Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > دیوانِ یونس فریدی > کچھ غیر رسمی باتیں

دیوانِ یونس فریدی |
حسنِ ادب
دیوانِ یونس فریدی

کچھ غیر رسمی باتیں
Authors

ARI Id

1689950890330_56116814

Access

Open/Free Access

Pages

12

کچھ غیر رسمی باتیں
ابتدائے کلام کرتا ہوں

دم تری بندگی کا بھرتا ہوں
جب تری حمد کان پڑتی ہے

دلِ مردہ میں جان پڑتی ہے
کیونکہ
ہے نکتہء آغازِ سخن نام اسی کا
میں سب سے پہلے خدائے بزرگ و برتر کی بلند بارگاہ میں سجدہ ریز ہوں جس نے مجھے عقل و شعور بخشا اور فہم و فراست سے نوازا۔الحمدللہ رب العالمین علی کل حال!۔بعد از حمد و ثناء مقصودِ کائنات فخرِ موجودات شفیعِ اعظم حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰؐکی بارگاہ میں دست بستہ بے حساب درو و سلام کہ جن کا امتی ہونے کی خواہش انبیاء کرام علیہم السلام نے فرمائی۔
خدائے بزرگ و برتر کا بے حساب شکر گزار ہوں کہ جس نے اپنی رحمت سے مجھے زندگی کے اس سفر کو عبور کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی۔حمد و ثناء اور درود و سلام کے بعد سب سے پہلے شکر گزار ہوں اپنی امی جان کا جو کہ میری پہلی استاد ہیں اور جنہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھایا۔اپنے والد محترم کا شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے خود تنگیاں اور پریشانیاں خندہ پیشانی سے برداشت کیں اور ہمیں ہر سہولت اور آسائش فراہم کی اور مجھے ہر چند روز بعد میرے مقالے کی بابت پوچھتے رہے کہ’’ بیٹا کتنا کام کر لیا اور کتنا رہتا ہے‘‘۔اس سے مجھے بروقت کام کرنے میں تحریک ملتی رہی۔میں اپنی دادی جان کا بھی بے حد شکر گزار ہوں جن کی بدولت میرے اندر ادبی ذوق پیدا ہوا۔اپنی دونوں بہنوں کا بھی دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے مقالہ لکھنے کے دوران میری ہر ضرورت کا خیال رکھا اور میری ایک آواز پہ لبیک کہا۔میں اپنے شاگردِ رشیدمحمد خلیل اور چھوٹے بھائی محمد دانش ملک کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے کلامِ یونس فریدی کو ٹائپ کرنے میں میری مدد کی۔ان کے لیے دل سے دعا گو ہوں کہ خالقِ کائنا ت انہیں زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب و کامران کرے ۔میں اپنے اساتذہ کرام کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں تحقیقی مقالہ لکھ سکوں۔ مقالہ لکھنے میں جہاں جہاں کوئی بھی دقت پیش آئی میری رہنمائی اور اصلاح کی۔بالخصوص میں اپنے نگرانِ مقالہ ڈاکٹر اکرام عتیق صدرِ شعبہ اردوکا بے حد شکر گزار ہوں جنہوں نے ہر موڑ پر میری کا مل رہنمائی فرمائی۔
جب میں نے بی۔ایس اردو میں داخلہ لیا تو مجھے معلوم پڑا کہ ساتویں میقات میں ایک تحقیقی مقالہ لکھنا ہو گا۔میں شروع دن سے ہی مقالہ لکھنے کے لیے پر عزم تھا اور آخر وہ وقت آن پہنچا جب مجھے ایک مقالہ لکھنا تھا۔اب ایک مشکل یہ پیش آئی کہ مقالے کا موضوع کیا ہونا چاہیے۔کافی سوچ بچار کے بعد ڈاکٹر اکرم عتیق صاحب کے مشورے سے تدوین کا کام کرنے کا ارادہ کیا۔اب تدوین کے لیے معیاری کلام کا ہونا ضروری تھا۔اس عقدے کو ڈاکٹر صاحب نے بڑی فہم وفراست سے سلجھایا اور پاک پتن شریف کے ایک بزرگ شاعر یونس فریدی کے متعلق مجھے کچھ معلومات فراہم کیں۔ یونس فریدی کا اب تک کوئی بھی شعری مجموعہ منظرِ عام پر نہیں آیااور نہ ہی انہوںنے اپنی درویش منشی کے باعث اس امر میں کوئی خاصی دل چسبی کا مظاہرہ کیا تھا ۔بقول ان کے:
یہی بہتر ہے، شاعرِ گمنام
شہُرتوں کے وبال رہنے دے
ان کی عمر بھی اس وقت تقریباً 66 برس کے قریب ہے۔میں نے فیس بک اور کچھ ادبی رسائل و جرائد سے ان کا کلام تلاش کیا اور پڑھا ۔پھر اس قابل سمجھا کہ واقعی میں ان کے کلام پر تدوین کا کام ہونا چاہیے۔پھر جب یونیورسٹی سے میرا موضوع منظور ہو گیا تو میں باقاعدہ ڈاکٹر صاحب کی راہنمائی میں اپنا مقالہ لکھنے کی کوشش کی اور کامیاب بھی ہوا۔بحیثیتِ طالبِ علم مقالہ میں یقیناً کافی سقم رہ گئے ہوں گے۔ اس مقالے کوایک طالب علم کی ادنی سی کاوش گردانتے ہوئے انہیں نظر انداز کرنے کاالتماس گزار ہوں۔
کسی بھی شاعر یا ادیب کے کلام کا مقام و مرتبہ متعین کرنے کے لئے بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ یہ عوامل داخلی شواہد یا خارجی شواہد پر مبنی ہو سکتے ہیں۔ کسی بھی شعری یا نثری فن پارے کو پرکھنے کے لیے داخلی و خارجی شہادتوں کا عمل دخل انتہائی ناگزیر ہے۔تحقیق میں شہادت یا ثبوت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔شہادت کو داخلی اور خارجی دائروں میں تقسیم کرکے تحقیق میں مدد لی جاتی ہے۔
داخلی شہادت سے مراد وہ شہادت ہے جو کسی خاص ضمن میں خود صاحبِ تحریر یا صاحبِ تصنیف کے ہاں سے مل جاتی ہے۔ داخلی مواد سے متعلق پہلی چیز تو یہ ہے کہ مصنف کی شخصیت کی کاجائزہ تاریخی ترتیب و توقیت کے ساتھ لیا جائے۔تاکہ اس کے ذہن کی تدریجی ترقی کا اندازہ ہو سکے۔اپنے زمانے میں شاعر یا مصنف کس طرح کی زبان استعمال کرتا تھا؟وہ کونسی تشبیہات و استعارات سے کام لیتا تھا؟ وہ اپنے دماغ میں کن خیالات کو بسائے رکھتا تھا؟ اور ادب سے متعلق اس کی پسند یا ناپسند کیا تھی؟ یہ سب کچھ اس کی اپنی تحریروں سے مل سکتاہے۔
داخلی شہادتیں ہمیں مختلف شعرائ، ادیبوں اور عظیم تاریخی شخصیتوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ جبکہ خارجی شواہد وہ تحریری ثبوت ہوتے ہیں جو کسی بھی معاملے سے متعلق معاصر یا غیرمعاصر تحریروں میں موجود ہوتے ہیں۔معاصر تحریریں ہم زمانہ تحریریں ہوتی ہیں اور غیر معاصر ان تحریری شواہد کو کہا جاتا ہے جومعاصر نہیں ہوتے اور بعد کی نگارشات میں ان کو دیکھا جاسکتا ہے۔خارجی شواہد کے لیے تذکروں اور تاریخوں کے علاوہ بعض مرتبہ معمولی معمولی رسائل بلکہ اخبارات بھی اہم ثابت ہوتے ہیں یعنی ان میں کسی شخصیت کے متعلق کوئی بھی اشارہ مل جاتا ہے۔اس سے اتنا ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں وقت تک اس نے کیا لکھ لیا تھا۔
اگر کوئی شاعری پر تحقیق کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے کہا جاتا ہے کہ کسی ایک شاعر پر کام کریں۔ اور پہلے خارجی شواہد کو تلاش کریں۔ یعنی شاعر کے متعلق تمام ضروری تذکرے اور تاریخیں دیکھ لی جائیں۔ تاکہ حالات میں جہاں کہیں اختلاف نظر آئے اسے نوٹ کر لیا جائے اور دیگر داخلی شہادتوں کے ذریعے ان کی تحقیق میں مدد لی جاسکتی ہے۔
ان تمام باتوں کو سامنے رکھ کر کسی شاعر یا ادیب کے متعلق ایک رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ یہ رائے بالکل درست ہو یہ ضروری نہیں۔مگر نسبتاً یہ رائے بہتر ضرور ہوتی ہے۔ کسی شاعر کا مقام و مرتبہ متعین کرنے میں درج ذیل عوامل کچھ حد تک ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
v وہ ادبی مواد جو شاعر کے متعلق مرقوم ہو اور جس کو مدنظر رکھ کر ناقدین اپنی آراء پیش کریں۔
v شاعرکی مشاعروں میں شرکت اور عوامی مقبولیت۔
v حکومتی پشت پناہی یا کسی بڑی ادبی تنظیم کے پلیٹ فارم کا حصول۔
v شاعر کا کلام ادبی رسائل و جرائد اور مجموعوں کی صورت میں شائع ہونا۔
مثلاً نظیرؔ اکبر آبادی کا موازنہ ان کے معاصرین سے کیا جائے تو ناقدین نے انہیں وہ مقام و مرتبہ نہ دیا جس کے وہ اصل میں حقدار تھے۔ اس دور کے ناقدین نے ان کے کلام کو کمتر اور حقیر جان کر وقعت نہ دی۔کیونکہ انہوں نے اپنے زمانے کی مروجہ روش سے بغاوت کی اور عوامی اور عامیانہ لہجہ اختیار کیا۔لیکن جب برصغیر میں انگریزوں کے وارد ہونے کے بعد شاعری کا ازسرنو جائزہ لیا گیا تو نظیر کو نہ صرف عوام میں بلکہ خواص میں بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے غزل کی بجائے نظم کو زیادہ اہمیت دی۔ اس سلسلے میں انجمن پنجاب، ترقی پسند تحریک اور نظریہء ادب برائے زندگی وغیرہ تمام عناصر اس امر کی بنیاد بنے۔ جس کی بنا پر نظیرؔ اکبر آبادی کو بلند مقام و مرتبہ حاصل ہوا۔
اسی طرح ایک اور مثال غالبؔ کے متعلق دیکھی جائے تو مولانا محمد حسین آزاد کی تصنیف ’’آب حیات’’میں ذوقؔ کے مقابلے میں غالبؔ کو وہ درجہ نہیں ملا جس کے وہ قابل اور حقدار تھے۔ لیکن بعد کے دور نے غالبؔ کی برتری کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کے دیوان کو ’’ہندوستان کی الہامی کتاب‘‘ کا درجہ بھی دیا۔(۱)
درج بالا بحث سے یہ ہرگز مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ نظیرؔ اور غالب ؔکے کلام میں وہ انفرادیت،اعلیٰ پن یا خصوصیات پہلے سے موجود نہیں تھیں جن کی بنیاد پر انہیں شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔ بلکہ ان مثالوں کا مقصد صرف اس بات پر روشنی ڈالنا ہے کہ یہی وہ عوامل ہیں جو کسی شاعر کی تخلیقات کو منظر عام پر زیر بحث لے آتے ہیں۔
مقالہ نگار کے لیے دیوانِ یونسؔ فریدی کی تدوین میں دلچسپی لینے کے اصل میں دو محرکات ہیں:
v اوّل اس(مقالہ) سے پہلییونسؔ فریدی پر (کلام کی تدوین کے اعتبار سے) کوئی کام نہیں ہوا تھا صرف کچھ کتب یا جرائد میں ان کے متعلق شخصی کوائف اور کلام کے حوالے سے ’’انتخاب ‘‘نظر سے گزرے ہیں جو ان کے کلام کا قطعاً بھی احاطہ نہیں کرتے۔
v آخر یہ کہ یونس فریدی کی عمر ۶۶سال ہو چکی ہے لیکن ابھی تک اس سے پہلے ان کا کوئی مجموعہء کلام شائع نہیں ہوا۔اس کاوش سے ان کا کلام دیوان کی صورت میں محفوظ کیا جا سکے گا۔
یونس فریدیؔ بنیادی طور پر ایک غزل گو شاعر ہیں۔ ان کی غزل کا سرسری مطالعہ کرنے سے ہی ان کے کلام کے معیار اور رفعت و بلندی کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس کام کی اہمیت اور وقعت مزید بڑھ جاتی ہے کہ ان کی شاعری فکر و فن دونوں اعتبار سے معیاری ہے۔اس کا منظر عام پر آنا انتہائی ناگزیر ہے۔ اس کی وضاحت یونسؔ فریدی فکروفن کے عنوان کے تحت آگے آئے گی۔ اس امر سے یہ ہرگز تاثر نہ لیا جائے کہ اس کا مقصد صرف یونسؔ فریدی کو بلند پایہ شاعر منوانا ہے۔بلکہ اس کا مقصد صرف اور صرف اتنا ہے کہ اس چھوٹی سی کاوش سے اردو ادب کی آبیاری ہو اور دوسرا ان کے کلام کو اسی طرح پیش کر دیا جائے جیسا کہ اصل میں ہے ۔
یونسؔ فریدی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔لیکن انہوں نے شاعری کا آغازمتفرقات سے کیا۔پھر کچھ ہی عرصے بعد چھوٹی بحر کو اپنی طبع کے لیے موزوں پایا اور پھر مستقل طور پر اسی طرز کو اپناتے ہوئے سہل ممتنع کا دامن تھام لیا۔یونسؔ فریدی غزل کے علاوہ نعت بھی کہتے ہیںمگر بہت کم۔اس کے بارے میں ایک انٹرویو میںکہتے ہیںکہ:
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری میں سب سے مشکل صنف نعت ہے۔ اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضور اکرم ﷺکی تعریف صحیح معنوں میں کرنے سے مجھ جیسا عام شاعر قاصرہے ۔اس لئے بہت کم رجحان ہے نعت کی طرف‘‘۔(۲)
غزل یونس فریدی کی پسندیدہ صنفِ سخن ہے۔ان کا کلام پڑھتے ہوئے فنی وفکری بالیدگی کا احساس ہوتا ہے۔موضوعات کی بوقلمونی ان کے ہاں دیکھنے کوملتی ہے۔ ان کے اشعار، رنج وغم،غربت اور بے بسی، وارداتِ عشق ومحبت، خیال کی ندرت، معاملہ بندی اور رجائی لب و لہجے کی عمدہ تصویر ہیں۔
دیوان کی صورت میں یونس ؔفریدی کے کلام کا ایک اچھا خاصا ضخیم مجموعہ یکجا اور محفوظ ہوجائے گا۔ یہ مقالہ اس اعتبار سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس دیوان کی تدوین سے قبل فریدی صاحب کا کوئی بھی مجموعۂ کلام دستیاب نہیں تھا اور نہ ہی کوئی مجموعۂ کلام شائع ہوا تھا۔اس سے پہلے ان کی چند غزلیں مختلف رسائل و جرائد میں یا انتخاب کی صورت میں دستیاب تھیں۔دیوان میں شامل غزلیں فریدی صاحب کے قلمی نسخے،بیاضوں اور کچھ دیگر ادبی رسائل و جرائد اور انتخاب سے حاصل کی گئی ہیں۔ ان تمام غزلوں کوردیف کے اعتبارسے’’ حروفِ تہجی‘‘ کی ترتیب سے مدون کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
مقالے میں سوانحی اعتبار سے صرف ایسی ہی معلومات درج ہیں، جو انتہائی ناگزیر شخصی کوائف پر مشتمل ہیں جیسے کہ ’’ابتدائی حالات‘‘،’’اجداد کا تعلق‘‘،’’ شاعری کا آغاز‘‘،’’ تعلیمی دور‘‘ ،’’ ذریعہء معاش‘‘،’’عائلی زندگی‘‘ اور چند ایسے ’’ناقابل فراموش واقعات ‘‘جن کے اثرات ان کی شاعری پر اثر انداز ہوئے وغیرہ۔ زیرِ بحث ’’تدوینِ دیوانِ یونسؔ فریدی ‘‘کی اہمیت و افادیت اس صورت بھی بڑھ جاتی ہے کہ یونسؔ فریدی نے اپنی درویش منشانہ طبیعت کے باعث اپنے مجموعہء کلام کی اشاعت کے لئے خاص تگ و دو نہیں کی اور نہ ہی اس متعلق کوئی سنجیدہ کوشش کی۔مقالہ نگار جب ان سے انٹرویو اور کلام کی فراہمی کے سلسلے میں پاکپتن شریف ان سے ملنے گیا تو انہوں نے پہلی بات یہ کہی کہ مجھے یعنی مقالہ نگارکو اس کام سے کوئی فائدہ ہوگا تب ہی وہ سنجیدگی سے اس مقالے کے لیے کلام کی فراہمی میں معاون ہوں گے۔ کیونکہ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جس میںان کے کلام کا شائع ہونا یا نہ ہونا خاصی اہمیت نہیں رکھتا۔(۳)
دیوان ِ یونس فریدی میں جو غزلیں ادبی رسائل و جرائد یا مختلف انتخاب کی کتب سے حاصل کی گئی ہیں اور وہ شاعر کے قلمی نسخوں کی صورت میں بھی دستیاب تھیں۔ ان میں سے جو غزلیں مختلف رسائل و جرائدمیں شائع ہوچکی ہیں،حاشیے میں ان کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ یونسؔ فریدی کے جو بھی مخطوطات یا بیاضیں دستیاب ہوئی ہیں اور جو کلام ادبی رسائل و جرائد یا انتخاب کی صورت میں دستیاب ہوا، اسے منشائے شاعر کے مطابق ’’حروفِ تہجی‘‘کی ردیفی ترتیب میں پیش کیاگیا ہے۔

حوالہ جات
۱۔عبدالرحمن بجنوری۔’’محاسن کلامِ غالب‘‘۔دہلی:انجمن ترقی اردو۔۱۹۸۳ئ۔ص۵
۲۔یونسؔفریدی۔ ’’استفسارِ مقالہ نگار‘‘۔پاکپتن:مکان نمبر ۳۶۲۲ گلی گرلز سکول والی بیرون غلہ منڈی۔۸ جولائی۲۰۲۱ئ۔
۳۔یونسؔفریدی۔’’ استفسارِ مقالہ نگار‘‘۔پاکپتن:مکان نمبر ۳۶۲۲ گلی گرلز سکول والی بیرون غلہ منڈی۔۱۵ مارچ ۲۰۲۱ئ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...