Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مراتب اختر شخصیت و فن > ۔ مراتب اخترکا توقیت نامہ

مراتب اختر شخصیت و فن |
مہکاں پبلشرز
مراتب اختر شخصیت و فن

۔ مراتب اخترکا توقیت نامہ
ARI Id

1688721480270_56116764

Access

Open/Free Access

Pages

69

مراتب اختر کا توقیت نامہ

                ساہیوال کی دھرتی جہاں اس بات پہ نازاں ہے کہ مولانا عطا اللّٰہ جنون، مولانا عزیز الدین عظامی، حفیظ جالندھری، مجید امجد، منیر نیازی اور گوہر ہوشیارپوری جیسے نامور شعراء نے یہاں قیام کیا وہاں حاجی بشیر احمد بشیر، ناصر شہزاد، جعفر شیرازی، احسن شیرازی اور یٰسین قدرت کے علاوہ مراتب علی اختر کو بھی اسی دھرتی نے جنم دیا۔

                سید مراتب علی اختر8مئی 1940کو پیدا ہوئے۔ چار بھائیوں اور پانچ بہنوں میں ساتویں نمبر پر آتے تھے۔ ایک بہن اور ایک بھائی آپ سے چھوٹے تھے۔میونسپل کمیٹی پرائمری سکول ایف برانچ سے ابتدئی تعلیم حاصل کی اور میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال سے پاس کیا۔ آپ کی تاریخ پیدائش کے حوالہ سے اختلاف پایا جاتا ہے۔ آپ کے چھوٹے بھائی سیّد افضال حسین گیلانی لکھتے ہیں:۔

ہم دونوں بھائیوں کی عمروں کا درمیانی وقفہ صرف چار سال کا تھا۔ گھرمیں ہم اوپر تلے کے بھائی گنے جاتے تھے۔ غور کیجئے بھلا بڑائی چھوٹائی کا یہ کوئی اتنا بڑا فرق ہے؟ یہ عمریں تو ہم جولیوں اور لنگوٹیے یاروں کی ہوتی ہیں۔ لیکن۔۔۔ حسبِ مراتب وہ اول دن ہی سے ’’بہت بڑے ‘‘ اور میں بہت چھوٹا تھا۔

امی حضور سے سنا تھا کہ جب بھائی جان چھ ماہ کے تھے تو انتہائی نحیف اور دبلے پتلے تھے۔ آپ کو حضرت بابا جی صوفی احمد شاہ صابر علیہ الرحمت کی خدمت میں پیش کیا گیا جو میرے نانا کے چھوٹے بھائی تھے اور خاندان بھر کے مرشد تھے۔ بلکہ گیلانی سادات کے مقتدر گھرانوں کے پیروپیشواتھے۔ اللّٰہ کے سچے اور مقبول بندے تھے۔ آپ نے بچے کی کمزوری اور ناتوانی کو دیکھتے ہوئے تبسم فرمایا۔ دم کیا اور پھر زیر لب گویا ہوئے۔ ’اس کو بیمار یا کمزور نہ سمجھو۔ اللّٰہ اس کو بہت مرتبے عطا فرمائے گا۔اس کو مراتب غوث کے نام سے پکارا کرو‘۔۔۔ واقعی! حقاً و مصدقاً اس دعا کی مقبولیتِ بارگاہ کی تصدیق ، بھائی جان مراتب کی پوری حیاتی ہے اور ان کے دوست احباب، ہم درس و ہم مکتب، عقیدت مند اور اہل خاندان سب ہی اس حقیقت کے گواہ ہیں۔(۱)

                مراتب اختر کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے درج بالا سطور پڑھنے کے بعد شکوک و شبہات اس لئے پیدا ہو جاتے ہیں کہ حضرت بابا جی احمد شاہ صوفی کی مصدقہ تاریخِ وفات ۱۱ رجب المرجب ۱۳۶۰ھ مطابق ۱۹۳۹ء ہے۔۲() اس لحاظ سے یہ بات واضع ہے کہ مراتب اختر ۱۹۳۹ء سے قبل پیدا ہوئے۔

                اُن کی مذکورہ تاریخ پیدائش ان کے شناختی کارڈ اور تعلیمی اسناد کے مطابق درج کی گئی ہے۔(۳)

                سیّد مراتب علی اختر گیلانی سادات میں سے تھے۔ آپ کے والد محترم سیّد محمد حسین گیلانی خود تو شاعر نہ تھے مگر اردو، عربی  اور فارسی پر عبور تھا۔ انہوں نے ایک رسالہ ’’صوت ہادی‘‘ بھی جاری کیا جو ان کی ادب پروری اور علم دوستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس سلسلہ میں سیّد افضال گیلانی لکھتے ہیں:۔

ہمارے والد قبلہ فارسی ادب کے فاضل دانندہ تھے۔ سعدی، رومی اور فریدالدین عطار کے ادب و کلام پر بے تکانی گفتگو اور درس فرمایا کرتے تھے۔(۴)

                سید مراتب علی اختر سیّد عبدالرزاق داتا شاہ چراغ لاہوری کی اولاد میں سے ہیں اور آپ کا سلسلہ نسب غوث بالا پیر سیّد بندگی محمد غوث اچوی اور سیّد عبدالقادر جیلانی سے ہوتا ہوا 33ویں پشت میں حضرت علی مرتضیٰؓ سے جا ملتا ہے۔سیّد مراتب علی اختر 19اکتوبر 1971کو رشتہ ازواج سے منسلک ہوئے۔ اور ستمبر1974میں آپ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ جو چند دنوں کے بعد خالقِ حقیقی سے جا ملا۔آپ کے اہلِ خانہ اور عزیزو اقارب نے عقدِ ثانی کا مشورہ دیا لیکن آپ نے انکار کر دیا اور لاولد فوت ہوئے۔ آپ کا شجرئہ نسب کچھ اس طرح ہے:

سیّدمراتب علی اختربن سیّدمحمد حسین گیلانی بن سیّد سید علی گیلانی بن سیّدفضل علی شاہ بن سیّدسید محمد سائیں بن سیّدحسن بخش المعروف حسنین سائیںبن سیّدامام حیدر بخش بن سیّداللّٰہ بخش بن سیّداسماعیل بن سیّدعبدالرزاق داتا شاہ چراغ لاہوری بن سیّدعبدالوہاب بن سیّدعبدالقادر ثالث بن سیّدمحمد غوث بالا پیر بن سیّدزین العابدین بن سیّدعبدالقادر ثانی بن سیّدبندگی محمد غوث اچوی حلبی بن سیّدشمس الدین محمد حلبی بن سیّدحسن شاہ میر میراںبن سیّدضیاء الدین علی بن سیّدنورالدین مسعود غازی بن سیّداحمد گنج بخش بن سیّدصفی الدین صوفی بن سیّدسیف الدین عبدالوہاب بن سیّدالسادات محی الدین عبدالقادرجیلانی بن سیّدابو صالح موسیٰ جنگی دوست بن سیّدعبداللّٰہ ثالث الجیلی بن سیّدیحییٰ الزاہد بن سیّدمحمد الرومی بن سیّددائود الامیر بن سیّدموسیٰ ثانی بن سیّد عبداللّٰہ ثانی بن سیّدموسیٰ الجون بن سیّدعبداللّٰہ المحض بن سیّدامام حسن المثنیٰ بن سیّدامام حسن المجتبیٰ بن سیّدعلی المرتضیٰ(۵)

مراتب اختر کے ابتدائی زمانۂ طالب ِعلمی کے حوالہ سے ان کے بھائی سیّد افضال حسین گیلانی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:

میونسپل پرائمری اسکول ایف برانچ محلہ فرید گنج اور محلہ عید گاہ(دونوں محلوں کے درمیان واقع تھا) کے ہیڈ ماسٹر محمد صادق صاحب مرحوم بھائی جان کے انتہائی مشفق استاد تھے۔ بعد میں یہ احقر بھی اُن سے پڑھتا رہا۔ مقفیٰ و مسجع گفتگو کے علاوہ برجستگی اُن کے روز مرہ کی بات چیت کا نمایاں انداز تھا۔ اسی پرائمری اسکول کے ایک دوسرے استاد ’ضیائ‘ صاحب پورا نام معلوم نہیں۔ ویسے بڑے مہربان محبت کرنے والے استاد تھے۔ نوجوان خوبصورت خوش لباس اور ماڈرن قسم کے اپ ٹو ڈیٹ ٹیچر تھے۔ بچوں پر رُعب نہیں جھاڑتے تھے اور نہ ہی سخت کلامی سے حکم چلاتے بلکہ زبان حال سے نرم نگاہوں سے فہمائش کرتے کہ دیکھو جس طرح میں ہوں ایسا بننے کی کوشش کرو۔ (۶)

                سیّد مراتب علی اختر نے پرائمری کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال میں داخلہ لیا۔ یہ ادارہ اس وقت بھی علاقہ کے اہم اداروں میں ایک تھا اور یہاں کے شاندار نتائج اور محنتی اساتذہ کا شہرہ دور دور تک تھا۔طلبا کی ذہنی آبیاری کرنے والے یہ اساتذہ نہ صرف نصابی کتب کی طرف توجہ دیتے تھے بلکہ ہم نصابی سرگرمیوں میں خصوصاًتقاریر اور شعروشاعری سے دلچسپی رکھنے والے طلباء کی خصوصی طور پر رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔

                جب بچپن سے لڑکپن کی سرحدیں ٹکرانے لگتی ہیں تو اس وقت دل میں کئی نئے ولوے اُٹھنے لگتے ہیں۔ اس وقت مناسب ماحول اور بہترین تربیت کرنے والے اساتذہ کی بہت ضرورت ہوتی ہے تاکہ جذبات مثبت انداز میں پروان چڑھ سکیں۔ مراتب اختر کو بھی گورنمنٹ ہائی سکول میں اساتذہ کی ایسی کھیپ میسر آئی۔جس کا ذکر سیّد افضال گیلانی یوں کرتے ہیں:

گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال کے دن بھی نہیں بھولتے ۔ بھائی جان دسویں درجہ کے آخری سال میں تھے اور میں چھٹی میں داخل ہوا۔ ماسٹر احمد خان صاحب ہیڈماسٹر تھے۔ ان کے ریٹائر ہونے کے بعد شیخ محمد عبداللّٰہ صاحب ہیڈماسٹر بنے۔ بھائی جان پر خصوصی محبت اور توجہ فرمانے والے استاد قاضی عبدالحمید صاحب ، جناب عابد حسین صاحب، رانا غلام مرتضیٰ صاحب اور بابا خورشید عالم صاحب تھے۔ جناب عابد حسین صاحب اردو، فارسی کے لیے بہت لائق فائق استاد تھے۔ ویسے عربی اور خصوصاً فارسی کی شُد بُد تو ہمیں اپنے گھریلو ماحول ہی سے حاصل تھی۔۔۔ انہیں ایام میں یعنی گورنمنٹ سکول کے دسویں جماعت کے سال میں بھائی جان کی شناسائی پروفیسر الف۔دال نسیم صاحب سے ہوگئی۔ ان کو اکثر احباب اور طلباء اے ڈی نسیم کے معزز نام سے بھی پکارتے تھے۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال کے سینئر اور لائق ترین اساتذہ میں شمار تھا۔ بھائی جان پر بڑے مہربان اور فریفتہ تھے۔ بھائی جان نے میٹرک اعلیٰ اور نمایاں میرٹ سے پاس کیا۔(۷)

                کالج کی زندگی ایسا دور ہوتا ہے جہاں پر باطنی صلاحیتوں میں نکھار آتا ہے۔ طلباء سکول کے گھٹن زدہ ماحول سے آزاد ہو کر ایک ایسے ماحول میں آتے ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی رہنمائی کے علاوہ نسبتاً وسیع پیمانے پر ادبی ماحول میسر ہوتا ہے۔ یہ وہ دورانیہ ہے جب نوجوان اپنی منزلیں متعین کرتے ہیں اور خواہشات کو عملی روپ دینے کا آغاز کرتے ہیں۔مراتب اختر کو گورنمنٹ کالج ساہیوال میں بوجوہ داخلہ نہ مل سکا تو انہوں نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے لیے گورنمنٹ کالج اوکاڑہ میں داخلہ لے لیا۔ جہاں آپ کو پروفیسر صابر لودھی جیسے استاد سے مستفیض ہونے کا موقع ملا اور چھ ماہ بعد ہی آپ نے پروفیسر صابر لودھی کی مشاورت سے اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں مائیگریشن کروالی۔ پروفیسر صابر لودھی مراتب اختر کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:۔

میرا اُس سے عجیب انداز میں تعارف ہوا۔ 1958میں میونسپل کالج اوکاڑہ کی بنیاد رکھی گئی۔ مجھے اردو پڑھانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اُس وقت انٹرمیڈیٹ کی سطح پر اردو زبان لازمی نہیں ہوئی تھی۔ آپشنل کے طور پر پڑھائی جاتی تھی۔ دیوان غالب کی ردیف’’ی‘‘ نصاب میں شامل تھی۔ مجھے پڑھانے کا شوق تھا غور و فکر کی عادت بہت کم تھی۔ میں نے زور شور سے پڑھانا شروع کیا۔ پختہ عمر کے ایک طالب ِعلم نے کسی لفظ کے معنی پوچھے۔ میں نے بتا دئیے۔ چھوٹے قد کا ، سانولے سے رنگ والا یہ طالب ِعلم مجھے سمجھ دار معلوم ہوا۔ اُس کے بعد تین چار دن تک کسی نے کوئی سوال نہ کیا۔ میں نے غالب پڑھاتے ہوئے دوسرے شاعروں کے شعر بھی سنائے۔ اس طالب ِعلم کے سوا کسی نے داد نہ دی۔ پسندیدگی کے طور پر سر نہ ہلایا۔۔۔ میں نے طالب ِعلم سے اس کا نام پوچھا۔ اس نے جواب دیا۔ ’مراتب اختر‘، ’مراتب اختر ۔۔۔شاعر‘ ، ’جی ہاں۔ ۔۔‘ اور پھر خاموشی چھا گئی۔(۸)

                لاہور اگرچہ عرصۂ دراز سے ادبی سرگرمیوں اور تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے مگر قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے بھی بہت سارے شعراء و ادباء کی آمد نے اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ادبی سرمایہ میں مزید اضافہ کیا ہے۔ نوجوان نسل بھی اس ماحول سے نہ صرف متاثر ہوئی بلکہ مستفیض ہوئی۔ ضیاء جالندھری، ناصر کاظمی، احمد مشتاق اور منیر نیازی جیسی ہستیوں کے ہوتے ہوئے ادبی پرچوں اور مشاعروں کی فضا پیدا ہوئی ۶۰ کی دہائی تک پہنچتے پہنچتے گورنمنٹ کالج لاہور ، اسلامیہ کالج ، ایم اے او کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں ادب کی آبیاری کا ایسا ماحول پیدا ہو چکا تھا جہاں سے فارغ التحصیل طلباء ادبی دنیا کا قیمتی اثاثہ ثابت ہوئے۔

                مراتب اختر جب اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے تو وہیں رہائش اختیار کرنا پڑی۔مراتب اختر کے لاہور کے قیام کے دوران کئی اہم ادیبوں اور شاعروں سے روابط رہے اور بعض سے دوستانہ تعلقات بھی۔ وہ ادبی محفلوں کی جان تھے۔ اُن کے ساتھ بیتے دنوں کا ذکر ڈاکٹر گوہر نوشاہی یوں کرتے ہیں:

مراتب اختر اور میں دو سگے بھائیوں کی طرح کئی برس ساتھ رہے۔ میرے گھر میں وہ افراد خانہ کی طرح جانے جاتے تھے۔ وہ میرے ان چند بلکہ دو چار دوستوں میں سے ایک تھے جنہیں میرے گرامی قدر والد اپنی اولاد کی طرح چاہتے تھے۔ بی۔اے تک ہم اکٹھے رہے ، مراتب اختر کا قیام لوہاری دروازے کے اندر ایک تنگ و تاریک گلی میں ان کے والد گرامی کے ایک ارادت مند کے گھر میں تھا۔ ہم جماعت اور ہم ذوق ہونے کے علاوہ مراتب سے قربت کا ایک رشتہ یہ بھی تھا کہ ہم دونوں اہل روحانیت اور درویشوں کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت نوشہ گنجِ بخش کے حوالے سے ہم بھی قادری سلسلے سے متعلق تھے اور مراتب اختر بھی گیلانی قادری منزل والے شیخو شریف کے سجادہ نشین کے صاحبزادے تھے۔ میرے والد صاحب اس حوالے سے مراتب اختر کو بہت پسند کرتے تھے۔(۹)

                اسلامیہ کالج کے زمانہ میں مراتب اختر کا ادب کے جن طالب علموں سے واسطہ پڑا ۔ جن نئے لکھنے والوں سے تعلقات بنے اور جن لوگوں کے ساتھ مل کر انہوں نے ادبی محفلیں سجائیںان میں تبسم کاشمیری بھی تھے۔ تبسم کاشمیری سے مراتب اختر کی ملاقات کا اہتمام گوہر نوشاہی نے کیا تھا۔ جو مراتب اختر اور تبسم کاشمیری کے مشترکہ دوست تھے۔ تبسم کاشمیری اس پہلی ملاقات کے بارے میں لکھتے ہیں :

پہلی ہی ملاقات میں مجھے محسوس ہوا کہ ان سب لوگوں سے مراتب اختر کی غزلوں میں جدت اور نئے پن کا احساس زیادہ ہے۔ اس کی شگفتگی اور جمالیاتی طرز احساس یقینامتاثر کرنے والا ہے۔ مجھے غزل سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی مگر اس کی غزل کا لب و لہجہ منفرد تھا اور کلاسیکی روایت سے ہٹا ہوا بھی تھا۔ 1960ء کے آس پاس کے دور تک کلاسیکی روایت غزل پر بری طرح حاوی تھی۔ موجودہ زمانے میں ہم جس نئی غزل کو دیکھتے ہیں اس زمانے میں غزل کا یہ رنگ و آہنگ نہایت خاموشی سے جدید نظم سے متاثر ہو کر اپنے نئے شعری وجود کو تلاش کررہا تھا۔ مراتب کی غزلیں سن کر یوں لگا تھا کہ وہ مستقبل کی نئی غزل کا شاعر ہے۔ واقعتا ایسا ہی تھا۔ کاش زمانے کی گردش اسے موقع دیتی ، اسے یک سوئی اور طمانیت قلبی حاصل ہوسکتی اور تسلسل کے ساتھ شاعری کر سکتا تو یقینا وہ ہمارے دور کا ایک بڑا نام بن سکتا تھا۔ مگر دُکھ یہ ہے کہ زمانے کے ستم کے ہاتھوں وہ دل جمعی سے شاعری نہ کر سکا۔(۱۰)

                ان دنوں اسلامیہ کالج لاہور میں ہونے والی ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ اور ملک بھر میں ان سرگرموں کو قابل تحسین سمجھا جاتا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت کے لاہور کے ادبی ماحول میں اسلامیہ کالج سول لائنز پورا دبستان تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کالج میں نوجوان شاعر اور ادیب ادب کی مختلف صنفوں میں نہ صرف اپنے آپ کو متعارف کروا رہے تھے بلکہ اپنے فن کا لوہا منوا رہے تھے اور بلاشبہ یہ سب کالج کے اساتذہ کی وجہ سے ہی ممکن تھا۔ اسلامیہ کالج سول لائنز کے اس دور کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری کہتے ہیں:

اسلامیہ کالج کے وہ ایام یادگار تھے۔ جب 1960ء میں گوہر نوشاہی، صابر کیفی، وحید اطہر، رائوارشاد، مراتب اختر، ذوالفقار احمد، زاہد فارانی اور راقم الحروف سول لائنز میں پڑھتے تھے۔ ہر ہفتے پروفیسر سجاد باقر رضوی کی سوسائٹی ’’ینگ رائٹرز‘‘ کا زور دار اجلاس ہوتا تھا۔ اس میں فاروق حسن، سجاد شیخ، شمشاد احمد، علی تجمل واسطی (مرحوم) اور دوسرے سینئر ساتھی شریک ہوتے تھے۔ باقر صاحب نے پروفیسر حمید احمدخاں کے تعاون سے ایک ایسی تنظیم تشکیل کی تھی کہ جو نوجوان لکھنے والوں کی ایک زرخیز تربیت گاہ کا درجہ حاصل کر گئی تھی۔ اس دور میں منیر نیازی نے ایک ادبی کالم حنیف رامے کے ماہوار رسالے ’’نصرت‘‘ میں شروع کیا تھا۔ سول لائنز کالج سن ساٹھ کی دہائی میں نئی شاعری اور نئی تنقیدکا مرکز بن رہا تھا اور اس کے اعتراف میں منیر نے یہ لکھا تھاکہ شاعری پہلے گورنمنٹ کالج میں پید ا ہوتی تھی۔ مگر اب وہ گیٹ بدل کر سول لائنز میں داخل ہوگئی ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ اعزاز سول لائنز کالج کو مراتب اختر جیسے نوجوان شعراء کے طفیل ہی حاصل ہوا تھا۔(۱۱)

                ہمارے معاشرے میں والد کی وفات کے بعد بھائیوں میں انتشار نئی بات نہیں ہے۔ شاید ازل سے ہی ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ ویسے بھی والد، والدہ یا کسی قریبی عزیز کی وفات ایک ایسا سانحہ ہے جس سے انسان وقتی طور پر ضرور مفلوج ہو جاتا ہے۔ مگر بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جس کی کمی زندگی بھر محسوس ہوتی ہے اور شاعر تو اس طبقہ فکر سے تعلق رکھتا ہے جو دوسروں کے غموں سے بھی ضرور متاثر ہوتا ہے۔خنجر کہیں چلیں زخمی ان کے جگر ہوتے ہیں۔ مراتب اختر کے والد کی وفات کے بعد ان کی زندگی بھی متاثر ہوئی۔ وہ بجھے بجھے سے رہنے لگے۔ گھریلو مسائل ، خاندانی معاملات اور دیگر ذمہ داریوں کے سبب وہ تعلیم کی جانب پوری توجہ نہیں دے پا رہے تھے ۔ پھر ایسا وقت آیا کہ آپ لاہور کو خیر باد کہہ کر ساہیوال آ بسے اور تعلیم کا سلسلہ نا مکمل چھوڑ دیا۔ مگر یہاں آ کر بھی انہوں نے کسی نہ کسی طرح ادب سے رشتہ جوڑے رکھا اور مسلسل لکھتے رہے بلکہ ملک کے نمائندہ ادبی جرائد میں ان کا کلام متواتر چھپتا رہا۔ فنون اور اوراق میں تو ان کا کلام (نظم و غزل) باقاعدگی سے چھپتا تھا۔ ان کی لاہور سے ساہیوال منتقلی کے حوالے سے ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں:۔

بی۔ اے (1960-62ئ)کی تعلیم کے دوران میں مراتب آہستہ آہستہ پریشان نظر آنے لگا تھا۔ اس کی ہنسی اور قہقہے نامعلوم طور پر پھیکے پڑنے لگے تھے۔ وہ شخص جو زندگی کی سرگرمیوں سے ہمیشہ مسرور نظر آتا تھا اب اکثر غم زدہ دکھائی دینے لگا تھا۔ میری سمجھ سے یہ سب کچھ باہر تھا کہ آخر ایسا کیوں ہورہا ہے۔۔۔؟ تعلیمی سیشن کے دوران ہی وہ کبھی کبھی ساہیوال کا رخ کرتا اور کئی کئی دن کالج سے غائب رہتا۔ مجھے تشویش ہونے لگی تھی کہ اس روش سے وہ اپنا سال برباد کر لے گا۔ درمیان میں وہ دوبارہ کالج میں آجاتا تھا لیکن اس کی زندگی میں اب باقاعدگی نظر نہ آتی تھی۔ میں سمجھنے لگاتھا کہ شاید کسی رومانس کی نذر ہو گیا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مسئلہ کو بہت ذاتی اور داخلی خیال کر کے اس سے کچھ پوچھنے کی کبھی ہمت نہ کی۔ پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب وہ دوستوں سے مل کر ساہیوال گیا ہم سمجھتے تھے کہ ہفتے عشرے میں لوٹ آئے گا۔ میں اُسے مسلسل یاد کرتا رہا۔ سب دوست مسلسل اس کا ذکر کرتے رہے مگر وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے پھر لوٹ کر نہ آیا۔ میں پریشان ہو کر اسے خط پہ خط لکھتا رہا۔ جواب آتا کہ آرہا ہوں۔ مگر وہ نہ آسکا۔ (۱۲)

                گھریلو حالات ، معاشی مجبوریاں اور وقتی پریشانیاں خواہ جتنی بھی شدید ہوں کسی شاعر یا ادیب کی اس خواہش کو نہیں دبا سکتیں کہ اس کا کلام عوام اور قارئین تک نہ پہنچے۔ مراتب اختر کے سینے میں بھی جوان دل دھڑکتا تھا اور ان کی شاعری کو بھی لوگ بہت پسند کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے شعری مجموعوں کی اشاعت میں گہری دلچسپی لی۔ ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’جنگل سے پرے سورج‘‘ کی اشاعت کے حوالے سے مراتب اختر کے دوست ڈاکٹر تبسم کاشمیری یوں بیان کرتے ہیں:

1962ء کے آخر میں ہی اس نے اپنا مرتب کردہ پہلا شعری مجموعہ ’’جنگل سے پرے سورج‘‘ میرے سپرد کیا اور کہا کہ اس کی اشاعت کا اہتمام کرو۔ میں نے اس مجموعے کی کتابت ایک عمدہ کاتب سے کروائی اور اپنے دوست امان عاصم صاحب (مکتبہ ادب جدید لاہور) کو اشاعت کے لیے مواد فراہم کیا۔وہ اس مجموعے کی اشاعت کے لیے بے قرار تھا اور مجھے مسلسل ہدایات ارسال کرتا رہتا تھا۔ حسن اتفاق سے اس وقت 10جنوری 1963ء کا ایک خط میرے پاس موجود ہے اس نے اشاعتی امور کے بارے میں مجھے یہ باتیں لکھی تھیں۔

غزلیں جس ترتیب سے چاہو شامل کر لو۔ یہ ایک ہی وقت کی پیداوار ہیں۔۔۔ ٹائٹل بہرکیف سہ رنگا ہو۔ اسے ہر ممکن کوشش سے خوبصورت بنانا۔ میں ذاتی طور پر کوئی آئیڈیا آرٹسٹ پر ٹھونسنا نہیں چاہتا۔ آپ کتابوں، ٹائٹلوں کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں یا عباس اطہر کو ساتھ ملا لیں، یعنی کوئی آئیڈیا اس سے پوچھ لیں۔(۱۳)

                60کی دہائی میں ساہیوال میں اردو ادب نے نمایاں ترقی کی ۔ بزمِ قمر کے ماہانہ مشاعرے ، جوگی ہوٹل اور کیفے ڈی روز کسی طرح بھی لاہور کے ’’پاک ٹی ہائوس‘‘ سے کم نہ تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مجید امجد، گوہر ہوشیار پوری، ڈاکٹر الف د نسیم ، قیوم صبا اور سجاد میر جیسے نامور شعراء نے ساہیوال کو مثالی ماحول میسر کر رکھا تھا۔ مراتب اختر نے بھی اپنے آپ کو اس ادبی ماحول کا حصہ بنا لیا۔ ان کے انہی شب و روز کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بھانجے عون الحسن غازی لکھتے ہیں :

ساہیوال میں ان کی محفلیں مقبول عالم میڈیکوز کے پروپرائیٹر خورشید عالم کے یہاں جمتی تھیں۔ جہاں قیوم صبا، حافظ عبدالرحمن، مسعود حیدر بخاری، انوارالحق اور سجاد میر وغیرہ شرکت کیا کرتے تھے۔(۱۴)

                پھر ایک وقت آیا کہ آپ نے شعر وشاعری سے بھی کنارہ کشی اختیار کر لی اور مکمل طور پر صوفیانہ روش اختیار کر لی اور اپنے آبائو اجداد کی طرح تبلیغ دین میں مصروف ہو گئے۔ عون الحسن غازی اس بارے میں کہتے ہیں :۔

بعد کی زندگی میں ان کا رجحان زیادہ مذہب اور تصوف کی طرف ہو گیا۔ انہوں نے اپنی داڑھی سنت ِنبوی ﷺ کے مطابق بڑھا لی اور ذکر و فکر میں مشغول رہنے لگے۔ وہ عظیم شاعر جس کا اٹھنا بیٹھنا مجید امجد، خواجہ زکریا، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، گوہرنوشاہی، جیسے لوگوں میں تھا انہوں نے ادب سے تمام دلچسپیاں سمیٹ کر (رول بیک کر کے) گھر بھر کی کفالت اپنے سر لے لی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں خلق خدا سے ’’غوث‘‘ کا لقب حاصل کرنے والے اس عظیم انسان نے اپنی زندگی کے فکری، فنی، اور شخصی خصائص کو اپنے خاندان میں تقسیم کر دیا۔(۱۵)

                ایک کامیاب ادیب کی یہ خوبی ہے کہ وہ کتب بینی سے اپنا رشتہ نہیں توڑتا ۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس آدمی کا جتنا زیادہ مطالعہ ہو گا اسے اپنا مافی الضمیر اور مُدعا بیان کرنے پر بھی دسترس ہو گی۔ سید مراتب علی اختر کے کلام کے مطالعے کے بعد یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ انہیں نہ صرف اردو بلکہ انگریزی ، عربی اور فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ اور ان کے کتب خانہ میں ان علوم کی کتب کا ذخیرہ بھی موجود تھا۔ اس حوالے سے ان کے بھتیجے سیّد سید علی گیلانی لکھتے ہیں:

بہرحال ان کی تعلیم جس معیار کی بھی ہو ان کو چار زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ میں نے ان کے کتب خانہ کو ’الف تا یا‘ دیکھا زیادہ تر کتابیں اردو ادب کی ہیں جن میں بیشتر آج کل نایاب ہیں اور اس کے بعد دوسرا بڑا ذخیرہ فارسی ادب کا ہے جس میں مثنوی مولانا روم، حضرت سعدی و خسرو، حضرت اقبال کا فارسی کلام اس کے علاوہ دیوانِ انوری، دیوان حافظ شیرازی، رباعیات عمر خیام، دیوان قصاب کاشانی، جامی ، فریدالدین عطار، حکیم سنائی، ابوالمجد، مجدودبن آدم اور مرزا غالب کی 234 فارسی غزلوں پر مشتمل کتاب اور دوسری لاتعداد کتب موجود ہیں۔ تیسرا اور سب سے بڑا حصہ انگریزی ادب کا ہے جس میں بے شمار ناولFiction،Dramaموجود ہیں۔ ان کتب کی تعداد دوسری کتب کی نسبت زیادہ ہے اور پھر جا بجا کشیدہ خط اور الفاظ کی Definationاس بات کی متقاضی ہے کہ انہوں نے ان کو بغور پڑھ رکھا ہے۔ شاید اسی لئے ان کی شاعری انگریزی ادب سے متاثر ہے۔(۱۶)

                سیّد مراتب علی اختر انتہائی ملن سار شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا ایک مرید شہامند خاں بلوچ جو دریا راوی کے کنارے گائوں داد بلوچ کا رہائشی تھا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور کبھی میرے گھر بھی تشریف لائیں۔ آپ نے آنے کا وعدہ کیا اور حسب ِوعدہ داد بلوچ پہنچ گئے۔ عارضۂ قلب میں تو پہلے سے مبتلا تھے اچانک دل کا درد ہوا اور 25دسمبر1988کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ سیّد سید علی گیلانی اس حوالہ سے یوں رقم طراز ہیں:

 حسبِ وعدہ داد بلوچ ضلع ساہیوال عین دریائے راوی کے کنارے شہامند خان بلوچ کے ہاں جا پہنچے ۔ عقیدت مند مریدین سے ملاقات جاری رہی رات کے کھانے کے بعد بھی بات چیت ہوتی رہی۔۔۔ اتنے میں سید مراتب اختر نے فرمایا۔ افضال! تمہاری طبیعت بھی ٹھیک نہیں تم آرام کرو اور میں ذرا باہر چہل قدمی کر آئوں ۔ دریا کے کنارے موسم خوشگوار ہو گااور اپنے چند عقیدت مندوں کو ساتھ لے کر باہر نکلے۔ ساتھیوں کا بیان ہے کہ انہوں نے تھوڑی دور جا کر ایک ٹھنڈی سانس لی اور رک گئے۔ واپس مڑ کر دیکھا قیام گاہ سے تھوڑی دور نکل چکے تھے۔۔۔ پھر چل دئیے پھر چلتے چلتے مڑ کر دیکھا ساتھیوں نے عرض کی سائیںجی! کیا دیکھ رہے ہیں۔ کیا کوئی بات بھول گئی ہے، کہا نہیں تو! پھر چل دئیے چند قدموں کے بعد تیسری بار مڑ کر دیکھنا چاہتے تھے کہ چکر آگیا اور گر پڑے ۔ بے ہوشی طاری ہو گئی۔ ہمراہی گھبرا گئے۔ اور اسی سٹاپٹ میں ان کو گائوں میں لایا گیا۔ ڈرائیور غلام فرید ، سید افضال حسین اور حافظ اشرف لے کر ساہیوال ڈاکٹر ارشد جمال کے ہاں آگئے وہ بھی اب کلینک آف کر کے جانے والے تھے انہوں نے چیک کرنے کے بعد کہا کہ افسوس! شاہ جی تقریباًآدھا گھنٹہ پہلے رحلت فرما چکے ہیں۔(۱۷)

       یوں ادب کے افق پر طلوع ہونے والا یہ نیا سورج شعرو سخن کی دنیا کو ایک نئے لہجے سے متعارف کرواتا ہوا جنگل سے پرے ڈوب گیا جبکہ اس کی سنہری کرنیں ہمیشہ ادبی دنیا کو منور کرتی رہیںگی اور ادب کے نئے طالب علموں کے ذہنوں کو غزل کے نت نئے سانچے اور ڈھانچے فراہم کرتی رہیں گی۔ قارئین ان کی شعری بندشوں، نئے رجحانات، جدت پسندیوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔بلا شبہ مراتب اختر اپنے عہد کے نام ور شاعر گردانے جاتے ہیںاور 60کی دہائی میں شعروادب کو نئے سانچے میں ڈھالنے والے اس گروہ میں شامل ہیںجنہوں نے ادب برائے ادب کی بجائے ادب برائے زندگی کو ترجیح دی۔ مراتب اختر کا شمار نہ صرف جدید نظم گو شعرا میں ہوتا ہے بل کہ انھوں نے غزل کو بھی نئے رنگ ، آہنگ اور تراکیب سے متعارف کروایا۔

 کتابوں کا تعارف

آٹھ غزل گو

                آٹھ غزل گو جدید شاعروں کے کلام پر مشتمل وہ کتاب ہے جسے جاوید شاہین نے ۱۹۶۸ئمیں مرتب کیا۔ اس کتاب میں ان جدید غزل گو شعرا کا مختلف شاعروں اور نقادوں نے تعارف بھی لکھا ہے اور منتخب کلام بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ آٹھ شعراء جنہوں نے نئی غزل کے متعدد تجربات کرتے ہوئے غزل کو نئی جہت بخشی ۔ پرانے اسلوب سے بغاوت کر کے نئے اسلوب تخلیق کئے۔ ڈکشن کے نت نئے تجربات کئے۔ زمانے کے دکھوں اور مصیبتوں کو سادہ الفاظ میں بیان کرنے کی روایت ڈالی۔ پرانے لسانی ڈھانچے توڑ کر نئی لسانی تشکیل واضح کی۔ نئی علامتیں، استعارے، تمثیلیں ایجاد کیں۔ اسلوب میں ندرت پیدا کی۔ نئی تراکیب تخلیق کیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ تمام شعرا جدید غزل کے معمار اور بانی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ ان شعراء میں منیر نیازی، ظفر اقبال، جاوید شاہین، سلیم شاہد، انور شعور، نذیر قیصر، مراتب اختر اور ریاض مجید بالترتیب شامل ہیں۔

                منیر نیازی کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے اگرچہ غزل بھی لکھی مگر ان کی غزل پر بھی نظم کے نقوش گہرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل کا اسلوب منفرد ہے ۔ ڈاکٹر انیس ناگی منیر نیازی کے بارے میں لکھتے ہیں:

منیر نیازی ان معدودے چند غزل گو شعراء میں سے ہے جس نے غزل لکھتے ہوئے بھی غزل کی روایت کی مجاورانہ پیروی نہیں کی۔ نہ جانے کیوں منیر نیازی کی بیشتر غزلیات پڑھ کر تنہائی کا احساس شدید اور گہرا ہو جاتا ہے اور اس کا محاکاتی طریقِ ادراک ذہن میں بیک وقت ادبی لذت اور ہم عصری جذباتی صورت حال کے نقش کو شوخ اور محکم کر دیتا ہے۔ شاید اس لیے منیر نیازی اپنے زمانے سے دور نہیں، اس کی آگہی اور شعور تجربے کی ہم عصری میں بروئے کار ہیں۔ (۱۸)

                جدید غزل گو شعراء میں ظفر اقبال کا نام اہم ہے۔ اسلوبِ بیان کی برجستگی اور لہجے کاکرارہ اور تیکھا پن ، بیان کی روانی، خیال کی تازگی اور پختہ شاعری سمیت غزل کی تمام بنیادی صفات ظفر اقبال کی شاعری میں موجود ہیں ظفر اقبال نے غزل میں جدید اسلوب کو اختیار کیا۔ان کے بارے میں جاوید شاہین لکھتے ہیں:

حقیقت میں ظفر اقبال دو اور دو چار کے قائل نہیں۔اس کا تجسس اشیاء کو ان کے روز مرہ کے تناظر اور روایتی پس منظر میں دیکھنے اور قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ وہ تجربے پر یقین رکھتا ہے۔ مگر تجربہ الہامی کیفیت کی طرح خود بخود نہیں آتا بلکہ پورے ہوش و حواس کو مجتمع کر کے کیا جاتا ہے۔ تجربے کے دوران عام اشیاء کے نئے روپ ، نئی اطراف اور نئے معانی کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لیے ان کی شکست و ریخت ناگزیر ہے۔ ظفر اقبال کے اشعار میں زبان و بیان کے انہیں تجربات کی بدولت ترو تازہ تراکیب ، نئے لفظی رشتوں اورمنفرد فکری علامتوں کا وسیع ذخیرہ ملتا ہے۔ (۱۹)

                جاوید شاہین کا شمار بھی جدید غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں نئی معنویت اور نئے پن کا احساس ہوتا ہے۔ اجنبی الفاظ کے استعمال سے اسلوب میں ندرت پیدا کی گئی ہے ۔ جاوید شاہین کے بارے میں ڈاکٹر گوہر نوشاہی لکھتے ہیں:

جاوید شاہین کی غزلیں دیکھئیے ،آپ کو ایک ایسا شاعر ملے گا جو اپنے فن کے اعتبار سے موجودہ دور کے ان تمام غزل گو شاعروں سے مختلف ہے جو اپنے آپ کو شاعرکہتے ہیں۔ لیکن سوائے اجنبی الفاظ کے موقع بے موقع استعمال کے ان کے ہاں کسی قسم کے نئے پن کا احساس نہیں ہوتا۔ (۲۰)

                سلیم شاہد کی غزل میں دنیاوی مسائل اور عصری صورتِ حال واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ان کے اسلوب میں انفرادیت بھی ہے اور جدت بھی ہے۔ شفقت تنویر مرزا سلیم شاہد کے بارے میں کہتے ہیں :

دریا اور بکھرے ذروں کا الجھا ہوا ربط سلیم شاہد کے شعروں میں بار بار آتا ہے جسے آپ مادی سطح پر برپا خلف شارمیں’روحانی آہنگ‘ کی تلاش کے لیے ایک بے چین روح کی تڑپ پر بھی معمول کر سکتے ہیں۔ پانچ دریائوں کی اس سرزمین میں بے چینی کے اظہار کا وسیلہ روائتی اشیاء کے اسماء سے نہیں بلکہ پانی، طغیانی، ہوا، طوفان، کھیت، پتوں اور لہو کو بنایا گیا ہے یوں شعر میں ایک خاص قسم کی بپھری ہوئی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ (۲۱)

                انور شعور جدید غزل گو شعراء میں معروف نام ہے۔ ان کا اسلوب سادہ ہے اور غزلیات روزمرہ زندگی کی عکاس ، جدید لفظوں کے استعمال کے ساتھ ساتھ منظر کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ ردیف اور قافیہ کو یکجا کیا ہوا ہے۔ انور شعور کی شاعری کے بارے میں محمد سلیم الرحمن کی رائے ہے :

انور شعور نے جو راستہ اپنے لیے چنا ہے وہ بہت دشوار ہے کہ اس پر چلتے چلتے آدمی جلدی زچ ہوجاتا ہے۔ اس سفر میں جو زادِ راہ درکار ہے اس میں نفرت ، طنز اور صاف گوئی کے علاوہ محبت اور دردمندی بھی ہونی چاہئے تاکہ اس’زینۂ ذات کے سفر‘ کی روداد ایک ایسا آئینہ بن جائے جس میں ہر زمانے کے انسان کو اپنی صورت نظر آئے۔ (۲۲)

                نذیر قیصرکی غزل میں ارتقائی عمل جاری ہے ان کے کلام میں کائنات کا انسانی وجود نمایاں ہے دھیمے لہجے کے شاعر نذیر قیصر نے غزل میں جدید اسلوب اپنایا ہے۔ وہ ذات کا عرفان چاہتا ہے۔ انسان اور کائنات کے باہمی ربط کو جاننا چاہتا ہے ان کے بارے میں ستار طاہر لکھتے ہیں:

ان حقیقتوں کو وہ اپنے الفاظ ، اپنے جذبات اور احساسات کے ساتھ بیان کرتا ہے۔سمبالزم اور باطن نگاری کے سہارے اس نے بھر پور تاثریت کا کام لیا ہے۔ اس کی علامتیں اس کے اپنے سفر کی روداد سے جنم لیتی ہیں۔ سفر کی راہوں میں پھیلے ہوئے رنگ اور خوشبو میں روح اور مادے کی علامتیں ہیں۔ (۲۳)

                غزل کی جدید روایت کو جنم دینے والے شعراء میں ریاض مجید کا نام بھی اہم ہے۔ انہوں نے غزل میں جدید تجربات کیے ۔ ان کے کلام میں جوش ،سادگی اور بے ساختہ پن نمایاں ہے۔ ان کی شاعری میں جدیدلہجہ واضح نظر آتا ہے ۔ ریاض مجید کے بارے میں ڈاکٹر گوہر نوشاہی کا کہنا ہے :

ریاض مجید کی ان غزلوں میں بُعد اور قربت کے ایسے خوب صورت تجربے ملتے ہیں کہ آدمی پڑھتے ہوئے بعض اوقات اپنے آپ کو تبدیل ہوتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ یہ تجربے آپ میں سے ہر شخص کے جذبات کا حصہ ہیں اور ان سے متاثر ہوئے بغیر آپ کبھی نہیں رہ سکتے۔ (۲۴)

                مراتب اختر کا شمار بھی جدید غزل گو شعراء میں ہوتا ہے انہوں نے اپنی شاعری میں جدید تجربات کئے ۔ نئے لفظوں کا استعمال ان کے اسلوب میں نمایاں ہے۔ مراتب اختر کی غزلیات پر افتخار جالب نے ایک مضمون تحریر کیا ہے:

مراتب اختر نے جو شاعری کی ہے اس میں رکھ رکھائو، ڈکشن کی ملائمت، نفاست اور مروّجہ شعریت نہیں ہے۔ سب کچھ اکھڑا اکھڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ خرابیاں کہ امکان سے نابلد، اندھے اور بے مغز لوگوں کو گراں گزرتی ہیں درحقیقت مراتب اختر کی خالص خوبیاں ہیں۔ ان خوبیوں سے مستفید وہی ہو سکتا ہے جو شعر کی منزّہ صورت کو پہچان سکتا ہے۔ (۲۵)

مراتب اختر کی تصانیف

                مراتب علی اختر کے اب تک چار شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں سے دو مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے اور دو ان کے وفات کے بعد۔ ان کی وفات کے بعد شائع ہونے والے دونوں مجموعے ان کے بھائی سیّد افضال حسین گیلانی کی کوششوں سے شائع ہوئے۔ مراتب علی اختر وہ ہستی تھے جنہوں نے شعر و ادب کے میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ مگر ان کی شخصیت میں بے نیازی کا عنصر غالب تھا اس لئے انہوں نے کبھی نہ اپنے آپ کو شناخت کرانے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی داد کی تمنا۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ تخلیق ستائش کے بغیر پروان نہیں چڑھتی اور فنکار کو فن کی داد نہ دی جائے تو وہ ختم ہو جاتا ہے۔مگر مراتب علی اختر کے حالات زندگی اس بات کے عکاس ہیں کہ نہ تو انہوں نے شہرت کی تمنا کی اور نہ ہی اپنے آپ کو منوانے کی کاوش۔ وہ مدلل گفتگو کرنے والے کم گو انسان تھے اور نمود و نمائش سے بے زار تھے۔ ان کی پہلی کتاب ’’جنگل سے پرے سورج‘‘ 1964میں شائع ہوئی جس کا دوسرا ایڈیشن اپریل 2007میں ادارہ صوت ہادی شیخو شریف نے شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ مراتب اختر نے اس کتاب کا انتساب اپنے مادرِ علمی یعنی اسلامیہ کالج لاہور کے ینگ رائٹرز کے نام کیا ہے۔ اس کتاب میں 68غزلیات ہیں ۔ 102صفحات پر مشتمل اس کتاب کا پیش لفظ مراتب اختر نے خود لکھا ہے۔اس کا فلیپ معروف نقاد اور ادیب ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے لکھا ہے۔ اس مجموعہ میں شامل غزلیات ان کے عہد شباب کی عکاس ہیں۔ اس عمر میں ایک نوجوان شاعر کے جو جذبات اور احساسات ہو سکتے ہیں۔ ’’جنگل سے پرے سورج‘‘ میں ان کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ معاشرتی آلام و مصائب رشتوں کی تلخیاں ، رواجوں کی سختیاں اور فطرت کی کرشمہ سازیاں سب کچھ اس مجموعہ میں موجود ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مراتب علی اختر کا یہ شعری مجموعہ ان کے نوجوان دل کی دھڑکنوں کا احساس ہے۔

                مراتب علی اختر کی دوسری شعری کاوش 1965میں ’’حصار حال‘‘ کے نام سے شائع ہوئی مگر بدقسمتی سے ناشرین کی لاپرواہی اور عدم توجہی کے باعث یہ مجموعہ شائع ہونے کے باوجود محفوظ نہ رہا۔ اس کی دو تین کاپیاں ڈمی کی صورت میں سامنے آئی تھیں جن میں سے ایک مراتب اختر نے مجید امجد کو دے دی تھی۔ اس کتاب کا انتساب ان کے کالج فیلو اور بہترین دوست تبسم کاشمیری کے نام ہے۔ اس کتاب کا صرف ایک شعر اب تک محفوظ ہے۔

در ہوں حصارِ حال کا وا ہو رہا ہوں میں

میری مراجعت ہے’جو تھا‘ ہو رہا ہوں میں

                حصارِ حال کے حوالے سے مراتب علی اختر کے بھتیجے سیّد علی گیلانی نے بتایا ہے کہ:

مراتب علی اختر کے اس مجموعے کی اشاعت ان کے کالج فیلو ذوالفقار احمد کے ذمہ تھی جن دِنوں کتاب اشاعت کے مراحل سے گزر رہی تھی ذوالفقار احمد کی شادی کی تیاریاں بھی جاری تھیں۔ ادھر کتاب چھپ کر آئی اُدھر ذوالفقار احمد کی شادی ہوگئی اور وہ ہنی مون منانے چلے گئے۔ ذوالفقار کاگھر کچھ خستہ حال تھا اور بد قسمتی سے ان دِنوں شدید بارشیں، برسیں چھتیں ٹپکنے لگیں۔ پانی گھروں کے اندر چلا گیا۔ بارش نے مکینوں کو بہت پریشان کیا اور جو لوگ اپنے گھروں میں موجود نہیں تھے ان کا بہت نقصان ہوااور حصار حال بھی انہی بارشوں کی نظر ہوگئی۔ جب ذوالفقار احمد ہنی مون سے واپس آئے تو گھر کی دیگر اشیاء کے ساتھ حصار حال کو بھی تباہ پایا۔(۲۶)

                سیّدمراتب علی اختر کا تیسرا مجموعہ کلام ’’گنجِ گفتار 2001میں چھپ کر سامنے آیا۔ اس مجموعے کے ناشر ان کے چھوٹے بھائی افضال حسین گیلانی ہیں۔ ترتیب و تدوین کا اہتمام ان کے بھتیجے سیّد سید علی ثانی گیلانی نے کیا ہے۔ جبکہ اس کے اہتمامِ اشاعت کی ذمہ داری مراتب اختر کے بھانجے سیّد عون الحسن غازی نے نبھائی ہے۔ اس کتاب کا انتساب کسی کے نام نہیں۔ اس کی وجہ افضال حسین گیلانی یہ بتاتے ہیں:

نقدو نظر کا حق اہل فکر و ادب کا ہے اور انتساب خود بھائی جان کا حق تھا۔ اگر وہ ہوتے تو کسی کے نام کرتے غالباً مجید امجد یا ینگ رائٹرز اسلامیہ کالج کے نام کیونکہ انہوں نے ہمیشہ انہی ہستیوں کے لئے ہی لکھا۔ (۲۷)

                 ’گنجِ گفتار‘ میں مراتب علی اختر کی 102غزلیات شامل کی گئی ہیں۔ اور یہ کتاب 220صفحات پر مشتمل ہے۔ حصار حال کے بعد جب گنجِ گفتار چھپ کر سامنے آئی تو پینتیس سال بیت چکے تھے۔اس طویل وقفے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ زندگی کے آخری ایام میں مراتب اخترکا رجحان تصوف کی طرف زیادہ ہو گیا تھا۔ اور پھر ایک دن وہ تمام دنیاوی معاملات ادھورے چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ کتاب کے شروع میں تین عدد حمدہیں۔ اس کے بعد چھ نعتیں اور پھر غزلیں ہیں ۔ کتاب کا دیباچہ بعنوان’’حفظِ مراتب‘‘ سیّد افضال حسین گیلانی نے لکھا ہے۔ کتاب پر تبصرہ بعنوان ’’مراتب اختر کی غزلیں‘‘ مجید امجد کا تحریر کردہ ہے جو انہوں نے بہت پہلے 1968میں ماہِ نامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ میں لکھا تھا۔

                گنج گفتار کے مطالعے سے احساس ہوتا ہے کہ مراتب اخترنے اپنی غزلیات میں اپنے مسائل کے علاوہ داخلی اور خارجی موضوعات پر بھی بات کی ہے۔ انہوں نے حقائق کی پردہ کشائی خوبصورت انداز میں کی ہے۔ مجموعہ میں شامل غزلیات کی فنی خوبیاں مراتب اختر کے قادرالکلام شاعر ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

                ’’گزرا بن برسے بادل‘‘ مراتب اختر کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس میں مختلف عنوانات سے 45نظمیں ہیں جبکہ 44نظمیں بلاعنوان ہیں اور آخر میں 6گیت ہیں۔216صفحات پر مشتمل یہ کتاب ادارہ صوت ہادی نے شائع کی ہے۔ 2004ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کے ناشر سیّد سید علی گیلانی ہیں جبکہ ترتیب و تدوین کی ذمہ داری ان کے بھانجے سیّد عون الحسن غازی نے نبھائی ہے۔ کتاب کا انتساب ’’مراتب اختر کے تمام دوستوں کے نام‘‘ کیا گیا ہے۔ کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر خواجہ ذکریا نے تحریر کیا ہے جبکہ فلیپ پر تبسم کاشمیری اور امجد اسلام امجد نے اظہار خیال کیا ہے۔’’گزرا بن برسے بادل‘‘ میں معاشرتی ، نفسیاتی اور سیاسی مسائل کے علاوہ وطن سے محبت کی نظمیں بھی موجود ہیں۔ مگر کتاب کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے کیا گیا ہے۔ اور اس کے بعد قرآن کریم کی کچھ سورتوں کا ترجمہ آزاد نظم کی صورت میں شامل ہے۔ گیتوں کی تعداد اگرچہ کم ہے مگر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان میں بھی رومانیت کا خوبصورت اظہار سامنے آتا ہے۔

 

 

 

حوالہ جات

 

۱۔            افضال حسین گیلانی، مضمون مشمولہ: نقدمراتب، مرتبہ عون الحسن غازی، شیخو شریف :ادارہ صوتِ   ہادی، ۲۰۰۴ئ،ص۸۴

۲۔            ایضاً، ص ۸۷

۳۔            ایضاً

۴۔            ایضاً

۵۔            انٹرویو، سیّد علی ثانی گیلانی، تاریخ ۲دسمبر ۲۰۱۲ء

۶۔            افضال حسین گیلانی، ص۸۶

۷۔            ایضاً، ص ۸۶

۸۔            ایضاً،ص ۶۶

۹۔            گوہر نوشاہی، ڈاکٹر، سید مراتب اختر کی یاد میںمشمولہ: نقد مراتب،ص ۶۳

۱۰۔          تبسم کاشمیری، مراتب اختر کی یاد میں، مشمولہ: نقد مراتب،ص ۵۵

۱۱۔          ایضاً،ص ۵۵

۱۲۔          ایضاً،ص۵۸

۱۳۔          ایضاً،ص ۵۹

۱۴۔          عون الحسن غازی، مشمولہ: نقد مراتب، ص ۱۴

۱۵۔          ایضاً،ص ۱۱

۱۶۔          سید علی گیلانی، سیّد، حسب ِمراتب، شیخو شریف: ادارہ صوتِ ہادی،۲۰۰۶ئ،ص۳۲

۱۷۔          ایضاً، ص۱۱۲

۱۸۔          جاوید شاہین، (مرتب) آٹھ غزل گو، لاہور:مکتبہ میری لائبریری، ۱۹۶۸ئ، ص۱۲

۱۹۔          ایضاً، ص۳۳

۲۰۔          ایضاً، ص۶۳

۲۱۔          ایضاً، ص۸۹

۲۲۔          ایضاً، ص۱۱۸

۲۳۔          ایضاً، ص۱۴۹

۲۴۔          ایضاً، ص۱۹۴

۲۵۔          ایضاً، ص۱۷۳

۲۶۔          انٹرویو،سیّد سید علی گیلانی، تاریخ ۲ دسمبر ۲۰۱۲ء

۲۷۔          مراتب اختر، گنج گفتار،شیخو شریف: ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۱ئ، ص۱۳

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...