Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مراتب اختر شخصیت و فن > مراتب اختر معاصرین کی نظر میں

مراتب اختر شخصیت و فن |
مہکاں پبلشرز
مراتب اختر شخصیت و فن

مراتب اختر معاصرین کی نظر میں
ARI Id

1688721480270_56116768

Access

Open/Free Access

Pages

178

مراتب اختر معاصرین کی نظر میں

 

                مراتب اخترنے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اپنے منفرد ڈِکشن کی بنا پر شہرت حاصل کی۔ انھیں مجیدامجد کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع بھی مِلا۔ مجیدامجد سے اُن کی ملاقاتیں بھی اُن کے جدید شعری رجحان کا سبب بنیں۔ مجیدامجد مراتب اختر کے بارے میں کہتے ہیں:

یہ ایک شاعر ہیں جو غزل کہتے ہیں اور غزل ان کے عقیدئہ حیات کا ایک جزو ہے۔ یہ عقیدہ ان کی رُوح کے لیے شرط ایمان ہے، کوئی عجب شیفتگی ہے جو انھیں اس صنف کے ساتھ ہے۔ ایک عمر سے وہ غزل کے مصنوعی انداز کو نکھارنے میں مصروف ہیں۔ یہاں ان اشعار کے اندر ایک بالکل نیا چہرہ مفاہیم ہے۔ لذتِ بیان کی ایک انوکھی سرشاری ہے۔ بظاہر ایک سہمی ہوئی آواز ہے لیکن دراصل یہ اپنی ہی توانائی سے شرمائی ہوئی آواز ہے۔ نئے اِمکانات اظہار ہیں، نیا جلوئہ حروف ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا اظہار کے پردے میں شاعر اپنے آپ ہی سے مخاطب ہے۔ خود ہی اپنی آواز، خود ہی اس کا سننے والا اور خود ہی اس سے کیفیت گیر ہے۔ ان اشعار پر مکاشفوں کا گمان ہوتا ہے۔ اپنے تاثر پر اپنا اعتقاد، اپنے اعتقاد پر اپنا ایمان، اپنے اسی اطمینان کا وقار، ان کے ہر شعر سے جھلکتا ہے۔ جابجا ایک ضبط ہے جس کی اپنی تمکنت ہے۔ ایک شکستگی ہے جس کا اپنا جلال ہے۔ ایک کرب مہجوری ہے، جس میں گراوٹ نہیں متانت ہے۔ ایسا احساس ہوتا ہے جیسے محبوب کے ساتھ بات کرتے وقت شاعر کے لہجے میں محبوب کا انداز رضامندی اس میں شامِل ہو گیا ہے۔۔۔ جہاں خارجی اشیاء کا بیان ہے، وہاں یوں لگتا ہے جیسے یہ اشیاء اپنا ٹھوس وجود رکھتے ہوئے بھی بے جسم ہیں اور شاعر کے شعور کا حصہ ہیں جسم کے باہر جس قدر موجودات ہیں ان کی حقیقت و ماہیت خود شاعر ہی کے احساس کا پیکر ہے اوراس کے سوا کچھ نہیں۔ ساری دُنیا اس کی رُوح کا لباس ہے۔(۱)

                مراتب اختر کے معاصرین میں ایک اہم نام جعفرشیرازی کا ہے۔ جعفرشیرازی نے مراتب اختر کی شخصیت کا بطور شاعر اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے:

مراتب اختر ایک نہایت چپ چاپ شاعر تھا۔ ایک بہت بڑاشاعر، جس نے کبھی اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر نہ دیکھا لیکن زمانہ اس کا معترف رہا۔ اب جوں جوں زمانے گزرتے جا رہے ہیں مراتب بلندیوں سے بے داغ نور کی طرح اُتر رہا ہے اور وسعتوں میں ہزار رنگ بھر رہا ہے جیسے اس نے خود ہی کہا تھا۔

بلندیوں سے وہ بے داغ نور اُتر آئے

ہزار رنگ تہی وسعتوں میں بھر آئے(۲)

                مراتب اختر کے معاصرین میں اشرف قدسی کا نام قابل ِ ذِکرہے۔ اشرف قدسی اُن کے بچپن کے دوست اور ہم جماعت تھے۔ انھوں نے مراتب اختر کے ساتھ بہت سا وقت اکٹھے گزارا۔ اشرف قدسی اپنی یادوں کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے مراتب اختر کے بارے میں لکھتے ہیں:

وہ جب بھی ملتا انتہائی محبت، خلوص اور  ُپرجوش انداز میں ملتا تھاانتہائی سادہ مزاج شخص۔۔۔ جس میں پیرزادوں کی سی کوئی بھی ’’خصلت‘‘ موجود نہیں تھی۔ بس ایک سیدھا سادہ درویش منش انسان نہ شکل سے پیرزادہ دکھائی دیتا تھا اور نہ حرکات و سکنات سے۔ اس نے کوئی شوق بھی نہیں پال رکھا تھا۔ وہ صرف اور صرف شعروادب کا متوالا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شاعری کے سوا کسی شے کا بھی رسیا نہیں تھا۔ حالانکہ ان دنوں نہ ہی مے نوشی پرکوئی پابندی تھی اور نہ ہی اُس کے پاس وسائل کی کمی تھی۔ اُس کے خاندانی مریدوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی تھی۔زمینوں اور باغات کی آمدنی علاحدہ تھی، مگر اللّٰہ کا یہ اُس پر خاص احسان تھا کہ مرتے دم تک اُس کی آنکھوں میں شرم و حیا قائم رہی۔میرے نزدیک وہ ایک شرمیلا نوجوان تھا اور زمانے کی عیاریوں سے ناآشنا بھی۔ اُس کی شخصیت کا یہی رنگ اُس کی شاعری میں نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ یہ نہیں کہ وہ عورت یامحبت کی باہمی رشتے سے ناواقف تھا۔ وہ بھی ایک انسان تھا اور محبت بھرا دِل رکھنے والا انسان۔۔۔ مگر اپنی پاکیزگیِ طبع کی وجہ سے وہ ہمیشہ دوسروں سے جداگانہ دکھائی دیتا تھا۔

                مراتب اختر کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ وہ اِردگرد کے حالات کے ساتھ ساتھ دُنیا کے حالات پر بھی گہری نظر رکھتا تھا۔ وہ ایک وسیع المطالعہ شخص تھا۔ ملکی اور غیرملکی سیاسیات سے پوری طرح آشنا۔۔۔اس کی شاعری میں اس کے دور کے حالات سب سے نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔(۳)

                مراتب اختر کی شخصیت ایسی تھی کہ کوئی بھی ملنے والا اُن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ اُنھوں نے اپنے اخلاق، کردار اور رویے سے معاصرین کے دِلوںمیں بھی گھر کر رکھا تھا۔ قیوم صبا مراتب اختر کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:

مراتب اختر اپنی روزمرہ زندگی اور اعمال میں اپنے عزیزوں، اپنے دوستوں، اپنے بڑوں، اپنے چھوٹوں، اپنے عقیدت مندوں اور سراپااحترام ارادت مندوں، اپنے حاسدوں، غرض پسندوں،معاشرے کے بڑے سے بڑے صاحب ِحیثیت لوگوں اور معاشرے کے گرے پڑے بے بہرہ مفلوک و مفہور لوگوں، ہر طرح کی خارجی داخلی متعدد و مختلف سطحوں سے منسلک لوگوں سے ملنے اور بچھڑنے میں اپنی سادگی اور سچائی اخلاص اور دردمندی، بے تکلفی اور بے ساختگی، آسانی اور روانی کے عمل میں اس طرح سانس لیتے تھے جیسے مچھلیاں دریا میں اور پرندے فضا میں۔ اپنے آپ میں اور اپنے سے باہر سارے بندوں اور بندیوں ساری چیزوں اور منظروں اور واقعوں سے ایک معصوم فطری ہم آہنگی حاصل کیے رکھنا مراتب اختر کی شخصیت اور شاعری کا عظیم ترین جوہر ہے شخصیت اور شاعری میں یہ جوہر کس طرح موجود تھا اور اس جوہر کی تخلیق کہاں سے ہوئی تھی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مراتب اختر نے سچ اور جھوٹ اور نیکی اور بدی کے فرق کو سمجھنے میں زندگی کی ساری شکلوں اور سارے رنگوں کو پوری طرح جذب اور قبول کرنا اختیار کیا تھا اور یہ اختیار کسی طرح کے خارجی دبائو اور تقاضوں کے زیرِاثر عمل میں نہیں آیا تھا بلکہ ان کے وجود کی اصل حریت اور آزادی کا اظہار تھا۔(۴)

                مراتب اختر کی شخصیت ایسی تھی کہ اُن سے ملنے والوں کے ساتھ ساتھ اُن کے عزیزو اقارب بھی اُن کی زندہ دلی اور حُسنِ اخلاق کے گرویدہ تھے۔ اُن کے چھوٹے بھائی اور معروف پنجابی شاعر سیّد افضال حسین گیلانی اُن کے بارے میں لکھتے ہیں:

میں نے جذبوں کی صداقت کا سبق اپنے بھائی جان سے سیکھا جن کا اخلاص بھائیوں، رشتہ داروں، دوستوں اور عام ملنے والوں کے ساتھ ہمیشہ یکساں رہا اور یہ حقیقت اُن کوجاننے والے تو جانتے ہی ہیں۔ پڑھنے والے اُن کا کلام پڑھ کر جان لیں گے۔ حفظ ِمراتب مانع ہے اس سے آگے کچھ نہ کہو، اگر حسب ِمراتب نہ کہہ سکے تو ادب نہ رہے گا۔(۵)

                مراتب اختر کے معاصرین میں اہم نام ناصر شہزاد کا ہے۔ ناصرشہزاد مراتب اختر کے ماموں زاد بھی تھے اور پھوپھی زاد بھی۔ وہ اپنے دور کے نامور شاعر اور معروف نقاد تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں ہندی الفاظ کے امتزاج سے نیا ڈِکشن متعارف کروایا۔ وہ مراتب اختر کے شعری مقام و مرتبہ کا تعین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

مراتب اختر اُردو غزل کو شہر کی تنگ و تاریک گلیوں سے نکال کر شہر کے مرغزاروں اور خوش نما بازاروں کی طرف لے گیا۔ اُس نے غزل کو کچھ دیا جو اُس کے مشاہدہ اور اُس کے مطالعہ سے گزرا اب غزل میں گاڑیوں کا ذِکر بھی ہی اورپہاڑیوں کا بھی۔ اب اس میں کھیتیاں اور کھلیان بھی کھلتے ہیں اور ندیوں پرکامینوں کے اشنان بھی، ریل کے چلنے کی آواز بھی ہے اور قہوہ خانوں میں بجتے ہوئے ساز بھی۔ مراتب اختر نے غزل کو بڑی طہارت اور بڑی تابندگی عطا کی ہے اُس نے اِس کے رنگ اور  خیال کی نئی جہتوں اور جمال کی نئی رہتوں سے ہمکنار کیا ہے۔(۶)

                پروفیسر سیّد ریاض حسین زیدی بھی مراتب اختر کے معاصرین میں شامِل ہیں۔ نعت گوئی اور غزل گوئی میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ’’ادب سرائے‘‘ کے زیرِاہتمام ماہانہ محفلوں کا انعقاد کر کے عرصۂ دراز سے ادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ اُردو ادب کے اُستاد اور نقاد ہیں۔ مراتب اخترکی شاعری کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:

مراتب نے کائنات کے حسن و نظر کی چھوٹی چھوٹی بظاہر غیراہم اور بے اعتنا باتوں کو بھی اعجازآفرین انداز میں داخلِ حصار شعر کیا ہے کہ ہر شعر بولتا ہے اور اپنا جادو جگادیتا ہے۔ مراتب اختر کسی طور بھی ایک روایتی شاعر نہیں اور لفظوں کی آڑی ترچھی لکیریں اپنی ’’لیاقت‘‘ کے بل بوتے پر کھینچتے ہوئے  بڑا شاعر کہلوانے کا روادار نہیں۔ اُسے جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ اپنے اندر جھانک کر اُسے پرکھتاہے یا جو کچھ اس کے داخل میں وقوع پذیر ہوتا ہے اُسے احساس اور ذہانت کی دلنشین آمیزشوں اور لفظوں کے خوشنما بندوبست کی تمام تر نفاستوں سے ہم آہنگ کر کے اپنے شعری تجربات ہمارے رُوبرو کر دیتا ہے۔اُسے ردیف اور قافیہ کی تنگنائیاں ’’بپاس خاطرِادب‘‘ قبول ہیں لیکن اِن اوگھٹ گھاٹیوں سے گزر کر بھی وہ نہایت تروتازہ، جدید اور کھری کھری صداقتوں کی آئینہ داری کرتا ہے۔‘‘ یوں اس کی فنی پختگی اس کا اُجالا من ظاہر کرنے میں کوئی دِقت محسوس نہیں کرتی۔ اُس کے ہاں کذب، تضاد اور تشکیک کے مراحل کا گزر نہیں۔ وہ سچائیوں کو ادبی بانکپن اور شعری حسن آفرینی کے ساتھ ہمارا ہم ذوق بنا دیتا ہے۔ اس ضمن میں وہ پہیلیاں نہیں بوجھتا اور کج فہمی اور بے ربطی کے خرمشے چھوڑ کر اپنی بدیسی دانش‘‘ کی دھوم نہیں چھوڑتا۔ اُس نے اپنے تجرباتِ شاعری کو اسی مٹیوں مٹی زمین میں رچ بس کر یوں بے ساختہ رُوپ میں ہدیہ قارئین کیا ہے کہ فطری واہ واہ کی بار بارتکرار نہایت لطف دیتی ہے۔ وہ فراق، بے دردی، کسک، ظلم و جور، بے مہری، کج ادائی، ستم ظریفی اور اسی نوعیت کی اَن گنت، ہڈبیتیاں‘‘ فرفر اندازمیں ہمارے اندر اُتارتا جاتا ہے کہ یہ سرسری کیفیتیں اپنے اعجازِشعر سے اپنے سوزوسازاور کیف و کم کے لذائذ سے ہمیں مالامال کر دیتی ہیں۔ اصل شاعر اپنا آپ بے روک ٹوک رُوپ میں ہمارے رُوبرو کر دیتاہے اور ہم اِس رُوپ میں سے اپنے آپ کو بے ردوقدح طشت ازبام دیکھ کراُس سے یاری پکی کر لیتے ہیں۔(۷)

مراتب اختر کی بے وقت موت سے جہاں اُن کے اہلِ خانہ ، مریدین اور عزیز و اقربا رنجید ہ تھے وہاں ادبی حلقوں میں بھی صفِ ماتم بچھ گئی اور نامور شعراء نے اُن کی موت پر منظوم اظہارِ عقیدت پیش کیا، جس کی چند مثالین ملاحظہ ہوں:

سیّدمراتب اختر کی یاد میں

طالب جتوئی۔ساہیوال

صبحیں اُداس ہیں سبھی شامیں اُداس ہیں

احباب کی تیرے لیے رُوحیں اُداس ہیں

اُٹھتی ہیں جس طرف بھی نگاہیں تیرے بغیر

جہتیں اُداس ہیں ، سبھی قوسیں اُداس ہیں

دیتی ہیں تیرا زندہ حوالہ جو وقت کو

شہرِ اَدب میں آج وہ غزلیں اُداس ہیں

منسوب ہیں جو اَب بھی یہاں تیرے نام سے

اُلفت ، خلوص ، پیار کی رسمیں اُداس ہیں

محفل میں تو نہیں ہے ُتو شاید اِسی لیے

اِس چاندنی میں چاند کی کرنیں اُداس ہیں

طالبؔ! مراتب ایسے قلندرکی یاد میں

یہ دِل اُداس ہے یہ نگاہیں اُداس ہیں(۸)

میری نظر میں مراتب اختر کا فنِ سخن

ڈاکٹر کاظم بخاری

روشنی ماہتاب و کہکشاں

تاب انجم زینتِ کون و مکاں

رنگ و نور مہر ، خوشبوئے شمیم

گردشِ لوح و قلم ، بادِ نسیم

رونق کونین ، تزئین چمن

آب کوثر ، عطر ُگل ، مشک ختن

واقعاتِ زیست ،  شرحِ زندگی

 وار داتِ دل ، حدیثِ آگہی

داستانِ ہجر ، رُو دادِ وصال

حادثاتِ عشق ، اذکارِ جمال

اِک پیامِ ربط ، رسمِ دوستی

اِک کلامِ صدق ، رنگِ آشتی

حاصل تخلیق فن ، حدِ کمال

منفرد انداز تابندہ خیال

فلسفہ ، حکمت ، ادب، فکر و سخن

 شاعری کی شکل میں ہیں ضوفگن

حامِل آئینۂ فکر و ادب

معدنِ گنجینۂ شوق و طلب

شاعری ہے منفرد اسلوب میں

گفتگو ہے طالب و مطلوب میں

ہمہ اوصاف جہانِ رنگ و بو

 ہیں مراتب تیرے فن میں ہو ہو

دے خدا فردوس میں تجھ کومقام

میرے ہم دم تجھ پہ کاظم کا سلام(۹)

گوہرہوشیارپوری

اس عمر میں اِنتقال کر کے

کیا جلد گئے وصال کر کے

کس شہر میں کر لیا بسیرا

اس شہر کو پُرملال کر کے

یاروں میں شریک رہنے والے

بچھڑے نہ شریکِ حال کر کے

یہ کیا کہ نڈھال کر گئے تم

پھر چھوڑ دیا نڈھال کر کے

آ روک تو غم کی شدتوں کو

دیوار ’’حصار حال‘‘ کر کے

اللہ کی رحمتیں ہوں دائم

سیّد پہ نبیﷺ کی آل کر کے(۱۰)

جعفرشیرازی

منتظر ہوں تیرا اے جا کے نہ آنے والے

جانتا بھی ہوں کہ آتے نہیںجانے والے

تو کہ بیگانہ رہا عالمِ رنگ و  ُبو سے

یاد کرتے ہیں تجھے آج زمانے والے

تیری تربت پہ کوئی پھول ِکھلا یا نہ  ِکھلا

اے خیالوں میں گلابوں کے پھول کھلانے والے

محفلِ شعر و سخن بعد تیرے ویراں ہے

قریۂ شعر میں اے دُھوم مچانے والے

اس طرح لوحِ زمانہ پہ تیرا نام ہے نقش

آپ مٹ جائیں گے یہ نام مٹانے والے(۱۱)

مراتب اختر کی یاد میں

ابوسلیمان رشیدی

رب دا خاص اِک بندہ سی

آکھن لوک فرشتہ سی

شعر ادب دا جانی جاں

رنگاں دا گلدستہ سی

عرفاناں دا قلزم سی

فیض دا وگدا دریا سی

اللّٰہ جس نوں کرے پیار

نسبی ولی اللّٰہ سی

وانگ بھراوآں مل بہنا

یاراں نال اِک رشتہ سی

اوہدی یاد دھنک وَرگی

ذِکر اوہدا ست رنگا سی

اوہدی صفت مراتب سی

سیّد نسلوں اعلیٰ سی(۱۲)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات

 

۱۔            مجیدامجد،مراتب اختر کی غزلیں، ماہنامہ ادبِ لطیف، لاہور، مارچ، ۱۹۶۸ء

۲۔            جعفرشیرازی، مراتب اختر۔۔۔شخص وشاعر، ماہنامہ سجاد،ساہیوال؍مانچسٹر، جنوری ۱۹۹۳ء

۳۔            اشرف قدسی، آہ سیّد مراتب اختر۔۔۔ رفتیدولے نہ از دلِ ما، مشمولہ:نقد ِمراتب(عون الحسن غازی)،ادارہ صوتِ ہادی، اوکاڑہ، ۲۰۰۴ئ،ص۷۸،۷۹،۸۰

۴۔            قیوم صبا،ہمزاد، ماہنامہ سجاد، ساہیوال؍مانچسٹر، جنوری ۱۹۹۳ء

۵۔            افضال حسین گیلانی،دیباچہ، گنج گفتار(مراتب اختر)، شیخو شریف: ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۱ئ،ص ۱۲

۶۔            ناصرشہزاد،مراتب اختر،ماہنامہ سجاد۔

۷۔            سیّدریاض حسین زیدی، سیّدمراتب اختر، ایک زندہ شاعر__ماہنامہ سجاد

۸۔            طالب جتوئی، ایضاً

۹۔            کاظم بخاری،ڈاکٹر، ایضاً

۱۰۔          گوہرہوشیارپوری، ایضاً

۱۱۔          جعفرشیرازی، ماہنامہ سجاد

۱۲۔          ابوسلمان رشیدی، ایضاً

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...