Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > دیوانِ یونس فریدی > یونس فریدی کی غزل گوئی

دیوانِ یونس فریدی |
حسنِ ادب
دیوانِ یونس فریدی

یونس فریدی کی غزل گوئی
ARI Id

1689950890330_56116816

Access

Open/Free Access

Pages

33

یونس فریدی کی غزل گوئی
اردو کے شعری منظر نامے پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیگر تمام اصناف ادب اپنی جگہ اہم ہیں مگر غزل کی اہمیت وافادیت مسلمہ ہے۔ یہی وجہ ہے غزل کو مقبول ترین صنف کا درجہ حاصل ہے۔ رفیع الدین ہاشمی غزل کی تعریف ان الفاظ میں کر تے ہیں:
’’غزل کے لغوی معنی عورتوں یا عورتوں کے متعلق گفتگو کرنا ہیں۔ ہرن کے منہ سے بوقت خوف جو درد ناک چیخ نکلتی ہے اسے بھی غزل کہتے ہیں۔ اس نسبت سے غزل وہ صنف شعر ہے جس میں حسن وعشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہو اور اس میں دردوسوز بہت نمایاں ہوــ‘‘۔(۱)
اردو کی کئی شعری و نثری اصناف مغربی ادب سے ماخوذ ہیں۔ لیکن غزل اردو کی وہ صنف سخن ہے جو خالصتاً برصسغیر میں پروان چڑھی اور جس نے فارسی غزل سے استفادہ کیا۔ دیگر شعری اصناف کی طرح غزل کسی تسلسل کی محتاج نہیں بلکہ اس کا ہر شعر علیحد ہ مفہوم لئے ہوتا ہے اور ایک شعر دوسرے شعر سے مختلف مضمون بیان کر رہا ہوتا ہے۔ ایک غزل ایک ہی بحر میں کہی جاتی ہے اور غزل کے لئے مطلع کا ہونا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اولین دور میں غزل کے اشعار کی تعداد کوتوملحوظِ خاطر رکھا جا تا تھا۔لیکن اب جد ید شعری روایات میں غزل کے اشعار کم یا زیادہ لکھنے کی قید یا پابندی نہیں۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلا تا ہے۔ جبکہ آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہتے ہیں۔ غزل کسی خاص یا مخصوص خیالات و مضامین کے حامل اشعار کی قید میں نہیں ہوتی بلکہ حسن وعشق ، دردو غم ،ہجر و وصال کے علاوہ مذہبی، سیاسی، سماجی اور فلسفے پرمبنی خیالات بھی اپنے اندر جذب کئے ہوتی ہے اور یہی پہلو غزل کی ہمہ گیریت کا ثبوت ہے۔
یونس ؔؔ فریدی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں ۔ان کا کلام بہت متنوع ہے ۔جس میں زندگی کا گہرا شعور مطالعہ نظر آتاہے۔ اس کے پیچھے ان کاعمیق مشاہدہ ء زیست ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے ہیں گرد و پیش سے زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا ناصرف عمیق مشاہدہ کیا بلکہ ان مسائل کو اپنی شاعری کا اٹوٹ انگ بنایا۔دیگر متعدد مسائل میں سے ایک بنیادی اور بڑا انسانی رویوں کا ہے اور منافقانہ رویوں اور لوگوں کے بخشے ہوئے غم و دولت ماہیے آپ کی مانند ان کے دل کی حالت بھی مضطرب رہتی ہے۔فریدی صاحب لکھتے ہیں:
دل کا عالم نہ پوچھیے صاحب
جیسے مچھلی ہو آب سے باہر

ہم سے دنیا سوال کرتی ہے
چاہتوں کے نصاب سے باہر

اس کے بخشے ہوئے یہ غم یونسؔ
ہو رہے ہیں حساب سے باہر
ڈاکٹر رحمت علی شاد اپنے ایک غیر مطبوعہ مضمون میں یونس ؔؔ فریدی کے کلام کے بارے میں ر قم طراز ہیں کہ:
’’ یونس ؔؔ فریدی کا لب و لہجہ توانا اور رجائیت پر مشتمل ہے وہ ہمیشہ اندھیروں کی بجائے اجالوں کی بات کرتے ہیں ہمت اور حوصلے کا درس دیتے نظر آتے ہیں زبان و بیان کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اسلوب کی تازگی داخلی و خارجی کیفیات،معاملہ بندی، جمالیاتِ حسن، سیاسی و سماجی ناہمواری ظلم و جبر کے خلاف احتجاجی انداز کی کشمکش عشق و محبت جیسے لطیف اور کومل جذبات کا اظہار، ہجر و وصال کی کیفیات سے معمور موضوعاتی تنوع ان کے کلام میں بدرجہ اتم دیکھا جا سکتا ہے۔ان کا شعری سفر غمِ جاناں سے ہوتا ہوا غمِ دوراں اور غمِ ذات سے ہوتا ہوا غم کائنات کی طرف کی جانب کوچ کرتا دکھائی دیتا ہے۔لٹنے کے باوجود ان کے چہرے پر رنج وملال کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور وہ وہ بتاتے ہیں کہ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے والوں کو اپنی قباؤں کا کتنا خیال ہے۔‘‘(۲)
چہرے پہ بے بسی ہے نہ رنج و ملال ہے
لٹنے کے باوجود بھی میرا یہ حال ہے

کیچڑ اچھالنے سے ہی فرصت نہیں جنھیں
اپنی قباؤں کا اُنھیں کتنا خیال ہے
ایک شاعر جہاں تک اپنے سماج کا ترجمان ہوتا ہے۔ وہیں اس شاعر کی شاعری بھی اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ ویسے کسی کی بھی شخصیت اتنی سادہ اور واضح نہیں ہوتی اور نہ ہی شاعری کے اسرار و رموز کی جانکاری کوئی عام فہم کام ہے۔کسی بھی شاعر کی شاعری میں اس کی شخصیت صاف جھلکتی ہے۔ کیونکہ شاعری شاعر کی قلبی وارداتوں اور شعور و لاشعور میں ہونے والی کیفیات سے تخلیق پاتی ہے۔ اس لیے شاعر کسی طور بھی اپنی شخصیت کو اپنی شاعری سے جدا نہیں کر سکتا۔شعری کائنات ایک طلسماتی دنیا ہے۔ جس میں کہیں تیرگی تو کہیں روشنی کا وجود پنہاں ہوتا ہے۔ شاعر فکری و فنی روایات کا بھی امین ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی آواز میں سابقہ آوازوں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔یونسؔ فریدی کی شاعری میں یہ آوازیںاپنی آب و تاب سے گونجتی سنائی دیتی ہیں۔یہ آوازیں اور کلاسیکی روایات اور جدت پسندی مل کر انہیں انفرادیت اور پہچان عطا کرتی ہیں جن سے ان کا رنگِ تغزل مزید نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔
دو دلوں کے درمیاں یہ رابطہ تو دیکھیے!
گفتگو تو ہو رہی ہے، بولتا کوئی نہیں
پیار و محبت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جذبات اور تاثرات کا بنیادی جذبہ انسانی جبلت ہے۔ اس محبت اور رومانیت کا مہذب اظہار پورے مشرقی ادب کا خاصہ ہے۔ اس لیے غزل کی آبیاری میں جذبہء مذکور کا کردار اساسی اہمیت کا حامل ہے۔ یونس ؔ فریدی کی شاعری میں یہ جذبہ پوری طرح موجود ہے اس جذبے کی متنوع صورتیں ان کے کلام میں جابجا دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان کے کلام میں محبت کا استعارہ وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ وہ انسان کے ظاہر و باطن سے بلکہ زندگی کے ہر پہلو سے محبت رکھتے ہیں جس کا تعلق اخلاقیات اور انسان دوستی سے بھی ہے۔ جذبہء عشق کی اس رنگارنگی نے انہیں مکمل طور پر اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ ان کے کلام میں محبت کا یہ انداز ملاحظہ فرمائیں جس میں محبوب کے دلکش خدوخال دیکھ کر دلِ مضطر کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ محبوب کو آواز دے اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ محبوب کا بار بار دیکھنا انہیں حیرت سے دوچار کردیتا ہے:
یوں دیکھنا مجھے جیسے کبھی نہ دیکھا ہو
گھڑی گھڑی تجھے آخر یہ سوجھتا کیا ہے

وہی ہے چہرہ، وہی چال ہے، وہی آنکھیں
پکار لے دلِ مضطر تُو دیکھتا کیا ہے
انسانی جذبات و احساسات، پیارومحبت اور وفورِ عشق ایسے موضوعات ہیں جن پر تقریبا تمام شعراء نے ہی قلم اٹھایا ہے۔ایسے روایتی موضوعات اور معاملہ بندی کے مناظر یونسؔ فریدی کے ہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ایک جگہ پر وہ محبوب کے رُخِ زیبا کو دھرتی کا چاند گردانتے ہوئے اپنے رخ سے سے زلفیں ہٹا نے کا کہتے ہیں۔ فریدی صاحب کہتے ہیںکہ:
ہم بھی دیکھیں یہ چاند دھرتی کا
رُخ سے زلفیں ذرا ہٹانا تم
یونس ؔؔ فریدی کی غزل روایت سے ناتا نہیں توڑتی بلکہ ہجر و وصال اور جدائی جیسے موضوعات کا احاطہ بخوبی کرتی ہے۔ان کے نزدیک محبوب سے دور رہنا اپنی شناخت کھو دینے کے مترادف ہے۔
اپنی پہچان بھی تو کھو دی ہے
دور تجھ سے اگر رہا ہوں میں
اپنی پہچان کھو نے بعد بھی ان کے مقدر میں ہجر ہی لکھا ہے اور محبوب کے متعلق گلہ کرتے ہوئے یک لخت کہتے ہیں :
جدا مجھ سے کوئی ہوا چاہتا ہے
میں کیا چاہتا ہوں وہ کیا چاہتا ہے
یونس ؔ فریدی کے کلام کی ایک اور اہم خصوصیت روز مرہ زند گی کو چیزوں کے آئینے میں بیاں کرتے چلے جاتے ہیں۔ قاری کو ان کی غزلیں جذباتی سطح پر متاثر کرتی ہیں اور جذبات کی تیز رو قاری کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتی ہے۔ فریدی صاحب محسوسات و جذبات کے شاعر معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری نہ صرف ذ ہن کو بلکہ دل کو بھی متاثر کرتی ہے۔اشعار دیکھئیے :
رفتہ رفتہ خواب ہوتی جا رہی ہیں
چاہتیں نایاب ہوتی جا رہی ہیں

دل میں نفرت کا اندھیرا بڑھ رہا ہے
صورتیں مہتاب ہوتی جا رہی ہیں
قاری یا سامع کلام کے سحر میں ڈوب کر اسے اپنے لیے کہے ہوئے اشعار گرداننے لگتا ہے اور اسے یہ اپنے دل کی آواز لگتی ہے۔پھر غمِ جاناں ہوں یا غمِ دوراں، جیسی کیفیات سے لبریز ہوجاتا ہے۔اور اسکی روح تک بھی داد ،دیے بغیر نہیں رہ سکتی۔
مرے دل میں تری یادوں کے سوا
کچھ نہیں جانِ وفا کچھ بھی نہیں

اس بے وفا کے سامنے آنے کی دیر تھی
یعنی، ہمارے جان سے جانے کی دیر تھی
غیر متزلزل ارادہ اور استقلال یونس ؔؔ فریدی کی غزل میں جابجانظر آتا ہے ۔کٹھن حالات میں بھی فریدی صاحب امید اور استقلال کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ تے۔ مضبوط ارادے کے بل بوتے پر مشکل حالات کا سامنا کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے زندگی کے نامساعد حالات سے انہوں نے ہار نہیں مانی بلکہ شکست کھانا انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔ وہ ایک مضبوط ارادہ لیے زندگی کی جانب رواں دواں دکھائی دیتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
سب نے دیکھا اس میں کتنا حوصلہ ہے
غم کو اکثر ہنس کے یونسؔ ٹالتا ہے
رہنا پڑا تھا نفرتوں کے اس غبار میں
جب میرے سامنے نہ کوئی راستہ رہا

کیوں نہ رستے وہ اختیار کریں
منزلوں سے جو ہمکنار کریں
در د و الم اور ملال کی کیفیت نے یونسؔ فریدی کو لا چار کر دیا ہے۔ یہ اس لئے بھی ہے کہ فریدی صاحب دوسروں کے درد و غم کو بھی اپنی ذات سے منسلک سمجھتے ہیں۔اسی لیے لوگوں کو در پیش کرب والم بھی ان کے کلام کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ لوگوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ شراکت اس قدر جان دار ہے کہ انہیںکبھی کبھارذاتی غم کی پرواہ بھی نہیں ہوتی اور دوسروں کے درد و غم میں بہنے لگتے ہیں۔سفید پوشوں کی سفید پوشی،بیٹیوں کے ہاتھوں میں رنگِ حنا کھلے کا انتظار،بھوک و عسرت سے نڈھال لوگوں سے ہمدردی اورامیرِ شہرکی بے حسی ،جیسے مضامیں ان کے کلام میں ہمیںان کی لوگوں سے ہمدردی کا پتہ دیتے ہیں۔چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ہم سے پوچھو سفید پوشی کا
کیسے رکھتے ہیں اب بھرم، ہم لوگ

ہاتھ پر بیٹیوں کے اے مولا
کب کھلِے رنگِ حنِا سوچتے ہیں

بھوک، عُسرت ملی ہمیں ظالم
اِس ترے دورِ حکمرانی میں
ایک اور جگہ دیکھیے،مفلس کی بے بسی کو بیاں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شہر بھر کے حاکموں نے بڑی بڑی فضیلت والی دستاریں پہن رکھی ہیں مگر مفلس کے لاشے کو کفن بھی نصیب نہیں :
دستار فضیلت تو نہیں، شہر کے حاکم!
لاشہ کسی مفلس کا کفن مانگ رہا ہے
یوں لگتا ہے یونسؔ فریدی ا پنے اردگرد کے ماحول سے کبیدہ خاطر ہیں۔ ایسا ماحول جوکٹھن ہے اور جس میں سانس لینا بھی دشوار ہے۔ اس نا امیدی اور مایوسی کے ماحول میں کہیں کہیں خدا سے گلہ کر تے بھی دکھائی دیتے ہیں۔چند مثالیں دیکھئے:
ہوائوں میں یہ آخر تلخیاں کب تک رہیں گی؟
پرندوں پر خدایا! سختیاں کب تک رہیں گی؟
ہمیں ڈستے رہیں گے کب تلک یہ ناگ غربت کے
خدائے بحر و بر! مجبوریاں کب تک رہیں گی؟
خدایا! آ چکی ہے جن کے بالوں میں سفیدی
وہ یوں بیٹھی گھروں میں بیٹیاں کب تک رہیں گی؟
زندگی کی تلخ حقیقتوں اور ہیجان خیزیوںنے ان کو تھکا دیا ہے جس کے باعث وہ کبھی کبھی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہو بھی دکھائی دیتے ہیں۔
ختم ہیجان کر دیا جائے
ہم پہ احسان کر دیا جائے

میرا جینا اگر نہیں بھاتا
مرنا آسان کر دیا جائے
ایک جانب اطمینان ہے تو دوسری طرف شکوہ و شکایت کا بازار گرم ہے یہ شکوہ کہیں زمانے سے اور کہیں احباب سے ہے۔ شکایت کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں احتجاج کا رویہ بھی موجود ہے۔ اس احتجاج میںیونسؔ فریدی اپنے ہونے کا پتا دیتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اپنی اہمیت تمام کرانا چاہتے ہیں۔ گلے شکوے کی رَو ایسے بہتی ہے کہ دشمن واحباب سبھی اس شکایت اور احتجاج کی زد میں آ جاتے ہیں۔ حقیقتاً یہ گلہ اپنوں سے لے کر غیروں تک اور غیروں کا ذکر انھیں اپنوں تک لے جا تا ہے۔ کبھی کبھی یہ شکایت اور احتجاج اس قدر شدید ہوتا ہے کہ حاکمِ وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ملا لیتے ہیں۔ چند مثالیں دیکھیے:
شِکوہ نہیں کسی سے
نالاں ہیں زندگی سے

عین اُس وقت بجلیاں ٹوٹیں
جب پرندے شجر پہ جا بیٹھے

ایک دشمن نیا بنا بیٹھے
آئنہ کیا اُسے دِکھا بیٹھے
یاس اور رجائیت کے احساسات شاعری میں دومختلف سمتوں کا پتا دیتے ہیں لیکن بھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے نا امیدی کے صحرا سے امید کے چشمے پھوٹتے ہیں یہ اچھوتا وصف یونسؔ فریدی کی شاعری کا ہے۔ وہ اپنی پوری قوت و عزم سے نا امیدی کو پیچھے دھکیلتے ہیں اور اس کے ماحول سے ہی امید کی کرن پیدا کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے ان کے ہاں یاس ہی امید اور رجائیت کے در کھوتی ہے۔ اس امید کے پورے ماحول میں وہ محبوب سے بھی رجائیت کا اظہار کرتے ہیں اور بد گمان نہیں ہوتے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
چہرے پہ بے بسی ہے نہ رنج و ملال ہے
لٹنے کے باوجود بھی میرا یہ حال ہے

نفرت کے بیج بونے سے پہلے یہ سوچ لے!
بستی میں چاہتوں کا تو پہلے ہی کال ہے

مجبوریاں ہیں یونسؔ دونوں کی ایک جیسی
کیسے مگر بتائیں اک دوسرے کو ہم
یونس ؔ ؔفریدی کی در اصل اپنے اردگرد کے ماحول اور لوگوں کے رویوں پر گہری نظر ہے جس کے سبب وہ انسان کی بے حسی کا رونا روتے ہیں۔ وہ انسان جوخودکو تماش بین اور دوسروں کو تماشا بنا تا ہے۔ فریدی صاحب ایسے منافقانہ ذہنیت کے حامل افراد سے دور رہنے کے خواہش مندہیں۔ یہ خواہش اس لئے پیدا ہوئی کہ وہ راست گو ہیں جبکہ اہل زمانہ راست گوئی کو بغاوت کا نام دیتے ہیں۔لوگوں کی اس بے حسی اور بے قدری نے ان کی ذات میں ہچل پیدا کر دی ہے۔ فریدی صاحب نام نہاد حق پرستوںاور حاکموںکے بہرے پن پرطنزکرتے ہوئے کہتے ہیںکہ :
شہر سارا بھی گر دہائی دے
بہرے حاکم کو کیا سنائی دے
گر یہ بستی ہے حق پرستوں کی
پھر تو حق ہر طرف دکھائی دے
ایک اور جگہ پر کہتے کہ حق پرست ہونا بھی کسی خطا سے کم نہیںکیونکہ اس کی پاداش میں سارے شہر کی مخالفت اوردشمنی مول لینا پڑتی ہے ۔
جانے کیوں شہر سارا دشمن ہے
حق پرستی بھی کیا خطا ہے کوئی؟
پھر ساتھ ہی لوح و قلم کے وارثان کو بھی آڑھے ہاتھوں لیتے ہیں اور کہتے ہیںکہ یہ کیسے حرمتِ لوح و قلم کے وارث ہیں؟ جو رات کو رات لکھنے سے ڈرتے ہیں۔ لوح و قلم کی پاسبانی بہت مشکل کا م ہے اس کی حرمت برقرار رکھنے میں سرخرو ہونے کے لیے ہاتھوں کی قربانی تک دینی پڑتی ہے۔ تب جا کہ کہیں کوئی لوح و قلم کے وارث کہلانے کاحق داربنتاہے۔
حرمت لوح و قلم کے ہیں یہ وارث کیسے!
رات کو رات بھی لکھتے ہوئے ڈر جاتے ہیں

اُن سے تو جا کے پوچھو کیا ہے قلم کی حرمت
جو سُرخرو ہوئے تھے اپنے کٹا کے ہاتھ
جان کا احساس کر نا بھی یونس ؔؔ فریدی کی غزل کا ایک اہم موضوع ہے جو ان کے اشعار میں پوری توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ انسان کسی نہ کسی صورت زندگی کے کرب سے گزر رہا ہے۔ یونسؔ فریدی کو اس کرب کا خوب ادراک ہے۔ یہ احساس اور زندگی کی دیگر مشکلات و مصائب کا احساس کرنا بھی فریدی صاحب کا ایک اہم موضوع ہے۔ فریدی صاحب زندگی میں پیش آنے والے ان مسائل و مصائب کے بارے میں کہتے ہیں کہ زندگی کا ایک پل بھی ایسا نہیں کہ جو چین سے گزرا ہو۔ایسا لگتا ہے یہ زندگی موت سے پہلے ہی مار ڈالے گی۔
ایک پل بھی نہ چین سے گزرا
ایسی ہوتی ہے زندگانی کیا؟

ایسا لگتا ہے موت سے پہلے
مار ہی دے گی زندگی لوگو!
مزید فریدی صاحب زندگی کے متعلق کہتے ہیں کہ میں نے زندگی کو کچے گھروں میں سسکیاں لیتے اور آہ وزاری کرتے دیکھا ہے۔ جہاں ہر وقت زندگی کا استحصال کیا جاتا ہے۔
رو رہی تھی سسکیوں میں
زندگی کچے گھروں میں

زندگی کیا ہے کبھی پوچھ اس سے
وہ جو اک ’’بخت جلی‘‘ رہتی ہے
یونس ؔؔ فریدی وطن سے محبت جیسے لطیف جذبے سے سرشار دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مٹی جو ماں کی طرح محبت کرنے والی ہے۔ اس کی محبت کا فرض سب پر ہوتا ہے۔ اس کی حرمت وسا لمیت کی خاطر سر کٹ جانا کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ ماں کی چادر کی حفاظت کے لیے سر کی قربانی کچھ زیادہ نہیں ہے۔فریدی صاحب کے نزدیک اگر اپنی دھرتی سے پیار نہیں تو کچھ بھی نہیں۔اگر اپنی دھرتی سے رشتہ بحال ہے تو سب کچھ ہے۔
اب لاکھ اڑا پھر تو ہواؤں کے جلو میں
تو کچھ بھی نہیں دھرتی سے گر پیار نہیں ہے

رشتہ رکھا بحال دھرتی سے
اور کیا ہم سے خاکسار کریں
فریدی صاحب مزیدکہتے ہیں کہ راہ زن کے سپرد اگرقافلے کی راہنمائی کردی جائے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ قافلہ لٹنے سے بچ جائے۔یعنی اگر ہم جانتے بوجتے ہوئے اپنا راہبر کسی راہ زن کو بنا لیں توبربادی پکی ہے۔اور پھر پہریداراپنا فرضاگرایمانداری سے نبھائیں تو بھی دھرتی اوراس کے باسی لٹنے سے بچ جائیں۔
ایک رَہ زَن کی رَہنُمائی میں
کیسے لٹتا نہ قافلہ، لوگو!

ہم پہنچ جائیں گے لٹیروں تک
گر تعاون یہ پہرے دار کریں
یونس ؔؔ فریدی کے کلام میں ہمیں ہر قسم کے استحصال سے نفرت کا اظہار ملتا ہے۔فریدی صاحب جابجا اس بات کا برملا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک شاعر بہت حساس طبیعت کا مالک ہوتے ہے۔اس کی مشاہدے کی قوت عام لوگوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔وہ معاشرے میں رونما ہونے والے والے مسائل پر گہری نظر رکھتا ہے اور جو دیکھتاہے اسے اپنے انداز سے بیان کرنے کی سعی کرتاہے۔ یونسؔ فریدی کی بھی سماج پر گہری نظر ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے غریبوں کے بھوک سے مرتے ہوئے بچوں کی آنکھوں میں بہت سے خوابوں کو دم توڑتے دیکھا ہے۔
بھوک سے مرتے ہوئے بچوں کی آنکھیں دیکھو
ان میں مرتے ہوئے دیکھے ہیں اُجالے میں نے
فریدی صاحب خود بھی استحصال سے نفرت کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی ستحصال سے نفرت کا درس دیتے ہیں۔ظلم سہنے کی بجائے ظلم کے خلاف آوازِ بلند کرنے پر زور دیتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ امیرِ شہر کے ظلم و ستم پر ہم کیوں نہ احتجاج کریں ؟ امیرِ شہر ہے خدا تھوڑی ہے۔جو اس کے آگے احتجاج نہ کیا جاسکے۔
ستم پہ اُس کے بھلا کیوں نہ احتجاج کریں
امیر شہر ہے یارو کوئی خدا تو نہیں
یونس ؔ ؔ ایک خود دار،حق گو اور بے باک انسان ہیں اور یہی خصوصیات ان کے کلام میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی خودداری کہیں کہیں ’’اناپرستی‘‘ اور ’’نرگسیت پسندی ‘‘سے جا ملتی ہے۔اپنے دور میں انہیں وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی،جس کے وہ اصل میںمستحق ہیں۔ ان کی زندگی کشمکش، آزمائش اور اتار چڑھاؤ سے عبارت ہے، اس کے باوجود ان کی شاعری میں زندگی سے فرار، مایوسی اور پست ہمتی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے کو طے کرنے کی ان میں بڑی جرأت ہے۔ میرا خیال ہے شاید اسی وجہ سے ان کے کلام میں مایوسی، قنوطیت اور حرماں نصیبی نہیں پائی جاتی۔
منصبِ فقر کی طلب ہے اگر
ہم فقیروں سے مت کنارا کر!
اُس کو دنیا سلام کرتی ہے
ہم فقیروں میں جو بھی آ بیٹھے

بادشاہوں کے دل میں چبھتا ہے
ہم فقیروں سے رابطہ اُس کا

سب نے دیکھا کہ وہ مشہور ہوئے ہیں کتنے
ہم فقیروں سے رَہ و رَسم بڑھانے والے
اردو شاعری میں میر تقی میرؔ کو بہت بلند مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ان کے بغیر اردو غزل کی تاریخ کا مکمل ہونا ناممکن ہے۔ یونس ؔؔ فریدی اپنے کلام میں میرؔکی برتری کو تسلیم کرتے ہیں اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے کلام میں اگر رنگِ میرؔ ہوتا تو شاعری خوں رلاتی۔
اک بھی مصرعے میں رنگ میرؔ نہیں
خوں رُلاتی یہ شاعری، ورنہ
کلامِ یونس ؔ فریدی کو پڑھنے سے کہیں کہیں یونس ؔؔ فریدی میرؔ کے رنگ میں شعر کہتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
ہوئی ہے جس کے سبب شہر شہر رُسوائی
کمال یہ ہے کہ اُس شخص کو پتا ہی نہیں

پیار کا یہ راستہ ہے، سوچ لے!
ہر قدم پر حادثہ ہے، سوچ لے!
یونسؔ فریدی کی شاعری میں جہاں موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے۔ وہیں ان کی شاعری فنی اعتبار سے بھی کافی متنوع ہے۔ان کے کلام میں منفرد ردیف، انوکھی اور نادر تشبیہات و استعارات، معروف ضرب المثال، بولتے قافیے، عمدہ محاورات، صنائع بدائع اور ثقافتی تلمیحات کا بھرپور انداز سے استعمال دکھائی دیتا ہے۔انہوں نے اپنے کلام کو مزید بنانے سنوارنے اور خوبصورت بنانے کے لئے متعدد فنی والے استعمال کر کے اپنی قادر الکلامی کا عمدہ ثبوت پیش کیا ہے۔
یونسؔ ؔفریدی کے کلام میںجہاں عمیق و دقیق لفظیات سے گزیز نظر آتا ہے وہیں مشکل تلمیحات کا استعمال بھی نہیں ملتا۔ تلمیحات ادب کی جان ہیں ۔خواہ نثر میں ہوں ،غزل میں ہوں یا نظم میں، ان معنیٰ خیز اشاروں سے ادیب و شاعر اپنے کلام میں بلاغت کی روح پھونکتے ہیں۔شاعر اپنے شعر میںجب کسی مشہور قصے یا واقعہ کی طرف اشارہ کرے اسے تلمیح کہا جا تا ہے (۳) شعراء اپنے کلام میں تلمیحات کا استعمال بخوبی کرتے ہیں جس سے ان کی علمی و ادبی مہارت کے ساتھ تاریخی واقعات سے واقفیت بھی ظاہر ہوتی ہے ۔جہاں دیگر شعراء نے اس ضمن میں طبع آزمائی کی وہاںیونسؔ فریدی کے کلام میں بھی تلمیحات استعمال بڑی خوبصورتی سے ملتا ہیں۔ یہ اشعار ان کی اس مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں:
پہلے کہتے تو لوٹ بھی آتے
اب تو ہم کشتیاں جلا بیٹھے

یہ تجھے خضر کی تلاش ہے کیوں
چاہیے عمرِ جاودانی کیا؟
کیا کریں عیسٰی نَفَس بھی
ہر طرف بیمار چہرے

حق کا علم تو بے شک تھام
سوچ اپنی منصوری کر!
یونسؔ فریدی کے کلام میںمنفرد انداز میںتشبیہات کا استعمال نظر آتا۔ویسے تو ہر شاعر کے ہاں اپنے اپنے انداز میں تشبیہات کا استعمال ملتا ہے۔لیکن فریدی صاحب کے ہاں انفرادیت کا عنصر نمایاں ہے ۔’’تشبیہ کاتعلق علم بیان کے حوالے سے دواشیاء میں مشابہت سے ہے۔ تشبیہ میں کسی چیز کو ایک یا ایک سے زیادہ مشترک خصوصیات کی بناء پر دوسری کے مانند قرار دیا جا تا ہے۔ تمثیل تعقل استعارہ ایج اور شعری علامت جیسی عمیق صورتیں تشبیہ کی ترقی یافت شکلیں ہیں ‘‘(۴)۔
اُسے میں چاند کہوں بھی تو کس طرح یارو!
جو تیرگی میرے گھر کی مٹا نہیں سکتا

یہ چاند بھی نکلے تو تیری شکل بنائے
دل ہے کہ کسی طور سنبھلتا ہی نہیں ہے

وہ تو دھڑکن کی طرح دل میں بسا رہتا ہے
یہ الگ بات کہ وہ مجھ سے خفا رہتا ہے
’’استعارہ کے معنی ادھار لینا کے ہیں اور علم بیان کی اصطلاح ہے۔ کسی شے کے لوازمات اور خصوصیات کوکسی دوسری شے سے منسوب کر نا استعارہ ہے۔ لفظ کو مجازی معنوں میں ایسے استعمال میں لانا کہ حقیقی اور مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق ہو اسے استعارہ کہا جا تاہے‘‘(۵)۔یونس ؔ فریدی کے ہاںمنفرد تشبیہات کے ساتھ ساتھ استعارات کا بھی استعمال ملتا ہے۔لیکن استعارات کا استعمال بہت کم ہے ۔فریدی صاحب استعاراتی دنیا میں رہنے کی بجائے حقیقی دنیا میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں شائد اسی باعث ان کے ہاں استعارات کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔
ہم بھی دیکھیں یہ چاند دھرتی کا
رُخ سے زلفیں ذرا ہٹانا تم!
یونسؔؔ فریدی نے اپنے کلام میں مختلف صنعتوں استعمال بھی بخوبی کیا ہے۔صنعتوں کا یہ استعمال ان کے فن کو مزید نکھارتا ہے۔ان کے کلام میں صنعت ِتضادکا استعمال بکثرت ملتا ہے۔ صنعت ِتضاد کو صنعت تقابل بھی کہا جا تا ہے۔ صنعت تضاد شاعری میں اس صنعت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے ایک شعر میں دو یا دو سے زائد متضادالفاظ کا استعمال کیا گیا ہومثلا اندھیرا اور اجالا زمین اور آسمان وغیرہ (۶)یونسؔؔ فریدی کی غزل میں صنعت تضاد کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
کچھ دنوں سے یہ حال ہے پیارے!
جینا مرنا محال ہے پیارے!

یوں ہی دن رات سلگنے کی ضرورت کیا تھی
اتنا آسان اگر دل کا لگانا ہوتا
امیر شہر کو سمجھائے کون یہ جا کر
غریب شہر سے اُس کا مقابلہ کیا ہے؟

سنورنا چاہیے تھا
بگڑتا جا رہا ہوں
الفاظ اور حروف کی تکرار، عام اس سے کہ وہ شعر کے ایک ہی مصرعے میں ہوں یا دونوں میں، عموماقبیح سمجھی جاتی ہے۔ بعض موقعوں پر تکرار الفاظ حسین بھی ہوتی ہے (۷) ۔یونس فریدی کے کلام میں الفاظ کے تکرار سے ایک کیف اور نغمگی کا تاثر قائم ہوتا ہے۔انہوں نے اپنے کلام میں لفظوں کے تکرار سے بھی ایک انوکھا صوتی آہنگ پیدا کر دکھایا ہے۔ذیل میں چند اشعار فریدی صاحب کے کلام میں صنعتِ تکرارِلفظی کا آئینہ دار ہیں:
ڈوبی ڈوبی ہیں وقت کی نبضیں
لمحہ لمحہ نڈھال ہے پیارے!

یوں دیکھنا مجھے جیسے کبھی نہ دیکھا ہو
گھڑی گھڑی تجھے آخر یہ سوجھتا کیا ہے؟

وہی ہے چہرہ، وہی چال ہے، وہی آنکھیں
پکار لے دل مضطر تو دیکھتا کیا ہے؟

گر گیا ہے وہ اپنی نظروں سے
ہم کو رُسوا جگہ جگہ کر کے
لف یعنی لپیٹنا اورنشریعنی کھولنا اور ظاہر کرنا۔ لف سے مراد کہ چند چیزوں کا ذکر کیا جائے اورنشر کا معنی یہ ہے کہ ان چیزوں کے مناسبات کو بغیر تعین کے بیان کیا جائے۔ لف ونشر مرتب ،لف ونشر غیر مرتب اور لف ونشر معکوس الترتیب اس کی تین اقسام ہیں (۸) یونسؔ فریدی اشعار میں یہ صنعت بہت خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں:
پہلے خوش بُو سنگ ریزوں میں ڈھلی
پھر اچانک پھول پتھر ہو گیا

شکستگی جو مرے بام و در کے اندر ہے
علاج اُس کا کہاں سیم و زر کے اندر ہے
حسن تعلیل سے مراد یہ ہے کہ کسی امر کے لئے ایسی وجہ بیان کی جائے جو درحقیقت اس کی وجہ نہ ہو۔ حقیقی وجہ کچھ اور ہو یاوجہ معلوم ہی نہ ہو (۹)یونسؔ فریدی نے بھی اپنے کلام میں اس صنعت کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں حسن تعلیل کے نمونے دیکھئے۔
صحن چمن میں بڑھتی رہی پھر بھی تیرگی
بامِ فلک سے چاند اُترنے کے بعد بھی

چاند ، جگنو نہ ستارا ہی کوئی بھائے اُسے
جب سے آیا ہے وہ سورج سے ملا کر آنکھیں
یہ چاند بھی نکلے تو تیری شکل بنائے
دل ہے کہ کسی طور سنبھلتا ہی نہیں ہے

اُس کے ہونٹوں کو چومنے کے لیے
لفظ نکلے کتاب سے باہر
فریدی صاحب کے کلام فکری و فنی دونوں اعتبار سے بناوٹ اور تصنع سے پاک ہے۔ان کے کلام میں روانی،سادگی،سلاست،مترنم بحروں کا استعمال،غیر مانوس اور دقیق لفظیات کی بجائے سادہ اور پرُ اثر لفظیات،دقیق تراکیب کی بجائے سادہ اور خوبصورت تراکیب،تلمحات،تشبیہات و استعارات کا برمحل استعمال،استفہامیہ لہجہ، صنائع بدائع کا استعمال اور دیگر فنی خصوصیات ان کے کلام میں اثر آفرینی پیدا کر دیتے ہیں۔ان کا سہلِ ممتنع میں شعر کہنا قارئین و سامعین کے دل کو موہ لیتا ہے۔کیا خوب کہا ہے علامہ محمد اقبال نے
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پَر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
حسرت ؔنے بھی اس کی تائید کی ہے اور کہتے ہیں:
شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ
سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
یونسؔؔ فریدی کے کلام میں یہ خاصیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کا کلام دل سے نکل کر دل اُتر جاتا ہے اور گھر کر لیتا ہے۔ان کے لب و لہجے میں بے ساختگی، بلند و بالا آہنگ، اندازِ بیاں اور شائستگی انہیں سامعین و قارئین کے دلوں کے اور قریب تر لے آتی ہے۔یہ سب چیزیں ان کے ایک کہنہ مشق شاعر ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔یونسؔ فریدی چھوٹی بحرمیں بکثرت شعر کہتے ہیں۔فریدی صاحب چھوٹی چھوٹی بحر وں میں بڑی بڑی باتیں بآسانی کہہ جاتے ہیں۔چھوٹی بحر میں بڑی بات کہہ جانا یا ایسی بات کہنا جس کے معنی بظاہر سادہ ہوں لیکن غور کرنے پر زیادہ وسعت نظر آئے، کو سہل ممتنع کہتے ہیں۔ گہری اور بھرپور بات مختصر الفاظ میں کہنا بہت مشکل کام ہے اور یہ ماہرین ِفن ہی کر سکتے ہیں۔یونسؔ فریدی کے ہاں سادگی اور سلاست کا عنصر کافی زیادہ ہے- سہل ممتنع ان کا خاص فن ہے- سادہ اور چھوٹے سے شعر میں بڑی بڑی بات کہہ جاتے ہیں۔ذیل میں چند اشعار فریدی صاحب کے کلام میں سہل ممتنع کے آئینہ دار ہیں:
مجھے وہ آزمانا چاہتا ہے
یا بالکل ہی بھلانا چاہتا ہے

ہم نے دیکھی ہے یہ خطا کر کے
کچھ بھی ملتا نہیں وفا کر کے

بظاہر تو ترا لہجہ وہی ہے
مگر وہ چاشنی بالکل نہیں ہے

بسر تو تیرے بن بھی ہو رہی ہے
مگر یہ زندگی بالکل نہیں ہے
ڈاکٹر رحمت علی شاد اپنے ایک مضمون میں یونسؔ فریدی کو سہلِ ممتنع کا بادشاہ قرار دیتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ:
’’پاکپتن کی شعری روایت میں میں یونس ؔفریدی کا نام اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ وہ ۴ اگست۱۹۵۵ء کو پیدا ہوئے اور ابھی بقیدِ حیات ہیں ۔ان کا کوئی شعری مجموعہ تاحال منظرِ عام پر نہیں آ سکا ۔مگر ان جتنا بھی غیر مطبوعہ کلام ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ راقم کے خیال میںوہ سہلِ ممتنع کے بادشاہ ہیں۔ چھوٹے چھوٹے مصروں میں بڑی بڑی باتیں کہنا کوئی ان سے سیکھے ۔ان کی شاعری بہت سے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے‘‘۔(۱۰)
بہت سے دوسرے شعراء کی طرح فریدی صاحب نے چھوٹی اور بڑی دونوں طرح کی بحروں میں طبع آزمائی کی ہے۔لیکن چھوٹی بحر بالخصوص بحرِ خفیف’’فاعلاتن مفاعلن فعلن‘‘ ان کے مزاج میں سرائیت کر گئی ہے اورغیر شعوری طور پر اسی بحر میںبکثرت شعرکہتے ہیں۔اشعار نمونے کے طور پر :
واہمہ تھا، نہ خواب تھا کوئی
آپ کا ہم رکاب تھا کوئی

فیصلہ ہجر کا سنا کے مجھے
خوب رویا گلے لگا کے مجھے

تجزیہ آپ کا بجا ہی سہی
لوگ اچھے ہیں، میں برا ہی سہی

کب مرا احترام کرتے ہیں
احتیاطاً سلام کرتے ہیں

جن کے دیوار و در نہیں ہوتے
کون کہتا ہے گھر نہیں ہوتے
نوید عاجزؔ یو نس فریدی کے کلام کے متعلق کہتے ہیں کہ:
’’یونسؔؔ فریدی اردو غزل کی کلاسیکی روایت کی پاسداری کے امین ہیں۔انھوں نے کسی مخصوص نظریے میں خود کو محصور کیے بغیر زندگی کے متنوع رنگوںسے اپنی غزل کا مرقع تیار کیاہے۔وہ زندگی کے تلخ حقائق کو خبر نامہ نہیں بننے دیتے۔بلکہ رواں اور لطیف انداز میںمسئلے کو اجاگر کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ان کا اسلوب سادہ اور دلکش ہے۔یونس ؔفریدی اور چھوٹی بحر لازم و ملزوم ہیں۔ان کا بیشتر کلام سہلِ ممتنع کی صورت میں ہے۔انھوں نے مختصر مصروں سے ادائے مطلب کی نت نئی راہیں استوار کی ہیں جو ان کی شعری مہارت پر دلیل ہے۔‘‘(۱۱)
ایوب اختر یونسؔؔفریدی کے معاصرین میں سے ہیں۔وہ یونسؔ فریدی کو پاک پتن کے ادبی افق کا ایک روشن ستارہ گردانتے ہیں۔یونس فریدی کے بارے میں اپنی رائے یوں دیتے ہیں :
’’چھوٹے چھوٹے مصرعوں میں بڑی بڑی اور بامقصد باتیں خاص مہارت کے ساتھ کہنا۔۔۔ یونس فریدی صاحب کا وصف ہے۔یونس فریدی انسانی فطرت اور معاشی ناہمواریوں کو موضوعِ سُخن بناکرایسے تیکھے اشعارتخلیق کرتا ہے جنہیں سن کر اربابِ بست و کشاد اور ادبی کینہ پروروں کے دل لرز جاتے ہیں اور روح گھائل ہوجاتی ہے۔ جملہ شعراء کرام تقریباً سبھی بحور میں طبع آزمائی کرتے ہیں مگر اک تسلسل کے ساتھ مختصر بحور میں بامقصد اشعار تخلیق کرنا یونس فریدی کا خاصہ ہے۔یونس فریدی کی انہی ادبی اور فنی صلاحیتوں کی بناء پرسطحی صلاحیتوں کے حامل اشخاص ان سے ادبی مخاصمت رکھتے ہیں اور ویسے بھی حسد ایک مرضِ ناگہاںہے۔۔۔جوہر بخیل،بدطینت،تنگ نظر اور کج فہم کو لاحق ہوتا ہے حقیقت یہ ہے کہ تنگ دلی، بخل اور اخلاقی پستی پر مبنی رویے ہی سخن ور کو اونچی سطح پر اڑنے کی تحریک دیتا ہے۔یونس فریدی ایک صاحبِ طرز سخن ورہی نہیں بلکہ اچھوتے خیالات اور سچے جذبات رکھنے والا ایک حقیقت پسند اور کھرا انسان ہے۔یونس فریدی بحیثیت سخن ور ایک حساس اور باریک بین کلاکار ہے ان کی تخلیقات پر بہت سا کام ہورہا ہے۔یونس فریدی شہرِ با با فریدؒ کا گراں قدر ادبی سرمایہ ہے۔اللہ پاک انہیں صحت و سلامتی عطا فرمائے اور جہانِ علم و فن میں کامیابیاں و کامرانیاں عطا کرے۔آمین ‘‘ (۱۲)
یونسؔ ؔ فریدی کی غزل کا فنی جائزہ اس بات کا غماز ہے کہ ان کی شاعری فکری موضوعات کے ساتھ ساتھ فنی طور پر بھی پختہ ہے۔ انہوں نے جس شعری صنعت کا استعمال کیا وہ بوجھل محسوس نہیں ہوئی بلکہ غزل کے معیار میں اضافہ ہوا۔ فریدی صاحب کافن ان کی تخلیق میں نمایاں ہے اورفن اور فکر کہیں بھی آپس میں ٹکراتے نہیں بلکہ با ہم مربوط ہو کر ساتھ چلتے ہیں یہی ان کی شاعری کا افتخار ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
۱۔رفیع الدین ہاشمی،ڈاکٹر۔’’اصنافِ ادب‘‘۔لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز۔۲۰۱۲ء ۔ص ۳۱
۲۔رحمت علی شاد،ڈاکٹر۔’’یونس فریدی کی اردو غزل کے انفرادی خدوخال‘‘۔ غیرمطبوعہ مضمون۔ مرقومہ ۲۹ نومبر ۲۰۲۰ء
۳۔سید عابدعلی عابد۔’’البدیع‘‘۔لاہور:سنگِ میل پبلی کیشنز۔۲۰۱۵ء ص۲۳۴
۴۔پروفیسر انور جمال۔’’ادبی اصطلات‘‘اسلام آباد:نیشنل بک فاؤنڈیشن۔۲۰۱۴ء ص۷۲
۵۔ایضاً،ص۷۳۔
۶۔محمدعارف۔’’مزاحیہ غزل کے خدوخال‘‘۔اسلام آباد:نیشنل بک فاؤنڈیشن۔ ۲۰۱۵ئ۔ ص۸۷
۷۔سید عابدعلی عابد۔’’البدیع‘‘۔ ص۱۰۱
۸۔ایضاً۔ص۲۱۰
۹۔ایضاً ۔ص۲۱۸
۱۰۔رحمت علی شادؔ،ڈاکٹر۔’’شہرِ فریدمیں اردو غزل کی روایت ‘‘ مشمولہ ’’الماس‘‘( تحقیقی مجلہ)۔ خیرپور سندھ:شاہ عبدالطیف یونیورسٹی۔ شمارہ ۱۵۔ ۱۴-۲۰۱۳ء ۔ ص ۹۰
۱۱۔ نوید عاجز(پاکپتن کے نوجوان شاعر)۔’’استفسارِ مقالہ نگار‘‘۔ذریعہ:ٹیلی فون۔۲۱ جولائی۲۰۲۱ئ۔
۱۲۔ایوب اختر۔(پاکپتن کے معروف شاعر)۔’’استفسارِ مقالہ نگار‘‘۔ذریعہ:ٹیلی فون۔۲۱ جولائی ۲۰۲۱ئ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...