Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مراتب اختر شخصیت و فن > ۔مراتب اختر کی غزل گوئی

مراتب اختر شخصیت و فن |
مہکاں پبلشرز
مراتب اختر شخصیت و فن

۔مراتب اختر کی غزل گوئی
ARI Id

1688721480270_56116766

Access

Open/Free Access

Pages

122

مراتب اختر کی غزل گوئی

                ساٹھ کی دہائی میں شہرت حاصل کرنے والے شعراء میں ایک اہم نام مراتب اختر کا بھی ہے۔ مراتب اختر منفرد لہجے کے جدید شاعر تھے۔ جنھوں نے غزل میں نئے نئے تجربات کیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شاعری کی اساس اسلوب ہے اور اسلوب کی خوبصورتی الفاظ کے انتخاب کی مرہونِ منت ہے۔ لفظوں کا خوبصورت انتخاب کلام میں آہنگ اور موسیقیت پیدا کرتا ہے اور الفاظ کی لطافت، فصاحت اور موزونیت ایک دوسرے کے ساتھ تقابل کے بعد واضح ہوتی ہے۔ مراتب اختر اُردو غزل میں جدیدیت کے علم برداروں میں اہم مقام رکھتے ہیں اور اُن کا اسلوب اس کا آئینہ دار ہے۔ انھوں نے اپنے کلام میں جدیدلفظیات کو استعمال کر کے جدید غزل کو ایک نیا رنگ دیا۔ مراتب اختر کی شاعری کے حوالے سے معروف شاعر اور نقاد افتخارجالبؔ لکھتے ہیں:

مراتب اختر نے جو شاعری کی ہے۔ اس میں رکھ رکھائو، ڈِکش کی ملائمت، نفاست اور مروّجہ شعریت نہیں ہے۔ سب کچھ اُکھڑا اُکھڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ خرابیاں کہ امکان سے نابلد، اندھے اور بے مغز لوگوںں کو گراں گزرتی ہیں۔ درحقیقت مراتب اختر کی خالص خوبیاں ہیں۔(۱)

                مراتب اختر شاعری کے میدان میں لکیر کے فقیر ثابت نہ ہوئے بلکہ انھوں نے عرصہ دراز سے استعمال ہونے والے سادہ الفاظ کو اس نئے رنگ سے اپنی شاعری میں استعمال کیا کہ وہ اُن کی پہچان بن گئے۔ مراتب اختر کے حوالے سے وحید اطہر اپنے مضمون ’’مراتب اختر اور ہم‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں:

مراتب اختر کے ہاں گل و بلبل کی شاعری نہیں ہے۔وہ زمانے کے ساتھ ساتھ رہا۔ اس نے دیومالائی قصے کہانیوں کا سہارا نہیں لیا۔ وہ جیتے جاگتے ماحول میں زندہ رہا۔ داخلی جذبوں کے ساتھ ساتھ، خارجی حقیقتوں کااظہار مراتب اختر کی غزلوں کا خاصا ہے۔(۲)

                اس حقیقت سے انکار نہیں کہ شاعری جذبات و احساسات اور داخلی و خارجی کیفیات کے اظہار کا نام ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر عمر کے شاعر کا مشاہدہ کرنے اور بیان کرنے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ نہ تو کسی شاعر کا محض اسلوب اُس کی شاعری میں جان ڈال سکتا ہے اور نہ ہی اکیلے موضوعات اُس کی شہرت کا سبب بن سکتے ہیں بلکہ اِن دونوں خوبیوں کا امتزاج عظیم ادب کی تخلیق کا سبب بنتا ہے۔ مراتب اختر کی غزلوں کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے رومانی، معاشرتی، سیاسی، نفسیاتی، مذہبی موضوعات کے ساتھ تصوف، دیہی زندگی کی پیشکش، عصری مسائل اور فکری اور جذباتی کشمکش کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ مراتب اختر کا تعلق ایک صوفی گھرانے سے تھا۔ وہ ایک باعمل اور درویش منش انسان تھے۔خود بھی ہر وقت حمدوثنا میں مصروف رہتے تھے اور مریدین کو بھی اس کا درس دیتے تھے۔ اُن کے کلام میں بھی جگہ جگہ حمدیہ اشعار ملتے ہیں بلکہ ان کی کتاب’’گنجِ گفتار‘‘کے شروع کے صفحات میں ان کا حمدیہ کلام بھی شائع کیا گیا ہے۔

صدیاں اُس کی حمد زمانے اُس کی ثناء

جس کو اَن دیکھا انجانا مان لیا

                یوں تو ان کے کلام میں بے شمار حمدیہ اشعار موجود ہیں مگر اُن کے چند اشعار حسب ذیل ہیں:

قیودِ روز و شب سے ماورا ہے

خدا نام و نسب سے ماورا ہے

______

آفاق میں طاقت کا محور، بن دیکھے اُس کو مان لیا

سمٹے تو جلال پہاڑوں کا ، پھیلے تو سمٹ کر رائی ہے

______

تیری جمالیات زمانوں پہ ہے محیط

میرے تحیّرات کا مصدر وجود میں

______

ڈھونڈتا پھرتا ہوں دُنیا میں جسے دیکھا نہیں

جو ازل سے پاس ہے اور سامنے آیا نہیں

                اللّٰہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان کے ساتھ ساتھ نبی ٔاکرمﷺ سے عقیدت ہرمسلمان کے ایمان کا حصہ ہے:

ذکر خدا کرے ،ذکرِ مصطفی نہ کرے

میرے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے

                اس شعرکے مصداق مراتب اختر نے بھی رسولؐ اللہ کی مدح سرائی کی ہے اور نبیٔ کریمﷺ کی شان میں کئی نعتیہ اشعار لکھے ہیں جن میں سے چند بطور نمونہ درج ذیل ہیں:

اُس کے بغیر کس کو مِلا ہے جہان میں

معراج کا مقام؟ محمد کہیں جسے

___

اے وجۂ کل ، متاعِ ازل ، سیّدالبشر

اب تجھ کو لاج مجھ کو ہے تیرا کہا گیا

______

اللہ کا مِلا ہے پتہ تیرے نام سے

ہر راز زندگی کا کھلا تیرے نام سے

______

خود دیکھتا ہوں کھلتے ہوئے رحمتوں کے در

کرتا ہوں جب شروع دُعا تیرے نام سے

______

شق ہو گیا قمر کبھی سورج پلٹ پڑا

یہ واقعات جو نہیں آتے شعور میں!؟

                ہر مردِ کامل اور راسخ العقیدہ مسلمان کی طرح مراتب اختر بھی خدا اور رسولﷺ سے محبت کے بعد عقیدہ آخرت پر کامل یقین رکھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں:

پیکر سے خاک جھاڑ کے دوڑوں گا تیری سمت

گھنٹی جوں ہی بجے گی ابد کے سکول کی

                زندگی اور موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر ذِی رُوح کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب انسان کائنات میں آتا ہے تو اس کی سانسیں، رزق اور زندگی کے معاملات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور بظاہر ہر آنے والے دِن زندگی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے لیکن حقیقت میں لکھی گئی زندگی میں بتدریج کمی ہو رہی ہوتی ہے۔ مراتب اختر نے اس حقیقت کو کتنے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہی۔ وہ لکھتے ہیں:

دِل دھڑکتے ہیں، کہ دن جھڑتے ہیں پت جھڑ کی طرح

عمر سانسوں کی گلوں کی زدِ ایّام میں ہے

اسی بات کو ایک دوسرے شعر میں بیان کرتے ہیں:

دن بدن گھٹ رہے ہیں عمر کے دن

چڑھ کے دریا اُتر رہا ہے کوئی

                کائنات میں پیدائش و اموات کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور تاابد قائم رہے گا۔اس زندگی کی ناپائیداری پانی کے بلبلے کی طرح ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جیسے سرسبزوشاداب درخت کے تمام پتوں کا مقدر ایک ایک کر کے گرنا ہے اور پھر درخت کو نئے سرے سے سرسبزوشاداب ہونا ہے۔ بالکل اسی طرح کائنات میں آنے والے ہر انسان نے باری باری اپنے انجام کو لوٹنا ہے اورپھر قیامت کے بعد اس جہان نے نئے سرے سے آباد ہونا ہے۔ دُنیا کی اس بے ثباتی کے حوالہ سے مراتب اخترؔ یہ لکھتے ہیں:

اِک وہ دن بھی زندگی میں آئے گا

ایک پتہ ٹوٹ کر گر جائے گا

                بے ثباتی کی اسی حقیقت کو وہ ایک اور شعر میں یوں بیان کرتے ہیں:

ہر ایک چیز لوٹ رہی ہے اُسی کی سمت

مبداء ہے ایک عرصہ گہے ممکنات کا

                شاعر معاشرے کاحساس طبقہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دور میں ہونے والے ظلم و زیادتی اور سماجی رویوں کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہی اُنھیں معاشرے کی آنکھ کہاگیا ہے۔ ہر معاشرے میں اچھے اور بُرے کی تمیز بھی ہوتی ہے اور ریاکاری اور ایثار جیسے رویوں کو بھی محسوس کیا جاتا ہے۔ مطلب پرستی اور خودغرضی ایسے ہتھیار ہیں جنھیں بعض عیار اور مکار لوگ موقع کی مناسبت سے استعمال کر کے اپنا کام نکالتے اور راستہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

                مراتب اخترکو اس سماجی رویے کا بخوبی ادراک تھا۔ وہ کہتے ہیں:

مطلب پڑے تو کہتا ہے تم بھی عظیم ہو

یہ کیسا ڈھنگ یاد ہے موقع شناس کو

                ایسا معاشرہ جس میں اسلامی نظام رائج نہ ہو اور اسلامی تعلیمات کو خاطرخواہ اہمیت نہ دی جائے وہاں انسان کا استحصال ہوتا رہتا ہے۔ انسانوں کو کبھی مستقبل کے سہانے خواب دِکھا کر لوٹا جاتا ہے تو کبھی آنے والے انقلاب کی جھلک دکھا کر لیکن اس سودی نظام میں غریب، غریب تر ہوتا جاتاہے اور سرمایہ دار اور اہلِ اقتدار طبقہ آسودہ حال ہوتا جاتا ہے۔حساس دل کے مالک مراتب اخترؔ نے انسانوں پر ہونے والے اس ظلم کو نہ صرف محسوس کیا ہے بلکہ اس کا اظہاربھی کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

نہ چاند رات کے لمحے نہ جگنوئوں کے دیے

کسی نے مجھ کو گھنے سائے ظلمتوں کے دیے

                علم معاشیات کا ایک قانون اس بات کو واضح کرتا ہے کہ جہاں طلب پیدا ہو وہاں رسد بڑھ جاتی ہے لیکن حقیقی معاشرے میں اس کا ثبوت بہت کم ملتا ہے۔ ظلم و زیادتی، جبروناانصافی، سازش اور اقربا پروری جس معاشرے کے ناسور ہوں وہاں اصل حق داروںاور سائلوں کے حقوق حذف ہوتے رہتے ہیں۔ مغربی جمہوریت کے زیرِاہتمام پروان چڑھنے والے اس معاشرے میں جہاں پسند اور ناپسند کو معیار مانا جاتا ہے وہاں سہولیات اور وسائل کی فراہمی کے لیے بھی جاگیرداروں اور وڈیروں کی ترجیحات کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ مراتب اختر نے اس معاشرتی ناہمواری کو محسوس کرنے کے بعد یوں بیان کیا ہے:

وہ شہر روشنیوں کی جسے ضرورت تھی

رہا ہے اُس کی حدوں سے پرے پرے سورج

                ۱۹۴۷ء میں ہمیں ملنے والی آزادی ایک تاریخی حقیقت ہے مگر مغربی نظام کے اثرات کی وجہ سے رویوں میں بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ مراتب اختر جیسے جدیدیت پسند شاعر نے اس المیے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:

اذہان آج بھی ہیں ، روایت کی قید میں

ہم کر دیئے گئے ہیں، رہا مانتے نہیں

                معاشی مسائل کی اُلجھنوں میں پھنسے انسان کی سوچیں رزق کی تلاش کے گرد گھومتی ہیں اور وہ خدا کو بھول کر دُنیاوی مسائل میں اُلجھا ہوا ہے۔ مراتب اختر جیسا درویش منش شاعر اس رویے کو محسوس کرتے ہوئے اس طرح لکھتا ہے:

اب آدمی کی حس پر مسلط مشین ہے

اب زر کی جستجو ہے ، خدا پھر کبھی سہی

                اچھی شاعری کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اُسے ہر دور کا قاری یہ سمجھ کر پڑھتا ہے کہ اِس میں اُس کے دِلی جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے اور اچھے شاعر کا کلام ایسی داستان ہوتا ہے جس میں قاری کو اپنی کہانی جھلکتی نظر آتی ہے۔ اچھا شعر ہر دور میں ہر ماحول میں اور ہر وقت میں نیا معلوم ہوتا ہے۔ مراتب اختر نے یہ شعر شاید اُس وقت کی ترجمانی کے لیے لکھا تھا مگر آج محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے آج کے عہد کے حکمرانوں کو مخاطب کر کے بات کی گئی ہے۔

ناسمجھ اس سرزمین پر آنے والوں کے لیے

کچھ نئے بحران بوتے جا رہے ہیں دوستو!

                ایک اچھا مصور اپنی بنائی تصویر میں زندگی کے تمام رنگ بکھیرتا ہے تو ایک اچھا شاعر تمام موضوعات کو اپنی شاعری میں سموتا ہے اور تمام مسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ مسئلہ کشمیروفلسطین مسلم اُمہ کے دیرینہ مسائل ہیں جہاں لاکھوں فرزندانِ اسلام جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں مگر تاحال آزادی کی راہ دیکھنے والے فلسطینی اور کشمیری اس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ مراتب اختر نے نہ صرف اس دیرینہ مسئلہ کو محسوس کیا بلکہ اپنی شاعری میں اس کا ذِکر بھی کیا بلکہ ان کا یہ شعر ان کے سیاسی شعور، انسانی ہمدردی، جنگ کے خلاف اور امن کے حامی ہونے کی دلیل ہے۔

چاروں طرف ہے خون کا دریا چڑھا ہوا

کشمیر ، سر زمینِ مقدس ، رڈیشیا

                ہیروشیما اور ناگاساکی پر ہونے والے ایٹمی حملوں نے جہاں پوری دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا وہاں شاعر اور ادیب بھی اس سے متاثر ہوئے۔ مراتب اخترؔ جیسے حساس اور دردمند دِل رکھنے والے شخص کا متاثر ہونا لازمی اَمر تھا۔ اس حوالہ سے مراتب اختر کا یہ شعر قابلِ ذِکرہے۔

اِک روز ویٹ نام، سرامن آئے گا

اے تابکار گھومنے والے ہوائوں میں

                اس دُنیا کے ہر معاشرے میں انسان مختلف رشتوں میں  ِگھرا ہواہے۔ بظاہر نسبی اور خونی رشتوں کو ہی رِشتوں کے مطلب میں لیا جاتا ہے لیکن حقیقت میں رشتے صرف احساس کے ہوتے ہیں اگر احساس ہو تو سب رشتوں کی قدر اور اہمیت ہوتی ہے اور اگر احساس نہ رہے تو خونی رشتے بھی بے معنی ثابت ہوتے ہیں۔ احساس سے عاری انسان کے لیے رشتے کوئی معانی نہیں رکھتے وہ اپنی خود غرضیت میں اس حد تک مگن ہوتا ہے کہ اُسے حالات کی تلخی، آزمائش ِوقت اور بشری تقاضوں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ ایسے نیم مردہ ضمیر کے حامِل انسان کے سامنے کوئی ظلم ہوتو وہ آنکھیں موند لیتا ہے، مراتب اختر نے اس المیہ کو دیکھا اور اس درد کو اپنی شاعری کاموضوع بنایا۔ اس شعر میں وہ اس بے مروّتی کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

لوگ لٹتے رہے سرِ بازار

تیر تلتے رہے کمانوں میں

                ہمارا معاشرہ انگریز حکمرانوں سے آزادی کے بعد آزاد نہیں ہو سکا اور ہم اب بھی اسی نظام میں جکڑے ہوئے ہیں۔ انگریزوں کے عطاکردہ دفتری نظام میں کلرک آج بھی بااختیار نظر آتے ہیں اور آج بھی غریب، مجبور اور سیدھے سادھے لوگوں کے لیے دفتر وں میں جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ جائز کام کروانے کے لیے بھی رشوت اور سفارش جیسی لعنتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ دفتروں کے چکر لگا لگا کر بھی اپنا حق حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ مراتب اختر نے اس انسانی المیے کو شدت سے محسوس کیا ہے وہ اس کا اظہار یوں کرتے ہیں:

میں فائلوں کے ایک پلندے میں بند تھا

دفتر کی اِک دراز کے اندر بکھر گیا

                مراتب اختر نے رومان کو جو ماضی بعید سے اُردو شاعری اور خاص طور پر غزل کا اہم موضوع رہا ہے۔ اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ رومان اصل میں ایک ایسے جذبے کا نام ہے جس کے بغیر انسانی زندگی نامکمل نظر آتی ہے۔ جنس مخالف میں رکھی جانے والی کشش ہی مقصد ِبقائے حیات معلوم ہوتی ہے۔ رومانی شاعر جب عشقیہ موضوعات پرطبع آزمائی کرتے ہیں تو جنس مخالف کے حسن و جمال کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ مراتب اختر کے کلام کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ جنسِ مخالف کے جمال سے تو زیادہ متاثر نہیں ہوئے لیکن عشق و محبت کی داستان کئی اشعار میں عیاں ہوتی ہے۔ وہ ایک خوبصورت ملاقات کا ذِکراس انداز سے کرتے ہیں۔

یاد ہے آج بھی وہ رات، وہ خلوت، وہ ترا

تھام کر ہاتھ مرا پیار سے کہنا بیٹھو

                محبوب کی قربت عاشق کا سب سے قیمتی اثاثہ اور سرمایہ ہوتا ہے۔ قربت میسر ہو تو داستانِ رومانیت خودبخود عیاں ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ محبوب کے ساتھ گزرے لمحے اور بیتے پل ہمیشہ کے لیے یادگار بن جاتے ہیں۔ وہ جگہیں، مقام اور راستے معتبر ہو جاتے ہیں جن پر کبھی محبوب کے ہمراہ چلنے کی سعادت حاصل ہوئی ہو اور جب کبھی حالات ناموافق ہو جائیں،دُوریاں مقدر بن جائیں اور ملاقاتیں ناممکن ہو جائیں تو عاشق کے لیے یہ مناظر اور یادیں اور بھی قیمتی ہو جاتی ہیں۔

آ ان کے سبز سایوں میں کچھ دیر بیٹھ لیں

ان جھاڑیوں سے اپنی کبھی رسم و راہ تھی

                ساون کے مہینے میں ہونے والی بارشوں اور مست گھٹائوں سے ماحول میں نشے کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور محبت کرنے والوں کے لیے تو یہ مہینہ ہمیشہ  ُپرکشش رہاہے۔ ایسے سہانے موسم سے لطف اندوز ہونے کی خواہش عاشق اور محبوب دونوں کے دِلوں میں ہمیشہ اور یکساں ہوتی ہے مگر اس طرح کے مواقع ہمیشہ میسر نہیں آتے کیونکہ زندگی کے بعد موت اور ملنے کے بعد جدائی تو ازل سے ہی انسان کے مقدر میں لکھ دی گئی ہے اور جدائی کے موسم میں دل کی حالت پہلی سی نہیں رہتی آہستہ آہستہ بے قراری کی بجائے ٹھہرائو پیدا ہو جاتا ہے اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جدائی کے یہ زخم بھرنے شروع ہو جاتے ہیں اور پھرایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب یہ سارے واقعات،یادیں اور لمحات سکرین کے پردے سے ہٹ جاتے ہیں اور کچھ یاد نہیں رہتا۔

اب مجھ کو بھول بھال گئے سب معاشقے

ساون کی رُت گزر گئی ، دریا اُتر گئے

                بلاشبہ وقت کی دھول بعض واقعات اوریادوں کو آہستہ آہستہ ذہن سے نکال دیتی ہے اور یادوں سے وہ منظر غائب ہو جاتے ہیں مگر کچھ واقعات اس طرح کے بھی ہوتے ہیں جنھیں بھلانا چاہیں بھی تو بھی نہیں بھلاپاتے اور یاد نہ بھی کریں تو بار بار یادوں کے کواڑ کھٹکھٹاتے رہتے ہیں۔ کچھ ایسی یادیں ہوتی ہیں جنھیں فراموش کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ محبوب کی قربتوں کا سحر لیے یہ یادیںبھلانا ممکن نہیں ہوتا۔ مراتب اختر اس منظر کو یوں بیان کرتے ہیں:

وہ ممٹیوں کی منڈیریں، وہ رات کے سائے

نہ بھول پائوں گا میں جن کو عمر بھر پیارے

                محبت کرنے والوں کے درمیان غلط فہمیاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور لڑائی جھگڑے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ عاشق زمانہ بھر کے جبر اور ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتا ہے اور ہر طرف سے ہونے والی پتھروں کی بارش کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے مگر محبوب کی جانب سے پھینکا گیا پھول اس کے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے اور محبت میں تو کوئی دلیل، کوئی وضاحت قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ وصل پیار کرنے والوں کی زندگی کو باغ و بہار بنا دیتا ہے اورجدائی خزاں ثابت ہوتی ہے۔ قربت تومحبوب بھی چاہتا ہے اور عاشق سے ملنے کی خواہش تو اسے بھی ہوتی ہے مگر بعض مجبوریوں کی بنا پر قریب ہوتے ہوئے بھی ملنے سے اجتناب کرتا ہے اور یہ اجتناب عاشق کو ناگوار گزرتا ہے اور یہ ناراضگی توایک قدرتی اَمر ہے۔ محبوب وقت ملنے پر اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے لاکھ دلیلیں دے، منانے کی کوشش کرے مگر عاشق کی جو کیفیت ہوتی ہے مراتب اختر اس کو بڑے دِل سوز انداز میں پیش کرتے ہے:

اب دلیلوں سے مرے دُکھ کا مداوا نہ کرو

رُک گئے تھے تو مرے پاس بھی آئے ہوتے

                کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ دو چاہنے والے جب ملتے ہیں تو بہت سارے گلے شکوے بھی کرنا چاہتے ہیں اور محبت کا اظہار بھی، اپنی پریشانیوں سے دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں تو دوسرے کی کیفیات کو بھی محسوس کرنا ہوتا ہے، مگر بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ جونہی گفتگو کا آغاز کیا حالات یکدم ناموافق ہو گئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی جدا ہونا پڑا۔ ایسے حالات میں دل کی تمام باتیں دل میں رہ جاتی ہیں۔ اس کیفیت کو مراتب اختر نے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

اِک آہ بھر کے ہو گئیں پرچھائیاں جدا

دونوں کے لب پہ آئی ہوئی بات رہ گئی

                اس معاشرے میں ہمیشہ ظلم کو دبایا گیا ہے اور حقیقت سے آنکھیں چرائی جاتی رہی ہیں۔ مظلوم کی سسکیوں اور آہوں کو بلند ہونے سے روکا گیا ہے۔ غالب نے ہمیشہ مغلوب کا استحصال کیا ہے اور آزادیٔ اظہار پر ہمیشہ قدغن لگائی ہے۔ ان تمام پابندیوں اور قیود کو ایک عام آدمی کے لیے بھی برداشت کرنا مشکل ہے اور ایک شاعر وہ بھی مراتب اختر جیسا ایسے ماحول میں کیا خاموش رہ سکتاہے۔ اس حوالے سے ان کا یہ شعر ایک بہترین مثال ہے۔

میں یہ کہتا ہوں کہ بات کو مفہوم ملے

ان کی یہ ضد ہے کوئی بات نمایاں نہ کرو

                تیسری دُنیا کے لوگوں کی قسمت میں شاید اچھے دنوں کے خواب آنکھوں میں بسائے ہی زندگی کا دریا عبور کرنا لکھ دیا گیا ہے۔ حکمران اور برسرِاقتدار زندگیاں بدلنے اور نظام میں بہتری لانے کے وعدے تو بہت کرتے ہیں مگر اس سودی نظامِ زر کے تحت امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ مراتب اختر نے اس رویے کو شدت سے محسوس کیا ہے اور وہ اربابِ اختیار سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے کیے ہوئے وعدے کیوں وفا نہیں ہوتے۔ وہ لفظوں کے ایسے طنزیہ نشتر استعمال کرتے ہیں کہ محسوس کرنے والے ضرور متاثر ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

ترس رہا ہے میرا شہر چند بوندوں کو

مجھے بتائو کہاں؟ بادلوں کے سائے ہیں

                ایک بہترین شاعر اپنے اردگرد کے ماحول پر گہری نظر رکھتا ہے۔ لوگوں کے رویوں سے متاثر ہوتا ہے اور پھر اپنے تاثرات کو لفظوں کی صورت میں اشعار کے سانچے میں ڈھالتا ے۔ رشوت ایک ایسا ناسور ہے جو بتدریج بڑھتی ہے اور رشوت خور چھوٹے درجے کے ملازم ہونے کے باوجود خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ کوٹھی، کار اور بہترین لباس ان کے خوشحال ہونے کا ثبوت ہے جب کہ ایمانداری سے روزی کمانے والے اور ایمانداری سے فرائضِ منصبی سرانجام دینے والے افسران اپنی سفیدپوشی کا بھرم بھی قائم نہیں رکھ پاتے۔ معاشرے کے اس غلط رویے کی مراتب اختر نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور رشوت خوروں پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے:

اِک کھوکھلے غرور سے جل تھل ہے گفتگو

رشوت کی اِک سڑاند ہے خوش پوش ماس میں

                اُردو زبان فارسی سے بہت زیادہ متاثر ہوئی اور فارسی کی بہت ساری خصوصیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ فارسی غزل کی ایک خصوصیت اضافتوں کا استعمال ہے۔ اُردو غزل میں اضافتوں کے استعمال کا سلسلہ ۶۰ء کی دہائی کے شعراء میں بھی موجود ہے۔ اضافتوں والی تراکیب کے ساتھ ساتھ بغیر اضافتوں کے تراکیب کا سلسلہ بھی اس عہد کی غزل میں واضح نظر آتا ہے جس میں شعری ضرورت کے تحت شاعر نے اضافت بھی استعمال کی ہے مگر جس خوش اسلوبی اور فنی مہارت کے ساتھ بغیر اضافت والی تراکیب کو آگے بڑھایا ہے،یہ اسی دورکاخاصہ ہے۔ مراتب اختر نے بھی ان تراکیب کا بہت خوبصورت انداز میں استعمال کیا ہے۔ اس کی مثال یہ اشعار ہیں:

کبھی کھو دیتا ہوں تجھ کو کبھی پالیتا ہوں

میرا دل خانۂ گل ہے کبھی ویرانہ ہے

_______

میرا وجود رونق صد حجلۂ دوام

اے دوست بے ثباتی دُنیا نہیں ہوں میں

_______

کیوں قدسیوں کے سجدے ہیں تیرے طواف میں

اے سینۂ بشر کے حرم ، کچھ خبر نہیں

یہ احتمال تھا پہلے سے فرقِ ناز مجھے

کڑکتی دھوپ میں تجھ کو برہنہ پائوں گا

_______

لے کر جلو میں تابش نغمات آ گیا

آنکھوں کی بستیوں میں وہ کل رات آ گیا

                کشمیروادیٔ جنت نظیر برصغیر کے مسلمانوں کا ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جس طرح ہندوئوں نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا اور رائے عامہ کی پرواہ کیے بغیر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا اس سے مسلمانوں کے جذبات بُری طرح مجروح ہوئے۔ کشمیر میں ہونے والی قتل و غارت اور ظلم و ستم کی داستانیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمانوں سے ہونے والے اس ظلم و زیادتی پر جہاں عالمی امن کے ٹھیکے دار خاموش ہیں وہاں ہمارے اپنے بھی بیان بازی کی حد تک اپنے کشمیری بھائیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔ مراتب اختر اس صورتِ حال کو یوں بیان کرتے ہیں:

بنتِ کشمیر کی روتی ہوئی آواز سنو!

اِک خبر بیچنے بازار میں ہاکر نکلے

                یہ بات درست ہے کہ کم لفظوں میں بڑے موضوع کو سمیٹنا ایک بہترین شعری خوبی ہے اور اس خوبی کا وجود بہت کم شاعروں کی شاعری میں ملتا ہے مگریہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بعض مواقع پر تکرارِ لفظی شعر کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ مراتب اختر کی غزل میں بھی بہت سے ایسے اشعار موجود ہیں جن میں تکرارِلفظی پائی جاتی ہے اور یہ تکرار ایک مصرعہ میں ایک بر سے لے کر کئی مقامات اورلفظوں تک پھیلی نظر آتی ہے۔ یہ تکرارِلفظی مصرعوں کے آغاز تک ہی محدود نہیں بلکہ آغاز کے ساتھ مصرعہ میں کہیں بھی ایک سے زیادہ الفاظ کی تکرار رہی ہے، جو معیوب نہیں لگتی بلکہ موسیقیت میں اضافے کا سبب محسوس ہوتی ہے۔

بھری دُنیا میں اِک تو ہی نہیں تھا لیکن

بھری دُنیائوں میں اِک تو ہی تھا ، چاہا تجھ کو

______

زندگی۔۔۔ ایک حقیقت جاوید

زندگی۔۔۔ اقتباس اے میرے دل

______

ہنگام بھولتا نہیں عرفانِ ذات کا

فیضان بے ثبات ہے اس بے ثبات کا

______

ترا تصوّر رنگین ہے شہر یارِ خیال

ترے خیال سے آباد ہے دیارِ خیال

                ساٹھ اور ستر کی دہائی کے شعراء نے اُردو غزل میں نئے نئے تجربات کیے اضافتوں، تراکیب اور تکرارِ لفظی کے ساتھ ساتھ جوڑے دار الفاظ کی صورت میں لفظوں کے مرکبات کا استعمال بھی اس دور میں خاصہ مقبول رجحان رہا۔ مراتب اختر کی غزل میں بھی جوڑے دارالفاظ کا استعمال موجود ہے کہیں یہ الفاظ مصرعہ اولیٰ کے شروع میں آتے ہیں تو کہیں مصرعہ اولیٰ کے آخر میں۔ کہیں مصرعہ ثانی کے شروع میں نظر آتے ہیں تو کہیں مصرعہ ثانی کے آخر میں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بات میں تسلسل رکھنے، اظہار میںشدت اور بیان میں زور پیدا کرنے کے لیے بھی جوڑے دار الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

مہک مہک وہ حقیقت وہ برگ برگ بدن

وہ سامنے بھی تھا ، غائب بھی تھا عجیب لگا

______

شاہین اُداس اُداس ہوائیں بجھی بجھی

رختِ سفر لٹا کے ستمبر سفر میں ہے

______

بجھی بجھی ہوئی آنکھیں ، شکن شکن چہرے

جب آفتاب کی لو بجھ رہی تھی ، گھر آئے

______

میں مسلسل تھا مکمل تھا مگر

ریزہ ریزہ زندگی کرتا رہا

                ساٹھ اور ستر کی دہائی کے اُردو شعراء نے ایک نئے ڈِکشن کو متعارف کروایا اور غزل میں دوسری زبانوں کے لاتعداد الفاظ اس طرح فنکارا نہ انداز سے استعمال کیے کہ ان کا استعمال گراں نہیں گزرتا بلکہ غزل کا حصہ معلوم ہوتاہے۔ مراتب اختر نے بھی ایسے گھلے ملے الفاظ استعمال کیے جن سے ان کی شاعری میں انفرادیت پیدا ہو گئی۔ اُردو غزل کے اس کھیت میں مراتب اختر نے انگریزی ہندی اور دوسری زبانوں کی پیوندکاری اس انداز سے کی کہ یہی کھیت نئے انداز سے رنگ بکھیرتا سامنے آیا۔ مراتب اختر کے کلام میں سے اس کے چند نمونے یوں ہیں:

کب تم وفا کا ایک وچن بھی نبھا سکے

میںنے اِک ایک شرط تمہاری قبول کی

ریڈیو آب آن ہے ، آواز ہے

دوستو پھر جنگ کا آغاز ہے

دوستی کی ابتدا سے آج تک

مجھ سے وہ ناراض ہے کیا کاز ہے؟

______

اِک میں اور اِک احساس میرا قہوہ کڑواہٹ آوازیں

اِک ریستوران کے گوشے میں اِک تنہا شام منائی ہے

______

تلوے چپک چکے ہیں زمین کی سلیٹ سے

سر میں ریسرچ ، گھوم رہا ہوں خلائوں میں

______

اِک آدمی کے شور سے چھت ڈولنے لگی

اِس ایڈیٹ کو ہال سے باہر نکال دے

______

آدمی لائف کے میجر منظروں سے دُور ہے

خود میں گم ہے ، بستیوں گلیوں گھروں سے دُور ہے

______

یہ میرے قصبے کی اِک چھوٹی سی ہوٹل ، موڑ پر

جو مری کے اُڑتے اُڑتے منظروں سے دُور ہے

______

بنتِ کشمیر کی روتی ہوئی آواز سنو!

اِک خبر بیچنے بازار میں ہاکر نکلے

______

سورج کی اِک کرن نے اسے اطلاع دی

لڑکی نے باتھ رُوم کا پردہ گرا دیا

میں فائلوں کے ایک پلندے میں بند تھا

دفتر کی اِک دراز کے اندر بکھر گیا

                رنگوں کا انسانی شخصیت، نفسیات، جذبات، احساسات اور فطرت سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ کائنات میں رنگوں کی ترتیب وآمیزش کو خالقِ کائنات نے بھی پیشِ نظر رکھا ہے۔ بیسویں صدی کے شعرا نے اپنی شاعری میں رنگوں کا استعمال بھی کثرت سے کیا ہے۔ کیونکہ تیز اور چمکدار رنگ جہاں بچوں کو متاثر کرتے ہیں وہاں بڑوں کے لیے بھی باعث ِکشش ہوتے ہیں۔ رنگوں کی پسند اور ناپسند کا انحصار ذاتی یا شخصی سطح کے ساتھ ساتھ قومی سطح پرہوتا ہے۔ اہلِ یورپ نیلے، سرخ، نارنجی، سبز اور زرد رنگوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جب کہ ایشیائی ممالک کے لوگ سرخ، سبزاور زرد رنگ کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ رنگوں سے نفسیاتی کیفیت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ شاعری میں رنگوں کے معانی تمدن اور رسم و رواج کے پس منظر میں پھیلتے بڑھتے نظر آتے ہیں۔ سبز رنگ روزمرہ زندگی میں جاذبِ نظر متوازن اور دِلکش نظر آتے ہیں اور شعراء نے عام طور پر سبز رنگ کو بہار کے موسم، اچھی اُمیدوں، خواہشوں کے جنگل اور خوشبو سے تعبیر کیا ہے اور بعض اوقات سبز رنگ اُداسی، مایوسی اور ملال کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

                مراتب اختر کی شاعری میں رنگوں کی یہ دھنک واضح طور پر نظر آتی ہی جس میں تمام رنگ نمایاں ہیں:

کتنے سبز سنہرے موسم بیت گئے یہ کہتے ہوئے

سنگت توڑ کے جانے والو، تم جائو، ہم آتے ہیں

______

کہانی سبز رنگوں میں نہا کر پھیلتی جائے

تجھے میری نظر کی روشنی موسم نما سمجھے

                نیلا یا آسمانی رنگ بڑا  ُپرسکون ہوتا ہے۔ یہ رنگ خوبصورتی کے ساتھ ساتھ دلی فرحت و اطمینان کا بھی تاثر پیدا کرتا ہے۔ مراتب اختر نے اس رنگ کو اپنی شاعری میں یوں استعمال کیا ہے۔

نیلی فضا میں رینگتا بادل میرے لیے

لے کر رو پہلی یادوں کے لمحات آ گیا

                سرخ رنگ جہاں اپنے اندر یہ خوبی رکھتا ہے کہ اپنی کشش کے سبب دوسروں کو اپنی طرف جلد راغب کر لیتا ہے وہاں حقیقی رنگوں میں شمار ہونے والا یہ رنگ جدت اور جاذبیت کی بھی عمدہ مثال ہے۔ محبت کرنے والے اس رنگ سے عام لوگوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی متاثر ہوتے ہیں اور اسی لیے اس رنگ کو محبت کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ مراتب اختر کے ہاں اس رنگ کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔

سورج کے سرخ ہونٹ سے جھڑتی تمازتیں

کچھ دن میں چوس لیں گی گلوں کی مٹھاس کو

                عام طور پر زرد رنگ کو مایوسی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور اس رنگ کو پسندکرنے والے لوگ تخیلاتی ذہن کے حامِل ہوتے ہیں اور ہر وقت تخلیقی سرگرمیوں میں ہی مصروف نظر آتے ہیں۔ شاعری میں زرد رنگ دُکھ، ہجر، خوف، اندیشے اور اُداسی کی عکاسی کرتا ہے اور زیادہ تر خزاں سے وابستہ ہے۔ مراتب اختر کی شاعری میں بھی یہ رنگ اُداسی کا تا ثر بکھیرتا نظر آتا ہے۔

چہرے پہ زرد دھول ، نظر بولتی ہوئی

اِک قہقہہ بجھا ہوا جلتے چراغ کا

                مراتب اختر کی غزلیات ان کے اظہارِذات کا وسیلہ نظر آتی ہیں۔ انھوں نے اپنے تمام خیالات، احساسات اور مشاہدات اس قدر سچائی سے بیان کیے ہیں کہ قاری کو اپنی آنکھوں کے سامنے ایک رنگارنگ کہکشاں نظر آتی ہے۔ مراتب اختر کے کلام میں کہیں تو حُسنِ کائنات نظر آتا ہے تو کہیں یہی حسن امیجری کا رُوپ دھار لیتا ہے اور کہیں اِشاروں اور علامتوں کی وجہ سے کائنات کے اسرار کو عیاں کرتا ہے۔ مراتب اختر کے کلام سے واضح محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے مناظرِ فطرت کو بہت خوبصورت انداز میں اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ ہو:

جنگل میں، قہقہوں کا سماں، پھول کھل گئے

پکنک منا رہے ہیں جواں ، پھول کھل گئے

 

چوبی ہری چھتوں پہ ہوائوں میں جھولتی

بیلوں پہ سرخ سرخ نشاں ، پھول کھل گئے

 

آنکھوں  میں رتجگوں کا سمندر لیے ہوئے

ہوں رات کی سڑک پہ رواں ، پھول کھل گئے

 

پڑنے لگے ہیں دل پہ گئے موسموں کے عکس

ہونے لگا ہے مجھ کو گماں ، پھول کھل گئے

 

آئو چلیں ، یہ شہر یہ آشوب چھوڑ کر

ان وادیوں کی سمت ، جہاں پھول کھل گئے

 

پیڑوں کے جھنڈ جیسے ، گھٹائیں ہری بھری

رستوں کے رنگ جیسے یہاں پھول کھل گئے

                مراتب اختر ایک درویش صفت شاعر تھے اور اس زندگی کے فانی ہونے پر ان کا ایمان پختہ تھا جہاں انھوں نے زندگی کی بے ثباتی کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا وہاں انھوں نے موت کی حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں چرائیں بلکہ ان کے کلام کے مطالعہ سے متعدد مقامات پر یہ احساس ہوتا ہے کہ انھیں اپنی جواں مرگی کا احساس تھا اور اگر ان کا یہ کلام ان کی وفات سے پہلے چھپ جاتا تو ان کی موت کی پیشین گوئی ثابت ہوتا۔

کون مجھے افلاک کے پار بلاتا ہے

دل اس بھرے جہان سے بھرتا جاتا ہے

______

رُوح نے مرگِ بدن کا منظر دیکھ لیا

دیکھیں آ کر کون اسے دفناتا ہے

______

زندہ رہنے کے جشن کرتا رہا

رات دن اِک آدمی مرتا رہا

                مراتب اختر کی وفات ان کے گھر سے کئی میل دُور دریائے راوی کے کنارے موضع شہامند بلوچ میں ہوئی اور اس شعر میں انھوں نے اپنی اس موت کی پیشین گوئی پہلے کر دی تھی۔ یہ درست ہے کہ زندگی اور موت کا فیصلہ اللّٰہ تعالیٰ نے کرنا ہے اورموت کا ایک وقت مقرر کر دیا گیا ہے جس کا سوائے اللّٰہ تعالیٰ کے کسی کو پتا نہیں لیکن بعض اشارات اور واقعات سے وہ اپنے پیارے بندوں کو اس طرح آگاہ فرماتا ہے کہ جس سے انھیں اپنی موت کے حوالے سے کچھ اندازہ ضرورہو جاتا ہے۔ مراتب اختر کا یہ شعر اس کا واضح ثبوت ہے۔

بھائی بہنوں سے دوستوں سے دُور

شام کے وقت مر رہا ہے کوئی

                شاعرمعاشرے میں وقوع پذیر ہونے والے ہر تعمیری اور تخریبی عمل سے متاثر ہوتا ہے اور پھر اپنے تاثرات کوشاعری کے ذریعے بیان کرتا ہے اسی لیے ہر شاعر نے اپنے عہد کے معاشرتی مسائل کو اشعارمیں پرویا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو لسانی قوت کے علاوہ ضمیر بھی عطا کیا ہے جو اس کے اندرونی تاثرات کو بیان کرتا ہے۔ اچھائی پر سراہتا ہے تو غلطی پر ملامت کرتا ہے۔ ضمیر کی یہ بھی خاصیت ہے کہ حقائق کو جلد یا بدیر تسلیم کر لیتا ہے۔ مراتب اختر کے معاملات بھی کچھ اس طرح کے ہیں۔ کبھی کبھی وہ ہر طرح کا ناتا توڑ کر ہمیشہ کے لیے نہ ملنے کا عہد کر کے زمانے کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پرفیصلہ بدل لیتے ہیں اور انھیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ان کا ترک تعلق کا فیصلہ غلط تھا اور پھر انھیں اپنے لگائو کی خاطر واپس پلٹنا پڑتا ہے۔ مراتب اختر اس حوالہ سے لکھتے ہیں:

پھر اسی شہر میں آیا ہوں جسے چھوڑا تھا

پھر اسی جسم کا سایہ ہوں جسے چھوڑا تھا

جسم کو ساتھ لیے پھر اسی ماحول کے ساتھ

رابطے جوڑنے آیا ہوں جسے چھوڑا تھا

                بڑھتے ہوئے معاشرتی مسائل کے سبب ہر شخص فکر ِمعاش میں مصروف ہے۔ نفسانفسی کے اس دور میں میل ملاقاتیں اور ایک دوسرے کے دُکھ سکھ میں شامِل ہونا کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہر شخص کولہو کے بیل کی مانند اپنے گردوپیش سے بے خبر اپنے مسائل کو وسائل کے مطابق حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ کسی کو کسی سے ملنے کی ضرورت ہے نہ طلب۔ امیر اپنی امارت میں گم ہے تو غریب اپنی سفیدپوشی کا بھرم رکھنے کے لیے شب و روز مصروف نظر آتا ہے اور جب حالات ایسے ہوں تو رابطہ کیسے قائم کیا جا سکتا ہے۔ مراتب اختر اس حوالہ سے لکھتے ہیں:

ہم نے اے مصروف مسائل کی دُنیا

اپنے اپنے حال میں رہنا جان لیا

                وقت کے ساتھ ساتھ اخلاقی قدریں زوال پذیر ہو رہی ہیں۔ لالچ، خودغرضی اور مفادپرستی جیسی سماجی برائیاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔ ہوا کا رُخ دیکھ کر راہیں متعین کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نظریات اور اصول پسندی پر قائم رہنے والوں کا فقدان ہے اور وفاشعا ری کی جنس ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ یہ خودغرض، مطلب پرست اور عیارلوگ مہرومروّت سے عاری ہیں اور اپنی پرزو ر دلیلوں اور مصنوعی وفائوں پر یقین دلاتے ہوئے ساتھ نبھانے کا وعدہ تو کرتے ہیں مگر جونہی کسی دوسری طرف سے ذرہ بھر بھی فائدہ نظر آتا ہے تو اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔ چڑھتے سورج کے پجاری ان لوگوں کے رویوں سے مراتب اختر جیسا شخص بھی متاثر ہوتا ہے اس کا بھی وفائوں سے یقین اُٹھ جاتا ہے اور وہ ایسے حالات میں اپنی دلی کیفیت کو یوں بیان کرتا ہے:

مجھ کو بڑا وثوق تھا جن کی وفائوں پر

وہ لوگ بھی بدل گئے حالات کی طرح

                ہمارے معاشرے میںحقیقت پسندی سے دُوری اختیار کی جاتی ہے اور فروعی مسائل کو زیادہ اُچھالا جاتا ہے۔تعمیری کی بجائے تخریبی کاموں پر زیادہ لگن اور دلچسپی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ آبادی میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا جا رہا ہے پیار، خلوص اور محبت کی جنس نایاب ہوتی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ ہمارا اپنا پیداکردہ ہے۔ اگر ہم آج بھی حق کا ساتھ دیں تعلیمات اسلام پر عمل کریں اور انسانیت سے محبت پر عمل پیرا ہو جائیں توحالات یکسر مختلف ہو سکتے ہیں مگر ہم جس رستے پر چل نکلے ہیں اور جن مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں وہاں تنہائی کا احساس ہونا نئی بات نہیں۔

                 مراتب اختر اس حوالے سے کہتے ہیں:

حق چھوڑ کر فروع میں اُلجھا ہوا ہوں میں

سچ ہے کہ اپنے آپ سے بچھڑا ہوا ہوں میں

چاروں طرف محیط ہجومِ مغائرت

یکبارگی جہاں میں تنہا ہوا ہوں میں

                اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ہر وقت اس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ اس کی ذات سے محبت کرتے ہیں اور اس کے ہر حکم پر سرجھکاتے ہیں اور یہی ایمانِ کامل بھی ہے اور عشقِ حقیقی بھی مگر جہاں عشق ہوتا ہے وہاں پر معشوق اور عاشق کے درمیان شکوے شکایت بھی ہوتے رہتے ہیں اور شاعر تو اکثر خدا سے شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ مراتب اختر کی شادی کے کچھ عرصہ بعد ان کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی جو چند دنوں کے بعد خالقِ حقیقی سے جا مِلا۔ ہمارے معاشرے میں بیٹے کو وراثت کا اَمین اور نسل و نسب کو جاری رکھنے کا سبب تصوّرکیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتاہے کہ اولادِ نرینہ ہی والدین کے لیے شجرسایہ دار ثابت ہوتی ہے۔ مراتب اختر نے اس حوالے سے یوں کہا ہے:

اِک سایہ دار، پیڑ کو جڑ سے اُکھاڑ کے

کیا مِل گیا تجھے میری دُنیا اُجاڑ کے

                اللہ تعالیٰ نے نبی ٔ اکرمﷺ کے ذریعے ایک ایسا دین نازل فرمایا جس میں ہرطبقے کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کے حوالہ سے واضح طورپردرج ہے۔ ماں باپ، بہن بھائی، اساتذہ، رشتہ داروں، پڑوسیوں، یتیموں، بیوائوں، حتیٰ کہ ہر طبقہ کے بارے میں واضح ہدایت اور راہنمائی موجود ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں رائج مغربی جمہوریت کے سبب ان اصولوں اور حقوق و فرائض سے دُوری اختیار کر لی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اخلاقی اقدار ختم ہوتی جا رہی ہیں اور کسی کو اپنا جائز حق لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ طاقت ور کمزور کو، سرمایہ دار مزدور کو اور جاگیردار مزارع کو اس کاحق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس صورتِ حال کو مراتب اختر نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ اس کا برملا اظہاربھی کیا۔ ان کا یہ شعر اس کیفیت کا عکاس ہے۔

پامال ہوئی سلسلۂ حق کی صدارت

دُشمن کا ہر اندازِ ریا عہد نما ہے

                ایک ہی ماں کے پیٹ سے جنم لینے والے بھائیوں کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں یہ سلسلہ تو ازل سے چلا آ رہا ہے اور دُنیا کا پہلا قتل بھی اک بھائی کے ہاتھوں دوسرے بھائی کا قتل تھا اور قرآن پاک میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے آپ سے جو سلوک کیا وہ قصہ بھی درج ہے۔ بھائی جہاں بھائیوں کی طاقت اور بازو ہوتے ہیں وہاں بعض اوقات ایک دُشمن کا رُوپ بھی دھار لیتے ہی۔ برادرانِ یوسف کے بعد بھی بھائی سے بھائیوں کی سفاکی کے واقعات ہمارے اردگرد میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مراتب اختر کے ساتھ بھی بھائیوں نے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ باپ کی وفات کے بعد تقسیم وراثت کے حوالے سے مراتب اختر کے ساتھ جو زیادتی ہوئی اس کا ذِکر انھوں نے یوں کیا ہے:

ان بھائیوں کی عمر خدایا دراز کر

دیتے ہیں میرا حق مجھے خیرات کی طرح

______

یہ گھر کے راز ہیں کہوں کیسے زبان سے

کیا دُکھ ملے ہیں مجھ کو مرے بھائی جان سے

                ہر محب ِوطن کی طرح مراتب اختر کے دل میں مُلک اور ملت سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں جب پاکستانی مجاہدوں نے ہمت، دلیری اور جواں مردی کی بے مثال داستان رقم کرتے ہوئے دُشمنوں کو دندان شکن شکست دی تو مراتب اختر کے اندرکا جذبہ یوں قلم کی نوک پر آ گیا۔

ایک مایوسی جو تھی جزو مقدر جیت لی

تو نے اے میرے وطن یہ جنگ یکسر جیت لی

                اسی جنگ کے دوران جب محب ِوطن لوگ اپنی فوج کی پشت پر کھڑے تھے تو وہاں بعض مُلک دُشمن عناصر اپنی منفی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ ذخیرہ اندوذی اور گراں فروشی کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ وطن جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اس کے مکین اسلام کے اصولوں سے دُوری اختیار کرتے ہوئے اپنے ہی بھائیوں کا خون چوسنے میں مصروف تھے۔ مراتب اختر جیسا حساس شخص بھلا اس ظلم و ستم اور غیرقانونی و غیراخلاقی رویے کے خلاف کب تک خاموشی اختیار کر سکتا تھا۔ ان حالات میں انھوںنے جو کچھ محسوس کیا ،ان کے دل پرجو بیتی وہ اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اے زمیں کا خون پیتے باسیو

یہ بھی جینے کا کوئی انداز ہے

                مراتب اختر کو اس بات کا بھی شدت سے احساس تھا کہ ہم آپس کے لڑائی جھگڑوں میں پھنس کر کمزور ہو گئے ہیں اور دُشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد سب سے ضروری ہے اور اگر ہم نے اتحاد کر لیاتو پھر مسلمانوں کے سامنے ڈٹ کر لڑنے کی ہمت کسی میں نہیں۔ انھوں نے جہاں دُشمن پر گہری نگاہ رکھنے کا مشورہ دیا ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ آپس کے لڑائی جھگڑے بھلا کر دُشمن پر ایسا کاری وار کرو کہ وہ آئندہ ارضِ پاک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہ کر سکے۔ مراتب اختر ایک وطن پرست شاعر تھے اور ہمیشہ ارضِ پاک کی خوشحالی اور سلامتی کے متمنی رہے ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو:

اے وطن کی خاک! دائم خوش رہیں باسی تیرے

اے سمندر یہ تیرے لعل و گہر ہنستے رہیں

                ایک کامل مسلمان کی طرح مراتب اختر کا یہ عقیدہ تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے وہ دُعائیں سننے والا ہے۔ دُعائیں قبول کرنے والا ہے اور انسان کو ہرمشکل میں اس کے سامنے جھولی پھیلانی چاہیے، ان کا یہ شعر اس بات کا آئینہ دار ہے۔

ہم اس سے مانگتے ہیں جو ہم سے ہے ماورا

سارا نظام دہر ، دُعا سے الگ نہیں

                جہاں مراتب اختر اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ دُعائوں کے اثر سے تقدیر بدل جاتی ہے وہاں وہ کہتے ہیں کہ جب تک دُعا مانگتے وقت دِل میں درد نہ ہو اور جذبے بھی سچے نہ ہوں تو دُعا قبول نہیں ہوتی۔ یعنی دُعا کی قبولیت کے لیے خلوص، لگن، تڑپ اوراُمنگ کا ہونا ضروری ہے وہ بے یقین لوگوں پر طنزکرتے ہوئے کہتے ہیں:

یہ صف بہ صف جھکی ہوئی کمریں، دراز ہاتھ

یہ بے یقیں دل جو مگن ہیں دُعائوں میں

                مراتب اختر دُعا کو جہاں مسائل کے حل کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کی مدد طلب کرنے کاذریعہ سمجھتے ہیں وہاں وہ اسے اللہ اور بندے کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ بھی قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

یہیں بیٹھے ہوئے لوٹ آتا ہوں اس سے مِل کر

رابطہ بن کے میرے لب پہ دُعا آتی ہے

                مراتب اختر انسان کو خلیفۂ خداوندی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنی محنت، کوشش اور جدوجہد سے انسان بڑی سے بڑی مشکل پر قابو پا سکتا ہے اوراپنی ہمت کے بل بوتے پر اپنے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں دُور اور تمام اندھیرے ختم کر سکتا ہے۔ وہ انسان کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اُٹھے اور ہمت سے اپنے مسائل پر قابو پانے کا حل تلاش کر کے اس پر عمل پیرا ہو:

نسلوں کو جن کے سامنے کوئی اُفق نہیں

اس دُھند سے نکال نئی راہ پہ ڈال دے

انسان اے زمین کی خلافت کے پاسبان

اُٹھ اور مہک مہیب اندھیرے اُجال دے

                اس حقیقت سے کوئی بھی انکاری نہیں کہ نہ تو کمان سے نکلا تیر واپس آسکتا ہے اور نہ ہی گزرا وقت۔ مراتب اختر بھی اس بات پر  یقین رکھتے تھے۔ وہ اس جذبے کااظہار یوں کرتے ہیں:

سدا گزرتا رہا ہے، گزر رہا ہے یہ وقت

کبھی یہ لوٹ کے آیا نہیں نہ آئے گا

                مراتب اختر کی غزلوں میں جہاں تصوّف دیہی زندگی، عصری مسائل اور فکری و جذباتی کشمکش کو موضوع بنایا گیا ہے وہاں فنی لحاظ سے لفظیات، تشبیہات و استعارات، تمثال نگاری، علامتوں اور انگریزی الفاظ کا بہترین نمونہ ان کے کلام میں موجود ہے۔ بلاشبہ وہ ساٹھ اور ستر کی دہائی کے ان شعراء میں سے ہیں جنھوں نے اُردو غزل کو ایک نیا رنگ بخشا۔

حوالہ جات

۱۔            عون الحسن غازی، نقد ِمراتب، افتخار جالب، شیخو شریف : ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۴ئ،ص ۶۰۔۶۱

۲۔            عون الحسن غازی، نقد ِمراتب، وحید اطہر،ص ۱۲۲

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...