Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مراتب اختر شخصیت و فن > ۔ مراتب اختر کی نظم گوئی

مراتب اختر شخصیت و فن |
مہکاں پبلشرز
مراتب اختر شخصیت و فن

۔ مراتب اختر کی نظم گوئی
ARI Id

1688721480270_56116767

Access

Open/Free Access

Pages

150

 مراتب اختر کی نظم گوئی

                جدیداُردو نظم کا وہ پودا جسے آزادؔ اور حالیؔ نے لگایا تھا اور اس کی آبیاری میں اکبرالٰہ آبادی، اسماعیل میرٹھی اور علامہ اقبال جیسے شعرا کا ہاتھ ہے تو اسے پروان چڑھانے میں میراجی اور ن۔م۔راشد نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور اس کی تراش خراش کر کے اس کو ایک مضبوط تناوردرخت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۱۹۶۰ء کی دہائی کے شعرا نے آزادنظم کو اپنے اظہار کا سب سے اہم اور مقبول ذریعہ تصوّرکیا اور جان بوجھ کر پابند نظمیں لکھنے سے گریز کیا۔ ان شعراکی کوشش سے پہلی بار اُردو شاعری میں وسیع پیمانے پر آزادنظم لکھی گئی۔ اس دور کے اکثر شعرا نے تو صرف نظم کے میدان میں طبع آزمائی کی مگر کچھ ایسے تھے جنھوں نے غزل اور نظم دونوں میدانوں میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔

                مراتب اختر کا شمار بھی ایسے شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی طبع آزمائی کی اور اپنے اسلوب، فن اور فکر کی وجہ سے ہم عصر شعرا میں اہم مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مراتب اختر کی نظموں پر تبصرہ کرتے ہوئے معروف نقاد ڈاکٹرخواجہ محمدزکریا لکھتے ہیں:

یہ آزادنظمیں ہیں لیکن سطروں کی تقسیم پر مہارت ہر نظم میں موجود ہے۔ فنی عبور سے قطع نظر ان نظموں میں مراتب اختر کی شخصیت، ان کے خیالات اور محسوسات کی تصویریں ہر جگہ موجود ہیں۔ نظموں سے دوستوں کی محفلوں میں شاعر کی تنہائی، انسان کے مقابل کائنات کی وسعت، زماں کے بہتے ہوئے دھارے میں انسان کی بے بسی، دُنیا کے ریلے، ہجوم، ٹریفک، ہوٹلوں میں گفتگو کے سلسلے، روشنیاں اوران میں تنہا انسان جنھیں جلد ہی ماضی کا حصہ بن کر لامحدود میں جذب ہو جانا ہے۔ یہ احساس کہ ہم جانے والے ہیں حسین منظروں،حسین موسموں اور حسین لوگوں کے جلو میں بھی خوشی، تسکین اور اطمینان مہیا نہیں ہونے دیتا، انسانی رُوح کی بے چینی ،کرب، فضاپذیری، سب کچھ ایک بے کار ڈرامہ، لایعنیت اور بے معنویت کا گہرا احساس ان نظموں کی سطر سطر سے آشکار ہے۔(۱)

                مراتب اختر نے نظموں میں نئے نئے تجربات کیے کیونکہ ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو غوث عبدالقادر جیلانی کی اولاد ہے۔ اس لیے ان کی شاعری میں تصوّف کارنگ نمایاں نظر آتا ہے اور کئی نظموں کے عنوان قرآن پاک کی سورتوں کے نام پر رکھے گئے ہیں’’گزرا بن برسے بادل‘‘ کا آغاز’’وماادراک‘‘سے ہوا ہے، جس کا نمونہ ملاحظہ ہو:

اے حادث و قدیم

میں مختصر ہوں وقت کی رفتار تیز ہے

میں بے خبر ہوں مجھ کو خبر دے، نئے علوم

ہر وقت جن کے کھوج میں خود سے ہوں بے خبر

جن کی طلب میں چہرے بھی رُوح کی طرح مسخ

ان سے زمین پہ رینگتی دقّت بھی سہل ہے

ان سے خلا میں اُڑتے عناصر بھی زیر ہیں

پھر بھی یہ چند کھوکھلے لفظوں کا ڈھیر ہیں‘‘

                مراتب اختر نے اپنی نظموں میں قرآنِ کریم کی سورتوں کو شعری پیرائے میں بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جس کی ایک مثال ان کی نظم ’’التکاثر‘‘ ہے جس میں مال و دولت میں زیادتی کی حرص اورآخرت سے غفلت کے مفہوم کو پیش کیا ہے۔

      التکاثر

غافل لوگو!

مٹی منہ کھولے تیار سدا!

معلوم تمہیں ہو جائے گا،

(وہ دن ہے بہت نزدیک) ادھورے دولت کے دیوانو!

کھل جائے گا سب معلوم تمہیں ہو جائے گا!

اس افسانے کا انت

جو کچھ تم جانو اس کو پہچانو

دیوانو! اس کو پہچانو

جب آگ جلے گی تب اس کو پہچانو گے

دیوانے لوگو!

کب اس کو پہچانو گے؟!

اس افسانے کاانت تمہیں معلوم ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور معلوم نہیں

                یہ حقیقت ہے کہ شاعری ایک فن ہے اور اپنے مافی الضمیر کو شعری صورت میں بیان کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور پھر قرآنِ کریم کی مبارک آیات کا ترجمہ شعری صورت میں بہت مشکل کام ہے، مگر مراتب اختر نے اس کام کو انتہائی احسن طریقے سے سرانجام دیا ہے۔ سورت ’’القارعہ‘‘ کا ترجمہ اس کی بہترین مثال ہے۔

        القارعہ

کھڑکھڑانے والی

ہاں اِک کھڑکھڑانے والی

کیا معلوم تم کو کھڑکھڑانے والی ساعت آئے گی

اور پھر بکھر جائو گے تم سب (معتبر ہو اب) پتنگوں کی طرح

یہ سلسلے اُونچے پہاڑوں کے اُڑیں گے روئی کے گالوں کی صورت

دن بہت بھاری ہوا

بدشکل چہرے آگ کا ایندھن بنیں گے

دن بہت بھاری ہوا

(سب لوگ اک جیسے نہیں ہوتے)

جو چہرے روشنی ہوں گے چمکتی گھاس پر

دائم مہکتی گھاس پر

چھائوں تلے

ان بے خزاں اشجار کی چھائوں تلے

نہروں کنارے

جاوِداں میٹھی، رواں نہروں کنارے

سوئیں گے

آزار سے محفوظ ہوں گے

آئے گی۔۔۔انصاف کی زندہ علامت آئے گی

وہ کھڑکھرانے والی ساعت آئے گی

                مراتب اختر کی نظموں کے حوالے سے معروف نقاد ڈاکٹر تبسم کاشمیری اظہارِخیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’وماادرک‘‘ سے شروع ہونے والی مراتب اختر کی یہ نظمیں ’’بے خبری سے خبر‘‘ تک کے سفر کی داستان ہیں۔ زمین پر زندگی گزارتے ہوئے تھک ہار جانے والا شاعر بالآخر اپنے گناہوں کا حساب چاہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ باریابی کا طالب ہوتاہے اور یوں اس زمینی سفر کی داستان پوری ہو جاتی ہے جہاں قطرہ عشرتِ وصل سے ہم کنار ہو جاتاہے۔ان نظموں کے ’’الانشراح‘‘ میں اس کی باطنی روایت کا شعور موجود ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ باطن کے تجربوں کی نسبت مراتب کے اس مجموعے میں غالب دکھائی دیتی ہے، جہاں وہ ذاتِ حقیقی کے مشاہدے میں گم ملتا ہے۔ ان نظموں کا شاعر صرف بصیرت کا شاعر نہیں ہے۔اس کی بصارت کی آنکھ بھی وا ہے۔ وہ زمین پر ہونے والی انسانی واردات اور اس کے آشاب کے شدید کرب میں بھی دیکھاجاسکتا ہے۔

قرآنِ مجید کا ترجمہ، تفسیر اور تشریح عام آدمی کے بس کی بات نہیں اس کے لیے وسیع مطالعہ اور عربی زبان پر دسترس ضروری ہے اور پھر اشعار کی صورت میں ترجمہ کرنا ہو تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے،مگر مراتب اختر نے یہ کام بہت ذمہ داری سے کیا ہے۔ سورۃ الانشراح کا ترجمہ اس کی ایک اور عمدہ مثال ہے۔(۲)

      الانشراح

تمہارے سر سے بوجھ اُتارا

کیا تھا جس نے تجھے نڈھال

تمہارا سینہ کھول دیا۔۔۔ (آئینہ صاف کیا)

اور ذِکر تمہارا کیا بلند(زمینوں اور زمانوں میں)

ہے سختی میں آرام

سنو! ہے سختی میں آرام!

کرو تم اپنے گھرکے کام

مگر جب فارغ ہو جائو تو یاد کرو مجھ کو

دل میںآباد کرو مجھ کو

تم ڈھونڈو مجھ کو راتوں اور دنوں میں مجھ کو پائو گے

پل پل ہوں تمہارے سات مجھے تم ڈھونڈو مجھ کو پائو گے

                شاعر معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے اور اپنے گردونواح کے واقعات کو محسوس کرتا ہے اور پھربغورمشاہدہ کرنے کے بعد جو تبدیلی محسوس کرتا ہے اس کو اشعار کا رنگ دیتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شاعر کے محسوس کرنے کا انداز عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے اوراِسے ہی شعری تجربہ کہتے ہیں۔ آزادنظم کے شعراء نے اپنی نظموں میں احساساتی آہنگ سے بھی کام لیا ہے۔ اس لیے نئی نظم کے قاری کو شعر میں موجود خیال اور جذبے کو سمجھنے سے زیادہ محسوس کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ مراتب اختر کی نظموں میں یہ احساس جگہ جگہ اُجاگر ہوتادکھائی دیتا ہے۔

ورق ورق

ایک نام بدنام ہو رہا ہے

ورق ورق

میرے خواب، خوابوں کے سلسلے

مرے سامنے تم نہ کوئی تم سا

تمام گزرے ہوئے بدن، پھول، گفتگو، دن، لباس

اپنی حماقتوں کے سمے،جو واپس نہ آئیں گے، یاد آ رہے ہیں

                شاعری میں دیگر لوازمات کے ساتھ ساتھ آہنگ کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے اور آہنگ پیدا کرنے میں بحر سے زیادہ شاعرکی طبع اور مزاج کا عمل دخل ہوتا ہے۔ آہنگ میں شخصیت، احساس، خیال، اصوات، تکرارِالفاظ اورمفہوم کا کردار اہم ہے ان کے امتزاج سے ہی آہنگ پیدا ہوتا ہے۔ مراتب اختر کی نظموں میں یہ آہنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ اس آہنگ کی ایک بہترین مثال ان کی نظم ’’سنجوگ‘‘ ہے۔

’’سنجوگ‘‘

تو شبنم میں سورج

پھر بھی ہم دونوں

اِک راہ پہ چلنے والے ہیں

ایسا ہی اظہار ان کی نظم ’’اجنبی‘‘ میں ہوا ہے

___________

’’اجنبی‘‘

میں کہ اِک گزرا ہوا دن

 پھر بھی تیر ے سامنے

میں کہ آنے والے موسم کی جھلک

 میں پھر بھی تیرے سامنے

میں کہ جیسا بھی ہوں (میں کچھ بھی نہیں کچھ بھی نہیں)

 میں پھر بھی تیرے سامنے

سامنے ہوں اور تم نے آج تک دیکھا نہیں

                مراتب اختر علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری سے بہت متاثر تھے۔ وہ بھی اپنی قوم کو ترقی کی معراج تک پہنچتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے اور انھوں نے اپنی شاعری کو بھی اسی ڈگر پر چلانے کی کوشش کی۔ انھوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے اپنی شاعری کا موضوع بنایا اور اپنی عمدہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنی شاعری کے ذریعے تہذیب کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی۔ مراتب اختر وہی جوش وجذبہ جواِن کے دِل میں تھا وہی قوم کے سپاہیوں کے دل میں بھی جگانا چاہتے تھے اور وہ احساس جو انھیں تھاوہ چاہتے تھے کہ دوسرے بھی اس کومحسوس کریں ان کی نظم ’’اُٹھو سپاہی‘‘اس کی عمدہ مثال ہے۔

’’اُٹھوسپاہی‘‘

اُٹھو سپاہی!

زمین کی تہ سے ایک آواز اُبھر رہی ہے

گھٹائوں کی طرح ، جاگتے شہر کے مکانوں،

جری جوانو پہ چھا رہی ہے

تمہیں بھرے شہر کی اِک اِک زندگی مسلسل بلا رہی ہے

یہ ننھے منے دلیر بچے

جواں جو اپنے وطن پہ مٹنے کے منتظر ہیں

ضعیف بوڑھے محاذ سے آنے والی خبروں کو سن رہے ہیں

لبوں سے حقے کی نے ہٹا کر

کہیں خیالوں میں دُور جا کر تمہیں مسلسل بلارہے ہیں

اُٹھو سپاہی

یہ نو نومبر کی رات کتنی ڈرائونی ہے

خموش گلیوں میں صرف کچھ نوجوان قدموں کی سرسراہٹ

یہ دھیمے دھیمے سے قہقہے۔۔۔ان کے قہقہے، پہرہ دار جیسے

یہ چھوٹی چھوٹی سی ٹولیوں میں بٹے ہوئے پہرہ دار۔۔۔

طاقت میں مجمع صد ہزارجیسے

لڑائی کو تین دن ہوئے سترہ سال بیتے

جو تم نے دیکھے جو تم پہ گزرے

صدا سنو! سال ایک اِک کر کے سامنے سے گزر رہے ہیں

زمیں کی تہ سے ایک آواز بن کی جیسے اُبھر رہے ہیں

تمہیں یہ سب یک زبان ہو کر بلارہے ہیں،

اُٹھو سپاہی!

اُٹھو سپاہی! قلم سنبھالو!

                اس معاشرے میں جہاں ہر شخص اپنے آپ کو اعلیٰ اور برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے عیب چھپانے کے لیے کوشاں رہتا ہے وہاں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دوسروں کے لگائے گئے الزامات کو بھی قبول کرتے ہیںاور اس بات پربھی یقین رکھتے ہیں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ غلطی، گناہ ا ور جرم اس کے خمیر میں شامِل ہے۔ مراتب اختر بھی ان چند لوگوں میں ہیں وہ اپنی نظم ’’ناکارہ‘‘میں لکھتے ہیں:

ناکارہ

مجھے سب کہتے ہیں ناکارہ

اس بستی کیؤ سب لوگ ہیں مجھ سے اچھے

دن بھر کاموں میں مصروف

یہ شب بھرنیندوں میں مصروف

جوان سے بُرا کرے، یہ بُرا کریں گے اس سے

جوان سے بھلا کرے، یہ بُرا کریں گے اُس سے

یہ مجھ سے اچھے، میں ناکارہ

شب بھر جاگتا ہوں

بستی کی گلی گلی، اندھیرے، چھانتا ہوں

جب دن چڑھتا ہے

سو جاتا ہوں

سورج سر پر آتا ہے۔۔۔ ڈھل جاتا ہے

چہرے پہ ندامت لیے ہوئے

پھر اپنے اس معمول کے پیچھے بھاگتا ہوں

جب جاگتا ہوں

لوشام ہوئی

بستر سے جدا ہونے کی ساعت آئی۔۔۔ آغاز کروں!

سب کہتے ہیں۔۔۔ ناکارہ ہوں۔ میں مانتاہوں‘‘

                مراتب علی اختر نے اپنی نظموں میں جہاں معاشرتی مسائل کا ذِکر کیا ہے وہاں رُومانی فضا بھی پیدا کی ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے سیاسی، سماجی اورمعاشرتی مسائل کے ساتھ گرتی ہوئی اخلاقی قدروں کو بھی اپنی نظموں کا موضوع بنایا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ان کی رومان پرور تاثر کی حامِل یہ نظم اس کی ایک مثال ہے۔

’’بارش ختم ہوئی پھر پڑھ لیں گے

آئو سیر کریں

گھاس کے بیچوں بیچ گزرتی اس پتھریلی، بھیگی بھیگی ٹیرس پر

دور دور تک گھومیں

آئو سیر کریں

بنددریچوں سے باہر، ان نرم ملائم پردوں سے

چھنتی رات، اکیلی رات، اندھیری رات پکارتی ہے

اُڑتے پل پل، مڑتے ورق ورق، بادل ویران سڑک

تیز ہوا، پتھروں کی صداا ور گلیوں کی خاموشی ہمیں پکارتی ہے‘‘

                مراتب اختر کے دور میں ہی لسانی تشکیلات کی تحریک کا آغاز ہوا۔ لسانی تشکیلات الفاظ کو اشیاء کی نمائندگی کی بجائے بطور اشیاء مرکب ترکیبی میں شامِل کرتی ہیں۔ الفاظ بطور اشیاء شعروادب سے باہر کوئی وجود نہیں رکھتے۔ الفاظ کو تخلیق کار اشیاء کا وجود دیتا ہے اور الفاظ بطور اشیاء جلوہ گر ہوتے ہیں۔مراتب اختر کے ہاں بھی لسانی تشکیلات موجود ہیں۔ ان میں فکر کاعنصر غالب ہے۔ ان کی نظم میں ’’ریزہ ریزہ‘‘ کا لفظ جس طور شئیت حاصل کرتا ہے، دیدنی ہے۔

’’یہ ریزہ ریزہ

اسی دھانے کی سمت، واپس

 جہاں سے آغاز کا بہائو

زمین کو چاٹتی لکیروں میں بٹ گیا تھا

 زمیں کو سونگھتے

بسیروں کی چاپ بن کر مسافتوں میں

 رکاوٹوںکو لتاڑتا

 آس پاس میں پھیلتا گیا

 جنگلوں سے

ہری کھیتیوں سے کچے اناج کی بو اُمڈ رہی ہے

زبان کو ذائقے، شکم کو غذا کی حاجت، بدن پہ

پتوں کے بعد، طلوعِ اطراف پہ مسلط، قدم

قدم ہر قدم نئی سمت بڑھ رہا ہے۔ یہ ریزہ

ریزہ بہائو___

گزر رہی ہیں یہ تیز رفتار کالی گھڑیاں___اذان__ بچے

سکول کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہ ریڈیوہو گیا پرانا، یہ میز ٹی۔وی

کی منتظر ہے__ زمیں کشش کھو چکی ہے___ سرعت دنوں

کی صورت کیلنڈروں کو بدل رہی ہے۔ گھڑی کے ڈائل میں

موسموں کا عذاب مٹی؛ جواں ہوئے، دفتروں، دوکانوں

میں منتشر ہیں۔ ٹرین کی بھاگتی صدا دُور ہو رہی ہیبہائو؛

یہ ریزہ ریزہ دریا چڑھا ہواہے

چلو یہ دریا عبور کر لیں

کہیں یہ دریا اُتر نہ جائے

چلو انہیں بہتے ہوئے پانیوں کا لباس پہنیں‘‘           (ص:۱۴۱،۱۴۲)

                نظم کاآغاز ’’ریزہ ریزہ‘‘ سے ہواہے اورمراتب اختر نے اس ریزہ ریزہ کو بنیاد بنا کر مختلف عناصر کو تسلسل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس نظم میں لہجہ دھیما اور لسانی تشکیلات کی فراوانی ہے۔ الفاظ بطور اشیاء کے سلسلے میں سماعت و بصارت ہی سے کام لیا جاتا ہے اور وہ الفاظ جو سماعت و بصارت کی بجائے دیگر حواس سے متعلق ہیں وہ شئیت کا درجہ اختیار کرتے ہوئے سماعت و بصارت کی زدمیں آ جاتے ہیں۔مراتب اختر کی شاعری کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے ہم عصرشعرا کا اثر لیا اور اپنی شاعری کو جدید رنگ میںڈھالا۔

                لسانی تشکیلات کی تحریروں سے وابستہ شعرا نے لفظوں کی اصوات سے بھی کام لیا ہے۔ کبھی وہ ’’ہم صوت‘‘ لفظ استعمال کرتے ہیں اور کبھی وہ مخصوص صوت کے حامِل لفظ لاتے ہیں بعض اوقات ان دونوں صورتوں کو اکٹھا بھی کام میں لایا جاتا ہے۔ لفظوں کی اصوات نظم میں قوسِ قزح کے رنگ بکھیرتی ہیں۔مراتب اختر کی نظموں میں لفظوں کی یہ اصوات پائی جاتی ہیں، جیسے:

’’یہ گائوں

دُوریہاں سے وہ پیڑوں کی چھائوں

یہ اُجڑا ہوا کنواں

یہ سائیں سائیں کرتے منظر

سرسر کرتے سبز گھنے سرکنڈے

جو میرے بھیدوں سے آگاہ

میں ان کے بھیدوں سے آگاہ

مجھے سب کہتے ہیں گمراہ‘‘

                رِم جھم پڑتی پھوؤار پیارکرنے والوں کے تن من کو بہت متاثر کرتی ہے۔ ساون کے برستی بارش میں ہجر کی صورت میں آنکھیں بھی برستی ہے اور وصال میسر ہو جائے تو موسم کا مزہ دوبالا ہو جاتاہے کیونکہ اصل موسم تو اندر کا موسم ہوتا ہے۔ دِل مطمئن ہو تو صحراکے سناٹے بھی گیت معلوم ہوتے ہیں اور پریشانی کے لمحات میں شہر بھی اُجاڑ نظر آتے ہیں۔ برسات کے موسم کی سرمستیاں شاعر کی رگ رگ میں اُترتی محسوس ہوتی ہیں اس کا دل چاہتا ہے کہ بادل کھل کر برسے مگر بادل کب کسی کی مانتے ہیں وہ تو قدرت کے اشارے کے محتاج ہیںاور اگر اِشارہ نہ ہو تو بن برسے گزر جاتے ہیں۔ مراتب اختر نے نظم ’’گزرا بن برسے بادل‘‘میں اس کیفیت کا اظہار بہت خوبصورت پیرائے میں کیا ہے۔

’’دن میں ڈولتے تھے زمزمے سے

رات کے وہ خاص لمحے آ رہے تھے، جو اکیلے میں گزرتے ہی نہیں

اپنے بدن کی گھاٹیوں اور چوٹیوں کو

جن پہ بادل آج بھی برسا نہ تھا، تکتی رہی

جغرافیہ پڑھتی رہی

ان موسموں ان ساعتوں سے جانے کتنی بار ٹکرائی

اُمڈ آتے ہیں بادل

اور بن برسے گزر جاتے ہیں بن بادل‘‘

                مراتب اختر ایک حساس طبیعت کے مالک تھے انھوں نے اپنے اردگرد ہونے والے ظلم وستم اور معاشرتی ناہمواریوں کو نہ صرف محسوس کیا، بلکہ انھیںاپنی شاعری کا موضوع بھی بنایا۔ ان کی نظم’’جاگتے خواب کے دوران‘‘ ایک معاشرتی اصلاحی نظم ہے جس میں ان تمام عوامل کا ذِکر کیا گیا ہے جومعاشرے کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ اس نظم میں ایسا تاثر اُبھرتا ہے کہ بدصورت افراد بدی کے فرشتے ہیں اورمعاشرے میں جگہ جگہ لڑائی جھگڑے اور فساد کا سبب ہیں جب کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کی ذمہ داری لگائی کہ وہ ایک حق آشنا معاشرہ قائم کرے مگر اس کے برعکس ایک ایسا معاشرہ تشکیل ہوا جس میں روزبروز جنگ و جدل اور برائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اخلاقی قدریں پامال ہو رہی ہیں۔

’’جاگتے خواب کے دوران‘‘

’’اے خدا! چار جانب یہ کیسا دھواں ہے؟‘‘

’’ایک آواز

جو دُور تک اِک سفرمیں رہی___!

گونجتے فاصلوں کے سمندر میں چیخوں کا طوفان ہے

اور اندھیرے میں آواز چنگاریوں کی طرح‘‘

’’اور یہ کون ہیں؟ اے خدا

ایسی مخلوق میں نے ابھی تک سنی ہے نہ دیکھی

یہ مکروہ چہرے یہ جسموں کی بدبو

مری عمر چالیسویں سال میں ہے

مگر آج میں نے یہ منظر جو دیکھا ہے، پہلے سنا اورنہ دیکھا‘‘

’’اپنی آنکھوں کی گہرائیوں میں گناہوں کی حرکت لیے

زرد چہرے پہ جو کچھ ہوا۔۔۔ ہو چکا، اے خدا

(اس کا افسوس ہے)

اپنے ہونٹوں پرمٹنے مٹانے کے لمبے فسانے؛

اور اپنے سوا، اے خدا!‘‘

’’اپنے سب ساتھیوں کو مٹانے کی باتیں، بہانے‘‘

یہ بکھرے ہوئے لوگ اِک دوسرے سے جدا

                اے خدا!

ان کو دُنیا میں بھیجا گیا تھا، بتایا گیا تھا

یہ دُنیا، زمین آسمان،(اور کیا کیا گنوں)

                اے خدا!

ان سے وابستہ رہنا

سدا ان اندھیروں میں پتھر سے پتھر رگڑ کر

اُجالوں کو تخلیق کرنا

اُجالوں کو گلیوں، گھروں، بستیوں میں

جہاںتک نظر جائے

(شہروں میں بھی)بانٹ دینا

یہی ایک پیغام ہے، جاوِداں ہے‘‘

خدا!___ اے خدا!

میں نے جب رات بھر پاگلوںکی طرح

ان کتابوں کی سطروں کو چوما

(سمجھنے کی ناکام کوشش میں)

کچھ بھی نہ پایا___ تو پایا

زمیں تنگ ہے، آسماں دُور ہے

اے خدا___ اے خدا

آج کیوں رات بھر،پاگلوں کی طرح میں نے سوچا‘‘

مگر لوگ اپنے لبوں پر لہو

اپنی آنکھوں میںغصے کا خوں

اور چہرے دہکتے ہوئے لال سے

گویا لوگوں نے ہر عیب کی سرخیاں

اپنے ہونٹوں پہ آنکھوں میں، چہروں پر مل لی ہیں

اور آسمانی جلالت فراموش کر دی گئی ہے

مگر لوگ بے خوف ہیں۔۔۔ اے خدا؟‘‘

                مراتب اختر ایک محب ِوطن انسان تھے اور ان کے دل میں یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان کی شاعری میں بھی جگہ جگہ اس جذبے کی عکاسی نظرآتی ہے، جس کی خوبصورت مثال ان کی نظم ’’دُعا‘‘ ہے۔ اس نظم میں مراتب اختر نے ان لوگوں کی تصویرکشی کی ہے جو علیحدہ وطن کے خواہش مند تھے۔

دُعا

درگاہوں کو

میں چوموں ان درگاہوں کو

ان پیڑوں، جھیلوں راہوں کو

ان سے مجھ کو ان لڑتے ہاتھوں، ڈھالوں کے ٹکرانے کی

شمشیروں کے بھڑجانے کی

جھنکار سنائی دیتی ہے

ان میں مجھ کو، وہ بھاگتے گھوڑے، روندتے رستوں ٹیلوں کو

طے کرتے میلوں برسوں کو

ہر آن دکھائی دیتے ہیں

کرن میں مجھ کو ان آہوں کی

راتوں کے اندھیروں میں چھپ چھپ کے روتے سچے لوگوں کی

آواز سنائی دیتی ہے

وہ جذبے، وہ انسان دکھائی دیتے ہیں

جو اس مٹی کی جان بنے

جن کے ہونٹوں پر ایک دُعا تھی مولا!

پاکستان بنے

                حب الوطنی کا یہ تقاضا ہے کہ دیس کے ہر فرد اورمٹی کے ذرّے ذرّے سے پیار کیا جائے۔ مزدوروں، کسانوں، کھیتوں،کھلیانوں، دریائوں اور پہاڑوں سے بھی محبت اتنی ہی ضروری ہے جتنی اپنے آپ سے۔ مراتب اختر کی وطن سے محبت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ وہ اپنی شاعری میں بھی اس کااظہار کرتے ہیں، انھوں نے زندگی کا زیادہ تر عرصہ گائوں میںگزارا اور گائوں کے باسی کھیتوں سے محبت کیسے نہ کریں،مراتب اخترکی نظم ’’کھیتوں کا گیت‘‘ جہاں دیہی منظرکشی کی عمدہ مثال ہے وہاں کسانوں اور کھیتوں کے گہرے تعلق کی بھی آئینہ دار ہے۔

’’کھیتوں کا گیت‘‘

اے سرما کی جم جانے والی راتو،دیکھو!

                                پانی ندی ندی آیا

کھیتوں کو یہ پانی پہنائو

کھیتوں کو اُجالے پہنائو

                                لو بادل برسے۔برس چکے

                                لو چلی ہوائیں۔ بیت گئیں

                                لو سورج نکلا___ ڈوب گیا

یہ دھوپ غذا ہے کھیتوں کی

یہ پانی پیاس ہے کھیتوں کی

ان سرد ہوائوں کے دم سے

ان گرم ہوائوں کے دم سے

                                پکتی ہے جوانی کھیتوں کی

                                رُت آئی سہانی کھیتوں کی

اب نظر نظر سونا ہے

سورج نکلا، سونا کاٹو،

اب کس بات کا رونا ہے

                اچھی شاعری کی یہ خوبی ہے کہ وہ دل اور دماغ دونوں کو متاثر کرتی ہے۔ مراتب اختر کی شاعری میں بھی یہ خوبی موجود ہے ان کی آزادنظمیں قاری کو بہت متاثر کرتی ہیں اس کی ایک مثال ان کی ایک نظم ’’لمحے گزر رہے ہیں‘‘ ہے جو اپنے اندر متاثر کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے۔

’’پیڑوں کی سنگتیں،

ہم نواپرندوں کے چہچہے،

جنگلی ہوائوںکے شور،

ازخود کھلے ہوئے پھول،

دو کناروں کا ساتھ دیکھو!

مجھے، یہ میں آج تم سے کتنا قریب ہوں ایک بار دیکھو!

یہاں سے ہم، اس تمام دُنیا کو چھوڑ کر

لوٹ جائیں گے پھر، جہاں سے آئے تھے۔۔۔منٹگمری‘‘

                صرف یہی ایک مثال نہیں بلکہ ان کی کئی نظمیں اس صلاحیت کی حامل ہیں اور پڑھنے والے کو متاثر کرتی ہیں اس کی ایک اور مثال یہ بھی ہے۔

’’دِل دھڑکتے ہیں

چراگاہوں کی جانب بڑھ رہی ہیں آہٹیں

جن میں پرندے چہچہاتے ہیں

جہاں بادل برستے ہیں

جہاں ٹھنڈی ہوائیں لہلہاتی گھاس ہے،

۔۔۔خاموشیاں ہیں، پھول ہیں، تالاب ہیں،

بستی جہاں سے دُورہے اورآسماں نزدیک ہے

ہر سال ساون میں جہاں بادل برستے ہیں‘‘

                لاہور پاکستان کا دل ہے اور زندہ دلانِ لاہور کی زندہ دلی بھی مشہور ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس شہر کے دامن میں خون آلود لمحے بھی ہیں اور بارُود کے زہریلے اثرات کو بھی سمو رکھا ہے۔ شہر جوں جوںبڑے ہوتے جاتے ہیں وہاں پہ فیکٹریاں مِلیں اورکارخانے بھی لگائے جاتے ہیں اور یہ مشینی زندگی مکینوں کو بے حس مشین بنا دیتی ہے، مراتب اختر نے زندگی کا کچھ عرصہ زمانہ طالب ِعلمی کے دوران لاہورمیں گزارا۔ اس شہر سے اور اس کے باسیوں سے انھیں محبت ہو گئی مگر انھیں ان کی بے اعتنائی اور خودغرضی کا بھی شکوہ رہا جس کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں:

’’اس شہر کہ جس کی جھولی میں

تاریخ کے خوں آلودہ لمحے دولت ہیں

شاہوں کی جلالت، سطوت اب بھی زندہ ہے

اس شہر کہ جس نے زہر بھرا بارُود بھرا منصورستمبر سرپر سہا

میں جب بھی یہاں آتا ہوں اپنے گائوں سے

ڈر جاتا ہوں

اے جاگتے گھنے درختو!___میں ڈر جاتاہوں

سیاحوں اُونچے اُونچے میناروں کو،

بھاگتے لوگوں کو

ایک دوسرے کو کھاتے، بے خوف درندوں کو،

جب دیکھتا ہوں ڈر جاتا ہوں

اب آئو واپس لوٹ چلیں

اے سوچتے گھنے درختو آئو!

آئو! واپس لوٹ چلیں‘‘

                مراتب اخترکی شاعری کی یہ خوبی ہے کہ انھوں نے جہاں تکنیکی لحاظ سے نئی نظم کو جدت سے روشناس کروانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ وہاں موضوعاتی لحاظ سے بھی نام پیدا کیا۔ ان کے کلام میں امیجری کے بہت خوبصورت نمونے موجود ہیں ان کی نظم گمراہیاں امیجری کی اہم مثال ہے:

’’  ُ  ّمعبررات عجیب اندھیراتھا

میں جاگ رہا تھا

نیند نے مجھ کو ہر جانب سے گھیرا تھا

اِک وحشت میرے سارے جسم پر طاری تھی

اب کیسے تمہیں بتائوں  ُ  ّمعبر!برف کی صورت جسم پگھلتا جاتا تھا

اِک آگ میں جلتا جاتا تھا

اس پاگل پن کے جاگتے سوتے لمحوں میں

میں نے، کیا کچھ پایا کیا کھویا کیا دیکھا

اس رات کی جل تھل نیندمیں جو کچھ دیکھا

میرے ذہن میں شاید دن بھر رہتا ہو گا

معمور تھے منظر جسموں کی عریانی سے

پانی سے طوفان اُبل اُبل کر سرد ہوئے

اور سارے منظرگرد ہوئے

پھر اِ ک اِک لڑکی ساتھ لیے گھنگھوراندھیرا بیت گیا

دَر باز ہوئے،سورج نکلا، میں جیت گیا

کیا خواب تھے کہنہ سال مُعبّر!

اب بھی ذہن پہ طاری ہیں

جیسے یہ منظر میرے چاروں جانب اب بھی جاری ہیں‘‘

                مراتب اختر کا تعلق خاندانِ سادات سے تھا اور ان کا سلسلۂ نسب سیّد سید علی گیلانی، غوث بالاپیر اور شاہ چراغ لاہوری سے ہوتا ہوا غوث عبدالقادر جیلانی تک جا پہنچتا ہے۔ اس لیے ان کی شاعری میں تصوفانہ باتیں گھنگھرو دھمال، درگاہ، لنگر،زائر اور قوالی کاذِکر بھی ملتا ہے۔’’الغوزوں کی آواز‘‘میں یہ سارے منظر نظر آتے ہیں:

’’الغوزوں کی آواز

یہ گدلے جڑے جڑے سے بال

’’علی رہندا اے دم دم نال‘‘

دمادم مست قلندر لال

____________

یہ ہر دم میلے کا سامنظر

زائرآئے نگر نگرسے

یہ زائرآئے اِدھراُدھر سے

شانوں پہ مہریں شہباز قلندر والی

آنکھوں میں اِک جاگتی لالی

’’بیراگن، کشتے، عاصے، کنٹھے‘‘

او ر اِک اِک اُنگلی میںرنگین مقدس پتھر

پائوں میں گھنگھرو

اب چھنن چھنن چھن چھنکتے گھنگھرو اور لگی سُرتال

ہجوم___دھمال

 دمادم مست قلندر لال

ملنگوں کے نعروں کاشور

یہ زائر دِیے جلانے آئے

مرادیں دل کی پانے آئے

زمیں سے آسمان تک حیدر حیدر کے نعروں کی دھوم

پھیلتا جاتا ہے طوفان کی طرح ہجوم

ہوا منہ زور

ُُٖگھٹاگھنگھور

ملنگوں کے نعروں کاشور

تلے دریا، چوٹی پر گنبد، گنبد کے چوگرد اندھیرا

اُمڈی سرخ سانولی رات

سجا کرجذبوں کی بارات____

بجے گھڑیال

ہجوم__دھمال

دما دم مست قلندر لال

لنگر تقسیم ہوا

اَن پانی سے اب فارغ ہوئے ملنگ

 ِچھڑی آوازوں اور خاموشی میں اِک جنگ

نشے سے تیر گئے ماحول میں

دم دم’’ناد‘‘ بجے اور ناچنے لگے ملنگ

اندھیری رات___اندھیری سرخ سانولی رات میں

جاگے حجرے حجرے’’مچ‘‘

’’جتی شہباز قلندر سچ

نکالو اپنے دل کے شک

جتی شہباز قلندر حق‘‘

سدا جھولے یہ جھولن لال

تمہارے ہاتھ ہے__رکھیو لاج میری پت لال

دما دم سیون کے، سندھڑی کے

جتی شہباز قلندر لال

دما دم مست قلندر لال

                درگاہوں پر اس طرح کے مناظر بھی دکھائی دیتے ہیں جہاں اُلجھے بالوں والے بابے رقص کرتے دکھائی دیتے ہیں،لوگ درگاہوں پہ منتیں ماننے جاتے ہیں اور ’’علی علی‘‘ کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ ان کی ایک اور نظم’’اے اُلجھے ہوئے بالوں والے بابا‘‘ان مناظر کی عکاسی کرتی ہے۔

’’اے اُلجھے اُلجھے بالوں والے بابا!

اپنے الفے کو لہرائو چھنکو چھنن چھنن

رقص کرو پھر رقص کرو‘‘

درگاہ یہ بڑی پُرانی ہے

یہ تکیہ یہ تالاب یہ برگد یہ حقے

یہ کائی لگے پیالے یہ پینے والے

اُلجھے اُلجھے بالوں والے، بڑے پُرانے ہیں

مشہور زمانے بھر میں اس درگہ کے اَمر افسانے ہیں

’’جو چومے اس درگاہ کی چوکھٹ

اُس کے سب دُکھ درد مٹے

سب اس کی مصیبت ٹلی ٹلی

ہر سمت برابر علی علی‘‘

درگاہ کے چاروں سمت برابر علی علی

اس نام سے اِک اِک مشکل حل ہو جاتی ہے

یہ نام تو اپنا ازل ازل سے ساتھی ہے

جبرئیل سے اس درگاہ پہ آتے جاتے ہیں نوکر بن کر

اِس نام کا نوردمکتا رہتا ہے گھر گھر

’’پھر رقص

اے اُلجھے اُلجھے بالوں والے بابا! اُمڈو

رقص__پھر رقص کرو‘‘

’’یہ رقص تو بیٹا! جب دل پر

درگاہ کا سچا عکس پڑے، درگاہ کی ہیبت طاری ہو

اِک عشق کی موج اُٹھے دِل سے جو اَبد اَبد تک جاری ہو

ہم ناچتے ہیں

جب طوفاں دل میں جاگتے ہیں

ہونٹوں پہ اِک یہ درد لیے

دم، حیدر حیدر علی علی

ہم ناچتے ہیں

ہر سمت برابر علی علی

ہم ناچتے ہیں

                نئی لسانی تشکیلات کی تحریک نے اُردو شاعری میں روایتی ڈِکشن سے ہٹ کر ایک نئے ڈِکشن کو جنم دیا اگرچہ اس سے قبل بھی دوسری زبانوں کے الفاظ اُردو شاعری میں شامِل رہے مگر ۱۹۶۰ء کی اس تحریک کے بعد اس جانب رجحان بڑھنے لگا۔ مراتب اختر نے اپنی شاعری میں انگریزی الفاظ کا استعمال کثرت سے کیا اور اس انداز سے کیاکہ شعر کے حسن میں بھی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ انھوں نے انگریزی کے ساتھ ساتھ فارسی، عربی اور پنجابی کے الفاظ بھی استعمال کیے ان کی نظموں میں سے چند نمونے اس کی مثال ہیں۔

’’جاگتے خواب کے دوران‘‘

اے خدا

جب برسنے لگی بدلیاں

دُور تک سب مکاں بھیگتے ہیں

(بہت ٹیڈئس مسئلہ ہے)ص:۳۸

نظم ’’پتھر‘‘ دیکھئے:

ان گرجتے ہوئے گھنگھور زمانوں میں کہیں

میرا بدن، میری پریذنس، نہیںکچھ بھی نہیں(ص : ۹۸)

نظم ’’مجبوری‘‘ دیکھیے:

بجھ گیا دیپ

جلی یاد کوئی

ذہن میں گھوم گئے

یوکلپٹس کے گھنیرے سائے

میں نے جانا ہے کہیں

آج بارش نہ رُکے گی شاید‘‘    (ص۶۴)

                مراتب اختر کی شاعری میں انگریزی کے ساتھ ساتھ جن دوسری زبانوں کے لفظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں ہندی خاص طور پر قابلِ ذِکر ہے :

چڑیلیں کھول رہی ہیں بال

اندھیری رات ہے چاروں اور

گھٹا گھنگھور ، ڈھول کی تال

                                    (ص:۱۷۰)

ایک اور نظم میں دیکھئے:

یہ سندر سانولے ماجھی

جنھیں پرھول سندربن نے پالا ہے

سمندر کی ہوائوں، تندطوفانوں نے مِل کر جن کو پالا ہے

میری دُنیا کو جن کی سانولی سندر صدائوں سے اُجالا ہے‘‘  (ص:۱۹۷)

                لسانی تشکیلات کی تحریک سے متاثر مراتب اختر کی نظموں میں انگریزی اور ہندی کے علاوہ عربی اور پنجابی کے لفظ بھی آتے ہیں جوموقع کی مناسبت سے بوجھل محسوس نہیں ہوتے بلکہ نظموںمیں خوبصورتی پیدا کرتے ہیں۔ اس کی خوبصورت مثال  اس نظم میں دیکھئے:

’’درگاہ کے چاروں سمت برابر علی علی

اس نام سے اِک اِک مشکل حل ہو جاتی ہے

یہ نام تواپنا ازل ازل سے ساتھی ہے

جبرئیل سے اس درگاہ پہ آتے جاتے ہیں نوکر بن کر

اس نام کانور دمکتا رہتا ہے گھر گھر‘‘   (ص :۱۲۴)

ایک اور نظم میں دیکھئے:

’’ہونٹوں سے مٹی پونچھ کر

دامن سے اپنی ونجھلیوں کو جھاڑ کر،

گیتوں میں اپنے دل سمو کر، دُور تک

چھا جائیں گے ساون کے کالے بادلوں کی طرح‘‘  (ص:۱۳۷)

                مراتب اختر اپنے دور کے نامور شاعروں میں سے ایک ہیں۔ ان کی شاعری کا اسلوب جدیدیت کا آئینہ دار ہے۔ انھوں نے جدید اُردونظم میں بھرپور حصہ ڈالا، ان کی شاعری کا فکری مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے تصوف، رُوح اور شخصی احوال و آثار کی عمدہ مثالیں پیش کی ہیں۔ فنی لحاظ سے ان کا اسلوب اور تکنیک اس بات کی آئینہ دار ہے کہ بلاشبہ وہ ایک قادرالکلام شاعر ہیں اور اُردو نظم میں ان کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔

حوالہ جات

۱۔            محمدزکریا،خواجہ، ڈاکٹر، گزرا بن برسے بادل، مقدمہ ص، ادارہ صوت ہادی، دسمبر ۲۰۰۴ء

۲۔            تبسم کاشمیری، ڈاکٹر، گزرا بن برسے بادل، فلیپ

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...