکھتے ہیں:

سید عون الحسن غازی جواں سال شاعر ہیں اور ان کی نظموں میں ان کے شباب کی آرزو مندیوں کاخون جوش مارتا نظر آتاہے۔ لیکن یہ آرزو مندی جب درد مندی میں تبدیل ہو جاتی ہے تو تخلیق جنم لیتی ہے۔ تخلیق شاعری کی صورت میں اور تخلیق نثر کی صورت میں۔ عون الحسن غازی دونوں اصناف میں اظہار کرتے ہیں اور ان کی نظموں کے مطالعہ سے یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ وہ معاصر عہد کی سیاسی ، سماجی اور تہذیبی صورتوں کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی نظم ’’بنجر ذہنوں کے اسیر‘‘ اس امر کی غماز ہے کہ انہیں موجودہ عہد کی معاصر صورت حال کاکماحقہ ادراک ہے وہ کہتے ہیں:۔

آج ہوا کا رخ کس طرف ہے۔۔۔ آج بادل کہاںجا کر برسیں گے۔۔ سب لوگ یہی بات۔۔۔ ہر روز کیا کرتے ہیں۔(۱۸)

                عون الحسن غازی کی شاعری نظموں کے مجموعہ کی صورت میں ’’سیاہ آسمان میں‘‘  کے نام سے 2007میں چھپ چکی ہے۔ عون الحسن غازی کی نظموں کے کچھ نمونے یہ ہیں:۔

فراق

آج قمری مہینے کی چودہ ہے

آج پھر چاند آسمان پر جگمگائے گا

ہاں! یہی تو رات تھی

اس سے بچھڑے جانے کی

ہاں۔۔۔!

آج پھر اس کی یاد میں

دل آنسو بہائے گا

بازگشت

کچھ نہ کہنا مجھے

کہ آج کل میرے بس میں کچھ نہیں ہے

جب شام

سرمئی چادر اوڑھ لیتی ہے

تمہاری کہی ہوئی ہر بات

میرے لیے

کانٹوں کی سیج بن جاتی ہے

اندازِ گفتگو

پھر ہونے لگی ہیں تنہائی سے باتیں

پھر گزرنے لگی ہیں خاموش راتیں

راتیں۔۔۔!

چیت کی چاندنی راتیں

 

 

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات

 

۱۔            محمدطاہرحسین قادری،(ایڈیٹر)،ماہنامہ ’’آئینہ کرم‘‘ جھنگ ،شمارہ ۳۳،جون۲۰۱۲ئ،ص۱۳

۲۔            افضال حسین گیلانی، سیّد، حیات الامیر( جلد اوّل)،  شیخوشریف: ادارہ صوتِ ہادی،۲۰۰۶ئ، ص۵۳

۳۔            محمدطاہر حسین قادری(ایڈیٹر)، ماہنامہ آئینہ کرم، محولہ بالا، ص ۱۴

۴۔            افضال حسین گیلانی،سیّد،حیات الامیر(جلد اوّل)، ص۳۷

۵۔            سیدعلی ثانی گیلانی،سیّد،شجرۃ اشراف، ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۳ئ،ص ۱۰۰

۶۔            اصغر علی گیلانی لاہوری،سیّد،شجرۃ انوار، (قلمی نسخہ)، شیخوشریف:  گیلانی لائبریری،ص۱۴۸

۷۔            افضال حسین گیلانی،سیّد،سوانح حیات سید حسن بخش المعروف حسنین سائیں،ص۱۴

۸۔            افضال حسین گیلانی،سیّد،حیات الامیر (جلد دوّم)،محولہ بالا،ص۴۱

۹۔            افضال حسین گیلانی، سیّد،حیات سیّد سید محمد گیلانی، شیخوشریف: ادارہ صوتِ ہادی،ص۳۳

۱۰۔          ایضاً،ص ۶۱

۱۱۔          سیدعلی ثانی، سیّد(ایڈیٹر)، سہ ماہی صوت ہادی(ناصر شہزاد نمبر، جنوری تا مارچ)،۲۰۰۹ئ،ص ۵۰

۱۲۔          ایضاً،ص ۲۵

۱۳۔          ایضاً،ص ۶۷

۱۴۔          ایضاً،ص ۶۵

۱۵۔          افضال حسین گیلانی، سیّد، کافی اے یار دا ویہڑا، شیخوشریف:  ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۹ئ،ص۱۷

۱۶۔          افضال حسین گیلانی، وناں دی چھاں تے سسی،ص ۱۱

۱۷۔          افضال حسین گیلانی، سیّد، کافی اے یار دا ویہڑا،ص ۲۸

۱۸۔          عون الحسن غازی، سیاہ آسمان میں، شیخوشریف: ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۷ئ،ص ۱۴

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...