Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > دیوانِ یونس فریدی > یونس فریدی احوال و آثار

دیوانِ یونس فریدی |
حسنِ ادب
دیوانِ یونس فریدی

یونس فریدی احوال و آثار
ARI Id

1689950890330_56116815

Access

Open/Free Access

Pages

19

یونس فریدی: احوال و آثار
مکمل نام: محمد یونس
قلمی نام: یونس ؔفریدی
تخلص: یونس ؔ
پیدائش:
یونس ؔ ؔفریدی۴ اگست ۱۹۵۵ء بروز جمعرات شہرِ فریدؒ(پاکپتن شریف) کے محلہ ’’غلہ منڈی‘‘میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام چودھری ولی محمدہے۔ایک معزز آرائیں گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔
شروع شروع میں ان کا نام’’محمد اصغر‘‘ رکھا گیا اور بلدیہ میں بھی اسی نام کا اندراج کروایا گیا۔ بعد میں سرداراں بی بی (پھوپھی) نے نام محمد یونس رکھا جو آج تک ان کی پہچان کا باعث ہے اور اسی نام سے پکارے جاتے ہیں۔(۱)
پھر بعد میں حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ دلی عقیدت اور نسبت کے باعث نام کے ساتھ ’’فریدی‘‘ لکھنا شروع کیا۔یونسؔ فریدی اس بارے میں کہتے ہیں:
’’اپنے نام کے ساتھ فریدی میں نے خود ہی لکھنا شروع کردیا تھا۔ میرے ایک استادِ گرامی! نے پوچھا فریدی کے کیا معنی ہیں؟ اور تم نے کیوں لگایا ہے اپنے نام کے ساتھ؟ میں نے عرض کی جناب معنی تو مجھے نہیں معلوم لیکن مجھے یہ اچھا لگتا ہے۔سو میں نے لگا دیا۔ اور پھر بعد میں جب میرے شعور کی آنکھ کھلی تو میرا رجحان تصوف کی طرف ہو گیا۔ اور حضرت بابا فرید رحمتہ اللہ علیہ سے دلی عقیدت ہو گئی جو آج بھی ہے۔ اب تو مکمل فریدی ہو گیا ہوں۔ہاں بچپن میں اپنے والدِ گرامی کے ساتھ دربار شریف حاضری دیا کرتا تھا۔‘‘(۲)
یونس اپنے نام کے ساتھ فریدی لکھے بغیر اپنے نام کو ادھورا سمجھتے ہیں اور نام کے ساتھ فریدی لکھنا فخر محسوس کرتے ہیں۔یعنی محمد یونس سے تب سے اب تک محمد یونس ؔفریدی لکھنا اپنی اصل پہچان کا باعث سمجھتے ہیں۔
خاندانی پس ِ منظر:
جب یونس ؔ ؔفریدی کے شعور کی آنکھ کھلی تو وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے والد اور سارے بھائی دادا جان کے ساتھ مشترکہ خاندانی نظام جسے جوائنٹ فیملی بھی کہتے ہیں کہ تحت ایک ہی چھت تلے نہایت آرام و سکون اور اتفاق سے زندگی بسر کر رہے تھے۔ان کے دادا کا نام چوہدری حبیب الدین تھا۔جو متحدہ ہندوستان میں محکمہ ریلوے میں سرکاری ملازم تھے۔ ۱۹۵۳ء میں باعزت طور پر مستعفی ہوگئے ۔ ان کی پینشن 35 روپے مقرر ہوئی۔یونسؔ فریدی اپنے دادا جان کے بارے کہتے ہیں :
’’میرے دادا جان نمازی، پرہیزگار اور متقی انسان تھے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے کبھی تہجد قضاء کی ہو یا روزانہ کوئی بھی موسم ہو غسل نہ کیا ہو۔وہ اپنی خوش لباسی اور حق گوئی کے بارے پورے علاقے میں مشہور تھے۔صرف حقہ نوشی فرماتے تھے۔‘‘(۳)
یونس ؔؔ فریدی کی پھوپھو عنایت بی بی (بقیدِ حیات) کے بقول:
’’میرے آباواجداد کا تعلق ریاست پٹیالہ کے مشہور شہر ’’مانساں منڈی‘‘ سے تھا۔میرے دادا چوہدری نبی بخش محکمہ ریلوے میں ملازمت کرتے تھے۔ میرے والد چوہدری حبیب الدین اپنے گھر کے بڑے فرزند تھے۔ وہ بھی محکمہ ریلوے میں بطور شنٹنگ جمعدار ملازم تھے۔ متحدہ ہندوستان کے متعدد شہروں میں تبادلے ہوتے رہے۔ اس مدت کے دوران وہ پٹھان کوٹ، جالندھر، لوہیاں،سمہ سٹہ، قصور اور پاکپتن ڈیوٹی کرتے رہے۔اپنی خوش لباسی، وقت کی پابندی اور صفائی کے ضمن میں آفیسرز کی گڈ بک میں تھے۔ ‘‘(۴)
مزید کہتی ہیں کہ:
’’تقسیم ہند کے موقع پر وہ فیروز پور چھاؤنی میں تعینات تھے۔ وہاں سے قصور اور بعد ازاں پاکپتن تشریف لے آئے۔انہیں پاکپتن ریلوے اسٹیشن کے مسافر خانے کے ساتھ سرکاری کوارٹر الاٹ ہو گیا۔ اسی دوران محلہ غلہ منڈی میں (موجودہ) مکان الاٹ ہو گیا۔پھر اس مکان میں اپنے بیوی بچوں سمیت مستقل سکونت اختیار کرلی۔اسی اثناء میں ان کا تبادلہ سمہ سٹہ ہوگیا۔تب انہوں نے ملازمت سے ازخود استعفیٰ دے دیا۔ بعد میں انہوں نے دیسی گھی کا کاروبار شروع کر لیا۔‘‘(۵)
فریدی صاحب کی دادی اماں کا نام ’’حسن بی بی‘‘ تھا۔وہ بھی بڑی نیک، صوم و صلوٰۃ کی پابند اور نہایت شفیق طبیعت کی مالک تھیں۔ ان کے بطن سے پیدا ہونے والے چار بیٹوں اور تین بیٹیوں میں سے ولی محمد ان کے پہلے اور بڑے بیٹے تھے۔ان کے صاحب زادگان کے نام بالترتیب یوں ہیں:
۱۔چودھری ولی محمد ۲۔چودھری ہدایت اللہ
۳۔ چودھری منور حسین ۴۔چودھری محمد سرور
اور تین صاحب زادیاں تھیں:
۱۔عنایت بی بی
۲۔مختاراں بی بی
۳۔سرداراں بی بی
چوہدری حبیب دین کے بڑے بیٹے چوہدری ولی محمد کی شادی ان کی خالہ زاد’’ رقیہ بی بی ‘‘ سے ہوئی۔ ان کے بطن سے چار بیٹوں اور ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی نام بالترتیب درج ذیل ہیں:
۱۔محمد یونسؔ فریدی
۲۔حاجی منیر احمد
۳۔ذوالفقار علی
۴۔افتخار احمد
۵۔بلقیس بی بی
یونس ؔ فریدی کے والد محترم پیشہ کے لحاظ سے شہر کے معروف ٹیلر ماسٹر تھے۔ ان کی دکان کا نام’’ دی نشاط ٹیلرنگ ہاؤس‘‘ تھا۔ جو ریلوے روڈ پر ریلوے اسٹیشن کے قریب تھی۔ اسی دکان میں ان کے دادا جان نے خالص دیسی گھی کا کاروبار کیا ہوا تھا۔ان کے دیسی گھی کی دھوم سارے علاقے میں مچی ہوئی تھی۔ مگر دادا کی وفات کے بعد دیسی گھی کا کاروبار بھی ختم ہو گیا اور ان کے والد صاحب نے بھی ٹیلرنگ کا کام چھوڑ کر کالج روڈ پر ماسٹر سائیکل ورکس کے نام سے سائیکلوں کا کاروبار شروع کر دیا۔اپنے انتقال تک ان کے والد اسی کاروبار سے منسلک رہے۔یہ دَور ان کی زندگی میں سنہری دَور تھا۔
انہوں نے اپنے بڑے بیٹے یونس ؔؔ فریدی کو ابتدائی تعلیم کے لیے گورنمنٹ ایم۔سی پرائمری سکول غلہ منڈی پاکپتن میں داخل کروادیا۔انہوں نے اس سکول سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی۔ وہ اپنے وقت کے ذہین اور قابل طالب علموں میں سے تھے۔ان کے پرائمری اساتذہ کرام میں راج محمد صاحب اور محمد اسماعیل صاحب تھے۔اس وقت گورنمنٹ ایم۔سی پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر محترم عبد الغنی صاحب تھے جو نہایت وضعدار اور بااصول شخصیت کے حامل تھے۔
قرآن مجید کی ناظرہ تعلیم انہوں نے اپنے گھر کے بالمقابل رہائش پذیر ایک بابا جی اور اماں جی سے روایتی انداز میں حاصل کی۔
یونس فریدی نے گورنمنٹ ہائی سکول پاکپتن میں ۱۹۶۷ء میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا۔ ۱۹۷۲ء میں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔اس وقت عبد القدیر ہاشمی صاحب سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ یونس ؔ فریدی کو بچپن سے ہی فنونِ لطیفہ سے گہری وابستگی ہے۔اس بارے میں کہتے ہیںکہ:
انھوں نے جب ذرا ہوش سنبھالا تو مزاجاً خود کو دوسرے بھائیوں اور رشتہ داروں سے مختلف پایا۔وہ غیر شعوری طور پر فنونِ لطیفہ کی طرف راغب ہوگئے ۔مثلاًکتابت، رنگین پورٹریٹ، مصوری، کلاسیکل موسیقی اور اعلی معیاری شاعری کا مطالعہ ان کے شوق میں شامل ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے فنونِ لطیفہ کی میرے خون میں سرائیت ہو گئی ہو۔(۶)
یونس ؔ ؔفریدی دوسرے فنون لطیفہ کی طرح موسیقی کے بھی دلدادہ ہیں۔وہ موسیقی سے جنون کی حد تک پیار کرتے ہیں۔اعلیٰ پائے کی موسیقی سننا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔اس کے متعلق کہتے ہیں:
’’موسیقی سننے کا شوق کچھ اس طرح ہوا کہ میرے والد گرامی چودھری ولی محمد دربار عالیہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمتہ اللہ علیہ پر حاضری کے لئے جایا کرتے تھے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔وہاں سارا دن قوالی ہوتی۔ انہیں(والد صاحب) بھی قوالی سننے کا شوق تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے بھی شوق پیدا ہو گیا۔ جب میں ذرا بڑا ہوا تو میں نے بھی دربار شریف جانا شروع کر دیا۔ اس وقت میرا شوق عروج پر تھا۔ وہاں بہت اچھے اچھے قوالوں کو سننے کا اتفاق ہوا۔ میرا شوق پروان چڑھتا گیا۔ ہمارے شہر کے ہی نہیں بلکہ پاکستان کے نامور قوال مثلاً مرحوم میاں داد، مرحوم پیر بخش فریدی اور محمد لطیف صابری(والدِ گرامی نذیر اعجاز فریدی قوال)، غلام چشتی کے ٹائم پر باقاعدہ قوالی سنی اور تسکین کا سامان کیا۔موسیقی سے جنون کی حد تک پیار تھا۔ ہمارے ملک کا کوئی معروف گائیک ایسا نہیں جسے میں نے لائیو نہ سنا ہو۔ مثلاً مہدی حسن، غلام علی، پرویز مہدی، غلام عباس، اعجاز قیصر، اللہ دتہ لُونے والا، شوکت علی ،طفیل نیازی، اُستاد نزاکت علی خان، سلامت علی خاں، اُستاد امانت علی خان ،اُستاد فتح علی خان اور اُستاد نصرت فتح علی خان،میاں داد خاں، بخشی سلامت، میاں عبد اللطیف صابری، ملکہ موسیقی روشن آرا ،ملکہ ترنم نور جہاں اور بھی بہت سے گلوکار سننے کا موقع ملا۔یہ تو ابھی اختصار سے کام لیا ہے ورنہ لسٹ بہت طویل ہے۔ قصہ مختصر مجھے موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا، لگاؤ ہے اور رہے گا۔‘‘(۷)
فنونِ لطیفہ سے گہری دلچسپی کی وجہ سے یونس ؔؔ فریدی سکول کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے تھے۔انہوں نے مقابلہ مضمون نویسی،مقابلہ نعت خوانی میں کافی پوزیشنز حاصل کیں۔مزیدبرآں تھوڑا بہت شعر و شاعری کا شوق بھی تھا۔اچھا شعر فوراً ازبر ہو جایا کرتا تھا۔جو ان کی قوت حافظہ کو ظاہر کرتا ہے اور اسی لیے انہیں اپنا تقریباً ۸۰ فی صد کلام زبانی یاد ہے۔
یہ دور یونس ؔ فریدی کی شاعری کا شروعاتی دور تھا۔انھوں نے اپنے اردو کے استاد چوہدری رحمت علی مرحوم کی رہنمائی میں شعر کہنا شروع کیا۔اسی دوران فریدیہ کالج پاکپتن میں ایک طرحی مشاعرہ ہوا جس میں یونس فریدی نے حصہ لیا اور نمایاں پوزیشن حاصل کی۔
میٹرک میں۸۰۰ میں سے ۶۱۲ نمبر حاصل کرکے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔میٹرک کے بعد ان کے والد محترم نے ان سے کہا کہ اب کوئی نوکری کر لو میٹرک کافی ہے۔لیکن انہیں ابھی اور تعلیم حاصل کرنی تھی اور حصول علم کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ والد محترم سے مزید تعلیم حاصل کرنے کی اجازت طلب کی اور اجازت مل بھی گئی۔میڑک میں چونکہ کہ اچھے نمبر تھے۔ اس لیے انہیں گورنمنٹ فریدیہ کالج پاکپتن میں باآسانی داخلہ مل گیا اور ایسے مزید تعلیم کا حصول ممکن ہوا۔ اس دور میں کالج کی عمارت ایک پرانی دیوہیکل قسم کی تھی مگر دیکھنے میں پرُشکوہ اور د ل کش تھی۔اس وقت کالج کے پرنسپل حبیب اللہ وثیر تھے۔جو نہایت رحمدل اور شفیق انسان تھے۔
۱۹۷۴ء میں گورنمنٹ فریدیہ کالج پاکپتن سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔پھر اس کے بعد ۶ جنوری ۱۹۷۲ء میں والدہ محترمہ کے انتقال کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور تقریباً چار سال روزگار کے سلسلے میں لاہور اور کراچی میں بسر کیے۔ یہ دور ،ان کے لیے شدید اضطراب اور اذیت والا دور تھا۔اسی با عث یہ اضطراب و بے قراری کی کیفیت جابجاہمیں ان کے کلام میں نظر آتی ہے۔کہتے ہیں کہ:
مجھ سے پوچھو! عذابِ دَربَدری
مدتوں دَربَدر رہا ہوں میں
یونس ؔ فریدی ایف اے(۷۴-۱۹۷۳ئ) کے بعد بسلسلہ روزگار لاہور گئے اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں پانچ سو ماہوار پر ملازمت اختیار کی۔ وہاں انہوں نے سوچا کہ لاہور تو آیا ہی ہوں کیوں نہ درویش شاعر ساغر صدیقی سے ملاقات کی جائے۔ چنانچہ چھٹی کے دن ان کی تلاش کے لیے کمر کس لی۔اور جہاں جہاں وہ ہو سکتے تھے تلاش کیا آخر کار سراغ ملا کے وہ بادشاہی مسجد کی طرف گئے ہیں۔جب بادشاہی مسجد پہنچے تو دیکھا کہ ساغر صدیقی مسجد کے عقب میں محراب والی طرف کھلی جگہ میں بیٹھے ہاتھوں میں روٹی کے ٹکڑے لیے اپنے اردگرد گرد بیٹھی سیکڑوں چڑیوں کو چھوٹے چھوٹے روٹی کے ٹکڑے کر کے کھلا رہے تھے۔
’’میں(یونس فریدی)نے باآواز بلند السّلام علیکم بابا (ساغرصدیقی) ہا!باباجی نے میری طرف دیکھا اور گویا ہوئے ’’بھائی کہاں سے تشریف لائے ہو؟ ’’میں نے عرض کی پاکپتن شریف سے حاضر ہوا ہوں‘‘۔اتنا سنتے ہی کھڑے ہوگئے اور ہاتھ ملایا۔مجھے پاس بیٹھنے کے لیے کہا اور فرمایا!’’بچوں کو کھانا کھلا دوں پھر چائے پینے چلتے ہیں‘‘۔(۸)
لاہور سے واپس لوٹنے کے بعد۱۹۷۸ء میں یونس ؔ فریدی کی شادی گھر والوں کی باہمی رضا مندی سے ہوئی۔ان کی شریکِ حیات ان کی خالہ زاد’’ خورشیدہ بی بی ‘‘بنیں۔ان کے بطن سے چار بیٹوں اور دو بیٹیوں نے جنم لیا۔بیٹوں کے نام یہ ہیں:
۱۔عمران یونس ۲۔ذیشان یونس
۳۔فیضان یونس ۴۔عدنان یونس
بیٹیوں کے نام:
۱۔لبنیٰ یونس ۲۔کنزہ یونس
یونسؔ فریدی تین بیٹوں اور دونوں بیٹیوں کی شادی کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ان کے بڑے فرزند عمران یونس ابھی کنوارے ہیں۔ اس کی وجہ بھی وہ خود ہی ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ’’جب تک میں اپنا گھر نہ بنالوں تب تک شادی نہیں کروں گا۔‘‘(۹)
یونس فریدی ۱۹۸۰ء میں بطور کمرشل اسسٹنٹ میپکوڈویژن پاکپتن ملازم ہوئے۔ احسن طریقے سے اپنا کام سر انجام دیتے رہے اور ۲۰۱۱ء میں از خودریٹائر ہوئے۔اب وہ غلہ منڈی پاکپتن شریف میں اپنے بیوی ،بچوں اور دو بہوؤں کے ساتھ پرُ سکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔
یونس ؔ ؔفریدی اور شعر وسخن
یونس ؔؔ فریدی جب آٹھویں جماعت میں تھے تو انہوں نے اپنی طبع موزوں پائی اور شاعری کا آغاز کیا۔وہ اپنے اشعار اپنے اردو کے استادِ محترم چوہدری رحمت علی گجر صاحب کو دکھایا کرتے تھے۔ استادِ محترم نے بہت حوصلہ افزائی کی۔اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ:
’’ مجھے فنون لطیفہ سے بچپن سے ہی دیوانگی کی حد تک لگاؤ ہے۔گورنمنٹ ہائی سکول پاکپتن میں ۱۹۶۷ء میں داخلہ لیا۔ تقریباً مڈل میں ایسا ہوا کہ اچھا شعر کسی کا بھی ہوتا مجھے فور ً اازبر ہو جاتا اور وہ میں اپنے ہم مزاج دوستوں اور اساتذہ کو سناتا وہ بہت محظوظ ہوتے۔اسی اثنا میں ہمارے ایک محترم استاد چوہدری رحمت علی گجر نے مجھ سے ساتذہ کے اشعار سنے تو بہت خوش ہوئے اور مجھے فرمایا کہ شعر کہنے کی کوشش کرو۔ میں نے اپنے تئیں ٹوٹے پھوٹے اشعار کہنا شروع کر دیے۔ جہاں کوئی کمی پیشی ہونی تو استاد محترم نے اصلاح کردینی۔ اس طرح میں اچھے برے شعر کہنا شروع ہو گیا۔‘‘(۱۰)
ان کا پہلا شعر یہ تھا :
وہ جس مقام پہ پُرسانِ حال کوئی نہیں
یہ کس مقام پہ آ کر دغا دیا تو نے
غالباً نہم دہم کے دوران فریدیہ کالج کی جانب سے ایک مصرع طرح دیا گیاجس پر غزل کہنی تھی۔وہ طرح مصرع یہ تھا:
’’ظلم کی اس ابتدا کو انتہا سمجھا تھا میں‘‘
اس پر گرہ دیکھیے جو انہوں نے لگائی:
مار ڈالا پیس ڈالا چکیوں کے پاٹ میں
’’ظلم کی اس ابتدا کو انتہا سمجھا تھا میں‘‘
مزید کہتے ہیں :
’’ میں نے میٹرک کرنے کے بعد فریدیہ کالج پاکپتن میں داخلہ لیا۔ یہاں بھی شوقِ شاعری پروان چڑھتا گیا، مگر منظر عام پر نہ آیا۔ ہمارے ایک پروفیسر شیخ مشتاق تھے۔ انہوں نے میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کالج میگزین نکالنے کا ارادہ کیا۔اردو حصے کا مجھے اور انگریزی حصے کا خود کو ایڈیٹر مقرر کردیا۔
یہاں ( فریدیہ کالج)سے ایف اے کرنے کے بعد لاہور اور پھر بعد میں بسلسلہ روزگار کراچی چلا گیا۔اس دوران بھی زیادہ نہیں برائے نام شعر کہتا رہا۔۱۹۷۸ء میں شادی ہو گئی اور پھر تقریباً پانچ چھے سال تعطل رہا۔ تقریباً ۹۰-۱۹۸۹ء پاکپتن میں ایک بہت اچھے استاد شاعر محترم منیب برہانیؔ دیپالپور سے تشریف لائے۔میں نے مناسب سمجھا کہ ان سے رہنمائی مل سکتی ہے اور وہ واقعی ایک منجھے ہوئے شاعر تھے۔ انہوں نے بڑی شفقت سے ہامی بھری۔ اس طرح قبلہ منیب برہانیؔ مرحوم میرے دوسرے استاد ہوئے۔انہوں نے ’’حلقہ ارباب فرید‘‘ کے نام سے ایک ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی ایک وقت میں محترمہ یاسمین برکتؔ (مرحومہ) اس کی صدر اور میں ( یونس ؔ ؔفریدی)نائب صدر رہا۔‘‘(۱۱)
مرحوم منیب برہانی ؔکے بعد یونس ؔ ؔفریدی نے بورے والا کے ایک منجھے ہوئے شاعر محترم کاشف سجادؔ(بقیدِ حیات) کی شاگردی اختیار کی۔اس سلسلے میں وہ اپنے استاد صاحب کے متعلق کہتے ہیں :
ــ’’ہمارے شہر (پاکپتن) میں بورے والا سے ایک نہایت ہی نفیس، وضع دار اور خوبصورت شاعر محترم کاشف سجادؔ صاحب مشاعروں میں شرکت کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ ان کی سفید پوشی اور گفتگو کے علاوہ ان کی تیکھی اور استادانہ شاعری نے مجھے بہت متاثر کیا کیا۔ ہاں وہ اچھے شعر پر چاہے جونئیر شاعر ہو بھر پور داد دیا کرتے۔مجھے بھی بہت پیار سے سنتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ ظاہر ہے مجھے ایک راہ نما کی ضرورت تھی۔ میری نظرِ انتخاب قبلہ کاشف سجاد صاحب پر پڑی۔اور میں بورے والا ان کی خدمت میں پیش ہوا۔ انھوں نے کسی توقف کے بغیر مجھے شرفِ شاگردی بخش دیا۔ واقعی میری سوچ کے مطابق ایک اچھے انسان ثابت ہوئے۔ انہوں نے نہایت خلوص و محبت سے میری رہنمائی فرمائی۔ میں جو کچھ بھی ہوں، ان کی توجہ، محنت اور خلوص کی وجہ سے ہوں۔ اللہ تعالی انہیں عمرِ خضر عطا فرمائے آمین۔‘‘(۱۲)
یونس ؔؔفریدی پاکپتن کی ایک فعال تنظیم ’’ادب قبیلہ‘‘کے پہلے صدر بھی رہ چکے ہیں۔انہوں نے پاکستان کے تقریباً ہر چھوٹے بڑے شہر میں منعقد ہونے والے چھوٹے بڑے مشاعروں میں شرکت کی۔ مثلاً لاہور، ملتان، اوکاڑہ، قصور، پتوکی، ساہیوال،پھول نگر، بہاولنگر، بورے والا، وہاڑی وغیرہ میں شرکت کی۔انہوں نے ملک کے معروف و مشہور شعراء احمد فرازؔ،احمد ندیم قاسمیؔ،ظفر اقبالؔ،اختر شمارؔ،امجد اسلام امجدؔ،نوشی گیلانیؔ،جعفرشیرازیؔ، عطاء الحق قاسمیؔ ،محمود غزنیؔ،کاشف سجادؔ، شریف ساؔجداور استادِ فن جناب بیدل ؔحیدری کے علاوہ بہت سے نام ور شعراء کے ساتھ مشاعرے پڑھے۔
ایک مرتبہ بورے والا میں ایک مشاعرہ ہوا۔جس کی صدارت اُستادِ فکر و فن بیدلؔ حیدری فرما رہے تھے۔ جب یونسؔفریدی کی باری آئی توانہوں نے اپنی ایک تازہ غزل پیش کی۔جب وہ اس شعر پر پہنچے اور مصرع اول پڑھا:
ترے ہی دم سے ہے، بستی میں آبرو میری
نگاہِ یار سلامت تجھے خدا رکھے
مصرع ثانی ابھی ''نگاہِ'' تک ہی کہا تھا کہ باقی حصہ حضرت بیدل ؔحیدری نے خود ارشاد فرمادیا۔ اور جی بھر کے داد دی۔(۱۳)
اسی طرح شجاع آباد میں ماہنامہ’’آداب عرض‘‘ کے زیر اہتمام بلدیہ ہال میں آل پاکستان مشاعرہ ہوا۔ جس میں ملک بھر کے شعراء نے شرکت کی جن میں شاکرؔ شجاع آباد، غضنفرؔروہتکی ،ظفر اقبالؔ، اختر قریشیؔ، منیب برہانیؔ، فیضان اطہرؔ،محمد سروؔر، برکت ساغر اؔور دیگر نام ور شعراء شامل تھے۔ مشاعرے میں شعراء کی تعدادسامعین سے کہیں زیادہ تھی کہ کچھ شعراء کو گمان ہوا کہ شاید ہمیں موقع ملے نہ ملے۔یونس ؔفریدی کی باری فجر کی نماز کے بعد آئی۔جب انہوں نے اپنی غزل شروع کی اور جیسے ہی مقطع کہا:
کر کے مسمار وہ مٹی کے گھروندے یونسؔ
کیسا دریا ہے کہ فوراً ہی اتر جاتا ہے
توسامعین کی جانب سے دل کھول کر داد ملی اور پیچھے سے ایک صاحب والہانہ انداز میں اسٹیج پر آئے اور اپنی جیبیں ٹٹولنے لگے ۔جیب میں جتنے پیسے تھے نکال کر قدموں میں رکھ دیے۔اور بھرپور دادسے نوازا۔ مشاعرے کے بعد جب موصوف سے ملاقات ہوئی تو معلوم پڑا کہ ان کا نام محمود الحسن عابدؔ ہے۔ وہ خود بھی بہت اچھے شاعر ہیں اور کسووال سے تعلق رکھتے ہیں۔(۱۴)
یونس ؔؔ فریدی درویش منش اور تنہائی پسند آدمی ہیں۔ان کو ریلوے اسٹیشن سے قلبی لگائو ہے۔ وہ فارغ وقت میںریلوے اسٹیشن چلے جاتے ہیں۔ وہاں تنہائی میںگھنٹوں بیٹھنا اور فکر کے دروازے پرد ستک دینا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔کافی غزلیںریلوے اسٹیشن ہی کی دین ہیں۔ اس وقت وہ ادبی تنظیم’’ادب قبیلہ‘‘ سے منسلک ہیں۔اس ادبی تنظیم کا قیام ۲۰۱۲ء میں آیا۔ فریدی صاحب اس کے سب پہلے صدر بنے ،2022ء میں وہ سینئر نائب صدرمنتخب ہوئے۔

حوالہ جات
۱۔ یونس ؔفریدی۔ ’’استفسارِ مقالہ نگار‘‘۔پاکپتن:مکان نمبر ۳۶۲۲ گلی گرلز سکول والی بیرون غلہ منڈی۔۱۵ مارچ ۲۰۲۱ئ۔
۲۔ایضاً
۳۔یونسؔفریدی۔ ’’استفسارِ مقالہ نگار‘‘۔پاکپتن:مکان نمبر ۳۶۲۲ گلی گرلز سکول والی بیرون غلہ منڈی۔۱۰ ،اپریل ۲۰۲۱ئ۔
۴۔عنایت بی بی (پھوپھی :یونس ؔفریدی) ۔ ’’استفسارِمقالہ نگار‘‘۔پاکپتن:مکان نمبر ۳۶۲۲ گلی گرلز سکول والی بیرون غلہ منڈی۔۱۰ ،اپریل ۲۰۲۱ئ۔
۵۔ایضاً
۶۔ یونس ؔفریدی۔’’ استفسارِ مقالہ نگار‘‘۔پاکپتن:مکان نمبر ۳۶۲۲ گلی گرلز سکول والی بیرون غلہ منڈی۔۲۲ مئی۲۰۲۱ئ۔
۷۔ایضاً
۸۔یونسؔفریدی۔’’ استفسارِ مقالہ نگار‘‘۔۱۵مارچ ۲۰۲۱ئ۔
۹۔ایضاً ۱۰۔ایضاً
۱۱۔ایضاً ۱۲۔ایضاً
۱۳۔ یونس ؔفریدی۔ ’’استفسارِ مقالہ نگار‘‘۔وہاڑی:فائیو سٹار ہوٹل۔۳ا جون۲۰۲۱ئ۔
۱۴۔ایضاً

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...