Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

مراتب اختر شخصیت و فن |
مہکاں پبلشرز
مراتب اختر شخصیت و فن

ماحصل
ARI Id

1688721480270_56116770

Access

Open/Free Access

Pages

201

ماحصل

                بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں ہی عالمگیر تبدیلیوں کے زیر اثر اردو زبان و ادب میں شعری شعور ایک منفرد اور نئے رجحان میں داخل ہو چکا تھا۔ جس کے دھندلے خطوط ۶۰ کی دہائی میں واضح نقوش اختیار کر کے ایک عام آدمی کے لئے بھی جیتی جاگتی تصویر دکھائی دینے لگے۔ زندگی میں تبدیلی کا راست اثر ادب پر بھی پڑتا ہے جو نمائندہ شخصیات کی تخلیقی جدوجہد کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ یہ تبدیلی کا عمل بڑی شخصیات کے قلب میں جنم لیتا ہے جو اپنے الفاظ کی اثر آفریبی سے مروجہ سوچ پر غالب آجاتا ہے۔ بڑی شخصیات کو زمان و مکان کی حدود و قیود میں مقید کرنا محال ہو جاتا ہے۔ ایسی شخصیات کی تخلیقی جدوجہد کی پیمائش گھڑیوں ، مہینوں اور سالوں کے معیارات سے ممکن نہیں ہوتی۔ ایسی ہی ایک قد آور اور پر اثر شخصیت مراتب اختر کے نام سے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اردو ادب کے شعری افق پر نمودار ہوئی اور اپنے جذبوں کی ہمہ رنگ قوس قزح کی روشنیاں بکھیر گئی۔ اس منفرد شاعر کی منفرد شاعری کا مقام و مرتبہ تو آئندہ تاریخی تناظر میں ہی ہو گا جس کو طے کرنا نقاد حضرات کا ہی کام ہے۔ لیکن اپنی تمام تر بے بصاعتی کے باوجود بڑے لوگوں کی آرا کو پیش کرنے کی سعادت اور ان کی شاعری کی عظمت کے تصویری خاکے اب بھی پیش کئے جا سکتے ہیں اور اس تصویر میں رنگ بھرنے کے لیے کسی بھی ناقد کو وسیع مطالعے کے ساتھ ساتھ طویل ذہنی سفر بھی کرنا پڑے گا تاکہ تصویر اپنے متعینہ چوکھٹے میں سج سکے۔ اس کی کچھ جھلک اور پرچھائیاں ان کے ہمسفر شعرا کی زبان ترجمان سے عیاں تو ہوتی ہیں مگر بشری محدودیتوں، باہمی عصبیتوں اور رقابتوں کی وجہ سے سچی اور پوری تصویر سامنے آنا ناممکن ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بڑے حقائق کو بین السطور ہی دیکھا جاتا ہے۔ لفظی گورکھ دھندے میں بڑی حقیقت کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ حقیقت اپنا لوہا خود منوا لیتی ہے۔ حفیظ جالندھری نے کیا خوب کہا تھا۔

اہلِ سخن کب مانتے تھے حفیظؔ

بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں

                فطری اور پیدائشی صلاحیتیں ، ذہنی اپج اور رویوں کا بہائو ماحول اور زمانے کے اندر ہی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یعنی انسان کے اندر اثر پذیری اور اثر آفرینی کے تناسب سے ہی شخصیات کے کرداری رویوں کا معیار متعین ہوتا ہے۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے کسی خاص شعبہ زندگی میں منفرد شاکلہ کا حامل بنایا ہوتا ہے۔ اگر اُسے مناسب ماحول میسر آجائے تو یہ فطری بیج تناور درخت بن کر بڑے دائروں کو اپنے چھتنار کے حصار میں لے لیتا ہے۔ اگر مراتب اختر کی زندگی کا اس تناظر میں جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مثالی صلاحیتوں کے حامل شخص کو اللہ تعالیٰ نے اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لئے مثالی میدانِ عمل فراہم کر دیا۔ سید مراتب اختر خاندان سادات میں سیّد محمد حسین گیلانی کے علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے جہاں انہیں اپنی فطری صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مدد ملی اور بچپن ہی سے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق ایک منفرد بچے کے طور پر پہچان لئے گئے۔ زمانہ طالب علمی میں ہی ان کے اندر کے حساس انسان نے باہر آنا شروع کر دیا اور جب وہ گورنمنٹ کالج سول لائنز لاہور میں پہنچے تو وہاں کے مخصوص ماحول کے زیر اثر ان کی سوچ ، جذبوں اور صلاحیتوں کو نئے تجربات حاصل ہوئے۔ ان کی غزلوں کی کتابوں کے تجربی اثاثے ’’حصار حال‘‘ ’’گنج گفتار‘‘ ’’جنگل سے پرے سورج‘‘ اور نظموں کا مجموعہ ’’گزرا بن برسے بادل‘‘ ان کے شعری شعور کی بلندی کا رخ متعین کرتے ہیں۔ انہوں نے معاصر غزل اور نظم میں بے مثل خدمات سر انجام دیں اور بام شہرت پر پہنچے۔ مراتب اختر کی سیرت و کردار بچپن ، لڑکپن اور جوانی میں بے داغ رہے۔ وہ انتہائی شریف النفس ، کم گو مگر خوش گو، صاحب اخلاق اور اپنائیت و ملنساری کے اوصاف کے مالک تھے۔ نیکوکاری ان کا شیوہ حیات رہا۔ انہوں نے اپنے فکر و عمل میں اللہ تعالی اور اس کی مخلوق سے محبت کو اپنی فہرستِ ترجیحات کے پہلے نمبر پر رکھا۔ ان کے کردار کی ہر جنبش سے اس حقیقت کو دیکھا پایا گیا۔ ان کی پوری شاعری پر یہ فکری سانچہ پوری طرح محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور توحید و وحدانیت ان کے وجود کی طرح ان کے کلام میں بھی سرائیت کئے ہوئے ہے۔ ان کے کلام پر اگر سرسری سی نگاہ بھی ڈالی جائے تو توحید ربانی کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔ ’’گنج گفتار‘‘ کے آغاز میں ہی ان کا حمدیہ کلام ان کے تعلق معہ اللہ کو واضح کرتا ہے۔ ایک سچے عاشق رسول کی طرح ان کے کلام میں عشق نبوی کا اظہاربھی جگہ جگہ موجود ہے۔ ’’گنج گفتار‘‘ کی نعتیہ غزلیں اسی حقیقت کی غماز ہیں۔ ان کے پاکیزہ اشعار واضح کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک اظہار عشق نبوی محض لفظی جذبات کے اظہار کا نام نہیں بلکہ تکمیل ایمان کی ناگزیر شرط ہے۔ اس نعتیہ کلام میں ان کی اپنی درویشانہ زندگی کی ایک جھلک بھی موجود ہے۔

                مراتب اختر حضرت سیّد عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد میں سے تھے اور صوفیانہ روش پر قائم تھے جو انہیں وراثت میں ملی۔ ان کے کلام میں جا بہ جا اظہار عجز، اظہار بندگی اور اظہار عقیدت پوری شان سے نظر آتے ہیں۔ وہ دعا کو مومن کا طاقت ور ترین ہتھیار سمجھتے ہیں، مایوسی کو کفر گردانتے ہیں اور ہر حالت میں کلمات شکر کے پرچار کرنے والے نظر آتے ہیں۔ ان کی سیرت و کردار کے ساتھ ان کے کلام میں بھی تصوف اور اصطلاحات تصوف کے واضح نشان ملتے ہیں۔ وہ قرب و سلوک کی منازل طے کیے ہوئے تھے جس کا سراغ ان کی زمانی و ارضی حیات کے آخری سالوں سے مترشح ہوتا ہے۔ ان کا اسلوب بیاں نئی تراکیب اور نئے الفاظ و محاورات کے گرد گھومتا ہے۔ کوئی بھی نقاد ان کی شاعری میں سے درگاہوں، مجاوروں، آئینوں، دھمال اور خانقاہی طرز حیات سے متعلق گوناں گوں الفاظ تلاش کر سکتا ہے۔ ان کے نزدیک مستند خانقاہی نظامِ تربیت عین اسلامی اور مثالی کردار کی تخلیق کے لئے ناگزیر یونیورسٹیاں ہیں۔ وہ عقیدت مندوں کے جذبوں اور خانقاہوں کے فی السبیل اللہ انتظامات سے پوری طرح با خبر اور اس کے قدردان نظر آتے ہیں۔ وہ ایک حساس اور درد مند دل کے حامل فرد تھے۔ انہوں نے زندگی اور زندہ لوگوں کے مسائل ، مصائب، دکھوں اور پریشانیوں کو انتہائی قریب سے دیکھا۔ کرب اور دکھ کے ستائے ہوئے انسانوں کی چیخوں کو انہوں نے الفاظ کے روپ میں سمویا ہے۔ ان کے مشاہدات زندگی بہت وسیع ہیں جن میں گیرائی و گہرائی بھی پائی جاتی ہے اور تاثر پزیری بھی۔ زندگی کے مختلف شعبوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے مختلف روپ بیان کر کے انہوں نے گویا کرداری مصوری کر دی۔ ان کا ذخیرہ الفاظ بہت وسیع ہے اور مناسب الفاظ ، مناسب مقامات پر رکھنے کا فن انہیں خوب آتا تھا۔ انہیں مختلف زبانوں خصوصاََ عربی، فارسی، ہندی، انگریزی اور پنجابی پر عبور حاصل تھا اور ان زبانوں کے الفاظ انہوں نے اپنے کلام میں استعمال کئے ہیں۔ مگر اظہار کمال کا نقطہ عروج یہ ہے کہ یہ الفاظ اجنبیت پیدا کرنے کی بجائے اظہار شدت اور وسعت پیدا کرتے ہیں۔ ان کے موضوعات متنوع ہیں۔ ان کی شاعری میں کہیں کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا ذکر ہے تو کہیں ملوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے دستکاروں کا۔ کہیں غربت کی سچی اور بے رحم تصویر ہے تو کہیں امراء کے محلوں میں منعقد کئے جانے والے بے ہنگم جشنوں کا ذکر ہے۔ کہیں ہوٹلوں میں ہونے والی ضیافتوں کا تذکرہ ہے تو کہیں ہاتھوں میں کشکول لیے فقیروں کی بات کی گئی ہے۔

                مراتب اختر نے زندگی کی کشمکش میں پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ بھی بہت خوبصورت اندازہ میں کیا ہے۔ وہ محبت کرنے والوں کو پیش آنے والی سماجی رکاوٹوں کا تذکرہ بھی پُر درد انداز میں کرتے ہیں اور رومان پرور موسموں کو بھی انہوں نے اپنے کلام میں خاص جگہ دی ہے۔ انہوں نے غزل کو خیالی اور فرضی کرداروں سے پاک کر کے گل و بلبل سے عملی زندگی کے مختلف میدانوں ، کھیتوں، کھلیانوں، گلیوں، بازاروں اور دریائوں تک پھیلا دیا۔ مراتب اختر کو سستی شہرت اور خود نمائی سے نفرت تھی۔ اسی وجہ سے ان کے کلام میں بھی یہ وصف موجود ہے۔ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا وہ واردات قلبی کا بے ساختہ اظہار ہے۔ انہوں نے کبھی فرمائشی طور پر اخباروں، رسالوں اور مشاعروں کے لئے نہیں لکھا۔ وہ نہ صرف اسلوب اظہار سے واقف تھے بلکہ جرأت اظہار سے بھی آشنا تھے۔ انہوں نے آفاقی سچائیوں کے اظہار میں نہ تو جاگیرداروں کا خیال کیا اور نہ ہی وہ حکمرانوں سے خائف تھے۔

                مراتب اختر حب الوطنی کے پاکیزہ جذبے سے بھی سرشار تھے۔ وہ کشمیر میں معصوم انسانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم پر بھی رنجیدہ دکھائی دیتے ہیں اور پاک بھارت کی ۱۹۶۵ کی جنگ میں فوجی جوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ بیت المقدس پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف مجاہدانہ آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف انسانیت کے ناطے پر ہیروشیما اور ناگاساکی میں ہونے والی درندگی پر بھی مضطرب و بے چین نظر آتے ہیں۔ مراتب اختر ایک وسیع المطالعہ شخص تھے۔ ان کا مختلف زبانوں کی ادبیات پر اپنا ذاتی اور خصوصی موقف تھا جو کسی بھی حساس انسان کا طرئہ امتیاز ہوتا ہے۔ وہ ادب کا تہذیب اور ثقافت سے گہرا رشتہ خیال کرتے تھے اور اس کے زندہ انسانوں پر زندہ اثرات سمجھتے تھے۔ وہ زندگی کو ادب کا عکس گردانتے تھے اور کسی بھی قوم کی رگوں میں جدید احساسات کو ٹھوس طاقت سمجھتے تھے۔ خیال کی نیرنگی اور رعنائی کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں امیجری کو بھی واضح مقام حاصل تھا۔ انہوں نے منظر نگاری میں وہ مقام حاصل کیا ہے جس کی مثال ملنا تقریباََ محال ہے۔ ہر حساس شخص اپنے جیسے دوسرے انسانوںکے رویوں سے اثر پذیر ہوتا ہے۔ مراتب اختر بھی اپنی حساسیت کی وجہ سے دوسرے افراد کے سلوک اور رویوں کا جائزہ تو لیتے تھے مگر انہوں نے کبھی ردِ عمل کی حکمت ِعملی پر عمل نہیں کیا۔ معاشرے کے کچھ افراد سے انہیں کچھ شکایات بھی تھیں مگر اس بات کا اظہار اتنے سلیقے سے کرتے ہیں کہ نا گوار خاطر نہیں ہوتا۔ ان کے کلام میں تکرار لفظی کے نادر نمونے موجود ہیں جن کی وجہ سے ان کے کلام میں عجیب موسیقیت پیدا ہوئی ہے۔ سچے انسانی جذبات کا اظہار صرف ایک سچا اور عظیم شخص ہی کر سکتا ہے۔ ان کے جذبات کی عکاسی کا انداز مختلف رنگوں، مختلف علامتوں اور مختلف زاویوں کے اعتبار سے ملتا ہے۔ ایک بڑے شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ انسان کے حواس خمسہ پر گہرے اثرات مرتب کرنے والے الفاظ کی کرشمہ سامانیاں کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں نیلے ، پیلے، سرخ اور سبز رنگوں کے استعمال نے قاری کی آنکھوں کو مناظر بینی کی دعوت دی ہے جس کے لیے نگاہوں کی تربیت بہت ضروری ہے۔ سرسری نگاہ ان کے سربستہ معانی سے محروم رہتی ہے۔ اس طرح بہت سے ایسے الفاظ جو صوتی اثرات پیدا کرتے ہیں انہوں نے استعمال کر کے اپنی قادر الکلامی کا واضح ثبوت دیا ہے۔

                مراتب اختر ایک انسان دوست اور معاشرہ دوست فرد تھے۔ وہ دنیا میں امن کے خواہاں تھے اس لئے انہوں نے اپنی شاعری میں اپنی ذات اور اس کائنات کے ساتھ مطابقت اور ہم آہنگی پیدا کر کے امن کو برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔ وہ وطن عزیز کی ترقی اور امن کا خواب دیکھتے ہیں۔ وہ معاشرے میں جدید اثرات کی وجہ سے پائے جانے والی بدعنوانی اور ناہمواری ، رشوت ستانی، ذخیرہ اندوزی، چوربازاری اور تمام تر منفی انسانی سرگرمیوں کے شدید مخالف تھے۔ انہوں نے اپنے فکرو عمل سے بھر پور مزاحمت کا کردار ادا کیا ہے۔ وہ صرف معاشی و سماجی ناہمواریوں کا تذکرہ ہی نہیں کرتے بلکہ ایک پر امن اور اخلاقی خوبیوں سے مالا مال معاشرے کی تخلیق پر بھی ابھارتے ہیں۔ وہ ایک سچے ، پکے اور پورے مسلمان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کے مختلف گوشوں میں ٹھوس اقدامات کیے۔ وہ کوئی نظریہ باز اور نظریہ ساز شخصیت نہیں تھے بلکہ ان کی سوچوں کا اظہار پوری شدت کے ساتھ ان کے عمل سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ مراتب اختر کا کلام اردو ادب کا سرمایہ ہے اور وہ اردو زبان کے محسن ہیں۔ وہ زندگی اور حقائق زندگی کے روائتی مفہوم کو کوئی حیثیت نہیں دیتے تھے اور ان کا شخصی تجربہ جو معانی متعین کرتا تھا اُسے قبول کرتے تھے۔ آسمان کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ شاید یہ سارا نیلا، طویل، گہرا، بے انت آسمان کچھ بھی نہیں صرف میرے خیال کا پھیلائو ہے اور پھر میرے خیال کی ساری اڑان بھی تو ایک لمحہ کی بات ہے۔ وہ اس کائنات کو ایک فلم کی طرح مسلسل سمجھتے تھے جس کا ناظر ایک منظر کو دیکھ کر اُٹھ جائے اور اس نے پوری فلم کو اسی ایک منظر سے سمجھنا ہو۔ جو صرف ایک ذکی الحس انسان کا ہی حصہ ہوتا ہے اور اس کی زندگی کے تمام تر فیصلوں کا انحصار اسی ایک منظرپر ہوتا ہے۔ ان کے کلام میں یہ دقیق النظری واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ان کے کلام میں استعمال کیے گئے سارے الفاظ اور الفاظ کے سارے حروف اسی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف ایک سوچنے سمجھنے والی شخصیت تھے بلکہ ایک ٹھوس اور پائیدار کردار کے حامل شاعرتھے۔

                ایک شاعر کا کمال اس کی تخلیقی جدوجہد میں نئی تراکیب سازی کے فن میں مضمر ہوتا ہے۔ مراتب اختر اپنے عصری شعرا کی طرح نئی تشکیلات کی تخلیق سے بھی متاثر ہوئے اور ان کی شاعری میں نئی تراکیب قاری کو تخیل کی نئی دنیا میں پہنچا دیتی ہیں۔

                مراتب اختر کا دینی شعور بہت پختہ نظر آتا ہے۔ اسلام کی ازلی ابدی سچائیاں ان کے رگ و ریشے میں سموئی ہوئی ہیں۔ قرآن پاک اور تلاوت قرآن پاک سے انہیں خصوصی شغف رہا۔ قرآن پاک کی مخصوص سورتوں کا منظوم ترجمہ ان کے اخلاص اور قرآن سے ان کے گہرے لگائو کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ منظوم تراجم موقف ربانی کا سچا اور پورا اظہار ہیں اور مراتب اختر کی قلبی سطح کے آئینہ دار ہیں۔

                مراتب اختر کی شخصیت کے کئی روپ ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ منقسم شخصیت نہیں ہیں۔ ان کے ہر روپ میں دوسرے سارے روپ پوری طرح جذب ہیں۔ وہ قادرالکلام شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سچے پاکستانی، پکے مسلمان، انسان دوست، امن کے پیامبر، منفرد فنکار، صوفی منش ہستی اور مخلص دوست تھے۔ ان کی شخصیت کے یہ سارے پہلو ایک ہی منشور کے مختلف رنگ ہیں جو علیحدہ ہو کر بھی غیر منقسم رہتے ہیں۔ ان کی زندگی میں کامل ہم آہنگی اور اعلیٰ درجے کا توازن ہے۔ گو ان کی زمانی و مکانی حیات کا عرصہ بہت کم ہے مگر ان کی معنوی حیات واضح طور پرارضی و مادی حدود و قیود کو پھلانگتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور یہ بڑی آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان کی زندگی وفا کرتی اور وہ اپنے تجربات زندگی کو پورے طور پر بیان کر پاتے تو ان کی تصنیفات کی تعداد درجنوں میں ضرور ہوتی اور قاری ان کے درد مند دل کی دھڑکن کو ذرا قریب سے سن پاتا۔ ان کے معاصر شعرا نے ان کی زندگی میں ہی ان پر طاری ہونے والی قلبی واردات کو بھانپ لیا تھا۔ وہ ایک کائناتی تجربے کا دائرہ مکمل کرنے نکلے تھے جسے وہ زندگی کی وفا نہ کرنے کی وجہ سے نامکمل چھوڑ گئے۔ ان کی رفتار اظہار عین وہی تھی جو کسی عظیم شاعر کی روش ہوتی ہے۔ اس صاحب دل شاعر کی شاعری میں گہرا تفکر، فہم عصر اور صوفیانہ طرز فکر پوری شان سے پائے جاتے ہیں۔ ان کی آزاد نظموں پر بسا اوقات ن، م راشد، فیض اور مجید امجد کے کلام کا گمان ہوتا ہے۔ ان کے آفاقی کلام کا کمال یہ ہے کہ حالات و واقعات اور زمانے کی شکست و ریخت کے تھپیڑے اُس کو متاثر کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ مراتب اختر ہر دور کا زندہ اور موجود شاعر ہے۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل کی حدود میں گرفتار نہیں کئے جا سکتے۔ یہ زندگی لطیف احساسات کے تضادات کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے ایک معمہ ہے جسے سمجھنے کے لئے انکشاف حقائق کی ضرورت ہے۔ اگر کچھ بنیادی حقائق کا سراغ انسان کی بصیرت و بصارت پر واضح ہو جائے تو اس الجھن کی سلجھن ممکن ہو جاتی ہے۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ان کے کلام میں ان کے اندرون کی گہرایوں کے بے پناہ امکانات نظر آتے ہیں۔ انہیں صلاحیتوں کی وجہ سے انہوں نے اندھیرے سے اجالے تک کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے۔ انہیں قطرے میں طوفانی سمندر اور آنکھوں کو خیرہ کردینے والا سورج ایک مبہم سا نقطہ دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ یہ دنیا دھوکہ اور فریب کی دنیا ہے۔ اس میں زہر، شہد اور آب، سراب لگتا ہے، عکس شخص لگتا ہے اور شخص عکس لگتا ہے ۔ اس فریب سے باہر آنے کا نام انسانی جدوجہد یا انکشاف حقائق ہے جسے پانے میں وہ کامیاب رہے۔

                اگر ہم مراتب اختر کی زندگی کا ان کے الفاظ، کلام، اعمال اور طرز زیست کے حوالے سے مجموعی لب و لہجے کا خلاصہ پیش کرنا چاہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک با مقصد شخصیت تھے جنہوں نے خدا، انسان اور کائنات کی مثلث کے باہمی رشتوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کی۔ بلا شبہ وہ ایک عظیم انسان اور بہترین شاعر تھے۔ میں اپنے ممدوح ’’مراتب اختر‘‘ کو اس طرح یاد کرتا ہوں جیسے کوئی دیارِ غیر میں بستے ہوئے کسی عزیز کو یاد کرتا ہے، جیسے کوئی مرحومِ تخت شہنشاہ اپنے جاہ و جلال کو یاد کرتا ہے، جیسے کوئی اسیر آزادی و سکون کو یاد کرتا ہے ، جیسے کوئی بھٹکا ہوا پنچھی اپنے مسکن کو یاد کرتا ہے۔

کتابیات

 

٭             اخترحسن، گیانگر میں لنکا،لاہور:تخلیقات پبلشرز،س۔ن

٭           اصغر علی گیلانی لاہوری،سیّد،شجرۃ انوار، (قلمی نسخہ)، شیخوشریف: گیلانی لائبریری

٭           افضال حسین گیلانی،سیّد،سوانح حیات حسنین سائیں،ادارہ صوتِ ہادی، اوکاڑہ

٭                 افضال حسین گیلانی، سیّد، حیات الامیر( جلد اوّل)،  شیخوشریف: ادارہ صوتِ ہادی،۲۰۰۶ئ،

٭           افضال حسین گیلانی،سیّد،حیات الامیر (جلد دوّم)،دار صوتِ ہادی، اوکاڑہ

٭             افضال حسین گیلانی، سیّد،حیات سیّد سید محمد گیلانی، شیخوشریف: ادارہ صوتِ ہادی

٭             افضال حسین گیلانی، سیّد، کافی اے یار دا ویہڑا، شیخوشریف:  ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۹ء

٭             الطاف حسین حالیؔ، کلیاتِ نظم حالی، حصہ اول

٭             اللہ دتہ نسیم سلیمی، میاں،تاریخ دیپالپور، لاہور: سنی پبلشرز، ۱۹۹۳ء

٭             انورشعور،مشقِ سخن، کراچی:ڈائیلاگ پبلی کیشنز، ۱۹۹۷ء

٭             انیس ناگی، پاکستانی اُردو ادب کی تاریخ، لاہور:جمالیات، ۲۰۰۴ء

٭             جاوید شاہین، (مرتب) آٹھ غزل گو، لاہور:مکتبہ میری لائبریری، ۱۹۶۸ء

٭             جون ایلیا،شاید،لاہور:الحمدپبلی کیشنز، ۱۹۹۸ء

٭             جیلانی کامرانی، نئی نظم کے تقاضے، لاہور: کتابیات، اشاعت دوم، ۱۹۶۷ء

٭             سلیم احمد، نئی شاعری نامعقول شاعری، کراچی: نفیس اکیڈمی، ۱۹۸۹ء

٭             سید علی گیلانی، سیّد، حسب ِمراتب، شیخو شریف: ادارہ صوتِ ہادی،۲۰۰۶ء

٭             سیدعلی ثانی گیلانی،سیّد،شجرۃ اشراف، ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۳ء

٭             سیّدسجاد، نئی نظمیں، لاہور: نئی مطبوعات، ۱۹۶۷ء

٭             طارق ہاشمی،ڈاکٹر، اُردو غزل__نئی تشکیل، اسلام آباد:نیشنل بک فائونڈیشن، ۲۰۰۸ء

٭             عون الحسن غازی، سیاہ آسمان میں، شیخوشریف: ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۷ء

٭             عون الحسن غازی، نقد ِمراتب، شیخو شریف : ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۴ء

٭             مخدوم منور، نثری نظم کی تحریک، ملتان: کاروانِ ادب، اشاعت دوم، ۱۹۸۲ء

٭             مراتب اختر، گنج گفتار،شیخو شریف: ادارہ صوتِ ہادی، ۲۰۰۱ء

٭             مراتب اختر، جنگل سے پرے سورج(بار دوم)،شیخو شریف: ادارہ صوتِ ہادی،۲۰۰۷ء

٭             مراتب اختر، گزرا بن برسے بادل، ادارہ صوت ہادی، دسمبر ۲۰۰۴ء

٭             مشتاق عادل، تاریخِ ساہیوال،ساہیوال: مہکاں پبلشرز، ۲۰۰۹ء

٭             وزیرآغا،ڈاکٹر، اُردو شاعری کا مزاج،

رسائل و جرائد

٭             آئینہ کرم (ماہنامہ)، جھنگ ،شمارہ ۳۳،جون۲۰۱۲ء

٭             ادبِ لطیف (ماہ نامہ)، لاہور، مارچ ۱۹۶۸ء

٭             ادبیات، (سہ ماہی) ، شمارہ ۳۶، اسلام آباد

٭             سہ ماہی صوت ہادی(ناصر شہزاد نمبر، جنوری تا مارچ)،۲۰۰۹ء

٭             سجاد (ماہنامہ)، ساہیوال؍مانچسٹر، جنوری ۱۹۹۳ء

٭             ہمایوں(ماہنامہ)، لاہور، جولائی ۱۹۵۳ء

اخبارات

٭             نوائے وقت (روز نامہ)، لاہور، سنڈے میگزین، ۲۳ ستمبر ۲۰۰۱ء

مقالہ جات

٭             اصغر علی بلوچ، ڈاکٹر، فلسفہ اخلاق اور بیسوی صدی کی اُردو نظم(غیر مطبوعہ مقالہ برائے پی ایچ ڈی) 

                 لاہور: مخذونہ لائبریری اوریٹل کالج پنجاب یونیورسٹی ،۲۰۰۹ء

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...