Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

دیوانِ یونس فریدی |
حسنِ ادب
دیوانِ یونس فریدی

غزلیات
ARI Id

1689950890330_56116819

Access

Open/Free Access

Pages

67

غزلیات

زندہ رکھی ہے ترے پیار کی خوشبو ایسے
اپنے شعروں میں دیے تیرے حوالے میں نے
کیوں نہ ہر لفظ پہ آنکھوں سے یہ ٹپکیں آنسو
جس قدر درد ملے شعر میں ڈھالے میں نے

ز
اپنی ذات کے اندر آ!

خواب نگر سے باہر آ!
شیش محل میں کس نے کہا

ہاتھ میں لے کر پتھر آ!
دیکھ کے صحرا نے یہ کہا

آنکھ میں بھر کے ساگر آ!
تجھ سے مسخر دل نہ ہو گا

لاکھ تو بن کے سکندر آ!
ہنس کے کہا درویش نے یہ
غم کی آگ میں جل کر آ!
ز
یوں تو کہنے کو فقط صبح کا تارا ڈوبا
ہاں، مگر رات کے راہی کا سہارا ڈوبا
جس کی باتوں سے سدا پیار کی کرنیں پھوٹیں
اُس کی آنکھوں میں مری سوچ کا دھارا ڈوبا
میری قسمت بھی ہے روٹھی مرے ساجن کی طرح
میں جو منجدھار سے نکلا تو کنارا ڈوبا
آج پھر سُرخ گھٹائوں کی ہے آمد آمد
آج پھر ۱ور کوئی درد کا مارا ڈوبا
کیسا کہرام مچا ہے لبِ دریا یونسؔ
ایسا لگتا ہے کوئی جان سے پیارا ڈوبا
ز
مل کر جو چلا جاتا

کیا اس میں ترا جاتا
معیار سے اپنے تو

کیوں کر ہے گرا جاتا
منزل نہ بھلے ملتی

رستہ تو دیا جاتا
ہوتی ہے وہاں غیبت
میں کیسے بھلا جاتا
ز
اب خونِ جگر دے کے یہ پالا نہیں جاتا
آ جا کہ ترا درد، سنبھالا نہیں جاتا
ہم جس کے سبب نقل مکانی پہ تلے ہیں
کیوں شخص وہ بستی سے نکالا نہیں جاتا
روتے ہو یہ بتلائو کہ تم ہجر میں کس کے
بے وجہ تو آنکھوں کا اُجالا نہیں جاتا
جیسا بھی ہو کردار کسی کا بھی یہاں پر
کیچڑ تو بہر حال اُچھالا نہیں جاتا
جس طرح سے اقرارِ وفا تم نے کیا ہے
اس طرح تو غیروں کو بھی ٹالا نہیں جاتا
اب خود ہی چکانا ہے ہمیں قرض وفا کا
یاروں کو مصیبت میں تو ڈالا نہیں جاتا
جاتا ہی نہیں ذہن سے پیکر یہ تمھارا
جب تک کہ کسی شعر میں ڈھالا نہیں جاتا
ز
صعوبتیں جو سفر کی اُٹھا نہیں سکتا
میں ہم سفر اُسے ہرگز بنا نہیں سکتا
اُسے میں چاند کہوں بھی تو کس طرح یارو!
جو تیرگی میرے گھر کی مٹا نہیں سکتا
اُلجھ گیا ہے وہ اپنے ہی جال میں ایسے
کہ ہاتھ پائوں بھی اپنے ہلا نہیں سکتا
اُسے یہ زَعم کہ بستی میں معتبر ہے ابھی
نظر جو خود سے بھی یارو ملا نہیں سکتا
یہ کیسے وقت وہ آئے ہیں پوچھنے مجھ کو
کہ حالِ دل بھی میں اپنا سنا نہیں سکتا
تو لاکھ مجھ کو ستائے مگر خدا کی قسم
خیال دل سے تیرا پھر بھی جا نہیں سکتا
کچھ اس لیے بھی ہے نالاں یہ زندگی مجھ سے
میں ناز اس کے مسلسل اُٹھا نہیں سکتا
میں اُس مقام سے گزرا ہوں تیری خواہش میں
کہ جس مقام پہ کوئی بھی جا نہیں سکتا
مری بلا سے، مجھے کوئی کچھ کہے یونسؔ
میں خول چہرے پہ اپنے چڑھا نہیں سکتا
ز
فقیر تھا کہ گداگر، پتا نہیں چلتا
میں سوچتا ہوں برابر پتا نہیں چلتا
وہ داستاں جو ادھوری تھی اور سچی تھی
سنی تھی کس نے یہاں پر پتا نہیں چلتا
نہ جانے کون سا پہلو ہے تُو مروت کا
ترے قریب بھی رہ کر پتا نہیں چلتا
شکستگی مرے گھر کی تو آ رہی ہے نظر
کہاں سے آئے تھے پتھر پتا نہیں چلتا
وہ سن کے ذِکرِ وفا آج مجھ سے کہنے لگے
تمھاری بات کا اکثر پتا نہیں چلتا
کسی غریب کی فریاد ایسے عالم میں
سنے گا کون یہاں پر، پتا نہیں چلتا
کہاں سروں میں الاپوں میں رو رہا ہے کوئی
کہاں چھنکتی ہے جھانجھر پتا نہیں چلتا
بڑا طویل ہے رستہ کسی کے پنگھٹ کا
کہاں پہ ٹوٹی تھی گاگر پتا نہیں چلتا

ز
کچھ تعلق جو ہواؤں سے بھی رکھا ہوتا
تو ہوادار یہ اپنا بھی گھروندا ہوتا
کب کہا اس نے کبھی اپنے یہاں رکنے کو
ہم تو رک جاتے اگر اس کا تقاضا ہوتا
نہ گلہ کوئی نہ شکوہ نہ شکایت ہوتی
اس کے دل میں جو کہیں میرا ٹھکانہ ہوتا
جس حوالے سے تجھے ہم نے ہے برسوں سوچا
اس حوالے سے کبھی تو نے بھی سوچا ہوتا
گھر کی بربادی پہ آتا جو تسلی دینے
میری بستی میں کوئی شخص تو ایسا ہوتا
ہم ترے در پہ محبت سے ہی دستک دیتے
تو نے اے کاش کبھی ہم کو پکارا ہوتا
لوٹ آتا وہ اندھیروں کے سفر سے یونسؔ
ذہن میں اس کے اگر گھر کا اجالا ہوتا
ز
فیصلہ دل کی عدالت کا نہ مانا ہوتا
ہاں، اگر پیشِ نظر میرے زمانہ ہوتا
پوچھتے کس سے ہو تم خانہ بدوشوں کا پتا
ہم بتا دیتے اگر ایک ٹھکانہ ہوتا
یوں نہ جاتا وہ مرے شہر سے چوروں کی طرح
مل کے جاتا جو اُسے لوٹ کے آنا ہوتا
بے سبب مجھ سے اُلجھنے سے کہیں بہتر تھا
کچھ نہ کچھ ترکِ تعلق کا بہانہ ہوتا
یوں ہی دن رات سلگنے کی ضرورت کیا تھی
اتنا آسان اگر دل کا لگانا ہوتا
پوچھتا پھرتا نہ لوگوں سے وہ احوال مرا
اُس نے بالکل ہی اگر مجھ کو بھلانا ہوتا
دیکھ لے تجھ سے بچھڑ کر ہوں میں تنہا کیسا
تو جو ہوتا تو مرے ساتھ زمانہ ہوتا
کتنے دشوار ہیں ہستی کے مسائل یونسؔ
حاکمِ وقت نے اے کاش یہ جانا ہوتا
ز
اہل دل کا تُو پیشوا ہوتا

ہم فقیروں سے گر ملا ہوتا
کاش لیتا میں مصلحت سے کام

تجھ سے مل کر بھی نہ ملا ہوتا
ہم نہ بالفرض تیرا دم بھرتے

اے محبت بہت برا ہوتا
کیوں نہیں آیا سچ زباں پہ مری

مر ہی جاتا میں اور کیا ہوتا؟
مجھ سے بے شک اسے گلے تھے مگر

وقت رخصت تو نہ خفا ہوتا
تجھ کو لگتا پرندہ زد میں ہے
ہر نشانہ ترا خطا ہوتا
ز
دل سے دل کا جو رابطہ ہوتا

وہ بھی راتوں کو جاگتا ہوتا
وہ اگر صاحبِ وفا ہوتا

میں پجاری وہ دیوتا ہوتا
ہم سفر اس کے چاند تارے تھے

کیوں نہ روشن وہ راستہ ہوتا
میرے آنے کی گر خوشی ہوتی

اس کا چہرہ کھلا کھلا ہوتا
اس کو درپیش مسئلہ ہے کوئی

ورنہ اب تک وہ آچکا ہوتا
نظم ہوتا، نہ نظمِ ہستی میں

بندہ بندہ اگر خدا ہوتا
خونِ دل سے نہ آبیاری کی

نخل امید کیا ہرا ہوتا
کام لیتا، اگر تدبر سے

اپنی نظروں سے نہ گرا ہوتا
غیر کے ساتھ دیکھ کر اس کو

دکھ نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا
اے غمِ یار! شکریہ تیرا

ورنہ اب تک میں مر گیا ہوتا
کیوں نہ رہتا میں بن سنور کے بہت

اس کا چہرہ جو آئینہ ہوتا
دامِ زلفِ دراز کا قیدی

مر ہی جاتا اگر رہا ہوتا
بزم حسن و جمال تھی یونسؔ
تذکرہ کیوں نہ آپ کا ہوتا

ز
دنیا کے جھمیلوں میں جو الجھا نہیں رہتا
اک شخص بھی اب شہر میں ایسا نہیں رہتا
اک تو ہی نہیں مجھ سے بدلتا ہے نگاہیں
منظر بھی ترے گاؤں کا ویسا نہیں رہتا
یہ کیسی محبت ہے، کوئی اس سے تو پوچھے
جب غیر سے ملتا ہے تو میرا نہیں رہتا
اس وقت ہی آتا ہے منانے مجھے ظالم
جب اس کے علاوہ کوئی چارا نہیں رہتا
بے دخل نہ کر دے کوئی ہم کو بھی گھروں سے
ہم خانہ بدوشوں کو یہ خدشہ نہیں رہتا
یادوں کا ہجوم اب مرے ہمراہ ہے یونسؔ
صد شکر کسی وقت میں تنہا نہیں رہتا
ز
ڈھارس تو بندھا دیتا

پھر جو بھی سزا دیتا
رکنا تھا، کہاں میں نے

پر وہ تو صدا دیتا
بے زر تھا، بتا تجھ کو

کیا دل کے سوا دیتا
منزل نہ بھلے ملتی

رستہ تو بتا دیتا
دل اپنے گناہوں کی

کیوں مجھ کو سزا دیتا
پتھر نہ مجھے کہتا
رستے سے ہٹا دیتا
ز
دل پہ جب اختیار ہوتا تھا

شہر میں کچھ وقار ہوتا تھا
کیا ہوا! کیوں نظر نہیں آتا

وہ جو آپس میں پیار ہوتا تھا
کس نے ڈالا خزاں کی جھولی میں

وہ جو وقفِ بہار ہوتا تھا
وہ بھی دن تھے کہ چاہتوں کا حصول

باعثِ افتخار ہوتا تھا
یہ بھی سوچو کہ کیا ہوا اس کو
وہ جو یاروں کا یار ہوتا تھا
ز
بار ہا پرکھا گیا تھا

تب مجھے چاہا گیا تھا
کیوں نہیں بھٹکا بھلا میں!

اب کے میں تنہا گیا تھا
یاد تھا اک اسمِ اعظم

ورنہ میں مارا گیا تھا
گو نہیں تھا پارسا میں

پارسا سمجھا گیا تھا
آ گیا وہ خضر بن کر

پوچھنے رستہ گیا تھا
ایک قطرہ بھی نہ پایا

مانگنے دریا گیا تھا
واہمہ تھا جس کے بارے

عمر بھر سوچا گیا تھا
جنگ تھی تیرہ شبی سے

جاں سے اک تارا گیا تھا
جب نہ اپنا بھی رہا میں

پھر مجھے ڈھونڈا گیا تھا
کون تھا اس پار یارو!
جس طرف دھارا گیا تھا
ز
گھر جس سے معتبر تھا

بوڑھا سا اک شجر تھا
رستہ تو مختصر تھا

دشوار کس قدر تھا
ہم راہ چلنے والا

کب میرا ہم سفر تھا
کاسہ لیے ہے پھرتا

کل تک جو تاج ور تھا
کچھ تو صفائی دیتا
سچا ہی وہ اگر تھا
ز
بظاہر تو یہیں تھا

حقیقت میں نہیں تھا
ستم گر بھی تھا اتنا

وہ جتنا دل نشیں تھا
خفا پہلے بھی تھا وہ

مگر اتنا نہیں تھا
یہ کیا ٹوٹی قیامت

کہیں وہ، میں کہیں تھا
اسے آنا تھا یونسؔ
مجھے پختہ یقیں تھا
ز
تمھارا ہمنوا ہے، شہر سارا

ہمیں کب مانتا ہے شہر سارا
چھپاتا ہے یہاں ہر شخص چہرہ

کہ جیسے آئنہ ہے شہر سارا
اُلجھتا بھی ہے یہ اہلِ وفا سے

وفا بھی مانگتا ہے شہر سارا
چلا تھا میں جہاں سے پھر وہیں ہوں

عجب اک دائرہ ہے شہر سارا
چلے ہو رُوٹھ کر لیکن یہ سوچو

یہی تو چاہتا ہے شہر سارا
سنا ہے ، تھا کوئی سچ کا پجاری

جسے اب ڈھونڈتا ہے شہر سارا
نہیں آتی ہمیں تو نیند یونسؔ
مگر کیوں جاگتا ہے شہر سارا
ز
مقامِ شوق ہے خود کو بدل کے دیکھ ذرا!
تو اپنی ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا!
تجھے خبر نہیں، منزل ہے آس پاس ترے
نہیں یقین تو رستہ بدل کے دیکھ ذرا!
یہاں پہ کتنے ہی گھر بے چراغ ہیں اب تک
تو اپنے شیش محل سے نکل کے دیکھ ذرا!
نہ جانے کیا ہوا، اک حشر سا بپا ہے وہاں
وفا پرستوں کی بستی میں چل کے دیکھ ذرا!
میں کیا بتاؤں کہ کیسا ہے ذائقہ سچ کا
یہ زہر تو بھی کسی دن نگل کے دیکھ ذرا!
ز
سجدہ غلط ہے تیرا

قبلہ غلط ہے تیرا
کہنا بجا ہے لیکن

لہجہ غلط ہے تیرا
منزل قریں سہی پر

رستہ غلط ہے تیرا
کیا دوش آئنے کا

حلیہ، غلط ہے تیرا
گم صم بلا وجہ ہی
رہنا، غلط ہے تیرا
ز
کوئی دشمن نہ جب رہا اُس کا

مستند کیوں نہ ہو کہا اُس کا
عمر گزری ہے ہم نہیں بھولے

وقتِ رخصت وہ دیکھنا اُس کا
بادشاہوں کے دل میں چبھتا ہے

ہم فقیروں سے رابطہ اُس کا
روٹھ کر خود ہی میرے بارے میں

ساری بستی سے پوچھنا اُس کا
اس سے بڑھ کر بھی کیا تعلق ہو

عکس میرا ہے آئینہ اُس کا
جھوٹ بولے گا آئینہ کیونکر

کیسے کرتا وہ سامنا اُس کا
جس کو پوجا تھا عمر بھر، یونسؔ
دل دکھاتا ہے تذکرہ اُس کا
ز
ڈھنڈورا پیٹنا سود و زیاں کا

یہی دستور ہے شاید یہاں کا
نہ جانے کھو گیا دیکھو کہاں وہ

نشاں جو ڈھونڈتا تھا بے نشاں کا
وفا کی یادگاریں دیکھتے ہی

لپکنا یاد ہے برقِ تپاں کا
وہی ہے ایک آوارہ سی خواہش

وہی ہے سلسلہ آہ و فغاں کا
اگرچہ گھر تھا میرا روشنی میں

اندھیرا تھا مکیں میرے مکاں کا
چلاتے تیر کیوں ہو، تیرگی میں

نہیں ہے دور اب تیر و کماں کا

چلی آئی مرے قدموں میں منزل
جو دیکھا حوصلہ مجھ ناتواں کا
ز
رات بھر ہم نے عجب ایک تماشا دیکھا
کہ تعاقب میں اندھیرے کے اجالا دیکھا
کچھ تو رہ جاتا بھرم روٹھ کے جانے والے!
تو نے مڑ کر بھی نہ اے جانِ تمنا دیکھا
حسبِ معمول یہی سایا تھا ساتھی اس کا
حسبِ معمول اسے آج بھی تنہا دیکھا
صبح تک جس کی رہے باس میری آنکھوں میں
عمر بھر میں نے کوئی خواب نہ ایسا دیکھا
جس کے لہجے سے جھلکتا نہ ہو لہجہ تیرا
تیری بستی میں کوئی شخص نہ ایسا دیکھا
جانے وہ کون تھا الفت کا پجاری یونسؔ
ایک بار اس کو تو دیکھا ، نہ دوبارہ دیکھا
ز
وہ دریچوں سے کسی کا جھانکنا کیسا لگا!
کھوئی کھوئی اس نظر کا تاکنا کیسا لگا!
جس نگر میں اہلِ دل کو خوفِ رسوائی نہ تھا
اس نگر میں من چلوں کا گھومنا کیسا لگا!
بے سبب ہم ایک دوجے کو گلے دیتے رہے
بے سبب وہ رات بھر کا جاگنا کیسا لگا!
جو تعاقب میں ترے رہتی تھیں نظریں رات دن
پھر نہ ان کا ایک پل بھی دیکھنا کیسا لگا!
بے گناہی جب کسی کی چیختی ہی رہ گئی
پھر خلاؤں میں کسی کا گھورنا کیسا لگا!
یہ مسلّم ہے پرندے لوٹتے ہیں شام کو
شام سے پہلے مرا گھر لوٹنا کیسا لگا!
اک تبسم کے لیے پھرتے رہے جو کو بہ کو
ان جہاں گردوں کا اس کو ڈھونڈنا کیسا لگا!
موہنی سی ایک صورت ہے نگاہوں میں بسی
سامنے اس کو بٹھا کر سوچنا کیسا لگا!
آج یونسؔ انجمن میں اس پری وش کے لیے
میرا دیوانوں کی صورت بولنا کیسا لگا!
ز
دعائیں بے اثر ہیں، کیا بنے گا

پریشاں چارہ گر ہیں، کیا بنے گا
شجر برقِ تپاں کی زد میں ہیں اب

پرندے بے خبر ہیں، کیا بنے گا
ستم تو دیکھیے معصوم چہرے

لہو میں تر بتر ہیں، کیا بنے گا
بڑی تھی دھوم کل جن کے ستم کی

وہی اب معتبر ہیں، کیا بنے گا
وہ جن کی منصفوں سے ٹھن گئی تھی

وہی اب دربدر ہیں، کیا بنے گا
وہ چہرہ چاند جیسا کب عیاں ہو
نگاہیں بام پر ہیں، کیا بنے گا
ز
تم نے وہی کیا نا!

رستہ بدل لیا نا!
اک آس کیا بندھائی

احساں جتا دیا نا!
مانا کہ تھی چنگاری!

گھر تو جلا دیا نا!
آخر پجاری سچ کا

مروا دیا گیا نا!
اے عشق تیرے قرباں!

گھر بھی چھڑا دیا نا!
رسماً بھی اب تو ملنا

ممکن نہیں رہا نا!
برباد کر کے مجھ کو

خود کو بچا لیا نا!
تجھ کو سمجھ کے اپنا

اچھا نہیں کیا نا!
بستی سے اُس کی یونسؔ
جانا ٹھہر گیا نا!
ز
گر کبھی فرصت ملے تو آئنوں کو دیکھنا
اپنی آنکھوں میں سلگتے رتجگوں کو دیکھنا
رابطے قائم ہیں جن سے دو دِلوں کے درمیاں
سلسلے ہیں پیار کے اِن سلسلوں کو دیکھنا
کر گیا پامال جن کو آج کا اَندھا سماج
خاک میں لتھڑے ہوئے ان پیکروں کو دیکھنا
چھپ گئے ہیں جن کے پیچھے چاند کے سب خدّوخال
اُودے اُودے، گہرے گہرے بادلوں کو دیکھنا
جب کبھی تیرا گزر ہو، پتھروں کے دیس سے
ہو گئے تھے موم جو ان پتھروں کو دیکھنا
ظلم کی چکّی میں پس کر جو ابھی خاموش ہے
ایسے مفلس کی ذرا تم حسرتوں کو دیکھنا
جب کبھی نکلو سفر پر بادلوں کے دوش پر
تم ذرا پانی میں ڈوبی بستیوں کو دیکھنا
کیا ہوئے اقرار یونسؔ، عہد و پیماں کیا ہوئے
لمحہ لمحہ ٹوٹتے ان بندھنوں کو دیکھنا
ز
ہُو کا عالَم ہے خوف طاری ہے

آج کی رات ہم پہ بھاری ہے
تیکھے تیکھے ہیں شام کے تیور

دل کے آنگن میں سوگواری ہے
دیکھتے کیا ہو، میری آنکھوں میں

بے قراری ہی بے قراری ہے
کل تھے مقتل میں سر کٹے کتنے!

آج مقتل میں کس کی باری ہے
جس جگہ پر وہ مجھ سے جیتا تھا

میں نے بازی وہاں پہ ہاری ہے
میں ہوں راہی وفا کی منزل کا

میری فطرت میں خاک ساری ہے
خود پہ رویا کبھی میں خود پہ ہنسا

زندگی اس طرح گزاری ہے
جو بھی کہنا ہے کہہ دو یونسؔؔ اب
کیسی اپنوں سے پردہ داری ہے
ز
بیتے لمحوں کی اک صدا ہونا(۱)

کتنا مشکل ہے بے وفا ہونا
بے سبب تو نہیں ہوئے پاگل

ہم نے چاہا تھا آپ کا ہونا
راہِ الفت میں کچھ بعید نہیں

اک پجاری کا دیوتا ہونا
کیا خبر کل کہاں بسیرا ہو

ہم فقیروں سے کیا خفا ہونا
مسکرا کر وہ آپ کا ہم سے

عمر بھر کے لیے جدا ہونا
کیا ستم ہے پہنچ کے منزل پر

ترکِ الفت کا فیصلہ ہونا
وہ ترا مجھ سے منحرف ہونا

وہ مرا خود سے آشنا ہونا
کتنے چہروں کا زرد پڑ جانا

بے زبانی کا لَب کشا ہونا
کیا خبر، حشر ہی بپا کر دے
ہم سے رندوں کا پارسا ہونا
ز
زندگی سے خفا نہیں رہنا

چونکہ اس نے سدا نہیں رہنا
تب ہی روکو گے تم ہوا کے ہاتھ

جب یہ روشن دیا نہیں رہنا
وہ تو وہ، شام کو تو ڈھلنے دے

تیرا سایہ ترا نہیں رہنا
تب ہی شاید کرے تو مجھ سے طلب

دل ہی جب کام کا نہیں رہنا
ہجر گر جاں کے درپے ہی رہے
ہم نے مضطر ذرا نہیں رہنا
ز
سلگتی رات، ہے نا!

کوئی تو بات، ہے نا!
تمھارے ہاتھ میں آج

کسی کا ہاتھ ہے نا!
نہیں ہم ، شہر سارا

تمھارے ساتھ، ہے نا!
توقع خیر کی اَب

فتورِ ذات ہے نا!
بچھڑنا خوش دلی سے

انوکھی بات ہے نا!
تمھیں تشویش کیوں ہے!
خدا کی ذات ہے نا!
ز
مجھ کو صدمات میں ہے رکھا ہوا

دل نے اوقات میں ہے رکھا ہوا
شکر ہے رزق، رب ِکعبہ نے

اپنے ہی ہات میں ہے رکھا ہوا
گر بُرا ہوں تو اپنے دل میں مجھے

تم نے کس بات میں ہے رکھا ہوا
مات کھاؤ کبھی تو تم پہ کھلے

لطف جو مات میں ہے رکھا ہوا
سانحہ ہو نہ ہو مگر اُس نے

ہم کو خدشات میں ہے رکھا ہوا
زندگی کیا کہیں کہ، تم نے ہمیں

کیسے حالات میں ہے رکھا ہوا
کرب کس نے سمیٹ کر یونسؔ
ہجر کی رات میں ہے رکھا ہوا
ز
زندگی بھر مرا یہ حال رہا

ہر طرف خواہشوں کا جال رہا
میں یہی سوچ کر لرز جاؤں

دور تجھ سے میں کتنے سال رہا
کون جانے کہ کیا تماشا ہو

دردِ دل کا اگر یہ حال رہا
جانے والے تو لوٹتے ہی نہیں

وقتِ رخصت یہ کب خیال رہا
چند لمحوں کی تو مسافت تھی

عمر ساری مگر نڈھال رہا
جانے کس موڑ پر بچھڑ جائیں
ہر قدم پر یہ احتمال رہا
ز
جب تک منافقوں سے مرا واسطہ رہا
ہر شخص میری ذات ہی میں جھانکتا رہا
خوابوں کی سر زمین کا باسی تھا میں، مگر
پھر بھی حقیقتوں کو وہاں ڈھونڈتا رہا
سرزد ہی کب ہوا تھا مری ذات سے وہ جرم
جس کی سزا میں ہنس کے یہاں کاٹتا رہا
سود و زیاں کے وہم کو دل سے نکال کر
ہر کام ہی میں کل پہ یہاں ٹالتا رہا
اس سے کہو کہ حد سے تجاوز نہ اب کرے
اب تک تو وہ جو بول بڑے بولتا رہا
ایسا نہ ہو کہ، آنکھ سے آنسو امڈ پڑیں
اپنی کہانی چھیڑ کر میں سوچتا رہا
ان صورتوں کی بھیڑ میں یوں گم ہوئے تھے لوگ
ہر شخص میرا راستہ ہی کاٹتا رہا
تاریکیوں کا ذہن پہ کچھ ایسا خوف ہے
دن میں جو جگنوؤں کو یہاں ڈھونڈتا رہا
شاید کہ تجھ سے روٹھ کر وہ بھی اداس ہو
کل شب تمہاری یاد میں جو جاگتا رہا
رہنا پڑا تھا نفرتوں کے اس غبار میں
جب میرے سامنے نہ کوئی راستہ رہا
ز
سوئے فتنوں کو اب جگانا کیا!

حسن کو آئنہ دکھانا کیا!
جس نے اپنوں سے زخم کھائے ہوں

اُس کی نظروں میں یہ زمانہ کیا!
کیوں ستاتے ہو ہم فقیروں کو

ہم فقیروں کو آزمانا کیا!
چھین لی وقت نے ہنسی جن سے

ایسے بچوں نے مسکرانا کیا!
ظلم سہنے میں کٹ گئیں عمریں

آسماں سر پہ اب اُٹھانا کیا!
صرف رسوائیوں سے گھبرا کر
کوچۂ دلبراں سے جانا کیا!
ز
اعترافِ جرم الفت کر لیا کیا؟

کر لیا تو اِس قدر پھر سوچنا کیا
کیا ہوئیں وہ رونقیں اس شہر کی

ہو گیا ہے اس طرح کا سانحہ کیا؟
وہ کہ جس نے عمر بھر غم ہی دئیے

اُس کے بارے اِس قدر بھی سوچنا کیا
ہم تو ٹھہرے اجنبی اس شہر میں

ہم فقیروں کا کسی سے واسطہ کیا
کیا ہوئیں وہ شوخیاں، وہ بانکپن

آئینے سے ہو گیا ہے سامنا کیا؟
جا بجا بکھرے ہوئے ہیں سنگ کیوں؟

آ گیا تھا شہر میں وہ سرپھرا، کیا؟
ہوش والے کس لیے ناراض ہیں
بے خودی میں ہم نے یونسؔؔؔ کہہ دیا کیا؟
ز
پھول کا خار سے تقابل کیا!

غیر کا یار سے تقابل کیا!
چپ کے معنی ہزار ہیں صاحب!

چپ کا اظہار سے تقابل کیا!
مست و بے خود کا آپ ہی کہیے

ایک ہشیار سے تقابل کیا
نور ہے اک لطیف سا احساس

نور کا نار سے تقابل کیا!
عشق ہشیار و معتبر ہی سہی

حسن پرکار سے تقابل کیا!
سچ تو یہ ہے کہ کاسہ لیسوں کا

ایک خود دار سے تقابل کیا!
کیوں منائے نہ جشن فتح مگر

جیت کا ہار سے تقابل کیا!
صبح اور ماہتاب کا یونسؔؔ
اس کے رخسار سے تقابل کیا!
ز
چاہتوں کا اب نہیں فقدان کیا؟(۲)

ابن آدم بن گیا انسان کیا؟
کیوں نہیں سنتا وہ چیخیں بھوک کی

سو گیا ہے وقت کا سلطان کیا؟
زندگی سے اس قدر کیوں نفرتیں؟

زندگی نے کر دیا نقصان کیا؟
حدِّ امکاں تک ابھی پہنچا نہیں

راستے میں رہ گیا وجدان کیا؟
رنگِ خوں تو بھر دیا تصویر میں

پڑ گئی تصویر میں اب جان کیا؟
کیوں اچانک چھا گیا گہرا سکوت

آنے والا تو نہیں طوفان کیا؟
وقت رخصت بھی وہی شکوے گلے

تجھ سے ہو گا درد کا درمان کیا؟
جا رہا ہوں تیری بستی چھوڑ کر

دل میں تیرے تھا یہی ارمان کیا؟
یہ جو لفظوں میں مرے ہے زندگی

تیری نظروں کا نہیں فیضان کیا؟
خیمہ زن ہو اب کنارِ آب تم

دل کی بستی ہو گئی ویران کیا؟
تیرے لہجے کی بغاوت کیا ہوئی!

آ گیا ہے راس وہ زندان کیا؟
میں جو زندہ ہوں ابھی تک جانِ جاں!
اس کو بھی سمجھوں ترا احسان کیا؟
ز
دل کا بھید بتا دوں کیا!

اپنی خاک اڑا دوں کیا!
بھول گئے ہو وعدہ تو

تم کو یاد دلا دوں کیا!
ہجر میں لطفِ جنوں بھی ہے

غم کی بھینٹ چڑھا دوں کیا!
دیکھ کے تجھ کو دی نہ صدا

خود کو اور سزا دوں کیا؟
سونی ہے یہ مانگ تری

تارے توڑ کے لا دوں کیا!
رات کو رات لکھا ہے تو
اپنے ہاتھ کٹا دوں کیا!
ز
ہو گئی دل کی ترجمانی کیا؟

ختم کر دوں میں اب کہانی کیا؟
ایک پل بھی نہ چین سے گزرا

ایسی ہوتی ہے زندگانی کیا؟
کوئی پوچھے یہ حکمرانوں سے

سب بلائیں ہیں آسمانی کیا؟
اے غمِ دوست! عمر بھر تیری

ہم پہ واجب ہے میزبانی کیا؟
کیا ہوا شور تھا جو یادوں کا

لٹ گئی دل کی راج دھانی کیا؟
آج پوچھیں یہ ہوش مندوں سے

بات دل کی بھی کوئی مانی کیا؟
تیرے ہونے کی میں نشانی ہوں

میرے ہونے کی ہے نشانی کیا؟
یہ تجھے خضر کی تلاش ہے کیوں
چاہیے عمرِ جاودانی کیا؟
ز
شہر کا ماحول بھی یہ کس طرح کا ہو گیا
جس کے جتنے یار تھے اُتنا ہی تنہا ہو گیا
اک تعلق واجبی سا اتنا گہرا ہو گیا
میں تو رُسوا تھا ہی یونسؔؔ وہ بھی رُسوا ہو گیا
گھر سے نکلا ہی تھا میں لے کر وفا کی مشعلیں
پھر نہ جانے کیا ہوا کیوں شور برپا ہو گیا
اُس کی قیمت کیا لگائیں گے امیر شہر اب
مفلسی کی آگ میں جل کر جو سونا ہو گیا
گویا میں نے دشمنی لے لی ہو سارے شہر سے
اک ذرا تجھ سے مرا یہ واسطہ کیا ہو گیا
اُس کے دروازے کی مجھ سے آشنائی دیکھیے!
چاپ قدموں کی سنی اور خود بخود ’’وا‘‘ ہو گیا
اب وہ پہلا سا رویہ ہے نہ اُس کی گفتگو
آئنے سے اُس کا اک دن سامنا کیا ہو گیا
جس کو بھی دیکھوں قسم سے اُس کے جیسا ہی لگے
نقش آنکھوں میں مری کس کا سراپا ہو گیا
ز
خیر، یہ بھی معرکہ سر ہو گیا

اِک تصور تھا جو پیکر ہو گیا
وہ ہوا کے دوش پر جلتا دیا

کس گھروندے کا مقدر ہو گیا!
مفلسی کے کرب سے ناآشنا

مفلسوں کا کیسے یاور ہو گیا
پہلے خوش بُو سنگ ریزوں میں ڈھلی

پھر اچانک پھول پتھر ہو گیا
ایک قطرے کا مقدر خاک تھی

ایک وہ قطرہ جو گوہر ہو گیا
اس قدر پیاسی نہ تھی ساحل کی ریت

خشک پھر کیسے سمندر ہو گیا
اک تیرے آنے سے اے جانِ وفا

شہر کا ماحول بہتر ہو گیا
کس مسافت سے پڑا ہے واسطہ

دو قدم چلنا بھی دوبھر ہو گیا
کس قدر دلکش تھے اُس کے خد و خال
ایک وہ چہرہ جو اَزبر ہو گیا
ز
بدگماں وہ یار کیسے ہو گیا!

شاملِ اغیار کیسے ہو گیا!
تیرے گھر سے میرے گھر تک راستہ

اِس قدر دُشوار کیسے ہو گیا
میرا رُخ تو دشمنوں کی سمت تھا

پشت سے یہ وار کیسے ہو گیا!
کیا ہوئی وہ جان لیوا بے رُخی؟

یہ اچانک پیار کیسے ہو گیا!
جس نے بخشیں عمر بھر ہی نفرتیں

وہ مرا غم خوار کیسے ہو گیا؟
گرنے والی تو بس اک دیوار تھی
سارا گھر مسمار کیسے ہو گیا؟
ز
آپ عزت مآب ہیں صاحب!

ہم ہی شاید خراب ہیں صاحب!
اُترے اُترے ہیں چہرے کلیوں کے

سہمے سہمے گلاب ہیں صاحب!
ہم نے تم کو کیا ہے تخت نشیں

ہم ہی زیر عتاب ہیں صاحب!
ایک ہوتا تو خیر تھی، لیکن

مسئلے بے حساب ہیں صاحب!
ہم سے مت چھینیے، خدا کے لیے

ہم کو پیارے یہ خواب ہیں صاحب!
سچ تو یہ ہے کہ، ظلم ڈھانے میں
آپ اپنا جواب ہیں صاحب!
ز
اب دلاسے نہ دیجیے صاحب!

ہونٹ تو کب کے سی لیے صاحب!
بزم رنداں میں کیسے زحمت کی

کچھ وضاحت تو کیجیے صاحب!
ہم پہ تنقید کا ہے شوق اگر

اپنے اندر بھی جھانکیے صاحب!
خیر چہرہ تو کیا پڑھیں گے آپ

غور لہجے پہ کیجیے صاحب!
زہرِ انسان بھی ہے مہلک جب

سانپ بے شک نہ پالیے صاحب
سانس لینا بھی چھوڑ دیں اب کیا
بات کرنے کی کیجیے صاحب!
ز
تم معتبر ہوئے ہو جس سے ملا کے ہاتھ
وہ شخص لے گیا تھا میرے چرا کے ہاتھ
اک بھی دیا رہا نہ پھر اُس کی دسترس میں
کچھ اس طرح سے رو کے ظالم ہوا کے ہاتھ
ممکن ہے لَوٹ آئے لیکن نہ جانے کیونکر
اَب کے گیا نہیں وہ مجھ سے مِلا کے ہاتھ
پھر بھی نہ بجھ سکی ہے یہ آگ نفرتوں کی
اِس کشمکش میں رہ گئے ہم تو جلا کے ہاتھ
اب کے ہوئی ہے جو بھی میرے خلاف سازش
لگتے ہیں اِس کے پیچھے اُس آشنا کے ہاتھ
اُن سے تو جا کے پوچھو کیا ہے قلم کی حرمت
جو سرخ رُو ہوئے تھے اپنے کٹا کے ہاتھ
طائر تمھاری جاں کا اِک دن دبوچ لیں گے
روکے سے کب رُکے ہیں یونسؔؔ قضا کے ہاتھ

ز
لاکھ بے شک تو استخارا کر!

وہ نہ لوٹے گا مت پکارا کر!
رو پڑیں ہم بھی دیکھ کر تجھ کو

اتنا غم بھی نہ تُو ہمارا کر!
تو پیمبر ہے روشنی کا اگر

ایک ذرے کو تو ستارا کر!
منصبِ فقر کی طلب ہے اگر

ہم فقیروں سے مت کنارا کر!
دشتِ امکاں سے میں نکلتا ہوں

اے مرے خضر! کچھ اشارا کر!
ہو بھی سکتی ہے کوئی اَن ہونی

وحشتِ دل کا کوئی چارا کر!
اک گزارش ہے، حکم ہو تو کہوں

سخت لہجے میں مت پکارا کر!
زخم ناسور بنتا جاتا ہے
چارا گر میرے کوئی چارا کر!
ز
بے شک نہ وفا کر!

ملتا تو رہا کر!
بس حکم کیا کر!

طعنے نہ دیا کر!
تو اپنے سوا بھی

کچھ سوچ لیا کر!
بجھ جائے بھلے ہی

روشن تو دیا کر!
میرا ہے یہاں کون

خود سے نہ جدا کر!
پھرنے کو ہیں سڑکیں
دن رات پھرا کر!

ز
بے شک نہ مرے یار کبھی مجھ سے وفا کر
لیکن یہ گزارش ہے کہ ہنس کر تو ملا کر!
شاید تجھے معلوم نہیں سچ کے پجاری
اس شہر میں رہنا ہے تو خاموش رہا کر!
شہرت ہے بہت تیری سخاوت کی ولیکن
ہم درد کے ماروں کا بھی احساس کیا کر!
ہم بھی تو اسے دیکھیں ذرا وقت کے منصف
اس بار تو ظالم کو کٹہرے میں کھڑا کر!
دن چڑھتے ہی مزدوری پہ جانا ہے تجھے پھر
دن چڑھنے سے پہلے تو ذرا سو بھی لیا کر!
ز
کچھ تو مجھ سے بات کر!

رائیگاں مت رات کر!
منہا اپنی ذات سے

یوں نہ میری ذات کر!
ہم فقیرِ شہر ہیں

ہم سے تو نہ ہات کر!
گر خوشی درکار ہے

آنکھ سے برسات کر!
کب سے ہوں کاسہ بدست
اے سخی! خیرات کر!
ز
ہر عہد سے مکر کر

کہتے ہو درگزر کر!
بننا ہی تھا تماشا

دل سے ترے اتر کر!
رسماً بھی نہ ملا توُ

پہنچا تھا، کوئی مر کر!
اتنی بھی بے رخی کیا
رخ تو ذرا اِدھر کر!
ز
آنکھ نکلی نہ خواب سے باہر(۳)

اک مسلسل عذاب سے باہر
اک جہاں اور چاہیے بسنا

اس جہانِ خراب سے باہر
پارسائوں کے خیر مقدم کو

مستی نکلی شراب سے باہر
ہم نے دیکھی ہے رقص کرتے ہوئے

آج خوشبو گلاب سے باہر
دل کا عالم نہ پوچھیے صاحب!

جیسے مچھلی ہو آب سے باہر
یہ محبت بھی چیز کیسی ہے!

ہم نہ نکلے سراب سے باہر
اُس کے ہونٹوں کو چومنے کے لیے

لفظ نکلے کتاب سے باہر
ہم سے دنیا سوال کرتی ہے

چاہتوں کے نصاب سے باہر
ہم بھی دیکھیں کہ آپ کیسے ہیں!

آپ نکلیں جناب سے باہر
اُس کے بخشے ہوئے یہ غم یونسؔـؔ
ہو رہے ہیں حساب سے باہر
ز
کچھ تو عیاں، مجبوری کر!

ورنہ ختم یہ دوری کر!
بھوک ہے گھر میں اس کا سوچ

عشق نہیں مزدوری کر!
ردِ عمل بھی دیتا ہوں

اپنی بات تُو پوری کر!
حق کا علم تُو بے شک تھام
سوچ بھی اب منصوری کر!
ز
بے نام سا تعلق

کس کام کا تعلق
پتھر کا آئینے سے

ہے تو، بتا تعلق!
کہنا تو سچ ہی کہنا

مت دیکھنا تعلق
ہم نے اسے نبھایا

جب تک رہا تعلق
گل ہی نہ اب کھلا دے
یہ ٹوٹتا تعلق
ز
باب نیا اک کھُلتا دیکھ!

شر اور خیر ہیں یکجا دیکھ!
جا بھی چکا وہ جانے والا

اب تُو بیٹھ کے رستہ، دیکھ!
لمحہ لمحہ سمٹ رہی ہے

چشم ِفلک یہ دنیا، دیکھ!
کس نے ہے بخشا یہ مت پوچھ!

زخم ہے کتنا گہرا، دیکھ!
راہ میں مجھ کو چھوڑنے والے
کتنا کٹھن ہے رستہ دیکھ!
ز
اپنی حد میں رہنا سیکھ

جینا ہے تو جینا سیکھ
خوشیوں کی بھی خواہش کر

لیکن غم بھی سہنا سیکھ
شکنیں ڈال نہ ماتھے پر

سچی بات بھی سننا سیکھ
ہم کو قائل کرنا ہے تو

پہلے بات تو کرنا سیکھ
بہتر ہے درویش کسی سے

نفرت سے تُو بچنا سیکھ
لفظ ترے یہ اپنی جا

لیکن شعر بھی کہنا سیکھ
یونسؔؔ تارے گننا چھوڑ
ہجر کے صدمے سہنا سیکھ
ز
ہاں، سمجھتے ہیں اس کا غم، ہم لوگ

جس کو ہوتے نہیں بہم، ہم لوگ
ہم سے پوچھو سفید پوشی کا

کیسے رکھتے ہیں اب بھرم، ہم لوگ
جانے کس خوف سے پلٹ آئے

چل ہی پا ئے تھے دو قدم، ہم لوگ
تیری خواہش ہے وقت کے حاکم

یونہی سہتے رہیں ستم، ہم لوگ
تخت پر بیٹھنے سے پہلے کیا!
تم کو پیارے نہ تھے صنم، ہم لوگ
ز
سمجھتا، کیوں نہیں دل

سنبھلتا، کیوں نہیں دل
اگر وہ جاچکا ہے

تڑپتا کیوں نہیں دل
نہیں ہے سانس مدھم

دھڑکتا کیوں نہیں دل
ہے ویراں دل کی بستی

بلکتا کیوں نہیں دل
اب اس کو دیکھ کر بھی

مچلتا کیوں نہیں دل
کسی بھی بات سے اب
بہلتا کیوں نہیں دل
ز
غم کی تصویر جب بنانا تم!

ہم سے لوگوں کو مت بھلانا تم!
گفتگو پر نہ اس کی جانا تم!

اس منافق سے مل کے آنا تم!
لالچی ہیں نہ ہم بکائو ہیں

سوچ کر رسم و رہ بڑھانا تم
نسلیں بھگتیں گی اس کا خمیازہ

گھر میں دیوار مت بنانا تم
ہم بتائیں گے طور جینے کے

ہم فقیروں سے ملنے آنا تم
گر بتا دیں کہ زندگی کیا ہے

بھول جائو گے مسکرانا تم!
ہم بھی دیکھیں یہ چاند دھرتی کا

رُخ سے زلفیں ذرا ہٹانا تم!
دیکھ لینا ہوا کے تیور بھی

اِن چراغوں کو پھر جلانا تم!
یونہی ملتے رہو فقیروں سے

سیکھ جائو گے غم چھپانا تم!
جب کبھی یاد میری تڑپائے

ڈھلتے سورج کو دیکھ آنا تم!
غم اُٹھائو گے، چھوڑ دو یونسؔ
اپنے یاروں کو آزمانا تم!
ز
دیتے ہوئے دعائیں اک دوسرے کو ہم
بہتر ہے بھول جائیں اک دوسرے کو ہم
بے شک نہ اب ملیں ہم لیکن خدا کرے
شدت سے یاد آئیں اک دوسرے کو ہم
میری طرح سے تو بھی ہے لاپتہ یقیناً
آ جا کہ ڈھونڈ لائیں اک دوسرے کو ہم
ہونا تو چاہیے نا اس میں بھی اک سلیقہ
نیچا بھی گر دکھائیں اک دوسرے کو ہم
یہ کیا کہ روٹھ جانا کھل کے نہ کچھ بتانا
احساس تو دلائیں اک دوسرے کو ہم
مضبوط ہے یہ بندھن کیسے بھلا یہ ٹوٹے
جتنا بھی اب ستائیں اک دوسرے کو ہم
جب تک دلوں میں اپنے یہ بد گمانیاں ہیں
کیوں کر گلے لگائیں اک دوسرے کو ہم
مہر و وفا سکوں میں ہیں دونوں ہی خود کفیل
در در تو نہ پھرائیں اک دوسرے کو ہم
اک دن رقم یہ ہوں گے چہروں پہ دیکھ لینا
بے شک نہ دکھ بتائیں اک دوسرے کو ہم
مجبوریاں ہیں یونسؔؔ دونوں کی ایک جیسی
کیسے مگر بتائیں اک دوسرے کو ہم
ز
اتنا تنہا ہو گیا میں ایک دن

خود پہ افشا ہو گیا میں ایک دن
بیٹھے بیٹھے بے سبب ہی دوستو!

مطمئن سا ہو گیا میں ایک دن
ایسا اک منتر پڑھا بے مہر نے

اس کے جیسا ہو گیا میں ایک دن
اس قدر تھا ناروا اس کا سلوک

ریزہ ریزہ ہو گیا میں ایک دن
روپڑے دیوار و در بھی شہر کے
اتنا رسوا ہو گیا میں ایک دن
ز
عہد ِوفا ہی تم نے نبھانا نہ تھا یہاں!
حائل ہمارے بیچ زمانہ نہ تھا یہاں
یوں جارہا تھا جیسے پلٹ آئے گا کبھی
وہ شخص جس کو لوٹ کے آنا نہ تھا یہاں
دو چار گھونٹ دے کے سمندر نے یہ کہا
اتنی ہی تشنگی تھی تو آنا نہ تھا یہاں
گر تجھ کو اس قدر ہی تھا رسوائیوں کا خوف
اس بے وفا کے کوچے میں جانا نہ تھا یہاں
اچھا کیا جو سایہء دل میں بٹھا لیا
ہم بے گھروں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا یہاں
اے چشم ِیار تیری توجہ کا شکریہ!
ورنہ کسی نے ہم کو تو مانا نہ تھا یہاں
ہوش و خرد کے کھونے کا کرنا تھا گر ملال
اہلِ جنوں سے ربط بڑھانا نہ تھا یہاں
ساری ہی رات اس کو سنانے میں کٹ گئی
اتنا طویل گرچہ فسانہ نہ تھا یہاں

ز
آگ بے شک جلا کے بیٹھ یہاں

اپنا دامن بچا کے بیٹھ یہاں
تجھ پہ عقدے کھلیں گے ہستی کے

ہم فقیروں میں آ کے بیٹھ یہاں
میکدہ ہے، نگار خانہ نہیں

اپنی آنکھیں جھکا کے بیٹھ یہاں
شمعِ محفل ہے، شمع ِمحفل بن

رخ سے زلفیں ہٹا کے بیٹھ یہاں
غم کی دولت بھلے ملے نہ ملے

دل کا دامن بچھا کے بیٹھ یہاں
کیوں بڑھائے تو غیر کی توقیر!

آ مرے پاس آ کے بیٹھ یہاں
تو بھلے جس بھی خاندان سے ہے
اپنی ہستی مٹا کے بیٹھ یہاں
ز
اعجازِ سیم و زر ہے، کیسے یقین کر لوں
وہ شخص معتبر ہے، کیسے یقین کر لوں
کل تک تو تُو خفا تھا، لیکن یہ آج میرے
زانو پہ تیرا سر ہے کیسے یقین کر لوں
دن بھر تراشتا ہے پتھر کی مورتیں جو
کہتے ہو شیشہ گر ہے کیسے یقین کر لوں
خوشبو کا ہم سفر تھا ابھی کل کی بات ہے
اب خاک ِرَہ گزر ہے کیسے یقین کر لوں
دنیا سے بے خبر ہے یہ بات معتبر ہے
مجھ سے وہ باخبر ہے کیسے یقین کر لوں
پھرتا ہے مارا مارا دن رات جو یہاں پر
اس کا بھی کوئی گھر ہے، کیسے یقین کر لوں
پہنچا ہے ساتھیو جو مقتل میں سر چھپانے
دانا ہے، دیدہ ور ہے، کیسے یقین کر لوں
حرمت قلم کی بیچی اور سُرخرو ہوا ہے
خود دار و معتبر ہے، کیسے یقین کر لوں
جس سے اٹھا دیا ہے، یونسؔؔ کو بے رخی سے
اے یار تیرا در ہے کیسے یقین کر لوں
ز
غم کی سوغات لیے پھرتا ہوں

تیری خیرات لیے پھرتا ہوں
زندگی دیکھ! نہیں ہوں تنہا

تیرے دکھ سات لیے پھرتا ہوں
کوئی سمجھے تو سب بیاں بھی کروں

دل میں جو بات لیے پھرتا ہوں
دل میں اتنی تھی کہاں گنجائش

جتنے صدمات لیے پھرتا ہوں
پہلے تو صرف زباں کاٹی گئی
اب کٹے ہات لیے پھرتا ہوں
ز
رنگ پھولوں سے چراتے ہوئے رو پڑتا ہوں
اُس کی تصویر بناتے ہوئے رو پڑتا ہوں
شام ہوتے ہی کسی گوشۂ تنہائی میں
روٹھے لمحوں کو مناتے ہوئے رو پڑتا ہوں
جو میرے شہر کی توقیر ہوا کرتا تھا
آئنہ اس کو دکھاتے ہوئے رو پڑتا ہوں
رات بھر جو میری تنہائی کے ساتھی ٹھہرے
ان چراغوں کو بجھاتے ہوئے رو پڑتا ہوں
ہو سکا جو نہ مرا میرے قریں رہ کر بھی
جانے کیوں اس کو بھلاتے ہوئے رو پڑتا ہوں
تذکرہ اس کی جفا کا جو کہیں آجائے
داستاں اپنی سناتے ہوئے رو پڑتا ہوں
میں کروں یاد اسے، یا کہ خدا کو یونسؔ
دل میں یہ جوت جلاتے ہوئے رو پڑتا ہوں
ز
جان مری، میں کر سکتا ہوں

اپنی نفی، میں کر سکتا ہوں
چھوڑ رہا ہوں شہر تمہارا

اب تو یہی، میں کر سکتا ہوں
ہو جو اجازت گئے دنوں کی

بات کوئی میں کر سکتا ہوں
تو ہی بتا کیا غم سے ترے

پہلو تہی، میں کر سکتا ہوں
جھوٹا گر گردانا ہے تجھ کو

ثابت بھی میں کر سکتا ہوں
اس نے اب کیا ہونا میرا
خواہش ہی میں کر سکتا ہوں

ز
کب میں تجھ سا دکھائی دیتا ہوں

ہوں میں جیسا دکھائی دیتا ہوں
اتنا تنہا نہیں ہوا میں ابھی

جتنا تنہا دکھائی دیتا ہوں
مجھ کو اُتنا تو وہ کرے تسلیم

جس کو جتنا دکھائی دیتا ہوں
اچھا بننے کی کشمکش میں ہوں

سب کو بگڑا دکھائی دیتا ہوں
اک نئے زخم کا ہے رد عمل

میں جو ہنستا دکھائی ہوں
چھوڑ دنیا کو مجھ کو اتنا بتا

تجھ کو کیسا دکھائی دیتا ہوں
حق میں مرے وہی گواہی دے

جس کو سچا دکھائی دیتا ہوں
اتنا اچھا تو خیر میں بھی نہیں
جتنا اچھا دکھائی دیتا ہوں

ز
کندن اگر ہوا ہوں

اک عمر میں جلا ہوں
انسان ڈھونڈتا ہوں

پاگل نہیں تو کیا ہوں
مانا کہ میں برا ہوں

تیرا تو ہم نوا ہوں
فرصت ملے تھے سوچوں

کیوں اتنا سوچتا ہوں
تیرا نہیں رہا تو

اپنا بھی کب رہا ہوں
اے عشق! تیرے ہاتھوں
رسوا بہت ہوا ہوں

ز
میں جلتا جا رہا ہوں

نکھرتا جا رہا ہوں
خود اپنی دسترس سے

نکلتا جا رہا ہوں
سنورنا چاہیے تھا

بگڑتا جا رہا ہوں
ترے دل سے بھی شاید!

اُترتا جا رہا ہوں
وہ چہرہ دیکھنا تھا

میں پڑھتا جا رہا ہوں
نہ تھامو! گر پڑوں گا

سنبھلتا جا رہا ہوں
سمٹنے کی سعی میں

بکھرتا جا رہا ہوں
نہ بجھتا ہوں نہ جلتا

سلگتا جا رہا ہوں
عزائم دوستوں کے

سمجھتا جا رہا ہوں
وہ جانے پر بضد ہے
میں مرتا جا رہا ہوں
ز
رفتہ رفتہ بکھر رہا ہوں میں

اُس کے دل سے اُتر رہا ہوں میں
مُضطرب کیوں ہیں چارہ گر میرے

کب تھا زندہ جو مر رہا ہوں میں
مجھ سے پوچھو عذابِ در َبدَری

مدتوں در بدر رہا ہوں میں
خوف کیسا ہے ، جاگزیں دل میں

اپنے سائے سے ڈر رہا ہوں میں
کیا کروں گا اگر بھلا نہ سکا

تجھ سے وعدہ تو کر رہا ہوں
اپنی پہچان بھی تو کھو دی ہے

دُور تجھ سے اگر رہا ہوں میں
بات سن کر وہ اس طرح چونکے

گویا الزام دھر رہا ہوں میں
میرے حاسد کو ایک ہی دُکھ ہے

لمحہ لمحہ سنور رہا ہوں میں
گردشو! جائو پھر کبھی ملنا
دم محبت کا بھر رہا ہوں میں
ز
سننی پڑیں نا، کتنی باتیں

اور کرو، تم سچی باتیں
خالی جیب اور سچی باتیں

کون سنے گا تیری باتیں!
عہدِ ستم میں سچی باتیں

مت کر، پاگل پن کی باتیں
اپنی رہیں نہ اپنی باتیں

گھر گھر پہنچیں گھر کی باتیں
بہتر تھا کہ کر لی جاتیں

اپنے آپ سے دل کی باتیں
اہلِ ہوس تھے پانی پانی

سن کر اک درویش کی باتیں
ہم نے فقط اک آہ بھری تھی

سننی پڑیں پھر کتنی باتیں
رات گئے تک ہوتی ہیں اب

چاند سے پیارے تیری باتیں
جھوٹ بھی تیرا سچ کے جیسا

کون سنے یہ الجھی باتیں
یونسؔؔؔ یہ بھی درویشی ہے
معنی خیز یہ تیری باتیں
ز
کب مری جان بے وفا تھا میں

دور تجھ سے کیا گیا تھا میں
اس کی خواہش نہ مدعا تھا میں

عشق میں جس کے مبتلا تھا میں
اب یہ سوچوں تو شرم آتی ہے

تجھ سے کتنا گریز پا تھا میں
میں نہیں، آئنہ تھا شرمندہ

جس متانت سے تک رہا تھا میں
دل ہی مانا نہیں خدا کی قسم

ختم کرنے کو واسطہ تھا میں
تجھ سے کم ظرف کے اٹھائے ناز

نہیں پاگل تو اور کیا تھا میں!
جس کو چاہا تھا پاگلوں کی طرح

اس کی خواہش نہ مدعا تھا میں
دل نے شاید مجھے ہو روک لیا
ورنہ جانے کو جاچکا تھا میں
ز
سوچ رہا ہوں بیٹھا گھر میں

خوف ہے کیسا بام و در میں
حیرت ہے کچھ موم کے پیکر

گھوم رہے تھے دھوپ نگر میں
پیچھے مڑ کر دیکھنے والے

ہو گئے پتھر لمحہ بھر میں
رہنے دو تم پریم کہانی
کون سنے گا شور و شر میں
ز
مجھ کو چبھتا ہے، تیری آنکھوں میں

عکس کس کا ہے؟ تیری آنکھوں میں
روتی رہتی ہیں، کوئی موسم ہو

کوئی دریا ہے، تیری آنکھوں میں
کس کو دیکھا ہے پیار سے تو نے!

کون ڈوبا ہے تیری آنکھوں میں!
تیرے دل میں مجھے اترنا ہے

کوئی رستہ ہے، تیری آنکھوں میں!
ایسی کیا بات ہوگئی، یونسؔؔ!
حشر برپا ہے، تیری آنکھوں میں
ز
لمحے زَنجیر، کر رہا ہوں میں

غم کو تسخیر کر رہا ہوں میں
حق کی تشہیر کر رہا ہوں میں

ذِکر شبّیر کر رہا ہوں میں
گرتے دیکھا ہے خواب میں اس کو

گھر جو تعمیر کر رہا ہوں میں
اتنی بہتر بنیں گی تصویریں

جتنی تاخیر کر رہا ہوں میں
خود سے ملنے کی ایک مدت سے

کوئی تدبیر کر رہا ہوں میں
ہیں سب اہلِ وفا ہَمہ تَن گوش
غم کی تفسیر کر رہا ہوں میں
ز
سچ کا نقیب ہوں میں

کتنا عجیب ہوں میں!
مجھ سے ہے دور کوسوں

جس کے قریب ہوں میں
خود ہی میں اپنا سامع

خود ہی خطیب ہوں میں
اب تو ملا دے مولا!

جس کا نصیب ہوں میں
لہجہ ہے تلخ کتنا!
کیسا غریب ہوں میں
ز
سنو تو، کچھ کہوں میں!

کہ، یونہی چپ رہوں میں!
کروں تو کیا کروں میں

کہ تجھ سا ہی لگوں میں!
گنوں، احسان تیرے

کہ زخموں کو گنوں میں!
چراغو حوصلہ دو!

ہوا سے لڑ سکوں میں
خوشی ہو، تیری خاطر

اگر کچھ کر سکوں میں
کنارا، وہ بھی تجھ سے

کروں تو، کیوں کروں میں
کچھ ایسا کر تو عیسٰی

سکوں سے مر سکوں میں
دیے گل کر چکا ہوں

ہوا سے کیوں ڈروں میں
ٹھکانہ ہو تو شب بھر
سڑک پر یوں پھروں میں
ز
رو رہی تھی سسکیوں میں

زندگی، کچے گھروں میں
مہر و الفت کے مناظر

اب کہاں ان بستیوں میں
جان تھا جو محفلوں کی

جا بسا ہے جنگلوں میں
کام کیا اہلِ خرد کا

ہم سے بگڑے سر پھروں میں
ہم نے دیکھی بین کرتی

بے کَسی خستہ گھروں میں
ماہ رُو گہنا گئے ہیں

اس قدر محرومیوں میں
ہر جگہ موجود ہے جو

ڈھونڈتے ہو جنگلوں میں
ہے اندھیرا مسکنوں میں
روشنی ہے مَعبدوں میں
ز
اگر اچھا نہیں میں

تو کیا تیرا نہیں میں
معما تو نہیں، تُو!

جسے سمجھا نہیں میں
اُڑے کیوں خاک میری

اگر جھوٹا نہیں میں
فرشتہ بھی کہو کیوں!

اگر بندہ نہیں میں
وہاں دیکھا گیا ہوں

جہاں ہوتا نہیں میں
کرو ہو کیوں نصیحت

اگر سنتا نہیں میں
دھڑکتا کیوں ہے یہ دل
اگر زندہ نہیں میں
ز
کہہ دیا ہو گا بے دھیانی میں

ورنہ لگتی ہے آگ پانی میں!
کٹ ہی جائے گا چاہتوں کا سفر

اس کی یادوں کی میزبانی میں
گر ہے سچی تو اے کہانی گو!

موڑ اتنے ہیں کیوں کہانی میں
خود کو کب تک سنبھال پاؤں گا

شدتِ رنجِ رائیگانی میں
رنگِ الفت ہی کیا نہیں کافی!

رنگ بھرنے کو زندگانی میں
کتنی صدیوں کے بھید ہیں پنہاں

ہم فقیروں کی بے زبانی میں
مجھ سے منسوب ہے کہانی گر

میں کہاں ہوں تری کہانی میں
تب کھلا مجھ پہ آئنے کا سچ

عکس دیکھا جو اپنا پانی میں
آ رہا ہو گا بھولنے والا

کٹ گئی عمر خوش گمانی میں
بھوک عُسرت ملی ہمیں ظالم
اِس ترے دورِ حکم رانی میں
ز
ہم جو مثلِ سایہء دیوار ہیں

اِک مسلسل کرب سے دوچار ہیں
کیا کریں یہ فاختائیں امن کی

ہم تو باہم برسرِ پیکار ہیں
ہر کسی کی اپنی اپنی سوچ ہے

گھر کی بربادی کے یہ آثار ہیں
اہلِ دل، اہلِ نظر، اہلِ وفا

زندگی سے کس قدر بے زار ہیں
وہ بھی سنتا کاش ان کو ایک دن
جس کی بخشش یہ مرے اشعار ہیں
ز
کیوں نہ رستے وہ اختیار کریں

منزلوں سے جو ہم کنار کریں
کٹ بھی سکتی ہے رات فرقت کی

ہم ستارے اگر شمار کریں
ہم پہنچ جائیں گے لٹیروں تک

گر تعاون یہ پہرے دار کریں
رشتہ رکھا بحال دھرتی سے

اور کیا ہم سے خاکسار کریں
ہم وہی ہیں تُو آزما تو سہی

حکم ہو گر تو جاں نثار کریں!
کچھ منافق ہیں اپنے لشکر میں

کیوں نہ تسلیم اپنی ہار کریں
پھر سجائیں گے بزم ہستی کو

غم کا دریا تو پہلے پار کریں
اب تو سوچا ہے زندگی اپنی
جس قدر بھی ہے وقفِ یار کریں
ز
خار و خس کو گلاب کیا لکھیں

ہم حقیقت کو خواب کیا لکھیں
منصفِ شہر کے یہ پروردہ

سچ پہ مبنی کتاب کیا لکھیں
شہر سارا ہمارے درپے ہے

رنجشوں کا حساب کیا لکھیں
جس کے شر کا ہے کو بہ کو چرچا

اس کو عالی جناب کیا لکھیں
دکھ دئیے بے حساب دنیا نے

ہم دکھوں کا حساب کیا لکھیں
وقتِ رخصت جدائی کا نوحہ

دلِ خانہ خراب کیا لکھیں
مہرباں جن پہ زندگانی ہو
زندگی کے عذاب کیا لکھیں
ز
اُس کی دہلیز پہ رکھ دیتے ہیں جا کر آنکھیں(۴)
جو گزر جاتا ہے ہر بار چرا کر آنکھیں
خواب دکھلا کے مجھے بیتے ہوئے لمحوں کے
چین سے سو گئیں خود مجھ کو جگا کر آنکھیں
چاند، جگنو نہ ستارا ہی کوئی بھائے اُسے
جب سے آیا ہے وہ سورج سے ملا کر آنکھیں
جا رہا ہے تری دنیا سے بہت دُور کوئی
اک نظر دیکھ تو لے، اب تو اُٹھا کر آنکھیں
میں نہ کہتا تھا، ’’نہیں ہجر میں رونا اچھا‘‘
کیا ملا تجھ کو بھلا، اپنی گنوا کر آنکھیں
کیا خبر مجھ سے محبت ہے کہ نفرت اُس کو
بات کرتا ہی نہیں مجھ سے ملا کر آنکھیں
ایسی کیا بات ہے ، اُس شوخ کی آنکھوں میں کہ لوگ
خوش ہوئے پھرتے ہیں کاغذ پہ بنا کر آنکھیں
ز
جس درجہ مسائل ہیں

کب اتنے وسائل ہیں
لہجہ ہے دبنگ ان کا

کس در کے یہ سائل ہیں؟
اُس حسنِ مجسم کے

ہم آج بھی قائل ہیں
کچھ اپنے رویے بھی

ہم دونوں میں حائل ہیں
کچھ اس نے بھی ہیں بخشے

کچھ اپنے مسائل ہیں
مت چھیڑ غزل یونسؔ
ہم پہلے ہی گھائل ہیں
ز
حالانکہ اِک پرندہ بھی بے بال و پَر نہیں
لیکن یہ کیا کہ کوئی بھی محوِ سفر نہیں
اس شہرِ بے اماں سے چلو کوچ کر چلیں
محفوظ اب یہاں تو کسی کا بھی گھر نہیں
صد شکر اس کے شر سے میں ہوں بچ گیا مگر
چھوڑی تو ویسے اس نے بھی کوئی کسر نہیں
الفت کے اس سفر میں کوئی ہم سفر بھی ہو
تنہا کسی بھی طور یہ کٹتا سفر نہیں
مدت کے بعد مجھ پہ یہ ظاہر ہوا کہ میں
جیسا دکھائی دیتا ہوں ویسا مگر نہیں
ہر شخص میری طرح کرے تجھ پر اعتبار
اتنا بھی خیر بستی میں تُو معتبر نہیں
غیروں سے رسم و راہ بڑھانے سے فائدہ
اب تک تو کچھ ہوا نہیں، کل کی خبر نہیں
سب ہی دکھا رہے ہیں مجھے راہ پیار کی
ہم راہ مرے کوئی بھی چلتا مگر نہیں
حیرت ہے جان لیوا جدائی کے باوجود
زندہ ہوں اور جاں سے گیا میں گزر نہیں
ز
اپنا کہنے کی کسی کو یہ سزا ٹھیک نہیں
بے سبب ہم سے اُلجھنا یہ ترا ٹھیک نہیں
بن گیا ہے وہ ترے شہر میں عبرت کا نشاں
اس قدر بھی یہ ترے جَور و جفا ٹھیک نہیں
تو کہ غیروں کی محبت کا جو دَم بھرتا ہے
اپنے پھر اپنے ہیں اپنوں کا گلہ ٹھیک نہیں
گنبدِ جسم میں کیسی ہیں دراڑیں، مولا!
بے نوائی کا مری یہ تو صلہ ٹھیک نہیں
کچھ تو پہلے ہی مسائل میں گھرے رہتے ہیں
اَب رویہ بھی ترا ہم سے ذرا ٹھیک نہیں
ہم نے ہر موڑ پہ رکھا ہے وفائوں کا بھرم
ہم پہ الزام جفا، جانِ وفا ٹھیک نہیں
جس کا مقصد ہو فقط پیاس بڑھانا یونسؔ
کتنی دل کش بھی ہو ایسی تو گھٹا ٹھیک نہیں
ز
رہ وفا کا مسافر ابھی تھکا تو نہیں
گو زخم زخم ہے لیکن کہیں رُکا تو نہیں
یہ کیا کیا ؟ مجھے مجھ سے ہی تم نے چھین لیا
مری وفا مری چاہت کا یہ صلہ تو نہیں
مجھے یقیں ہے کہ اک دن وہ لوٹ آئے گا
خفا ضرور ہے مجھ سے ، وہ بے وفا تو نہیں
ستم پہ اُس کے بھلا کیوں نہ احتجاج کریں
امیر شہر ہے یارو کوئی خدا تو نہیں
وہی ہوا نا! اُسے زندگی نے مار دیا
کہا تھا جس نے کبھی زندگی سزا تو نہیں
اُداس میرے لیے وہ بھی اس قدر یونسؔ
عجیب بات ہے ایسا کبھی ہوا تو نہیں
ز
کیسے کہہ دوں کہ، ہوا کچھ بھی نہیں
جب کہ بارش میں بچا کچھ بھی نہیں
میری نس نس میں وفا ہے موجزن
اس کی نظروں میں وفا کچھ بھی نہیں
دیکھ سکتا ہے تو بے شک دیکھ لے!
درد جو اس نے دیا کچھ بھی نہیں
میرے دل میں تیری یادوں کے سوا
کچھ نہیں جانِ وفا کچھ بھی نہیں
بحر ہستی میں ہوں کب سے غوطہ زن
باوجود اس کے ملا کچھ بھی نہیں
بے سبب مجھ سے وہ روٹھا ہے جناب!
میں نے اس سے تو کہا کچھ بھی نہیں
رزق تو ان کو بھی دیتا ہے خدا
وہ جو کہتے ہیں خدا کچھ بھی نہیں
ز
عجیب دل ہے میری بات مانتا ہی نہیں
یہ پوجتا ہے اُسی کو جو دیوتا ہی نہیں
ہوئی ہے جس کے سبب شہر شہر رُسوائی
کمال یہ ہے کہ اُس شخص کو پتا ہی نہیں
جلا تو بیٹھا تھا اک دن میں تیری فرقت میں
چراغِ شامِ اَلم ہے کہ پھر بجھا ہی نہیں
یہ کیا کہ کر دیے بارش نے راستے مسدود
سفر پہ میں تو روانہ ابھی ہوا ہی نہیں
اُسی کو ڈھونڈتی رہتی ہیں مضطرب آنکھیں
خلوصِ دل سے کبھی شخص جو ملا ہی نہیں
کروں میں کس سے وہ منسوب کوئی بتلا دے!
وہ ایک درد کہ جس کی کوئی دوا ہی نہیں
ابھی سے رو پڑی کنجِ قفس کی تنہائی
ابھی تو حکمِ رہائی مجھے ملا ہی نہیں
ز
مجھ سے بے زار، ایک تُو ہی نہیں

ہیں سبھی یار، ایک تُو ہی نہیں
تجھ پہ ہی کیوں ہے مہرباں حاکم!

جب کہ فن کار، ایک تُو ہی نہیں
اچھے داموں بکیں گے خواب مرے

اب خریدار ایک تُوہی نہیں
فکر مندی تری بجا، لیکن

غم سے دوچار، ایک تُوہی نہیں
شکر ہے پیارے، شہر سارا ہے

میرا غم خوار، ایک تُو ہی نہیں
کچھ خبر ہے کہ دام میں اس کے

اے دلِ زار، ایک تُو ہی نہیں
ہم نے کچھ سوچ کر دیا ہے دل
ورنہ حق دار، ایک تُو ہی نہیں
ز
سب کے ہیں بے شکل چہرے مانتا کوئی نہیں
آئنے بھی کیا کریں جب دیکھتا کوئی نہیں
دو دلوں کے درمیاں یہ رابطہ تو دیکھیے!
گفتگو تو ہو رہی ہے، بولتا کوئی نہیں
وہ بھی دن تھے ہم سے تھیں جب شہر بھر کی رونقیں
یہ بھی دن ہیں اب ہمیں پہچانتا کوئی نہیں
جس طرح سے ہم نے تجھ سے پیار مانگا بھیک میں
اس طرح تو زندگی بھی مانگتا کوئی نہیں
دوسروں کی عیب جوئی میں سبھی مصروف ہیں
اپنے اندر میرے ہمدم! جھانکتا کوئی نہیں
وقت سے آگے نکلنے کا جنوں ہے اس قدر
اب تو پیچھے مڑ کے اپنے دیکھتا کوئی نہیں
اس سے بڑھ کر بے حسی اب اور کیا ہو گی بھلا!
ہر طرف ہے شور برپا، جاگتا کوئی نہیں
جا رہا ہے جو تمھارے شہر سے مت روکنا!
یوں صدا دینے سے یونسؔؔ لوٹتا کوئی نہیں
ز
بے گانۂ جہاں ہیں

اے عشق، ہم کہاں ہیں!
اس کی سناؤ، یارو!

ہم ٹھیک ہیں، جہاں ہیں
دِکھنے میں ہیں اکیلے

ہم مثلِ کارواں ہیں
ٹوٹی ہے، کیا قیامت!

چہرے دھواں دھواں ہیں
تم وجہ رشک ٹھہرے

عبرت کا ہم نشاں ہیں
جو جان وارتے تھے

وہ لوگ اب کہاں ہیں؟
نسبت ہے، شاہِ دیںؐ سے

ہم فخر قدسیاں ہیں
دے کر صدا تو دیکھو!
ہم دُور ہی کہاں ہیں
ز
رفتہ رفتہ خواب، ہوتی جا رہی ہیں

چاہتیں نایاب، ہوتی جا رہی ہیں
ندیاں جو بہہ رہی ہیں خون کی

کھیتیاں سیراب، ہوتی جا رہی ہیں
دل میں نفرت کا اندھیرا بڑھ رہا ہے

صورتیں مہتاب ہوتی جا رہی ہیں
زندگی سے پیار ہوتا جا رہا ہے

خواہشیں کم یاب ہوتی جا رہی ہیں
ناخداؤں کو کوئی پروا نہیں

کشتیاں غرقاب ہوتی جا رہی ہیں
زندگی سے تصفیہ کرنے کو اب
حسرتیں بے تاب ہوتی جا رہی ہیں
ز
ہم کو دیکھے بنا جب آپ گزر جاتے ہیں(۵)
ایک لمحے کو یقیں مانو کہ مر جاتے ہیں
رات ہوتی ہے تو خاموشیِ جاں ڈستی ہے
دن نکلتا ہے تو ہر چاپ سے ڈر جاتے ہیں
تیرے کوچے کے در و بام سمجھتے ہیں کہ ہم(۶)
سسکیاں لیتی ہے جب رات تو گھر جاتے ہیں
بے سبب جاں سے گزرنا تو بہت مشکل ہے
آپ کہتے ہیں تو ہم جاں سے گزر جاتے ہیں
حرمت لوح و قلم کے ہیں یہ وارث کیسے!
رات کو رات بھی لکھتے ہوئے ڈر جاتے ہیں
آنکھ لگتی ہے تو شاہوں کی طرح سوتے ہیں
آنکھ کھلتی ہے تو سب خواب بکھر جاتے ہیں
اب تو دنیا کا وتیرہ ہے سنبھل کر چلنا
جس طرف کی ہو ہوا ، لوگ اُدھر جاتے ہیں
شہر کا شہر تو شیدائی ہے تیرا، ورنہ
تجھ سے فنکار تو گُم نام ہی مر جاتے ہیں
ز
دوستو! آؤ ذرا سوچتے ہیں

کیا ہوئی رسمِ وفا سوچتے ہیں
وہ بھی سوچے ہمیں وہ دن آئے

ہم اسے صبح و مسا سوچتے ہیں
نہ ہوا ہے، نہ دریچہ ہے کھلا

کیوں بجھا گھر کا دیا سوچتے ہیں
ہاتھ پر بیٹیوں کے اے مولا

کب کھلِے رنگِ حنِا سوچتے ہیں
حشر تو دِل ہی بپَا کرتا ہے

ہم تو بس اُس کو ذرا سوچتے ہیں
ہم سے جس شخص نے نفرت کی ہے

ہم تو اس کا بھی بھلا سوچتے ہیں
بات اچھی ہے یہ بھی اے لوگو

ہم اگر کر کے خطا سوچتے ہیں
اپنے ہر کام میں آڑے آئی

کیوں ہے تقدیر خفا، سوچتے ہیں
صرف دیکھا تھا کہا کچھ بھی نہ تھا
کیوں ہوا حشر بپا سوچتے ہیں
ز
وہ جو بے سمت چلا کرتے ہیں

دُور منزل سے رہا کرتے ہیں
جن کے رَہبر ہوں لٹیرے، لوگو!

قافلے یونہی لٹا کرتے ہیں
وہ جو اپنوں نے دیے ہوں اکثر

زخم تازہ ہی رہا کرتے ہیں
ملنے جلنے سے ہی مرے ہمدم!

رشتے مضبوط ہوا کرتے ہیں
کس کی جرأت ہے زباں کو کھولے

وہ جو بولے تو سنا کرتے ہیں
جن کے ہونٹوں پہ تبسم کھیلے
ایسے لوگوں سے بچا کرتے ہیں
ز
کب مرا احترام کرتے ہیں

احتیاطاً سلام کرتے ہیں
خیر مقدم، اداس لوگوں کا

ہم بصد احترام کرتے ہیں
تب کہیں جا کے شعر ہوتا ہے

خود پہ نیندیں حرام کرتے ہیں
ہم میں کتنے ہیں جو کتاب اپنی
غم کے ماروں کے نام کرتے ہیں
ز
کام مشکل ہے، کرتے رہتے ہیں

زندہ رہنے کو مَرتے رہتے ہیں
اپنا سایہ بھی اپنا ہوتا ہے

ایک ہم ہیں کہ ڈرتے رہتے ہیں
ڈستی رہتی ہے گھر کی تنہائی

لمحہ لمحہ بکھرتے رہتے ہیں
ہم پہ رہتی ہے جب تلک وہ نظر

زخم سینے کے بھرتے رہتے ہیں
رات بھر اس کی مانگ بھرنے کو

چاند تارے اترتے رہتے ہیں
چلتے رہتے ہیں قافلے دل کے
سَر سے طوفاں گزرتے رہتے ہیں
ز
کچھ اس طرح اُسے دل سے بھلا کے بیٹھے ہیں
کہ جیسے خود کو سزائیں سنا کے بیٹھے ہیں
بجھانے آئے ہیں شاید وہ پیاس برسوں کی
کنارِ آب جو خیمے لگا کے بیٹھے ہیں
اگرچہ خشک ہیں آنکھیں مگر یقین کرو
کسی کی یاد میں آنسو بہا کے بیٹھے ہیں
چکا ہی دیں گے کسی دن یہ قرض ہستی بھی
ابھی تو قرضِ محبت چکا کے بیٹھے ہیں
یہی ہے رستہ یقینا تمھاری بستی کا
ہر ایک موڑ پہ دشمن وفا کے بیٹھے ہیں
ہمیں تو دیکھو کہ اک بے وفا کی چاہت میں
تمام شہر کو دشمن بنا کے بیٹھے ہیں
اب اور کیا کریں اے عشق ہم تری خاطر
ابھی تو موت سے نظریں ملا کے بیٹھے ہیں
اُسے خبر ہی نہیں ہے، وگرنہ آ جاتا
فصیل کب سے اَنا کی گرا کے بیٹھے ہیں
ز
یہ بات مسلّم ہے وہی لوگ بڑے ہیں(۷)
ہر دور میں جو لوگ اُصولوں پہ اڑے ہیں
وہ جس سے کہ انصاف کی اُمید نہیں ہے
ہم ایسی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں
کترا کے گزرتے ہیں ترے گھر سے ہمیشہ
پاگل بھی تیری بستی کے ہشیار بڑے ہیں
ایسی بھی نہیں بات کہ ہم دھوپ کے ڈر سے
اب تک تیری دیوار کے سائے میں پڑے ہیں
اب حسن کے دریا میں کہاں پہلی روانی
اب عشق کے ہاتھوں میں کہاں کچے گھڑے ہیں(۸)
ہم اپنے مفادات سے غافل نہیں رہتے
دعویٰ تو ہمارا بھی ہے نادان بڑے ہیں
کس طرح کی اس شہر پہ اُفتاد پڑی ہے
ہوتا ہے گماں ہم کسی جنگل میں کھڑے ہیں
مانا کہ مہارت ہے اُسے شیشہ گری میں
کیا اُس نے کبھی شیشے میں پتھر بھی جڑے ہیں
ز
یہ جو آنکھوں کے گرد ہالے ہیں

ہجر کے مستند حوالے ہیں
تیری آنکھیں تو دیکھتی ہوں گی

میری آنکھوں نے خواب پالے ہیں
ہم نہ توڑیں تو کون توڑے گا

یہ جو ہونٹوں پہ اپنے تالے ہیں
جتنے اوصاف کا ہے حامل تو

تیرے اپنوں پہ کھلنے والے ہیں
دن میں تارے دکھا دئیے ہیں مجھے

آپ ویسے تو بھولے بھالے ہیں
جن کو بخشے تو درد کی دولت

میرے مولا! وہ بخت والے ہیں
ایک بھوکے کی کیا انا، یونسؔؔؔ!
اس کی قیمت تو کچھ نوالے ہیں
ز
وہ جو گیسو سنوارنے لگ جائیں

لوگ صدقہ اتارنے لگ جائیں
حسن وہ حسن دیکھتے ہی جسے

پھول دامن پسارنے لگ جائیں
جاں کا جانا تو پھر یقینی ہے

ہم جو اس کو پکارنے لگ جائیں
ہنس کے ملنا تو اس کی عادت ہے

لوگ شیخی بگھارنے لگ جائیں
قرضِ الفت اتارتے ہی ہم

قرضِ ہستی اتارنے لگ جائیں
زہر دے کر کہیں یہ فاقہ کش
اپنے بچے نہ مارنے لگ جائیں
ز
یہی ہے زندگی تو

رہے گی بے کلی تو!
ہے واجب ربّ کو سجدہ

اگر ہو ہر کوئی تو!
محبت کے اے منکر

محبت ہو گئی تو
اگرچہ گھر جلا ہے

ہوئی کچھ روشنی تو
ابھی سے رو پڑے تم

کہانی چھیڑ دی تو!
تمھیں بھی کھو ہی دے گی

رہی، آوارگی، تو
مرے دل میں بھی جھانکو!

ملے فرصت کبھی، تو!
ہے جس کا منتظر، تُو

کرے نہ بات بھی تو!
نہ جانے کیا بنے گا
نہ مانی زندگی، تو!
ز
بالفرض تجھے گھر کو گرانا ہی پڑے تو!

بالفرض اسے پھر سے بنانا ہی پڑے تو!
بالفرض کسی طور نہ مانے دل مضطر

بالفرض جفا جُو کو منانا ہی پڑے تو!
بالفرض تجھے سمجھے جو کم تر یہ زمانہ

بالفرض ترے پاؤں زمانہ ہی پڑے تو!
بالفرض ترے گھر میں کئی دن کا ہو فاقہ

بالفرض یہی بھید چھپانا ہی پڑے تو!
بالفرض تجھے ڈر ہو کہ دستار گرے گی

بالفرض تجھے سر کو جھکانا ہی پڑے تو!
بالفرض پلٹ آئے کوئی ملک عدم سے

بالفرض یقیں خود کو دلانا ہی پڑے تو!
بالفرض تجھے سود سے نفرت ہو بلا کی

بالفرض تجھے قرض اٹھانا ہی پڑے تو!
بالفرض کوئی سمجھے نہ الفتکی زباں بھی

بالفرض اسے راہ پہ لانا ہی پڑے تو!
بالفرض ترے ساتھ کوئی شخص نہ نکلے

بالفرض تجھے حشر اٹھانا ہی پڑے تو!
بالفرض تجھے مان ہو، خودداری پہ یونسؔؔؔ
بالفرض درِ غیر پہ جانا ہی پڑے تو
ز
خود سے انجان کر رہا ہے تُو

گویا احسان کر رہا ہے تُو
غیر سے رسم و راہ، مجھ سے گریز

ہاں، مری جان کر رہا ہے تُو
سوچ لے! اک غریب شخص کے ساتھ

عہد و پیمان کر رہا ہے تُو
کہہ بھی دے بات جو ہے دل میں ترے

کیوں پریشان کر رہا ہے تُو
چھوڑ کر ہم فقیر لوگوں کو

اپنا نقصان کر رہا ہے تُو
مجھ سے پردہ، رقیب کو جلوہ

کس کو کیا دان کر رہا ہے تُو
بے رخی، ہجر اور غم ہی غم
کتنے احسان، کر رہا ہے تُو
ز
تلخ لہجہ، نہ آنکھیں لال کرو!

جاں بہ لب ہوں ذرا خیال کرو!
عمر بھر کون ساتھ دیتا ہے

خود کو اس طرح مت نڈھال کرو!
فکرِ ہستی ہی اب تو کافی ہے

فکرِ فردا نہ فکرِ حال کرو!
ہجر میں لوگ مر بھی جاتے ہیں

مر نہ جاؤں میں کچھ خیال کرو!
نہ سہی مجھ سے واسطہ لیکن

میرا جینا تو نہ محال کرو!
بھولتے جا رہے ہو خود کو تم

رابطہ خود سے پھر بحال کرو!
زندگی کیا ہے میں بتاتا ہوں

اہل زر سے نہ یہ سوال کرو!
بھول جاؤ کہ آشنا تھے ہم
یاد گزرے نہ ماہ و سال کرو!
ز
کچھ بھی ہو جائے یہ خطا نہ کرو!

بے وفا سے کبھی وفا نہ کرو!
جب بھی ملتے ہو رنج دیتے ہو

اس سے بہتر ہے تم ملا نہ کرو!
غم کے مارے ہیں رو پڑیں نہ کہیں

غم کے ماروں سے کچھ کہا نہ کرو!
یہ تو بستی ہے بت پرستوں کی

میری مانو، خدا خدا نہ کرو!
ٹوٹ کر یہ بکھر نہ جائے کہیں

روبرو اس کے آئنہ نہ کرو!
کیا کہا! کس لیے اداس ہیں ہم

اتنے انجان بھی بنا نہ کرو
پاس رہ کر بھی دور رہتے ہو

یہ کرم ہے تو پھر، کیا نہ کرو!
دردِ دل تو خدا کی نعمت ہے

دردِ دل کی کبھی دوا نہ کرو!
دل کی بیتابیوں کا اندازہ

صرف چہروں سے تم کیا نہ کرو!
دوستی ہو، یا دشمنی، یونسؔ
اپنے معیار سے گرا نہ کرو!
ز
اب تو لگتا ہے باخدا مجھ کو

مجھ سے کر دے گا وہ جدا مجھ کو
جب یہ پوچھا کہ کیا ہوئے وعدے

ہنس کے بولا کہ کیا پتا مجھ کو
زندگی تک تو سونپ دی تجھ کو

اور کیا چاہیے بتا مجھ کو
میری حالت تھی دیکھنے والی

جب کہا اس نے بھول جا مجھ کو
لمحہ لمحہ ہے موت کا لمحہ

اور کیا دے گا تو سزا مجھ کو
اب نہ دیکھوں چراغ گھر میں ترے
کہہ گئی کان میں ہوا مجھ کو
ز
دور مجھ سے وہ کیا ہوا، لوگو!

خود سے رہتا ہوں دور سا، لوگو!
اتنا کب تھا، وہ بے خبر مجھ سے

جتنا اب ہے وہ با وفا، لوگو!
ایک رَہ زَن کی رہنمائی میں

کیسے لٹتا نہ قافلہ، لوگو!
کس قدر شہر میں ہے خوف و ہراس

شہر میں آئی کیا بلا، لوگو!
کس نے اتنا ستم یہ ڈھایا ہے

حشر برپا ہے جا بہ جا، لوگو!
اور کرتے ہی کیا یہ حاکم بھی

جینا مشکل تو کر دیا، لوگو!
توبہ توبہ مزاجِ شہرِ ستم

چپ ہی رہنے میں ہے بھلا لوگو!
کون کاٹے گا اب یہ دستِ ستم

ہو چلی اب تو انتہا، لوگو!
ملک پہلے کہ جان ہے پہلے
کرنا ہوگا یہ فیصلہ، لوگو!
ز
پاؤں پڑتی ہے زندگی، لوگو!

ورنہ کر لوں میں خود کشی، لوگو!
ایسا لگتا ہے موت سے پہلے

مار ہی دے گی زندگی، لوگو!
دل گرفتہ ہی ہم نے پایا ہے

ہم نے جس جس سے بات کی، لوگو!
اور کچھ دن نہ گر مداوا ہوا

ہم پہ روئے گی بے بسی، لوگو!
کم ہی آتی ہے راس رہنے دو

ہم فقیروں کی دوستی، لوگو!
قتل کر دیں گے دیکھنا اک دن
اس کو اس کے حمایتی لوگو!
ز
حسن عیار، اس قدر بھی نہ ہو

عشق لاچار، اس قدر بھی نہ ہو
رستہ ہموار اس قدر بھی نہ ہو

یعنی، دشوار، اس قدر بھی نہ ہو
اپنے رازق سے ہی الجھتا رہے

کوئی بے زار، اس قدر بھی نہ ہو
خار کو خار بھی نہ سمجھیں ہم!

پھول سے پیار، اس قدر بھی نہ ہو
توبہ توبہ کریں، درندے بھی

بندہ خوں خوار اس قدر بھی نہ ہو
جس قدر ہے وہ روٹھ کر مجھ سے
پرسکوں یار اس قدر بھی نہ ہو
ز
آ گئی کام خود سری، ورنہ

مار دیتی یہ زندگی، ورنہ
شکریہ چیختی ہوائوں کا

ڈستی رہتی یہ خامشی، ورنہ
اُس کے رُخ سے نقاب سرکا ہے

گنگناتی نہ چاندنی، ورنہ
وہ تو دل نے ہمیں تھا اُکسایا

کیا ضرورت تھی آپ کی ورنہ
اک بھی مصرعے میں رنگ میرؔ نہیں

خوں رُلاتی یہ شاعری، ورنہ
اُس کے دل میں فتور تھا یونسؔ
مجھ سے کرتا وہ بات بھی ورنہ
ز
راہِ وفا میں جاں سے گزرنے کے بعد بھی(۹)
جیتے ہیں لوگ شان سے مرنے کے بعد بھی
اتنی شدید پیاس تھی ، دریا کے پاس ہم
بیٹھے رہے تھے پانی اُترنے کے بعد بھی
وحشت سے کانپتے رہے کچھ لوگ دیر تک
سیلِ بلا سروں سے گزرنے کے بعد بھی
کیوں دل کے در پہ دستکیں دیتا ہے بار بار
اک شخص میرے دل سے اُترنے کے بعد بھی
آیا نظر نہ کوئی بھی اپنے سوا مجھے
دشت وفا میں چاپ اُبھرنے کے بعد بھی
ممکن ہے آ بسے مرے دل میں وہ ایک دن
انکار میری ذات سے کرنے کے بعد بھی
اک عمر انتظارِ سحر میں گزار دی
ہم نے سیاہ رات گزرنے کے بعد بھی
اے شہر بے وفا! تجھے اب تو گلہ نہیں
چپ چاپ جی رہے ہیں بکھرنے کے بعد بھی
صحن چمن میں بڑھتی رہی پھر بھی تیرگی
بامِ فلک سے چاند اُترنے کے بعد بھی
ہم مقصد حیات سے یونسؔؔ ہیں بے خبر
افسوس ایک عمر گزرنے کے بعد بھی
ز
زندگی گر مان جاتی

رائیگاں نہ جان جاتی
نہ وہ جاتا دور مجھ سے

نہ میری پہچان جاتی
کاش دل سے یادِ یار

خواب کے دوران جاتی
بک گئے وارث وگرنہ

جاں کے بدلے جان جاتی
نیتِ سلطان، یونسؔ
کاش خلقت جان جاتی
ز
اس بے وفا کے سامنے آنے کی دیر تھی
یعنی، ہمارے جان سے جانے کی دیر تھی
ایسی چلی ہوا کہ دیے سب بجھا گئی
بزمِ خیالِ ِیار سجانے کی دیر تھی
پھر یوں ہوا کہ گردشِ دوراں نے آ لیا
دامن کسی کے غم سے چھڑانے کی دیر تھی
اس شہر کم شناس میں اک حشر تھا بپا
کچھ سرپھروں کے ہوش میں آنے کی دیر تھی
پھر یوں ہوا کہ خود کو ہمیں ڈھونڈنا پڑا
ہاتھوں سے اپنے،اُس کو گنوانے کی دیر تھی
ز
اک ذرا آندھی چلی تھی

تنکا تنکا جھونپڑی تھی
مستقل نہ عارضی تھی

بے یقیں سی روشنی تھی
ہر طرف تھی موت رقصاں

زندگی بکھری پڑی تھی
سجدہ گاہ ِعاشقاں میں

پابجولاں بندگی تھی
جل رہی تھی دل کی بستی

اور بارش ہو رہی تھی
ایک ننھا سا دیا تھا

جان لیوا تیرگی تھی
پھر وہی سڑکوں پہ پھرنا

پھر وہی آوارگی تھی
جا چکا جب جانے والا

دل کی حالت دیدنی تھی
کیا ہوئی آخر وہ یونسؔ
مہربان جو زندگی تھی
ز
شہر بھر سے دشمنی مہنگی پڑی(۱۰)

یعنی تجھ سے دوستی مہنگی پڑی
کیا عجب دستور ہے اس شہر کا

جب بھی سچی بات کی مہنگی پڑی
ہر قدم پر اس قدر یہ احتیاط!

زندگی سے آگہی، مہنگی پڑی
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اپنے آپ کو

بے سبب آوارگی مہنگی پڑی
کیا کرو گے پوچھ کر رہنے بھی دو

کس قدر یہ خامشی مہنگی پڑی
کچھ نہیں تو اک انا تو پاس تھی

اہل زر سے دوستی مہنگی پڑی
اس وفا نے جان تیری مانگ لی(۱۱)

یہ تو یونسؔ واقعی مہنگی پڑی
ز
ہوائوں میں یہ آخر تلخیاں کب تک رہیں گی؟
پرندوں پر خدایا! سختیاں کب تک رہیں گی؟
ہمیں ڈستے رہیں گے کب تلک یہ ناگ غربت کے
خدائے بحر و بر! مجبوریاں کب تک رہیں گی؟
خدایا! آ چکی ہے جن کے بالوں میں سفیدی
وہ یوں بیٹھی گھروں میں بیٹیاں کب تک رہیں گی؟
تمھیں جو فکر ہے ہر پل یہاں پر اپنے ناموں کی
کبھی سوچا! دروں پر تختیاں کب تک رہیں گی؟
کسی دن چھوڑ جائیں گی دلِ خستہ کو یادیں
کہ بجھتی راکھ میں چنگاریاں کب تک رہیں گی؟
اُٹھانی ہیں اگر تو نے اُٹھا لے آج ہی ورنہ
کناروں پر پڑی یہ سیپیاں کب تک رہیں گی؟
بظاہر ٹھیک لگتی ہیں مگر ہیں کرم خوردہ بھی
سہارا یہ ترا بیساکھیاں کب تک رہیں گی؟
اُجالا بانٹنے والے جہاں بھر میں بتا مجھ کو
مرے گھر میں یونہی تاریکیاں کب تک رہیں گی؟
نہ ان کا دیس ہے یونسؔؔنہ ان کی منزلیں ہیں
تمھارے سر پہ ایسے بدلیاں کب تک رہیں گی؟
ز
تجزیہ آپ کا بجا ہی سہی

لوگ اچھے ہیں، میں برا سہی
اس کی چاہت سے فیض یاب یہاں

ہم نہیں، کوئی دوسرا ہی سہی
مجھ پہ ہنسنا تو چھوڑ دے ظالم!

ظلم کرنا تری ادا ہی سہی
جاں کو میری ہے آ گیا یہ شہر

ہاتھ میں میرے آئنہ ہی سہی
ہم تو جیتے ہیں دیکھ کر اس کو

چہرہ بے شک وہ عام سا ہی سہی
کیا یہ کم ہے نظر تو آیا وہ

نہ سہی میرا غیر کا ہی سہی
ہم پہ واجب ہے احترام اس کا

زندگی لاکھ بے وفا ہی سہی
کسی صورت اسے منانا ہے

نہ سہی پیار، التجا ہی سہی
کیوں تماشا بنا دیا ہے اسے

غم میں میرے وہ مبتلا ہی سہی
آزمانے کے باوجود بھی وہ

گر خفا ہے تو پھر خفا ہی سہی
جس نے بخشا ہے خوش رہے یونسؔ
درد بے شک یہ لادوا ہی
ز
واہمہ تھا، نہ خواب تھا کوئی

آپ کا ہم رکاب تھا کوئی
ہم نے تو آئنہ دکھایا تھا

شرم سے آب آب تھا کوئی
لفظ گویا غلام تھے اس کے

کتنا حاضر جواب تھا کوئی
روند ڈالے تھے دل زمانے کے

کیسا مستِ شباب تھا کوئی
تم نے کیوں کر نہ احتجاج کیا؟

ظلم سہنا ثواب تھا کوئی؟
سچ بتانا کہ دشتِ الفت میں

مجھ سا خانہ خراب تھا کوئی؟
ہونے والے تھے خیر و شر یکجا

اور کھلنے کو باب تھا کوئی
جس حقارت سے اس نے دیکھا تھا

شاید عزت مآب تھا کوئی
تھا بظاہر تو اک بگولا سا

در حقیقت عذاب تھا کوئی
کیوں نہ کرتا وہ خود کشی یونسؔ
کب سے زیرِ عتاب تھا کوئی
ز
مجھے درکار تھا کوئی

گلے کا ہار تھا کوئی
ادھر آواز تھی کس کی

اگر اس پار تھا کوئی
وہ دن بھی تھے، مرے دل کا

کبھی مختار تھا کوئی
میسر تھا اسے تو میں

اسے درکار تھا کوئی
بھری دنیا میں تنہا ہوں

مرا بھی یار تھا کوئی
ہوا کیوں سرنگوں شملہ

اگر سردار تھا کوئی
ملی دستار ہے کس کو

مگر حق دار تھا کوئی
اگر تم جاں طلب کرتے

مجھے انکار تھا کوئی!
کبھی تو بات سن لیتا
اگر غم خوار تھا کوئی
ز
ہم زباں ہے نہ ہم نوا ہے کوئی

اِس سے بڑھ کر بھی کیا سزا ہے کوئی؟
یہ تو شیوہ ہے ہم فقیروں کا

ورنہ غم بھی خریدتا ہے کوئی؟
کچھ سبب تو ضرور ہے ، ورنہ

گھر کا رستہ بھی بھولتا ہے کوئی؟
کتنی تلخی ہے ترے لہجے میں!

حالِ دل یوں بھی پوچھتا ہے کوئی؟
اُس کو شائد ڈسا ہے انساں نے

ورنہ سانپوں کو پالتا ہے کوئی؟
جانے کیوں شہر سارا دشمن ہے

حق پرستی بھی کیا خطا ہے کوئی ؟
اس کی ہو گی کوئی تو مجبوری

ورنہ خوابوں کو بیچتا ہے کوئی؟
صورتِ خواب میری آنکھوں میں

سو بھی جائوں تو جاگتا ہے کوئی؟
اک توجہ کی بس ضرورت ہے
اُس سے ملنا بھی مسئلہ ہے کوئی!

ز
یہ بار ِگراں آج اٹھا کیوں نہیں لیتے
تم اہل وفا! غم کا مزا کیوں نہیں لیتے
اعزاز وفا، جان وفا، کیوں نہیں لیتے
معصوم محبت کی دعا کیوں نہیں لیتے
تم جس کی سر بزم برائی نہیں سنتے
تم اپنے قریب اس کو بٹھا کیوں نہیں لیتے
ٹکراتے ہو تم جن سے شب و روز برابر
پتھر ہی وہ رستے کا ہٹا کیوں نہیں لیتے
چاہو جو کسی جسم کی خوشبو سے لپٹنا
احساں کسی جھونکے کا اٹھا کیوں نہیں لیتے
دیکھی ہی نہیں جاتی ان آنکھوں میں اداسی
روٹھے ہوئے لمحات منا کیوں نہیں لیتے
گر تم کو تمنا ہے اجالوں کی تو یونسؔ
تم چاند ستاروں سے ضیا کیوں نہیں لیتے
ز
جن کے دیوار و در نہیں ہوتے

کون کہتا ہے، گھر نہیں ہوتے
عمر گزرے گی بن ترے کیسے!

چند لمحے بَسر نہیں ہوتے
وہ بھی کرتے ہیں بات اڑنے کی

جن کے جسموں پہ پَر نہیں ہوتے
کون اپنا ہے، کون بے گانہ!

اہل دل بے خبر نہیں ہوتے
ہم نے دیکھا ہے ان کی محفل میں
لوگ ہوتے ہیں، پَر نہیں ہوتے
ز
لوگ غم خوار ہُوا کرتے تھے

جب ملن سار ہُوا کرتے تھے
یہ جو پھرتے ہیں آج کاسہ بدست

کتنے خودار ہُوا کرتے تھے
ہم سمجھتے ہیں تیرے مکر و فریب

ہم بھی ہشیار ہوا کرتے تھے
تیری باتیں تو لوگ سنتے تھے

ہم تو سرشار ہُوا کرتے تھے
مہرباں ہم پہ چشم مست رہی

ہم بھی مے خوار ہُوا کرتے تھے
وہ بھی دن تھے کہ ایک دوجے کے

ہم طرف دار ہُوا کرتے تھے
شہر سارا تھا ہم نوا یونسؔ
جب خطا کار ہُوا کرتے تھے
ز
ایک دشمن نیا بنا بیٹھے(۱۲)

آئنہ کیا اُسے دِکھا بیٹھے
جو بھی بولے زباں کٹا بیٹھے

تیری محفل میں کوئی کیا بیٹھے
پہلے کہتے تو لوٹ بھی آتے

اب تو ہم کشتیاں جلا بیٹھے
عین اُس وقت بجلیاں ٹوٹیں

جب پرندے شجر پہ جا بیٹھے
کچھ خبر ہے کہ تیرا دروازہ

تکتے رہتے ہیں کچھ گدا بیٹھے
اُس کو دنیا سلام کرتی ہے

ہم فقیروں میں جو بھی آ بیٹھے
ہو بُرا مفلسی کا جس کے سبب
کتنے یاروں کو ہم گنوا بیٹھے
ز
ہر زاویے سے روز ہی پرکھا گیا مجھے(۱۳)

لیکن یہ کیا کہ پھر بھی نہ مانا گیا مجھے
نکلا ہوا ہوں کب سے میں اپنی تلاش میں

اوجھل ہی میری ذات سے رکھا گیا مجھے
اے شہر معجزات کے لوگو! میں کیا کہوں!

گرنے سے پہلے کیوں نہ سنبھالا گیا مجھے
اس عہدِ کم شناس پہ ہنسنا بھی جرم ہے!

پاگل اسی بنا پہ ہی سمجھا گیا مجھے
دیکھی گئی نہ اُس سے بھی جو تشنگی مری

دریا کی سمت تب لیے صحرا گیا مجھے
پہلے تو صرف اُنگلیاں اُٹھتی تھیں دوستو!

اس بار اُس گلی سے نکالا گیا مجھے
ماتم کناں ہے جذبِ جنوں میرے حال پر

شیشے میں اس طرح سے اُتارا گیا مجھے
مجھ کو تھکن نے کر دیا اتنا نڈھال کہ

گھر تک کسی کے چھوڑنے رستہ گیا مجھے
اُس وقت تو کہاں تھی اری موت کچھ بتا!

جب زندگی کے ہاتھ سے مارا گیا مجھے
یونس گلی میں اس گھڑی دیکھا ضرور ہے
لہجے میں اُس کے جب بھی پکارا گیا مجھے
ز
لوگ کرتے ہیں شرمسار مجھے

دشمنوں میں نہ کر شمار مجھے
اے محبت! تری بقا کے لیے

اور مرنا ہے کتنی بار مجھے؟
تیری بستی، میں چھوڑ بھی جاتا

دل پہ ہوتا جو اختیار مجھے
کتنا خوش ہے وہ دیکھنا اُس کو

موت سے کر کے ہمکنار مجھے
توبہ کرنا تھی حق پرستی سے

یوں بھی ہونا تھا ذی وقار مجھے
کتنا اچھا تھا! ہر حوالے سے

جب ملا تھا وہ پہلی بار مجھے
کون کیا ہے؟ یہ بھول کر یونسؔ
خود بھی ہونا ہے آشکار مجھے
ز
دیکھ لیتا، اگر بغور مجھے

غم نہ دیتا کسی بھی طور مجھے
بزم ہے غیر کی، تُوکچھ بھی کہے

راس آئے گا چپ کا دور مجھے
کر سکے ہیں نہ، کر سکیں گے کبھی

دور تجھ سے ترے یہ جور مجھے
مجھ کو بھائی! فریدؒ کی نگری
اب نہیں جانا کہیں اور مجھے
ز
سوچ پر بار سمجھتے ہیں مجھے

کیوں وہ آزار سمجھتے ہیں مجھے
تو نے اتنا بھی نہ سمجھا مجھ کو

جتنا اغیار سمجھتے ہیں مجھے
کل تلک میں تھا جان محفل کی

آج بے کار سمجھتے ہیں مجھے
کیا خبر دوں کہ گم ہوں میں خود ہی

لوگ اخبار سمجھتے ہیں مجھے
رات کو دن بھلا میں کیسے کہوں

جانے کیا یار سمجھتے ہیں مجھے
سونا لگتی ہیں چمکتی چیزیں
آپ ہشیار سمجھتے ہیں مجھے

ز
فیصلہ ہجر کا سنا کے مجھے

خوب رویا گلے لگا کے مجھے
خوف کیسا، دئیے جلا کے مجھے

رستے معلوم ہیں ہوا کے مجھے
اہلِ دل نے بھی ان سنی کر دی

کیا ملا داستاں سنا کے مجھے
یہ بھی اعزاز کوئی کم تو نہیں

آپ ملتے ہیں مسکرا کے مجھے
کیا پڑی مجھ کو اعتراض کروں
آپ خوش ہیں اگر بھلا کے مجھے
ز
اس کی خاطر یہ بھی کرنا ہے مجھے

عہد و پیماں سے مکرنا ہے مجھے
جس کی لہروں سے بھنور تخلیق ہوں

ایسے دریا میں اترنا ہے مجھے
کچھ اجالوں سے بھی رکھنا ہے گریز

کچھ اندھیروں سے بھی ڈرنا ہے مجھے
میری ہستی تو فقط ہے مشتِ خاک

یہ مسلّم ہے، بکھرنا ہے مجھے
ننگے پاؤں چلچلاتی دھوپ میں

غم کے صحرا سے گزرنا ہے مجھے
یونسؔ، اس کے پیار کے اقرار کا
ارتکابِ جرم کرنا ہے مجھے
ز
اس دردِ آگہی کا بھی احساس ہے مجھے

بے کیف زندگی کا بھی احساس ہے مجھے
میں گھر کی تیرگی سے بھی غافل نہیں مگر

باہر کی روشنی کا بھی احساس ہے مجھے
وہ جس کی دوستی پہ بڑا ناز تھا کبھی

اب اس کی دشمنی کا بھی احساس ہے مجھے
رخت سفر اگرچہ ہے برسوں کا میرے پاس

دو دن کی زندگی کا بھی احساس ہے مجھے
غیروں کی سازشوں نے جو کرنا تھا کر لیا

اپنوں کی بے حسی کا بھی احساس ہے مجھے
کیسے اٹھاؤں ہاتھ میں بارش کے واسطے
گھر کی شکستگی کا بھی احساس ہے مجھے
ز
پیرہن عشق کا پہنے ہوئے سارے بندے
کیا ہوئے جو تھے یہاں جان سے پیارے بندے!
کتنے پیارے ہیں مری آنکھ سے دیکھو تو سہی
خاک میں لتھڑے ہوئے ہجر کے مارے بندے
جانے کیوں مجھ کو لگیں خود سے کہیں بہتر وہ
لہریں گنتے ہوئے دریا کے کنارے بندے
تیرگی بڑھتی رہی یونہی تو اندیشہ ہے
نوچ ہی لیں نہ کہیں چاند ستارے بندے
بے حسی کا مری بستی میں یہ عالم ہے کہ اب
چھین لیتے ہیں انا، دے کے سہارے بندے
مر گئے وہ بھی ترے ہاتھ سے اک دن آخر
زندگی جو تھے تری آنکھ کے تارے بندے
کتنا کم ظرف ہے جلتا ہے فقیروں سے ترے
خود جو سنورا نہیں اب وہ بھی سنوارے بندے

ز
شہر سارا بھی گر دُہائی دے

بہرے حاکم کو کیا سنائی دے
کل تلک پیشوائے رنداں تھا

آج جو درسِ پارسائی دے
جان چھوٹے یہ روز مرنے سے

اب کے تو مستقل جدائی دے!
میں کہ، طالب ہوں ایسی صورت کا

جب پکاروں مجھے دکھائی دے
شام ڈھلتے ہی عہد رفتہ کی

دیر تک چاپ سی سنائی دے
نہ ملا کوئی دشتِ الفت میں

جو مجھے ذوقِ آشنائی دے
اک مسافر ہوں راہِ الفت کا

اپنے دل تک مجھے رسائی دے!
ہاں وہ درویش ہے یہاں جس کو

اَن کہی بات بھی سنائی دے
گر یہ بستی ہے حق پرستوں کی
پھر تو حق ہر طرف دکھائی رے
ز
دل کو وقف ملال، رہنے دے!

غم سے رشتہ بحال، رہنے دے!
بات کر کوئی دنیاداری کی

ذکرِ حسن و جمال، رہنے دے!
یہی بہتر ہے، شاعرِ گمنام!

شہرتوں کے وبال، رہنے دے!
دل کے حالات پوچھ لے فی الحال
باقی سارے سوال، رہنے دے
ز
کچھ دنوں سے یہ حال ہے پیارے!

جینا مرنا محال ہے پیارے!
زندگی کیا ہے ، کیا کہوں تم سے

ایک مشکل سوال ہے، پیارے!
ڈوبی ڈوبی ہیں وقت کی نبضیں

لمحہ لمحہ نڈھال ہے پیارے!
چھو کے دیکھا ہے روشنی کا وجود

مجھ کو حاصل کمال ہے پیارے!
جل کے بجھنا تو کوئی بات نہیں

جلتے رہنا کمال ہے پیارے!
خود ہی بخشی ہیں دُوریاں مجھ کو

پھر یہ کیسا ملال ہے پیارے!
کون کہتا ہے، شعر کہتا ہوں
یہ تو تیری مقال ہے پیارے!
ز
صورتِ اخبار، چہرے

باعثِ آزار، چہرے
واقعی معصوم ہیں، جو

رہ گئے دوچار چہرے
کون آیا تھا چمن میں

کھل اٹھے یک بار چہرے
جھریوں سے جو بھرے ہیں

تھے کبھی گلنار چہرے
معجزوں کے منتظر ہیں

ہائے وہ لاچار چہرے
کیا کریں عیسٰی نَفَس بھی

ہر طرف بیمار چہرے
گل رخوں کے شہر میں
اس قدر بے زار چہرے
ز
تُجھ سے دُور ہوئے ہیں جب سے

رفتہ رفتہ ہو گئے، سب سے
اپنی ذات سے ہم نہ نکلے

ڈھونڈ رہے ہیں، رستہ کب سے
کب سے تجھ کو دیکھ رہا ہے

ایک ستارہ گوشۂ شب سے
تیری بزم میں آ ہی گئے ہیں

دیکھ ہمیں نہ غیظ و غضب سے
کس نے زرد سا موسم بانٹا

دیکھو سب ہیں جان بہ لب سے
کب سے وہ خاموش کھڑا ہے

کچھ تو بولو اپنے لب سے
قسمت ہی جب ساتھ نہ دے تو

کیسے مانگوں تجھ کو رب سے
یونس کی پہچان جو بنتا
اک بھی شعر کہا نہ ڈھب سے
ز
وہ آبلہ پا شخص جو گزرا تھا اِدھر سے

’’لوٹا نہیں اب تک وہ محبت کے سفر سے‘‘
یہ آبِ رواں اُس کے کبھی زیر نگیں تھا

صحرا میں کھڑا شخص جو اِک بوند کو ترسے
تم جس سے ہراساں ہو پریشاں ہو مسلسل

گزرا تھا یہ طوفان کبھی میرے بھی سر سے
وہ جس کے برسنے سے کھلیں پیار کی کلیاں

بادل کوئی ایسا بھی زمیں پر مری برسے
مانا کہ ہیں الفاظ ترے لعل و جواہر

یہ پیٹ تو بھرتا نہیں لفظوں کے ہنر سے
ہر شام بے ہنگم سے چلے آتے ہیں سائے

اعلان یہ ہوتا ہے کوئی نکلے نہ گھر سے
یونسؔجو اندھیروں سے کبھی پالا پڑا ہے
تاروں سے ضیا مانگی کبھی شمس و قمر سے
ز
کرتا رہا منسوب خطائوں کو جو ہم سے

نکلا نہیں کافر وہ ابھی دل کے حرم سے
حیرت ہے کوئی نام بھی لیتا نہیں اُس کا

رونق تھی کبھی شہر میں اُس شخص کے دم سے
انہونی پہ پھر بیٹھ کے سوچیں گے سکوں سے

فی الحال نمٹنا ہے ہمیں رنج و الم سے
اک آس لیے ہم ہیں کھڑے دشتِ جنوں میں

شاید تو کبھی دیکھے ہمیں چشمِ کرم سے
اب ہم کو بھی ہجرت کی روایت پہ ہے چلنا

اب ہم بھی چلے جائیں گے اس شہر ستم سے
گو خاک پہ تھا پھر بھی اُسے دیکھ رہے تھے

مانوس تھے رہرو بھی تیرے نقشِ قدم سے
یوں خواب سے بیدار ہوا وقت کا سپنا

جیسے کہ چلا آئے کوئی ملکِ عدم سے
وہ کیسا سخنور ہے مرے دور کا ، یونسؔ
وہ جس کو محبت نہیں تکریمِ قلم سے
ز
شِکوہ نہیں کسی سے

نالاں ہیں زندگی سے
اک ہم کہ خوش دلی سے

ہارے ہیں زندگی سے
چہرے ہیں دیکھے بھالے

لہجے ہیں اجنبی سے
منزل ہے دُور کوسوں

تم تھک گئے ابھی سے
بے شک ملو نہ مجھ سے

دیکھو نہ برہمی سے
بجھنا ہی تھا وہ تارا

مضطر تھا شام ہی سے
بچھڑے نہ کوئی، جیسے
بچھڑے تھے ہم کسی سے
ز
حسن بولا آئنے سے

ہٹ بھی جا اب سامنے سے
کھل گئی دل کی حقیقت

ایک شب کے جاگنے سے
کیوں نہیں ٹلتی بلائیں؟

اب دعائیں مانگنے سے
خود سے نفرت ہو گئی ہے

اپنے اندر جھانکنے سے
مطمئن سا ہو گیا ہوں

غم کسی کا بانٹنے سے
کر دیا انکار، یونسؔ
اس نے بھی پہچاننے سے
ز
کاندھوں سے اپنے کرب کی سولی اتار کے
تیرے حضور آئے ہیں خود کو سنوار کے
اڑتا ہوا غبار تھا، راہیں تھیں پُر خطر
محو سفر تھے قافلے اجڑے دیار کے
لگتا ہے دشمنوں سے ہے کی سازباز کچھ
تیور بتا رہے ہیں مجھے اپنے یار کے
جس کے ہر ایک روپ کو پہچانتا ہوں میں
ملتا ہے روز مجھ کو نئے روپ دھار کے
اکثر سوال کرتا ہے آنگن کا خشک پیڑ
کس جا برس کے آتے ہیں بادل بہار کے
کچھ اس لیے بھی ہو گیا وہ مجھ سے بدگماں
سادہ سے کچھ اصول ہیں اس خاکسار کے
حیرت ہے حال زار سے میرے وہ خوش ہوا
دستار جس کو بخشی تھی سر سے اتار کے
ز
ہم نے دیکھی ہے یہ خطا کر کے(۱۴)

کچھ بھی ملتا نہیں وفا کر کے
کیوں رُلاتے ہو ، خود بھی روتے ہو

بیتے لمحوں کا تذکرہ کر کے
کس قدر ہے وہ مطمئن دیکھو

ترکِ الفت کا فیصلہ کر کے
رزقِ شب بھی تو ہو گیا سورج

سایہ دیوار سے جدا کر کے
گر گیا ہے وہ اپنی نظروں سے

ہم کو رُسوا جگہ جگہ کر کے
ہم کو پہلے ہی یہ توقع تھی

ہم کو چھوڑو گے تم فنا کر کے
کس کا چہرہ تلاش کرتا ہے؟

کرچی کرچی وہ آئنہ کر کے
ہو گئے ہم بھی سرخرو آخر

قرض الفت کے سب ادا کر کے
جانے یونسؔؔ وہ کیسے زندہ ہیں
اس محبت پہ اکتفا کر کے
ز
اَب اِس قدر بھی نہ دوری وہ بے وفا رکھّے
برائے نام سہی، کچھ تو رابطہ رکھّے
ہوائے شہر سے اتنا بھی ڈر کے رہنا کیا
وہ اک دریچہ تو گھر کا کبھی کھلا رکھّے
ترے ہی دم سے ہے بستی میں آبرو میری
نگاہِ یار سلامت تجھے خدا رکھّے
گزر سکے نہ وہ جس کے بغیر لمحہ بھی
کہاں تلک کوئی اس کو بھلا خفا رکھّے
اتر بھی سکتی ہے، دریا کے پار یا کہ نہیں
خیال اتنا تو کشتی کا نا خدا رکھّے
ہر ایک شخص ہی جب مصلحت کا قیدی ہو
حصارِ ذات سے باہر وہ پاؤں کیا رکھّے
یہ اور بات وہ آئے گا یا نہ آئے گا
چراغ ہم نے تو یادوں کے ہیں جلا رکھّے
ز
آئنہ ہم کو سرِ بزم دکھانے والے

ہم حقیقت سے نہیں آنکھ چرانے والے
سب نے دیکھا کہ وہ مشہور ہوئے ہیں کتنے

ہم فقیروں سے رہ و رسم بڑھانے والے
یہ تو اچھا ہوا دل میں رہیں دل کی باتیں

ورنہ جینے ہی نہ دیتے یہ زمانے والے
کون دے گا ہمیں تقدیسِ ہنر کا تمغا

ہم تو لفظوں سے ہیں تصویر بنانے والے
تیری دنیا سے وہ نا پید ہوئے جاتے ہیں
بوجھ اوروں کا بھی کاندھوں پہ اٹھانے والے
ز
پیار کا یہ راستہ ہے، سوچ لے!

ہر قدم پر حادثہ ہے، سوچ لے!
مت چھپا تو عیب اِس کے سامنے

آئنہ تو آئنہ ہے، سوچ لے!
زندگی میں کیا کسی سے رُوٹھنا

زندگی تو خود سزا ہے، سوچ لے!
اِس جہاں میں ڈھونڈنا تو پیار کا

پانیوں پہ دوڑنا ہے، سوچ لے!
نفرتوں کو اس طرح مت بانٹ تُو

اپنا بویا کاٹنا ہے، سوچ لے!
بیت جائے زندگی جو پیار میں

فائدہ ہی فائدہ ہے، سوچ لے!
کس کو تو نے بخشنا ہے زندگی
اور کس کو مارنا ہے، سوچ لے!
ز
یوں تو سورج کو بڑے شوق سے دیکھا اس نے
کتنے جسموں کو جلایا ہے نہ سوچا اس نے
کس کو فرصت ہے کہ پڑھتا پھرے چہروں کو یہاں
باوجود اس کے چھپا رکھا ہے چہرہ اس نے
یوں تو کہنے کو سبھی اس کے تھے اپنے، لیکن
جو تھا قابل، نہ کیا اس پہ بھروسہ اس نے
کس طرح میں یہ کہوں پیار پہ قرباں ہو گا
جب کہ سیکھا ہی نہیں جان سے جانا اس نے
جانے کس مان پہ کرتا ہے وہ مرضی اپنی
اور بدلا نہیں اب تک یہ وتیرہ اس نے
میری ہر بات میں تشکیک کا پہلو ڈھونڈے
کیا عجب ڈھونڈا ہے لڑنے کا بہانہ اس نے
ایسی کیا بات تھی، منزل پہ پہنچ کر یارو!
کر لیا مجھ سے بچھڑنے کا ارادہ اس نے
لے گیا چھین کے یادیں بھی وہ اپنی یونسؔؔ
کس قدر کر دیا دنیا میں اکیلا اس نے
ز
جب سے دیکھے ہیں وفا مانگنے والے میں نے(۱۵)
تب سے ہونٹوں پہ لگا رکھے ہیں تالے میں نے
جس قدر سنگ ملامت تھے سنبھالے میں نے
کب تری سمت میری جان اُچھالے میں نے
اُن چراغوں نے تو بجھنا ہی تھا ، ماتم کیسا!
کر دیئے خود جو ہوائوں کے حوالے میں نے
اب وہی لوگ میری جان کے دشمن ٹھہرے
جو بنائے تھے کبھی ہاتھ کے چھالے میں نے
بھوک سے مرتے ہوئے بچوں کی بھی آنکھیں دیکھو
ان میں مرتے ہوئے دیکھے ہیں اُجالے میں نے
زندہ رکھی ہے ترے پیار کی خوشبو ایسے
اپنے شعروں میں دیے تیرے حوالے میں نے
اس میں کیا دوش کسی کا جو مجھے چین نہیں
روگ پالے ہی نہیں بھولنے والے میں نے
کیوں نہ ہر لفظ پہ آنکھوں سے یہ ٹپکیں آنسو
جس قدر درد ملے شعر میں ڈھالے میں نے
ز
سب سے کترا کے جو ہر بار گزر جاتا ہے
شام ہوتے ہی خدا جانے کدھر جاتا ہے
کب تجھے ظلمت ِشب میں وہ کبھی ڈھونڈے گا
سرسراہٹ سے اندھیرے میں جو ڈر جاتا ہے
اس کی قسمت میں کہاں بادِ صبا کے جھونکے
شاخ سے ٹوٹ کے جو پھول بکھر جاتا ہے
جس کو اندیشہ نہ تھا پہلے کبھی لٹنے کا
اب عموماً وہ سرِ شام ہی گھر جاتا ہے
ماورا کون ہے وہ نظمِ جہاں سے یارو!
ایک ہنگامہ سر عام جو کر جاتا ہے
جانے کیوں، سوچ! سر شام ہوا کا جھونکا
خشک پتے مری دہلیز پہ دھر جاتا ہے
دیکھتا ہے تو بتا کون سا سپنا شب بھر
صبح ہوتے ہی تیرا روپ نکھر جاتا ہے
نہیں جاتی تو کسک ہی نہیں جاتی ورنہ
زخم جیسا بھی ہو ہر حال میں بھر جاتا ہے
کرکے مسمار وہ مٹی کے گھردندے، یونسؔ
کیسا دریا ہے کہ فوراً ہی اتر جاتا ہے
ز
سر سے پانی گزر بھی سکتا ہے(۱۶)

تیرا بیمار مر بھی سکتا ہے
جس کو دیکھا ہے یوں حقارت سے

تیرے دل میں اُتر بھی سکتا ہے
جس نے بخشا ہے، خیر ہو اُس کی

زخم کا کیا ہے، بھر بھی سکتا ہے
صاف رکھنا ہے آئنہ دل کا

عکس کوئی ابھر بھی سکتا ہے
اپنی چاہت سے فیض یاب مجھے

کرنا چاہے تو کر بھی سکتا ہے
ظرف اتنا نہ آزمایا کر !!!

حد سے کوئی گزر بھی سکتا ہے
تو جو آئے تو شام کا چہرہ

میرے ہمدم! نکھر بھی سکتا ہے
رکھ بھی سکتا ہے پاس وعدے کا

وعدہ کر کے مُکر بھی سکتا ہے
اب جو ڈرتا ہے اپنے سائے سے

کس نے سوچا تھا ڈر بھی سکتا ہے
اپنی سوچوں کے پر سمیٹو تم!

کوئی ان کو کتر بھی سکتا ہے
ریزہ ریزہ تو ہو چکا یونسؔ
تیرے غم میں بکھر بھی سکتا ہے
ز
گھر بنانے میں وقت لگتا ہے

کب گرانے میں وقت لگتا ہے
عمر گزری ہو جب اذیت میں

مسکرانے میں وقت لگتا ہے
وہ جو بخشے ہوں دوستوں نے میاں!

غم بھلانے میں وقت لگتا ہے
پگڑی گرنے سے گر بچانی ہو

سر جھکانے میں وقت لگتا ہے
آنے والا اگر ہو جاں سے عزیز

گھر سجانے میں وقت لگتا ہے
کون کیا ہے یہ جاننے کے لیے
اس زمانے میں وقت لگتا ہے

ز
وہ آدمی جو بڑا باوقار لگتا ہے

اٹھائے سر پہ وہ صدیوں کا بار لگتا ہے
برس گیا ہے جو ابر بہار لگتا ہے

ہر ایک چہرے پہ دیکھو نکھار لگتا ہے
نہ جانے کون ہے کس دیس کا ہے بنجارہ

وہ جس کا دامنِ دل تار تار لگتا ہے
بجھے بجھے تیری آنکھوں کے دیپ لگتے ہیں

فسردہ میرے بھی دل کا دیار لگتا ہے
ابھی جو چپکے سے آیا ہے میری محفل میں

مجھے وہ شخص تو میرا ہی یار لگتا ہے
کہیں پہ زلفِ گرِہ گیر کھل گئی ہو گی

ہوا کا جھونکا مجھے مشک بار لگتا ہے
سلگ رہا ہوں گھنی چھاؤں میں پڑا یونسؔ
حیات نو کا شجر شعلہ بار لگتا ہے
ز
کیا فقط میں، شہر سارا جانتا ہے

وہ اچانک معتبر کیسے ہوا ہے؟
آنکھ بھر کے دیکھتا ہے ہر کسی کو

ہر کسی میں کیا وہ آخر ڈھونڈتا ہے؟
چاہتا ہے پھول کی بھی ہم سری وہ

خار سے بھی دُور رہنا چاہتا ہے
کر نہیں سکتا کنارا مجھ سے وہ

باوجود اس کے وہ ایسا چاہتا ہے
کل تلک خائف تھا مجھ سے کس قدر!

آج میرے جو مقابل آ کھڑا ہے
بد گماں ہے کس لیے وہ آج کل

شہر سارا مجھ سے کیوں کر پوچھتا ہے!
مفلسوں میں اس کی وقعت کچھ نہیں

اہلِ زر ہے وہ جو زر کو پوجتا ہے
شاعری کا فن تو اس نے دے دیا

اور کیا تو اپنے رب سے چاہتا ہے
سب نے دیکھا اس میں کتنا حوصلہ ہے
غم کو اکثر ہنس کے یونسؔؔٹالتا ہے
ز
شام ڈھلتے ہی احساس مجھے ہوتا ہے

دل میں دھڑکن کے علاوہ بھی کوئی رہتا ہے
مان جا اے دل ِمضطر تو بھلا دے اس کو

عمر بھر کون بھلا ساتھ یہاں چلتا ہے
کس قدر سخت مراحل سے گزر کر یارو!

ذہن کی کوکھ سے اک شعر جنم لیتا ہے
ہو گئی شہر میں بہتات خرد مندوں کی

دیکھیے ہم سے سلوک اب یہاں کیا ہوتا ہے
وحشت دل میں اضافہ ہی ہوا اے یونسؔ!
وقت کی آنکھ میں ہم نے جو کبھی دیکھا ہے
ز
مجھے وہ آزمانا چاہتا ہے

کہ بالکل ہی بھلانا چاہتا ہے
گوارا بھی نہیں کرتا وہ ملنا

تعلق بھی نبھانا چاہتا ہے
جگانا چاہتا ہے سوئے فتنے

مگر خود کو بچانا چاہتا ہے
کہانی چھیڑ کر بیتے دنوں کی

مجھے وہ کیا جتانا چاہتا ہے؟
دکھانا چاہتا ہے آئنہ بھی

حقیقت بھی چھپانا چاہتا ہے
رویہ تو کرے تبدیل اپنا

اگر اپنا بنانا چاہتا ہے
اُسے میں یاد رہنا چاہتا ہوں

مجھے وہ بھول جانا چاہتا ہے
وفا کی منزلوں کا ایک راہی

ترے دل میں ٹھکانہ چاہتا ہے
میں اپنے آپ سے بے زار یونسؔ
اُسے تو اک زمانہ چاہتا ہے

ز
شَعورِ ذات دینا چاہتا ہے

بدل حالات دینا چاہتا ہے
مجھے پھر ہارنے میں عار کیا ہے

اگر وہ مات دینا چاہتا ہے
غرور عشق و مستی چھین کر وہ

مجھے خیرات دینا چاہتا ہے
حَدودِ مصلحت سے بھی تو نکلے
اگر وہ سات دینا چاہتا ہے
ز
جدا مجھ سے کوئی ہوا چاہتا ہے

میں کیا چاہتا ہوں وہ کیا چاہتا ہے
یہ دستک ہے کیسی! یہ کس نے پکارا

کہ دروازہ دل کا کھلا چاہتا ہے
نہ جانے کہاں ہے مسیحا وہ میرا

’’دِیا‘‘ زندگی کا بجھا چاہتا ہے
پلٹ آیا شاید وہ آنا تھا جس نے

نگر دل کا پھر سے بسا چاہتا ہے
اُسے دوستو! میں کہاں تک سنبھالوں

جو نظروں سے خود ہی گرا چاہتا ہے
تھا مُدت سے تیری توجہ کا طالب

جو محفل سے تیری اُٹھا چاہتا ہے
ملی جس کو شہرت توسط سے میرے

مٹانے پہ مجھ کو تلا چاہتا ہے
نہ قربت، نہ دُوری ، نہ چاہت ، نہ نفرت

خدا جانے مجھ سے وہ کیا چاہتا ہے
مراسم بڑھا کر تو اہلِ جنوں سے

تماشا کیوں آخر بنا چاہتا ہے
جسے دیکھ لینا ہی کافی تھا یونسؔ
مخاطب وہ مجھ سے ہوا چاہتا ہے
ز
وہ تو دھڑکن کی طرح دل میں بسا رہتا ہے

یہ الگ بات کہ وہ مجھ سے خفا رہتا ہے
اس تیرے پیار میں اپنوں سے بھی ناتا ٹوٹا

پھر بھی اے جانِ وفا تجھ کو گلہ رہتا ہے
یہ مرا سایہ بھی مخبر ہے کسی دشمن کا

جو تعاقب میں مرے صبح و مسا رہتا ہے
سوکھ جاتے ہیں خزاں میں تو سبھی برگ و ثمر

زخم جو تو نے دیا وہ تو ہرا رہتا ہے
بدگماں ہے وہ مری ذات سے شاید یونسؔ
ایک دھڑکا سا مرے دل کو لگا رہتا ہے
ز
اچھا ہے یا برا ہے

یہ اُس کا مسئلہ ہے
ایسا بھی کیا ہوا ہے

چہرہ کھلا کھلا ہے
یہ کیسی تیرگی ہے!

روشن اگر دیا ہے
زندہ ہے وہ دلوں میں

کہنے کو مر چکا ہے
سب آسروں سے بڑھ کر

اِس غم کا آسرا ہے
جس دن سے دل کو توڑا

اس دن سے لا پتا ہے
لہجہ ہے سخت اس کا

بندہ وہ کام کا ہے
ہر صاحب بصیرت

کب تجھ میں مبتلا ہے
کس کا ہے یہ جنازہ

اک حشر سا بپا ہے
شہر ستم میں پگلے!
غم کون بانٹتا ہے
ز
جس نے برسوں سے تجھے دل میں بسا رکھا ہے
تو نے اس شخص کو سولی پہ چڑھا رکھا ہے
کیا ہوا آنکھ سے جاری ہیں جو آنسو ہمدم!
اک تبسم بھی تو ہونٹوں پہ سجا رکھا ہے
ایک تُو ہے کہ سبھی چاند ستارے تیرے
ایک میں ہوں کہ دیا تک بھی بجھا رکھا ہے
یہ تو ہم ہیں جو لیے پھرتے ہیں یادیں تیری
ورنہ دنیا نے تجھے کب کا بھلا رکھا ہے
جب بھی ملنا مجھے غیروں کی طرح ہی ملنا
تِری اس بات نے دل میرا جلا رکھا ہے
ایسی کیا ٹوٹ گئی تجھ پہ قیامت یونسؔ
خود کو تصویر سا کیوں تم نے بنا رکھا ہے
ز
زندگی کیا ہے، غور کرنا ہے

بے کَلی کیا ہے، غور کرنا ہے
جلتی بجھتی سی ان کی آنکھوں میں

روشنی کیا ہے؟ غور کرنا ہے
مل کے آیا ہوں بت پرستوں سے

بندگی کیا ہے، غور کرنا ہے
جلتا رہنے دو ان چراغوں کو

تیرگی کیا ہے غور کرنا ہے
چھوڑ آیا ہوں خود کو صحرا میں

تشنگی کیا ہے غور کرنا ہے
خود کو رکھنا ہے آئنوں سے پرے

آگہی کیا ہے غور کرنا ہے
بے سبب ہی اسے خفا کر کے

بے رخی کیا ہے غور کرنا ہے
کھوئے کھوئے سے ہم جو رہتے ہیں

بے خودی کیا ہے غور کرنا ہے
ربط رکھنا ہے سر بلندوں سے

عاجزی کیا ہے غور کرنا ہے
اس سے پہلے کہ رابطے ٹوٹیں

دوستی کیا ہے غور کرنا ہے
حفظ کرنا ہے سانولا چہرہ

دلکشی کیا ہے غور کرنا ہے
چاند چھپنے سے پیشتر یونسؔ
چاندنی کیا ہے غور کرنا ہے
ز
موتی نہ کوئی لعلِ یمن، مانگ رہا ہے

مجھ سے مرا سرمایۂ فن مانگ رہا ہے
اک عمر ہوئی جس کو تہہ خاک ہوئے بھی

آواز وہی شہرِِ سخن مانگ رہا ہے
حیرت ہے مرے ہونے کی پھر آج گواہی

مجھ سے وہ مرا جز و بدن مانگ رہا ہے
اک ہم کہ جنھیں فکر ہے بس اپنی انا کی

ہر شخص یہاں دولت و دھن مانگ رہا ہے
دستار فضیلت تو نہیں شہر کے حاکم!
لاشہ کسی مفلس کا کفن مانگ رہا ہے
ز
مری تو خیر ہے چھوڑو مجھے مرا کیا ہے

جدا ہی ہونا ہے مجھ سے تو سوچتا کیا ہے؟
یوں دیکھنا مجھے جیسے کبھی نہ دیکھا ہو

گھڑی گھڑی تجھے آخر یہ سوجھتا کیا ہے؟
گئی رُتوں کا فسوں ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں

سزا نہیں ہے اگر یہ تو پھر سزا کیا ہے؟
اگر نہ ہو تجھے زحمت تو پوچھ سکتا ہوں

سوائے رنج و الم کے مجھے دِیا کیا ہے؟
وہ جھانکنا مرا چاہت سے تیری آنکھوں میں

ہو پوچھنا ترا مجھ سے کہ مدعا کیا ہے؟
وہی ہے چہرہ ، وہی چال ہے ، وہی آنکھیں

پکار لے دل مضطر تو دیکھتا کیا ہے؟
ستم تو یہ ہے کہ لُوٹا ہے مجھے اپنوں نے

کسی کو کیا میں بتائوں مجھے ہوا کیا ہے؟
امیر شہر کو سمجھائے کون یہ جا کر

غریب شہر سے اُس کا مقابلہ کیا ہے؟
نکل گئی نا، میرے منہ سے آج سچی بات
پتہ چلا کہ نہیں سچ کا ذائقہ کیا ہے؟
ز
ہم پہ ہی کیوں یہ غیظ و غضب ہے

بات تو ویسے، غور طلب ہے
لاکھ پکارے اس کو کوئی

وقت کسی کی سنتا کب ہے!
پاس بھی رہ کر، مجھ سے گریزاں

پہلے نہیں تھا جتنا اب ہے
اب تو مسیحا خود سے پریشاں
شہر ہی سارا جان بہ لب ہے
ز
در پئے آزار ہے

کس طرح کا یار ہے
پاس رہ کر دور رہنا

کس قدر دشوار ہے
خیر ہو جذبِ جنوں کی

اب یہی غم خوار ہے
جب بھی چاہو جان حاضر

کب مجھے انکار ہے
بدگماں ہے ہر کسی سے

جانے کس کا یار ہے؟
ہم سے پوچھو شہر میں
کس کا کیا کردار ہے
ز
شکستگی جو مرے بام و در کے اندر ہے(۱۷)

علاج اُس کا کہاں سیم و زر کے اندر ہے
ابھی کہاں مرے سر پر غبارِ رُسوائی

ابھی تو چرچا مرا اپنے گھر کے اندر ہے
بجھا سکی نہ جسے رات بھر کی بارش بھی

ابھی وہ شعلہ مری چشمِ تر کے اندر ہے
اُتار سکتا ہوں کاغذ پہ ہو بہو اُس کو

ابھی وہ چہرہ مقید نظر کے اندر ہے
کسی بھی ٹہنی پہ کونپل کوئی نہیں جاگی

تو گویا چھائوں ابھی تک شجر کے اندر ہے
گزر گئی ہے قیامت یہ کیسی لوگوں پر

جسے بھی دیکھوں وہ لگتا سفر کے اندر ہے
اِسی گماں نے سلایا ہے تھپکیاں دے کر

ترے ظہور کا وقفہ سحر کے اندر ہے
کوئی تو دھارا لگا دے گا اُس کو ساحل سے

وہ اک سفینہ جو اب تک بھنور کے اندر ہے
نہ جانے کیا ہوئی یونسؔؔ متاعِ قلب و نظر
نہ جانے کس کے وہ قلب و نظر کے اندر ہے
ز
چہرے پہ بے بسی ہے نہ رنج و ملال ہے

لٹنے کے باوجود بھی میرا یہ حال ہے
بجھتے ہیں گر چراغ تو بجھنے دو اب انھیں

روشن کسی کی یاد سے طاقِ خیال ہے
نفرت کے بیج بونے سے پہلے یہ سوچ لے!

بستی میں چاہتوں کا تو پہلے ہی کال ہے
بے وقت روشنی کی تمنا نہیں ہے ٹھیک

دن ڈھل رہا ہے ، روشنی رو بہ زوال ہے
کیچڑ اُچھالنے سے ہی فرصت نہیں جنھیں

اپنی قبائوں کا اُنھیں کتنا خیال ہے
وہ مجھ سے بد گماں ہے تو حیرت کی بات کیا!

اس شہرِ بد گماں میں تو سب کا یہ حال ہے
پتھر تو خیر ہوتے ہیں پتھر ، مگر یہ کیا!
ہیرے کو ہیرا کہنا بھی اب تو محال ہے
ز
تجھے تیری قسم ہے

بتا کیوں آنکھ نم ہے
تجھے ہے صرف اپنا

مجھے تیرا بھی غم ہے
اگرچہ بے وفا ہے

وہ پھر بھی محترم ہے
تو خود ہی فیصلہ کر!

سرِ تسلیم خم ہے
ابھی دل مضطرب ہے

مگر پہلے سے کم ہے
یہی میدان ِمحشر

یہی ملکِ عدم ہے
نہیں رویا عزیزو!

ذرا سی آنکھ نم ہے
یہی گر زندگی ہے

یہی ملکِ عدم ہے
خدا کا شکر، یونسؔ
زمانے میں بھرم ہے
ز
یہ جو لرزش تری زبان میں ہے

جھوٹ گویا ترے بیان میں ہے
گر ہے شکوہ کوئی تو کھل کے بتا!

کچھ دنوں سے تو کِس گمان میں ہے؟
کیوں اٹھاؤں میں آسماں سر پر

اتنی وحشت تو ہر مکان میں ہے
شائبہ تک نہیں ہے، سورج کا

دھوپ کیسی یہ سائبان میں ہے!
کرنے آیا ہے، تصفیہ تو بتا!

تیری تلوار کیا میان میں ہے؟
ناؤ کے ناخدا! بتا تو سہی

شور کیسا یہ بادبان میں ہے؟
کیوں اچھالے کسی کی تو پگڑی

شہر مانا، تری امان میں ہے
ہم خریدیں گے جس بھی بھاؤ ملے
کیا محبت تری دکان میں ہے!
ز
ذرا سی بات وہ سمجھا نہیں ہے

دلوں میں فاصلہ اچھا نہیں ہے
چلے جانا، ابھی کچھ دیر بیٹھو

دلِ مضطر ابھی سنبھلا نہیں ہے
نہیں لگتا مجھے یہ بھرنے والا

اگرچہ زخم تو گہرا نہیں ہے
تمھیں میں چھوڑ سکتا ہوں بھلا کیا!
قسم لے لو کبھی سوچا نہیں ہے
ز
ایسا نہیں کہ تو یہاں سردار نہیں ہے

تعریف کے قابل تیرا کردار نہیں ہے
اب لاکھ اڑا پھرتُوہواؤں کے جلو میں

تو کچھ بھی نہیں دھرتی سے گر پیار نہیں ہے
کیوں کرتے نہیں ہو بھلا تم اُن سے کنارا

رندوں سے اگر کوئی سروکار نہیں ہے
پاگل تو نہیں دوں میں عدالت میں صفائی
جب جرم محبت سے تو انکار نہیں ہے
ز
ایسا بھی نہیں جرأتِ اظہار نہیں ہے(۱۸)

سچ بات کوئی سننے کو تیار نہیں ہے
تم جس کی محبت میں مرے جاتے ہو لوگو

وہ شخص تو نفرت کا بھی حقدار نہیں ہے
دنیا کے جھمیلوں سے ہی فرصت نہیں ورنہ

رستہ تو تیرے شہر کا دشوار نہیں ہے
جس شہر ہے تم لائے ہو غم اتنے اُٹھا کر

اُس شہر میں کیا کوئی بھی غم خوار نہیں ہے
تم ہو کہ لیے پھرتے ہو اِک چاک گریباں

محفوظ یہاں جُبّہ و دستار نہیں ہے
خواہش ہے کہ اُس شخص کی میں شکل نہ دیکھوں

اِس دیس کی مٹّی سے جسے پیار نہیں ہے
بے دام بھی بِک جائیں بڑی بات ہے یونسؔ
خوابوں کا یہاں کوئی خریدار نہیں ہے
ز
شعور و آگہی بالکل نہیں ہے

دلوں میں روشنی بالکل نہیں ہے
نبھاتا بھی وہ کیسے عہدِ الفت

اُسے تو یاد ہی بالکل نہیں ہے
بظاہر تو ترا لہجہ وہی ہے

مگر وہ چاشنی بالکل نہیں ہے
بسر تو تیرے بِن بھی ہو رہی ہے

مگر یہ زندگی بالکل نہیں ہے
سنایا جا رہا ہے غم کا قصہ

توجہ آپ کی بالکل نہیں ہے
تعلق ہے بھی تو بس واجبی سا
اب اُس سے دوستی بالکل نہیں ہے
ز
جان میں میری جان نہیں ہے

الفت بھی آسان نہیں ہے
خود سے خود ہی دور ہوا ہوں

اس کا بھی رجحان نہیں ہے
خوف ہے کیسا، چلنا ہو گا

رستہ تو ویران نہیں ہے
ہے کوئی ایسا شہر کہ جس میں

خوف نہیں، ہیجان نہیں ہے
کیسا رشتے دار ہے جس کو

رشتوں کی پہچان نہیں ہے
مشکل تو ہے آنا اس کا

خارج از امکان نہیں ہے
خلق خدا ہو جس سے تنگ

حاکم ہے انسان نہیں ہے
دکھتا ہے وہ جتنا ہم کو

اتنا بھی نادان نہیں ہے
جینا تو اب دور ہے یونسؔ
مرنا بھی آسان نہیں ہے
ز
چاہے گا مجھے وہ کبھی سوچا ہی نہیں ہے
ہاتھوں میں میرے پیار کی ریکھا ہی نہیں ہے
یہ چاند بھی نکلے تو تیری شکل بنائے
دل ہے کہ کسی طور سنبھلتا ہی نہیں ہے
میں ہوں کہ تجھے جان بھی دینے کو ہوں تیار
تو ہے کہ مجھے اپنا سمجھتا ہی نہیں ہے
ہر گھر ہے مقفل تو ہیں ویران یہ گلیاں
اس شہر میں شاید کوئی رہتا ہی نہیں ہے
کب تک وہ بھلا گاتا محبت کے ترانے
تم خود ہی کہو جب کوئی سنتا ہی نہیں ہے
کیا کیا نہ کیے ہم نے جتن جانِ تمنا
یہ درد تیرے پیار کا رُکتا ہی نہیں ہے
پاگل تو نہیں ہوں ، جو اُسے چھوڑ دوں یونسؔ
بن دیکھے جسے وقت گزرتا ہی نہیں ہے
ز
عجب یہ اک راستہ ہے

حادثے پر حادثہ ہے
رہ گئی تعمیل اب تو

فیصلہ تو ہو چکا ہے
اس کے میرے درمیاں پھر

اک مسلسل فاصلہ ہے
اک ادھورا عکس ہے

کرچی کرچی آئنہ ہے
سو چکے ہیں راستے سب

کون کس کو ڈھونڈتا ہے
بھول جائیں، ہم تمھیں!

آپ کا بس واہمہ ہے
گو مقدر سو چکے ہیں

پھر بھی ہم کو جاگنا ہے
مصلحت کی آڑ ہی میں

جو تھا ہونا ہو چکا ہے
خامشی کی آب جُو میں

کون کنکر پھینکتا ہے؟
ز
جن مراحل سے گزر کر یہ سحر ہوتی ہے
شب گزیدوں کو بہر حال خبر ہوتی ہے
کیسی بستی میں چلے آئے سفیرانِ وفا
ہر قدم پر جہاں توہینِ بشر ہوتی ہے
کیسے رکھتا وہ یہاں حفظِ مراتب کا خیال
ایک پاگل کو کہاں اتنی خبر ہوتی ہے
دیکھیے اب کے پڑائو ہے کہاں قسمت میں
دیکھیے اب کے کہاں رات بسر ہوتی ہے
تو نے کی تھی جو محبت کی نوازش اک بار
دیکھنا ہے کہ یہ کب بارِ دگر ہوتی ہے
حُسنِ تقدیس کا احساس بھی ہو جس کو ذرا
وہی پاکیزہ و معصوم نظر ہوتی ہے
اُس کی پہچان کا بس اتنا حوالہ ہے بہت
اُس کے ماتھے پہ شکن زیر و زبر ہوتی ہے
یہ الگ بات کھلا رکھیں دریچہ شب بھر
کب میسّر ہمیں تنویرِ قمر ہوتی ہے

ز
عقل کی دل سے ٹھنی رہتی ہے

مجھ میں ہل چل سی مچی رہتی ہے
زندگی کیا ہے کبھی پوچھ اس سے

وہ جو اک ’’بخت جلی‘‘ رہتی ہے
کرنے ہوتے ہیں مجھے کام کئی

دل کو اپنی ہی پڑی رہتی ہے
اس کا کہنا کہ محبت آسان
میری تو جاں پہ بنی رہتی ہے
ز
ہو کا عالَم ہے خوف طاری ہے

آج کی رات ہم پہ بھاری ہے
تیکھے تیکھے ہیں شام کے تیور

دل کے آنگن میں سوگواری ہے
دیکھتے کیا ہو، میری آنکھوں میں

بے قراری ہی بے قراری ہے
کل تھے مقتل میں سر کٹے کتنے!

آج مقتل میں کس کی باری ہے
میں ہوں راہی وفا کی منزل کا

میری فطرت میں خاکساری ہے
خود پہ رویا کبھی میں خود پہ ہنسا

زندگی اس طرح گزاری ہے
جو بھی کہنا ہے کہہ بھی دو یونسؔ
کیسی اپنوں سے پردہ داری ہے
ز
ساری محفل پہ کیف طاری ہے

چشمِ ساقی کا فیض جاری ہے
زرد کتنا ہے! شام کا چہرہ

گویا ہم پر یہ رات بھاری ہے
رو پڑے وہ بھی گر بتا دیں ہم

کس اذیت میں شب گزاری ہے
بھول جاتے ہیں ایک دوجے کو

یہی خواہش اگر تمھاری ہے
جو بھی دیکھے، وہ دیکھتا ہی رہے
تیری صورت ہی اتنی پیاری ہے
ز
ایک تو بے وفا ضروری ہے

عشق میں اور کیا ضروری ہے
پاس رہ کر بھی بے رخی اتنی!

کیا مجھے مارنا ضروری ہے
ایسا لگتا ہے حق بچانے کو

پھر کوئی کربلا ضروری ہے
سچ تو یہ ہے کہ آدمی کے لیے
پیار کرنا بڑا ضروری ہے
ز
ہر ایک نظر میرے ہی چہرے پہ گڑی ہے
اس جرمِ محبت کی سزا کتنی کڑی ہے
بے جُرم و خطا سولی پہ ہم لوگ چڑھے ہیں
انصاف کی دیوی ہے کہ چپ چاپ کھڑی ہے
دوچار قدم چلنا بھی دشوار ہوا ہے
زنجیر میرے پاؤں میں کیسی یہ پڑی ہے
ہر شخص تیرے حکم کا تابع ہے یہاں پر
لگتا ہے تیرے پاس بھی جادو کی چھڑی ہے
اے گردشِ دوراں تجھے ہے اس کی خبر کیا!
یہ سانس مری جان میں اب تک جو اَڑی ہے
اے دشمنِ جاں! تیرے رویے کی بدولت
ہر ایک گھڑی اب تو قیامت کی گھڑی ہے
ہنستے ہوئے چہرے پہ نظر کیسے ٹکے گی
آنسو بھی تری آنکھ کے ہیروں کی لڑی ہے
ز
اتنی مشکل جو زندگانی ہے

میرے یاروں کی مہربانی ہے
غم اچنبھا نہیں ہیں میرے لیے

ان سے وابستگی پرانی ہے
کیوں نہ انسانیت کے کام آئے

جاں تو ویسے بھی اپنی جانی ہے
دیکھنا تک نہیں گوارا اسے
بات جس کی ہر ایک مانی ہے
ز
بعد مدت کے میرے ہوش ٹھکانے آئے
پوچھنے مجھ کو میرے یار پرانے آئے
شہر کا شہر ہی دشمن ہے ہمارا یا ربّ!
ہاتھ جب سے یہ محبت کے خزانے آئے
ہم تو آئے ہیں فقط دید کو تیری ہم دم!
حال دل کا تو نہیں تجھ کو سنانے آئے
یہ مناسب تو نہیں تیرے لیے جانِ غزل!
جب بھی آئے تو فقط دل ہی دکھانے آئے
اپنے ہاتھوں سے اجاڑا ہے جسے خود ہم نے
ایسی بستی کو بھلا کون بسانے آئے
ز
ہوش ایسے تو نہیں میرے ٹھکانے آئے
اب کے کچھ یار میری خاک اُڑانے آئے
عمر گزری ہے سرِ راہ صدائیں دیتے
لوٹ کر پھر نہ وہ بچپن کے زمانے آئے
عقل کہتی ہے کہ ’’دنیا سے کنارا اچھا‘‘
دل یہ چاہے کہ کوئی زخم لگانے آئے
دُکھ تو اس کا ہے کہ بے شکل ہیں چہرے جن کے
آئنہ وہ بھی مجھے آج دکھانے آئے
پھر بھی نکلا نہ محبت کا یہ سودا سر سے
مجھ کو سمجھانے جہاں بھر کے سیانے آئے
ز
ختم ہیجان کر دیا جائے

ہم پہ احسان کر دیا جائے
میرا جینا اگر نہیں بھاتا

مرنا آسان کر دیا جائے
بَیعتِ ظلم ہے اگر جائز

جاری فرمان کر دیا جائے
زندگی ہم کو زندگی ہی لگے

ایسا سامان کر دیا جائے
عزت نفس کو بھلا یونسؔ!ؔ
کیسے قربان کر دیا جائے
ز
کیوں نہ صورت کوئی ایسی بھی نکالی جائے
وقت کے پائوں میں زنجیر ہی ڈالی جائے
اس سے پہلے کہ گرا دے اسے شر کا دریا
کیوں نہ بستی ہی کہیں اور بسا لی جائے
اب وہ اوروں کی حفاظت پہ ہے مامور یہاں
جس سے دستار نہ اپنی بھی سنبھالی جائے
میں کہ اُس شخص سے اب ترکِ تعلق سوچوں
جس کی حسرت ہی نہ اس دل سے نکالی جائے
بھید کھل جائے گا پھر تیری سخاوت کا یہاں
تیرے در سے بھی اگر شخص وہ خالی جائے
عین ممکن ہے نظر تیری ہی لگ جائے اُسے
اُس کے چہرے سے نظر اپنی ہٹا لی جائے
کتنا اچھا ہو کہ کردار کو پختہ کر کے
دھاک دشمن پہ میرے دوست بٹھا لی جائے
اتنے درپیش ہیں ہستی کے مسائل یونسؔؔؔ
اُن سے ملنے کی بھی فرصت نہ نکالی جائے
ز
غم کے مہیب سائے

مثلِ رقیب، سائے
ہم سے تو گیسوؤں کے

ہیں خوش نصیب، سائے
ماتم کناں ہیں کیوں کر

دل کے قریب سائے
خود سر ہیں یہ بھی یونسؔ!
ہیں نا! عجیب سائے
٭٭٭٭٭٭٭٭

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...