Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مراتب اختر شخصیت و فن > مراتب اختر کی شاعری کا پس منظر اور معاصر منظر نامہ

مراتب اختر شخصیت و فن |
مہکاں پبلشرز
مراتب اختر شخصیت و فن

مراتب اختر کی شاعری کا پس منظر اور معاصر منظر نامہ
ARI Id

1688721480270_56116765

Access

Open/Free Access

Pages

92

مراتب اختر کی شاعری کا پس منظر اور معاصر منظر نامہ

 

مراتب علی اختر کی شاعری کا پس منظر

 

                تغیر و تبدل انسانی زندگی کا خاصہ ہے اور تخلیقِ آدم سے ہی شاید یہ سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔اگر مختلف تہذیبوں کی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ تہذیبوں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ زبان وادب بھی متاثر ہوتا رہا اور اس میں بتدریج تبدیلیاں ہوتی رہیں۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ادب معاشرے کو متاثر کرتا ہے اور معاشرہ ادب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اُردو زبان بھی ابتدائی دور میں فارسی ادب سے زیادہ متاثر ہوئی۔ اُردو کی ابتدائی شاعری کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے شعراء نے بھی وہی گل وبلبل کے قصے اور محبوب کی بے وفائی کو شاعری کا موضوع بنایا۔ اگرچہ مرزا مظہر علی خاں کو بعض ناقدین اُردو شاعری کی کثافت کو کم کرنے کا معمارِ اوّل سمجھتے ہیں اور میرتقی میرؔ نے بھی یہ دعویٰ کیا تھا۔

                اِس بات پر تمام ناقدین متفق ہیں کہ اُردو شاعری میں جدت کی بنیاد مولانا الطاف حسین حالیؔ نے رکھی۔ اگرچہ اِس سے پہلے نظیر اکبرآبادیؔ بھی شاعری کو اُمرا کی محفلوں سے نکال کر غرباء کے مساکن اور گلی محلوں تک لے آئے تھے۔ مگر حالی وہ شخصیت ہیں جنہوںنے اس بنیاد پر بہت بڑی عمارت کھڑی کردی۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ اس حوالے سے ’’مجموعہ نظم حالی‘‘ میں جدید اردو شاعری میں فطرت نگاری، مقصدیت اور سادگی کو شاعری کا لازمہ قرار دیتے ہیں۔(۱)

                مولانا الطاف حسین حالیؔ سرسید کے رفقائے کار میں سے تھے اور سرسید احمد خان کے نظریات، فلسفہ اور اصلاحِ قوم کے جذبہ سے بہت متاثر تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری اصطلاحی اور اخلاقی ہے۔ حالی ہی وہ شخصیت ہیں جو قوم کو خیال آرائی سے نکال کرحال کی دُنیا میں لائے۔ اور اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ انہوں نے اُردو غزل کو سچ کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ جدید نظم کے لیے جدید راستے استوار کیے۔ حالیؔ نے سرسیدؔکی طرح یہ بھی دیکھا کہ لوگوں کی طرزِفکر میں کون سی خوبی ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بادشاہوں کی خود مختار اور مطلق العنانی کے باعثِ عوام اپنی رائے قائم کرنے، اپنے بارے میں اچھا برا سوچنے اور اپنی مدد آپ کرنے جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہوتے جارہے ہیں اور انہوں نے خود سوچنے سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو حالات کے رحم وکرم اور وقت کے بہائو پر چھوڑ دیا ہے۔ حالیؔ نے غافل لوگوں کو کچھ کرنے کا درس دیا۔ مگر جو کچھ وہ چاہتے تھے کہ لوگ کریں یا تو اُن پر واضح نہیں تھا یا انگریز حکمرانوں کے ڈر کی وجہ سے واضح نہ کیا۔ حالی نے اگر انگریزی حکومت کی مداح سرائی کی ہے تو اُس کی مذمت بھی کی ہے۔

علم کیا ، اخلاق کیا ، ہتھیار کیا

سب بشر کے مار رکھنے کے ہیں ڈھنگ

                مولانا الطاف حسین حالیؔ نے مقدمہ شعرو شاعری کے آغاز پر ہی شاعری میں سماجی شعور کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیؔ نے فطری شاعری کو اپنایا اور یہ شاعری اِس لحاظ سے بھی انقلاب آفرین ہے کہ اِس سے قبل ایسی شاعری کا تصور بھی نہ تھا حالیؔ نے اپنے اِردگرد جو مناظر دیکھے اُن کو اپنی شاعری میںسمویا۔ برکھا رُت کے چند اشعار:

؎  ندی نالے چڑھے ہوئے ہیں

تیرا کیوں کے دِل بڑھے ہوئے ہیں

_______

؎  ہیں شکر گزار تیرے برسات

انسان سے لے کے تاجمادات

                صرف یہی نہیں۔ حُبِّ وطن، رحم وا نصاف، مناجات بیوہ اور چپ کی داد بلکہ مولانا حالیؔ کی پوری شاعری کی زبان مخصوص، مہذب اور سنجیدہ ہے۔ بلکہ کلامِ حالیؔ اس بات کا عکاس ہے کہ اچھی شاعری سادگی کے باوجود حسین اور پرکشش ہوسکتی ہے۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ اِس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ انہوں نے ہر نئی بات کہتے ہوئے بھی قدیم شعری روایات کو ہی اپنایا۔ انہوں نے شاعری کے قدیم سانچوں میں نظم اور مثنوی کے ساتھ ساتھ غزل کو بھی انقلابی انداز میں پیش کیا:

؎  آ رہی ہے چاہ یوسف سے صدا

دوست یہاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت

_______

؎  نائو ہے بوسیدہ اور موجیں ہیں سخت

اور دریا کا بہت چکلا ہے پاٹ

                حالیؔ کے دوسرے ہم عصر جنہوں نے جدید شاعری پر بہت کام کیا اور لیکچرز کے ذریعے روشناس کرایا وہ مولانا محمد حسین آزادؔ ہیں۔ اُردو شاعری اس لحاظ سے بھی محمد حسین آزادؔکی احسان مند ہے کہ انہوں نے اپنی نئی تحریک کے ذریعے نہ صرف نئے خیال کو اجاگر کیا بلکہ اس رنگ برنگی جیتی جاگتی دُنیا کی خوبصورتی کو اِس شاعری کا حصہ بنانے کی گنجائش نکالی۔ انہوں نے اُردو کو خیالی بلند پروازی سے اتار کر اُس کے قدموں کو سوندھی مٹی سے مس کیا۔ مولانا محمد حسین آزادؔ سے قبل جو مناظر کبھی مثنویوں اور مرہٹوں کی کہانیوں میں محض کرداروں اور واقعات کے پس منظر کے طور پر دکھائے جاتے تھے۔ پہلی بار اپنی الگ شناخت کا پرچم لہراتے نظر آتے ہیں:

؎  وہ گہری سبزیوں میں گل تر کی لالیاں

اور اوس سے بھری ہوئی پھولوں کی پیالیاں

_______

؎  وہ صبح کی ہوا سے درختوں کا جھومنا

اور جھوم جھوم کے وہ رخِ گل کو چومنا

                مولانا محمد حسین آزادؔ کی نظموں میں شرافتِ حقیقی، صبح اُمید، و داع انصاف، شب ِقدر، خواب او رگنجِ قناعت وغیرہ مثنویاں ہیں اور مبارک باد جشن، ایک تارے کا عاشق او رٹینی سن کی نظم کا آزاد منظوم ترجمہ قابلِ ذکرہیں جس میںا نہوں نے اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہوئے اُردو نظم کے لیے نئے راستے اور زاویے متعین کیے۔ یقینا مولانا محمد حسین آزادؔ کی یہ کاوش جدید اُردو شاعری میں ایک اہم سنگ ِمیل کی حیثیت رکھتی ہے۔

                آزادؔ اور حالیؔ کی نظم جدید سے متاثر ہونے والوں میں ایک اہم نام اسماعیل میرٹھیؔ کا بھی ہے۔جن کے کلام کی نمایاں خصوصیت سادگی اور سچائی ہے۔ اسماعیل میرٹھیؔنے زندگی کے واقعات کو اپنی شاعری میں یوں سمویا کہ اس کی منظر کشی کی نظیر نہیں ملتی۔ انہوں نے انگریزی نظموں کے ترجمے اس انداز سے کیے کہ وہ ہماری رہتل کی عکاس نظر آتی ہیں۔ اسماعیل میرٹھیؔ کی منظر نگاری قابلِ تعریف ہے۔ ایک نظم میں گھٹا کا ذکر اتنی اپنائیت سے کرتے ہیں کہ وہ چھتری بن کرہمارے سر کو چھونے لگتی ہے اور اُڑتی ہوئی بھنبھیری ہماری ہتھیلی پر اُتر آتی ہے اور ہمارے بہت قریب آکر گھٹا اور تتلیاں ہماری باتیں سنتی ہیں:

؎  گھٹا! کس سوچ میں چپکی کھڑی ہے

برس آخر تو ساون کی گھڑی ہے

_______

بھنبھیری! اُڑ کر ساون آگیا اب

گھٹا امڈی ہے بادل چھا گیا

                اسماعیل میرٹھیؔکی شاعری کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضع ہوتی ہے کہ انہوں نے نہ صرف موسموں او رمنظروں کواپنے شعروں میں سمویا بلکہ انسانوں اور دوسرے جانداروں کے ساتھ ساتھ انسان اور انسانیت کی خدمت اور نسلِ انسانی سے محبت کے جذبات بھی ابھارے اُن کی شاعری اس بات کی عکاس ہے کہ انسان سے وابستہ ہر چیز سے اُنہیں پیار ہے۔ چاہے وہ پانی اور ہوا جیسے سائنسی موضوع ہی کیوں نہ ہوں۔ اسماعیل میرٹھیؔ ایک کامیاب فطرت نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مرقع نگار بھی ہیں۔ اُن کا مطالعہ گہراہے اور معلومات خاصی وسیع ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مشاہدے کی بنا پر ایک معمولی سی بات کے ذریعے گہرے گہرے احساسات اور اہم اہم جذبات کی نمائندگی کر جاتے ہیں۔ آج بھی اُن کی نظم ’’اُٹھو سونے والو کہ میں آرہی ہوں۔‘‘نہ صرف بچوں اور جوانوں بلکہ بوڑھوں کو بھی آنے والے لمحوں کے لیے اپنے آپ کو تیار و ہوشیار اور چاق و چوبندکر دیتی ہے۔ فطرت نگاری کے سلسلے میں کہی گئی نظموں کی نمایاں خصوصیات اِن کی سادگی اور روانی ہے۔ اِن کی نظموں کی تازگی اور شگفتگی سے جہاں سکون او رمسرت ملتی ہے وہاں ہر طرف اُمید کی کلیاں چٹکتی دکھائی دیتی ہیں۔

؎  بڑی دھوم سے آئی میری سواری

جہاں میں ہوا اب میرا حکم جاری

ستارے چھپے رات اندھیری سدھاری

دکھائی دئیے باغ اور کھیت، کیاری

اٹھو سونے والو کہ میں آ رہی ہوں

                اُردو شاعری میں بتدریج تبدیلی کی اس لہر میں ایک نمایاں مقام اکبر الٰہ آبادی کا ہے جنہوںنے اُردو نظم کو نئے زاویے اور لہجے سے متعارف کروایا۔ انہوں نے سماج کا باریک بینی سے مطالعہ کیا اور زندگی کے تمام پہلوںپر تنقیدی نظر ڈالی اور پھر جو محسوس کیا اس کو مقصدی اور تعمیری پوشاک بخش دی۔ ان کے ملی و سیاسی نظریات ان کی شاعری سے واضح نظر آتے ہیں۔ اکبر نے مغربی تہذیب کو ہندوستانی معاشرے اور تہذیب کی شکست و ریخت کا ذمہ دار ٹھہرایا اور غیر ملکی سرکار کا ملازم ہونے کے باوجود انہوں نے اپنا مافی الضمیربڑی جرأت سے بیان کیا۔ اکبرالٰہ آبادیؔ کی نظموں میں اجتماعیت اور حقیقت نگاری کے عناصر کی فراوانی بعض اوقات علامتوں کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور یہ علامتیں جدید دور کی عکاس ہیں۔ انجن ، ہوٹل، بسکٹ، مشین، ریل، شیخ، کالج اور مسں وغیرہ جیسے الفاظ اِن کی نظموں میں نئے طرزِ معاشرت اور طرزِ تہذیب کی بدولت فروغ پاتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادیؔ وہ شاعر ہیں جنہوں نے اُردو نظم کو طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب سے روشناس کرایا۔ اگرچہ حالیؔ اور اکبرؔ میں نظریاتی طور پربہت بڑا بُعد تھا۔ مگراِن دونوں نے جدید اُردو نظم کی بہت خدمت کی۔ ڈاکٹر وزیر آغاؔ کے مطابق:

دراصل حالیؔاور اکبرؔ اپنے زمانے کے دو بڑے سورج تھے جن کے گرد کئی چھوٹے چھوٹے سیارے گردش کرتے رہتے تھے لیکن قوم کے اذہان کو منور کرنے کا مقصد اِن دونوں کے ہاں مشترک تھا۔

                جدید اُردو نظم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والوں میں ایک نام ڈاکٹر علامہ اقبال کا ہے۔ انہوں نے اُردو نظم کو ایک مثالی انسان کا تصوردیا جو حرکت وحرارت کے عناصر اور فرد کی عظمت کا حامی تھا۔ اقبال نے ابتداء میں حالیؔ اور شبلیؔکے رنگ میں نظمیں لکھیں اور ظفر علی خاںؔ اور اکبرالٰہ آبادیؔ کی طرح سیاسی، ہنگامی اور تہذیبی موضوعات کو قبول کیا۔

                اقبال کی نظموں میں نکتہ نظر، فلسفہ، خطابت، اصولِ حیات اورملی یکجہتی کے عناصر خوبصورت ترتیب کے ساتھ اجاگر ہوتے نظر آتے ہیں۔ یورپ میں قیام کے زمانے میں انہوں نے مغربی تہذیب و سیاست اور معاشرت کے زوال کا بغور تجزیہ کیا جس کے نتیجے میں اُن کی شاعری میں عالمِ اسلام پر مغربی استعمار کے تسلط کے خلاف بھرپور ردعمل ظاہر ہوا۔ مسلمانوں کے ماضی اور حال میںاُنہیںایسا تضادنظر آیا جس کو دور کرنے کے لیے انہوں نے نفی خودی کی جگہ اثبات خودی پر زور دیا اور حرکت وعمل کے فلسفے کو اہمیت دی۔ اقبال یہ سمجھتے تھے کہ علم وادب ہی وہ طاقت ہے جو انسان کی حدود متعین کرتی ہے۔ اس لیے انہوں نے مسلمانوں کو تعلیم اور خصوصاً اسلامی تعلیم کا درس دیا۔ اُن کی شاعری اس بات کی عکاس ہے کہ مسلم اُمہ کے تمام مسائل کی وجہ اسلام سے دوری ہے۔

                اقبال نے اُردو نظم کو جولہجہ اور احساس دیا وہ بعد میں آنے والے شعراء کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوا۔ اقبال کی نظمیں لہجہ کی تازگی اور بھرپور شعریت کا شاہکار ہیں۔ شکوہ، جواب شکوہ، خضرِ راہ،طلوعِ اسلام، مسجد ِقرطبہ اور ساقی نامہ سے اُردو نظم میں نئے اور جانداراسلوب کا آغاز ہوا۔ اقبال نے بھی پرانے نقطوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی اور اُردو نظم کو نئی علامتوں اور نئے موضوعات سے متعارف کروایا۔ اسلامی علامتیں، آفاقی علامتیں اور ذات کے انفرادی جبر کی علامتیں اقبال کی ہی تخلیق کردہ ہیں۔

                اگر یہ کہا جائے کہ ترقی پسند تحریک نے بھی اُردو نظم کو نیا رنگ دیا تو یہ بے جانہ ہوگا۔ ۱۹۳۶ء سے قیامِ پاکستان تک کئی نامورشعراء اس تحریک سے وابستہ رہے جن میں فیض احمد فیضؔ ، جوش ملیح آبادیؔ، مجازؔ، احمد ندیم قاسمیؔ، علی سردار جعفریؔ، ساحر لدھیانویؔ، جان نثار اخترؔ اور کیفی اعظمیؔ قابلِ ذکر ہیں۔احمد ندیم قاسمیؔ نے ترقی پسندانہ نظریات کے ساتھ ساتھ دیہاتی مناظر کی تصویر کشی اور طبقاتی کشمکش کو اجاگر کیا۔ اِسی طرح احسان دانشؔ وہ شاعر ہیں جن کی نظموں میں وطن سے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر موجود ہے۔ انہوں نے پسماندہ طبقے کی بھی خوب ترجمانی کی ہے اور شاید اسی وجہ سے انہیں شاعرِ مزدور کا لقب دیا گیاہے۔

                اِس تحریک میں سب سے اہم شاعر فیض احمد فیضؔ ہیں۔ فیضؔ نے غزل اور نظم ہر دو میدان میں اپنا مقام پیدا کیا ۔ وہ اقبال کی طرح پیامی شاعر تھے۔ انہوں نے تشبیہ واستعارہ اور نغمگی جیسی فنی تدابیر کو اِس انداز سے استعمال کیا کہ اُن کی نظمیں دل کشی و رعنائی کا پیکر نظر آتی ہیں۔جس طرح اقبال نے لفظوںکے معنی بدل دیے بالکل اسی طرح فیض نے بھی اپنا انوکھا اور اچھوتا اسلوب متعارف کروایا۔ محبوب، دارورسن، زندان جیسے الفاظ اپنے اندر وسعت کا ایک سمندر لیے ہوئے ہیں۔ فیضؔ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے معاشرتی جبر، ترقی پسندانہ خیالات، فطری گہرائی اور استحصالی طاقتوں کے خلاف احتجاج کو اپنی نظموں میں متعارف کرایا۔ ’’رقیب سے ‘‘ آج بازار میں پابہ جولاں چلو ’’دِل من مسافر من‘‘ اور ’’تنہائی ‘‘جیسی نظمیں اُن کی یادگارنظمیں ہیں۔

                فیض کی شاعری میں کہیں حقیقت نگاری اور رومان کا ادغام ہوجاتا ہے اور کہیں اِن کی مزاحمت اور کشمکش کی صورت ابھرتی نظر آتی ہے۔ فیض کے لہجے کی انفرادیت اِن کی نظموں میں آویزش، ٹکرائو یا سنگھم کی صورت کو متوازن بناتی ہے:

وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر

چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہوگا شبِ سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رُکے گا سفینہ غمِ دِل

(صبح آزادی)

                ترقی پسند تحریک کے ساتھ ساتھ حلقہ اربابِ ذوق نے بھی اُردو شاعری کو نئے اسلوب، رنگ، ضابطے، اور ذائقے سے روشناس کروایا۔حلقہ کے اہم شعراء میں میراجیؔ کا نام سب سے اہم ہے۔ اُس دور کی اُردونظم میں موضوعاتی تنوع پیدا ہوگیا۔ طبقاتی ناہمواری، بے سکونی، حساسیت، تنہائی، جنس، خوف، اخلاقی روایات ، قدروں کی شکست، فرد کی تنہائی اور انسان کی ناقدری کے موضوعات کو شاعری کا موضوع بنایا گیا۔ مغربی نظموں کے ترجموںکا رجحان پیدا ہوا، اور اب جنس اور مذہب جیسے حساس موضوعات پر بھی نظمیں لکھی جانے لگیں۔ میراجیؔ کی نظم چنچل، جس میں ہندی الفاظ کے استعمال نے نظم کی خوبصورتی میں اضافہ کردیا ہے:

؎  کبھی آپ ہنسے، کبھی نین ہنسیں، کبھی نین کے بیچ ہنسے کجرا

کبھی سارا سندر انگ ہنسے، کبھی رنگ رُکے ہنس دے گجرا

_______

؎  یہ سندرتا ہے یا کو بتا میٹھی میٹھی مستی لائے

اس روپ کے ہنستے ساگر میں ڈگ مگ ڈولے من کا بجرا

_______

؎  یہ موہن مدھ متوالی ہے، یہ مے خانے کی چنچل ہے

یہ روپ لٹاتی ہے سب میں ، پر آدھے منہ پر آنچل ہے

_______

؎  کیا ناز انوکھے اور نئے سیکھے اندر کی پریوں سے

اور ڈھنگ متوہر اور زہری سوچھے ساگر کی پریوں سے؟

_______

؎  پہلے سینے میں آتی ہے پازیبوں کی جھنکاروں میں

آوارہ کر کے چین مرا چھپ جاتی ہے سیاروں میں

                اسی دور کے ایک اہم شاعر اختر شیرانیؔ ہیں۔ جنہوں نے جدید اور ترقی پسند شعرا کی کج روی کو نہیں اپنایا۔ اختر شیرانیؔ وہ شاعر ہیں جنہوں نے نہ تو شاعری کی قدیم روایات سے بغاوت کی اور نہ ہی فنی تقاضوں سے گریز کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دورِ جدید سے متاثر ہو کر اُس کا اثر بھی قبول کیا۔ انہوں نے اپنے کلام میں روایتی شاعری کے بے نام تصوراتی محبوب کی بجائے اُردو شاعری کو جیتے جاگتے محبوب سے روشناس کروایا اور اُسے گمنامی کے پردے سے نکالا  اور ’’عذرہ‘‘ کہیں ’’سلمیٰ‘‘ اور کہیں ’’ریحانہ‘‘ کے نام سے مخاطب کیا۔

                اختر شیرانیؔ نے اپنی تمام شاعری میں اس روایت کو برقرار رکھا ہے۔ اُن کی نظمیں ’’اے عشق کہیں لے چل‘‘، ’’او دیر سے آنے والے بتا‘‘، ’’آج کی رات‘‘ اور’’ انتظار‘‘ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

                ن م راشدؔ نے اُردو نظم کے رائج الوقت اسلوب سے بغاوت کر دی۔ اُن کے تخلیقی ذہن نے اُردو کے مروّجہ سانچوں کو قبول کرنے کی بجائے اُنہیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ اُن کا طرزِ احساس اُن کی نظموں کی ہیئت اور تکنیک اُردو قاری کے لیے ایک نئی اور انوکھی چیز تھی۔ او راُسے گرفت میں لینا ہر کسی کے لیے آسان نہ تھا۔ راشدؔ مغربی نظم نگاروں سے متاثر تھے، شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کی نظموں میں افسانوی اور ڈرامائی انداز نظر آتے ہیں۔ فرنگی سامراج سے دشمنی اور جنسیات راشدؔ کے خاص موضوع ہیں۔ راشدؔ کی شاعری میں فکری گہرائی بھی ہے او راسلوب کی رعنائی بھی ہے۔ راشدؔ کے عہد میں ایشیائی ممالک پر غیر ملکی طاقتوں کا تسلط تھا اِس لیے راشدؔ اوراُس کے ہم عصر شعراء کے ہاں اِس غلبے کے خلاف احتجاج کا رنگ جھلکتا ہے مگر راشدؔ نے اِس بغاوت کو استعاروں کی مدد سے یوں پیش کیا کہ اُسے آفاقیت حاصل ہوگئی۔ دُنیا کے ہر خطے کے لیے اور ہر دور میں غیر ملکی قبضے کی صورت میں راشدؔ کی نظمیں جاندار اور متحرک نظر آتی ہیں۔ یہ رجحان’’ماورا‘‘ کی چند آخری نظموں سے شروع ہوا اور ’’ایران میں اجنبی‘‘ میں شدت اختیار کر گیا۔ ’’ماورا‘‘ کی نظموں میں خاص طور پر انتقام، بے کراں رات کے سناٹے میں، شرابی، شاعر درماندہ اور زنجیر اِس بغاوت کی مثالیں ہیں ۔ زنجیرمیں راشدؔ بغاوت کی لہر سے غلامی کی زنجیر توڑ دینے پر ابھارتے نظر آتے ہیں۔

۱۹۶۰ء میں جدید شاعری کی تحریک

 

                نئی شاعری کے آثار یا ابتدائی خاکہ ۱۹۵۵ء کے لگ بھگ تیار ہونا شروع ہوگیا تھاتقسیم ہند کے بعد ملکی سیاسی حالت اور بین الاقومی انتشار نے مل کر ایسا معاشرتی انسان تخلیق کیا جو بکھرا ہوا، کٹا پھٹا او رٹکڑوں میںبٹا ہو اہے اُس کی بنیادیں کمزور ہیں، مذہب، سیاست، نفسیات، اورفلسفہ کے نت نئے تصورات انسان کے احساس مرگ کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اُس دو ر کے فرد کو اپنی دُنیا دکھوں اور مصیبتوں سے بھری نظر آتی ہے اور اُسے اپنے نامکمل ہونے کا بھی شدید احساس ہوتا ہے۔ اُسے اپنی کوئی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی اور اگر ملکی حالات کے تناظرمیں دیکھا جائے تو یہ نئے پاکستانی فرد کے بچپن کا زمانہ ہے، جہاں تقسیم کے دور کی افراتفری اور چار سو پھیلے خونی درندوں کی لمبی لال زبانیں دہشت پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس دور میں ہر فرد کو احساسِ بیچارگی شدت سے محسوس ہوتا ہے۔ اس دور کے شاعر نے اِن افراد کی آوازوں کو آزاد نظم میں منتقل کیا۔ یہ نظم تجرید، تلازمے اور تجسیم کا ملاجلا انداز ہے۔

                نئی شاعری کی صورت میں ۱۹۶۰ء کے بعد موضوعات او راسلوب دونوں سطحوں پر نمایاں تبدیلیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں ترقی پسند تحریک اور حلقہ اربابِ ذوق کے زیرِ اثرکی جانے والی شاعری سے مختلف اور منفرد بھی۔ اس سلسلہ میں نئی شاعری کے علمبردار شعرا اپنے آپ کو مذکورہ دونوں بڑی ادبی تحریکوں سے الگ شمار کرتے ہیں اس ضمن میں انتظار حسین لکھتے ہیں:

’’لکھنے والوں کی ایک نسل ختم ہوچکی ہے، اس کے جتنے امکانات تھے بس بروئے کار آچکے ہیں۔ ادب کی تاریخ ان سے وابستہ نہیں ۔ اس لیے ان کی خاموشی نہ تو ادب میں جمود کی وجہ قرار دی جاسکتی ہے اور نہ ان کی سرگرمی کو ادب کی زندگی سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ آج کے لوگوں میں نہیں۔ جس دور کے وہ لوگ ہیں اس دور کا ادب تخلیق کرنے کا نسخہ ہی آج بے کار ہے۔‘‘(۲)

                رد و قبول کے ادوار سے گزرنے کے بعد نئی شاعری کے لیے ادبی ماحول سازگار ہوگیا تو اس تحریک سے وابستہ شعراء نے انحراف اور گریز کے باہمی اتصال سے ایسی شاعری کی جو جدیدیت کے رائج تصورات سے مختلف نہیں تو منفرد ضرور تھی۔ انہوں نے اسلوب اور موضوع کی نئی تعبیرسے مقررہ نظریوں اور فارمولوں کو رد کیا اور اپنے تجربے اور حواس کی بنیاد پر زندگی کو پرکھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جدیدیت کے تاریخی تصور کی بجائے خالصتاً ادبی و فکری شعری روایت کو قائم کیا۔ نئی شاعری کی اساس پرانی نظم کے تکرار یا اعادے کی بجائے نئے تخلیقی اصولوں پر رکھی گئی اور تخلیق کا سرچشمہ شاعر کے باطنی وجود سے پھوٹنے لگا۔ اس امر پر اظہار ِخیال کرتے ہوئے جیلانی کامران لکھتے ہیں:

نئی نظم کی اساس تجربے پر ہے اور اس لحاظ سے منفرد ہے کیونکہ اس کا تجربہ اپنی پیدائش کے اعتبار سے وسیع فکری منطقوں سے تعلق رکھتا ہے اور رونمائی کے اعتبار سے ایک ہی وقت میں مختلف زاویوں سے اپنی شباہت کو پیدا کرتا ہے۔(۳)

ؤ              نئی شاعری سے وابستہ شعراء نے بنے بنائے پیمانوں، نظریات، جماعتی وابستگی اور اجتماعی تحریکوں کو نظر انداز کیا اور انسان کے ذاتی المیے اور کرب کو موضوع بحث بنایا۔ مغرب کی سائنس اور صنعتی تہذیب نے ہماری قدروں کو بھی متاثر کیا اور شخصی طرزِ احساس کو نمایاں کر کے طے شدہ موضوعات اور فنی اسالیب سے انحراف کے رویے کو جنم دیا۔ اس کے نتیجے میں شاعری کو لمحہ موجود سے ہم آہنگ ہوکر تجربے کی اساس پر دیکھا اور دکھایا گیا۔ نئی شاعری اپنے قاری سے برابر کی سطح پر مقالہ کرتی ہے وہ ذاتی تجربے اور ذاتی علامتوں کو سامنے لے کر شخصی طرزِ احساس کو نمایاں کرتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ قاری تخلیقی شعور کو نہ صرف سمجھنے کے قابل ہو بلکہ باقاعدہ طور پر شاعر کے ساتھ ذہنی، جذباتی اور تجرباتی سطح پر بھی ہم آہنگ ہو۔ اِسی صورت میں نئی شاعری پر ابہام کا الزام رد کیا جاسکتا ہے۔ گویا نئی شاعری کے حامی اظہار و ابلاغ کے حوالے سے قاری اور شاعر کے فکری میلانات، اسلوب اور لفظیات کے آپس میں ہم آہنگ ہونے پر زور دیتے ہیں لیکن انتہا پسندانہ تخلیقی رویہ جو لسانی تشکیلات کی صورت میںسامنے آیا اس نے شاعر اور قاری کے در میان عدم ابلاغ کی فضا کو پیدا کردیا۔

۱۹۶۵ء کی لسانی تشکیلات کی تحریک

 

                نئی لسانی تشکیلات کے نمایاں شعراء نے نظم میں علامت، مثال، تلازمے او راستعارے کو ذاتی اورانفرادی سطح پر برتنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے ابلاغ کے سلسلے میں نہ صر ف عام قاری بلکہ شاعروں کوبھی مختلف مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔ لسانی تشکیلات کے ضمن میں افتخار جالب اور انیس ناگی وغیرہ ابلاغ کو اضافی مسئلہ قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کی انتہا پسندی سے کام لیا گیا اُس سے نئی شاعری کا ابلاغ مجروح ہوا ہے۔ لسانی تشکیلات کے حوالے سے افتخار جالب نے الفاظ کو اشیاء کی نمائندگی کی بجائے اشیاء قرار دے کر استعارہ در استعارہ کی صورت میں ایسی زبان تخلیق کی ہے جس نے نئی شاعری میںا بہام کی مختلف صورتیں پیدا کر دی ہیں۔ اِن مختلف صورتوں کے پیش نظر سلیم احمد نے نئی شاعری کو نامعقول شاعری قرار دیتے ہوئے درج ذیل وجوہات کی نشان دیہی کی ہے:

(i)نئی شاعری اختصاصی فن ہے۔ لہٰذا عوام کی بجائے خواص کافن ہے۔ (ii)نئی شاعری میں جانا پہچانا انسان غائب ہے۔(iii)ابلاغ نئی شاعری کا مسئلہ نہیں ہے۔(iv)یہ شاعری پرانی شاعری کی روایت سے انحراف یا بغاوت کے طور پر پیدا ہوئی ہے۔(v)نئی شاعری میں علامات، ذاتی سمبل، امیجز، صوتی آہنگ کااستعمال اور تشبیہہ استعارے کی زبان پرانی شاعری کے مقابلے میں اتنی بدلی ہوئی ہے کہ ایک نئی دُنیا معلوم ہوتی ہے۔(۴)

                نئی شاعری اپنے اسلوب، طرزِ احساس اور ذاتی علامتوں کی وجہ سے پیچیدہ اور مبہم ہے کیونکہ اس سے متعلق شعراء نے خوابوں اور خواہشوں کی نفسیاتی او رلاشعوری تصویر کشی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لسانی تشکیلات کے زیرِاثرنظم اور غزل کے روائتی اسالیب اور موضوعات کو توڑا گیا اور ہیئت اور مواد دونوں میں اجتہاد سے کام لیا گیا۔ ہیئت کی صورت میں نثری نظم جیسی صنف سامنے آئی جبکہ مواد کی پیشکش میں ذاتی اور نفسیاتی تجربات کو بیان کرنے کی روش کو اپنایا گیا۔ لسانی تشکیلات سے وابستہ شعرا نے مروجہ اصناف اور موضوعات کے خلاف بغاوت کی بقول مخدوم منور:

آج کے صنعتی اور مشینی عہد میں بدلتی ہوئی قدروں اور سچائیوں کی دوڑ میں قدم بہ قدم چلنے کی صلاحیت اور جاگیرداری عہد کی جمالیات سے بغاوت ہی نثری نظم کی پہلی نشاندہی ہے۔ نثری نظم اپنے ساتھ نئے نئے الفاظ اور نیا پیڑن لائی ہے اور یہ ذہنی اور جذباتی آزادی کے ساتھ ایک نئی آزادی کی فضا میں نئے آرٹ کا ظہور ہے۔(۵)

                نئی شاعری کے اکثر شعراء نے نئی لسانی تشکیلات کے ساتھ ساتھ نثری نظم کو وسیلہ اظہارِ بنایا ہے جواس بات کی غماز ہے کہ یہ روایت اور شاعری کی مروجہ کلاسیکی اصناف سے ایک واضح انحراف کی صورت ہے بقول ڈاکٹر اصغر علی بلوچ:

یہ صنف مجموعی نظریاتی پس منظر نہ ہونے کے باوجود ایک تحریک کی صورت میں سامنے آئی ہے اور جدیدیت مابعد جدیدیت اور وجودیت جیسی فکری تحریکوں سے متاثر ہوئی ہے۔(۶)

                مندرجہ بالا فکری تحریکوں کی بدولت ہی تشدد، بے رحمی اور انسان دشمنی جیسی منفی قدروں کا تخلیقی شعور شاعری میں شدت کے ساتھ ابھرا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انفرادی آزادی ، معاشرتی اقدار کی پاسداری ، انسانی اقدار اور انسان دوستی کی صورت میں مختلف موضوعات نے اُردو شاعری کے دامن کو وسیع کیا ہے۔ جدید شاعروں نے مادے سے رُو ح تک، راست بیانیے سے استعاراتی اظہار تک، پابند نظم سے نثری نظم تک اورغزل سے آزاد غزل تک کا سفر طے کیا ہے اور زندگی کی پیچیدہ اور گنجلک صورتوں کو پیچیدہ اور مبہم پیرائے میں سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

                مراتب اختر کی شاعری میں بھی اِن مختلف اسالیب اور موضوعات کی رنگارنگی نظر آتی ہے۔ غزل میں انگریزی اور مقامی لفظیات،محاکات نگاری اور نظم میں جدید تر اسلوب اس بات کا شاہد ہے کہ انہوں نے معاصرادب سے اثر پذیری کے بعد اپنا منفرو لہجہ بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

مراتب اختر اور معاصر غزل

 

                مراتب اختر کا شمار ساٹھ کی دہائی میں سامنے آنے والے غزل گو شعراء کی فہرست میں شامِل ہے۔ اِس دہائی میں اپنا ادبی مقام مستحکم بنانے والے دیگر شعرا میں جون ایلیا، شکیب جلالی، اقبال ساجد، انورشعور، سلیم شاہد، ناصرشہزاد، ریاض مجید، صلاح الدین محمود،اختراحسن، ثروت حسین، جاویدشاہین، ناصرکاظمی اور احمدمشتاق کے نام زیادہ نمایاں ہیں۔

جون ایلیا

                جون ایلیا اپنے لب ولہجے اور اسلوب کی بنیاد پر انفرادیت کا حامِل شاعر ہے۔ اُ ن کی شاعری میں کلاسیکی رویوں کے ساتھ ساتھ موضوعاتی تنوّع اور غزل کا تہذیبی رچائو اُنھیں قابلِ ذِکرشعراء کی صف میں نمایاں مقام کا حامِل بناتا ہے۔ اُنہیں غزل کے مروّجہ اور روایتی مضامین کی پیشکش پر دسترس حاصل تھی۔ وہ مختلف شعری تراکیب کے تخلیقی تفکرسے رُونما ہونے والے حالات اور احساسات سے وابستہ رہ کر کشت ِغزل کی آبیاری کرتے رہے۔ جون ایلیا کی غزل گوئی کی انفرادی جہات کو زیرِبحث لاتے ہوئے ڈاکٹر طارق ہاشمی رقم طراز ہیں:

اُردو غزل میں تیکھے تیوروں کا اسلوب کوئی نیا تجربہ نہیں لیکن جون نے اس سلسلے میں کچھ ایسی لفظیات کا اہتمام کیا ہے کہ اُسے اُردو غزل کی طنزیہ روایت کی تقلید ِمحض نہیں کہا جاسکتا۔(۷)

                جون ایلیا صحیح معنوں میں ماہرِ لسانیات تھے اور اُردو زبان کی مروّجہ لفظیات کے ساتھ ساتھ لفظ سازی کے ہنر سے بھی آگاہ تھے۔ وہ غیرمانوس الفاظ کو بھی اس طرح استعمال میں لاتے کہ وہ غزل میں کھردرے پن کا احساس نہیں ہونے دیتے۔ مثلاً جدید صنعتی زندگی اور جدید انسان کو علامتی انداز میں پیش کرنے والی اُن کی یہ غزل ملاحظہ ہو:

یاد آئی ہے کوئی آس مشین

شام سے ہے بہت اُداس مشین

دل وہی کس مشین سے چاہے

ہے مشینوں سے بد حواس مشین

یہی رِشتوں کا کار خانہ ہے

اِک مشین اور اُس کے پاس مشین

ایک پرزہ تھا وہ بھی ٹوٹ گیا

اب رکھا ہے کیا ترے پاس مشین(۸)

                جون ایلیا کے کلام میں متروک لفظوں کے احیاء کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی کے نامانوس الفاط اور مرکبات کا استعمال اُن کی انفرادیت ا ور لسانی تشکیلات میں دلچسپی کو ظاہر کرتا ہے۔

انورشعور

                انورشعور،شعورِ ذات کا شاعر ہے وہ اپنی ذات کی دریافت میں مگن ہے کیونکہ دورِحاضر کا بنیادی مسئلہ ہی انسان کی تلاش ہے۔ انورشعور فلسفہ حیات و ممات کی جستجو میں ہے اور فرد کے باطن کو حسی سطح پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔بقول ڈاکٹر طارق ہاشمی:

اپنی ذات کو محورومرکز بنا کر اس طرح اشعار تراشنا کہ ایک نقطہ پھیلتے پھیلتے مکان کی وسعتوں اور زماں کی گردشوں کو ہی نہ سمیٹ لے بلکہ کوزہ گر ازل کے چاک کا بھی احاطہ کرے۔ اُردو غزل میں یگانہ اسلوب ہے۔(۹)

                انورشعور نے واحدمتکلم میں اپنا ذات نامہ تشکیل دینے کی کوشش کی ہے جو اُسے اپنے باطن کی کھوج جیسے متصوفانہ رجحان کی جانب مائل کرتی ہے۔ بقول محمد سلیم الرحمن:

باطن کے اِس کھوج کو انورشعور نے اپنی غزلوں کا اوّل و آخر قرار دیا ہے۔(۱۰)

                انورشعور کے ہاں رومان کی شدت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ شعریت کے گہرے تاثر کو قاری تک منتقل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ اس کا ثبوت اُن کی غزل کے یہ چند اشعار ہیں:

اس میں کیا شک ہے کہ آوارہ ہوں میں

کوچے کوچے میں پھرا کرتا ہوں میں

مجھ سے سرزد ہوتے رہتے ہیں گناہ

آدمی ہوں ، کیوں کہوں اچھا ہوں میں

صاف و شفاف آسمان کو دیکھ کر

گندی گندی گالیاں بکتا ہوں میں

کانچ سی گڑیوں کے نرم اعصاب پر

صورتِ سنگ ہوس پڑتا ہوں میں

خواب آور گولیوں کے راستے

خودکشی کی کوششیں کرتا ہوں میں(۱۱)

اختراحسن

                ساٹھ کی دہائی میں روایت سے انحراف کی اہم مثال اختراحسن ہیں انھوں نے ’’زین غزلوں‘‘ کی صورت میں بدھ مت سے فکری روابط کی داخلی شہادت دی ہے۔ ’’زین غزلیں‘‘ ان کے مجموعے ’’گیا نگر میں لنکا‘‘ میں شائع ہوئی ہیں جن کی تعداد ۱۰۰ ہے اور دو ابواب میں برابر تقسیم کی گئی ہیں۔ پہلے باب کا عنوان ’’گوتم‘‘ اور دوسرے کا’’راون‘‘دیا گیا ہے۔

                ’’زین غزلوں‘‘ میں گوتم کا گیا نگر اور راون کا لنکادومتضاد تہذیبی علامتیں ہیں۔ اِن غزلوں کے توسط سے اختراحسنؔ نے عالمی جنگی وحشت کو بیان کیا ہے جس میں غالب اقوام کو محکوم اقوام کا استحصال کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ گوتم اور راون کے اساطیری کرداروں اور علامتوں کے پس منظر میں ’’زین غزلیں‘‘اُردو غزل کے تجرباتی سفر میں انفرادی شناخت کی حامِل ہیں۔ اُن کی غزلوں کے چند شعر درج ذیل ہیں:

باب دوم’’گوتم‘‘

کرنے آئے تھے سیر بدھ جی

دریا کو گئے ہیں پیر بدھ جی

 

اللہ اللہ تمہارے دم سے

تم ہی ہو حرم اور دیر بدھ جی

 

نروان تو مِل گیا صاحب

ہم کو نہ ملے تو خیر بدھ جی

باب دوم’’راون‘‘

جب راون نے بندوق چلائی

چیخن لاگی ساری خدائی

 

گرجے کال ہے سب کے سر پر

کال سمے ہے کال بھلائی

 

گلے میں کرموں کی ہے مالا

کالی چولی سادھو بھائی(۱۲)

جاویدشاہین

                جاویدشاہین کا شمار غزل کے نمایاں شعراء میں ہوتا ہے، اُنھوں نے کسی خاص نظریے کو باقاعدہ اپنانے کی بجائے اپنی انفرادی تخلیقی فعالیت کو برقرار رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ایک طرف تو غزل کو نظم میں سمونے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف نثری نظم کی صورت میں مروّجہ اصناف سے انحراف کا ثبوت دیا ہے۔بقول انیس ناگی:

جاوید شاہین کا ابتدائی کلام غزل کی کلاسیکی میں لکھا گیا ہے اور موضوعاتی سطح پر بھی اپنی عاشقانہ حرماں نصیبی کو معروضی سے علائق سے ملانے کا رجحان بھی ہے۔(۱۳)

                جاویدشاہین نے نامانوس الفاظ کو اس مانوس ڈھنگ میں برتا ہے کہ اُن سے اُن کی شخصی آزادی کے احساس کے ساتھ ساتھ اُن کی انفرادیت بھی جھلکتی ہے۔جاوید شاہین نے بدلتی ہوئی دُنیا اور پیچیدہ نظامِ زندگی کو غزل کی روایت میں اس طرح پیش کیا ہے کہ ایک نئے جہانِ فن کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ نئے سانچے، نئی تراکیب اور نیا طرزِاظہار اُنھیں اپنے معاصرین میں نمایاں مقام پر متمکن کرتا ہے۔ اُن کے درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:

جو برف زار چیر دے ایسی کرن بھی لا

پتھر دِلوں میں آج کوئی کوہ کن بھی لا

اس طرح سرسری میرا بابِ وفا نہ لکھ

وقتِ شمارِ زخم مرا خستہ تن بھی لا

یہ چشمِ التفات ہی کافی نہیں مجھے

میرے لیے تو نرمی کام و دہن بھی لا

زخمِ سفر کے دردِ مسلسل کا سحر توڑ

نکلا ہوا وطن سے غریب الوطن بھی لا

شاہینؔ اسے عزیز ہے اپنا لہو تو کیا

نعشِ شہید کے لیے خونیں کفن بھی لا(۱۴)

ثروت حسین

                ساٹھ اور سترکی دہائی میں نمایاں ہونے والے شعرا میں ثروت حسین کی غزل بقول سراج منیر’’اِس پوری نسل کے شعری تجربے کے عین مرکز میں واقع ہے۔‘‘(۱۵)

                اُن کی غزل میں مذہبی طرزِاحساس کے ساتھ ساتھ تاریخی علامتیں اور کردار بھی پائے جاتے ہیں لیکن اُن کی جذباتی وابستگی کرئہ خاک سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاک اُن کا مستقل استعارہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

نقش کچھ اُبھارے ہیں فرشِ خاک پر میں نے

نہر اک نکالی ہے وقت کاٹ کر میں نے

                وہ اپنی مٹی کی شادابی اور ہریالی کے خواب دیکھتے ہیں اور اُن کی تعبیر کے لیے دُعاگو رہتے ہیں۔

آئے ہیں رنگ بحالی پر

رکھتا ہوں قدم ہریالی پر

                ثروت حسین کے ہاں اساطیری علامتوں اور کرداروں کا متحرک منظرنامہ بھی تشکیل پاتا ہے۔ شہزادی کا کردار اُن کا محبوب کردار ہے۔ اِس کے علاوہ شہرزاد، بلقیس،صوفیا اور سلیمان کے کردار بھی اُن کی غزل کی معنویت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ پنجاب اور سندھ کے صوفیاء کرام کی کافیوں اور منظوم لوک داستانوں کے رنگ بھی اُن کی شاعری میں پھیلے ہوئے ہیں۔

لال لہو فوارہ ہو

یار نے خنجر مارا ہو

سچا سائیں منارے والا

تن من تجھ پر وارا ہو

                مجموعی طور پر ثروت حسین کی شاعری کی علامتیں اپنی سرزمین کے تہذیبی اور رُوحانی دھاروں سے جڑی ہوئی ہیں۔ اِن کے علاوہ ساٹھ کی دہائی میں خورشیدرضوی، توصیف تبسم، ریاض مجید، زہرہ نگاہ اور کشور ناہید وغیرہ بھی قابلِ ذِکر نام ہیں جن کا شمار مراتب اختر کے ہم عصر شعراء اور شاعرات میں ہوتا ہے۔

مراتب اختر اور معاصر نظم

 

                ۶۰ کی دہائی میں اُردونظم کو واضح اور منفرد صورت عطا کرنے والے شعرا میں جیلانی کامران، افتخارجالب، انیس ناگی، عباس اطہر، زاہدڈار،تبسم کاشمیری، گوہرنوشاہی اور مراتب اختر کے نام قابلِ ذِکر ہیں۔ مراتب اختر، مجیدامجد کے قریبی دوستوں میں سے تھے، اور شاعری کے حوالے سے ان کے نظریات اور اسلوب بھی مجیدامجد سے متاثر ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، مراتب اختر کی نظم پر بات کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ معاصرنظم کے شعرا میں سے چند کا اجمالی خاکہ پیش کیا جائے، تاکہ اس وقت کے حالات و واقعات، علمی ادبی فضا اور ماحول کو مد ِنظر رکھتے ہوئے، ہم عصر نظم گو شعرا میں مراتب اختر کا مقام و مرتبہ متعین کرنے میں آسانی ہو۔

افتخارجالب

                افتخارجالب کی نظمیں بظاہر مفہوم سے معرا اور نظم کی جدید روایت سے بالکل مختلف ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ خیال کے لامحدود موضوع سمیٹے ہوئے ہیں۔ افتخارجالب نے اپنی نظموں میں نئے عہد کے انسانی مسائل کی پیچیدگیوں کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ افتخارجالب نے ماضی اور ماضی کی تمام روایات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے، اپنے دور کے مسائل کی نشاندہی کی ہے، افتخارجالب کی نظموں کے طریقۂ کار پر رائے دیتے ہوئے سیّد سجاد لکھتے ہیں:

شاعر کا میتھڈ بہت اہم ہے کہیں بھی صرف علامت، تلازمے اور تجرید پر انحصار نہیں کیا گیا۔ ان سب چیزوں کو کہیں تو اکٹھا اور کہیں زورِبازو کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ نظم ایک نقطہ سے شروع ہوتی ہے اور فکری تسلسل کے ساتھ چلتی ہے اور پھر دو تین مصرعوں میں ہی تلازمہ نئی دُنیائوں اور تصویروں میں لے جاتاہے۔ اس تلازمے میں تصویریں محض تصویریں نہیں رہتی، علامتیں بھی بنتی ہیں، پھرؤ یہیعلامتیں، علامتوں سے اُبھر کر تجریدی عمل میں مصروف نظر آتی ہیں، تجریدی عمل دوبارہ اس مقام پر لے آتا ہے، حتیٰ کہ نظم کے بنیادی خیال کی ہر ذہنی سطح سے شناسائی ہو جاتی ہے۔(۱۶)

                افتخارجالب کی نظمیں تیسری دُنیا کے انسان کے مسائل اور مشکلات کی آئینہ دار ہیں انھوں نے ٹریفک کے ہنگاموں، اقتصادی اور معاشی مسائل، کھیتوں میں غلہ بانوں کی پریشانیوں اور کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارتے انسانوں کی عکاسی اور ترجمانی بہت خوبصورت انداز میں کی ہے، ان کی ایک نظم نمونے کے طور پرپیش ہے۔

’’ہوا آئے گی

بہرنیلگوں کے سرد سینے پر شکستہ رنگ ذروں کو

قیامت تک لیے پھرتی رہے گی اور طلعت کی بھری آغوش میں آخر

ظہورِآدم خاکی مجھے تنہائی بخشے گا

میں حیراں کوچہ جاناں کی رعنائی کو دیکھوں گا

بدن بے حرکتی میں منجمداندھے تصوّرکی دل آویزی کی حد سے ماور۱

وصلِ دو عالم میں بسااحساس کی شرمندگی کی دھوپ میں

محبوب کے شیریں

عدمِ رفتہ

نجانے تن کو چھو کر کھول جائے گا

جسے زندانِ ہستی میں تلاش و جستجو کے بعد وہ وہم و گماں پایاں

بالآخر خیمہ شب میں اسی کی ذات سے شیروشکر ہونے کی لذت حشر تک مصروف رکھے گی‘‘

                افتخارجالب کی نظموں میں نئی تراکیب و احساسات کے ساتھ ساتھ لسانی تشکیلات کے بھی عمدہ نمونے نظر آتے ہیں جو اس عہد میں نئی نظم کے میدان میں جوہر دکھانے والوں کے ہاں کثرت سے موجود ہیں۔ افتخارجالب اپنے دور کے نمائندہ شاعروں میں سے ایک ہیں۔

عباس اطہر

                عباس اطہر نئی نظم کے نمائندہ شاعروں میں اہم مقام کے حامِل ہیں۔ ان کی نظموں کابنیادی استعارہ جنس ہے، وہ نئے سائنسی معاشرے کے انتشار کی بڑے جرأت مندانہ طریقے سے عکاسی کرتے ہیں۔ ماحول اور تجربے کی نوعیت کے مطابق ان کی لفظی تصویریں متحرک، منجمد، روشن، تاریک، رنگین اور بے رنگ ہوتی ہیں اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ وہ ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں کوئی چیز بھی ٹھکانے پر نہیں۔ اس معاشرے میں تازی گھوڑا پالان کے نیچے مجروح ہو رہا ہے اور گدھے کی گردن میں طوقِ زریں ڈالی گئی ہے۔ ایک ہی خاندان کے افراد بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ ملوں اور فیکٹریوں میں مزدور کا استحصال جاری ہے۔ سڑکوں پر کالے دھوئیں کے بادل پھیل رہے ہیں۔ ایسے آلودہ ماحول میں انسان کی سوچیں بھی آلودہ ہوتی جا رہی ہیں۔ اس لیے عباس اطہر نے معاشی پسماندگی اور معاشرتی ناہمواری کے تضاد پر بات کی ہے۔ ان کے کردار فکری، تہذیبی اور معاشرتی بے راہ روی کے آئینہ دار ہیں۔لہو پینے والی پہاڑیاں، قتل، خوف اور تشدد بھی ان کی علامتیں ہیں۔ ان کے کردار آج کے مشینی دور کے وہ کردار ہیں جو ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کی بجائے اپنے مسائل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے کرداروں میں رُسوائی، برہنگی، موت،انتقام، تلخی، تشویش اور شکستگی کا احساس بڑا شدید ہے۔ عباس اطہر کی شاعری کے خدوخال ان سطورمیں دیکھے جا سکتے ہیں۔

’’اس نے دروازے کی درزوں سے

سرکاری جیپ کو سات رنگوں کے راستے پر پھسلتے سنا

سانسوں میں شکار

غارمیں چھپ جانے والے کے واقعے پر دراڑ

جب وہ سات سو سال باہر نکلا

پرانے سِکّے بدل چکے تھے

کیک ،پیسٹریوں، نوٹوں اور اٹھنیوں پر نئے کتے کی تصویر تھی‘‘

                عباس اطہر وہ شاعر ہیں جن کے لاشعور میں شہنشاہیت سے لے کر بربریت تک کے سیکڑوں تصورات پوشیدہ ہیں۔ بادشاہ کی سواری، مکڑی کے جالے، موت کا وحشی ناچ، ننگے سر لٹکتی بادشاہ کی لاش، شہادت کا ثمر، یہ سب کچھ ہمارا قدیم اثاثہ اور معاشرتی ماحول کا حصہ ہے۔ عباس اطہر نے اس اثاثے کی پیش کش کو نئے عہد کے رجحانات اور رویوں کی صورت میں اپنی شاعری میں سمویا ہے۔

مجیدامجد

                جدید اُردو شاعری میں مجیدامجد کا نام انفرادیت کا حامِل ہے۔ مجیدامجد کی ابتدائی شاعری اُردونظم کی رومانی تحریک سے متاثر ہے۔ مگر ان کی نظمیں رُومانی شعرا کی نظموںکی نسبت زیادہ منجھی ہوئی اورمزین ہیں۔

                ’’شب ِرفتہ‘‘ میں ’’دمِ شرر‘‘ کے حصے کی سب نظمیں رومانی شعراکے اثر کا ہی نتیجہ نظر آتی ہیں مگر ان کی نظمیں انفرادیت، مخصوص تمثال نگاری اور آہنگ کی مناسبت کی خصوصیات کی وجہ سے انفرادیت کی حامِل ہیں۔ امجد کی نظموں میں حال سے بے اطمینانی کا احساس تو موجود ہے مگر اس میں شدت نہیں۔ مجیدامجدکا واسطہ زندگی میں جن مسائل، اُلجھنوں اور داستانوں سے پڑا وہ ان کی شاعری پراثرانداز ہوئیں۔ امجد نے اپنی نظموں میں نئے عہد کی صنعتی زندگی کے ساتھ اُبھرنے والے نئے شہروں کے جغرافیے سے لے کر پرانی قصباتی تہذیب کی متوازن قدر کو سمویا ہے۔

                نئے صنعتی شہر آباد ہونے سے آبادی میں اضافہ ہوتا ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے بنائے جانے والے مکانوں اور بنگلوں کی تعمیر کے لیے درختوں کو کلہاڑیوں سے کاٹ دیاجاتا ہے۔ سائنس اورمادہ پرستی کے اس دورمیں اداروں، تنظیموں اور دفتری زندگی کی مصروفیات میں پھنسے انسان نے ایک مشین کی شکل اختیار کر لی ہے۔ مجیدامجد اپنی نظموں میں نئی شہری زندگی اور پرانی قصباتی فضا کو اُبھارتے ہیں:

وہ چھپر اچھے ہیں جن میں ہوں دل سے دل کی باتیں

ان بنگلوں سے جن میں بسیں ، گونگے دن بہری راتیں

چھت پر بارش بھیگے اُجلے کالر ، گدلی انتڑیاں

ہنستے مُکھ ، ڈکراتی قدریں ، بھوکی مایا کے سب مان

                مجیدامجد کی نظم کنواں ’’شب ِرفتہ‘‘ کی بہترین نظموں میں سے ایک ہے۔ کنواں زندگی کی ایسی علامت ہے جو ازل سے جاری ہے اور ابد تک قائم رہے گی ان کے خیال میں زندگی امکانات کے ہیرپھیر کا نام ہے اور انسان کسی بھی لمحے نئے اور عجیب منظر کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ ’’طلوعِ فرض‘‘ معاشرے میں زندگی کے کاروبار پر روشنی ڈالتی ہے اور معاشرتی طبقے کو اُجاگر کرتی ہے۔ شہر کی مشینی زندگی سے اُکتاہٹ بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مجیدامجد کی نظموں میں زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات اورمسائل کو بہت خوبصورت اندازمیں تحریر کیاگیا ہے۔

                مجیدامجد اپنی نظموں میں لفظوں کی ایسی تصویریں کھینچتے ہیں جو ذہنی،بصری اور محسوساتی ہوتی ہیں۔ ان کی نظموں میں زندگی کی گہماگہمی اور رونقوں کے علاوہ محرومی اشیاء کا وافر ذخیرہ بھی موجود ہے۔ ان کی تمثالیں بڑی ملائم،اُجلی، نفیس اور متوازن ہوتی ہیں۔ لفظوں کے استعمال میں وہ کلاسیکی رویہ اپناتے نظر آتے ہیں۔ جذبات و احساسات کے پھیلائو کو مضبوط بنانے کے لیے وہ متوازن اور متناسب الفاظ کا چنائو کرتے ہیں ان کی نظموں کے مصرعوں میں خاص قسم کا ربط، تسلسل اور روانی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ’’آٹوگراف‘‘ ان کے فنی ارتقاع میں کلیدی حیثیت کی حامِل ہے۔ اِس میں انھوںنے لفظوں کے صوتی تلازمات کا بہت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ پھاٹک، شخصیت، کھلاڑی اور بائولر جیسے غیرشعوری لفظ مجیدامجد کی قادرالکلامی کے سبب شعری اظہار کا بہترین نمونہ بن کر سامنے آتے ہیں۔ بلاشبہ مجیدامجد اپنے عہد کے شاعروں میں ایک معروف نام کے حامِل ہیں۔ ان کے بارے میں ڈاکٹروزیرآغا نے لکھا ہے کہ ’’مجیدامجدنے خارج کی مادی دُنیا کو باطن کی غیرمادی دُنیا سے مربوط کرنے میں فنی بالیدگی کا ثبوت دیا ہے۔‘‘(۱۷)

انیس ناگی

                انیس ناگی جدید اُردو نظم کے شعرامیں ایک خاص مقام رکھتے ہیں ان کا شعری مجموعہ ’’بشارت کی رات‘‘ ایسی نظموں پر مشتمل ہے جس میں تشکیک، تجسّس اورمعاشرتی صورتِ حال کی بے یقینی واضح نظر آتی ہے۔ ناگی کی نظموں میں اشیاء کی شکست و ریخت اورٹوٹ پھوٹ کا احساس عمومی ہے۔ انھوں نے انسانوں کو محسوس کیا اور ان کے لاغر ڈھانچوں اور بیمار حسن کی تصویرکشی کی۔ وہ تمدن کی نئی ترتیب کے خواہش مند ہیں۔ انیس ناگی کے ہاں ایسی نظمیں بھی ملتی ہیں جو جلاوطن فرد کی سرگزشت سنائی دیتی ہیں۔ ایسا جلاوطن فرد جس کا ماضی اِس کے لیے بے فائدہ ہو اور حال میں بے اطمینانی اور مستقبل کا بھی کوئی واضح تصوّر نہ ہو۔

’’کس جہنم کا ہم آج ایندھن بنے ہیں

جو جلتا نہیں اور بجھتا نہیں

ہاں یہ تابوت اُٹھتا نہیں ہے

یہ کیسی ہوا ہے

جو جلتی نہیں اور تھمتی نہیں

جسم پر کتنی لاسیں پڑی ہیں

جنھیں دیکھ کر کوئی ہنستا نہیں اور روتا نہیں؟

سانس ڈھلتی نہیں

زندگی ہاتھ آتی نہیں‘‘

                انیس ناگی کی نظموں میں گھسے پٹے مصرعوں اورجملوں کی بجائے نئے الفاظ ملتے ہیں انھوں نے نئی گرامر اور نئی شعری ضروریات کے مطابق عروضی وزن میں ترمیم و تبدیلی سے بھی گریز نہیں کیا۔

سلیم الرحمن

                سلیم الرحمن جدید اُردونظم کے نمائندہ شاعر ہیں ان کے ہاں شخصی ذات کے حوالے سے انسانیت کی جو تصویر تشکیل پاتی ہے اس میں دُکھ،کربِ مسلسل، تشدد، دہشت اور جنوں واضح نظر آتے ہیں۔ انھیں اپنا مقدر فنا کی تصویروں میں نظر آتا ہے۔ وہ جذباتیت سے زیادہ سفاکی کے رویوں کو اپناتے ہیں۔

’’رات کو اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے

لمبے لمبے ناخنوں والی چڑیل

نکلتی ہے

جو چیخ چیخ کرہنستی ہے

اور میری جانب بڑھتی ہے‘‘                                   (خوف)

                سلیم الرحمن سلجھی ہوئی اور عام فہم زبان استعمال کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی علامتیں اور اِستعارے مِل کر ان کی شاعری میں بڑی علامت کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ سلیم الرحمن نے سادہ بحور استعمال کی ہیں اور قلیل الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معنی دینے کی کوشش کی ہے۔

زاہدڈار

                زاہدڈار جدید دور کے نظم گو شعرامیں ایک خاص مقام رکھتے ہیں ان کی شاعری میں میراجی کے لہجے کا واضح عکس نظر آتا ہے۔ ان کی نظموں کی زبان بے تکلّفانہ اور روزمرہ بول چال کے قریب ہے۔ ان کی شاعری میں جدید عہد کاآشوب اور نئے انسان کا انتشار گڈمڈ ہو کر سامنے آتے ہی۔ انھوں نے ماحول کی بے ہنگم اور بے معنی زندگی کا مشاہدہ بھی تفصیلی انداز سے کیا ہے۔ زاہد ڈار کی شاعری میں مادی اشیاء کے ٹھوس حسی تصورات کے ساتھ ساتھ ان اشیاء کے ردّ ِعمل کے طور پر اُبھرنے والے تجربہ کی کیفیات کی بھی فراوانی ہے۔

’’ہر رُوپ کی بے نام تنہائی میں اُترا کیا

اجنبیت، راستے،دریا، اندھیری رات، تارے

پھر اندھیری رات، تارے

پھر نہیں سورج نہیں

ہم نے یوں

اِک اندھیری رات میں چھوڑا مجھے‘‘                    (اندھیری رات)

                زاہد ڈار کی تمثیلیں کبھی موسموں سے تو کبھی عام انسانی زندگی کے کاروبار اور کبھی تصوراتی دُنیا کے پُراسرار جزیروں سے ترتیب پاتی ہیں۔بلاشبہ زاہد ڈار کا کلام جدید اُردونظم میں ایک شانداراضافہ ہے۔

ڈاکٹر تبسم کاشمیری

                تبسم کاشمیری کی نظموں میں اِردگرد کے پھیلے مناظر کی تصویرنظر آتی ہے۔ انھوںنے معاشرتی زبوں حالی کا انفرادی سطح پر تجزیہ بھی کیا ہے اور مجموعی صورتِ حال کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ان کی شاعری میں پیلے پھول، بنجر شاخیں، لڑھکتے پتھر، جنگل کی آوازیں، سیاہی اور خون نظر آتے ہیں۔ تبسم کاشمیری کی شاعری میں خوبصورت اور نئی تراکیب بھی استعمال ہوتی ہیں۔ انھوں نے معاشرتی ماحول کی بے رغبتی اور لامعنویت کو بھی محسوس کیا ہے۔

’’بوڑھے پنشنز کا فیلٹ پھٹ چکا تھا شاید ثابت دنوں کا غم تھا

گونگے گھنٹیاں بجا رہے تھے اور بہرے گھنٹیاں سن رہے تھے

اور اندھوں کے ہاتھ میں مشعلیںتھیں

ان کے دماغوں میں کیچڑ بھر دی گئی تھی اور خون میں کھارا پانی‘‘

حوالہ جات

۱۔            الطاف حسین حالیؔ، دیباچہ نظم حالی، کلیاتِ نظم حالی، حصہ اول، ص۳

۲۔            انتظار حسین، نئی نسل کے خلاف ردعمل ،مشمولہ: ہمایوں، جولائی ۱۹۵۳ئ،ص۲۷

۳۔            جیلانی کامرانی، نئی نظم کے تقاضے، لاہور: کتابیات، اشاعت دوم، ۱۹۶۷ئ، ص۲۶

۴۔            سلیم احمد، نئی شاعری نامعقول شاعری، کراچی: نفیس اکیڈمی، ۱۹۸۹ئ،ص

۵۔            مخدوم منور، نثری نظم کی تحریک، ملتان: کاروانِ ادب، اشاعت دوم، ۱۹۸۲ئ،ص۱۱۲

۶۔            اصغر علی بلوچ، ڈاکٹر، فلسفہ اخلاق اور بیسوی صدی کی اُردو نظم(غیر مطبوعہ مقالہ برائے پی ایچ ڈی)لاہور: مخذونہ لائبریری اوریٹل کالج پنجاب یونیورسٹی ،۲۰۰۹، ص۴۶۶

۷۔            طارق ہاشمی،ڈاکٹر، اُردو غزل__نئی تشکیل، اسلام آباد:نیشنل بک فائونڈیشن، ۲۰۰۸ئ،ص ۴۰۳

۸۔            جون ایلیا،شاید،لاہور:الحمدپبلی کیشنز، ۱۹۹۸ئ، ص ۱۲۸

۹۔            طارق ہاشمی، ڈاکٹر،اُردو غزل__نئی تشکیل، ص ۲۱۱

۱۰۔          محمدسلیم الرحمن، تعارف اور شور،مشمولہ:آٹھ غزل گو،مرتبہ:جاوید شاہین،لاہور:،مکتبہ میری لائبریری، ۱۹۷۸ئ،ص ۱۱۶

۱۱۔          انورشعور،مشقِ سخن، کراچی:ڈائیلاگ پبلی کیشنز، ۱۹۹۷ئ،ص ۵۷

۱۲۔          اخترحسن، گیانگر میں لنکا،لاہور:تخلیقات پبلشرز،س۔ن

۱۳۔          انیس ناگی، پاکستانی اُردو ادب کی تاریخ، لاہور:جمالیات، ۲۰۰۴ئ،ص ۱۲۲

۱۴۔          جاویدشاہین،آٹھ غزل گو،ص ۷۶

۱۵۔          سراج منیر، وہ خواب ہے اور کہیں کا، مشمولہ:ادبیات، شمارہ ۳۶، اسلام آباد:ص ۱۶۱

۱۶۔          سیّدسجاد، نئی نظمیں، لاہور: نئی مطبوعات، ۱۹۶۷ئ، دیباچہ

۱۷۔          وزیرآغا،ڈاکٹر، اُردو شاعری کا مزاج، ص ۳۹۴

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...