Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > مراتب اختر شخصیت و فن > مراتب اختر کا ادبی مقام و مرتبہ(نامور ادیبوں اور دانشور وں کی نظر میں)

مراتب اختر شخصیت و فن |
مہکاں پبلشرز
مراتب اختر شخصیت و فن

مراتب اختر کا ادبی مقام و مرتبہ(نامور ادیبوں اور دانشور وں کی نظر میں)
ARI Id

1688721480270_56116769

Access

Open/Free Access

Pages

190

مراتب اخترکا ادبی مقام و مرتبہ

نامور ادیبوں اوردانشوروںکی نظر میں

 

                مراتب اختر کا شمار اُن شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے جدید شاعری میں ایک نئے رجحان کو متعارف کروایا اور اُن کے اس فن کی تمام ناقدین قدر کرتے ہیں۔مراتب اختر کی شاعری کے رکھ رکھائو اور ڈِکشن کے حوالے سے معروف نقاد افتخارجالب لکھتے ہیں:

مراتب اختر نے جو شاعری کی ہے اس میں رکھ رکھائو، ڈِکشن کی ملائمت، نفاست اور مروّجہ شعریت نہیں ہے۔ سب کچھ اُکھڑا اُکھڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہ خرابیاں کہ اِمکان سے نابلداندھے، اور بے مغز لوگوں کو گراں گزرتی ہیں، درحقیقت مراتب اختر کی خالص خوبیاں ہیں۔ ان خوبیوں سے مستفید وہی ہو سکتا ہے جو شعر کی منزہ صورت کو پہچان سکتا ہو۔اِمکان کے اِمکانات تک جن کی رسائی نہیں ان کے لیے مراتب اخترکی شاعری کوئی لذت اورمعنی نہیں رکھتی۔اس شاعری کے لیے کہ اِمکان کے اِمکانات پرایمان کو پہلی شرط قرار دیتی ہے، زندہ اور تواناہونے کے ساتھ ساتھ شعر کو ڈِکشن کی موجودگی اور عدم موجودگی دونوں صورتوں میں پہچاننے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔

                مراتب اختر کی شاعری درحقیقت یہ تقاضا کرتی ہے کہ آپ بھی مراتب اختر ہوں۔ آپ کے اور اس کے اِمکانات یکساں نہیں تو مماثل ضرور ہوں تاکہ آپ یہ جان سکیں کہ کتنے ہی اِمکانات ہیں:حقیقت میں تبدیل ہوتے ہوئے، نئے اِمکانات کو ضم دیتے ہوئے:رائج الوقتی سے بے نیاز، نامراد و کامگار! کیا آپ اس تقاضے پر پورے اُترتے ہیں؟ اگر نہیں، تو نہیں، کبھی بھی نہیں، مگر نہیں شاید!(۱)

                ڈاکٹرمحمدزکریا اُردو ادب کے نقادوں میں اہم نام اور مرتبہ کے حامِل ہیں انھوں نے کچھ عرصہ اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں مراتب اختر کے ساتھ گزارہ اور دونوں ینگ رائٹرز میں کافی مشہور رہے۔ مراتب اختر کی شاعری کے حوالہ سے ڈاکٹر محمدزکریا یوں رقم طراز ہیں:

سیّدمراتب اختر نے اپنی غزلیات کو اظہارِ ذات کا وسیلہ بنایا اور اس قدر سچائی سے بنایا کہ اپنے تمام خیالات، احساسات، تخیلات، توہمات اور مشاہدات اس کی نذر کر دیے۔ ان کی غزلیات کو پڑھ کر ایک رنگارنگ کہکشاں آنکھوں کے رُوبرو لرزنے لگتی ہے۔ ان غزلیات میں کہیں توحُسنِ کائنات جلوہ گر ہوتا ہے۔ کہیں یہ حسن امیجری کا رُوپ دھار لیتا ہے۔ کہیں اشاریت اور علامت بن کر وسعت پذیر ہوتا ہے اور کہیںکائنات کے اسرار کی طرف سمت نمائی کرتا ہے۔ کائنات کا حسن  ُپراسراراور اس کی پیچیدگیوں کے بارے میں مابعدالطبیعاتی سوالات بھی اشعار میں سے جھانکنے لگتے ہیں اور کبھی یقین اور کبھی شک دلوں میں پیدا کر دیتے ہیں۔(۲)

                ڈاکٹر تبسم کاشمیری اُردو ادب کے معروف نقادوں میں ایک اہم نام ہے اور انھوں نے مراتب اختر کی شاعری کا بغور مطالعہ کیا ہے بلکہ اُن کی کتاب’’جنگل سے پرے سورج‘‘ کا فلیپ بھی لکھا۔ مراتب اختر کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں:

مراتب اختر نے نئے سماجی رابطوں سے بننے والا ڈکشن استعمال کر کے اپنے عہد کا شعور مہیا کیا ہے۔

مراتب اختر نے خارج کو اپنے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ہاں خارجی دُنیا کی جوشکل بنتی ہے اس میں جنگل، پھول، نمدار گھاس، کیلے کے سبزپات اور بہار کے چمکتے خوشبودار دنوں کے ساتھ ساتھ سڑکیں، فٹ پاتھ اور شہر کی روشنیاں بھی موجود ہیں اور یہ نیا تہذیبی حوالہ غزل کے نئے شعور کا احساس دلاتا ہے جو طویل جمود کے بعد تجدید حیات کے نئے ڈھانچے میں داخل ہو رہی ہے، اسی نئے حوالہ سے اس کا Psychic-make-upتشکیل پاتا ہے جس سے ہم اپنی شناخت کر سکتے ہیں۔(۳)

                ڈاکٹرگوہرنوشاہی کا شمار اُردو ادب کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ بطور شاعر اور نقاد معروف نام ہیں۔ مراتب اختر کے قیام لاہور کے دوران گوہرنوشاہی اور مراتب اختر کا یارانہ مثالی رہا۔ وہ اپنی بچپن کی یادداشتوں کو ذہن میں لاتے ہوئے مراتب اختر کی شاعری کے حوالے سے یوں تحریر کرتے ہیں:

میری طرح مراتب کو بھی رُوحانیت اور درویشی سے کچھ زیادہ لگائو نہیں تھا۔ پڑھنے لکھنے اور تخلیقی راستوں کی ٹوہ لگانے میں مگن رہتے تھے۔ ہنسی مذاق، گالی گلوچ، گلے شکوے اور شرارتیں سب اکٹھی ہوتی تھیں۔ مراتب اختر کے بغیر زندگی اس وقت بھی نامکمل تھی اور آج بھی نامکمل ہے۔

ع  ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے

مراتب اختر زمانۂ طالب ِعلمی میں ہی بہت پختہ گو شاعر تھے۔ وہ مصرع تر کے شاعر نہیں تھے لیکن شعر میں اس قدر پختگی، ابلاغ اور کشش تھی کہ سننے والا داد دیئے بغیر نہیں رہتا تھا، مراتب اختر جس طرح خودزندگی سے لبریز تھے اُن کی شاعری بھی خلوص، سچائی اور انفاس تازہ سے مالامال تھی۔ وہ غزل لکھتے تھے۔ غزل میں سوچتے تھے اور غزل ہی میں زندہ رہنے کی خواش رکھتے تھے۔ معلوم نہیں وہ کسی غزل یا غزال کو پا سکے یا نہیں لیکن ایسا ضرور محسوس ہوتا ہے کہ یہ جمالیاتی اور تخلیقی کیفیت اُن کے اندر کہیں گم ہو گئی تھی جسے وہ اپنے اور اپنے آپ کو اس کے اندر دریافت کرنے میں لگے رہے۔(۴)

                معروف شاعر و نقاد ظفراقبال بھی مراتب اختر کی شاعری کے معترف ہیں۔ وہ اپنے ایک مضمون میں اُن کی بے وقت موت پر لکھتے ہیں:

چالیس سال ایک بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے، بلکہ اسے آپ نصف عمر بھی کہہ سکتے ہیں اور ان چالیس برسوں میں جدید اُردو غزل کہیں کی کہیں پہنچ چکی ہے۔ مراتب اختر کے بارے میں اس وقت حضرات تبسم کاشمیری، گوہرنوشاہی اور افتخارجالب نے جو کچھ کہا تھا، اور، جس طرح کی توقعات اس سے وابستہ کی تھیں، اس عہد کی حد تک وہ بالکل ٹھیک تھا، لیکن بے وقت موت نے اُسے مہلت ہی نہ دی کہ وہ نت نئے اور بدلتے ہوئے لہجوں کا ساتھ دے سکے۔‘‘(۵)

ڈاکٹرانورسدید کی مراتب اختر کے حوالہ سے رائے یہ ہے:

مراتب اختر وہ شاعر گم گشتہ ہے جو اقلیمِ شعرمیں اپنی بہار دِل فزا کے صرف چند جھونکے لہرا کر اچانک اس دُنیا سے رُخصت ہو گیا۔ اس نے مجیدامجد جیسے خرقہ پوش و پابہ گل شاعر کی دھرتی ساہیوال سے جنم لیا تھا۔ یہیں اپنی شاعری کے وہ چراغ روشن کیے جن میں اس کے دل کا روغن جلتا تھا اورپھر اچانک ایک روز یہیں پیوند ِخاک ہو گیا۔ اس کی شاعری کے دو مجموعے ’’جنگل سے پرے سورج‘‘ اور ’’حصارِحال‘‘ اس کی زندگی میں شائع ہوئے تھے جن کے مطالعہ کے بعد شاعروں کے شاعر مجیدامجد نے مراتب اخترکی شاعری کا تجزیہ کیا تو لکھا کہ ’’غزل مراتب اختر کے عقیدئہ حیات کا ایک جزو ہے اور یہ عقیدہ ان کی رُوح کے لیے شرط ایمان ہے۔(۶)

                صابرلودھی میونسپل کالج اوکاڑہ میں اُردو کے اُستاد تھے۔ اُن کی پہلی ملاقات مراتب اختر سے بطور اُستاد ہوئی تو بہت متاثر ہوئے۔ وہ مراتب اختر کے حوالے سے اپنی یادوں کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے لکھتے ہیں:

آج بھی میں یہی سوچتا ہوں کہ اگر مراتب اختر میری کلاس میں نہ آتا تو میں غالبؔ کے اشعار کو سمجھنے کی کوشش نہ کرتا۔ تہہ در تہہ معانی تک نہ پہنچ پاتا۔ یہ تو اس کا خوف تھا جس نے مجھے غالبؔ کی عظمت کا گرویدہ بنا دیا۔۔۔ غالبؔ اور مراتب، دونوں مجھے ایک ساتھ یاد آتے ہیں اورمیرا دعویٰ ہے کہ وہی اُستاد، اچھے اُستاد بننے کی کوشش کرتے ہیں جنھیں ذہین شاگرد میسر آئیں۔اللّٰہ مراتب اختر پر اپنی رحمتوں کی نوازش کرے۔(۷)

معروف نقاد ڈاکٹر ناہیدشاہد نے مراتب اختر کی شاعری اور خصوصاً’’گنج گفتار‘‘ کے حوالے سے ایک مضمون میں کہا ہے:

مراتب اختر جیسے تخلیق کار نہ کسی اخبار نہ کسی رسالے، نہ ریڈیو اور نہ ہی کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے شعر کہتے ہیں، بلکہ تخلیق کا یہ عمل اُن کے دروبام پر ہر لمحہ وارد رہتا ہے اور وہ جنگل میں ناچتے مورکی طرح فطرت کی  ُحسن آرائیوں کا حصہ بنے ہوتے ہیں۔ نہ کسی داد کی طلب اور نہ کسی شہرت کی خواہش۔۔۔ ’’گنجِ گفتار‘‘کے نام سے گزشتہ برس شائع ہوئی ایک کتاب دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس میں اندازوبیان کے رنگ بکھرے پڑے ہیں۔ غزل کی تنگنائے میں پھول کھلے ہوئے ہیں جو نئے اور بالکل تازہ ہیں۔ ریڈیو،کاز،پکنک، جین، سین، ریلنگ، گلاس اور اس جیسے دوسرے انگریزی الفاظ کا استعمال اگر کوئی اور کرتا تو شاید بات سطحی سی محسوس ہوتی لیکن یہاں تو یہ اُردو زبان ہی کا سرمایہ نظر آتے ہیں اور بالکل اجنبی نہیں دِکھتے۔

غزل ہی کے نازک اورمن موہنے سراپے میں کشمیر، ویت نام اور رہوڈیشیا کی جلتی ہوئی تصویروں کے مناظر اگرچہ براہِ راست اظہار کے زمرے میں آتے ہیں لیکن مراتب اختر کی شاعری کا یہ اہم جزو لگتے ہیں۔ یعنی اُن کی نظر دُنیا کی وسعتوں میں بکھری بدصورتیوں کو اپنے پیرائے میں لا کر ایک راست فکرفرد کی ذمہ داری نبھاتی ہے۔(۸)

                مراتب اختر کے ساتھ زمانۂ طالب ِعلمی میں گزارے لمحات کا ذِکر کرتے وحیداطہر لکھتے ہیں:

مراتب اختر اکثر غزلیں کہتا اور بہت عمدہ کہتا مجھے یاد نہیں کہ کوئی بھی بین الکلیاتی مشاعرہ ایسا تھاکہ جس میں مراتب اختر اوّل نہ آیا۔وہ درمیانے قد،گٹھے ہوئے جسم کا مالک اور انتہائی صحت مند نوجوان تھا اور اس تن و توش کے حوالے سے بھی وہ ہم سب پر حاوی تھا کہ باقی دوست منحنی جسم کے مالک تھے۔مراتب اختر کا خمیرمجیدامجد اور ظفراقبال کے دیس سے اُٹھا اس نے بھی غزل کو سینے سے لگائے رکھا اس نے بھی غزل کی پرانی ڈگر سے بغاوت کی۔ اس نے بھی غزل میں نئے نئے تجربے کیے اور اس زرخیز سرزمین( ساہی وال) میں پیدا ہونے کا حق ادا کر دیا۔مراتب اختر کے ہاں گل و بلبل کی شاعری نہیں ہے۔ وہ زمانے کے ساتھ ساتھ رہا۔ اس نے دیومالائی قصے کہانیوں کا سہارا نہیں لیا۔ وہ جیتے جاگتے ماحول میں زندہ رہا داخلی جذبوں کے ساتھ ساتھ خارجی حقیقتوں کا اظہار مراتب اختر کی غزلوں کا خاصہ ہے۔(۹)

موجودہ دور کے معروف نقاد،نثرنگار اور شاعر زاہد حسن بھی مراتب اختر کی شاعری کے معترف ہیں اور وہ اس حوالہ سے لکھتے ہیں:

۶۰ء کی دہائی میں جن شعرا نے لسانیات، لفظیات اور ڈِکشن کے تجربے کیے، سیّدمراتب اختران میں سے ایک ہیں۔ وہ ان بہت سے شعرا میں سے ایک ہیں، جن میں سے بہت کم کا نام باقی رہ گیا ہے، ان میں سے نمایاں ترین نام سیّدمراتب اختر کا ہے۔سیّدمراتب اختر کے یہاں جدید تر ڈِکشن کو استعمال کرنے اور کمال ہنروری سے نباہنے میں دو باتیں کارفرما ہیں۔ پہلی بات ہے ان کی اپنی پوری زندگی کا تجربہ جس کے بڑے حصے میں غموں اور اندوہناکیوں کی تلخیاں گھلی ہوئی تھیںاور دوسری بات ہے ان کی مجیدامجد،ڈاکٹر تبسم کاشمیری، گوہر نوشاہی، خواجہ محمدزکریااور ان جیسے دیگر ادباء و شعراء کے ساتھ دوستی۔پھر ان کا نہ صرف معاصر شاعری کا مطالعہ گہرا نظر آتا ہے بلکہ فلسفہ، سماجیات اور دیگر رائج علوم کا گہرا مطالعہ بھی ان کی شاعری میں نظر آتا ہے۔ اپنی حقیقی صورتوں میں بھی اور فکری و معنوی شکلوں میں بھی۔

اِک میں اور اِک احساس مرا، قہوہ کڑواہٹ، آوازیں

اِک ریستوران کے کیبن میں اِک تنہا شام منائی ہے

ان کی شاعری کے حوالے سے یہ بات بڑی اہمیت کی حامِل ہے کہ وہ واقعات اور وہ مناظر جو ان کی زندگی میں بہت کم دیر کے لیے ٹھہر سکے اور جن کی محض باقی نشانیاں ہی رہ گئی تھیں ان کو انھوں نے اس سلیقہ مندی کے ساتھ اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ شاعری کا ایک کمال یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہد کی منظوم تاریخ کے طور پر اس جغرافیے اور وہاں کے لوگوں کے حافظے کا حصہ بن جائے۔(۱۰)

                عون الحسن غازی سیّدمراتب اختر کے بھانجے ہیں۔ بطور شاعر اور نثرنگار ادبی حلقوں میں جان پہچان رکھتے ہیں وہ مراتب اختر کے حوالہ سے، اُن کی شخصیت اور فن پر اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں:

ماموں جی (مراتب اختر) کی یادیں میری زندگی کا سرمایہ ہیں، میری ادب سے وابستگی ان کے رُوحانی مکاشفوں کا اظہار ہے جو ان کی شاعری اور شخصیت میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ ان کی زندگی میرے لیے، میرے خاندان کے لیے، ان کے عزیزواقربا کے لیے، ان کے جاننے والوں کے لیے اور اگر میں یہ کہوں کہ زیست کے ہر مسافر، ہر راہی کے لیے روشن مشعل کی حیثیت رکھتی ہے تو کچھ بے جا نہ ہو گا۔۔۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کی شاعری نئی اُردو شاعری کا اہم حوالہ ہے تو کچھ غلط نہیں ہو گا اور یہ کہوں کہ وہ اہلِ سادات اور گیلانی ہوتے ہوئے بھی زندگی کے مصائب ومسائل سے اُسی طرح گزرے، جس طرح ایک عام انسان گزرتا ہے تو کچھ غلط نہیں ہو گا اور پھر مصائب اور آلام تو ہمیشہ سے ہی انسانی زندگی کا جزوِ لازم ہیں لیکن ان پرمطمئن رہنا ایک مردِقلندر ہی کا کام ہے۔ میرے ماموں اورمیرے مرشد سیّد مراتب اختر بھی اپنے ابتدائی ایام میں ہی ان مصائب و آلام کا حصہ بن گئے۔ وہ ابھی گورنمنٹ کالج سول لائینز میں ہی زیرِتعلیم تھے کہ انھیں بعض نجی اور خاندانی مسائل کی بنا پراپنی تعلیم اُدھوری چھوڑنا پڑی۔ ان مصائب و آلام کا ذِکر انھوں نے اپنے اکثر اشعار میں بڑے کھلے لفظوں کے ساتھ کیا ہے۔ سیّدمراتب اختر جو جدید اُردو غزل اورنظم کے اہم شعرا میں بھی شامِل تھے انھوں نے جدید غزل کولفظیاتی اور معنوی وسعتیں عطاکیں اور نئی فکر سے ہم آہنگ کیا۔ انھوں نے شاعری میں جو مقام و مرتبہ حاصل کیا اس میں ان کی زندگی کے شب و روز کی جدوجہد کو بہت زیادہ عمل دخل تھا۔ انھوں نے تکالیف اورمشقتوں سے بھری زندگی گزاری۔ ان کی شاعری میں ان تکلیفوں اورمشقتوں کا گہرا عکس ملتا ہے۔۔۔ یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی میں غزل میں جو چند آوازیں اُبھر کر سامنے آئی تھیں مراتب اختر اُن میں نمایاں تر، منفرداور یکسر اپنی پہچان رکھنے والی آواز ہیں جو بہت دیر تک زمانے کے سینے میں گونجتی رہی اور اب یہ ہماری ساعتوں سے ہمارے سینوں اور ہماری رُوحوں کے راستے ہمارے ذہنوں میں شعور کے نئے پھول کھلانے کا کارن بن رہی ہے!!(۱۱)

                سیّدمراتب اختر ایک صوفی اور درویش انسان تھے۔ ان کے اخلاق سے تمام ملنے والے متاثر ہوتے تھے۔ ان کے بارے میں ان کے بھتیجے سیّد متبسم محمودگیلانی ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

ان کی شخصیت میں جو گداز تھا، محبوبیت اور دِلنوازی تھی۔ جووسیع القلبی تھی اور جو انسان دوستی تھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ لہجہ اتنا شیریں کہ شہد کا گمان ہوتا۔ نرم اتنا کہ جیسے پھولوں کا لمس۔ وہ جتنے خوبصورت شعر کہتے تھے اس سے کہیں زیادہ اندر سے خوبصورت انسان تھے۔ وہ مسرتوں کا سرچشمہ تھے۔ محبتوں کا لنگر۔ ان کا وجود ہمارے خاندان کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ دلوں کو فتح کرنا جانتے تھے۔ وہ ہر مخاطب کے دِل میں قطرہ قطرہ اُترتے تھے اور روشنیوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر بن کرعیاں ہوتے تھے جو ایک بار ان سے مِلا وہ اُن کا ہو گیا۔ بڑی سادہ گفتگو کرتے تھے مگر اس میں بے کراں معانی پوشیدہ ہوتے جو لمحہ لمحہ عیاں ہوتے چلے جاتے تھے۔(۱۲)

                پروفیسرارجمند احمدقریشی اُردو ادب کے اُستاد ہیں اور ادبی حلقوں میں معروف نام ہیں۔ مراتب اختر کی شاعری کے حوالے سے وہ اپنے ایک مضمون میں تحریر کرتے ہیں:

ایم۔اے کرنے کے دوران میں ذوقِ جمال اور مذاقِ لطیف کی قدرے واضح صورت سامنے آئی۔ اَب قدماء کی شاعری بھی پڑھی اور جدید شعرا کا کلام بھی پڑھا۔ جوش کا طنطنہ، حفیظ کی روانی، اخترشیرانی کی منظرنگاری، فیض کی آتش بیانی، مجاز، ن۔م راشد، امجد کی جدت طرازی ا ور مصطفیٰ زیدی، فراز، احمدندیم قاسمی کا حُسنِ بیان سبھی کچھ دیکھ ڈالا مگر ان کے علاوہ کسی اور شاعر نے تاثر کا جال مجھ پرنہ پھینکا، پھر ایک مرتبہ ادبِ لطیف میں سیّد مراتب اختر کی دس غزلیں دیکھیں، پڑھیں، دوبارہ پڑھیں اور یکبارگی گزشتہ تاثراتی جمود ٹوٹ گیا۔ یوں محسوس ہوا کہ میرے خیالات کے تالاب میں کسی نے انجانے میں چپ چاپ کوئی کنکر پھینکا ہو کہ میرا وجود خیال مرتعش ہو گیا کیونکہ مَیں نے ان غزلوں کا لہجہ منفرد پایا اور ان کی لَے انوکھی محسوس کی۔ ان کی رنگت میں چاندنی کا نور بھی تھا اور صبحِ صادق کا اُجالا بھی۔(۱۳)

                سیّدعلی ثانی گیلانی مراتب اختر کے بھتیجے ہیں۔ کئی کتابوں کے مؤلف ہیں اور ادارہ صوت ہادی چلا رہے ہیں۔ اسلامیات اور عربی کا گہرا مطالعہ ہے۔ اُردوزبان وادب کی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ انھوں نے مراتب اختر کی یادوں کو ایک کتاب ’’حسب ِمراتب‘‘ کی صورت محفوظ کیا ہے۔ وہ مراتب اختر کی علم دوستی اور ذوقِ مطالعہ کے حوالہ سے لکھتے ہیں:

ان کی اسلامیات کی کتب کا ایک علیحدہ باب ہے۔ سیرۃ النبیﷺ، تفسیر، حدیث اور تاریخِ حدیث اور اسلامیات کے جنرل موضوعات پہ بے شمار کتابیں ہیں۔ ان کے ہاتھ کا لکھاسورۃ الدھر کا ترجمہ مجھے مِلا۔ کسی موقع پر شائع کر دیا جائے گا۔ان کو سورۃ مزمل شریف کے مضامین سے گہری دلچسپی تھی اور انھوں نے کئی بار اس کی تفسیر لکھنے کاعزم جتلایا۔ اللّٰہ کریم نے توفیق دی تو ان کے اس ارادہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کروں گا۔ چند کتب رُوسی ادب کی بھی ہیں ان میں چند ناول ’’میکسم گورکی‘‘ کے اور باقی آنتون چیخوف کے ہیں۔

حضرت اقبال کے بڑے متوالے تھے۔ ان سے گہری محبت و عقیدت بطور شاعر: اور کئی حوالوں سے ان کو یاد کرتے تھے؛ مفکر ِاسلام، عظیم راہنما، علامہ وقت، مردِ قلندر۔ اکثر ان کی کوئی نہ کوئی کتاب ان کے زیرِمطالعہ رہتی اور ان کے اشعار کو بطور (Refrence) بھی استعمال کرتے تھے۔۔۔اس کے علاوہ جناب واصف علی واصف کو بڑی محبت، لگائو اور انہماک سے پڑھتے تھے۔ ان کوآخری عمر میں’’کرن کرن سورج‘‘ مطالعہ کرتے پایا۔ بلکہ دوسروں کو بھی پڑھنے کی دعوت دیتے اور کبھی ان کے اقوال دوسروں کو بھی سناتے۔(۱۴)

حوالہ جات

 

۱۔            افتخارجالب، (مضمون)، آٹھ غزل گوشاعر، جاوید شاہین(مرتبہ)، شیخو شریف: مکتبہ میری لائبریری،لاہور

۲۔            محمدزکریا، ڈاکٹر،خواجہ،(مضمون)، مشمولہ:نقد ِمراتب(عون الحسن غازی)، شیخو شریف، ادارہ صوت ہادی، ۲۰۰۴ئ،ص ۴۴

۳۔            مراتب اختر،جنگل سے پرے سورج،(باردوم)، شیخو شریف، ادارہ صوت ہادی، اوکاڑہ، ۲۰۰۷ئ(فلیپ)

۴۔            گوہرنوشاہی،ڈاکٹر،سیّدمراتب اختر کی یادمیں، مشمولہ:نقد ِمراتب۔۔۔

۵۔            ظفراقبال، ایضاً،ص۴۸

۶۔            انورسدید،گنج گفتار(مضمون)، روزنامہ نوائے وقت،لاہور، سنڈے میگزین، ۲۳ستمبر ۲۰۰۱ء

۷۔            صابرلودھی، سیّدمراتب اختر،(مضمون)،مشمولہ:نقد ِ مراتب،ص۷۸

۸۔            ناہیدشاہد، ڈاکٹر،مشمولہ:نقد ِمراتب،ص ۷۳

۹۔            وحیداظہر،مراتب اختر اور ہم، مشمولہ :نقد ِمراتب، ص ۱۲۱

۱۰۔          زاہدحسن،(مضمون)،مشمولہ:نقد ِمراتب،ص۱۲۴

۱۱۔          عون الحسن غازی، نقد ِمراتب، ص۹،۱۰،۱۱۔۱۳۔۳۰

۱۲۔          متبسم محمودگیلانی، سیّد، چچاجان،ماہنامہ سجاد، ساہیوال؍مانچسٹر،جنوری، ۱۹۹۳ء

۱۳۔          ارجمنداحمدقریشی، پروفیسر، ایک زندہ شاعر،مشمولہ:ماہنامہ سجاد، ساہیوال؍مانچسٹر،جنوری، ۱۹۹۳ء

۱۴۔          سید علی ثانی گیلانی،سیّد، حسب ِمراتب، شیخو شریف: ادارہ صوت ہادی، دسمبر ۲۰۰۶ئ،ص ۲۳،۲۴،۲۵

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...