Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

دو آبہ (ناول) |
حسنِ ادب
دو آبہ (ناول)

ناول
ARI Id

1689951344076_56116822

Access

Open/Free Access

اُس کا گاؤںسو، سوا سو کچے اور دو پکے گھروں پر مشتمل تھا۔ اُس کا گاؤں دریائے راوی کا وہ اندھا طاقت ور پانی تھا جو کبھی تو ارد گرد کی زمین پر بھی بھل ڈال کر اُسے اور بھی طاقت ور اور زرخیز بناتا تو کبھی لہلہاتی فصلوں، کچے مکانوں اور دیواروں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا۔گہرے مٹیالے رنگ کا وہ جھاگ والا ٹھنڈا پانی زندگی اور موت کا جدا جدا رنگ تھا۔اُس کا گاؤں وسیع و عریض برساتی نالے کے ریتلے پیٹ میں کہیں کہیں بنے ہوئے وہ جوہڑ تھے، جن کے نم آلود کناروں پر ریت کو کھود کھود کر ہل چلانے والے ، چرواہے اور مسافر چھوٹے چھوٹے گڑھے بناتے، وہ گڑھے نتھرے ہوئے پانی سے بھر جاتے تو وہ اِس پانی سے اپنی پیاس بجھا لیتے۔:وہ جوہڑ جو برساتی نالہ خشک ہو جانے پر بھی پانی سے بھرے رہتے تھے، وہ جوہڑ جن میں نوجوان چرواہے تپتی دھوپ میں چھوٹے چھوٹے گول سینگوں والی بھینسوں کو نہلاتے، ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بھینسوں کے جسم کو چمکاتے اور خود ڈبکیاں لگاتے ہوئے نہاتے۔
اُس کا گاؤں پورب کی وہ ٹھنڈی ہوا تھی جو شام کو چلتی تو سانپ اور دیگر کیڑے مکوڑے اپنی قیام گاہوں سے نکل کر لہلہاتے خوب صورت کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر بے خوف لیٹ جاتے۔ اُس کا گاؤں جیٹھ ہاڑ کی چلچلاتی اور ویران دوپہروں کی طرح تھا جن میں کنوارے لڑکے اکیلے خوشبو لگا کر باہر نکلنے سے خوف کھاتے تھے کہ کہیں چڑیلیں اُن کا کلیجہ نہ نکال لیں۔ اُن گرم دوپہروں میں چرواہے اپنے مویشیوں کو ماؤں جیسے مہربان شیشم کے درختوں کی چھاؤں میں جگالی کرتے چھوڑ کر اُن کے پاس بیٹھ کر اڈہ کھڈہ کھیلتے یا پھر فحش گانے گاتے۔
اُس کا گاؤں ساون بھادوں کی ہواؤں کے وہ تیز جھونکے تھے جو آم کے پیڑ پر بور اور بور سے آم بنا دیتے تھے۔ آموں کے درختوں کے نیچے لڑکے بالے دوپہریں گزارتے، خرمستیاں کرتے یا کھیل کھیل کے بہانے درختوں پر چڑھ کر کچے اور کھٹے آم کھاتے اور "سی سی " کرتے۔
اُس کا گاؤں دائرے کی وہ رونق تھی جو شب و روز جاگتی اور جوان رہتی۔ وہ دائرہ جس میں بیٹھے بوڑھے ضعیف پچھلے وقتوں اور اچھے گزرے دنوں کو یادکرتے جب کہ نوجوان آنے والے دنوں کے حسین سپنے دیکھتے۔
اُس کا گاؤں پوھ ماگھ کی یخ، ٹھنڈی، لمبی اور تاریک راتوں میں صحنوں اور حویلیوں میں اُٹھنے والے وہ الاؤ تھے جن کے گرد بزرگ، جوان اور بچے بیٹھ کر ہر طرح کی باتیں کرتے۔
اُس کا گاؤں رات کو چلتے رہٹ کا وہ گیت۔۔۔۔۔۔۔۔ کماد کے پکتے ہوئے رس کی مہک، ہنہناتے گھوڑوں، گھوڑیوں کی با رعب، خوبصورت آواز، ستاروں کی وہ ہلکی ہلکی ، میٹھی میٹھی روشنی جن میں کسان بیلوں کو لے کر ہل چلانے نکلتا ہے اور وہ چاندنی تھی جس میں دودوشیزائیں اپنے محبوب کے چہرے دیکھتے دیکھتے رات گزار دیتیں حتیٰ کہ سورج طلوع ہو جاتا۔
اُس کا گاؤں رات کا وہ پردا تھا جس میں چور، سادھ، عاشق اور سانپ آزادی سے چلتے پھرتے تھے۔ رات جس میں الّو کابولنا اور کتے کا رونا منحوس سمجھا جاتا ہے۔
اُس کا گاؤں کبھی کبھار آنے والی وہ لال آندھی تھی جو کسی بے گناہ کے قتل کے بعد آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندھی، بہری آندھی جو کھڑی فصلوں کو لٹا دیتی، ڈھاریوں کی چھت اُڑا کے لے جاتی اور اَکڑے ہوئے، مغرور اونچے درختوں کی کمر توڑ دیتی۔
اُس کا گاؤں درختوں کی زندگی جیسا سایہ، دور تک ارد گرد پھیلی فصلوں کا سبزہ اور اُن پر فقیروں جیسی مستی اور بے پرواہی سے چلنے والی ہوا تھی۔
اُس کا گاؤں زمین کے چاروں طرف پھیلی مہک تھی، مہک جو زندگی کی مہک ہوتی ہے۔
اُس گاؤں وہ مائیں تھیں جو سو سومنتوں کے بعد بیٹوں کو جنم دیتیں اور پھر اُنہیں پورا دودھ پلاتیں۔
ُاس کا گاؤں سورج جیسے چہروں، شہتوت کی شاخوں جیسی پتلی کمر اور کانچ کی چوڑیوں کی طرح نازک دوشیزائیں تھیں اور فولادی بازوؤں، پتھر جیسی سخت چھاتیوں اور گلہری کی دم جیسی اوپر کو اُٹھی مونچھوں والے نوجوان تھے جن میں سے کم ہی بوڑھے ہو کر مرتے، زیادہ تر اپنی عزت کی خاطر دلیری سے قربان ہو کر جوانی میں ہی بھرا میلہ چھوڑ جاتے۔
ُاُس کا گاؤں مرتے باپ کی آخری تاکید تھی جو وہ اپنی دوستیاں اور دشمنیاں نبھانے کے لیے کرتا ہے۔
ُاُس کا گاؤں بہادر نوجوانوں کی مرنے سے پہلے ماں سے بتیس دھاریں بخشوانے کی رِیت تھی۔
ُاُس کا گاؤں کرپانوں، کلہاڑیوں، ٹکدوں، ٹکووں، درانتوں، برچھیوں، بلموں اور چھویوں کی تیز اور بال سے باریک دھار جیسا تھا۔
اُس کا گاؤں ہواؤں سے تیز بھاگنے والی گھوڑیوں کے نتھنوں سے نکلنے والی آگ کی شوکار۔۔۔۔۔ ُان کے پسینے سے شرابور جسم سے نکلنے والی جھاگ اور پاؤں سے اُٹھنے والی دھول تھی۔
گھوڑیاں جو کہ لڑکیوں کی طرح غصے اور شرم والی ہوتی ہیں؛ گھوڑیاں جن کا پورا جسم اجنبی ہاتھ لگنے سے غصے اور شرم کی وجہ سے پسینے سے شرابور ہو جاتا ہے۔
اُس کا گاؤں دوستوں کی دوستی، دشمنوں کی دشمنی۔۔۔۔۔۔۔بڑے کی عزت۔۔۔۔۔۔۔ غریب کا لحاظ ۔۔۔۔۔۔طاقت ور سے ٹکر۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں کی بہن بیٹی کی حفاظت اور سادھو، سنت، پیر فقیر کی دعائیں لینے کی پوری کوشش کرتا تھا۔
اُس کا گاؤں زمین اور انسان کا وہ پیار تھاجو پیدائش سے لے کر موت تک ہمیشہ جوان رہتا ہے۔
اُس کا گاؤں سو ، سوا سو کچے اور دو پکے گھروں پر مشتمل ایک گاؤں ہی نہیں تھا۔
لکھی ٹولی سے بچھڑے ہوئے بھیڑے کی طرح اداس ہو گیا تھا،اپنے پورے گاؤں سے۔
پوہ ، ماگھ کی ایک ٹھنڈے دن، صبح کے وقت گرم اور مہربان سورج کی طرف منہ کر کے بیٹھا وہ آسمان پر اُڑتی ہوئی بدلیوں اور اُڑتے ہوئے آزاد پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔ سامنے احاطے میں پھولوں اور سبزیوں پر گرنے والا کہر، اُبھرتے ہوئے سورج کی ہلکی ہلکی گرمی سے پگھل رہا تھا۔اُس کے سامنے دھریک کے جوان بوٹے کے سبزے سے پیلے ہوتے ہوئے پتے تیز ہوا سے گرتے اور مزید دور ہوتے جاتے تھے۔ کبھی وہ بڑی توجہ سے دھریک سے گرے ، ہوا سے اُڑتے پتوں کی طرف دیکھتا تو کبھی سامنے آسمان پر اُڑتے ہوئے پرندوں اورچھپن چھپائی کھیلتی بدلیوں اور چلتی ہوا کو دیکھ کر اُس کے اندر سے ایک لمبی سرد آہ نکلتی۔بادل آزاد، پرندے آزاد، پتے آزاد اور وہ قید! بابا حکم سنگھ سیاسی ٹھیک ہی کہتا تھا"آزادی کا ایک لمحہ، غلامی کی ساری زندگی سے بہتر ہے"
"ٹھیک ہے" لکھی نے سوچا"مجھ سے تو بادل ، ہوا اور پرندے اچھے ہیں جو قید نہیں"
جیل میں رہتے جیسے لکھی کو عمریں بیت گئی تھیں۔
vvvvv

سورج غروب ہونے کو ہی تھا۔لکھی دائرے والے بوہڑ کے نیچے پڑے ہوئے پتھر کے ساتھ سہ پہر سے ہی کشتی کر رہا تھا۔ پچھلے دو تین ماہ سے یہ اُس کا روزانہ کا کام تھا۔ویسے تو گاؤں کے اور بھی نوجوان کوشش کر چکے تھے مگر وہ پتھر کسی سے بھی نہیں اٹھایا گیا تھا۔ ارد گرد کے منوں کے حساب سے وزن اٹھانے والے جوان بھی یہ کوشش کر چکے تھے مگر کوئی اِس پتھر کو چھاتی تک بھی نہ اٹھا پایا۔ لکھی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا کہ وہ روزانہ اِس پتھر سے زور آزمائی کرتا۔ اُسے دائرے میں بیٹھنے والے کئی بزرگوں نے اِِس پتھر سے زور آزمائی کرنے سے منع بھی کیا۔ اُن کے اندازے کے مطابق لکھی کی جسامت کسی صورت بھی اِس پتھرکو اٹھانے والی نہیں تھی مگر لکھی اُن کی بات پر کان دھرے بغیر اِس پتھر سے زور آزمائی شروع کر دیتا۔
اُس دن بھی سہ پہر سے لکھی اِس پتھر کے ساتھ زور آزمائی کرتے کرتے پسینے سے شرابور ہو چکا تھا۔ سردیوں کے دن تھے مگر اِس کے باوجود لکھی کے بدن سے پسینہ ایسے بہہ رہا تھا جیسے جیٹھ ، ہاڑ کے گرم دن ہوں۔ دائرے میں بیٹھنے والے بزرگ، نوجوان اور بچے لکھی کے ارد گرد جمع ہو کر اِس بھاری پتھر اور نوجوان لڑکے کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک ہی چارپائی پر بیٹھے فوجا سنگھ اور نواب خان نمبر دار یہ تماشا دیکھ کر ایسے ہنسے جیسے کوئی بزرگ کسی بچے کو سہاگہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھ کر ہنسے۔ایسے موقعوں پر فوجا سنگھ کبھی خاموش نہیں رہتا تھا۔ وہ جب بھی کسی نوجوان کو اِس پتھر سے زور آزمائی کرتے ہوئے دیکھتا یا اُس کے بارے میں بات کرتے سنتا تو کہتا!
"اے لڑکو! تم نے یہ پتھر کیا اُٹھانا ہے۔یہ پتھر اُٹھانے والے دنیا سے چلے گئے۔"
یہ کہتے ہوئے ہمیشہ اُس کی آنکھیں نم آلود ہو جاتیں اور وہ بھرائی ہوئی آواز سے کہتا:
"اِس پتھر کو بھائی وریام سنگھ ِاس طرح اٹھا لیتا تھا جیسے پھول اُٹھا لیتے ہیں۔ اِب اس پتھر کو اُٹھانے والے نوجوان کو کون ماں جنم دے گی!"
فوجا سنگھ کب جھوٹ بول رہا تھا؟وریام سنگھ جیسا طاقتور اور صحت مند نوجوان پورے علاقے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ جب سے یہ گاؤں آباد ہوا تھا اُس وقت سے یہ پتھر اِسی جگہ پڑا تھا۔کبھی بھی کسی نے اِسے سر سے اُوپر تک نہیں اٹھایا تھا۔ وریام سنگھ جب پچیس برس کا جوان تھا، اُس نے نہ صرف یہ پتھر اُٹھا لیا بلکہ سر سے اوپر تک لے گیا تھا۔اِس پتھر کو پھر کبھی کوئی اُٹھا کر چھاتی تک بھی نہ لا سکا اور لکھی جو اُس وقت بیس برس کا تھا اپنے طاقتور باپ کا مقابلہ کر رہا تھا"وریام سنگھ کا بیٹا بڑا حوصلے والا جوان"
اُس نے نواب کو کہا۔ پھر لکھی کو آواز دے کر کہنے لگا!
"رہنے دے بیٹا! ابھی تم کمزور ہو، کہیں چوٹ نہ لگوا بیٹھنا۔ ابھی یہ تیرے بس کی بات نہیں"
مگر لکھی نے مڑ کر بھی نہ دیکھا اور پتھر سے زور آزمائی کرتا رہا۔ پھر اچانک ایک شور بلند ہوا۔ لکھی پتھر کو اٹھا کر اپنی چھاتی تک لے گیا تھا مگر بھاری پتھر اُس سے سنبھا للہ نہ گیا تو کچھ دور پھینک دیا۔دور بیٹھے فوجا اور نواب ذرا قریب آ کر اندر سنگھ کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے جو باقی لوگوں کے ساتھ کھڑا لکھی کو پتھر اُٹھاتے دیکھ رہا تھا۔
"بھئی لکھی نے تو کمال کر دیا۔" اِندر نے کھیس کی بکل مارتے ہو ئے فوجے اور نواب کی طرف دیکھ کر کہا"شاباش جوان"
نواب نے لڑکے کو ہلا شیری دی۔پسینے سے شرابور لکھی پتھر پر نظریں گاڑے اُس کے گرد چکر لگاتے کہنے لگا۔
’’قسم سے میں اِس کے بھید سے واقف ہو گیا ہوں‘‘
تھوڑی دیر دم لینے کے بعد وہ پھر پتھر سے چمٹ گیا۔پسینے سے بھیگی ہتھیلیوں پر مٹی ملنے کے بعد اُس نے زور مارا، پتھر اُس کے رانوں پر تھا۔وہاں پتھر کو ایک دو پل روکنے کے بعد اُس نے جھٹکا لگا کر زور مارا اور پتھر کو چھاتی تک لے آیا۔ چھاتی پر چند لمحے پتھر کو روکنے کے بعد اُس نے سانس درست کیا۔ اُس کے بازوؤں کے پٹھے کمان کی طرح تن گئے ، اُس کے چہرے اور گردن کی خون کی نالیاں رسیوں کی طرح پھول کر پھٹنے کو آ گئیں۔ اُس کا منہ اِس طرح سرخ ہو گیا تھا کہ محسوس ہوتا تھا ابھی خون بہنا شروع ہو جائے گا۔اُس نے "یا علی" کا نعرہ لگایا اور پتھر کو سر سے اوپر اٹھا لیا۔چند لمحات کے لیے اُس نے پتھر کو ہتھیلیوں پر روکے، کانپتے پاؤں قابو میں کیے اور پھر پتھر کو دور پھینک کر اُس کے گرد گھومنے لگا۔ کانپتے ہوئے ہاتھ ، پاؤں کو اصلی حالت میں لانے کے لیے ہلاتے جلاتے اور سانس درست کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اُس نے ارد گرد بیٹھے اور کھڑے پتھر بنے لوگوں کی طرف دیکھا۔ صرف لوگوں کے سانس لینے کی آواز آ رہی تھی۔ ارد گرد بیٹھے، کھڑے ہوئے، حیرانگی سے گونگے ہوئے لوگ کبھی پتھر کی طرف دیکھتے تو کبھی پسینے سے شرابور لکھی کے جسم کی طرف۔ اُن کی نظروں میں بڑی بے یقینی تھی۔آخر کار فوجا سنگھ بولا، مگر ایسے جیسے اُس نے کوئی خواب دیکھ لیا ہو، ڈرا دینے والا، حیران کر دینے والا اور یقین نہ کرنے والا۔ بمشکل اُس نے کہا۔
"بھئی بڑی بات ہے۔‘‘
پھر لوگ بھی آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے مگر آواز میں اب بھی بے یقینی اور خوف تھا۔ فوجا سنگھ منہ میں ہی کچھ بڑبڑا رہا تھا۔اُس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی،صرف اُس کی داڑھی ہلتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ اصل میں شاید اُسے ابھی تک یہ یقین نہیں آیا تھا کہ وریام جیسا علاقے بھر میں مشہور طاقت ور جس پتھر کو پچیس سال کا مکمل جوان ہو کر اٹھانے لگا تھا ، بیس سالوں کے لکھی نے کیسے اٹھا لیا؟ لکھی میں اِتنی طاقت اور ہنر کیسے آ گیاجو پورے علاقے میں وریام سے پہلے یا بعد میں کسی کو نصیب نہ ہوا تھا۔یہ سوچتے ہوئے اُس نے اپنی لمبی، سفید اور بکھری ہوئی داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا:
"قسم گرد کی! بہت بڑی بات ہے"
"جسے سچابادشاہ، سچی سرکار دے"
اِندر نے کھیس کو اپنے جسم پر مزید کس کر لپیٹتے ہوئے نواب کی طرف دیکھ کر کہا:
"بھائیو! سب رب سوہنے کی کھیل ہیں۔"
سورج کو غروب ہوئے کافی دیر ہو گئی تھی۔ سردی اور اندھیرا دونوں آہستہ آہستہ زمین پر اُتر رہے تھے دوسری طرف جھنڈا اور مکھن دائرے میں اِتنے سارے آدمیوں کا اکٹھ دیکھ کر اُسی طرف آ رہے تھے۔جھنڈے نے لکھی کو پسینے میں شرابور دیکھ کر کہا۔
"لکھی! تجھے کتنی بار کہا ہے کہ ابھی تو بہت کمزور ہے اِس لیے اس پتھر کو ہاتھ نہ ڈالا کر۔ "
"بیٹا جھنڈا سیئیاں! اب لکھی نہیں،"فوجا جھنڈے کو کہنے لگا:"اب لکھا سنگھ کہا کر جوان کو"
"جوانو! لکھا سنگھ نے پتھر کو سر سے اوپر اٹھا لیا ہے"
اِندرنے جھنڈے اور مکھن کو بتانے میں پہل کی۔
"سچی؟"مکھن اور جھنڈے نے بے عتباری سے پوچھا۔
"قسم سے ، حقی سچی بھئی!"اِندر نے دوبارہ کہا۔
"آہو، آہو!" کئی آوازیں اندر سنگھ کی گواہی میں بلند ہوئیں۔ جھنڈے نے لکھی کی طرف دیکھا۔ لکھی مسکرایا۔ اُس کے جسم کے تمام اعصاب تن گئے۔ اُس کی چھاتی اور چوڑی ہو گئی، اُس کی گردن اصیل مرغے کی طرح اونچی ہو کر اکڑ گئی اور جھنڈا بھی خوشی سے چوڑا ہو گیا۔
"جوانو! آج قسم سے بھائی وریام سنگھ بڑا یاد آ یا ہے۔" فوجا سنگھ کی آواز بڑی دور سے آتی محسوس ہوئی۔
جھنڈے اور لکھی کے جسم ڈھیلے پڑ گئے!
vvvvv

وریام سنگھ بڑا خوبصورت، نیک سیرت اور بھاری جسم کا نوجوان تھا۔وہ گاؤں کی پہچان تھا۔ جوان ایسا کہ لوگ اُسے دور دور سے دیکھنے آتے، تحمل مزاج ایسا کہ ہر ایک کی بات برداشت کر لیتا، بہادر اتنا کہ ساری عمر اکیلا رہا اور مخالفین کے سامنے کبھی نہ جھکا۔ وریام سنگھ بنا ہی ایسے لوہے سے تھا کہ وہ ٹوٹ تو سکتا تھا لیکن اُس میں لچک نہیں آ سکتی تھی۔وہ صلح سلوک کی مٹی سے بنا ہوا تھا اور اُس نے پیار محبت کا رشتہ قائم کر رکھا تھا۔ ہر مشکل وقت میں گاؤں کے پچیس ، تیس لوگ اُس کے ساتھ ہوتے۔ وہ دوستوں کا دوست اور دشمنوں کا دشمن تھا،تحمل مزاج دوست، تحمل مزاج دشمن۔ اُس کی دشمنی بھی بڑے لوگوں سے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ سودا سنگھ بڑا چالاک اور تعلق واسطے والا انسان تھا۔اُس کے کئی ساتھی تھے۔دو بھائی، چھ بیٹے، بھتیجے، بھا نجے بھی ساتھ اور کئی مشکوک کردار کے دوست بھی۔ مگر وریام بیلے میں اُگے ہوے ون کے درخت کی طرح اکیلا تھا۔ پہلے تو دونوں میں بڑ ے اچھے تعلقات تھے۔ پھر ایک گھوڑی کی وجہ سے (کئی لوگ کہتے ہیں ایک عورت کی وجہ سے) ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔جٹوں میں دشمنی بھی ولائتی اک کی طرح بڑھتی ہے، بڑھتی رہی۔
گروپ تو وریام سنگھ کا بھی کمزور نہیں تھا۔ اندر سنگھ، نواب خان، نمبردار اور فوجا سنگھ سے اُس کا یارانہ تھا بلکہ فوجے اور وریام نے تو پگڑیاں بدل رکھی تھیں اور دکھ ، سکھ میں بھی اُن کے گھر دو نہیں سمجھے جاتے تھے۔ جب بندہ خود بھی اچھا بھلا ہو اور فوجے جیسا کھرا دوست بھی ہو تو پھر کیسے ممکن تھا کہ وریام سوداگر وغیرہ سے ڈر کر رہتا؟ڈر کر رہنا تو دور کی بات ہوتی ہے، وریام تو جب تک زندہ رہا اُس نے ہمیشہ ہر کام اور ہر میدان میں سودا گر کو نیچا دکھایا۔ وریام نے اُسے کبھی ٹک کر بیٹھنے ہی نہیں دیا تھا۔پھر جب سوداگر اور اُس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ وہ وریام کو نہ تو زبان سے مار سکتے ہیں اور نہ ہی ہاتھ سے تو انہوں نے اُس پر چھپ کر وار کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔یہ بات درست ہے کہ جوانوں کا کام چھپ کر وار کرنا نہیں ہوتا مگر سوداگر کب جوان تھا، وہ تو چھپ کر وار کرنے والا ہی تھا۔
وریام قتل ہو گیا۔ اُسے قتل کرنے کے لیے پتا نہیں کتنا بڑا اکٹھ کیا گیا ہو گا اور کہاں کہاں سے لوگ آئے ہوں گے لیکن یہ بات ہر شخص کرتا تھا کہ اُسے مارنے کے لیے باہر سے بھی بندے بلائے گئے ہوں گے، صرف سوداگر وغیرہ میں ہمت نہیں تھی کہ وریام کو مار سکتے۔دشمنوں نے اُسے اِس طریقے سے قتل کیا کہ ُاس کی لاش تک نہ ملی۔انہوں نے جہاں وریام کو قتل کیا وہ جگہ ڈیرے والے پتن سے دو ایکڑ مغرب میں تھی۔ بے شک وریام کی لاش کے ٹکڑے راوی کا پانی ساتھ بہا لے گیا مگر کنارے پر تین چار مرلے ریت میں وریام کی مہک اور رنگ چھلکتا ہوا نظر آتا تھا۔اُسے پانی کیسے چھپاتا۔
پولیس کو لے کر جب فوجا اور گاؤں کے دیگر افراد وہاں پہنچے تو فوجا بمشکل اپنے آنسو روک پایا تھا۔ اُس نے اپنا پگ والا سر اور منہ کندھے والی چادر میں چھپا لیا۔ جوان کا آنسو بہانا اچھا نہیں ہوتا۔
"فوجا سئیاں! وریام یہاں قتل ہوا ہے؟" ڈیرے کے برہمن تھانیدار نے پوچھا۔
"جی!" فوجے نے کانپتی آواز سے کہا۔
"تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ یہاں وریام ہی قتل ہوا ہے اور یہ خون بھی اُسی کا ہے۔گواہ کہاں ہیں؟ "برہمن تھانیدار نے ضابطے کی کارروائی پوری کرتے ہوئے پوچھا۔
ٍ فوجے کی چیخیں نکل گئیں۔ خون آلود، خشک اور سیاہ ہوتی ہوئی ریت کو دونوں مٹھیوں میں لے کر اُس نے تھانیدار کے منہ کے سامنے کرتے ہوئے کہا:
"تھانیدار صاحب !کیا بچوں والی بات کر رہے ہیں؟ اِسے سونگھیں ! اِس خون سے تمہیں وریام کی خوشبو نہیں آ رہی؟وریام کا خون ہے، قسم گرو کی۔"
فوجے ،اِندر اور نواب نے ڈٹ کر گواہی دی۔فوجا سنگھ نے پیسہ ٹکا بھی پانی کی طرح بہایا مگر اِس کے باوجود سال ، ڈیڑھ سال بعد سودا سنگھ اور اُس کے بیٹے بَری ہو کر باہر آ گئے۔ بَری ہو کر آنے پر انہوں نے گاؤں میں ناچ گانے کی محفل بھی کرائی اور خوشیاں بھی منائیں۔ جب اُنہوں نے ناچ گانے کی محفل کرائی تو گاؤں کے کچھ لوگوں کی آنکھیں وریام کو یاد کر کے نم آلود ہو گئیں۔ پہلے بے گناہ کا قتل اور پھر ناچ گانے کی محفل کا انعقاد کم ظرف لوگوں والا کام تھا۔گاؤں کے اکثر لوگوں کو سودا سنگھ کی اس نیچ حرکت کا بڑا دکھ ہوا۔ جس وقت سودا سنگھ کی حویلی میں ناچ گانا زوروں پر تھا اُس وقت فوجا سنگھ وریام کے گھر بیٹھا تھا۔
جنداں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دریا بہہ رہے تھے۔ آنسوؤں کا سیلاب تو فوجا سنگھ کی آنکھوں میں بھی امڈا چلا آ رہا تھا مگر وہ مرد تھا ، کہنے لگا۔
"بہن !حوصلہ کر۔ رونے سے جانے والے مل جاتے ہیں نہ ہی واپس آتے ہیں۔آپ روئیں گی تو بچے مزید گھبرا جائیں گے۔ "
اپنی گود میں بیٹھے ہوئے جھنڈے اور لکھی کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے، آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ کہنے لگا۔
"بس یہ پہاڑ جتنی زندگی کے دن تو نے شریکے میں گزارنے ہیں۔عورت بن کر نہیں، مرد بن کر ، حوصلے سے، جرات سے اور بہادری سے۔۔۔۔۔۔۔۔واہگرو سچا بادشاہ تیرے بچوں کی حفاظت کرے، یہ دنوں میں جوان ہو جائے گے۔"
اِس کے علاوہ دفوجا کچھ بھی نہ کہہ سکا۔ بس جھنڈے اور لکھی کے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیرتا رہا۔ جھنڈا اُس وقت گیارہ سال کا اور لکھی چار سال کا تھا۔معصوم بچے، گم سم، سہمے، ٹھٹھرے ہوئے ماں کو دیکھ رہے تھے۔فوجا سنگھ نے دونوں کو اپنی چوڑی چھاتی کے ساتھ لگا لیا۔ اُس کی آنکھ سے دو موٹے گرم آنسو نکلے اور اُس کی سیاہ گھنی داڑھی میں گم ہو گئے۔
"آؤ بچو! چلیں کنویں پر ! "اُس کی آواز بھاری ہوتی جا رہی تھی اور وہ اپنے آنسو چھپانے کے لیے اچانک لکھی کو اپنے کندھوں پر بٹھائے ،جھنڈے کی انگلی پکڑے باہر نکل گیا۔
کہا جاتا ہے کہ منہ کا ہی ملاخطہ ہوتا ہے اور طاقتور کو ہی سلام کیا جاتا ہے۔فوجا سنگھ اور وریام میں رشتے داری تو نہ تھی ، صرف دوستی تھی جو بڑھتی ہوئی اِتنی پکّی ہو گئی کہ دونوں بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔دوستی اور بھائی چارہ کچے دھاگہ کی طرح سمجھا جاتا ہے۔سمجھیں تو بہت پکا نہ سمجھیں تو کچھ بھی نہیں۔دنیا داری میں سمجھا جائے تو ضرورت پڑنے پر یہ کچا دھاگہ ہی ثابت ہوئی ہے مگر وریام جس طرح ایک منفرد کردار کا حامل تھا، فوجا بھی ویسا ہی۔ وریام کے مرنے کے بعد جس طرح اُس کی ذمہ داریوں کا بوجھ فوجے نے اٹھایا وہ تو سگے بھائیوں میں سے بھی کوئی کوئی اٹھاتا ہے۔ فوجا ویسے بھی اکیلا تھا، نہ کوئی بھائی تھا ،نہ جوان بیٹا۔ اُس کا بیٹا مکھن تھا جو جھنڈے کا ہم عمر تھا۔ ابھی کسی قسم کی ذمہ داری نبھانے کی عمر کا نہیں تھا اور اُس کی بیٹی دیپو، لکھی کی ہم عمر تھی۔ فوجا واقعی اکیلا تھا۔ اُس نے اپنی فصل کے ساتھ ساتھ وریام کی فصل بھی سنبھال لی۔اپنی زمین میں وہ بعد میں ہل چلاتا اور وریام کی زمین میں پہلے۔اپنے گھر میں دودھ دینے والی بھینس ہو یا نہ ہو لیکن وریام کے گھر والوں کے لیے بھینس کا انتظام پہلے کرتا تھا۔وریام سارا دن تو کام میں مصروف رہتا مگر شام کو کھانا کھانے کے بعد وریام کے گھر لازمی جاتا۔جھنڈے اور لکھی کو پیار کرتا۔اُن کے ساتھ بچوں کی طرح باتیں کرتا اور اُنہیں کہانیاں سناتا اور اٹھتے وقت کہتا" بہن !واہگرو سکھ رکھے، پتر جوان ہو جائیں تو ہم بھی چار دن دنیا کا موج میلہ دیکھ لیں۔"
vvvvv

"ِاندر سئیاں! بیٹے جوان ہو گئے ہیں" فوجا سنگھ اپنی مکمل سفید داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہنے لگا،"قسم سے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میں خود نئے سرے سے جوان ہو گیا ہوں۔
جس دن لکھی نے دائرے والا پتھر اُٹھایا، اُس رات کو فوجا سنگھ کی حویلی میں اِندر سنگھ، نواب خاں اور کچھ دیگر افراد بیٹھے تھے اور کچھ ڈھارے میں چارپائیوں پر اکٹھے ہوئے پڑے تھے۔ سردی اپنے عروج پر تھی۔
"جی فوجا بھائی! بیٹے جوان ہو جائیں تو ماں باپ خوشی سے جوان ہو جاتے ہیں اور تو نے تھوڑی مشقت کی ہے؟ دو گھرانوں کی کاشتکاری کی ذمہ داری اور اکیلی جان۔۔۔۔۔۔۔۔ سال ، دو سال کی اور بات ہوتی ہے مگر قسم سے تو نے بہادوں کی طرح پوری زندگی گزار دی۔"
اِندر سنگھ کہنے لگا:
"بھائی سردار جی! منہ پر تعریف نہیں قسم سے آپ کی بڑی ہمت دیکھی ہے، ورنہ کہاں اکیلا آدمی اور کہاں کاشتکاری"اِندر سنگھ سردی سے لاچار بولے جا رہا تھا۔
"تم کاشتکاری کی بات کرتے ہو، میں تو کہتا ہوں کہ اکیلا آدمی دو گھرانوں کے مویشیوں کو چارہ ہی نہیں ڈال پاتا۔ "
نواب نے کھیس کو اپنے جسم سے مزید کس کے لپیٹتے ہوئے، دور بیٹھے جھنڈے اور مکھن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
"اے جوانو! آگ جلاؤ۔ کس بات کا انتظار کر رہے ہو ؟ سردی تو ہڈیوں میں داخل ہوتی جا رہی ہے۔"
جیسے ہی فوجا سنگھ کا دھیان اُدھر گیا تو اپنے کھیس کی بکل درست کرتے ہوئے مکھن کو کہنے لگا:
"مکھن اٹھو! آگ جلاؤ جوان! تیرے چچے، تائے سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں۔ کمرے میں رکھی کپاس کی چھڑیوں کی ایک گٹھڑی نکال اور ہمارے تاپنے کے لیے آگ جلا"
مکھن اٹھ کر چھڑیاں لینے چلا گیا۔
نواب کھیس کی بکل سے سر نکال کر کہنے لگا :
"میرے بھائیو! پوہ ہے پوہ! سردی اب زوروں کی نہیں پڑے گی تو کب؟"
اندر سنگھ نے کھانسے ہوئے کہا "نمبر دار بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔"
مکھن کمرے سے کپاس کی چھڑیوں کی دو گٹھیاں اٹھا کر لایا۔کپاس کی چھڑیوں کے چار چار ٹکڑے کر کے اُس نے اوپر تلے رکھے اور آگ لگا دی۔چھڑیاں خشک تھیں فوراً آگ بھڑک اٹھی۔
"بھائی اِندر سئیاں! اُٹھ کر آگ تاپ لے" فوجے نے آگ کے قریب بیٹھتے ہوئے کہامگر اندر سنگھ اور نواب نمبردار پہلے ہی اُٹھ کر جھنڈے اور مکھن کے پاس جا چکے تھے جوپپلے ہی آگ کے گرد بیٹھے تھے۔
وہ پوہ کی سرد رات تھی! حویلی میں آگ کے الاؤ کے گرد پانچ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔کیا وجہ ہے کہ ضعیف آدمیوں کو اِتنی سردی لگتی ہے؟یوں محسوس ہوتا تھا کہ فوجا،اِندر اور نواب آگ کے اندر ہی گھس جائیں گے۔
مکھن کے کھیس کی بکل کب کی ڈھیلی پڑ چکی تھی اور جھنڈا ایسے بے پروا ہو کر بیٹھا تھا کہ جیسے کہہ رہا ہو"مجھے آگ کی بالکل پروا نہیں۔"جھنڈا کسی سوئے ہوئے سمندر کی طرح خاموش تھا۔وہ ویسے بھی خاموش رہنے والا اور باتیں کم کرنے والا نوجوان تھا۔پچھلے دو تین سال سے وہ اپنا کاشتکاری کا کام بھی سنبھال چکا تھا بلکہ وہ کبھی کبھار ہل چلانے اور کاشتکاری کے دوسرے کاموں میں مکھن کی مدد بھی کر دیا کرتا تھا۔مکھن کے والد نے کئی سالوں تک نوکر بن کر اُن کے کام کیے تھے۔وہ فوجا سنگھ کے احسان کا بدلہ تو نہیں چکا سکتا تھے مگر وہ اپنے کام چھوڑ کر فوجا سنگھ کے کام سنوارنے کی کوشش کیا کرتا۔ویسے تو فوجا سنگھ اب بھی اچھا بھلا تھا، پہاڑ کا پہاڑ۔ بس صرف اُس کی داڑھی سفید ہو گئی تھی۔بچے جوان ہو جائیں تو وہ ذمہ داریاں سنبھال لیتے ہیں۔مکھن اور جھنڈے نے بھی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔۔۔۔۔۔ پھر بھی کبھی کبھار فوجا سنگھ اپنی موج میں آ کر کسی کام میں ہاتھ بٹا دیتا، ورنہ اُس کو کام کاج سے چھٹی تھی۔جب چھوٹے بڑے ہو جائیں تو بڑوں کو کام کاج سے چھٹی مل ہی جاتی ہے۔
جھنڈا سنگھ صحت مند نوجوان تھا مگر لکھی کی طبیعت اور ہی طرح کی تھی۔جھنڈے کی کاشتکاری اور دوسرے کاموں میں مصروفیات اتنی تھیں کہ اُسے سر کھجانے کی بھی فرصت نہ تھی۔اُس کی دوستی بھی اِتنی لمبی چوڑی نہیں تھی۔آ جا کے اُس کا یارانہ مکھن سے ہی تھا۔ویسے بھی دونوں اکٹھے پلے بڑھے تھے اور مکھن کا گھر ہمیشہ سے ہی جھنڈے کو اپنا گھر ہی محسوس ہوتا تھا۔ وہ تنو مند نوجوان تھا مگر باپ کے قتل کا دکھ اُس کو گھن کی طرح کھائے جا رہا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ بڑا خاموش اور اندر ہی اندر گم سم رہتا تھا۔ لڑکوں والے شوق، بھاگ دوڑ، میلے ٹھیلے، ہلا گلا، شراب پی کر ہلہ گلااکڑ اکڑ کے چلنا اور اِس طرح کے دوسرے کام نہ اُس نے کیے اور نہ ہی اُس کا دل مانتا تھا۔ وہ ہمیشہ دل میں باپ کے قتل کا بدلہ لینے کا سوچتا رہتا۔ اُسے اچھے دنوں کی اُمید تھی اور وہ دل ہی دل میں آٹھوں پہر دعائیں کرتا رہتا۔
"سچی سرکار! کبھی ہمارے دن بھی بدل!"
یا پھر وہ رات کے اندھیروں میں والدہ کے پاس بیٹھے پوچھتا:
"اماں! کبھی ہمارے دن بھی بدلیں گے۔"
اُس کی ماں جو وریام کے قتل کے بعد ہنسنے کا طریقہ ہی بھول چکی تھی لکھی کی طرف دیکھ کر آہستہ سے کہتی :
"جھنڈے! تیرا بھائی جوان ہو جائے تو ہمارے دن بھی بدل جائیں گے۔"
جھنڈے نے لکھن کی پرورش کرنے کا حق ادا کر دیا۔ کسی قسم کا کام کاج نہیں اور کھانے پینے کی ہر طرح کی سہولت: کھلا کھانا پینا، مضبوط جسم، پورا قد، چھج کی طرح چوڑی چھاتی، بادامی آنکھیں، لوگ کہتے ؛وہ تو بالکل وریام سنگھ معلوم ہوتا ہے۔ اُس دن جب لکھن نے دائرے والا پتھر اٹھا کر ہر طرف اپنے جوان ہونے کا اعلان کیا تو جھنڈا دل ہی دل میں کہہ رہا تھا:
"اب ہمارے دن بدل گئے ہیں، ہاں بدل گئے ہیں۔ اب باپ کا بدلہ لے کر گاؤں میں اکڑ کر چلیں گے۔"
یہ سوچ کر اُس کے بازوؤں کے پٹھے پھڑکنے لگے، اُس کی گردن اکڑ گئی اور پورا جسم ڈھول کی طرح تن گیا۔اُس کی نالیوں میں چلنے والا گرم خون،"بدلہ، بدلہ" پکارنے لگا اور اُس کے منہ سے نکلا:
"واہگرو کی مہربانی! لیں گے"
آگ کے ارد گرد بیٹھے چاروں لوگوں نے جھنڈے کی طرف دیکھا۔ فوجا سنگھ ُاس کی اندرونی کیفیت سے واقف تھا، کہنے لگا۔
"بالکل واہگرو کی مہربانی ہے اور بدلہ بھی لیں گے مگر لکھی کہاں ہے؟"
"لکھی ؟"جیسے وہ اپنی نیند اور خواب سے بے دار ہوا،"گھر ہووے گا۔"
اُس وقت لکھی اور جنداں گھر کے دالان میں بھڑولے کے پاس سرسوں کے تیل والے دیے کی ہلکی ہلکی روشنی میں بت بنے کھڑے تھے۔
جِندااں لٹھ کی مانند تن کر کھڑی تھی۔ اُس کی کمر بڑے بھڑولے کے منہ کی طرف اور منہ لکھی کی طرف تھا۔ اُس کا چہرا جو کبھی جوان ہوا کرتا تھا دنوں میں ہی جھریوں سے بھر گیا تھا۔ اُس کی میلی خاکی کھدر کی چادر میں سے اُس کے بالوں کے گچھے سب چاندی کے معلوم ہو رہے تھے اور دیوے کی روشنی میں چمکتے نظر آ رہے تھے۔اُس دن اُس کے چہرے پر ایک نئی شان تھی ، اُس کی خوبصورت، مہربان اور رونے والی آنکھیں خشک تھیں اور چمک رہی تھیں۔اُس نے بت بنے لکھی کی گردن نرم ہاتھوں میں لے کر نیچے کی اور اُس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔اُس نے بڑی مضبوطی مگر ٹھہری ہوئی آواز میں کہا:
"لکھی !آج تم گھونسلے سے گرے ہوئے بوٹ نہیں ہو۔ صحت مند نوجوان ہو، میری بات توجہ سے سنو اور گرہ میں باندھ لو۔"
جنِداں نے تھوڑے توقف کے بعد سامنے کھڑے لکھی کی طرف دیکھا، جس کی پیشانی پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے قطرے چمکتے نظر آ رہے تھے۔ اُس کی آنکھیں شاید اپنی ماں کو ایک نئے رنگ میں دیکھ کر پوری کھلی تھیں۔کمرے میں بڑی خاموشی تھی۔دیوے کی کمزور سی، روشنی پر دالان کا اندھیرا حاوی تھا۔ جنِداں نے ایک بار اپنی دونوں اطراف میں دیکھا جیسے اپنے ارد گرد نظر نہ آنے والی ہستی کو دیکھ رہی ہو۔سامنے کھڑی ماں کی آواز لکھی کو بہت دور سے آتی محسوس ہوئی مگر وہ آواز لکھی کے چاروں اطراف میں تھی اور لکھی کے جسم کا ایک ایک بال اس آواز کو سن رہا تھا۔جنِداں کہہ رہی تھی:
"بیٹا سردار لکھا سنگھ جی! پہلی بات تو یہ گرہ میں باندھ لیں کہ بھائی فوجا سنگھ کی عزت کی ایسے ہی حفاظت کرنی ہے جیسے اپنے مرے ہوئے باپ کی پگ کی عزت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی میدان میں اسے شرمندہ نہ ہونے دینا۔۔۔۔۔۔۔۔ ُاس نے تمہارے ساتھ جو کیا اور جتنا کیاہے، اگر تمہارا کوئی حقیقی چچا یا ماموں ہوتا تو وہ بھی نہ کر پاتا۔ "
جنِداں نے بھڑولے کا منہ کھول کر اندر ہاتھ ڈالا اور ایک پوٹلی سی نکالی جس میں کپڑے کے اندر کوئی چیز لپیٹی ہوئی تھی۔ دیے کی طرف منہ کر کے اُس نے کئی سالوں کی گرد کو صاف کیا۔ اُسے کھو ل کر ایک پرانی کیسری رنگ کی پگ نکالی۔ اُسے صاف کر کے آنکھوں کے ساتھ لگایا اور پھر بوسہ لیا۔ وہ پگ جس کا رنگ اور ابرک اپنی چمک چھوڑ چکے تھے۔ جنداں نے لکھی کے سر سے پگ اُتار کر وہ پگ اُس کے سر پر رکھ دی۔ جنداں نے دوبارہ بھڑولے میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارا اور ایک چھوی نکالی۔ چھوی کی ڈانگ جو مٹی اور گرد سے بھری ہوئی تھی، بڑی وزنی، مضبوط اور سیاہ رنگ کی تھی جب کہ چھوی کا پھل زنگ آلود ہو چکا تھا۔جندِدں نے بڑے آرام سے اپنے سر کی چادر سے چھوی کی ڈانگ اور پھل سے مٹی صاف کر کے لکھی کو پکڑا دی، پھر کہا:
"یہ پگ اور چھوی تیرے باپ کی ہیں۔ اب تو اِن دونوں چیزوں کا وارث ہے۔۔۔۔۔۔۔۔آج سے تو نے اُنہیں راستوں پر چلنا ہے جن پر وہ چلا۔۔۔۔۔۔۔تو نے ایک مرد کی طرح اُس کی دوستیاں اور دشمنیاں نبھانے کا مجھے قول دیناہے۔"
جنِداں کچھ لمحات کے لیے رکی اور پھر بولی!
"یہ چھوی اور پگ تیرے باپ کی عزت تھی۔ اب تیری عزت ہے اِسے زندہ رکھنا۔ یہاں زندہ وہی رہتا ہے جن کی عزت زندہ ہو۔"
جنِداں لکھی کے اور زیادہ قریب آ گئی اور اپنے سر سے چادر نیچے کر کے کہنے لگی:
"بیٹا! اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کے وعدہ کر!"
لکھی نے اپنا ہاتھ ماں کے سر پر رکھ کر وعدہ کیا۔ جنِداں پھر کہنے لگی:
"اور یہ بھی سن لے کہ جب تک سودا گرے کا دریاکے کنارے ، اُسی جگہ پر اُتنا ہی خون نہ بہا ،مجھے سکون نہیں ملے گا اورآج کے بعد سوداگرا جتنے دن زندہ رہا اس کا بوجھ تیرے سر پر ہو گا۔"
لکھی کی چیخیں نکل جاتیں مگر وہ ماں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا رہا۔دالان میں کھڑے ماں بیٹا دونوں نے آخری بار ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ جنداں لکھی کو وہیں چھوڑ کر باہر صحن میں چلی گئی۔
vvvvv

دیپو برتن دھونے اور کچن کی صفائی کرنے کے بعد صحن میں جھاڑو دے رہی تھی جب لکھی گھر میں داخل ہوتے ہوئے کھنگورا۔دیپو نے جھاڑو چھوڑ کر صحن میں جہاں دھوپ تھی چارپائی ڈال دی۔
"لکھی تم بیٹھو! میرا تھوڑا سا جھاڑو لگانے والا رہ گیا ہے" دیپو نے کہا۔
"چچی کہاں ہیں؟" لکھی نے کھڑے کھڑے پوچھا۔
"بے بے حویلی پاتھیاں لینے گئی ہیں، مگر آپ بیٹھیں تو!" دیپو جھاڑو چھوڑ کر کھڑی تھی، لکھی بھی کھڑا رہا۔
"میں چلتا ہوں!" لکھی پیچھے مڑا۔
دیپو نے پیچھے سے اُس کا کھیس پکڑ کر اُسے روکا اور پھر دھکا دے کر چارپائی پر بٹھا دیا۔
"تمہارے پاؤں میں بلیاں بندھی ہیں؟"
"وہ کیسے؟" لکھی نے پوچھا۔
"ابھی آئے ہو، ابھی واپس جا رہے ہو! تمہارے لیے تو میں نے جھاڑو لگانا بھی درمیان میں چھوڑ دیا ہے۔"دیپو ذرا ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ۔
’’میں نے تمہیں کب جھاڑو لگانے سے روکا ہے؟ ‘‘لکھی نے صفائی پیش کی۔
"تو پھر کیوں ناراض ناراض واپس جا رہے ہو" دیپو نے لکھی کی طرف دیکھ کر کہا۔
" اب تم نے دائرے والا پتھر اٹھا لیا ہے۔ اب تم کیوں غریبوں سے بات کرو گے۔"
"لیں اور سن لیں۔" لکھی نے بمشکل کہا اور خاموشی سے دور کسی اور طرف دیکھنا شروع کر دیا۔
"رات تم کہاں تھے؟" دیپو نے فوراً سوال جڑ دیا۔
"رات تو میں یہیں تھا۔" لکھی نے دلیری سے جھوٹ بول دیا۔"
"اگر تم یہاں ہوتے تو تمہیں آدھی رات کو بھائی مکھن اور جھنڈا پورے گاؤں میں کیوں تلاش کر رہے ہوتے۔‘‘ دیپو نے لکھی پر اپنی بات کا اثر ہوتے دیکھا تو پوچھا : "سچ بتاؤ، تم رات کو کدھر تھے اور ادھر کیوں نہیں آئے؟"
’’اِدھر ! کدِھر؟
"ہماری طرف اور کدِھر؟"
لکھی نے مسکرا کر کہا،" تم خود ہی کہہ رہی ہو کہ میں رات گاؤں میں نہیں تھا اور خود ہی پوچھ رہی ہو کہ رات اِدھر کیوں نہیں آیا؟پاگل ! اگر میں گاؤں میں ہوتا تو ادھر آتا۔"
"پھر تم کہاں تھے؟"
"یہیں تھا۔" لکھی نے بات سے جان چھڑانے کی پوری کوشش کی۔
"یہاں کہاں؟"سیدھی بات کیوں نہیں بتاتے؟‘‘ دیپو چڑکر بولی۔
"ضروری پوچھنا ہے؟"
"ہاں ، ہاں، ہاں! کتنی بار کہوں؟"
"میں دریا پر گیا تھا!"
دیپو کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ تڑف اُٹھی۔ اُسے شک تو پہلے سے ہی تھا۔ وہ گم سم بیٹھے لکھی کی طرف دیکھتی رہی۔ اُس کی خوبصورت بادامی آنکھوں میں موتی چمکنے لگے۔ اُس نے کانپتی آواز میں کہا۔
"تمہیں اپنے زخموں کو کھوچنے سے کیا ملتا ہے؟"
دیپو پوری کوشش کے باوجود اپنے آنسوؤں پر ضبط نہ کر پائی اور وہ بہ نکلے۔ لکھی چپ چاپ پتھر بنا، خالی آنکھوں سے معلوم نہیں کہاں اور کیا دیکھ رہا تھا۔دیپو غصے یا دکھ سے اُس کا کندھا ہلا کر بولی۔
"لکھی تمہیں کتنی بار کہا ہے ! وہاں نہ جایا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے وہاں جا جا کر رونے سے تایا جی واپس آ جائیں گے؟ تائی کو روتے پندرہ سال گزر گئے!۔۔۔۔۔۔۔۔۔پندرہ سال! اگر تایا جی نے رونے سے واپس آنا ہوتا تو اب تک آ چکے ہوتے۔"
لکھی اب بھی خاموش تھا۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ بیٹھا بیٹھا سو گیا ہو اور آنکھیں کھلی رہ گئی ہوں۔
دیپو بولی"میرا بس چلے تو تائے کا بدلہ شام ہونے سے پہلے پہلے لے لوں۔" فوجا سنگھ جو کچھ ہی دیر پہلے آ کر اُن کے پیچھے کھڑا ہو گیا تھا، اپنے ہاتھ دیپو اور لکھی کے سروں پر پھیرتے ہوئے کہنے لگا:
"جب باپ اور بھائی زندہ ہوں تو بیٹیوں اور بہنوں کو بدلہ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔"
لکھی جو پتھر پر بیٹھا تھا بچوں کی طرح فوجے کو گلے مل کر زور زور سے رونے لگا۔
فوجے سنگھ نے دلیری سے کہا،"برداشت کر بیٹا! قسم گرو کی بدلہ ضرور لیں گے! وہ وقت آ گیا ہے۔"
vvvvv

 

رات کا ایک پہر گزر گیا تھا مگر فوجے کی حویلی میں اب بھی چار لوگ سر جوڑے بیٹھے تھے۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ وہ آگ نہیں تاپ رہے۔ دہکتے کوئلوں کی روشنی میں اُن کے خوبصورت چہرے ڈراؤنے نظر آ رہے تھے۔یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ سر جوڑ کر کوئی بڑی رازداری کی بات کر رہے ہیں۔کبھی کبھی فوجے کے کھانسنے یا کسی لڑکے کے کھنکھارنے سے رات کے خاموش جسم میں ہلکی سی دراڑ پر جاتی۔فوجا سنگھ نے کھنکھارتے ہوئے گلا صاف کیا اور آہستہ مگر سخت لہجے میں لکھی کی طرف منہ کر کے کہنے لگا:
"کیوں بیٹا لکھا سیاں! تمہاری کیا رائے ہے؟"
"میں کیا کہوں چچا جان !آپ سب خود سمجھدار ہیں۔" لکھی کپاس کی ایک چھڑی کے ساتھ کوئلوں کو پھرولتے ہوئے کہنے لگا۔
"بیٹا ! پھر بھی تو اپنا مشورہ تو دے۔" فوجے نے دوبارہ پوچھا۔
لکھی نے کہا،"زیادہ مشوروں کی کیا ضرورت ہے؟ میں تو ایک ہی بات جانتا ہوں۔"
مکھن بے صبری سے بولا:"بیٹا !وہ کیا بات ہے؟"
"سیدھی صاف۔"لکھی نے کہا،"جب تک سوداگر اور اُس کے بیٹے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ہماری کوئی زندگی نہیں۔"
فوجے نے کہا،"بیٹا! تیری بات بالکل ٹھیک ہے مگر سوچنے والی بات ہے کہ سوداگرے اور اُس کے بیٹوں کو کیسے ایک بار ختم کریں؟۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر اِن تمام کو ختم کر کے خود تمام پھانسی لگ جائیں تو کیا فائدہ؟جوانو! بات وہ کرو کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے۔"فوجے نے لڑکوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔
"چچا جان ! میں تو کہتا ہوں پہلے سوداگرے سے نمٹ کر اُن سے حساب برابر کر لیں، باقی بعد میں دیکھا جائے گا۔" جھنڈے نے مشورہ دیا۔
"ہاں ! ٹھیک ہے۔" مکھن نے جھنڈے کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا"اصل فساد کی جڑ تو سوداگر ہی ہے۔پہلے اُس سے نمٹ لینا چاہیئے۔"
"بالکل درست! بڑی خوبصورت بات کی ہے! کیوں لکھا سئیاں؟"فوجے نے کہا۔
لکھی نے آہ بھر کر کہا"میں سمجھدار نہیں کہ مشورہ دوں اور نہ مجھے پتا ہے کہ ٹھیک کسے کہتے ہیں اور غلط کسے ؟ میں تو بس سیدھی سی بات جانتا ہوں کہ جب تک دشمن زندہے اور ہم بدلہ نہیں لے لیتے، ہماری زندگی کوئی زندگی نہیں۔جب تک بھایے(باپ) کے خون کی قیمت وصولی نہ کر لیں ہماری کوئی زندگی نہیں۔"
لکھی نے سننے والوں کے چہرے دیکھے اور بات کو پھر وہیں سے شروع کی جہاں چھوڑی تھی :"آپ تمام لوگوں کو اگر پھانسی کا ڈر ہے تو کچھ دنوں کے لیے گاؤں سے آگے پیچھے ہو جاؤ۔ میں انہیں اپنا کھیل دکھا دوں گا اور اگر میں پھانسی چڑھ بھی گیا تو میرے کون سے چھوٹے چھوٹے بچے رو رہے ہیں؟ ایک بندے کا کیا ہے؟ سمجھ لینا لکھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔"
لکھی کی بات کرخت تھی۔ جٹ ہر بات برداشت کر لیتے ہیں مگر بزدلی اور ڈرپوک ہونے کا طعنہ نہیں سنتے۔ مکھن کو غصہ آ گیا۔
"اے بھائی! پیچھے ہمارے بھی کون سے چھوٹے چھوٹے بچے روئیں گے؟ جتنا یہ تیرا دکھ ہے، اُتنا ہی ہمارا ،مگر زبانی باتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم آپ کو میدان میں سرخرو ہو کر دکھائیں گے۔"
جھنڈا مکھن کے غصے کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔"چھوڑو مکھن! لکھی ابھی بے سمجھ ہے۔"
فوجا سنگھ بولا،"اے مکھن! کیسی باتیں کرتے ہو؟یہ کون سی کہنے والی بات ہے جوان! لکھی کا باپ میرا بھائی تھا۔اُس کے جانے کے بعد جس طرح میں نے وقت کو دھکے دے کر گزارا ہے، وہ میں ہی جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کوئی زندہ ہوں؟ میں تو اُسی دن مر گیا تھا جس دن وریام قتل ہوا تھا۔‘‘
جھنڈے نے پھر لکھی کی صفائی دیتے ہوئے کہا"چاچا! لکھی ابھی نا سمجھ ہے۔"
"نہیں لکھی نا سمجھ نہیں، کم عقل نہیں اور نہ ہی اب وہ بچہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ جو بات کر رہا ہے بالکل درست ہے۔ "
فوجا سنگھ چھوٹی سی لکڑی سے بجھتے ہوئے کوئلوں کو چھیڑتے ، پھرولتے اور کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگا:
"لکھی پتر! سہج پکے سو میٹھا ہو۔"
تب مکھن نے پوچھا۔"سوداگرے سے کب حساب چکتا کریں؟"
’’جب کبھی موقع ملتا ہے ،دودھ کے گلاس کی طرح اٹھا لو۔۔۔۔۔۔۔۔ لاش اگر کہیں گم ہو جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘فوجا سنگھ نے تو جیسے فیصلہ سنا دیا۔
جھنڈے نے پوچھا،"ڈیرے والے میلے پر نہ پکڑ لیں؟"
فوجا سنگھ بولا"جوانو! ڈیرے والا میلا تو ابھی دور ہے۔ یہ کام جتنا جلدی نمٹ جائے اُتنا ہی اچھا ہے۔"
"اچھا بھائیا!‘‘ مکھن جیسے فوجا سنگھ کی پوری بات سمجھ کر بولا ہو۔
"مگر سارا کام سوچ سمجھ کر کرنا۔ بچوں جیسی کوئی غلطی نہ کرنا۔" فوجے نے کہا اور لکھی کا بازو پکڑ کر گھر کو چل پڑا۔"
جھنڈا اور مکھن روزانہ کی طرح حویلی میں ہی سو گئے۔
vvvvv

فوجا سنگھ کو گھر چھوڑنے کے بعد جب لکھی نے اپنے صحن میں قدم رکھے تو رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ صحن کا دروازہ اُس کے گھر آنے تک کھلا ہی رہتا تھا۔ دالان کا دروازہ ساتھ لگا تھا۔ اُس نے آہستگی سے دروازے کو دھکا دیا تو دروازہ چرچراتے ہوئے کھل گیا۔
اُس کی ماں نے پوچھا ،" لکھی ہو؟"
"جی بے بے۔ "
سارے کمرے میں سرسوں کے تیل کے دیے کی ہلکی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ کمرے کی مغربی دیوار کے ساتھ لکھی کی چارپائی بچھی تھی۔ مشرقی جانب بھڑولوں کے ساتھ دو چرخے پڑے تھے۔ ایک چرخے کے تکلے پر موٹی چھلی بن چکی تھی جس کے دھاگے کے ساتھ آدھی پونی لٹک رہی۔ ساتھ پڑی ہوئی ٹوکری سوت کی جھلیوں سے بھر چکی تھی دوسرا چرخہ اور اِس کا تکلہ خالی تھے جب کہ ساتھ پڑی ٹوکری پونیوں سے بھری ہوئی تھی۔ یہی محسوس ہوتا تھا کہ ِاس والی نے جب سے چرخہ رکھا تھا ذرا بھر سوت بھی نہیں کاتا تھا۔
"اماں یہ کس کا چرخہ ہے ؟"لکھی نے خالی چرخے کی ماہل کو چھیڑتے ہوئے پوچھا۔
"اپنی دیپو کا اور کس کا !"جنِداِں پونیاں لے کے آتے ہوئے بولی" تاباں بیچاری میرے اکیلے ہونے کی وجہ سے بیٹی کو بھیج دیتی ہے۔" پھر جیسے جنِداں کو کچھ یاد آگیا ہو، کہنے لگی:
"بیٹا! آ کر دودھ تو جلدی پی لیا کر۔ اب پڑے پڑے ٹھنڈا ہوگیا ہوگا۔ اگر تو کہے تو ابھی گرم کر دوں۔"
لکھی نے پوچھا،" اِس وقت آگ ہوگی؟"
"بیٹا؟ چولہے کی آگ جلانے میں کتنی دیر لگتی ہے ؟"یہ کہتے ہوئے جنِداں دودھ کاڑھنے کا برتن لے کر باورچی خانے کی طرف چل پڑی۔
’’بے بے! دیپو کہاں ہے؟ کہیں نظر نہیں آرہی۔"
"دیپو؟" جنِداں نے جاتے ہوئے لکھی کی طرف مڑ کر دیکھا اور کہا،
"یہیں کہیں تھی۔ "لکھی نے اِردگرد نظر دوڑائی، دالان کے ساتھ والی دونوں کوٹھڑیوں میں گھپ اندھیرا تھا۔
"کہیں باہر نکل گئی ہوگی!" لکھی نے سوچتے ہوئے جیسے اپنے آپ سے کہا ہو اور پھر بے خیالی میں اپنی چارپائی پر بیٹھ گیا۔پھر یکدم وہ اِتنی گھبراہٹ میں اُٹھا جیسے وہ کسی ونجارن کے چوڑیوں بھرے ٹوکرے پر بیٹھ گیا ہو اور اُس کے نیچے آکر سب چوڑیاں ٹوٹ گئی ہوں۔ اُس نے بستر سے رضائی اٹھائی تو نیچے دیپو سکڑی ہوئی پڑی تھی۔ وہ چھلانگ لگا کر چارپائی سے نیچے اُتری اور سر پر چادر درست کرتی ہوئی جھوٹ موٹ کا اظہار ناپسندیدگی کرتے ہوئے نخرے سے بولی۔
"تو نے تو میرا کچومر ہی نکال دیا تھا۔"
لکھی نے شرمندگی محسوس کرتے ہوئے مگر رعب سے کہا، "تو میرے بسترے میں کیا تلاش کر رہی تھی؟"
"چاچی کہہ رہی تھی کہ رات آدھی سے زیادہ گزر گئی ہے لکھی کو تلاش کر کے لے آؤ۔"
"تم مجھے بستر میں سے تلاش کر رہی تھیں۔ میں کوئی سوئی تھا جو رضائی میں گم ہو گیا تھا؟"
"تو اور کیا ؟میں وہاں اپنی بھینس تلاش کر رہی تھی۔" دیپو نے آہستگی سے کہا تو لکھی ہنسنے لگا۔
دیپو نے لکھی کو چھیڑتے ہوئے کہا "ناراض تو نہیں ہوگئے؟"
"ناراض تمہارے ساتھ۔ ابھی تو میں چار دن زندہ رہنا چاہتا ہوں۔"
لکھی نے اپنی طرف سے بہت بڑی بات کہہ دی۔
دیپو نے لکھی کے چہرے کو بغور دیکھا جیسے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا چاہتی ہو۔ لکھی سچ کہہ رہا تھا اور یکایک دیپو کے گلاب کے پھول جیسے چہرے سے ہنسی مذاق شرارت جھوٹے غصے اور جھوٹی خوشی کے سارے رنگ جاتے رہے۔ اُس کے چہرے پر سرخی کی ایک لہر آئی اور گزر گئی۔ اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اُس نے ایک بار پھر بڑی متلاشی تیز نظروں سے دیکھا تو لکھی کو وہ نظریں اپنے جسم سے آرپار ہوتی محسوس ہوئیں۔ لکھی گھبرا گیا۔
"میری طرف کیا بٹ بٹ دیکھ رہی ہو؟"
دیپو نے کہا!" دیکھتی ہوں کہ تم جھوٹ بھی اِس طرح بولتے ہو جیسے نیک لوگ سچ بولتے ہیں۔"
یہ سن کر لکھی نے کہا "کیا میں نے جھوٹ بولا ہے؟"
"کچھ نہیں۔ "دیپو سخت لہجے میں چرخے کے سامنے بیٹھ کر اُس کی ماہل کسنے لگ گئی۔
جنِداں دودھ کی کاڑھنی اور بڑا گلاس لکھی کے سامنے رکھ کر چرخہ کاتنے لگی۔
دودھ کا گلاس بھرنے کے بعد لکھی دیپو کے سر پر جا کر کھڑا ہوا اور بولا "لے دودھ پی لے۔"
دیپو نے کہا "میں تو دودھ پی کے آئی تھی۔"
"اور پی لے۔"
"نہیں۔"
لکھی نے دودھ کا گلاس اس کے سر کے اوپر کرکے ڈراتے ہوئے کہا۔
"پکڑ لو ورنہ اوپر گرا دوں گا۔ "دیپو کب ڈرنے والی تھی کہنے لگی۔
"بیشک گرا دو۔"
جنِداں نے سفارش کی،’’ میری بیٹی، پی لے۔‘‘
دیپو نے گلاس پکڑتے ہوئے کہا، "لے آؤ۔" اور جنِداں کی طرف منہ کرکے کہنے لگی۔"لق تائی !تمھارے کہنے پر پی لیتی ہوں ورنہ لکھی تو بے شک پوری کاڑھنی میرے اوپر انڈیل دیتا میں کوئی ماننے والی تھی؟"
لکھی نے دودھ پی کر ڈکار لیا۔ سر سے پگ اتار کر چارپائی کے پائے پرٹکا دی۔ بکل والا کھیس اتار کر دور پھینک دیا اور رضائی اوڑھ لی۔
جنِداں نے پوچھا،" بیٹا سونے لگے ہو؟"
لکھی نے رضائی سے منہ باہر نکال کر کہا،" ہاں بے بے! کیا بات ہے؟"
جنِداں نے کہا، "کچھ نہیں بیٹا! میری بیٹی سوت کات لیتی تو اسے گھر چھوڑ آتے۔"
لکھی نے جانے کی تیاری کرتے ہوئے رضائی اُتاری اور بولا،’’ ابھی جانا ہے دیپو نے؟‘‘
دیپو بولی" ابھی نہیں۔"
"جب جانا ہو مجھے جگا لینا۔"اور چرخوں کی گھوک میں پتہ نہیں اُسے کب نیند آ گئی۔
جب رات کی سیاہی پر سفیدی غالب آنے لگی تو سوت کاتنے والیوں نے اپنے چرخے روک دیے۔
"تائی، آج تو ہم نے بہت کام کیا ہے۔"دیپو نے چرخہ ایک طرف کھڑا کرتے ہوئے کہا۔
"ہاں بیٹی۔"
دیپو نے سوت کی چھلیوں والی ٹوکری اُٹھائی اور اپنی چادر درست کرتے ہوئے کہنے لگی،
"اچھا تائی میں جانے لگی۔"
"بیٹی رک جاؤ !میں لکھی کو جگاتی ہوں ،اِس وقت اکیلے جانا مناسب نہیں۔"
"نہیں تائی !وہ رات کو بھی دیر سے سویا ہے اور ویسے بھی اب تو سورج طلوع ہونے کو ہے اب کس چیز کا ڈر۔"
"نہیں بیٹی !نہیں۔"
پھر جنِداں نے لکھی کو جگا دیا جو بڑی گہری اور میٹھی نیند سویا ہوا تھا۔ لکھی نے پگ سر پر رکھی کھیس کو جسم کے گرد لپیٹ کر بھڑولے کے پاس پڑی لٹھ اُٹھائی اور کہنے لگا۔
"چلیں؟"
اُس کے پیچھے پیچھے چلتی دیپو کہنے لگی۔
"ایسے ہی تمہیں تائی نے بے آرام کیا۔"
"میں کون سا بے آ رام ہوا ہوں۔"
"اچھا، جاکر نیند پوری کر لینا۔ "
لکھی جماہی لے کر بولا، "اچھا۔"
دیپو نے اپنے گھر کے دروازے میں داخل ہوتے ہوئے کہا،
"اور کل سے حویلی سے ذرا جلدی اُٹھ کر گھر آ جایا کرو۔"
" وہ کیوں ؟"لکھی کو واقعی سمجھ نہیں آئی تھی۔
"اِس لئے کہ تائی بیچاری گھر میں اکیلی ہوتی ہے۔"
دیپو یہ کہہ کر گھر کے اندر داخل ہو گئی اور لکھی بڑے بڑے قدم اٹھاتا گھر کو واپس چل دیا۔
vvvvv

 

جھنڈے اور مکھن نے گھوڑیاں تیار کرلیں۔ مھندا عیسائی جانوروں کو کماد کا کترا ڈال رہا تھا۔ لکھی اونٹنی کی کھرلی کی دیوار پر بیٹھا دھوپ تاپ رہا تھا اور ساتھ گنا چوس رہا تھا۔
جھنڈے نے کہا،’’ لکھی! جانوروں کو چارہ وغیرہ خیال سے ڈالنا ہے اور شام کو خود ہی بھینسوں کا دودھ دوھ لینا۔ ہو سکتا ہے ہم دیر سے لوٹیں۔"
لکھی پوچھے بغیر نہ رہ سکا، "فوجیں کدھر چڑھائی کر رہی ہیں ؟"
مکھن نے ہنس کر کہا" ذرا شہر تک۔"
"شہر؟"
جھنڈے نے کہا،" شہر اور پھر آگے ایک گاؤں۔"
"خیر سے؟"
"جی ہاں !شہر ایک کام ہے اور آگے گاؤں میں گھوڑی کا پتہ چلا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم شام تک لوٹ آئیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نہ آ پائیں۔" جھنڈے نے اکتائے ہوئے کہا،’’ مگر تم کیوں پولیس کی طرح تفتیش کرنے لگے ہو؟‘‘
"آتے جاتے ہاتھ میں کوئی لٹھ رکھا کریں۔جدھر جی چاہے کیوں خالی ہاتھ چل پڑتے ہو ؟"لکھی انہیں نصیحت کر کے خوش ہوا کیوں کہ ِاس طرح کی نصیحتیں وہ اکثر لکھی کو کرتے رہتے تھے۔
مکھن نے ہنستے ہوئے کہا،" جو بولے سو کنڈا کھولے۔ اُٹھ کر کمرے میں سے کرپان اور برچھی پکڑا دے۔"
لکھی نے اُٹھ کر کر پان نکال کر مکھن کو اور برچھی جھنڈے کو پکڑا دی۔ جھنڈے نے برچھی کا پھل نکال کر تہبند کی ڈب میں اڑس لیا اور چھلانگ مار کر گھوڑی پر چڑھتے ہوئے لکھی سے کہنے لگا:"اگر ہم رات تک واپس نہ آ سکے تو تم مویشیوں کے پاس حویلی میں ہی سو جانا۔
"اچھا۔ "لکھی نے کہا اور جھنڈے، مکھن کے جانے کے بعد ٹوکے کے پاس پڑے کماد میں سے ایک گنا چن کر نکالا اور اُسے چوسنے لگا۔
"اے مھندے! چاچا، کہاں گیا۔"
"بڑے سردار جی! مھندے نے دانت نکالتے کہا ،’’وہ سرکار بیلے کی طرف گئے ہیں۔"
"اچھا۔ "اور پھر جیسے لکھی کو کوئی بات یاد آ گئی کہنے لگا،" تو نے بیلوں کے سامنے بھی کچھ ڈالا ہے یا صرف گنڈیریاں چوسنے میں ہی مصروف ہو۔"
ٍ "سرکار! بیلوں کے لئے تو ابھی میں نے کھوہ پر جاکر سبز چارہ لے کے آنا ہے۔ "مھندے نے پھر دانت نکالے۔
’’کب لے آؤ گے؟ کھانے کا وقت ہونے کو جا رہا ہے۔ یہ تیرے کچھ لگتے کھائیں گے نہیں تو ہل کیسے کھینچیںگے ۔چاچا آ گیا تو تیری خوب عزت افزائی ہوگی۔ تو چوس لے گنے۔‘‘
لکھی کے ڈانٹنے کی وجہ تھی یا شاید مھندے کی آنکھوں کے سامنے فوجا سنگھ کی شکل آگئی۔سردار فوجا سنگھ غصے کا سخت تھا۔کبھی کبھی معمولی بات پر آپے سے باہر ہو جاتا اور بیلوں میں تو اس کی جان تھی۔ وہ کہا کرتا تھا کہ جوتنے والے جانوروں کی سب سے زیادہ دیکھ بھال کرنی چاہیے۔
مھندا اچانک درانتی اور کھیس اُٹھائے اُٹھ دوڑا تو اُس کی پھرتی دیکھ کر لکھی ہنس پڑا۔
"واہ تیری پھرتیاں۔"
لکھی کماد میں سے ایک اور گنا اٹھا کر چوسنے لگا۔
دیپو لکھی کے پاس آ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی "اے لکھی! تمہیں گنے چوسنے کے علاوہ کوئی کام نہیں؟" اُس کے جسم پر چھینٹ کی شلوار قمیض اور کاسنی دوپٹا ُاُسے بہت جچ رہا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ خدا نے فارغ اوقات میں بیٹھ کر دیپو کو بنایا تھا۔ اُس کی موٹی آنکھیں شربتی رنگ کی تھیں۔ اُس کا چہرہ دھوپ میں پڑے پیتل کے تھال کی مانند چمکتا۔ اُس کے جوبن کی چاندنی روشنی بن بن کر اس کے کپڑوں میں سے چھلک رہی تھی۔ ویسے تو جوانی کی اپنی بہار ہوتی ہے مگر یوں محسوس ہوتا تھا دیپو نے یہ بہار ہمیشہ کے لئے قید کر لی تھی۔ یوں تو دنیا میں اور بھی لاکھوں خوبصورت لڑکیاں ہوں گی مگر دیپو میں اُن سے ہٹ کر کوئی چیز تھی۔ لکھی نے اُسے نظر بھر کے دیکھا اور گنا دور پھینک کر ہاتھ کھیس سے صاف کرتے ہوئے ہنس کر کہنے لگا۔
"چڑیل!"
"میں تمہیں چڑیل نظر آتی ہوں۔"
"اور کیا؟" لکھی سر سے پاؤں تک دیپو کو دیکھتے ہوئے بولا،" شکل اور نین نقش سارے وہی ہیں بس پاؤں اُلٹے نہیں ہیں۔"
دیپو نے جواب دیا، "تمہارے تو پاؤں بھی اُلٹے ہیں اور سر بھی۔"
"سر ہی اُلٹا ہے میں تمہاری طرح لوگوں کے کلیجے نکالتا تو نہیں پھر رہا۔"
دیپو نے کہا یہ" سب تیرے فارغ رہنے کا نتیجہ ہے جولاہے کی مشکریاں ماں بہن سے۔"
"میں فارغ رہتا ہوں؟"
"اور کیا؟ کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔" کمر پر ہاتھ رکھے دیپو ایک تصویر کی مانند نظر آرہی تھی۔
"یہ تم نے اپنی بات کی ہوگی میں تو دن میں سو کام سلجھاتا ہوں۔"
"واہ !کیا بات ہے؟"
"میں نہ ہوتا تو تجھے گھر چھوڑنے ہی کوئی نہ جاتا۔"
" جانے دو! رات چند قدم چھوڑنے کے بعد اب طعنے دینے بھی شروع کر دیے ہیں؟"
"بات کو لسی کی طرح بڑھانا تو تمہارا کام ہے۔ اِِس کے باوجود ماسی (خالہ)کہتی ہے میرا لکھی تو گائے ہے گائے بے زبان۔"لکھی نے ہنس کر کہا "بے شک میں بے زبان نہیں مگر تمہاری طرح سننے والے کے کانوں کے کیڑے بھی نہیں کھاتا۔"
دیپو نے غصے کی اداکاری کرتے ہوئے کہا،’’ تو میں کانوں کے کیڑے کھاتی ہوں؟"
"تو اور کیا؟"
"جاؤ پھر میں نے تمہارے ساتھ بات ہی نہیں کیا کرنی۔ "دیپو نے لکیر کھینچ دی۔
"یہ بات تجھے راس نہیں آئے گی۔"
"وہ کیوں؟"
"لڑکیاں جب تک جی بھر کر باتیں نہ کر لیں انہیں کھایا پیا ہضم نہیں ہوتا۔" لکھی نے ہنس کر کہا "اور میرے علاوہ تمہاری بیچاری کی باتیں سننے والا بھی کوئی نہیں۔"
دیپو ناراض ہونے کے بجائے ہنسنے لگی تو اس کے سفید موتیوں جیسے دانت چمکے۔’’لکھی تو بہت چالاک ہو گیا ہے کیسے مومو ٹھگنی کی طرح باتیں کر تا ہے۔"
لکھی نے جواب دیا "مومو ٹھگنی تو عورت تھی۔"
"اچھا !چلو بھیڑ گھٹ سہی۔"
لکھی نے اپنا نعرہ لگایا:" حق اے۔"
وہ دونوں ہنسنے لگے۔ اُن کی ہنسی سے آباد حویلی مزید آباد اور خوبصورت نظر آنے لگی۔ لکھی نے کماد کا گٹھا کھولا اور اُس میں سے موٹے موٹے گنے نکال کر چارپائی پر رکھے اور دیپو سے کہنے لگا۔
"گھر لے جانا۔"
"اچھا !لیکن میں تو گھر سے بالن لینے آئی تھی۔"پھر جیسے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آ گئی ہو پوچھنے لگی۔" بھائی اور جھنڈا آج کدھر گئے ہیں؟"
"بڑے شکار پر۔" لکھی نے بات کا بتنگڑ بنایا۔
"کہاں؟"
لکھی کہنے لگا، "شہر کے دوسری طرف ایک گاؤں مانک ہے وہاں گئے ہیں۔"
دیپو نے پوچھا" کیوں؟"
لکھی نے مذاق میں کہا، "تیرے لیے رشتہ دیکھنے۔"
منڈا روہی دی ککر توں کالا
باپو نوں پسند آ گیا
دیپو کے چہرے پر قوسِ قزح کے سارے رنگ اچانک اڑ گئے۔اُس کی موٹی شربتی آنکھیں جیسے ڈر سے مزید کھل گئیں۔وہ پتھر کا بت بنے مسلسل لکھی کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔پہلے تو لکھی بھی شرمندہ ہو کر ہنسا مگر پھر اُس کے اندر بھی خوف کی اک لہر دوڑ گئی۔ خوف کی لہر جو بچپن میں سردیوں کی راتوں اور گرمیوں کی شِکر دوپہروں کو قبرستان والے پکے کنویں کے پاس سے گزرتے ہوئے اُس کے جسم کو چیر جاتی تھی اور اُس کے بدن کو ہلا کر رکھ دیتی تھی۔
دیپو نے رشتے کا ذکر سن کر نہ تو کنواری لڑکیوں کی طرح دوپٹے سے چہرہ چھپایا اور نہ ہی وہ دکھاوے کی شرم حیا سے اُس کا چہرہ سرخ ہوا۔ وہ تو سہمی ہوئی کبوتری کی طرح لکھی کو دیکھے جا رہی تھی۔اُ س کی آنکھوں میں سے آنسو وں کا سیلاب بہہ نکلا۔وہ چپ چاپ پیچھے مڑی تو لکھی نے اُسے منانے کے لیے آگے بڑھ کر اُس کا بازو تھام لیا مگر دیپو نے دوسرے ہاتھ سے لکھی کی کلائی کو جھٹکا دیا۔ لکھی اِس جھٹکے سے سر سے پاؤں تک ہل گیااور سہم کر پیچھے ہٹ گیا۔ دیپو اِسی طرح پتھر بنی گم سم حویلی سے باہر نکل گئی۔
لکھی کانپ گیا۔ رشتے والی بات تو اُس نے مذاق میں کی تھی۔اگر اُسے اندازہ ہوتا کہ دیپو اتنا غصہ کر جائے گی تو وہ یہ بات کبھی نہ کرتا مگر دیپو نے تو اُسے معافی مانگنے کی مہلت بھی نہ دی تھی۔ لکھی، دیپو کے پیچھے پیچھے اُس کے گھر کی طرف چل پڑا۔
اُس کی چچی تاباں صحن میں بیٹھی تھی۔
"چاچی !ماتھا ٹیکتا ہوں۔"
"آؤ بیٹا! سلامت رہو۔بیٹھ جاؤ
" لکھی نے تیزی سے پوچھا،" چاچی !دیپو کہاں ہے؟"
"بیٹا! منہ پھلائے اندر چلی گئی ہے"تاباں نے مسکراتے ہوئے بتایا"تیرے ساتھ تو کوئی بات نہیں کی۔؟کہیں تمہاری پھر لڑائی تو نہیں ہو گئی ؟"اُس نے دالان کی طرف اشارہ کیا۔
"چاچی ،بات تو کوئی نہیں ہوئی ایسے ہی ناراض ہوگئی ہے۔"لکھی نے یہ کہا اور کمرے میں داخل ہوگیا۔
دیپو دالان میں تو نظر نہ آئی۔ ساتھ والی کوٹھڑی میں چارپائی پر اوندھی لیٹی ہوئی تھی۔ روشن دان سے آنے والی روشنی کی وجہ سے کوٹھڑی میں اندھیرا نہیں رہا تھا۔
"دیپو! "لکھی نے پیار سے دیپو کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے پکارا۔
دیپو رو رہی تھی۔ لکھی کے بلانے پر اُس کے رونے میں مزید شدت آ گئی۔ روتے روتے اُس کے سارے جسم نے کانپنا شروع کر دیا تھا۔
"مجھے معاف کردو غلطی ہوگئی !"لکھی خود بھی اپنے آپ پر غصے اور شرمندگی سے روہانسا ہو کر کہہ رہا تھا مگر دیپو روتی رہی۔لکھی کو بہت دکھ ہوا۔اُس نے کانپتی آواز سے کہا "دیپو !قسم سے مجھے مار لے مگر رو نہیں۔"
دیپو نے سر ُاٹھایا تو اُس کی آنکھیں رو رو کر سرخ ہو چکی تھیں۔وہ لکھی کو کہنے لگیِ "یہاں سے چلا جا َ۔"اُس کے گال بھی آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے۔
"مگر دیپو۔۔۔۔۔"اُس کے بعد لکھی میں بولنے کی سکت نہ رہی۔
"لکھی !چلا جا۔ "روتی آواز مزید بلند ہوگئی۔
افسردہ لکھی تیزی سے باہر نکل گیا۔ تاباں اُسے بیٹھنے کے لیے آوازیں دیتی رہی مگر لکھی آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ تیز تیز چلتا ہوا حویلی میں جا پہنچا۔
آنکھوں میں جمع آنسو بے قابو ہو کر بہہ نکلے۔ آنسو بہتے چلے گئے اور لکھی روتا چلا گیا۔وہ پہلا دن تھا جب لکھی کسی معمولی بات پر رو۔یا روتا تو وہ پہلے بھی تھا مگر اپنے والد کو یاد کر کے۔ اپنے کمزور ہونے پر،ا پنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کی طاقت نہ ہونے پر۔ وہ کبھی گھر بیٹھ کر اکیلے میں بیٹھ کر روتا تو کبھی دریا کے کنارے اس جگہ پر جہاں اس کے باپ کا قتل ہوا تھا۔دیپو کو ناراض کرکے وہ پہلی بار رویا تھا۔لکھی نے دیپو کو مذاق ضرور کیا تھا مگر مذاق تو وہ بھی کر لیتی تھی اور لکھی کیخیال میں وہ بات رو رو کر ہلکان ہونے والی بھی نہیں تھی۔ اگر دیپو بہت غصہ کر کے رو پڑی تھی تو وہ جو گبھرو جوان تھا کیوں بچوں کی طرح روئے جا رہا تھا۔لکھی نے اٹھ کر کھیس سے اپنا منہ صاف کیا اور باہر کنویں کی طرف چل پڑا۔
شام کو لکھی کنویں سے واپس حویلی آیا تو فوجا سنگھ حویلی میں بیٹھا داڑھی میں انگلیاں پھیرتے ہوئے نواب خاں سے باتیں کر رہا تھا۔
"آؤ بیٹا! کہاں سے آئے ہو؟" فوجا سنگھ لکھی کو دیکھ کر پیار سے بولا۔اُس نے لکھی کے چہرے پر موجود پریشانی کو نہ دیکھا۔
"چاچا، ذرا کنویں تک گیا تھا چارہ دیکھنے۔"لکھی نے فوجے کی چارپائی کی پائنتی کی طرف بیٹھتے ہوئے کہا۔
"بیٹا پائنتی پر کیوں بیٹھے ہو۔ ذرا آگے ہو کے بیٹھو۔" فوجے نے سرہانے کی طرف کھسکتے ہوئے کہا۔لکھی نے جوتا اُتارا اور کھیس کی بکل مار کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ نواب نمبردار نے لکھی سے کہا، "لکھا سئیاں !اِس مرتبہ میلے پر تیرا مقابلہ دینے ننگلی والے کے ساتھ دیکھنا ہے۔سنا ہے بڑا طاقتور نوجوان ہے اور کبڈی کا بڑا کھلاڑی ہے۔‘‘
’’ ہاں چاچا !دینا کبڈی کا اچھا کھلاڑی ہے۔"
نواب نے کہا !"بیٹا تم بھی تیاری وغیرہ کرو۔"
بے قرار لکھی نے جواب دیا "چچا جان تیاری کس بات کی۔ جب جی چاہے دینے سے مقابلہ کرا لیں۔"
نواب ہنس کر کہنے لگا" یہ ہوئی جوانوں والی بات۔ گھوڑے کی طرح جوان کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے جیسے ایڑ لگاؤ سرپٹ دوڑ پڑے۔"
فوجے نے ہنستے ہوئے کہا !"نواب، ابھی میلہ تو دور ہے۔ ابھی سے جوان کو تیاری کا مشورہ دے ڈالا ہے۔دریا سے سو میل پہلے ہی کپڑے اتارنے والی بات ہے۔" نواب سن کر ہنس پڑا ،’’اُس دن کے بعد دوبارہ بھی پتھر اٹھایا ہے یا نہیں؟‘‘ فوجے کا خیال اچانک پتھر کی جانب چلا گیا۔
"!روزانہ اٹھاتا ہوںچاچا، کل بھی اُٹھایا تھا۔"
فوجے نے کہا،" روزانہ ہی اٹھانا چاہیے۔"
نواب نے کہا" جسم مضبوط اور ہر قسم کے مقابلے کے لیے تیار رہتا ہے۔
" فوجے نے لکھی سے پوچھا، "لڑکے کب شہر گئے ؟"
"دوپہر کو گئے تھے۔" لکھی نے بتایا، "شام تک آجائیں گے۔"
فوجا سنگھ نے کہا "مشکل سے ہی شام تک آئیں گے۔ بڑے دنوں سے شہر شہر کی رٹ لگا رکھی تھی۔"
اندر سنگھ جو سکڑا ہوا چلے آ رہا تھا سست سری اکال کہہ کر نواب نمبردار والی چارپائی پر بیٹھ گیا۔
"نمبردار صاحب!ہمت جواب دے گئی ہے۔" اندر نے نمبردار کو کہا۔
نواب نمبردار نے جواب دیا، "تم کون سا ہل چلاتے آئے ہو؟"
"نمبردار ا،ہم کہاں ہل چلانے والے رہے یہ مادرچود بڑھاپا لے بیٹھا ہے۔اب تو سردی ہڈیوں سے نکلتی ہی نہیں۔ اِس عمر میں تو بندہ بے کار بیل کی طرح کسی کام کا نہیں رہتا۔جو مالک کے کلے پر کھڑا رہے یا چور لے جائیں ۔"اندر نے اپنا دکھ بیان کیا۔
فوجے نے کہا، "بھائی اندر !ساری عمر تم نے تھوڑے کام کیے ہیں۔ اب لڑکوں نے کام سنبھال لیا ہے۔بچوں والے ہو، موج کر رہے ہو اور کیا چاہیے؟"
نواب نمبردار نے اندر کو چھیڑنے کے لیے کہا "ساری عمر یہ کون سے قلعے فتح کرتا رہا ہے۔ہم نے تو اسے ہمیشہ ایسے ہی سکڑے ہوئے۔ سردی سردی کرتے دیکھا ہے۔"
"بھائی فوجے! سنا نہیں تم نے کہ اندر سنگھ جیسا ایک آدمی کھال پار کرنے لگا چھلانگ لگائی مگر دوسرے کنارے تک نہ پہنچ پایا اور کھال میں گرگیا۔اُٹھ کر کہنے لگا ہائے بڑھاپا تیری ایسی کی تیسی۔پھر اردگرد دیکھا اور خود ہی ہنس کر کہنے لگا جوانی میں کونسی تباہی مچا رکھی تھی اندر کا بھی وہی حال ہے۔اب یہ بڑھاپے کے ہاتھوں تنگ ہونے کی شکایت کرتا ہے۔اِس سے حلفیہ پوچھو کہ جوانی میں چھلانگ لگا کر کون سے دریا پار کرتا رہا ہے۔"
لکھی کی وجہ سے اندر نے محتاط انداز میں جواب دیا،"لڑکا بیٹھا ہے تجھے کیا جواب دوں؟تجھے کیا پروا، صاف ستھرا لباس پہن لیا اور تھانے کچہری کا چکر لگا لیا۔بھائی صاحب! دور کے ڈھول سہانے۔ تو نے ساری عمر مزارعوں سے بجائی کرائی اور آرام سے بیٹھ کے کھایا۔کبھی خود کاشتکاری کی ہوتی تو پوچھتے ا۔ب تو تیرے وارے نیارے ہیں۔ تو جو کہے درست ہے، تو باتیں کر سکتا ہے "اندر نے نواب کی تسلی کر دی۔ لکھی اٹھ کر گھر کو چلا گیا۔کمرے میں لکھی کھیس لیے چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ جنداں اُسے کھانے کے لیے کئی بار کہہ چکی تھی مگر وہ ہر بار انکار کر دیتا۔ وہ سمجھی کہ شاید لکھی کو ٹھنڈ لگ گئی ہے۔ وہ گرم گرم دودھ میں گھی ڈال کر لائی۔.جندان نے کہا، "بیٹا !یہ نیم گرم دودھ پی لے تیری طبیعت ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘ لکھی نے اِس مرتبہ بھی انکار کر دی۔ جنداں اُس کے لیے پریشان تھی مگر وہ کچھ دیر دبک کر سویا رہا اور پھر ُاٹھ کر حویلی چلا گیا۔
حویلی میں ابھی تک رونق لگی ہوئی تھی۔سب دائرے میں بیٹھے آ گ تاپ رہے تھے۔ لکھی بھی خاموشی سے بیٹھ کر آگ تاپنے لگا۔
فوجے نے پوچھا، "بیٹا !کھانا کھا آئے ہو۔"
"جی،چاچا۔" لکھی نے جواب دیا۔
فوجے نے لکھی سے پوچھا" آج حویلی میں تو نے سونا ہے؟"
" ہاں !"
"اگر تم کہو تو میں بھی اِدھر ہی سو جاتا ہوں۔ کہیں تو رات کو اکیلے ڈر ہی نہ جائے۔"فوجے نے پیار سے پوچھا۔
"نہیں چاچا۔"لکھی مسکرا کر کہنے لگا" میں کوئی بچہ ہوں جو اکیلا ڈر جاؤں گا اور پھر مہندا بھی تو ادھر ہی ہوگا۔"
"اچھا !تمہاری مرضی۔" فوجے نے کہا۔
رات کا ایک پہر گزرا تو اندر نے اُٹھ کر انگڑائی لی جیسے بوڑھی ہڈیوں کو کھول رہا ہو اور پھر کھیس کی بکل مار کر بولا۔
"چلو یار چلیں۔"
"چلو" فوجا سنگھ نے کہا۔تینوں بوڑھے اٹھ کر گھروں کو چلے گئے۔
آگ بجھ چکی تھی، کوئلے راکھ ہو گئے تھے۔بس کہیں کوئی چنگاری ٹمٹماتی نظر آتی۔ وہ بھی رات کے اندھیرے کی وجہ سے۔
"سردار جی! پھاٹک کا کنڈا لگا دوں؟‘‘ مہندے نے پوچھا۔
"لگا دے اور جا کر سو جا۔ "لکھی نے مہندے کو چھٹی دے دی۔
لکھی جاکر جھنڈے کے بسترے میں سو گیا۔اُ س نے مٹی تیل سے جلنے والے دیے کی وجہ سے منہ رضائی کے اندر کرکے سونے کی کوشش کی مگر نیند کہاں؟وہ دوپہر والے واقعے میں ہی کھویا ہوا تھا۔اگر اُس نے دیپو سے رشتہ تلاش کرنے والا مذاق کر بھی لیا تھا تو وہ رو رو کر کیوں ہلکان ہوگئی۔ لوگ لڑکیوں کے لیے رشتے تلاش کرتے رہتے ہیں اور لڑکیاں اُس دن کے خواب دیکھتی آئی ہیں۔
مگر نہ تو شرم سے دیپو کا چہرہ سرخ ہوا اور نہ ہی وہ دوپٹے میں منہ چھپا کر دوڑی بلکہ پتھر کا بت بنے کھڑی روتی رہی اور اگر دیپو رو رہی تھی تو وہ کیوں بچوں کی طرح رونے لگ گیا تھا؟ دیپو کے ناراض ہونے پر اُسے کیوں محسوس ہوا کہ جیسے اُس سے اُس کا رب ناراض ہو گیا ہو۔ یہ بات اُس کے موٹے دماغ میں نہیں آرہی تھی۔اُس کی سوچ کی تان اُس وقت ٹوٹی جب حویلی کے دروازے پر تیسری مرتبہ دستک ہوئی۔ اُس نے اٹھ کر کھیس کی بکل ماری اور باہر پھاٹک کی طرف چل پڑا۔
"کون؟" لکھی نے دروازہ کھولنے سے پہلے پوچھا۔
"میں!"
اُس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ آواز دیپو کی تھی۔ ایک مرتبہ تو وہ دیپو کے اُس وقت آنے پر حیران رہ گیا مگر پھر دیپو کے ہاتھ میں روٹی اور دودھ والی بالٹی دیکھ کر خوش ہو گیا۔
اُس وقت لکھی کو بات سجھائی نہیں دے رہی تھی۔ دیپو خاموشی سے لکھی کے پیچھے چلتی آئی۔ اُس کے سامنے چارپائی پر روٹی اور ساتھ دودھ والی بالٹی رکھ کر خود پائنتی کی طرف بیٹھ گئی۔
لکھی خاموشی سے بیٹھا رہا۔
دیپو نے کہا، "روٹی کیوں نہیں کھا رہے ہو اور میری طرف کیا دیکھ رہے ہو ؟"
ُ اس کی آنکھیں اب بھی لال سرخ نظر آ رہی تھیں اور مسلسل رونے کی وجہ سے ویران نظر آتی تھیں۔
"نہیں کھانی۔ "
"کیوں ؟"
"بھوک نہیں۔ "
"دودھ پی لے۔ "
"نہیں پینا ۔"
"کیوں؟ "
"طلب نہیں۔"
"لکھی!" دیپو نے پہلی بار اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہوئے کہا، "لڑائی تو میرے ساتھ ہوئی ہے روٹی کیوں نہیں کھا رہا؟"
"میں نے تو لڑائی نہیں کی۔ تو ہی بلاوجہ ناراض ہوگئی ہے۔" لکھی نے دل کی بات کہہ دی۔
"میں بلاوجہ ناراض ہو گئی ہوں؟"
"تو اور کیا ؟"
’’چلو بلاوجہ ہی سہی تو روٹی تو کھا لے۔"
"نہیں کھانی۔" لکھی نے بھینسے کی طرح سر ہلایا۔
"نہیں کھانی۔" دیپو نے اُس کی بات دہراتے ہوئے بڑے مان پیار اور کچھ رعب سے کہا۔
"لکھی! تو نے یہ روٹی بھی کھانی ہے اور دودھ بھی پینا ہے۔"
"یہ تو زیادتی ہے۔"لکھی نے مسکین سی صورت بنا کر کہا، "زیادتی ہی سہی۔" دیپو نے کچھ اِس انداز سے کہا کہ دیپو کی آنکھوں سے ہنسی اور پیار کی جھلک نظر آئی۔
"اچھا !موتیوں والو۔ "لکھی نے نواب نمبردار کی نقل اتاری جو پولیس والوں کو سرکار اور موتیاں والو کہہ کر بلاتا۔
دیپو اُس کے نقل اُتارنے پر ہنس پڑی اور لکھی ساگ مکھن اور جوار کی تین روٹیاں چٹکی بجانے کی دیر میں کھا گی۔ دیپو کو اُس کی بھوک کا اندازہ تھا۔وہ شروع سے ہی بھوک برداشت کرنے میں کمزور تھا۔اُسے تیز تیز روٹی کھاتے دیکھ کر دیپو ہنس پڑی۔پیٹ بھر کر لکھی نے کھانا کھایا اور پھر دودھ کی بالٹی چڑھا کر ایک سکون کا لمبا سانس لے کر بولا۔
"قسم سے اگر تو روٹی لے کر نہ آتی تو میں نے کبھی بھی روٹی نہیں کھانی تھی۔"
دیپو نے ہنس کر کہا "اگر مجھے تائی نہ بھیجتی تو میں نے کبھی روٹی لے کر نہیں آنا تھا۔"
vvvvv

پوہ ختم ہو گیا ہے اور ماگھ کو شروع ہوئے پانچ دن ہو چکے تھے۔ ماگھ شروع ہوتے ہی بارش شروع ہو گئی۔ بسنترمیں سیلاب کا ریلا آ کر اُتر بھی گیامگر دریا میں تیز پانی کی شوکر ابھی تک آ رہی تھی۔ یہ تو شکر ہے کہ دریا کا پانی سیلاب کا باعث نہ بنا جس کی وجہ سے کچھ بچت ہو گئی ورنہ جب بسنتر اور دریا کاپانی اکٹھے سیلاب کی صورت میں باہر نکلتے ہیں تو آس پاس کے دیہات میں تباہی مچا دیتے تھے اور سیلاب کا زور آور پانی ہر چیز کو بہا لے جاتا۔ بارش پچھلے پانچ دن سے مسلسل ہو رہی تھی۔ بارش کبھی تو تیز ہو جاتی اور کبھی ہلکی لیکن کسی طور پر بھی بادل بکھر نے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
یہ ماگھ کی ایک سیاہ کالی رات تھی۔ بادل خدا کا قہر بن کر مسلسل برس رہے تھے۔ رات بہت اندھیری اور خاموش تھی۔ بارش برسنے کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی یا جب بادل گرجتے تو کسی حویلی میں پڑے خشک چورے کے ڈھیر پرلیٹا کتاخوف زدہ ہو کر بھونکنے لگتا۔ گاؤں کی ایک طرف چار ایکڑ کے فاصلے پر قبرستان کے قریب پیپل کے بوڑھے درخت کے سائے میں دو گھوڑ سوار منہ سر ڈھاٹوں میں اور جسم چادروں میں چھپائے گاؤں کی طرف منہ کیے کھڑے تھے اُن کے ہاتھوں میں چھویاں تھیں جن کے پھل آسمانی بجلی چمکنے سے چمک اُٹھتے اُن کے کپڑے بارش میں بھیگ کر گیلے ہو گئے تھے۔ جو بارش کا قطرہ اُن کے کپڑوں پر گرتا سیدھا جسم تک جا پہنچتا۔بادل کڑکا اور بجلی چمکی تو ایک گھوڑی ڈر گئی ۔
" باگ کو مضبوطی سے پکڑ کے رکھو۔" ایک سوار نے دوسرے کو کہا۔ دوسرا سوار منہ سے کچھ نہ بولا، صرف ایک بار اُس کے دانتوں پر دانت بجنے کی آواز آئی۔
"سردی لگ رہی ہے۔" پہلے سوار نے پوچھا۔
"نہیں ،نہیں۔" دوسرے سوار نے ہمت کر کے جواب دیا۔
بجلی پھر چمکی۔دور دور تک پانی کی چھوٹی چھوٹی چھپڑیاں چمکتی نظر آئیں۔گاؤں کے در ودیوار گیلے اور ٹھنڈے ہو گئے تھے۔سوداگر سنگھ کی حویلی کے سامنے کوئی کتا بارش سے بچنے کے لیے پناہ تلاش کرنے کی کوشش میں منہ اوپر کر کے رویا، ایک لمبی آواز نکالی اور چپ کر گیا۔
"کوئی ادھر آ نہ جائے؟" دوسرا سوار آہستہ سے منہ میں بولا۔
پہلے نے جواب دیا،’’اِس طرح کی رات میں ،آدھی رات کو اِدھر کس نے آنا ہے۔‘‘
"مگر سوداگر آج حویلی میں اکیلا ہے؟"
"نہیں !اُس کا عیسا ئی نوکر بھی ہے۔"
"اُس کا کوئی بیٹا بھی حویلی میں موجود نہیں؟"
"نہیں بھائی ! سارے گھر میں ہیں۔"
"سارے؟"
" ہاں! سارے۔"
"بات سمجھ میں نہیں آتی۔ بیٹے سارے گھر اور باپ اکیلا حویلی میں؟"
"تمہیں کیا ؟ تم چپ رہو۔" پہلے سوار نے دوسرے کو غصیلی آواز میں کہا۔
"اچھا۔"
"میری گھوڑی پکڑو! میں ہو کے آتا ہوں" پہلا سوار تیزی سے گھوڑی سے اُترا اور لگام دوسرے کے ہاتھ میں دے کر اپنی چادر کو کس لیا اور کھیس زور سے لپیٹ لیا۔چھوی کی دھارپر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس نے دوسرے سے کہا"ادھر ہی رہنا! چاہے کچھ ہو جائے، میرے پیچھے نہ آنا۔"
"ٹھیک ہے۔"
"قبروں کے بیچ اکیلے ڈر تو نہیں لگے گا۔ " پہلے نے ذرا ہنس کر پوچھا ،
"ڈر کس چیز کا؟"
پہلا سوار اپنا آپ سمیٹ کر جلدی جلدی سوداگر سنگھ کی حویلی کی طرف چل پڑا۔ وہ پانی سے بچتا بچاتاننگے پاؤں جا رہا تھا۔ اُس کے پاؤں جمور کی طرح زمین نے پکڑ لیے تھے۔ وہ چکنی مٹی پر چلتا ہوا سوداگر سنگھ کی حویلی جا پہنچا۔ حویلی کاپھاٹک بند تھا۔ حویلی کی دیوار کمر تک تھی۔ اُس نے چپتے کی طرح دیوار پھلانگی، بلی کی طرح پاؤں اندر جما لیے۔ایک مرتبہ پھر اُس نے کس کر ڈھاٹا باندھا اور کھیس کو جسم کے گرد مضبوطی سے لپیٹ لیا پھر آہستگی سے کمرے کی طرف چل پڑا جس کا اُسے بتایا گیا تھا۔ اُس دوران بادل زور سے گرجا اور بجلی بھی چمکی۔
اُس نے ہلکا سا دروازے کو دھکا دیا تو اُسے معلوم ہو اکہ دروازہ اندر سے بند ہے۔ اُس نے چھوی زور سے پکڑی اور دروازے پر آہستگی سے دستک دی، ایک بار، دوسری باراور تیسری بار، جب دروازے پر دستک دی تو اندر سے سوئے ہوئے سوداگر سنگھ کی غصے اور نیند میں بھری آواز آئی۔
"کون ہے؟"
"میں ہوں سردار جی! بادشاہ ہو! نکا۔"
ُاُس نے سوداگر کے ملازم نکے عیسائی کی آواز بنا کر کہا،"شایدیہ حربہ کامیاب ہو گا بھی یا نہیں ؟ " باہر والے نے سوچا۔ پھر اُس نے ماچس کی رگڑ سے تیلی جلانے کی آواز سنی۔ سوداگر دیوا جلاتے ہوئے نکے کو ماں بہن کی گالیاں دینے لگا۔وہ اُس کو برا بھلا کہتے ہوئے بولا۔
’’تم کو اِس وقت کون سی مصیبت آن پڑی۔‘‘ سوداگر سنگھ نے اندر سے غصے میں کہا۔
"گھوڑا کھل گیا ہے سرکار۔۔۔۔ شاید چور۔" باہر والے نے پھر نکو کی آواز بنائی۔
"تم کون سی ماں کے ساتھ سوئے تھے؟بے ہوش کہیں کے!"
دروازہ کھول کر سردار نکّو پر برس پڑا۔بادل چمکا اور سوداگر سنگھ نے عیسائی کی جگہ ایک لمبا چوڑا آدمی منہ لپیٹے کھڑا دیکھا جس کے ہاتھ میں چھوی تھی۔ سوداگر سنگھ جو چادرجسم پر لپیٹ رہا تھا، اُس کے ہاتھ وہیں رک گئے،"کون ہو تم؟" سوداگر نے تحمل کے ساتھ پوچھا۔
"چپ کر کے باہر کی طرف چلو۔"آنے والا شکاری کتے کی طرح غرایا اور چھوی اُس کے پیٹ پرایک طرف رکھ دی اور کہا "اگر بولا تو تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔"
سوداگر سنگھ گیدڑ جیسا بزدل اور کوے کی طرح سمجھدار تھا، چپ کر کے باہر کی طرف چلنے لگا۔ سوداگر نے چلتے ہوئے سوچا کہ اگر شور کیا تو شاید یہ مجھے مار ہی نہ ڈالے۔ ویسے بھی اگر کوئی چور ہے تو مال مویشی ہی چرائے گا۔ وہ ہم ڈھونڈ لیں گے۔ وہ اِسی بات پر بہت تحمل کے ساتھ ننگے سر صرف چادر اوڑھے باہر کی طرف چل پڑا۔ چھوی کی نوک اُس کی کمر میں زور سے چبھ رہی تھی۔
"دروازہ کھولو اور باہر نکلو۔"چھوی والا پھر سانپ کی طرح پھنکارا۔ سوداگر وہ دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔ چھوی والے نے پھاٹک بند کر کے کنڈا چڑھا دیا۔"قبروں کی طرف پانی کے بیچ میں سے چھوی والے نے چھوی کا دستہ مار کر اُسے کہا اوروہ چپ چاپ قبرستان کی طرف چل پڑے۔ بادل ایک مرتبہ پھر سے گرجا اور بجلی چمکی، سوداگر سنگھ نے پیچھے مڑ کربہت تحمل سے دیکھا اور پوچھا۔
"کون ہو تم؟"
"میں !" چھوی والا گاؤں سے باہر آ کر قدرے آہستہ لیکن تھوڑا کھل کر ہنسا اور کہنے لگا۔" کالا چور ہوں میں! مگر تمہیں اپنا منہ دکھا کر ماروں گا۔"
یہ پہلا موقع تھا کہ سوداگر سنگھ خوف سے کانپ رہا تھا۔ بات تو شاید اب اُس کی سمجھ میں آ گئی تھی لیکن اب وقت گزر چکا تھا۔اُس کو اپنی بے وقوفی پر بہت غصہ آیا۔ وہ بہت پچھتایا کہ ُاس نے حویلی میں شور شرابا کیوں نہ کر دیا۔شوروغل سن کو کوئی نہ کوئی مدد کو آ جاتا اور اگر مرنا ہی تھا تو اپنے گھر میں ہی مرتا۔
سوداگر سنگھ کو سردیوں کی ایسی یخ رات میں بھی پسینہ آ گیا۔ وہ اب چھوی والے کے آگے لگ کر چلنے پر اپنے آپ کو کوسنے لگا۔
"تم مکھن ہو؟جھنڈا؟"سوداگر نے اندازے سے تکا لگایا۔"آگے چل کر بتاتا ہوں۔"چھوی والے نے ہنس کر کہا"پیپل کے نیچے۔"
وہ قبرستان والے پیپل کے درخت کے نیچے آ کر کھڑے ہو گئے۔ گھوڑیاں جہاں وہ چھوڑ کر گئے تھے وہیں پر تھیں۔اُس نے دوسرے سوار سے اپنے گھوڑے کی باگ پکڑی۔ سوداگر سنگھ گھوڑیوں اور سواروں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔ وہ اُن سواروں کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔
"گھوڑے پر اگر کاٹھی ہو تو دو آدمی مشکل سے سوار ہوتے ہیں۔" چھوی والے نے کہا۔اُس کے سفید دانت اور نقاب میں سے لال سرخ آنکھیں بجلی کی چمک میں سوداگر سنگھ کوکسی بھیڑیے کے دانت اور آنکھیں محسوس ہو رہے تھے۔
"تم خودسوار ہو گے یا میں اٹھا کر سوار کروں۔ سوداگرے!"
سوداگر چھلانگ لگا کر گھوڑی پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اُس گھوڑی کی لگام چھوی والے کے ہاتھ میں تھی اورچھوی سوداگر سنگھ کے قریب۔چھوی والے نے لگام اور چھوی کو بائیں ہاتھ میں پکڑا اور چھلانگ لگا کر سوداگر سنگھ کے پیچھے بیٹھ گیا۔گھوڑی کی باگیں ا ُس نے بائیں ہاتھ میں پکڑ لیں اور چھوی سوداگر کے پیٹ کی دائیں طرف زور سے رکھ دی۔ گھوڑوں کا رخ بیلے کی طرف کر لیا اور گاؤں کے باہر کی طرف سے ہوتے پانی کے بیچ سے وہ چلتے گئے۔ بے آباد اور ویران راستے پر نہ کوئی گاؤں تھا اور نہ کوئی ڈیرہ لیکن پھر بھی وہ راستے سے ہٹ کر جا رہے تھے۔بسنترنالے میں کمر تک پانی تھااور اُنہوں نے آرام سے عبور کرلیا اور بیلے میں داخل ہو گئے۔ وہ سرکنڈوں کے بیچ میں سے گزرتے ہو ئے دریا پر جا پہنچے۔ پھر وہ دریاکے کنارے نیچے کی طرف چل پڑے۔ ڈیرے والے پتن سے پہلے انہوں نے گھوڑیوں کو روک لیا۔سوداگر کے پیچھے بیٹھا گھبرو جوان چھلانگ لگا کر نیچے اُترا۔ سوداگر کے بازو کو مروڑ کر اُس نے سوداگر کو گھوڑی سے نیچے اُتارا اور گھوڑی کی باگ اُس نے دوسرے سوار کو تھما دی اور اُس کو کہنے لگا کہ گھوڑیوں کو پرے کسی سرکنڈے سے باندھ دو۔ پھر سامنے کھڑے سوداگر کو دیکھ کر بولا۔
"یہی جگہ ہے نہ جہاں تم نے گھات لگا کر وریام سنگھ کو مارا تھا۔"سوداگر سنگھ نے گیلے بال اکھٹے کر کے جوڑا بنایا۔ اُس کا گریبان کھلا تھا۔موت کو قریب پا کر اُس کو شاید سردی بھی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔"ہم نے گھات لگا کر نہیں مارا تھا اُسے، بلکہ اُس کو للکار کر مارا تھا۔"سوداگر سنگھ نے بھاری آواز سے کہا۔
"للکار کر یا چوروں کی طرح چھپ کر"چھوی والے نے دردناک آواز سے کہا۔"ایک آدمی پر دس بندے چھپ کر پیچھے سے حملہ کر دیں ، یہ سورماؤں کا کام ہے؟"
سوداگر سنگھ کے پیچھے ٹھاٹھیں مارتے دریا کی شوکر سنائی دے رہی تھی اور اُس کے سامنے دو چھویاں تھامے جوان کھڑے تھے جن کے پاس برق رفتار گھوڑیاں تھیں، بچ نکلنے کی صورت یا امید نظر نہیں آتی تھی۔ بادل بھی برس رہے تھے۔سوداگر سنگھ ہاتھ بغلوں میں رکھ کر اَکڑ کر کھڑا ہو گیا۔اگر مرنا ہی ہے تو اکڑ کر مروں،اُس نے سوچا۔
’’تم یہاں سے کسی طرگ بھاگ نہیں سکتے سوداگر۔‘‘چھوی والے پہلے جوان نے کہا۔
"مجھے معلوم ہے۔"سوداگر نے کہا۔" تم نے میرے ساتھ جوانوں والا کام نہیں کیا لیکن جب موت آ گئی تو میدان چھوڑ کر کیا بھاگنا؟"
سوداگر ابھی تک اُس جوان کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا جو موت بن کر اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ جوان اونچی آواز میں ہنسا۔ اُس کے ہنسنے میں رونے کا درد اور تکلیف تھی۔ اُس نے اپنے ساتھی کی چھوی سوداگر کو دی اور خود تیزی سے مڑ کو چھوی کو تولنے لگا اور بولا۔
"تم اپنا شوق پورا کر لو اوردل کے ارمان نکال کر دیکھ لو۔اگر تم مجھے مارنے میں کامیاب ہو گئے تو جاتے میری گھوڑی بھی لے جانا۔‘‘
"لیکن تمہارے ساتھ والا؟" سوداگر نے بے یقینی سے چھوی کو پکڑتے ہوئے کہا۔
چھوی پکڑ نے سے اُس کے بوڑھے دل کو قدرے تسلی ہوئی۔"میرے ساتھ والا لڑائی میں نہیں آئے گا، یہ وریام کے بیٹے کی زبان ہے۔"
"تم جھنڈا ہو، گھوڑی پر بیٹھتے ہی میں نے گھوڑیاں تو پہچان لی تھیں مگر تمہیں پہچاننے کی کوشش کی تو تم میرے پہچاننے میں نہیں آئے۔" سوداگر نے پھرسے پوری آنکھیں کھول کر بے یقینی کے ساتھ اُس کو دیکھا۔ اپس کو یقین تھا کہ یہ بندے ا،س کے قتل کے لیے باہر سے بلائے گئے ہیں۔ یہ وریام سنگھ کے بیٹے نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ میرے چھ جوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے مجھے ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔اُن کی اتنی ہمت نہیں۔
"میں جھنڈا نہیں، لکھی ہوں سوداگر!"
بادل چمکا اور سوداگر سنگھ حیرانی سے دیکھنے لگا۔"لکھی ہو؟"
"ہاں! چلواب تیار ہو جاؤ۔ایسے ہی باتیں نہ بناؤ اور چلو پہلا وار بھی تم ہی کر لو۔"لکھی نے چھوی کو تولتے ہوئے کہا۔
"جلدی کرو سوداگر! بہت عرصے کے بعد یہ انتظار کی گھڑی آئی ہے۔ اسے ایسے ہی باتوں میں ضائع نہ کریں ، چلو ہمت کرو۔"
سوداگر پیچھے ہٹا، چھوی کو زور سے پکڑ ااور بازو کو کس کے سارا زور بازو میں اکٹھا کر لیا۔ پھر کچھ سوچ کر اُس نے چھوی نیچے کر کے کہا،"رک جاؤ جوان !میری ایک بات سن لو"
لکھی ویسے ہی اکڑ کر کھڑا رہا اور بولا"بتا!‘‘
سوداگر بولا،"ہم نے نہتے وریام کو کوئی ہتھیار نہیں دیا تھا۔ اگر اُس کے ہاتھ میں کچھ ہوتا تو شاید ہم سے نہ مرتا۔ " یہ کہہ کر اُس نے اپنے ہاتھ سے چھوی پھینک دی اور کہا،"تم اپنا شوق پورا کر لو۔"سوداگر نے کہا۔
"یہ فریب کر رہا ہے، اِس کا قصہ تمام کر و لکھی۔"لکھی کے ساتھی نے اُس کو پیچھے سے آواز دے کر کہا۔لکھی کا خون پہلے ہی جوش اور غصے سے کھول رہاتھا۔ اُس نے چھوی کس لی اور پورے زور سے ماری اور سوداگر سنگھ کے سر سے اُس کے جبڑوں تک دو ٹکڑے کر دیے۔ سوداگر سنگھ گرنے سے پہلے ہی مر چکا تھا۔
"مر گیا ہے؟" لکھی کے ساتھی نے پوچھا۔
"پیچھے ہٹ جاؤ تم۔" لکھی نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا۔
"دونوں ٹوکے مجھے پکڑا دو۔"
دوسرا سوار سہم کر پیچھے ہٹ گیا۔ لکھی سوداگر کی لاش کو پاؤں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے دریا کے کنارے تک لے گیا اور اس کو ایسے کاٹنے لگا جیسے بیلوں کے لیے باریک چارہ کتر رہا ہو۔ وہ کاٹتا جاتا اور دریا کے پانی میں بہاتا جاتا۔ لکھی اپنے کام میں مگن تھا اور اُس کا ساتھی اُسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا۔بادل زور سے کڑکا اور بجلی کی چمک سے ایسے لگا جیسے دن چڑھ گیا ہو، بادل اور تیزی سے برسنے لگا لیکن لکھی اپنے کام میں مگن رہا۔ آخر فارغ ہوکراُس نے اپنا ٹوکا دریا کے پانی میں دھویا۔ پھر اُس نے چھوی دھوئی اور اُس کے بعد اپنے ہاتھ مل مل کر صاف کر لیے۔ ہاتھ سے دوسرے سوار پر پانی پھینکا، آسمان کی طرف دیکھا اور زور سے قہقہہ لگا کر ہنسا اور کہا،" بھائیا! آج تیرے خون کے بدلے اُتنا ہی خون اِس دریا میں گھول دیا ہے۔"
" لکھی!آج جوانوں والا کام کیا ہے تم نے۔آج تائے کا قرض تیرے سر سے اُتر گیا۔ "دیپو ڈری،سہمی لکھی کے ساتھ لگ کر ہنسنے لگی۔
vvvvv

سردار مراثی کی دکان چوپال کے سامنے ہی تھی۔ویسے تو گاؤں میں چھوٹی سی برہمن کی دکان بھی تھی مگر سب سے پرانی، بڑی اور زیادہ چلنے والی دکان سردار مراثی کی ہی تھی۔ گاؤں کے چوپال کے قریب میں ہونے کی وجہ سے چوپال میں بیٹھنے والے سارا دن کچھ نہ کچھ لیتے رہتے ۔سردار اُدھار بھی دے دیا کرتا پھردکان سے ضرورت کی سب چیزیں مل جاتی تھیں۔کبھی کبھی وہ موسم کی مناسبت سے گڑ والی جلیبیاں اور پکوڑے بھی بناتا تھا۔ اُس دن سردار کی دکان میں گاہکوں کا رش رہتا۔دکان کے سامنے ایک چھوٹا برآمدہ تھا اُس میں ہر وقت تین یاچارلوگ سردار کے حقے کے کش لگاتے ہوئے بیٹھے لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔ سردار کی عمر ساٹھ سال ہوگی۔جوانی میں وہ صحت مند جوان ہوگامگر بوڑھا ہوکر وہ کوڈی کا بھی نہیں رہا تھا۔ سرہلنے کی بیماری کی وجہ سے اُس کاسر دائیں بائیں گھومتا رہتا جیسے "نہیں ،نہیں کہہ رہا ہو۔‘‘اُس کا رنگ کالا اور سر گنجا تھا۔گاؤں کے لوگ اُسے پیسے والا سمجھتے تھے۔منہ کا میٹھا تھاا ور گاؤں کے ہر فرد کے ساتھ اُس کا رویہ اچھا تھا۔ لوگوں کے دکھ سکھ کا خیال رکھتا اور ہر گھر کے بارے میں معلومات رکھتا تھا۔جٹوں کو اور کیا چاہیے ؟میٹھی زبان اور نرم لفظوں کے ساتھ ُان کو جیسے استعمال کرتے جاؤ،کھاتے جاؤ،ماتھے پر بل نہیں ڈالیں گے۔گاؤں میں ایک طرح گروہ بندی بھی تھی مگر سردار مراثی کی دونوں دھڑوں سے بنتی تھی۔
اُس دن سردار مراثی نے خالص گھی کی جلیبیاں بنائی تھیں۔بارش کئی دنوں کے بعد تھمی تھی۔چوپال میں کافی لوگ جمع تھے۔ سردار کی دکان کے سامنے بچھی صف پر بھی پانچ،سات لوگ بیٹھے تھے۔لکھی اپنے گھر سے چوپال کی طرف ہی آرہا تھا۔سردار نے ایک نظر لکھی کی طرف دیکھااور ایک نظر دوکان پر بیٹھے اپنے بیٹے کی طرف جس کا دھیان گاہکوں کی طرف کم اور باتوں کی طرف زیادہ تھا۔سودا کم دیتا اور باتیں زیادہ کرتا تھا۔اُس نے بیٹے کو ڈانٹتے ہوئے کہا "سودا توجہ سے دو" اور پھر کڑھائی میں سرخ ہوتی ہوئی جلیبیوں کو چمٹے کے ساتھ تبدیل کرتے ہوئے لکھی کوکہنے لگا:
"سردار لکھی سیاں :آج وہ مال تیار کیا ہے اگر کھاکے مزہ نہ آیا تو میرا سرقلم کردینا۔"
"کھاؤ بھائی!" احمد خاں تھال لکھی کے آگے کرکے بولا:
"ایک سیرادھر اور پھینکو۔"
سردار نے ایک سیر گرم جلیبیاں تول کر تھال میں ڈال دیں اور لکھی کی طرف دیکھاجو ایک جلیبی کھا کے ناک چڑھا رہا تھا۔
"کیا بات ہے سردار لکھاسیئاں!اچھی نہیں؟"سردار نے پوچھا۔
"واہ!بہت مزے دار ہیں۔ "لکھی نے سردار کا دل رکھنے کے لیے جھوٹ بولا "دیسی گھی کے ساتھ مزہ اور بڑھ گیا ہے۔"
"دیسی گھی؟"سردار بلند آواز میں ہنسا۔’’ اگر یہ دیسی گھی کی ہوں تو میں اِس قیمت پر کیوں دوں؟‘‘
"دیسی گھی کی جلیبیاں دادا اس دن بنائیگا جس دن دادی بچہ جنے گی ۔‘‘احمد خاں نے مذاق کیا۔چھوٹے بڑے سب ہنسنے لگ گئے۔سردار ہنستے ہوئے اپنا کام کرتا رہا۔ احمد اُسے بڑے مذاق کرتا رہتا تھا۔سردار صرف ہنس دیتا تھا۔سردار ٹھنڈے مزاج اور میٹھی زبان والا تھا۔احمد ایک گرم جلیبی منہ میں رکھ کر لکھی کے قریب گیا اور کہنے لگا "ایک نئی بات سنی ہے۔"
"کیا؟"لکھی نے پوچھا۔
"راجندرے کا باپ گم ہوگیاہے۔" احمد نے لکھی کو بتایا۔
راجندر سردار سودا گرسنگھ کا منہ پھٹ ،بدلحاظ، صحت مند جوان ،سب سے چھوٹا بیٹا تھا، جو احمد اور لکھی کا ہم عمر تھا۔
"ہیں؟"لکھی کا رنگ تھوڑا سا تبدیل ہوا مگر احمد نے نہ دیکھا۔
"ہاں بھائی!اللہ کی قسم سوداگر سنگھ گم ہوگیا ہے۔ "
’’جانے دو بھائی !"لکھی نے ہنس کے احمد کو کہا"کیا مذاق کررہے ہو؟"
"مذاق نہیں کررہا۔ یہ بات سچ ہے لکھی!"
"ہے نا عجیب بات! لوگوں کے بیٹے گم ہوتے ہیں،اُن کا باپ گم ہوگیاہے۔" احمد خاں کہنے لگا۔
"کب ؟"لکھی بولا:
"اِس بارش میں۔"
"کسی رشتے دار کی طرف چلا گیا ہوگا۔"لکھی نے احمد سے کہا۔
"وہ تو سارا خاندان تین چار دن سے تلاش کرکے پاگل ہوگیا ہے۔ کسی جگہ ،کوئی رشتہ دار نہیں چھوڑا جہاں تلاش نہ کیا ہو۔پھر بھی کوئی سراغ نہیں ملا ،کوئی خیر خبر نہیں ملی۔"
"شاید کنجر کہیں سیلاب میں نہ بہہ گیا ہو" احمد خاں نے کہا۔
’’ جوانو!وہ کوئی چڑیا کا بچہ ہے جو پانی میں بہہ گیا ہے "ساتھ بیٹھے اندرسنگھ سے رہا نہ گیا۔
احمد اور لکھی دونوں خاموش ہوگئے۔
دوسری طرف سے سودداگر کے حصے دارآرہے تھے۔
سوداگرسنگھ کے بڑے دوبیٹے گھوڑیوں پر سواریوں گزرے جیسے اُن کے پاس چوپال میں بیٹھنے کاوقت ہی نہ ہو،یاپھر وہ لکھی اور احمد کو دیکھ کرراستہ بدل گئے، اوررکے نہیں۔
احمد خاں کسی جوان کے ساتھ کلائی پکڑنے میں لگ گیا۔ کلائی تو اِس طرح اُس کے ساتھ کسی نے کیا پکڑنی تھی؟اِردگرد کے دیہات میں کبڈی اور کلائی پکڑنے میں کوئی اُس کا ہم سر نہ تھا۔باپ کا اکلوتا بیٹا اور کھانا پینا بھی وافر مقدار میں تھا۔نواب خاں نے اُس کو بڑی محبت سے پالا تھا۔جوان ہوکر وہ صحت مند اور طاقتور بنا۔ فارغ بیٹھے وہ لڑکوں کو وینی پکڑنا سکھاتا تھا۔
لکھی اُٹھنے لگا تو ہلکی آواز میں احمد خان نے اُ سے کہا۔"بھائی! رات کو میری طرف چکر لگانا۔"
"اچھا۔"لکھی اُٹھ کر گھر کی طرف چل پڑا اور احمد خاں کسی جولاہے کو چھیڑنے لگ گیا۔
"اچھا۔"لکھی کے کان میں اُس کی آواز پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جولاہیاں دی کھڈی وچ چن وڑیا
مچھاں مرورڈا ، میں پھڑیا !
vvvvv

سوداگر سنگھ کوقتل کرنے کے بعد لکھی کچھ پریشان تھا۔بدلہ لے کر جتنا اُسے خوش ہونا چاہیے تھا،وہ اُتنا ہی چپ تھا۔کیا پتا وہ ٹھیک نہیں یاپھر ایسے ہی پریشان تھا۔ ویسے بھی انسان کو قتل کر دینا اِتنا مشکل نہیں ہوتا جتنا قتل کرنے کے بعد اپنے حواس بحال رکھنا مشکل ہوتا ہے۔لکھی اگرچہ بہت بہادر تھالیکن تھا تو ابھی وہ لڑکا ہی۔قتل کرنا اگر ایک کام ہوتا ہے تو لکھی نے اِس کو بہت سال پہلے سے سوچنا شروع کیا تھا۔ہوش سنبھالنے سے قتل کی اُس رات تک اُس نے لاکھوں نہیں تو ہزاروں بار سوداگر کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے تھے۔
بدلے کی اِس آگ نے اُسے نتیجے سے بالکل بے پروا کردیا ہواتھا۔سوداگر سنگھ کو قتل کرنے میں جتنا اُس نے عقلمندی سے کام لیاتھابہت عقلمند لو گ بھی سنتے تو حیران رہ جاتے۔باتیں سب ہی ٹھیک تھیں لیکن اِس سب کہانی میں دیپو کا بھی عمل دخل شامل تھا۔اکیلا لکھی ہو سکتا ہے کہ یہ کام کر ہی نہ سکتا۔دکھ تو لکھی کے باپ کا بھی دیپو کو ہوگا لیکن اصل میں اُس کو مرنے والے سے زیادہ دکھ جیتے ہوئے لکھی کا تھا۔وہ کبھی کبھی کہتی:
"مرنے والوں سے جینے والوں کا دکھ زیادہ ہوتا ہے۔"
دیپو لکھی کو پریشان نہیں دیکھ سکتی تھی اور لکھی کو موت کے منہ میں دینے کا بھی اُس میں حوصلہ نہیں تھا۔ویسے تو دیکھنے میں دیپو ایک لا پروا لڑکی تھی لیکن اُس کے ساتھ ہی وہ فوجا سنگھ کی بیٹی بھی تھی۔اپنے باپ کی آدھی عقل دیپو اِسی عمر میں ہی لیے بیٹھی تھی۔لکھی ابھی نوجوان اور موٹے دماغ والا لڑکا تھا۔اگر دیپو اُس کی لگام نہ کھینچے رکھتی تووہ دن دیہاڑے سوداگر سے ٹکرا جاتا اوراُس کو قتل کر کے خود پھانسی لگ جاتا ،لیکن دیپوکی عقل نے اُس کو راہ دکھائی ۔ بزرگوں کے کہنے کے مطابق اُس نے سانپ بھی مار لیا اور لاٹھی بھی بچا لی۔اِتنے بڑے کام میں سے گزر کے بھی دیپو پہلے جیسی تھی۔ہنستی،کھیلتی،نوجوان بانکی،گلاب کے پھول کی طرح کھلی ہوئی،شہد کی طرح میٹھی اور تمباکو کی طرح کڑوی…….
اُس کی کسی بات سے بھی پتہ نہیں چلتا تھاکہ وہ اپنے اندر اتنی بڑی بات چھپائے پھر رہی ہے۔لکھی جو اپنے آپ سے بڑا عقلمنداوربہادر کسی دوسرے کو نہیں مانتا تھا،اندرسے کچھ ڈرا ہوا ،پریشان اورظاہری طور بھی کچھ زیادہ ہی پریشان تھا۔
اُس دن لکھی اکیلا حویلی میں تھا۔سارے پتا نہیں کہاں کہاں چلے گئے تھے۔وہ چادر کے اندر منہ چھپا کرآنکھیں بند کرکے کسی گہری سوچ میں پڑے ہوئے بندے کی طرح چارپائی پر اکٹھا ہوکرلیٹا تھا۔دیپو نے سرپر آکر کھنگھورا مارتے ہوئے لکھی کی نقل اتاری۔لکھی یک دم ڈرگیااور اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر دیپو کو دیکھ کر اپنے ڈر جانے پر شرمندہ ساہوگیا۔
’’اوہ تم ؟بیوقوف!"مسکرا کے لکھی شرمندگی سے بولا۔
دیپو کھل کر ہنسی اورہاتھ جوڑ کر کہنے لگی۔"ہاں مہاراج۔"
"کدھر آئی تھیں؟"لکھی نے اُکھڑے لہجے میں بات کی۔
"لکڑیاں لینے۔"
اچھالکھی کے پاس باتیں ختم ہوگئی تھیں اور وہ خالی نظروں کے ساتھ دیپو کی طرف دیکھتا رہا۔
"میری طرف گھور گھور کے کیا دیکھتے ہو؟"دیپو کہنے لگی:"اِس طرح دیکھ رہے ہو جیسے نگل جانا ہو۔"
"لکڑیاں پکڑو اور بھاگو گھر کی طرف۔ "لکھی پریشان تھا۔"گھر جاؤ۔ حویلی میں لڑکیوں کا کیا کام؟"
’’ لکھی!گھر تو میں چلی جاؤگی لیکن تم آج چپ چپ کیوں ہو؟تمہیں تو راضی خوشی ہونا چاہیے تھا۔"دیپو نے اپنے اندر کی بات کہہ دی جو وہ کئی دنوں سے کرنے کا سوچ رہی تھی "تم ڈرے ڈرے اور پریشان کیوں ہو؟‘‘
لکھی کچھ نہ بولا، لیکن اندر کے چور پکڑے جانے سے خوش نہیں تھا۔
" لکھی!مجھ سے کیا چھپاتے ہو؟" دیپو نے آخر اُس کی د م پر پاؤں رکھ دیا۔
لکھی اِس تہمت کو برداشت نہ کرسکا۔پھٹ پڑا۔
"تم سے کیا چھپانا ہے؟بات تو وہاں چھپاتے ہیں جہاں کسی کو معلوم نہ ہو لیکن تم سے میرا کیا چھپا ہوا ہے؟"
"پھر؟"
دیپو کی نظریں لکھی میں سے گزرتے ہوئے اُس کے دل کے اندر جھانکتی ہوئی نظر آرہی تھی۔
"پھر کیا؟"
لکھی پریشان اور نڈھال آواز میں کہنے لگا۔
"ایسے لگتا ہے جیسے کسی نے دل کو مٹھی میں لے کر دبادیا ہو۔"نہ لکھی کو سمجھ آرہی تھی کہ وہ کیا بولے ،کیابتائے؟
نہ ہی دیپو کو کچھ سمجھ آیا۔
"کوئی ڈر؟"
"نہیں۔"
"کوئی خوف؟"
"نہیں۔"
"کوئی فکر؟"
"نہیں۔"
"پھر اور کیا؟"دیپو نے تنگ آکر پوچھا۔
"نہیں پتا کچھ…..مجھے خود نہیں معلوم کیا ہے؟بس دل کسی بھی کام میں نہیں لگ رہاتو جسم ایسے جیسے کسی نے مارمار کے ہڈیاں توڑ دی ہوں۔"
لکھی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا بتائے۔
"رب سے خیر مانگو لکھی !ہڈیاں ٹوٹیں تمہارے دشمنوں کی۔دیپو تڑپ کر بولی :"تم پر رب کی رحمت ہے۔""بس اُس دن کی تمہیں سردی لگ گئی ہے۔اُٹھ کر چلو پھرو۔"دیپولکڑیا ں لے کر گھر چلی گئی۔لکھی نے سر کے نیچے بازو دے کے آنکھیں بند کر لی۔
رات کو لکھی جب سو کر لکھی کی آنکھ کھلی تو آگ جل رہی تھی۔ کافی لوگ آگ تاپ رہے تھے۔۔اس نے چادر کی بکل ماری اور چپ کرکے حویلی سے نکل گیا۔سونے سے اس کا سر بھاری ہوگیاتھا اور دل اور بھی بے چین تھا۔وہ احمد خاں کی حویلی میں چلاگیا۔
احمدخاں حویلی کے کمرے میں دیوا جلا کر اکیلا بیٹھا شراب پی رہا تھا۔لکھی کو دیکھ کر خوش ہوگیا۔سرہانہ چھوڑ کر چارپائی کی پائنتی کی طرف ہوتا ہوابولا:"قسم سے لکھی! تمہارے آنے سے بہت خوشی ہوتی ہے۔"
اپنا گلاس بڑے بڑے گھونٹ بھر کے اندر انڈیلنے کے بعداُس نے اِسی گلاس کو آدھا بھرا اور لکھی کو پکڑا دیا۔پھرکہنے لگا:
" میرے بھائی ،آگے ہوکے آرام سے بیٹھ جاؤ۔"
لکھی نے دوچارگھونٹوں میں ساری شراب پی لی اور گلاس احمد خاں کو واپس کردیا ،جس نے دوبارہ گلاس شراب سے آدھا بھر دیا۔
"کچھ سست سست لگ رہے ہو؟"احمد خاں بولا:’’چار گھونٹ پیو بلکل تازہ ہو جاؤ گے۔"لکھی نے پھر گلاس خالی کرکے احمد خاں کو پکڑا دیا۔
"تم پی لو!مجھے ابھی مزید ضرورت نہیں۔"
’’ ابھی ایک بوتل اور پڑی ہے سالم ،تم نے بوتل ختم ہوتے دیکھ کرہی بس کردی ہے۔"
"نہیں!ابھی تم پی لو میں تھوڑی دیر بعد لوںگا۔"
لکھی چادر سیدھی کرکے کہنے لگا؛
" احمد خان، تم کہتے ہو شراب پی کے انسان کوکوئی ہوش نہیں رہتی ؟ "لکھی نے پوچھا۔
"ہاں! لیکن ہر بندے کی ہوش نہیں ماری جاتی۔"احمد خاں لکھی کو سمجھانے لگا:"ویسے بھی بھائی ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔"
"مجھے پتہ ہے۔"
"حد سے زیادہ تو اگر بیل کوبھی پلا دی جائے تووہ بھی گر جائے گا۔"
"اچھا؟ "لکھی بولا:"زیادہ پینے سے عقل ماری جاتی ہے کبھی گر کے بھی دیکھنا چاہیے!دو گھونٹ ڈالو اِس میں بھی اب۔"
احمد خاں نے گلاس کو آدھا بھر کر پھر اس کو پکڑا دیا۔
لکھی نے اس کو پینے کے بعد تھوڑا سا نمک زبان پہ رکھا۔
"پہلے توڑکی ہے۔تھوڑی دیر تک تمہیں اپنا رنگ دکھا دے گی"احمد خاں لکھی کے جلدی جلدی سے پینے پر بول پڑا۔
"آج اس کی بھی اخیر دیکھنی ہے احمد خاں!گلاس میں اور ڈالو۔"لکھی بھاری آواز میں کہنے لگا۔
احمد خاں نے کہا "بھائی! شراب بہت ہے۔یہ بات نہیں لیکن تم زیادہ پی رہے ہو۔یہ تمہیں خراب کرے گی۔"
"میرے پیارے! میرا اِس نے کیا خراب کرنا ہے؟"لکھی کا جسم اَب کھل رہا تھااور سر بھی ہلکا ہونے لگا تھا…"میں پہلے ہی خراب ہو ں"،لکھی بولا۔احمد خاں بات کا اشارہ نہ سمجھا،وہ بولا:
"بھائی تم جوان آدمی ہو!ان چار گلاسوں نے تمہارا کیا خراب کرنا ہے لیکن تم تھوڑی پینے والے بندے ہو۔"
"اوئے دکھوں اوردشمنوںوالے بندوں کو تھوڑی پینی چاہیے اور ہروقت اپنی ہوش اور عقل قائم رکھنی چاہیے۔"لکھی نے عقلمندوں والی بات کی…."لیکن کبھی کبھی اندر کوئی لاؤ دہک اُٹھتا ہے تو بندے کا جی چاہتا ہے کہ ہوش اور عقل کو جاتا کرے۔"
"بھائی ! تمہاری بات میرے پلے نہیں پڑی!لیکن پھر بھی تم میرے دوست ہو۔سگے بھائیوں سے بڑھ کر۔جس کام میں تم خوش ہو مجھے بھی وہی اچھا لگتا ہے۔" احمد خاں نے کہا۔"بھائی تم نے سنا نہیں کہ اگر اونٹوں والوں سے دوستی رکھنی ہو تو اپنے گھر کے دروازے بھی اونچے ہونے چاہییں جتنی جی چاہے پیو،میں پریشانی میں تمہارے ساتھ ہوں اور تم سے پہلے کھڑا ہوں گا۔"
"احمد خاں ! قسم سے بات کر کے دل خوش کردیتے ہو!تم مجھے بھائیوں کی طرح ہو جیتے بستے رہو۔"
احمد خاں نے لکھی کوایک گلاس اور دیا۔اُس نے جھٹ اندر انڈیل لیا۔اُس کی آنکھوں کے سامنے اب رنگ برنگے گول چکر پھرنے لگ گئے اوراُس کے سر میں دریا ٹھ ٹے مارنے لگا۔پانی اُس کے سر سے اوپر جارہا تھا۔اُس نے پوری آنکھیں کھول کراحمد خاں کی طرف دیکھا۔
"اوردوں؟"احمد خاں نے پوچھا۔
"ہاں۔"لکھی نشے میں تھا۔اُس نے چادر اُتار کر دور پھینک دی تھی، بولا تواُس کی زبان نشے کی وجہ سے لڑکھڑا رہی تھی۔
"ایک بات بتاؤ؟ بھائی احمد !"
"پوچھ بھائی !"احمد خاں لکھی جتنا تو نہیں لیکن پھر بھی نشے میں تو تھا۔"قسم سے میں تمھیں اپنا حقیقی بھائی سمجھتا ہوں۔‘‘
’’جھوٹ نہ بولنا۔"لکھی نشے میں بولا۔"اگر تمہارا دشمن سامنے اکیلا ہو…..اورتم نے اپنے باپ کا بدلہ بھی لینا ہوتو؟"
’’میں اُس کو مارنے میں ایک منٹ بھی نہ لگاؤں۔"احمد کہنے لگا،"سیدھی سی بات ہے۔‘‘
"اگر وہ خالی ہاتھ ہوتو؟‘‘
"خالی ہاتھ کیا؟سانپ جہاں بھی ملے اُس کی سری کچل دینی چاہیے۔"احمد آہستہ بولا،"اگر موت اُس کے کندھے پر بیٹھی ہو،دشمن کے ہاتھ میں ہتھیار ہوتووہ اگر ہتھیار پھینک بھی دے اورپھر بھی سامنے اکڑ کر کھڑا رہے؟۔۔۔۔۔۔۔قائم...نہ گھبرائے،نہ منت کرے،تو پھر بھی؟"لکھی نے پوچھا۔
احمد خاں سوچ کے بولا۔"پھر اُس کو مارنے میں کیا مزہ آیا؟میں تو نہ ماروں بھائی؟"
"سچ ہے!"لکھی اونچی آواز میں ہنس کر کہنے لگا:"یہ بات جواں مردوں والی ہے، بہادروں والی۔"
"لیکن لکھی تم کیا پہلیاں پوچھ رہے ہو۔میرے تو پلے کچھ نہیں پڑا۔قسم رب کی! کیا بات ہے؟"احمد خاں نے لکھی سے پوچھا۔
"بات!"لکھی پورے نشے میں تھا۔مشکل سے بولا:"بات کچھ بھی نہیں سمجھے!اور اگر کوئی بات تھی بھی تو قسم سے بگڑ گئی!"
vvvvv

فوجا سنگھ، مکھن اور جھنڈا حویلی میں آ گ کے گرد سر جوڑ بیٹھے ہوئے تھے۔ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کسی گہری سوچ میں ہوں۔جھنڈے نے کہا۔"مجھے تو سوداگر کاگم ہوناکوئی چال لگتی ہے۔"
مکھن نے پوچھا،" چال کیسی"؟جھنڈے نے کہا،’’ ہمیں پھنسانے کی اور کیا ؟ لیکن چاچا! وہ حرامزادہ کدھر گیا؟‘‘
’’خدا ہی بہتر جانتا ہے،بیٹا!" فوجا سنگھ کسی گہری سوچ میں تھا کہنے لگا:"لوگ طرح طرح کی باتیں کررہے ہیں۔"
’’بھائیا، کیسی باتیں!"
فوجا بولا "وہ کنجر گیا کہاں ہے، یہ سمجھ نہیں آتی۔"
مکھن جوش سے بولا "وہ کہیں بھی جائے ہم سے چھپ نہیں سکتا۔ قسم سے وہ اگر آسمان میں بھی جائے گا تو ہم اُس کی ٹانگیں کھینچ کر لے آئیں گے،اور اگر زمین میں چھپ جائے گا تو بالوں سے پکڑ کر نکال لے آئیں گے۔"
فوجا کہنے لگا "تم تو سرے سے بے وقوف ہو۔سوداگر کو ہم سے چھپنے کی کیا ضرورت ہے۔ اُس کے چھ بیٹے۔ایک بھائی اور سات ، آٹھ بھتیجے ہیں اور سب کے سب گھبرو جوان ہیں۔پھروہ پیسے ٹکے میں بھی ہم سے بہت زیادہ تکڑے ہیں۔ وہ ہم سے کیوں چھپے گا؟" فوجے نے نرم زبان سے کہا،" سوداگر اِس دنیا میں نہیں رہا۔ میرا دل کہتا ہے کہ کسی نے اس کا مگو ٹھپ دیا ہے لیکن کس نے؟ وہ کون سا شیر جوان ہے؟ کس نے ہمارا شکار چھین لیا ہے؟ کچھ سمجھ نہیں آتی۔قسم سے!" فوجا جیسے اپنے آپ سے باتیں کررہا ہو۔
پھر جھنڈے نے کہا"اور کس نے اُسے مار ڈالا؟ کسی دوسرے سے تو اُس کی اتنی لمبی چوڑی دشمنی بھی نہیں تھی۔"
فوجے نے کہا" دشمنوں کا کیا پتہ چلتا ہے بیٹا!"
" کچھ دشمنیاں اندر کھاتے ہوتی ہیں اور لوگ اِن کا بدلا بھی اندر کھاتے لیتے ہیں۔ شور نہیں کرتے۔" اتنی دیر میں باہر سے کانپتی ہوئی کمزور آواز آئی "جاگو بھائی! "وہ چوکیدار تھا جو لوگوں کو ایک دو بار جاگنے کا پیغام دے کر خودگھر جا کر سو جاتا تھا۔
فوجے نے کہا "جھنڈے!ذرا اِس حرامزادے کو آواز دے۔‘‘ جھنڈے نے وہیں بیٹھے بیٹھے آواز دی۔" گالہڑ!ا ے گالہڑ"
"جاگو بھائی جاگو۔"گالہڑ نے اِس بار اونچی آواز میں کہا اور ٹھٹھرتاہوا حویلی کے اندر داخل ہوگیا اور سست سری اکال کہہ کر سردار فوجا سنگھ کے قدموں میں بیٹھ گیا۔
بہت کمزور سا، بدشکل گالہڑویسے بہت ہوشیار،چست و چالاک اور ذہین تھا۔
فوجے نے پیار سے پوچھا ،’’سوداگر ے کا کچھ پتہ چلا۔
" نہیں سردار جی۔"گالہڑ نے سانسیں درست کیں۔جیسے وہ دوڑ دوڑ کر تھکا ہوا ہو۔"پتا کیا چلنا ہے سرکار؟کبھی گھونسلے سے گرا بوٹ گھونسلے میں واپس آیا ہے؟"
فوجا سنگھ نے گالی دیتے ہوئے کہا،"وہ بوٹ تھا؟"گالہڑ نے سنی سنائی کہاوت کا سہارا لیتے ہوئے کہا، "سرکار! بندہ بوٹ ہی ہوتا ہے۔اگر سانس آئی تو قائم دائم ورنہ بوٹ سے بھی کمزور۔‘‘
فوجا سنگھ نے کہا" گالہڑا !بڑی عقل کی بات کی ہے۔بالکل درست۔مگر کہتے کیا ہیں؟"
"لوگ تو طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں لیکن سردارنی آپ کا نام لیتی ہے۔" گالہڑ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
" فوجے نے پوچھا، "اُس کے لڑکے کیا کہتے ہیں؟
’’ سردار جی، ُان کی بات ہی نہ کریں۔ وہ ماں کی بات نہیں مانتے۔"
فوجے نے پوچھا،" وہ کیسے؟"
گالہڑ نے کہا "وہ اپنی عددی قوت کے نشے میں ہیں۔آپ اُن کے حساب سے اُن کے جوڑ کے نہیں ہیں۔" گالہڑ نے اپنی نہیں سوداگر کے بیٹوں کی اندرونہ رائے کے بارے میں انہیں بتایا۔ مگر جھنڈا اور مکھن اِس بات پر ناراض ہو گئے۔فوجا سنگھ دانا آدمی تھا۔اُس نے گالہڑ کو حوصلہ دیتے ہوئے پوچھا۔فوجے نے گالہڑ کو دلاسہ وغیرہ دیااور کانپتے ہوئے گالہڑ سے پوچھا :
"سنا ہے وہ تھانے بھی گئے تھے۔"
"جی بادشاہو!میں بھی ساتھ تھا۔"گالہڑ نے بتایا۔
"پھر سرکار قتل کا پرچہ نہیں ہوا لیکن تھانے والوں نے رپٹ درج کر لی تھی۔‘‘
جھنڈے نے بے چینی سے پوچھا "قتل کا پرچہ کس پر ؟‘‘
گالہڑ نے کہا،’’ آپ سب پر اور کس پر، لیکن تھانیدار نہیں مانا تھا۔اُس نے کہاتھا، "یہ تم دشمنی میں کر رہے ہو۔ قتل کرنے والوں کے خلاف ثبوت لاؤ۔ تب چٹکی مارنے کی دیر میں پرچہ کاٹ دوں گا۔"
"پھر آگے کیا ہوا؟"
فوجا سنگھ بڑے پیار سے گالہڑ سے پوچھ رہا تھا۔
’’پھر سوداگر کی گمشدگی کی درخواست دے کر گاؤں آ گئے‘‘۔گالہڑ فوجا سنگھ کا پرانا نمک خوار تھا۔اور کہنے لگا،’’ بادشاہو! بچ کر رہنا۔یہ قتل آپ کے پلے پڑ جانا ہے۔"
فوجے نے گالہڑ سے پوچھا ،" قتل ہو گیا ہے سوداگر؟"
"پتہ نہیں سرکار! وہ کہتے ہیں۔"
گالہڑ نے فوجا سنگھ کے دیے ہوئے دس روپے پرانی پگ کی گرہ میں باندھے اور کانپتا ہوا چلا گیا۔
جھنڈے اور مکھن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ہر ایک اپنے خیالوں میں گم تھا۔مکھن نے پوچھا،" تھانیدار نے پرچہ کیوں درج نہیں کیا؟"
فوجے نے ہنستے ہوئے کہا۔
" پانچ ہزار روپیہ بیٹا میں فتح خاں ذیلدار کے ہاتھوں خود تھانیدار کو دے کر آیا تھا۔"
مکھن نے پھر پوچھا، " وہ کس لیے؟"
فوجا کہنے لگا " بے وقوف! سوداگرے کو بنے لگانے کے لیے اتنے پیسے دئیے ہیں ،لیکن ہمارا کام کسی اور نے ہی کر دیا ہے۔ کسی اور نے ہی سوداگرے کو بنے لگا دیا ہے۔"
vvvvv

بہت بڑا سیلاب تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے دریا اور نالے کاسارا پانی کناروں سے باہر آگیا ہو۔ چاروں طرف گہرا ،گدلا ،مٹی رنگ کا جھاگ والا پانی اُمڈ آیا۔
تمام راستے ،گڑھے،فصلیں اور اونچی جگہیں پانی میں ڈوب گئیں تھیں اور وہ ساری جگہ دریا کا منظر پیش کر رہی تھی۔گاؤں کے مکان اور دیواریں بدستور بڑھتے ہوئے پانی میں ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے تھے۔پانی میں چاروں طرف انسان ،مویشی، گھر کی چیزیں، اناج، چار پائیاں ،بسترے اور کپڑے بہتے ،تیرتے ہوئے جارہے تھے۔
بھینسیں ، گائیں ، بیل ، بچھڑے ، بچھڑیاں، گھوڑیاں ، اونٹ، گدھے، کتے اور بلے پانی کی زوردار لہروں میں تنکوں کی طرح بہتے ڈوبتے تیرتے اُس کے پاس سے گزرتے جا رہے تھے۔وہ جس مویشی کو بھی ڈوبنے سے بچانے کے لیے پکڑنے کی کوشش کرتا ،اُس سے اور دور ہو جاتا۔کسی بھینس یا بیل کی دم اُس کے ہاتھ میں آ جاتی تو ہو سکتا کہ وہ پانی میں ڈوبنے سے بچ جائے۔ لکھی نجانے کدھر پانی میں ڈبکیاں، غوطے کھاتا، ڈوبتا، بہتا، چلا جا رہا تھا۔ خوف ،ڈر اور ٹھنڈ کی وجہ سے اُس کا بدن سُن ہو کر رہ گیا تھا۔
اُس کے قریب سے کئی واقف کار مرد ، چیختی، چلاتی عورتیں ،چھوٹے کم سِن بچے غوطے کھاتے بہتے چلے جارہے تھے۔گاؤں کے سارے کے سارے مکان گرگئے تھے۔ گاؤں کی جگہ ہرطرف سیلاب ہی سیلاب نظر آ رہا تھا۔ کچھ درختوں کے اوپر والے سرے نظر آ رہے تھے اور گاؤں کے مرکزی چوک میں موجود بڑا سا بوڑھ کا درخت پانی میں چھتری کی طرح نظر آ رہا تھا۔ گاؤں کا صرف بوڑھ کے درخت سے ہی نشانی کے طور پر اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔
اُس کے علاوہ پانی نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
لکھی کے نزدیک سے ایک جانا پہچانا چہرہ اچانک پانی سے نمودار ہوا اور تیز لہروں کے باعث اس سے دور چلا گیا۔ وہ کون تھا؟ کون تھا! اُس کی موٹی بادامی آنکھیں خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
گندمی رنگ کے چمکتے چہرے کو سیلاب کی مٹی والے گدلے پانی نے کچھ دھندلا سا دیا تھا۔اِس جانی پہچانی شکل کے اردگرداُس کے بکھڑے ہوئے کھلے بال کالی چادر کی طرح تیرتے جا رہے تھے۔
لکھی سے دور ہوتی وہ مانوس سی صورت ایک دفعہ پھر پانی سے اُبھری، وہ دیپو تھی۔ لکھی اپنا پورا زور لگا کر تیرتے ہوئے، پانی کی ظالم لہروں کو چیرتے ہوئے،اپنے جسم کی پوری طاقت لگاتے ہوئے ،وہ دیپو کے قریب جا پہنچا اور اس نے اُسے پانی میں پکڑ لیا۔حالانکہ پانی کے تیز بہاؤ کے مقابل کس کا زور چلتا ہے لیکن پھر بھی لکھی اپنی جرأت اور دلیری کے بل بوتے پر پوری کوشش کر کے دیپو کو جا پکڑا۔ ڈوبتی ہوئی دیپو ایک ڈرے سہمے ہوئے بچے کی طرح اُس سے چمٹ گئی اور لکھی نے زور سے اُسے اپنے ساتھ لگا لیا۔
اُس نے اپنے پاؤں زمین پر جمانے کی کوشش کی لیکن ایسا لگتا تھا کہ جیسے پاؤں کے نیچے زمین رہی ہی نہیں۔دیپو نے اپنے بازواُس کے گلے میں ڈال رکھے تھے اور پانی میں زور لگاتے لگاتے اُس کے تمام اعضا اور طاقت جواب دے گئی تھی۔ دیپو کا وزن اُسے پانی میں نیچے ہی نیچے کھینچے جا رہا تھا۔ وہ اپنا پورا زور لگا کر دیپو کو ایک ہاتھ سے پکڑے سیلاب سے مقابلہ کرتا رہا اور تیرتا رہا۔اِسی دوران اُس کے پاس ہی سے اُس کی بھورے رنگ کی بھینس کا سر اْبھرا بھینس کی ناک ، آنکھیں،اور سینگ پانی سے باہر تھے باقی سارا جسم پانی کے اندر تھا اور نظر نہیں آ رہا تھاَاُس نے بھینس کے سینگ کو ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی لیکن بھینس کا سینگ اُس کے ہاتھ میں نہ آیا اور وہ پانی کے بہاؤ میں بہتی ہوئی دور اور دور ہوتی چلی گئی۔ بہت دور!
لکھی کو پاس ہی سیاہ رنگ کی ڈانگ تیرتی نظر آئی۔ اُس نے اُسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ اُس کے ہاتھ سے پھسل گئی کیونکہ وہ چھڑی نرم و ملائم اور پھسلنے والی تھی۔ وہ چھڑی نہیں کالا ناگ تھا۔اُس نے ڈر کر ہاتھ پیچھے کھینچ لیامگر سانپ جو پانی پر تیر رہا تھا اپنا پھن پھیلا کر پانی پر بیٹھ گیا۔ ناگ کی نظریں اُس پر جمی ہوئی تھیں اور اُس کی دو منھ والی سرخ زبان بار بار اندر باہر جا رہی تھی۔ اُس کی شوکر سیلاب سے بھی زیادہ تیز، ڈراونی اور خطرناک تھی۔ لکھی کے ٹھنڈے پانی میں جمے ، تھکے مانندے جسم میں خوف کی ایک لہر اٹھی۔ سانپ پانی میں تیرتے ہوئے اُس کے چہرے سے دو ،تین، فٹ کے فاصلے پر اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے ساتھ ساتھ تیرتا چلا جا رہا تھا۔پھر اُس ناگ کی شکل سوداگر سنگھ کی شکل جیسی بن گئی مگر اُس کا دھڑ ناگ ہی کا تھا۔ وہ پانی میں کنڈلی مار کر ایسے بیٹھا تھا جیسے پانی کے بجائے سخت زمین پر بیٹھا ہوکہ پانی میں۔ اب اُس کی آواز ،پھنکار، ایک الگ ہی ڈراؤنی ہو گئی تھی جس کی دہشت کے سامنے سیلاب کے پانی کی آواز ماند پڑ رہی تھی۔ دیپو نے ایک چیخ ماری اور لکھی کے ساتھ چمٹ گئی۔ سوداگر سنگھ نے ایک دفعہ دو منھ والی زبان نکال کر پھوں کی آواز نکالی۔ لکھی نے پیچھے ہٹنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے اپنی ساری طاقت لگا دی لیکن پانی نے اُسے اور سانپ کو ایک فاصلے پر جیسے باندھ دیا ہو۔ ڈر کے مارے اُس کا جسم سن ہو کر رہ گیا۔تیرتے ہوئے کہیں سے ایک چھوی اُس کے ہاتھ میں آ گئی۔اُس نے اپنا ہاتھ پانی سے باہر نکال کر دیکھا َوہ اس کے مرے ہوئے باپ کی کالی ڈانگ والی چھوی تھی۔
" دیپو مجھے مضبوطی سے پکڑے رکھنا۔"
اُس نے جان بچانے کے لیے چھوی کودونوں ہاتھوں میں پکڑا اور سوداگر سنگھ کے ننگے جسم پر پورے زور سے دے ماری۔
چھوی سوداگر سنگھ کے سر اور منھ کو چیرتی ہوئی دو ٹکڑے کرتی ہوئی اُس کی گردن تک چلی گئی۔
لکھی نے زور لگا کر چھوی نکالی لیکن چھوی کے نکلتے ہی سوداگر سنگھ کا زخم دوبارہ مل گیا۔ اُس نے زوردار قہقہہ لگایا۔اپنی لال آنکھیں کھول کر لکھی کی طرف دیکھا اور کہا۔
"تم مجھے نہیں مار سکتے اور نہ ہی میں تمھارے ہاتھوں مارا جا سکتا ہوںَ" لکھی نے دوبارہ چھوی دے ماری لیکن اُس کا زخم دوبارہ مندمل ہو گیا۔ سوداگر سنگھ نے گرجتے بادل کی مانند دھاڑتے ہوئے زور دار قہقہہ لگایا اور بولا۔
’’ میں ساری عمر بھوت بن کر تیرے پیچھے لگا رہوں گا۔ تم نے مجھ نہتے کو مار کر کون سی بہادری کا مظاہرہ کر لیا ہے۔‘‘ دیپو نے اور زور سے اُس کو پکڑ لیا۔خوف کے مارے لکھی کی چیخ اُس کے سینے سے نکل کر اُس کے گلے میں پھنس گئی، اِس طرح جیسے اُس کا سانس گھٹنے لگا ہو۔
اُس نے دونوں ہاتھوں سے زور لگا کر رضائی پیچھے پھینک دی اور اُٹھ کر بیٹھ گیا۔
اُس کا سارا جسم پسینے سے شرابور ہو گیا اور وہ کانپنے لگا۔اُس نے اپنی پوری آنکھیں کھولیں اور چاروں طرف دیکھنے لگا اور لمبا سانس لے کر اپنا پسینہ صاف کیا۔
اے سچے بادشاہ!لکھی کے اندر سے اواز نکلی۔
جندان ہنس کر بولی! میرا شیر اٹھ گیا ہے۔
اُس کے ساتھ ہی تاباں، فوجا ،جھنڈا، مکھن، ہنستے ہوئے دالان میں داخل ہوئے۔ کسی نے لکھی کو پیار سے چمکارا، کسی نے اُس کا ماتھا چوما، کسی نے پیار سے سر پر ہاتھ پھیرا۔"لکھا سنگھ بازی جیت گیا ہیَ" فوج سنگھ خوشی سے سینہ تان کر کہنے لگا۔
"بہن! تمہیں بہت مبارک باد ہو" بھائی وریام کے بیٹے نے سوداگر سنگھ سے بدلہ لے لیا۔
"تم سب سلامت رہو" وریام کی موت کے بعد پہلی دفعہ جنداں خوب کھل کر ہنسی اور کہا ،’’ میری بیٹی دیپو کدھر ہے؟‘‘
تاباں ہنس کر کہنے لگی، "دیپو گھر ہیَ تم سے تو ہماری بیٹی دیپو ہی اچھی ہے جس نے ہمیں ساری بات کھل کے بتا دی۔ تم نے تو ہم سے بھی بات چھپا کر رکھی۔بہادر باپ کے بہادر بیٹے۔" جنداں ایک بار پھر ہنسی۔
لکھی بت بنا خواب کی الجھنوں میں جکڑا چپ چاپ سنتا رہا۔
vvvvv

لکھی نے لوگوں میں بیٹھنا شروع کردیا۔وہ دیپو کے کھینچے ہوئے دائرے کو عبور کرکے باہر کی پھیلی ہوئی دنیا میں گھل مل گیا۔بوہڑ کی چھاؤں گھنی اور زیادہ ہوتی ہے مگر رات کو ڈرانے والی بھی ہوتی ہے اور اُس کے نیچے اْگے ہوئے چھوٹے چھوٹے پودے پھل پھول نہیں سکتے۔
دیپو کے چرخے کی آواز سن کر سونے والا اور خواب میں ڈر کر اٹھنے والا لکھی رات دن اور آتے جاتے موسموں کی سردیوں ، گرمیوں میں جنگل بیلوں میں گھوم کر خود ڈرانے والا بن گیا۔ کھیتی باڑی سے چھٹکارا جھنڈے کی وجہ سے مل گیا تو وہ نہا دھو کررہتا اورسفید کپڑے کبھی میلے نہیں ہونے دیتا۔اُس کی آنکھوںمیں دنیا کے رنگ سما کر آنکھوں کو اور خوبصورت اور دلکش بنا گئے تھے۔
بچھو کی دم کی طرح اوپر کو اُٹھتی ہوئی مونچھیں، ہاتھ میں فوراً سر کے اوپر سے گھما کر مارنے والی برچھی ، سواری کے لیے اچھی گھوڑی ،اِن تمام چیزوں نے مل کر اسے ایک بارعب اور خوبصورت جوان بنا دیا۔
لڑائی جھگڑے میں خوش رہنے اور میلوں ٹھیلوں میں غل غپارہ کرنے پر اُس کا نام کچھ اور بھی مشہور ہوگیا۔
احمد خان اور شیر سنگھ ننگلی والا اپس کے بہت نزدیک کے، گہرے دوست اور ساتھی تھے۔ احمد بچپن سے ہی اپس کا دوست تھا اور اپس کے پسینے کی جگہ اپنے خون کو بہانے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا اور شیر سنگھ سات بھائیوں کا آٹھواں پیارا بھائی تھا آٹھوں بھائی بھینسے کس طرح صحت مند پلے ہوئے تھے۔ جس طرف سے گزر جاتے ادھر نقصان کر دیتے۔
لوگوں کو بڑا نشہ ہوتا ہے اور یہ نشان ننگلی کہ رات دن گھومنے پھرنے والے شیرے کے بھائیوں کو بھی بہت زیادہ تھا شیرا خود بھی لڑاکا ،بہادر اور ضدی شخص تھا اور سورمے کا عا شق۔
اس طرح وہ لکھی کا دوست بن گیا۔ یہ دوستی بڑھتی گئی۔ شیر سنگھ چوری بھی کر لیتا تھا۔ لکھی کے گاؤں دو آبے اور ننگلی کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔
لکھی کی محبت شیر سنگھ کے سب سے بڑے بھائی کرنیل سنگھ کے ساتھ زیادہ تھی۔ کرنیل سنگھ کبھی خود بھی بڑا ڈاکو تھا مگر وہ سب کچھ چھوڑ کر بیٹے کی پرورش کرنے لگ پڑا لیکن دور نزدیک کے لوگ کبھی بھی اُس کے پاس آتے تھے۔
جوان کا وہ بھی عشق تھا اور اُسے شیر سنگھ کی طرح پیار کرتا۔ اُس دن ڈکیتی سے بات چلتے چلتے جوانوں کی طرف آ گئی۔
کبڈی اور وزن اٹھانے کی باتیں ہونے لگ پڑیں۔
کبڈی اور وزن اٹھانے میں لکھی کا نام بہت مشہور تھا۔
پتھر اُٹھانے سے بھی بات آگے نکل گئی۔کرنیل سنگھ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی حویلی کے کونے میں موجود پتھر کو دیکھ کر کہنے لگا۔
’’لکھی سئیاں وہ پتھر دیکھا ہے۔‘‘لکھی نے پتھر کی طرف دیکھا۔پھروہ اْٹھ کر پتھر کے پاس چلا گیا۔ اُس نے پتھر کے اردگرد سے مٹی دور کر کے اُس کو ہاتھوں سے ہلانے کی کوشش کی مگر پتھر کئی سالوں سے اُدھر پڑا ہوا مٹی میں دب گیا تھا۔
"کھرپی اور کسّی۔" اُس نے شیرے سے کہا۔شیرا کھرپہ اور کسّی لے آیا۔ لکھی نے کسّی کے ساتھ اردگرد سے مٹی ہٹائی پھر زور لگا کر ایک طرف پتھر کو دھکیلا بھاری پتھر تھوڑا سا ہل گیا۔ پتھر مٹی کی گرفت سے آزاد ہوگیا تھا۔
لکھی نے نظروں سے پتھرکو تولا اور واپس آ گیا۔
" بھائی یہ پتھر کون اٹھاتا رہا ہے؟ " لکھی نے کرنیل سنگھ کے پاس بیٹھ کر پوچھا۔
" یہ پتھر!" کرنیل سنگھ ہنس کر کہنے لگا۔
" نہیں پیارے ! ہم میں سے تو کسی نے بھی نہیں اْٹھایا۔ہمارے والد کو شوق تھا مگر وہ بھی چھاتی سے اوپر لے کر کبھی نہ جا سکے۔"
" اور کسی نے کبھی اٹھایا؟"
’’نہیں یار، کسی نے بھی نہیں۔ایک دو مرتبہ تیرے والد وریام سنگھ نے بھی زور لگایا مگر۔۔۔۔۔۔۔"
" اُٹھایا ؟" لکھی نے بڑے شوق سے پوچھا ۔
" نہیں !" کرنیل سنگھ نے جواب دیا۔
" میں یہ پتھر اٹھاوں گا۔".اپنے والد کی بات سن کر لکھی طیش میں آگیا۔
" جس پتھر کو بھائی نے نہیں اُٹھایا وہ ضرور اٹھانا چاہیے۔"
اُس کے جسم میں خون کھولنے لگ پڑا۔
" نہیں بھائی"
کرنیل سنگھ، لکھی کی بات سن کر کہنے لگا :
" چاچا وریام سنگھ ہمارے والد کا دوست تھا اور اُس میں زور بہت زیادہ تھا۔‘‘
"بھائی ! اگر تو اِس پتھر کو اْٹھا کر سر تک لے جانے مین کامیاب ہو گیا تو میرا گھوڑا تمھارا ہوا۔ "
کر نیل سنگھ نے اپنے خوبصورت سیاہ گھوڑے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
" ہاتھ ملاؤ۔‘‘
"اگر نہ اْٹھا سکا تو ؟" شیرے نے پوچھا۔
"میں پتھر اٹھانا چھوڑ دوں گا۔" لکھی نے اپنی طرف سے بہت بڑی بات کہہ دی۔
"کب؟" کرنیل سنگھ نے پوچھا
"آج ہی !ابھی۔" لکھی بولا
’’بھائی ! تھوڑی دیر رک جا۔" پھر شیرے کی طرف منہ کر کے کہنے لگا " چوکی دار کو بلا کر گاؤں میں اعلان کراؤ۔ لوگ نوجوان کو پتھر اْٹھاتے ہوئے دیکھیں۔ ویسے پتھر اُٹھانے کا کیا مزا ؟ کیوں بھائی لکھا۔"
"اچھا بھائی ! شیرا باہر نکل گیا۔ "
’’چوکیدار ساتھ شرط کا بھی اعلان کرے۔‘‘ کرنیل سنگھ نے شیرے کو آواز دے کر کہا۔
تھوڑے دیر میں ہی کرنیل سنگھ کی حویلی تماشہ دیکھنے والوں سے بھر گئی۔ بچے ،جوان ، بوڑھے سب اکٹھے ہو گئے۔ بہت بڑی بات تھی۔ اِتنی بڑی شرط لگائی گئی تھی۔ لکھی نے کپڑے اتار کر صافے کا لنگوٹ بنایااور پتھر پر نظریں گاڑے اِس کے اردگرد پھرنے لگا۔ لکھی نظروں سے پتھر کو تولتا۔ انگلیوں اور بازوں کو ہلاتا ہوا دل ہی دل میں کہہ رہا تھا۔
" پتھر میرا باپ تو نہ اُٹھا سکا تھا مگر میں ضرور اٹھاؤں گا چاہے جان چلی جائے۔‘‘
ہمارے ہاں اس کا آنا جانا بہت زیادہ تھا۔ اِس پتھر کے ساتھ وہ آتے جاتے کئی مرتبہ زور آزمائی کر تا رہا مگر اِس پتھرکو وہ چھاتی سے اوپر نہیں اْٹھا پایا تھا۔
" میں یہ پتھر اُٹھا کے دکھاؤں گا ؟" لکھی ضد پر آ گیا۔ "
’’ تو یہ پتھر اٹھا لے گا۔؟ کبھی نہیں میرے ویر!" کرنیل سنگھ نے کہا۔
’’اُٹھا لوں گا بھائی! تومیرے ساتھ شرط لگا لے!"لکھی نے غصے میں کہا۔
’’نہیں بھائی!‘‘
" نہیں شرط۔"
پہلے دو دو انگلیاں زمین پر لگا کر کانوں کو لگاتے ہوئے،لکھی نے پیر اُستاد کو یاد کیا اور پتھر کو ہلا کر اِدھر ُادھر دھکیلا۔گول ،ہموار،وزنی پتھر کے ٹکڑے کو دھکیل کر، ہلا کر لکھی نے اندازہ لگا لیا کہ وہ پتھر اٹھا لے گا۔
" بھائی کرنیل سنگھ!"لکھی نے پتھر کے پاس سے ہی آواز دی۔
"شرط ختم کر دو ابھی بھی وقت ہے۔ میں پتھر ویسے ہی اٹھاؤں گا۔"
" ویسے کہوکہ ُاٹھانا ہی نہیں !شرط سے کیوں ڈرتے ہو؟"
کرنیل سمجھا کہ لکھی پتھر اٹھانے سے بچنے کے لیے کہہ رہا ہے۔
بھیڑ میں کھڑے کسی بوڑھے کو شاید لکھی کا جسم دیکھ کر اپنی جوانی یاد آ گئی۔اُس نے لکھی کی طرف بازو اُٹھا کے اُسے ہلا شیری دیتے ہوئے کہا۔
" جوان! کھا جا اِس پتھر کو"
" جو رب کو منظور۔" لکھی ہتھیلیوں پر مٹی ملتے ہوئے بولا۔پتھر کو چاروں طرف سے ہلا کر لکھی نے ہاتھ ڈالے۔زور لگایا پتھر تھوڑا سا ہلا۔لکھی نے جھٹکا لگا کر پتھر کو رانوں پر رکھ لیا۔مضبوط رانوں کی ہڈیاں فولاد کی طرح اَ کڑ گئیں اور لکھی کا سارا خون اُس کے چہرے پر آ گیا۔پتھر اُس کے اندازے سے کہیں زیادہ وزنی تھا۔ٹانگوں کے کمزور پڑ جانے کے ڈرسے اُس نے جسم کا سارا زور بازوں پر رکھ کر زور لگایا اور جھٹکے سے پتھر مضبوط چھاتی پر چڑھا لیا۔ خون منھ سے نکلنے والا تھا۔آنکھوں میں جیسے خون بہنے لگا ہواور نسیں موٹی رسیوں کی طرح گردن اور کنپٹیوں سے نظر آنے لگیں۔لوگوں کو جیسے کو تالا لگ گیا ہو۔چھوٹے بچوں نے آنکھیں بند کر لیں ، دو ہی بندے ہوش میں لگ رہے تھے۔
" پتھر اُٹھالیا گیا۔ " شیرا خوشی سے چیخنے لگا۔
" ابھی کہاں ؟ کرنیل بے یقینی سے کہنے لگا۔
"جب تک سر کے اوپر سے اٹھا کر نہ پھینکے تب تک کہاں اٹھایا گیا؟"
مجمعے میں سے کسی کی ا?واز آئی۔
لکھی اگرچہ پسینوں پسینی ہو گیا تھامگر اُس نے پتھر کو چھاتی پر روکے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر اپنی چڑھی ہوئی سانس کو درست کیا۔اُس کی گردن اور چہرے کی نسیں جیسے پھٹنے کے قریب تھیں۔ٹانگیں کانپتی ہوئیں اور چھاتی اِتنے زیادہ وزن کی وجہ سے اندر کو ہوتی لگ رہی تھی۔اُس نے کچھ لمحے پتھر سینے پر رکھ کر بہت اونچا نعرہ لگایا کہ لوگ متحیر ہو گئے۔سارے جسم کی طاقت سے زور کے ساتھ لکھی نے پتھر سر سے اوپر اُٹھا کر دور پھینک دیا اور خود اپنی اْکھڑتی ہو ئی سانس درست کرنے لگا۔
لوگ حیرانی سے جیسے مر گئے ہوں۔گھر کے چوبارے کی کھڑکیوں کے پیچھے کھڑی سردارنیاں سہم کر ایک دوسرے کے ساتھ لگ گئیں۔کرنیل اور شیرے کی سب سے چھوٹی کنواری بہن، ویر کور جو ہرنیوں کی آنکھوں والی خوبصورت، نازک اور گڑیا جیسی لگتی تھی، خوش ہو کر اپنی بڑی بھابی کا بازو مضبوطی سے پکڑ کر بولی۔
" بھابھی! شیرے کا دوست تو دیو ہے دیو۔"
" گھوڑا بھی گیا۔ ابھی پچھلے سال تیرا بھائی چار ہزار کا ساندل بار سے لایا تھا۔‘‘کرنیل کے گھر والی بولی،" مگرتو پھر بھی خوش ہے۔"
ویر کور تھوڑا سا ہنس کر کہنے لگی :
" بھائی نے شرط کیوں لگائی تھی؟"
حویلی میں کرنیل سب سے پہلے جاگا۔
"لکھی جیت گیا" کرنیل بولا۔
شیرا سب سے پہلے لکھی تک پہنچا جو اپنی سانس ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
شیرا بولا،" بڑی بات ہے لکھا سئیاں!"
پھر آگے بڑھ کر لکھی کے گرد گھیرا ڈالے لوگوں کو پیچھے پیچھے کرتے ہوئے بولا۔
" جوان کو سانس لینے دو۔ جگہ کھلی چھوڑو بھائیو!"
" گھر سے دوڑ کر دودھ کی بالٹی اور گھوڑے کی کاٹھی لے آؤ۔" کرنیل اپنے چھوٹے بیٹے کو کہنے لگا۔
ہجوم میں سے ایک بندہ بھی حویلی سے باہر نہ گیا۔سارے لوگ شرط کو پورا ہوتے ہوئے دیکھنے کے لیے کھڑے تھے۔کرنیل نے اُٹھ کر لکھی کو تھپکی دی۔
" بہت بڑی بات ہے لکھا سئیاں! مجھے قوی امید تھی کہ پتھر تجھ سے نہیں اٹھایا جائے گالیکن تو نے تو حد کر دی ہے۔ قسم سے۔" کرنیل نے لکھی کو کہا۔
لکھی ہنس کر بولا:" مجھے امید تھی بھائی میں نے پتھر اٹھا لینا ہے۔اِسی لیے کہا تھا کہ شرط واپس لے لو۔"
لکھی نے جسم کو خشک کر کے کپڑے پہن لیے۔دودھ کا گلاس پیا۔اِتنی دیر میں کرنیل سنگھ نے گھوڑے پر اپنے ہاتھ سے کاٹھی ڈال کر رسہ اُس کی گردن میں لپیٹ ،کر گھوڑے کو تھپکی دی اور اُس کی لگام لکھی کی طرف بڑھا کر کہنے لگا:’’ بہت عمدہ گھوڑا ہے۔سواری کرو گے تو یاد کرو گے۔"
" یہ گھوڑا ! تجھے ہی اچھا لگتا ہے بھائی۔ "لکھی نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
" تجھے لینا پڑے گا۔" کرنیل نے کہا
" نہ بھائی! آپ کے پاس گھوڑا ہے تو ایسے ہی ہے جیسے میرے پاس ہو۔"
لکھی واقعی گھوڑا لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔
" پکڑو لگام بھائی! تم نے شرط جیتی ہے ۔" شیرے نے لکھی کو کہا۔
" نہیں بھائی " لکھی نے بھینسے کی طرح سر ہلایا۔
" پکڑو گھوڑا ! نہیں تو قسم سے میں لڑ پڑوں گا۔"
کرنیل شرط ہار کر بھی خوش تھا۔
لکھی نے مشکے کی باگ پکڑ کر شیرے کو پکڑا دی۔ کرنیل سنگھ اپنے گیارہ سال کے چھوٹے روتے ہوئے بیٹے کو بازو سے پکڑ کر ہنستے ہوئے کہنے لگا:’’ سردار جی!اب نیا گھوڑا لائیں گے اِس سے بھی بڑا۔ اِس سے بھی خوبصورت۔ اِس سے بھی تیز رفتار۔"
" نہیں باپو، مجھے تو یہ گھوڑا ہی اوپر بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ میں نے تو اِس سے چھوٹا اور سست رفتار گھوڑا لینا ہے۔ " لڑکا کہنے لگا۔
" لو بھئی شیرے! میرے بیٹے کو گامی کمہار کا گدھا لے دو۔ چھوٹا اور سست رفتارہے۔"
کرنیل سنگھ شرط ہار کر بھی خوش تھا۔لوگ بڑے غور سے اُس کی اور اُس کے بیٹے کی باتیں سن رہے تھے اور خوش ہو رہے تھے۔
" میں نے گدھے پر نہیں بیٹھنا " لڑکا پھر رونے لگا۔
" لو بھئی سردار جی ! یہ کیا بات ہوئی؟ " کرنیل ہنس کر کہنے لگا۔ " جٹ کے بیٹے کو تو ہر چیز پر سواری کرنی چاہیے۔ ‘‘ہر چیز پرکرنیل سنگھ نے لوگوں کی طرف دیکھ کر ایک آنکھ بند کر کے ہر چیز پر زور دیتے ہوئے کہا۔
vvvvv

فوجا سنگھ کو ان دنوں صرف اپنے بیٹوں کی شادی کی فکر تھی۔ تاباں چاہتی تھی کہ دیپو کی شادی بھی ساتھ ہی ہو جائے تاکہ بیٹی کے فرض سے بھی سبکدوش ہو جائیں گے مگر فوجا چاہتا تھا کہ جھنڈے اور مکھن کی شادی ہو جائے تو پھر اس کے سا ل دو بعد کچھ رقم جمع کر کے دیپو اور لکھی کے ہاتھ پیلے کر دیے جائیں۔فوجا اور تاباں رات بھی دیر تک یہی مشورہ کرتے رہے۔مکھن کھانا کھا کر حویلی سونے چلا گیا اور دیپو جنداں کے پاس چرخہ کاتنے گئی ہوئی تھی۔
" نیک بخت! میری بات مانوتو اپنی بہن سے دونوں رشتے مانگ لو۔ "
"دونوں؟ کس کس کے لیے ؟"تاباں یہ بات نہیں سمجھ سکی۔
"جھنڈے اور مکھن کے لیے۔ "
"پہلے مکھن کا کر لیں۔دونوں کی ایک ساتھ شادی کے لیے پیسوں کا انتظام کیونکر ممکن ہے؟ " تاباں نے کہا۔
"جھنڈے کا پہلے اور پھر اپنے بیٹے مکھن کا۔ خوش بختے! لوگ کہیں گے کہ اپنے بیٹے کی شادی پہلے کر دی اور دوست کے بیٹے کو فراموش کر دیا۔" فوجے نے کہا۔
"لیکن روپیہ پیسہ ؟"تاباں اپنے موقف پر قائم رہی۔
"زمین کے چار ایکڑ رہن رکھ دیں گے ۔" فو جا بے فکری سے بولا۔
’’ جوان جہان بیٹی آنگن میں بیٹھی ہے لیکن اِس کے لیے تو تم نے زمین گروی رکھنے کا ارادہ کبھی نہیں کیا۔ ‘‘تاباں جائیداد گروی رکھنے کے ارادے کاسن کر جل بھن کر کہنے لگی۔
" تم تو دوستیاں بنھاتے نبھاتے ہی مر جاؤ گے۔ "
"چپ رہو ! جاہل عورت! تمہیں میری دوستیاں نبھانے سے کیا مسئلہ ہے ؟" فوجا سنگھ نے بیوی کو غصے میں آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا۔
"اگر میں نے دوبارہ تمہیں ایسا کہتے سنا تو قسم کھا کے کہتا ہوں تمہیں گھر سے نکال دوں گا۔" فوجا آپے سے باہر ہو گیا۔
تاباں بے اختیار ہنس دی۔ "ہائے ہائے او ظالم !دیپوکے باپ ! تم نے تو مجھے ساری عمر بات ہی نہیں کرنے دی۔"
" یہ بات کہنے کے قابل بھی نہیں۔" فوجا نرمی سے بولا "کل کو دیپو کی خالہ کی طرف چلی جاؤ۔یہ قریب ہی تو گھر ہے اُس کا، صبح جاؤ اورشام تک گھر لوٹ آنا۔"
"اچھا۔" تاباں نے ہار مان کر رضامندی ظاہر کر دی۔
"دونوں لڑکیوں کا رشتہ مانگ لینا تاکہ ایک ہی دن دونوں لڑکوں کی بارات جائے اور ایک ساتھ ولیمہ ہو۔ فوجے نے سکون کی سانس لی۔
"لیکن دیپو!‘‘ تا باں نے کہا :"گھر میں جوان بیٹی ہو تو نیند کیسے آئے گی؟"
"ہاں! اِس لیے تم رات بھر جاگتی رہتی ہو۔" فوجا مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔’’نیک بخت !چور رات میں سارا گھر لوٹ لے جائیں تم تب بھی نہیں جاگتیں۔". تاباں ہنس دی۔ فوجا بھی اپنی بات پر ہنسنے لگا۔
" دیپو کا تو تم بالکل فکر مت کیا کرو ،قسم سے! میری نظر میں ایک ایسا لڑکا ہے جسے تمہارا دیکھ دیکھ کے بھی جی نہ بھرے۔"
" اچھا !"تاباں نے سکھ کا سانس لیتے ہوئے کہا،" لیکن کون ہے؟"
" بتاؤں گا لیکن وقت آنے پر۔" فوجا ہنس کر بتانے لگا۔" اپنی دیپو کے لیے تم بالکل فکر مند مت ہوا کرو ".
تاباں کے سر سے جیسے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔
اگلے ہی دن علی الصبح تاباں تیار ہو کر گھوڑی پر سوار ہو کر لبھو چمار کو ہمراہ لیے ڈیرے چلی گئی۔ دیپو جھنڈے مکھن کو ناشتہ دے کر بیلے سے واپس لوٹی تو اُس کے قدم بے اختیار حویلی کی جانب اُٹھ گئے۔ اُسے اُمید تھی کہ لکھی یقیناً اُس وقت حویلی میں ہی ہوگا اور وہ اُس کے ساتھ اٹکھیلیاں کرے گی اور جب وہ حویلی میں داخل ہوئی تو لکھی کالے گھوڑے کو کھرکنا پھیر رہا تھا۔
دیپو نے سر سے برتن اتار کر چارے والی کھرلی میں رکھ دیے اور لکھی کے پاس جا کھڑی ہوئی گئی۔ کچھ عرصے سے لکھی اور دیپو کے رمیان خلا پیدا ہو گیا تھا۔اب وہ پہلے کی طرح ہر بات میں دیپو سے مشورہ نہیں کرتا تھا نہ ہر کام اُس کے منشا کے مطابق کرتا تھا اور نہ ہی پہلے جیسے پیار سے بات چیت کرتا۔ ویسے بھی وہ گاؤں میں کم ہی ٹک کر بیٹھتا تھا۔ دیپو کے دل میں ایک شک عرصے سے گھر کر چکا تھا لیکن وہ دل کو دلاسہ دیتی کہ" لکھی ایسا نہیں کر سکتا" لیکن نہ جانے کیوں وہ پھر بھی کبھی کبھی اُداس ہو جاتی؟
شاید اُس کا یہ شک درست ہو۔وہ کبھی کبھی یہ سوچتی۔
لکھی نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیپو کی طرف دیکھا اور پھر اپنے ہی دھیان گھوڑی کو کھر کھنا کرتا رہا۔
"اے لکھی؟"
" کیا بات ہے ؟"
" ارے لکھی تم جانتے ہو ا بے بے ڈیرے کس مقصد کے لیے گئی ہے؟"
" ڈیرے؟"
" ہاں۔ "
’’مجھے کیا معلوم کہ وہ کس ارادے سے گئی ہے؟" لکھی نے جھوٹ کہا۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ دیپو کی ماں ڈیرے کیا کرنے گئی ہے ؟
"بتاؤ "؟ وہ بچوں کی مانند جیسے وہ دونوں ہاتھوں کی بند بھٹیاں دوسرے کے سامنے کر کے پوچھتے ہیں کہ بتاو مٹھی میں کیا بند ہے؟ تو دوسرا کہتا مجھے کیا معلوم کیا بند ہے؟
" بتاؤ؟ "
" بتاؤں؟"
"ہاں بتاؤ۔"
"میرے ساتھ جھگڑو گے تو نہیں؟"
"بھلا کس لیے؟"
"بات ہی کچھ ایسی ہے۔"
" نہیں جھگڑتا, بتاؤ !"لکھی اپنے کام میں مشغول رہااور کبھی کبھی دیپو کی طرف بھی دیکھ لیتا۔
" ماں تمہارے لیے پھوپھو کی بیٹی کا رشتہ مانگنے گئی ہے۔"
دیپو نے اپنی طرف سے نشانے پر تیر چلایا لیکن وہ لکھی پر کارگر نہ ہوا۔
اِتنی بڑی کمان سے اِتنا بڑا تیر خطا ہوتا دیکھ کر دیپو کو دلی رنج ہوا۔
" ارے تمہیں ذرا بھر حیرانی نہیں ہوئی؟"
" نہیں۔"
" کیوں ؟"
"کیوں سے لڑائی ہوتی ہے !پاگل "وہ کھر کھنا چھوڑ کر گھوڑے کا بدن کپڑے سے صاف کرتے ہوئے بولا۔
"تم تو اِس رشتے سے خوش ہو؟" دیپو نے اُسے چھیڑا۔
" جو گھر والوں کی خوشی۔ "لکھی نے اَنجان بنتے ہوئے کہا۔
’’تو تمہیں ننگلی والوں نے گھوڑا کیوں دے رکھا ہے؟"دیپو نے میدان سے بھاگنے کے بجائے کمان سے ایک نیا تیر چھوڑا۔
" اوپر والے کے نام پر تو نہیں دیا۔" لکھی نے بغور دیپو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔"میں شرط میں جیت کر لایا ہوں۔ "
"کیا بات ہے ؟‘‘دیپو نے ایک اور پینترا آزمایا۔" آج گھوڑا دیا ہے کل کو اپنی بہن کا رشتہ دے دیں گے۔ ."
اب کے وار خطا نہیں گیا تھا۔ لکھی طیش میں آ کر اُس کی جانب پلٹا۔بڑے کمال سے اُس نے اپنے غصے پر قابو پایا۔ یہ بات سنتے ہی اُس کا سر چکرا گیا تھااور دماغ گھوم گیا تھا مگروہ کچھ دھیمے لہجے سے، برداشت کرتے، اطمینان کے ساتھ بولا۔
" کسی کی بہن بیٹی کے متعلق ایسا کچھ کہتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آ رہی دیپو؟" اُس نے اپنی بات بمشکل مکمل کی۔
’’ تو کیا میں کسی کی بہن ،بیٹی نہیں ؟"وہ بمشکل بولی۔. اٹھکیلیاں کرتی مسکراتی دیپو ایک دم افسردہ ہوتے بولی۔اُس کے آنسو نکل آئے تھے لیکن اُس نے بھی مصم ارادہ کر رکھا تھا کہ وہ اُس معاملے کی گتھی سلجھا کر ہی دم لے گی۔ روتے ہوئے کہنے لگی،’’ تم آئے روزننگلی جاتے ہو ،خدا جانے وہاں تمہارا کیا کام ہے ؟‘‘ وہ زارو قطار روتے ہوئے حویلی سے آندھی کی طرح بھاگ نکلی۔ لکھی حیران کھڑا رہ گیا۔بالآخر دیپو نے اپنے خدشات کو ظاہر کر ہی دیا تھا۔ غصے کی وجہ سے لکھی کے اندر آتش فشاں ابل رہا تھا۔اگر دیپو کی جگہ کسی اور نے اُس کے دوست کی بہن کے متعلق ایسی بات کہی ہوتی تو اُس کو جان سے ہی مار ڈالتا۔ مگر کہنے والی دیپو تھی۔دوآبے کی دیپو، سردار فوجا سنگھ کی دیپو ،پنجاب کی دیپو۔ لکھی غصے میں حواس باختہ ہو کے پاس پڑی چارپائی پر اوندھے منہ جا گرا۔ وہ بے بس اور نڈھال ہوا پڑا تھا۔ جس دکھ کے مارے دیپونے یہ سب باتیں اُسے سنائیں، اُس دکھ کو لکھی سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا۔ اِسی وجہ سے کچھ دیر بعد اُس نے اپنے غصے کو پی کر دیپو کو معاف کر دیا۔ ایک مرتبہ تو اُسے بھی اِس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ وہ واقعی دیپو سے بہت زیادتی کر رہا ہے۔اُس نے لاچارگی سے خود کلامی کی:
" لیکن میں اور کیا کروں ؟ میرے پروردگار! میں کیا کروں؟"
اُس کے وجود میں جیسے دو لوگوں کے درمیان لڑائی چھڑی رہتی۔ایک طرف تو طعنے کی آگ میں اُس کا تن بدن جل رہا تھا تو دوسری جانب برائی کی کشش عجب بہار بن کر اُسے موہتی لبھاتی لیکن اُس سے ایک بہادر کی طرح اُس نے کنارہ کیے رکھا۔لکھی ایک بہادر جوان تھا۔ وہ خود سے جھگڑتا رہتا اور لڑتے لڑتے وہ نڈھال ہو جاتا لیکن اُس نے اِس کیفیت کو خود پہ حاوی نہ ہونے دیا۔وہ عمر کے اِس حصے میں ضرور تھا جب جسم میں خون آگ بن کر دوڑتاہے اور آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔جب اِنسان دماغ کی نہیں سنتا بلکہ دل کی مانتا ہے۔دیپو کوئی معمولی لڑکی نہ تھی۔فوجا سنگھ کی بیٹی تھی سردار فوجا سنگھ جس نے نوکروں کی مانند بیس سال اُن کی خدمت گزاری کی ،جو دنیا میں اُن کا سب بڑا اور سب سے مخلص دوست تھا۔دوسری جانب دیپو جو سیتا سے زیادہ پاک دامن اور دروپدی سے بڑھ کر شان والی شہزادی، رانیوں جیسے رعب ،اور حسن والی۔معیار خوبصورتی رکھنے والی حسین جو لکھی کی بے رنگ و بے کیف زندگی میں گھنی اور پرسکون چھاؤں والے درخت کی مانند تھی۔ دیپو وہ تھی جسے لکھی اپنی عزت اور طاقت سمجھتا تھا۔ لکھی اِس امر بیل کی جکڑسے بچا رہا۔
لکھی نے اپنے منھ زور سکھ کے لیے فوجا سنگھ کودکھ نہ دیا اور دیپو جو سچی عاشق تھی وہ شک میں مبتلا ہو گئی تھی۔ اُسے کیا پتا وہ مستقبل میں سکون کے سارے راستے کب بند کر دے اور پھر ساری زندگی جدائی کی دوزخ میں جلتا رہے۔اُس کے باوجود اُس نے اپنی جوانی کے منھ زور بہاؤ کو قابو میں رکھا۔ اُس نے اپنی ماں کے سر پہ ہاتھ رکھ کے فوجا سنگھ کی عزت کی رکھوالی کے لیے قسم کھائی اور اپنے قول کا پکا رہا۔ اپنی ماں کو دیے گئے وعدے کو نبھانے میں چاہے اُس کی جان ہی کیوں نہ چلی جاتی۔
"واہگرو!" اُس کے بعدمنھ ہی منھ میں کچھ بڑ بڑاتے ہوئے و ہ چارپائی پرجا لیٹا۔اُس کے اندر کا چور باہر نکل کر اُس کے پاس اُس کی چارپائی پر بیٹھ گیا اور لکھی کو کہنے لگا " اُٹھ کے چل پھر۔ کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے بلی واپس نہیں چلی جاتی۔
" لیکن میں اب کہاں جاؤں؟میں جہاں بھی جاؤں برچھی سے تیز نگائیں میرے اندر جھانکتی رہتی ہیں۔ میں کہا کروں؟میں نے تو کہاکہ اُٹھ کے گھومو پھرو۔ تمہاری چپ سے تو تمہارے اندر کی کشمکش مزید بڑھ جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ اپنے ضمیر سے اُلجھنا بند کردو۔ ابھی تمہارے ہنسے کھیلنے کے دن ہیں۔ آگے بڑھو اور زمانے کے رنگین میلے کے مزے لوٹو۔‘‘اندر کے چور نے لکھی کو مشورہ دیا۔
vvvvv

چیت آدھے سے زیادہ گزر چکا تھا۔گندم کے پیٹ بالیوں سے اور بالیوں کے پیٹ دانوں سے بھر چکے تھے۔ سر سبز گندم دھوپ کی تپش سے رنگ بدل کر سنہری ہو چکی تھی۔ زمینداروں کی محنت ،انتظار اور رکھوالی کا صلہ انہیں ملنے والا تھا۔ فصل کی کٹائی ہو اور گندم کے ڈھیر گھر پہنچیں تو اپنی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ قرض وغیرہ سے نجات ملے۔
پچھلے سال فوجا سنگھ نے گندم کی فصل بیچ کر اور چار ایکڑ زمین رہن رکھ کر جھنڈے اور مکھن کی شادی بڑی دھوم دھام سے کی تھی۔جھنڈے کی شادی اپنی گرہ سے کر کے فوجے نے بڑی نیک نامی حاصل کی لیکن کون سی کوئی انوکھی بات تھی وہ تو کسی نیک گھڑی کی پیدائش تھا۔ اس نے تو ساری زندگی کام ہی ایسے کیے جس سیْاسے معاشرے میں نیک نامی ملی۔
اب پھر بیساکھی کی آمد آمد تھی۔ جس کی لڑکے بالے زور و شور تیاری کر رہے ہیں۔ مجنھے اور شراب کے مٹکوں کے تیار ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔بہت سے گھرانے چنے کی فصل سنبھال کر فارغ ہوئے بیٹھے تھے اور بیساکھی کے منتظر تھے۔ لکھی کے گروہ میں سے اس سال شراب نکالنے کی باری احمد کی تھی۔ گڑ اور کیکر کی چھال سے شراب نکالنے میں احمد کے ملازم کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ کچھے مٹکے تو تیار ہو چکے ہیں جبکہ کچھ ابھی باقی تھے مگر ابھی بیساکھی میں کافی دن پڑے تھے۔گرمی بڑھتی جا رہی تھی۔ سہ پہر کے وقت لکھی حویلی میں بیٹھا کسی آدمی سے باتیں کر رہا تھا۔ گالڑ اپنے جیسی پتلی سی چھڑی پکڑے ہوئے کھانستا ہوا حویلی میں داخل ہوا۔
" ست سری اکال !سرکار"
’’ اوئے گالڑ !تم اِس وقت کیسے آ گئے؟ اُلو کی طرح تم تورات کو نکلتے ہو۔" لکھی نے ہنستے ہوئے گالڑ سے پوچھا۔ گالڑ دھڑام سے لکھی کے پاؤں میں بیٹھ گیا جیسے کوئی گر گیا ہو۔کچھ دیر ہی ہی کر کے اُس نے سانس بحال کیا اور کہنے لگا:
" آپ کو دیکھنے کے لیے جناب"
" جی آیا نوںِ گالڑا۔" لکھی ہنستے ہوئے بولا۔
گالڑ بھی ہی ہی کر کے ہنسنے لگا۔
" اور کیا حال ہے تمہارا؟" لکھی مہربان نظرآ رہا تھا۔
" سب ٹھیک ہے سرکار! آپ کی دعائیں ہیں ورنہ غیروں کا کیا حال ہوتا۔؟ مراثیوں کے بقول غریبوں کا کیا پیدا ہونا سرکار؟‘‘ گالڑ نے پھر عقلمندی سے کام لیاِ" آپ کو دیکھ کر خوش ہیںَ"
" جیتے رہوَ"
"حضور !اِس بار بیساکھی دکھائیں گے نا؟" گالڑ نے لوہا نرم دیکھ کر چوٹ لگائی۔
" بلے! بڑی بیساکھی گالڑا۔"
گالڑ مزید راضی ہو گیا۔ کہنے لگا:
" جناب سنا ہے کہ اِس دفعہ ننگلی والا پتھر بیساکھی میں اُٹھائیں گے؟
"ہاںَ"
" اور جو جوان پتھر اُٹھا لے گا اُسے دو سو روپے انعام بھی دیا جائے گا؟"
" ہاں گالڑا! لیکن تم نے کہاں سے سنا ہے؟" لکھی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
" لو سنو سرکار ! ساری دنیا جانتی ہے " گالڑ ہنسنے لگا۔
" وہ پتھر تو تم بھی اٹھالو گے گالڑ! کونسا اتنا وزنی ہے" لکھی ہنستے ہوئے کہنے لگا۔
"توبہ، توبہ!" گالڑ کا سارا جسم کانپنے لگا۔ وہ کان پکڑ کر کہنے لگا، " توبہ، توبہ۔"
لکھی اُس کے کانپنے پر ہنس پڑا لگا۔ اپنی جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر اُس نے گالڑ کی طرف پھینک دیا۔ گود میں گرنے سے پہلے ہی گالڑ نے نوٹ دبوچ لیا اور کس کر چادر کے پلو میں باندھ لیا اور گانٹھ بھی دوہری لگا دی۔
"ابھی بیساکھی میں کچھ دن ہیں۔ اِن پیسوں سے گھی لے کر کھاؤ اور اب جاؤ۔ نمبردار احمد خان کو دیکھو کہ وہ حویلی میں ہے؟‘‘
گالڑ تو سر پٹ دوڑا اور پل میں واپس بھی پہنچ گیا۔
" بلے تمہاری پھرتیوں کے جوان۔" لکھی ہنسنے لگا۔
" جناب میں دوڑتا گیا اور دوڑتا آیا ہوں۔ نمبردار آپ کو حویلی میں یاد کرتا ہے۔"
لکھی نے اُٹھ کر پیار سے گالڑ کا کندھا تھپتپایا تو گالڑ اوندھ منہ زمین پر جا گرا۔
لکھی ہنستے ہوئے احمد کی حویلی کی طرف چل پڑا۔
لکھی گاؤں سے باہر احمد نمبردار کی حویلی میں پہنچا۔سورج ڈوب رہا رتھامگر ابھی اندھیرا نہیں ہوا تھا۔ احمد برآمدے کے آگے بنے چبوترے پر پانی چھڑک کر چار پائی پر لیٹا تھا۔ اُس نے لٹھے کا نیا تہبند اور ململ کانیا کْرتا پہنا ہوا تھا جو اُس کے چوڑے جسم پر پھنسا پھنسالگ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں سرمے سے بھری ہوئی تھیں اور بالوں پہ تیل لگایا ہوا تھا۔وہ خوب سج دھج کے بیٹھا تھا۔ لکھی کے کان کھڑے ہوگئے۔
" آج کیا بات ہے؟" لکھی نے احمد خان سے پوچھا۔
" کچھ نہیں بھائی۔"
" کچھ تو ہے جناب جو آج اِس وقت اِتنے بن سنور کر بیٹھے ہو۔ آج چاچا کہاں ہیں؟"
"چاچا آج شہر تاریخ پر گئے ہیں۔ آج یہاں اپنا راج ہے۔ راج کرے گا خالصہ باقی رہے نہ کو" احمد خان ہنستے ہوئے بولا۔
" اِسی لیے تو آج بڑے ناہڈو صراق بنے بیٹھے ہو۔‘‘لکھی نے کہا اور دونوں ہنسنے لگے۔
احمد خان کمرے میں سے دو گلاس اور بوتل لے آیا اور چارپائی کے نیچے رکھ کے ملازم کو ہنستے ہوئے کہنے لگا۔
"جانوروں کو چارا ڈال دیا ہے تو جاؤ اور تمہیں آج رات کی بھی چھٹی ہے۔ "
ملازم کو باہر نکال کر احمد خان نے حویلی کا دروازہ بند کیا اور دو نوں گلاس آدھے آدھے بھرے۔ ایک لکھی کو دے کر کہنے لگا۔
" یہ ملازم بڑا الو کا پٹھا ہے۔ چاچے کو ہر بات بتا دیتا ہے۔"
" چاچے کو ویسے تو تمہارا بڑے بگلے بھگت کا پتا نہیں؟"
"پتا تو بڑوں کو سارا ہوتا ہے لکھا سئیاں! پر پردہ رکھنا چاہیے۔سنا نہیں ماں اور بیٹی کا بھی پردہ ہوتا ہے۔ "
" آج تو بڑی عقلمندی والی باتیں کر رہے ہو۔قربان جاؤں۔"
شام رات میں تبدیل ہو رہی تھی۔احمد اور لکھی ہنستے اور پیتے رہے تھے۔جب تک آدھی رات گزر ی تو دونوں جوان نشے میں ڈوبے ہوئے پی پی کر لیٹ گئے۔ احمد خان نے لکھی کو اندھیرے میں آنکھ ماری جو لکھی دیکھ نہ سکا۔
" گوشت کھاؤ گے؟" احمد خان نے پوچھا۔
" گوشت؟"
"مرغا بھائی! گھر سے پکوا کر لایا تھا یاد ہی نہیں رہا۔"
احمد خان کمرے میں سے پکے ہوئے گوشت کی دیگچی اٹھا لایا۔لکھی کے سامنے رکھ کر نشے میں جھومتے ہوئے کہنے لگا " تم آجاؤ تو قسم سے چچا کی ہر چیز بھول جاتی ہے۔ "
وہ بھوکے بھیڑیوں کی طرح ایک پل میں گوشت سے بھری دیگچی کھا گئے۔
"بڑا مزے کا تھا۔"لکھی انگلیا چاٹتے ہوئے بولا۔
"ایک گلاس اور دو مرچیں چن رہی ہیںَ"
" جتنی مرضی۔ " ہنستے ہوئے احمد خان کمرے میں سے ایک اور بوتل نکال لایا۔" بھائی جب تم آجاؤ تو اِس سالی کا نشہ بھی نہیں ہوتا۔ میں بھی ایک گلاس اور پی لوں گا۔"
" جی بھر کے پیو۔ آج تمہیں کس کا ڈر ہے؟" لکھی نے گلاس پکڑتے ہوئے کہا۔
’’ ڈر نہیں انتظار ہے۔‘‘ احمد خان نے پھر لکھی کو اندھیرے میں آنکھ ماری پر وہ نہ دیکھ سکا۔
" کس کا انتظار ؟" لکھی نے پوچھا۔
" مرد کو بھلا کس کا نتظار ہوتا ہے؟ احمد خان نے کہا۔
" موت کا۔" لکھی نے کہا۔
" نہیں بھائی! پی کر کیا بونگیاں مارنی شروع کر دیتے ہو؟"احمد خان نے کہا۔ " ایسے وقت میں تو اچھی باتیں کرنی چاہئیں ہمیں۔"
" اچھا۔" لکھی رنگ میں بھنگ نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔
’’اگر ا،س وقت موت نہیں تو اور کس نے آنا ہے؟‘‘
" کس نے؟" احمد جان نے ز ور دے کر کہا:
گوری مینہ وچ بھجدی آوے ( گوری بارش میں بھگتی آے)
کڑتی چوں اگ سمدی( قمیص میں سے آگ نکلتی ہے)
گوری مینہ وچ۔۔۔۔۔
" جس کی کْرتی سے آگ نکلتی ہے اُس نے آنا ہے! بھائی لکھا سئیاں سردار۔"
"بھائی اونچی آواز نہ گاؤ۔ " لکھی نے احمد کو سمجھایا۔
" اچھا۔" احمد کہنے لگا، " پر تم نے گوشت کھانا ہے؟"
" کھایا جو ہے۔ "
’’بھئی !پکا ہوا گوشت نہیں کچا۔۔۔؟ کچا اور گرم گوشت۔"
احمد نے پھر اندھیرے میں ہنس کر لکھی کو آنکھ ماری جو وہ دیکھ نہ سکا۔
’’ واہ ،بھئی واہ!" احمد ہنستے ہوئے کہنے لگا، " خدا کی قسم تم نے کنوارے ہی مر جانا ہے۔‘‘
احمد خان نشے میں تھا۔ وہ کان پر ہاتھ رکھ کر گانے لگ گیا:
" چھڑیاں دی ماں مر گئی ( کنواروں کی ماں مر گئی )
کوئی ڈر دی رون نہ جاوے( کوئی ڈرتی رونے نہ جائے)
پئی چھڑیاں دی۔۔۔"
" کوئی آیا ہے! ذلیل آدمی۔" لکھی نے مشکل سے احمد کو گانے سے روکا:" دروازے پر دستک ہوئی؟"
’’دیکھا بھائی! آنے والے آ گئے۔اگر میں تمہاری طرح کنوارہ ہوتا تو اب تک مر چکا ہوتاَ " احمد اُٹھتے ہوئے کہنے لگا۔احمد نے دروازہ کھول کر کسی کو اندر بلایا اور چادر میں لپٹی ہوئی عورت کو ساتھ لگا کر لایااور لکھی کی چارپائی پر بٹھا دیا۔
"کون ہے؟" لکھی اندھیرے اور نشے میں آنکھوں کو پوری طرح کھول کر عورت کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ایک عورت کو اتنے قریب دیکھ کر وہ ڈر گیا اور پیچھے ہٹنے لگاپر احمد نے اُس عورت کی چادر ہٹاکر بازوں میں لیا اور اُسے لکھی کے اوپر گرا دیا۔
کچھ لمحوں کے لیے تو لکھی کے ہوش اُڑ گئے۔ دھر تے باہمن کی نو بیاہتی اچھی شکل و صورت والی بیٹی۔ جوان اور بھٹی سے نکلے سرخ لوئے جیسی گرم تھی۔ لکھی کو لگا وہ جلتا جا رہا ہے۔وہ ایک جھٹکے کے ساتھ چارپائی سے لڑکی کے نیچے سے نکلا،اُڑ کے پیچھے ہوا اور دوسری چارپائی پر پڑی اپنی چھو ی اُس نے پکڑی۔
چارپائی کے اردگرد گھوم کر اُس نے اپنا جوتا تلاش کیا۔کھلتی ہوئی پگڑی اُس نے سر کے اردگرد لپیٹی اور دوڑ نکلا۔ دروازہ کھولتے ہوئے احمد کو کہنے لگا:
" صبح ملوں گا تمہیں۔"
" بے وقوف۔" احمد دروازہ بند کر کے اونچی آواز میں ہنستے ہوئے کہنے لگا،" ایسے بھاگ گیا ہے جیسے کوئی بلا پیچھے پڑ گئی ہو۔"
vvvvv

صبح اُٹھ کے لکھی نے کٹائی کے لیے درانتیوں کے دندانے نکلوائے۔اُس نے اپنی طرف سے کٹائی کی تیاری کر لی تھی تھی۔
ویسے تو اُسے زمینداری کے کاموں سے چھٹی تھی۔ جھنڈے نے یہ سارا کام سنبھال لیا ہوا تھا۔مکھن اپنی بجائی الگ کرتا تھا۔ لیکن بجائی، کٹائی اور گہائی کے وقت سب مل کر کام کرتے ہیں۔فوجا اب خود بوڑھا ہو گیا تھا۔ویسے تو زمینوں کے کام کو مکمل چھوڑ چکا تھالیکن جب بوائی، کٹائی کا کام ہوتا تو جوانوں سے چار ہاتھ آگے ہوتا اور ہمیشہ کی طرح پہلے جھنڈے کا کام ختم کر کے پھر اپنے کام کو ہاتھ لگاتا۔جھنڈے اور مکھن کے پاس صحت مند بیلوں کی ایک ایک جوڑی تھی۔جھنڈے کے ایک ہل پر اس کی دس بارہ ایکڑ زمین تھی۔ جھنڈے کی ایک ہل پر سولہ سترہ ایکڑ زمین تھی۔مکھن نے کئی بار ایک اور ہل بنانے کے لیے کوشش کی لیکن فوجا ایسے وقت پر کہتا:
" میں نے تو ساری عمر دونوں گھروں کی اِس زمین کو دو ہی ہلوں کے ساتھ کاشت کیا ہے۔اب اِس کے لیے تین ہل کیوں ؟" تو مکھن چپ ہو جاتا۔ فوجا، مکھن اور جھنڈے کو کہتا ! " او جوانو! ایک اکیلا ،دو گیارہ ہوتے ہیں ۔مل جل کر وقت اچھا گزر جاتا ہے۔ اتفاق میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ سچا بادشاہ مل کے رہنے والوں کی مدد کرتا ہے۔ اسی لیے تو کام کاج اچھی طرح اور جلدی اختتام کو پہنچ جاتا ہے۔
وہ مل جل کر کھیت کا کام کرتے، فصل کو کھاد پانی دیتے ،کٹائی کرتے، اور مل جل لیکن الگ الگ کھلیان بناتے،مل جل کر کھیت گہائی کرتے لیکن ڈھیر علیحدہ علیحدہ بناتے۔تول تول کر جنس منڈی پھینکتے اور کچھ گھروں کے استعمال کے لیے بھڑولوں میں محفوظ کر لیتے۔ ایسے دنوں میںہی لکھی بھی پکڑا جاتا مگر کچھ ہی دیر میں رفو چکر ہو جاتا۔
بجائی کے وقت تو وہ ہمیشہ ہی بھاگ جاتا اور جب جنداں اُسے کہتی :
’’بیٹا ! بھائی کے ساتھ مل کر کچھ کام ہی کر لیا کرو۔وہ اکیلا کام کر کر کے نڈھال ہو جاتا ہے۔‘‘لکھی ہنس دیتا اور جھنڈا بھی ہنس پڑتا، لیکن لکھی کبھی کبھار برُا سا منہ بنا کے اپنی ماں سے کہتا :
" ابے بے، ایمان سے ! مجھے ہل پکڑنا ہی نہیں آتا۔"
بات تو وہ ٹھیک کہتاتھا کہ ہل اُس نے کبھی چلایا ہی نہیں تھا۔
جندان ہاتھ مل کر کہتی:
"ہائے ہائے پتر! جٹ کا بیٹا ہو کر یہ کیا بول رہے ہو؟مچھلیوں اور مینڈکوں کے بچوں کو کبھی کسی نے تیرنا سکھایا ہے؟ لو سنو ! اِس لڑکے کی بات بڑا بھائی کب تک اپنی ہڈیاں گھسائے گا؟ میرا منتوں سے ملنے والا بیٹا سارا سال کام کرکر کے مٹی کے ساتھ مٹی ہو جاتا ہے اور تم آزاد منش، نہ کوئی چنتا، نہ کوئی غم، نہ کوئی فکر ، نہ کوئی بال بچے والی بات ِلیکن کب تک؟ بیٹا ! آخر تم نے بھی اپنا گھر بسانا ہے تو تمھیں بھی لگ سمجھ جائے گی خود بخود۔تب کیا کرو گے بڑے لاٹ صاحب ؟‘‘
لکھی آہستگی سے کہتا:
" اماں ! نہ میں نے شادی جیسا کو ئی جھنجھٹ پالنا ہے اور نہ کوئی فکر اپنی جان کو لگانی ہے۔ اب تمھارے گھر میں کس چیز کی کمی ہے؟اب کون سا تم خود چولہے کے آگے ہاتھ جلاتی ہو؟ بھابھی بچاری سارا دن گھر کے کام کاج کرتی ہے اور گھر بھی دیکھ لو ،اُس نے کیسا میموں جیسا چمکا کے رکھا ہے ،دونوں وقت سب سے پہلے تمھیں چار پائی پر بیٹھا کر کھلاتی ہے پھر بے چاری زبان سے بولتی بھی نہیں تمھارے آگے اور دیکھ لو ساس بہو آپس میں کبھی لڑی بھی نہیں! ہے نا عجیب بات۔"
جھنڈا ہنسنے لگتا اور جھنڈے کی بیوی بھی ہنس کر کہتی :
" اماں دیکھا ہے میرا دیور! ہیرا ہے ہیرا۔ میرا کتنا درد رکھتا ہے؟ سوہنا اور سو گنوں والا۔ پیاری باتیں کرنے والا۔"
اندر سے جنداں خوش ہوتی لیکن اوپر سے تھوڑے غصے سے کہتی:
" اری بہن! اِس لڑکے کی بات دیکھو۔ کیسی رنگ برنگی بات کرتا ہے۔زبانی کلامی بڑا چالاک ہے کام کہو تو کہتا ہے کہ ہل کی جہنگی پکڑنی نہیں آتی۔ تم نے کون سا صاحب بہادر بن جانا ہے کہیں؟ کہتے ہیں ناں! پتر مولیاں آخر تم نے دوکان پر بیٹھنا ہے ، آخر تم نے بھی ڈھیلے توڑنے اور جانور پالنے ہیں۔ اپنے بڑوں کی طرح ! جٹ کا بیٹا ہو کر ہل نہیں چلاؤ گے تو کھاؤ گے کہاں سے۔"
لکھی کہتا:
" لو میری معصوم ماں کی بات سنو! بتاؤ! صاحب بہادر کو کوئی پر لگے ہوتے ہیں یا سینگ ہوتے ہیں ان سالوں کے سروں پر ؟‘‘
جھنڈا ایسے وقت پر لکھی کی مدد کو پہنچتا اور کہتا:
" اماں کام کاج کے لیے ساری عمر پڑی ہے۔ابھی اِس کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ خود بڑا ہو کر سارا کام کاج سنبھال لے گا۔"
جندان کہتی:
" لکھی! رب سچا سب کو اس طرح کے بھائی دے۔ "
لکھی ہنتے ہوئے کہتا:
" ہماری طرح کے چھوٹے بھائی دے جو فرمانبردار ہوتے ہیں اور کام کاج بھی دبا کے کرتے ہیں۔"
’’ خاک کام۔بس باتوں کی کمائی کھاتا ہے۔ بیٹا! سردار جی، چار دنوں کی بات ہے آنے دو بیوی کو۔ ساری عمر اماں کو یاد کرتے رہ جاؤ گے اور یہ ساری رنگ رنگ کی باتیں خود ہی بھول جاؤ گے۔ کولہو کے بیل کی طرح چلتے رہو گے۔سر پر پڑے تو سارے کام خود ہی آ جاتے ہیں۔"
" اماں ویسے ہی بولتی چلی جا رہی ہو؟ ساری کٹائی اور گہائی میں بھائی ساتھ مل کے نہیں کرتا؟ پوچھو تو اِس سے؟" لکھی کہتا۔
جنداں ہنسے لگی۔"اِسی نے تمھیں خراب کیا ہوا ہے ۔ اِس سے کیا پوچھوں؟"
اِتنے میں کبھی دیپو آ جاتی ہے۔تو ست ستی اکال کہہ کر جنداں کی چوکی کے نزدیک چوکی کھینچ کر بیٹھ جاتی ہے اور درمیان میں بولنے لگتی ہے۔آج بھی وہ آئی تو ایسی ہی باتیں ہو رہی تھیں۔آتے ہی دیپو نے کہا، " تائی ،لکھی کو تم نے خود خراب کیا ہے لاڈ پیار کر کر کے۔"
’’ لو اور سنو! آ گئی ہے بڑی کام کرنے والی اور منصف۔" لکھی دو مکھی لڑنے کے لیے تیار تھا۔
" تو کون ؟میں خوامخواہ!‘‘ اُس نے ہنس کے دیپو کو چھیڑا۔
" اُس گھر سے اِس گھراور اِس گھر سے حویلی۔ بندہ اِس لڑکی سے پوچھے کہ دنیا کا اور کوئی کام نہیں ؟"
" کام تو دنیا میں صرف تمھیں ہیں، جسے دو آبے سے ننگلی اور ننگلی سے دو آبے کے چکر لگانے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔ "
دیپو نے طنز کیا۔
" میں کون سا روز جاتا ہوں"
’’ روز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئے دن۔ جس دن خود نہ جائے وہ اداس ہو جاتے ہیں اور بندہ بھیج دیتے ہیں۔ ‘‘دیپو لکھی کی طرف دیکھ کر ہنس پڑی۔
’’ دیکھو لوگو! خدا کی پناہ۔ یہ لڑکی تو ہاتھ دھو کڑ ننگلی کے پیچھے پڑ گئی ہے۔‘‘لکھی نے کہا۔
’’ ننگلی کے نہیں ننگلی کے بُرے لوگوں کے۔‘‘ دیپو بولی۔
’’ ننگلی کے لوگوں جیسے لوگ اور بھلا کہاں ہیں،دلیپ کورے؟"
لکھی نے بھی آگے سے اُسے چڑایا۔ دیپوسچ مچ چڑ جاتی ،کہتی:
" ڈاکو، چور، بدمعاش ! سارے کے سارے۔اِسی لیے تو روز پولیس بیٹھی رہتی ہے وہاں۔"
پولیس تو باؤلی ہے آدم خور۔ منہ اٹھائے جدھر جی چاہے ا ْٹھ کے بھاگ پڑتی ہے۔ جو سامنے آئے کھا جاتی ہے۔‘‘ لکھی نے ننگلی والوں کی صفائی دی۔
" جا ؤ اب حویلی۔"
دیپونے اُسے چڑا کے کہا۔’’ تم کیوں عورتوں میں بیٹھے ہو ، جا کے مردوں میں بیٹھو۔"
لکھی نے چڑ کر کہا، "ایک میرے بال کھینچے دوسرا مجھے مار۔ا"
’’ گھر والو! تم آباد رہو ہم چلے۔ اچھا۔"
وہ باہر کو چل پڑا۔دیپو کھلکھلا کر ہنستے ہوئے لکھی کی صحن میں جھاڑو دیتی کمر کی چادر کو پیار سے دیکھتی رہی اور پیچھے سے اونچی آواز میں بولی، " لکھی ، ایک دفعہ مڑ کے تائی کے پاس سے ہوتے جاؤ! تو بھابھی کو صحن میں جھاڑو دینے کی ضرورت نہ پڑے۔"
لکھی حویلی پہنچا توحویلی میں سچ مچ ننگلی والوں کا آدمی آیا بیٹھا تھا۔کرنیل نے لکھی کو شام گئے آنے کا بلاوا بھیجا تھا۔
رات جس وقت لکھی ننگلی پہنچا تو اُ س نے کرنیل کے اصطبل میں کچھ نئی گھوڑیاں بندھی دیکھیں۔ کامے نے اُس کا گھوڑا لے کر باندھ دیااور اُسے لے کر گھر کی طرف چل پڑا۔ کرنیل کا گھر حویلی کے ساتھ تھا۔ وہ سارے بھائی الگ الگ رہتے تھے۔لیکن اُن کی بوڑھی ماں اور ایک کنواری بہن کرنیل کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔ یہ کوئی خاص مہمان تھے جو حویلی بیٹھنے کے بجائے گھر کے چوبارے میں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔ صحن میں قدم رکھتے ہی لکھی کرنیل کی بوڑھی ماں اور بیوی کو ست سری اکال کہہ کر کامے کے پیچھے چوبارے کی سیڑھیوں کی طرف چل پڑا۔ کرنیل کی بوڑھی ماں کی بینائی اور سماعت دونوں کمزور تھی وہ پاس بیٹھی ویر کور سے پوچھنے لگی۔
" یہ کون تھا، میں پہچان نہیں پائی۔"
لکھی کے کانوں میں ویر کور کی میٹھی جادو بھری آواز پڑی:
" شیرے کا دوست ہے۔"
" کون؟" بوڑھی ماںنے پھر پوچھا۔
"لکھا سنگھ دو آبے والا ،جس نے بڑے بھائی سے شرط جیتی تھی۔"
آخری سیڑھی پرپاوؤں رکھتے لکھی کو پہلی بار اپنا نام خوبصورت لگا۔" لکھا سنگھ دو آبے والا"۔
اندر کرنیل سنگھ اپنے مہمانوں کے ساتھ محفل سجائے بیٹھا تھا۔
" ست سری اکال۔" لکھی نے اندر آتے کہا۔
" ست سری اکال۔" کرنیل اور شیرے نے جواب دیا۔ مہمانوں میں سے شاید کوئی نہ بولا۔
"آؤیار لکھے سئیاں ! جی آیا نوں۔اِدھر میرے پاس ا کر بیٹھو۔"
کر نیل سنگھ نے خوشی سے نعرہ لگایا اور اپنی نواری چارپائی کے ایک کونے پر کھسک کر لکھی کے لیے جگہ بنائی۔ "لاؤ بھی شیر سئیاں ! اپنے یار کے لیے ایک گلاس۔" اُس نے شیرے کو کہا جو خود کم پیتا اور مہمانوں کوگلاس بھر بھر دیتا جاتا۔
سر گوشیوں میں بات کرتے سارے مہمان ایک دفعہ تو لکھی کو اند آتے دیکھ کر خاموش ہو گئے اور اب سب کی آنکھیں لکھی پر تھیں۔ لکھی نے گلاس پکڑ کر اپنے اردگرد دیکھا، سب نئے چہرے تھے۔ اُن میں سے کسی کو بھی لکھی نہیں جانتا تھا۔وہ چھ لوگ تھے سب ڈبوں والے کھیس بچھی چارپائیوں پر دو دو ہو کر بیٹھے تھے۔ کرنیل سنگھ کے ساتھ والی چارپائی پر ایک لمبا چوڑا، بھاری بھر کم جسم اور اچھے رعب داب والا درمیانی عمر کا مرد اور اچھے خوبصورت نین نقش والی جواں عمر عورت بیٹھے ہوئے تھے۔چار آدمی کچھ ڈراؤنی شکلوں لیکن مضبوط ہاتھوں پیروں والے مرد تھے۔ اُن سب کی انکھوں میں ایک ٹھنڈی ،ڈراؤنی اور خونخوار چمک تھی۔ ایک بار دیکھنے سے ہی لکھی نے سب بندے جانچ لیے کہ وہ کوئی عام سیدھے سادے بھلے لوگ نہیں تھے۔ بلکہ سارے کے سارے لکھی کو اُڑنے والے سانپ لگے۔
ایک کونے میں پختہ دیوار کے ساتھ ٹیک لگا شیرا بیٹھا تھا جس کے پاس شراب کی سات بوتلیں اور ایک پانی کا چھوٹا گھڑا پڑا تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹھا تھا، جس کا گلاس خالی ہو جاتا وہ آدھا شراب اور آدھا پانی سے بھر کے اسے پکڑا دیتا۔ لکھی سارے مہمانوں کے پاس ایک ایک رائفل دیکھ کر اِتنا حیران نہ ہوا جتنا اِس عورت کو شراب پیتے دیکھ کر ہوا۔ یہ نظارہ اُس نے پہلے دفعہ اپنی آنکھوں سے دیکھاتھا۔ ویسے تو چوروں کے ساتھ کی کئی عورتوں کے بارے میں اُس نے سنا تھا جو پانی کی طرح شراب پیتی ہیں اور چوروں ،ڈاکوں میں بہادری سے مردوں کا ساتھ دیتی ہیں ۔
’’ یہ لکھا سنگھ ہے دو آبے سے ! شیرے کا یار اور میرا بھائی۔ بڑا بہادر آدمی ہے۔ "کرنیل سنگھ بولا اور لکھی کی طرف دیکھ کر اُس کا تعارف کرانے لگا۔ " اور یہ میرے یار جو آج میرے مہمان ہیں, بڑے اچھے لوگ ہیں۔ دور سے آئے ہیں یہ، بڑے کام کے، سادھو بہت، بڑے بھلے مانس اور خدمت گزار لوگ ہیں‘‘کرنیل نے مہمانوں کے بارے میں لکھی کو بتایا۔
سارے لوگ ہنسنے لگے۔عورت کے ساتھ بیٹھا مرد بولا، " کرنیل سنگھ خود بڑا گنی ہے۔سادھو اور بہت شریف تھا مگر تائب ہو گیا۔"
سارے پھر ہنسنے لگے۔ لکھی آنکھیں نیچی کیے بیٹھا رہااور اپنا گلاس شیرے کو پکڑا دیا ،جسے اُس نے پل بھر میں بھر کے واپس کر دیا اور لکھی آرام سے گھونٹ گھونٹ پینے لگا۔
" ابراہیم، کبھی تمہارا دو آبے والے وریام سنگھ سے ٹاکرا ہوا تھا"؟ کرنیل سنگھ نے ساتھ والی چار پائی پہ بیٹھے لمبے چوڑے رعب والے مرد سے پوچھا،" وریام سنگھ دو آبے والا؟" ابراہیم اپنا گلاس گھونٹ گھونٹ کر کے پیتے ہوئے کچھ یاد کرتے ہوئے بولا،
’’ ہاں جی، بڑی مضبوط جسامت اور بڑے دل والا آدمی تھا۔ دو ایک دفعہ تو سمجھو اُس نے مجھے موت کے منھ سے بچایا ہے۔۔۔۔۔۔ بڑا مرد اور قول کا پکا کھرا آدمی۔‘‘ ابراہیم جیسے پرانی یادوں کے بہاؤ میں بہنے لگا۔ پھر کہنے لگا " سر دار کرنیل بھائی !دنیا میں میرے جیسے بُرے لوگ ہی نہیں وریام سنگھ اور تمہارے جیسے بھلے لوگ بھی بستے ہیں۔ ‘‘پھر جیسے کچھ یاد کر کے کہنے لگا۔" لیکن وہ تو قتل نہیں کر دیا گیا تھا۔"
" ہاں جی " کرنیل نے کہا
" کوئی اولاد؟"
" ہاں دو بیٹے ہیں رب سلامت رکھے۔"
" جوان ہیں؟"
" ہاں۔ "
" کوئی اُس جیسا بھی ہے؟ " اور لکھی کی طرف دیکھ کر ابراہیم کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔" اْس جیسا جوان اور دل والا!"
کرنیل سنگھ جو بڑی توجہ سے ابراہیم کو دیکھ رہا تھا ،اُس کی ران پہ ہاتھ مار کے بولا:
" او آنکھوں کے اندھے۔"
سب ابراہیم اور کرنیل کی بات توجہ سے سن رہے تھے۔ " لکھا سنگھ،" کرنیل ا،براہیم کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔ " سردار وریام سنگھ کا چھوٹا بیٹا ہے اور،‘‘ ابراہیم کو پیار سے کہنی مار کر بولا۔ " تْو اب ڈاکے مارنے چھوڑ دے اورکہیں نمک تیل کی دکان بنا لے۔ اب تو اِس کام کے قابل نہیں رہا۔میرے بھائی۔"
"درست کہا۔ "
ابراہیم غصے اور بے بسی سے دونوں ہاتھ اپنی بھاری رانوں پر مار کر کہنے لگا،
’’اللہ کی قسم ! میں نے جب سے اِس جوان کو دیکھا ہے میرے اندر ہلچل مچ گئی تھی۔بس سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ اس جوان کو کدھر دیکھا ہے اور کتنی دفعہ دیکھا ہے؟ ہو بہو وریام سنگھ کا نقشہ، وہی شکل ویسی جسامت، سارے کا سارا وریام سنگھ۔بس عمر کچھ کم ہے۔حد ہو گئی بھائی صاحب۔بہادر کرنیل سئیاں! تو ٹھیک کہتا ہے۔خدا کی پناہ۔" ابراہیم جو سات پردوں کے پیچھے چھپی چیز کو دیکھ لیتا اور اندھیرے میں اڑتی چڑیا کے پر گن لیتا تھا۔ ، آج اندھا ہو گیا ہے۔‘‘ پھر اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا ،’’ بھائی سردارو! ساتھیو! اپنا اپنا راستہ پکڑو۔ بے شک نمک، تیل کی دوکان بناؤ یا گردواروں میں بیٹھ کر جاپ کرنے لگ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ہمارے والی بات تو اب ختم ہونے کو ہے۔‘‘
سب سے پہلے اِبر ے کے پاس بیٹھی عورت ہنسی۔اونچا کھل کے مردوں کہ طرح اُس نے اونچی آواز میں قہقہہ لگایا۔
" اگر آج پولیس کو پتا چل جائے کہ ابرابھک اندھا ہو گیا ہے تو وہ خوشی سے گھی کے دیے جلائیں گے اور آرام سے تمہیں پکڑ لیںگے اور روز کی بھاگ دوڑ سے بھی بچ جائیں۔ ہے نہ اچھی اور آسان بات؟"پھر اُس نے پیار سے لکھی کی طرف دیکھا اور اپس کے کندھے پر مردوں کی طرح ہاتھ مار کے بولی: " اِس نوجوان نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے اور خود زبردستی ہماری آنکھوں میں گھس کر بیٹھ گیا ہے۔ اب نکال لو باہر اگر نکال سکتے ہو تو۔"
لکھی جو اُس طرح اچانک اِبرے بھک کو مل کر حیران ہوا تھا،اِس عورت کی بات سن کر پریشان ہو گیا اور باقی سارے لوگ ہنسنے لگے۔کرنیل سنگھ اور اِبرے بھک کی آنکھوں میں ہنستے ہنستے پانی آ گیا۔
بڑا نامی گرامی ڈاکو، اَن گنت بندوں کا قاتل جس کے سر پہ بھاری انعام تھا ، جس کے پیچھے پورے پنجاب کی پولیس ماری ماری پھرتی تھی ،کرنیل سنگھ کے چوبارے میں لکھی کے پاس بیٹھا اُس کو اُس کے باپ کی تعریفیں اور اپنے قصے سنا رہا تھا۔
بہت زیادہ خوبصورت ، ایک لکھ پتی لالے کی دس جماعتیں پاس بیٹی شانو جو محل چبارے چھوڑ کے ڈاکوؤں کے ساتھ مل گئی تھی، ڈاکے مارتے ، پولیس مقابلے کرتی خود بھی نامی گرامی ڈاکو بن گئی تھی،لکھی کی طرف قربان جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ گلاس بھر بھر کے پیے جا رہے تھے۔ آنکھوں میں لال ڈورے اور رخساروں میں گرمی اور پیار آتا جا رہا تھا۔لکھی بھی چہک رہا تھا۔ شانو ہاتھ کھڑا کر کے بولی:چہک کر ابرے سے دنیا جہان کی کیے جا رہی تھی:
" سنو ساتھیو! سجنو! دوستو! ہمارا سردار ابراہیم بھک اب بوڑھا ہو گیا ہے ۔"
" شیر کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، شکار مار کر ہی کھاتا ہے"۔ کسی نے کہا۔
"نہیں بھائی! بات بوڑھے ہونے کی نہیں، بات آنکھوں کی ہے۔ اندھا باز چڑیا کی جگہ کسی اور چیز کو جا پکٹرتا ہے "۔شانو نے کہا۔
" پھر کیا؟" ابراہیم ہنس کے کہنے لگا۔
"پھر یہ بھائیو" شانو ہنس کے کہنے لگی،" بوڑھا اور اندھا سردار نہیں چاہیے۔ہمارے ابراہیم کے اب رام رام کرنے کے دن ہیں ہمیں سردار چاہیے ہے: جوان،طاقت ور اور آنکھوں والا۔‘‘
" ڈھونڈ لو!" ابرا ہنس کے کہنے لگا۔
" میں خود جو ہوں۔" شانو نے ہنس کے بازو کھڑا کیا۔
’’ ٹھیک ہے۔ جو شانو کہے اُس کا حکم چلے گا۔"
ابرے نے حکم جاری کیا مگر پر کچھ سوچ کے پھر کہنے لگا،" ویسے پہلے بھی اِسی کا حکم چلتا ہے۔‘‘
" ہماری طرف سے بھی رضامندی ہے۔" چاروں ڈاکوؤں، نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے جیسے وہ بھی اِس سارے مذاق میں حصہ ڈال کے خوش ہو رہے ہوں۔
" سنو؟‘‘ شانو بولی:
" میرا حکم :لکھا سنگھ دو آبے والا ہمارے ساتھ جائے گایا پھر۔۔۔۔۔۔۔"اِس سے آگے اُس نے بات نا مکمل چھوڑ دی۔
" یا پھر کیا؟!" ابرے بھک نے شانو سے پوچھا۔
" یا پھر میں نہیں جاؤں گی ا:دھر سے۔" شانو نے بات پوری کی۔
" پھسل گئی ہو خوبصورت گھبرو جوان دیکھ کر۔" ابرابھک ہنس کے شانو کو چھیڑتا ہوا کہنے لگا۔
" ہاں مہاراج! دل چاہ رہا ہے کھا جاؤں۔ "شانو ہنس کر کہنے لگی۔
"نیک سیرت، جوان، لنگوٹے کا تگڑا، نہایا دھویا ،وریام سنگھ کا بیٹا ہے۔یہ تم سے کھایا نہیں جائے گا بی بی شان کمار ی رانی جی !‘‘ ابرا کہنے لگا۔
’’ میں توآپ کھائی گئی ہوں ابراہیما!‘‘شانو آہ بھر کے بولی۔ پھر اوپر کو دیکھ کے کہنے لگی۔ ’’انصاف کرنے والے! طاقتور اور بڑے کی موت بننے والے! کمزور اور معصوم کے کام آنے والے! میرا بھی انصاف کر دے۔اس جوان کو میری عمر لگا دے اور اس کو ہمیشہ ہنستا کھیلتا رہنے دے۔ اِس خوبصورت جسم کو ٹھنڈے لوہے سے کٹنے سے بچائے رکھنا۔‘‘اور شانو کی باز جیسی تیز آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لکھی نے پتھر پگھلتا دیکھا۔وہ اپنی گردن سے کالے اور لال ریشمی دھاگے میں پروئے ہوئے سونے کے تیں تعویز اتار کے لکھی کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہنے لگی۔
" لکھا سئیاں ! آج سے تمہارا اور میرا دھرم ایک ہو گیا۔ میرے یہ تین تعویز کبھی گردن سے نہ اُتارنا ک،بھی دینابھی تو صرف اپنی بیوی ہی کو دینا اور جب کبھی تم پر مشکل آئے تو مجھے یاد کرنا۔ میں آدم بو آدم بو کرتی پہنچ جاؤں گی۔یہ بات پکی ہے پتھر پر لکیر جیسی۔‘‘
لکھی اُس کے سامنے ایک ناسمجھ بچہ لگ رہا تھا۔ اگر وہ پتھر تھا تو شانو کے پیار سے پگھل کے پانی ہو گیا تھا۔
آدھی رات ہوئی تو کھانا دیا گیا۔ مہمانوں کے سفر کا وقت ہو گیاتھا۔وہ کھانا کھا کر سفر کی تیاری کرنے لگے۔ ابرابھک ایک تجربہ کار اور یاروں کا یار شخص تھا۔لکھی کو سینے سے لگا کے اُس کے کان میں کہنے لگا :
" میں وریام سنگھ سے شرمندہ ہوں۔ اُس کے مشکل وقت میں نہ پہنچ سکا۔لیکن آج تمہارے راستے کے سارے کانٹے چن سکتا ہوں۔ اگر تم اشارہ کرو تو میں سوداگر سنگھ کی ساری نسل کو جلا کے راکھ بنا دوں۔‘‘
’’ بھائی ابراہیم! ‘‘لکھی اَکڑ کر کہنے لگا، " ہم بیگار صرف بجائی کٹائی میں لیتے ہیں۔ اپنے راستے کے کانٹے جٹ کے بیٹے کو خود اٹھانے کا حکم ہے، اپنے ہاتھوں سے۔"
" لاکھ روپے کی بات ہے، جوانوں والی۔مردوں والی۔" ابرابھک ہنس کے کہنے لگا۔" مگر پھر بھی کبھی میری ضرورت پڑے تو اشارہ کر کے دیکھنا۔"
حویلی کے سامنے گھوڑیاں کس کے چڑھنے لگے تو لکھی نے شانو کو گھوڑی چڑھنے میں مدد دینے کے لیے اس کی رکاب کو پکڑ کر کہا :
" چڑھ!"
" میری رکاب چھوڑ دو!" شانو نے لکھی کے ہاتھ سے اپنی رکاب نکال لی اور اُس کے ہاتھ چوم کے آنکھوں کو لگائے۔ شاید شانو کی آنکھوں میں آنسوں تھے جس کی وجہ سے لکھی کا ہاتھ گیلا ہو گیا۔ وہ بجلی کی طرح چھلانگ لگا کر گھوڑی پر سوار ہوگئی اور منہ لکھی کے منہ کے قریب کر کے آہستہ سے بولی:
" جو میں نے چوبارے میں کہا تھا، وہ سب صحیح ہے۔زندگی میں پہلی بار میں اپنی روح، اپنا وجود پیچھے چھوڑ کے جا رہی ہوں۔
’’جیوندے رہے تے ملاں گے لکھ واری
مر گئے تے منوں وسارنا نہ۔‘‘
اور وہ سارے ڈاکو رات کے اندھیرے میں چپ بن کے گم ہو گئے۔
لکھی نے چھوی پکڑی اور گھوڑا کھول لیا۔
کرنیل نے زور مار،ا
" اِدھر ہی رک جاؤ صبح سویرے چلے جانا۔"
" یہ چار قدموں کا تو فاصلہ ہے۔رب رکھا۔"
اور وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا گاؤں کی ایک طرف سے ہو کے گزر گیا۔وہ اپنے خیالوں ، گم اردگرد کی ہر چیز سے بے خبر ، گھوڑے کی باگ اُس کی گردن پر ایک طرف گرائے اُسے قدم قدم لیے چلتا جا رہا تھا۔ ابریبھک کا نام ایک بڑا نام تھا۔لکھی اُس سے مل کے بہت خوش تھا۔ زیادہ خوش اِس بات پر تھا کہ ابرے بھک جیسا نامور بندہ بھی اُس کے باپ کو اچھے لفظوں میں یاد کرنے اور سراہنے والا تھا۔ یہ سب کچھ ٹھیک تھا مگر اُس کے دل میں اونچی ، لمبی ، پتلی، سوہنی، تیکھی آنکھوں اور تیکھے نقوش والی باہمنی شانو کی مورت اُترگئی تھی۔ گھڑی میں ملے پل بھر میں بچھڑ گئے۔ وہ اُداس ہو گیا۔پل کے لیے آ کے گزر جانے والی ہوا کے جھونکے سے کیسا یارانہ۔
vvvvv

لکھی جب پیچھے مڑ کر دیکھتا تو ہر چیز دھند اور گردو غبار میں ڈھکی دکھائی دیتی۔ دھند جو پوہ،ماکھ کی راتوں میں چادر جیسی گھنی ہوتی اور دھول جسے اُس کے گھوڑے کے سْم مکھن جیسی نرم اور شکر جیسی باریک مٹی کو اوپر آسمان کی طرف اْڑا دیتے اور پیچھے مڑ کر دیکھنے سے جس میں ہر چیز چھپ جاتی۔ ایسے وقت میں درد کی ایک لہر اُس کے اندر سے اْٹھتی اور کچھ سانس میں مل کر ہو کا بننے کی تدبیر کرتی ہے اور تو کچھ آنکھوں کی طرف جا کر پانی میں مل جاتی مگر وہ درد نہ تو ہوکا بن سکتا اور نہ ہی آنسو۔
جو ان کو دونوں چیزوں کی ممانعت تھی۔ یہ تو عورتوں کے کام ہوتے ہیں کہ بیٹھ کر ہوکے بھریں اور آنسو بہائیں۔گزرے ہوئے وقت پر پشیمان ہوں اور آنے والے وقت سے ڈریں۔
جٹ کا بیٹا تو پیدا ہی مشکلات اْٹھانے کے لیے ہوتا ہے۔ ابھی وہ جنگھی جتنا ہوتا ہے تو اُسے کھو پے لگا کر خر اس پر جوت دیتے ہیں اور مرتے دم تک اُس طرح خر اس پر جلتا رہتا ہے۔ہر چکر پچھلے سے اچھا اور تیز۔دکھوں اور پریشانیوں کے اِس گڈے کو اُسے نہ تو چھوڑنے کا حکم ہے اور نہ ہی بزرگوں کی کھینچی لائن سے باہر نکلنے کا۔ اُس کی ہر لڑائی اپنے سے زیادہ طاقتور اور اپنے سے زیادہ زور آور سے ہوتی ہے مگر نہ اُسے ہار ماننے کا اختیار ہے اور نہ ہی منہ سے بولنے کا۔ یہ سارا علم اُس کے خون میں ہوتا ہے اور وہ خون اپنے بڑوں سے لیتا ہے ا ور ایسے ہی دکھوں سے لڑتے لڑتے زور آور ہو جاتا ہے۔ اِسی کشمکش میں وہ اُلٹا کنواں چلاتے چلاتے ہنستا کھیلتا ساری عمر گزار دیتا ہے اور جس طرح وہ خوشی خوشی اِس زندگی میں داخل ہوتا ہے اور میلہ دیکھتا ہے اِسی طرح خوش خوش زندگی کی بہاروں کو چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور اپنے بعد میں آنے والوں کے لیے اپنے قصے اور کہانیا ں چھوڑ جاتا ہے۔
’’پتھر سے کسی نے پوچھا :
تم گول کیسے ہو گئے ہو؟
پتھر (وٹے) نے آگے سے ہنس کر جواب دیا :
"ٹھوکریں ٹھوکریں کھا کھاکے ۔"
لکھی بھی گول ہونے کے لیے ٹھوکریں کھا رہا تھا۔
لکھی اور دوآبے کے درمیان دھند کی ایک دیوار اور دھول کا ایک پہاڑ کھڑا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کے بغیر ایسے تھا جیسے پانی کے بغیر مچھلی۔ کتنی بیساکھیاں آئیں اور گزر گئیں۔لکھی تو حساب ہی بھول گیا۔ کوٹھریوں کے پکے فرشوں پر سو سو کر اس کی ہڈیاں لوہے کی طرح سخت ہو چکی تھیں۔اِسی طرح اس کا دل بھی پتھر ہو گیا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں جوانی کے نشے کی جگہ بھوکے بگھیاڑوں والی چمک آ گئی تھی۔ پہلے اُس کی شکل ،اُس کے نقوش اور اُس کی جسامت اچھے لگتے تھے مگر پھر پتھر کے اور ڈراؤنے بن چکے تھے۔ جب اُس کا دل چاہتا کام کرتا اور جب جی چاہتا انکار کر دیتا۔کئی دفعہ اُس کے حصے کا کام بھی اُس کے ساتھی کر دیتے۔ شروع شروع میں تو وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں سے لڑ پڑتا۔لڑتا جھگڑتا اور پھر اُس کی سزا بھی ہنس کر بھگت لیتا تھا۔ پھر ویسے کا ویسا ہو جاتا۔ جلد ہی جیل کے عملے کو پتا چل گیا کہ لکھی کسی ڈر یا دباؤ کے تحت زیر ہونے والا نہیں بلکہ پیار سے کام پر جانے والا ہے۔ قیدیوں نے سمجھ لیا تھا کہ اُس سے دور رہنا ہی بہتر ہے ۔اُس کے باوجود بھی اُس کے کئی دوست بن گئے۔
جیل میں ہر طرح کے چور ،ڈاکو،قاتل ،بڑے بڑے استاد، بڑے بڑے خلیفے ہوتے ہیں اور ہر آنے والے کو رعب میں لے کر اپنے تابع بنانے کا اورکھینچا تانی کا رواج جیل میں بھی باہر کی طرح ہی ہوتا ہے۔ مگر لکھی ان سب میں اور ہی طرح کا جانور تھا۔ بھلا وہ کسی کے ماتحت کیسے رہ سکتا تھا؟ جٹ بچہ تھا، دلیر بھی طاقت بھی اور نہ ہی وہ ہر بات پر جیل کے عملے کے سامنے جی جی کرتا بلکہ چند دنوں میں اُس کی دہشت دوسروں پر بھی پڑ گئی تھی۔ ابر ے بھک اور شانو کے دوستوں میں سے کچھ بندے جیل میں آئے تو انھوں نے لکھی کا بڑا ادب لحاظ کیا۔ پیچھے سے بھی تارہلتی رہتی۔لکھی کے لیے شانو بھی ضرورت کی چیزیں بھجتی رہتی۔لکھی کی دہشت اور بڑھ گئی تھی۔
ایک بابا حکم سنگھ سیاسی تھا جو جیل آتا جاتا رہتا تھا اور اِس دفعہ لمبی قید بھگت رہا تھا۔ اپنی میٹھی زبان اور نرم طبیعت کی وجہ سے ہرایک کو جی جی کرتا ،ہر ایک سے پیار کرتا اور بدمعاش لڑکوں ،خراب حالوں کو پیار محبت سے اپنے راستے تک لے آتا۔لکھی سے بہت پیار کرتا۔ویسے بھی سرکار سے بغاوت کی راہ اور دیس کوآزاد کروانے کی بات جو بابا حکم سنگھ سیاسی کرتا ہر دلیر اور سمجھ رکھنے والے بندے کو اچھی لگتی تھی۔ پھر حکم سنگھ شہد کی طرح میٹھا اور بات چیت کا بادشاہ بھی تھا۔
حکم سنگھ کہتا :
"اے بھائیو! بہادر کا کام ہے کہ جھکے نہ، چاہے ٹوٹ جائے۔ زبردستی کی سرکار کے آگے جھکیں بھی کیوں ؟ بندے روز پیدا ہوتے ہی اور روز مرتے ہیں مگر دیس کے لیے مرنا اور ہی بات ہوتی ہے۔بہت بڑی بات۔ بندے آج مرتے ہیں تو کل اُن کو لوگ بھول جاتے ہیں مگر وطن کے لیے مرنے والے بندے کا نام ہمیشہ رہتا ہے،ہمیشہ کے لیے۔ وہ بندے شہیدکا رتبہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اکبر بادشاہ کتنا بڑا بادشاہ تھا؟آج کوئی اُس کا نام بھی نہیں لیتا، مگر دلا بھٹی کے گیت لوگ گاؤں گاؤں گاتے ہیں۔گھر گھر لوگ یاد کرتے ہیں۔ اکبر بادشاہ مر مْک گیا مگر دلا بھٹی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ بھائی دیب سنگھ شہید، بھگت سنگھ ، اودھم سنگھ، احمد خاں کھرل یہ سب شہید زندہ جاوید لوگ ہیں جو رہتی دنیا تک جیتے رہیں گے۔
’’میرے عزیز بھائیو! ساتھیو ! جوانو ! کھیت کی ایک وٹ کو سیدھا کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے کو قتل کر دیتے ہیں اور پھر وہ سارے کھیت بیچ کر اُس مقدمے پر لگا دیتے ہیں پھر صدیوں اِس دشمنی کو اپنے خون سے قائم رکھتے ہیں۔ ساتھ اپنے گھر بھی اُجاڑ دیتے ہیں اور ساتھ بے وقوف بھی کہلواتے ہیں۔ بھائیو!زمین جٹ کی ماں ہوتی ہے اور اِس پر ہم اپنے بال بچوں کو بھی قربان کر دیتے ہیں۔اِسی طرح ہی پورے وطن کی زمینیں اگر کسی نے ہم سے چھین لی ہوں تو اِس کا قبضہ واپس لینے کے لیے ہمیں جان کی بازی لگا دینی چاہیے یا نہیں؟
" اے جوانو! اپنا دیس تو بندے کا ماں باپ ہوتا ہے۔اِسے غلامی سے چھڑانے کے لیے تو بندے کو اپنا سب کچھ قربان کر دینا چاہیے۔ دیس کے لیے موت کا مزہ کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اے جوانو! ساتھیوں ! مر تو سب نے ہی جانا ہے مگر دیس کے لیے مرنے والے بندے شہیدہو جاتے ہیں اور ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ بہادر آدمی کو وہ کام کرنا چایئے جس کی وجہ سے لوگ اُس کے مرنے کے بعد بھی اُسے اچھا کہیں اور ہمیشہ یاد رکھیں۔ میرے بھائیو! ساتھیو ! بات سمجھنے کی ہے۔"
حکم سنگھ روز ایک ایک بندے کو سمجھاتا ۔ بات چاہے کوئی ہو اور کہیں کی ہو حکم سنگھ بات سے بات نکال کر تان یہاں ہی لا کر توڑتا۔ اُس کی باتوں کا پڑھے لکھے،سمجھ بوجھ رکھنے والے لوگ اثر بھی لیتے تھے۔
لکھی کے موٹے دماغ میں وہ باتیں تو نہ آتی تھیں مگر لکھی جانتا ہے کہ حکم سنگھ حق سچ کہتا ہے۔ وہ حکم سنگھ کو دیکھتا۔ حکم سنگھ اُسے اچھا لگتا تھا۔ جیل میں پہلے پہلے تو لکھی بہت بے چین اور اُکھڑا اُکھڑا سا رہتا تھا۔ وہ چپ کر کے بیٹھا رہتا۔کسی سے زیادہ بات چیت ہی نہ کرتا۔ اپنی ہی رنگ برنگی سوچوں اور خیالوں کی دنیا میں گم رہتا۔
اُس کے بچھڑنے والے پیارے اُس کے کانوں میں باتیں کرتے رہتے تھے۔اُن کی صورتیں اُس کی آنکھوں کے سامنے پھرتی رہتی تھیں۔ دوست احباب اور ساتھی یاد آتے بلکہ جیل میں تو اُسے جھندا عیسائی ، گالڑ اور سردار مراثی بھی اپنے ہی لگتے اور بہت یاد آتے۔گاؤں کے سارے کام، ساری فکر، ساری سوچیں، جیسے اُس کے ساتھ ہی آ گئی تھیں اور جیل کے پھاٹک کے اندر آتے ہوئے تلاشی لینے والوں کو بھی نہ ملیں۔ پہلے پہلے تو وہ اپنی ملاقات کو بھی آنے والے گھی، گڑ، تیل، صابن سے بھی بڑھ کر انتطار کرتا رہتا۔ وہ اپنے لوگوں کو دیکھنے اور اُن کی باتیں سننے کو ترس جاتا۔پھر آہستہ آہستہ دل کا موم پتھر کی طرح سخت ہوتا گیا اور آنکھوں میں پل دو پل بعد اُترنے والی دھند سوکھی ریت بنتی گئی تو اُسے اپنا جسم گوشت پوست کا نہیں بلکہ جیل کی بیرکوں کی ا ینٹوں سے بنا محسوس ہونے لگا۔
پھر بھی جیٹھ ہاڑ کی دوپہروں اور پوہ ماگھ کی لمبی اور ٹھنڈی راتوں میں اُس کی روح اُس کا ساتھ چھوڑ جاتی ۔اُس کا جسم جیل میں قید رہ جاتا اور روح جو کہ سدا آزاد رہتی ہے گاؤں چلی جاتی۔ بیرک کی چھت کو گھورتی آنکھیں گاؤں میں اُس کی بکھری ہوئی دنیا کو دیکھتیں اور کبھی برستیں ، کبھی اُجڑتیں، اور کبھی روتیں۔
vvvvv

لکھی کی ماں کہتی تھی" جو قسمت میں لکھا ہو، وہ بھگتنا ہی پڑتا ہے۔انسان بے شک طاقتور اور مضبوط ہے مگر ہے جو تقدیر میں لکھا ہوا ہے اُس کے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ اُس خدا کی مرضی ہے جس کو جس قدر چاہے دے ،دکھ یا سکھ۔ اِس طاقتور کے سامنے کسی کی پیش نہیں جاتی۔ وہ ذات کسی غریب کو چاہے تو امیر کر دے اور کسی امیر کو چاہے تو غریب کر دے۔ بیٹا اوپر والے کے کام انوکھے ہیں۔"
لکھی سوچتا کہ اُس ذات کے کام واقعی نیارے ہیں۔انسان کئی سال محنت کر کے ایک ایک اینٹ لگا کر سالوں میں گھر بناتا ہے اور وہ ذات پلک جھپکنے کی دیر میں گرا دیتی ہے۔بندہ ایک ایک پیسہ اکٹھا کرتا ہے وہ ایک پل میں ضائع کر دیتا ہے۔ ماں ٹھیک کہتی تھی کہ جو مقدر میں ہو وہ بھگتنا پڑتا ہے۔ پہلے جو گزری اُس کی کس کو خبر تھی اور جو اِس کے بعد ہو گا اُس کی کس کو خبر ہے۔
وہ دکھوں کی نلکی پر یادوں کے لپٹے ہوئے دھاگے کا ایک سرا پکڑ کر کھینچتا توسارا دھاگہ خود بخود کھل جاتا۔ ابھی کل کی بات ہے کہ کرنیل سنگھ کی دعوت پر اُس رات ننگلی گیا۔ کرنیل کے تھوڑی دیر کے مہمان ابرابھک اور شانو تھے جو اُسے بہت اچھے لگے تھے۔وہ آدھی رات کو خوشی خوشی اُن کو رخصت کر کے ا پنے گاؤں کی طرف واپس مڑا۔ وہ اندھیری رات تھی۔ ستاروں کی روشنی میں اُس نے گھوڑے کی لگامیں اُس کی گردن پر پھینک دیں۔گھوڑا مستی میں قدم اْٹھا رہا تھا اور خودبھی بہترین شراب اور شانو بہمنی کے نشے میں مست اور اور بے فکر انداز میں گھوڑے کی کاٹھی پر بیٹھا تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا اور گردو نواح میں پکی ہوئی گندم کی خوشبواور بھی نشہ دے دہی تھی۔ اپنے لہو کے نشے ساتھ یہ اور نشے تھے۔اُس دن جب صبح سویرے وہ گندم کے کھیت کی طرف گیا تو اُسے اپنی گندم کی فصل پچھلے کئی سالوں کی فصل سے اچھی لگی تھی۔
گندم کے بھرے اور پکے ہوئے سٹِے اُس کی باریک ململ کی قمیض کو پکڑ پکڑ کر کہتے:
" یار تم قتل کرو ہم تجھے چھڑا لائیں گے۔"
اور وہ مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا پگڈنڈی کے اوپر گری ہوئی گندم کو روندتا ہوا واپس گاؤں آ گیا۔ فصل اچھی ہو اور گھر آنے والی ہو تو کسان کی سارے سال کی محنت کا پھل واپس ملنے کو ہوتا ہے اور پھر جٹ سچ مچ قتل کرنے کے منصوبے بنانے شروع کر دیتے ہیں ۔ اُس رات گھوڑے پر جاتے ہو ئے لکھی کو یہ خیال آیا کہ اِن سارے نشوں میں سے رات کی دوستی کا نشہ بھاری ہے۔شانو اُس کے دل میں بس گئی تھی۔رات اُس کے پاس بیٹھے ہوئے لکھی کو ایک بار تو خیال آیا کہ سب کچھ چھوڑ کر اُس کے ساتھ ہی چلا جائے اور اُس بات کا شانو نے ایک سے زیادہ مرتبہ اُسے اشارہ بھی کیالیکن وہ نیک ماں باپ کا بیٹا تھا۔پھر دیپو جیسی لڑکی کے ساتھ ایک آدھ سال میں اُس کی شادی بھی ہونے والی تھی۔ اِس بارے میں فوجا سنگھ اُسے کھلے انداز میں اشارہ دے چکا تھا۔وہ ڈاکو عورت کے پیچھے لگ کے ساری بات کوخراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اِس لیے اُس نے ہامی ہی نہ بھری۔ مگر یہ بات پکی تھی کہ باہمنی اُس پر فدا ہو گئی تھی۔ تو گھوڑے پر سوار ہونے سے لے کر اب تک کئی بار بے دھیانی سے اس نے گلے میں ڈالی ہوئی شانو کی توتیڑی پر ہاتھ پھیرا۔
اُس کا گھوڑا یکدم ڈر گیا۔ اُس نے گھوڑے کی لگام قابو میں کر کے اپنے پاؤں اُس کی رکاب میں ٹھونس لیے۔ اُس کا سارا جسم اکڑ گیا اور ذہن سے سارے خیالات اْڑ گئے۔ گھوڑا دلیر اور شریف بھی تھا۔ وہ ڈر کے بھاگا نہیں بلکہ اپنے سموں کو زمین میں گاڑ ھ لیا۔ گردن اٹھا کر گھوڑا سامنے دیکھتا جا رہا تھا اور ناک کے ذریعے لمبے لمبے سانس لے رہا تھا۔ لکھی نے ہاتھ میں چھوی مضبوطی سے پکڑلی اور آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھا اور آہستہ سے مسکراتے ہوئے گھوڑے سے کہا:
"زندہ سلامت رہو بچے! تم نے ایسا کیا دیکھ لیا؟‘‘
پھر جیسے گھوڑے کو اور اپنے آپ کو بتانے لگا :’’اے بھائی کوئی بیٹرا اڑا اور تم ڈر گئے ہو۔"
اور گھوڑے کو تھاپی دے کر لگام کے ذریعے چلنے کا اشارہ کیا مگر گھوڑ ا اُسی طرح اپنی جگہ پر اپنے پاؤں دبائے کھڑا رہا۔
"پکی بات ہے۔ گھوڑا کچھ دیکھ چکا ہے۔"
اُس نے اپنے آپ سے کہا اور چھوی مضبوطی سے پکڑ کر اْٹھا کر انسان کی کمر کے برابر گندم کے کھیت کو پوری آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھا اور آواز سننے کے لیے اپنے کانوں سے پگھڑی ہٹائی،
"میں ہوں !" پگڈنڈی کی بائیں طرف گندم میں سے آواز آئی۔
لکھی نے پوری آنکھیں کھول کر آواز کی طرف دیکھا تو اُسے سفید کپڑوں میں لپٹا ہوا کچھ نظر آیا۔
ُُ’’میں کون؟‘‘ لکھی نے گھوڑے کو پیچھے کر کے آواز کی طرف توجہ دی۔" میں ویر کور ہوں۔ "
خطرے کی گھنٹی بجی۔نام سن کر لکھی کے وجود میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اُس کا نشہ اُترنے میں ایک پل لگا۔ بس اِتنی دیر جتنی دیر میں ویر کور نے ویر کور کہا۔ وہ گھوڑے سے اُترا، چھوی ہاتھ میں تھامے ہوئے گھوڑے کی لگام کو پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے چادر درست کی۔ ویر کور گندم کی دوسری طرف سے چلتی ہوئی اُس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ لکھی حیران بت بنا ، ستاروں کی روشنی میں سورج کی طرح جگمگاتے چہرے ،روشن آنکھیں ، ملوک اور شہتوت کی ٹہنی جیسی پتلی اور لچکدار ویر کور کو دیکھتا جا رہا تھاجو بغیر کسی ڈر ،خوف اور ہچکچاہٹ کے ، تسلی سے اُس کے سامنے کھڑی تھی۔
’’اِس وقت اِدھر کیا کر رہی ہو ویر کور؟ ‘‘یہ بات بمشکل لکھی کو سوجھی۔اُسے کسی بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ویر کور اور لکھی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ ویر کور شیرے کی بہن تھی اور شیرے کی طرف لکھی کا دن رات آنا جانا تھا۔اکثر ویر کور کھانا دینے بھی آ جاتی اور پھر کئی دفعہ گھر حویلی اور رستے میں آتے جاتے لکھی کو سلام بھی کر لیتی اور کنواریوں والی شرم و حیا چھوڑ کر وہ لکھی کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھتی تھی۔ مگر آدھی رات کو گاؤں سے باہر عام رستہ چھوڑ ایک پگڈنڈی پر ویر کور کا ا?نا لکھی کی میں سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔
"ویر کور نے کہا، " میں نے ایک بات کرنی ہے۔‘‘
" تم نے میرے ساتھ یہ بات گھر میں کیوں نہ کی؟"
لکھی کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ کوئی خواب نہیں دیکھ رہا۔ " وہ بات گھر میں کرنے والی نہیں تھی۔ " تنگ اور چھوٹی پگڈنڈی پر ویر کور لکھی کے ساتھ ایسے جڑ کے کھڑی تھی کہ اس کی گرم سانس لکھی کو محسوس ہو رہی تھی اور اُس کے سینے کی خوشبو لکھی کے ناک میں سے ہوتی ہوئی اُس کے جسم میں گھل رہی تھی۔
"ویر کورے! تمھیں کیسے پتا تھا کہ میں نے اِِس تنگ پگڈنڈی سے گزرنا تھا۔"
"کئی دفعہ جب تم رات گئے اپنے گاؤں جاتے ہو تو سیدھے راستے کی بجائے کھیتوں میں سے ہو کر جاتے ہو۔‘‘ ویر کور نے بڑی دلیری سے بتایا۔
"تمھیں کیسے پتا ہے؟"
" میں نے کئی بار دیکھا ہے۔"
لکھی ایک بار پھر حیران ہو ا۔ لڑکیاں تو اللہ کی گائے ،سست ، بے زبان اور ڈرپوک ہوتی ہیں۔ "اب کیا بات ہے؟ "لکھی نے پوچھا اور پگڈنڈی سے اُتر کر کھیت میں کھڑا ہو گیا۔ اُس کے اور ویر کور کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو گیا۔ "بات کیا ہے؟ "
ویر کور کہنے لگی،" میرے بھائی کرنیل نے ساری زندگی ضائع اور برباد کر دی ہے۔میرا والد کرتار سنگھ جو ذیلدار تھا اور اُس کی بڑی عزت تھی مگر بھائی کی وجہ سے تھانے اور کچہری کے چکر لگا کر شرمندگی سے مر گیا"۔
’’شرمندگی کس بات کی ؟‘‘ لکھی نے بے صبری سے اُسے ٹوک دیا۔
" شرمندگی اس بات کی کہ اس کا بڑا بیٹا کرنیل ڈاکے مارنے لگ گیا اور پولیس روزانہ ہمارے دروازے پر آ کر بیٹھ جاتی اور میرے باپ کو پکڑ کر لے جاتی۔"
" میں نے سنا ہے" لکھی نے کہا۔
"اب وہ خود اُس راہ کو چھوڑ کر واپس پلٹ آیاہے تو وہ تمہیں اور شیرے کو اِس راستے پر چلانا چاہتا ہے۔تم اِس راہ اور اِس کام سے بچو۔"۔ ویر کور نے بڑی اپنائیت سے کہا۔
" میرا وہ راستہ نہیں ویر کورے ۔ میرا راستہ اور ہے۔" لکھی بے سمجھ سی لڑکی کی سمجھداری والی باتوں سے خوش ہو کر کہنے لگا۔
’’اور شانو!" ویرکور لکھی کے قریب ہو کر کہنے لگی۔ " شانو توسو بدمعاشوں کی ایک بدمعاش ہے۔ کئی گھروں کو اُجاڑ چکی ہے۔ بد بخت بندے کھانی۔" ویر کور
نے بڑی نفرت سے کہا۔ میں رات اس کی ساری باتیں سنتی رہی ہوں۔ "
"اچھا۔"لکھی حیران تھا کہ یہ لڑکی بے سمجھ نہیں تھی۔
’’ بندے کو تو وہ پل بھر میں اپنا بنا لیتی تھی اور پھر وہاں مارتی جہاں پانی بھی نہ ملے۔ اْڑنے والی سپنی ہے۔ نامرا۔د"ویر کور بڑی سیانی، بزرگوں والی باتیں کر رہی تھی۔پھر پوچھنے لگی،’’ تمھیں پتا ہے اُس نے کتنے قتل کیے اور کتنے گھر برباد کیے ہیں؟"
' ہاں ! میں اُسے بڑی اچھی طرح جانتا ہوں۔ "
لکھی معلومات میں ویر کور سے پیچھے کیسے رہ سکتا تھا۔" بس پھر اُس کی باتوں میں نہ آنا"۔ اُس دوران میں ویر کور کے سر سے دوپٹا اْتر گیا تھا مگر اُسے سر ڈھانپنے کا ہوش کہاں تھا۔ لکھی نے پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’ اچھا میری سمجھدار "بہن۔" ویر کور کے منھ سے ایک زوردار چیخ نکلی اور جلدی سے پیچھے ہو گئی، ایسے جیسے لکھی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی بجائے کوئی ناگ اُس کے سر پر رکھ دیا ہو۔
"کیا ہوا ؟"لکھی نے حیرانی سے پوچھا ۔
"بہن؟" ویر کور غصے سے کھولتی ہوئی بولی۔ " مجھے کبھی بہن نہیں کہنا۔ کبھی نہیں۔ میں تیری بہن نہیں ہوں۔ بے وقوف!"
"قسم سے ویر کور تو مجھے ماں جائی بہن لگتی ہے۔ شیرے کی بہن میری بہن کیوں نہیں؟"لکھی بے وقوف تھا ہنس کر کہنے لگا۔
ویر کور چیخ مارتی ہوئی پیچھے کی طرف بھاگی۔
’’ظالما !مورکھا! پاگلا!" اُس کے منہ سے یہ الفاظ چیخ کی صورت نکلے اور دور تک ویر کور کے اونچی آواز میں چیخنے کی آوازیں آ رہی تھی۔ پتھر بنا لکھی اُسی جگہ پر کھڑا تھا جیسے زمین نے اُس کے پاؤں پکڑ لیے ہوں اور وہ وہیں گڑ گیا ہو۔ اُسی دن صبح صادق کے وقت سردار کرتار سنگھ ذیلدار ننگلی والے کی بیٹی ، سردار کرنیل سنگھ اور شیرے کی لاڈلی ، سوہنی، اور کنواری بہن ویر کور نیلا تھوتھا کھا کر سوئی اور پھر کبھی نہ اْ ٹھی۔
vvvvv

گھر اور میلے بھرنے میں بڑی دیر لگتی ہے لیکن تباہ ہونے میں ذر دیر نہیں لگتی۔گندم کو کاٹنے کے بعد گہائی شروع ہو چکی تھی۔ پھر گندم کی اڑائی گئی اوراُس گندم کا بڑا سا ڈھیر لگایا گیا۔ اُس کو بوریوں میں بھر کر بڑا سا ڈھیر لگا کر منڈی میں لے جایا گیا۔ وہاں سے پیسے لا کر پورے سال کی ضرورتیں پوری کی گئیں۔ کچھ گندم کو گھروں میں بھڑولوں میں ڈال کر محفوظ کر لیا گیا اور پھر بھڑولوں کے منہ پر مٹی کا لیپ کر دیا گیا۔ تما م کسان خریف کی فصل کی بوائی میں مصروف ہو گئے۔انہی دنوں فوجا سنگھ کے دالان کاشہتیر ٹوٹ گیا۔تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے ؟ ایک دن ہنستا کھیلتا ،راضی باضی، مکھن تاروں کی روشنی میں ہل لے کر بیلے گیا۔ اُس نے بیلے جا کر دو اونچے کھیتوں میں ہل چلایا۔اُس دن جھنڈے نے نیا پیرا کی زمین میں ہل چلائے تھے۔ جب دیپو ناشتہ لے کر گئی تو مکھن ایک کھیت کا آدھا سینہ چیر چکا تھا۔ ہل روک کر اُس نے ناشتہ کیا۔ناشتے میں دیسی گھی سے چپڑی ہوئی روٹیاں ساتھ میں مکھن اچار اور پیاز تھا۔ کھانا کھانے کے بعد اُس نے لسی پی اور گھی والے ہاتھوں کو پنڈلیوں پر رگڑنے کے بعد مونچھوں اور داھڑی میں پھنسی ہوئی لسی کے قطروں کو صاف کیا۔اپنی ڈھیلی پگ کو کس کر باندھا اور پھر ہل چلانا شروع کر دے۔
دیپو نے پونے کو لپیٹ کر بنوں بنایا اور لسّی والا مٹکا سر پر رکھا اور مکھن کو راضی باضی ہل چلاتا چھوڑ کر گھر چلی گئی۔ نیا پیراسورج سر پر آنے تک مکھن ایک پورے کھیت کے سینے کو چیر چکا تھا۔ مکھن نے ہل کی جہنگی کو اُٹھا کر زمین سے اوپرکیا اور ولایتی ہل کے تیز چوڑے پھالوں سے بیلوں کو بچاتے ہوئے دوسرے کھیت میں لے گیا۔ کھیت کی وٹ پر اُس نے مٹی سے بھری ہوئی موٹی کھال کی اونچی ایڑی والی بھاری جوتی اُتار دی۔
اُس نے گندم کی جڑوں اور پوہلی کانٹوں کی پروا کیے بغیر ہل کے اوپر پاؤں رکھ کے کر زور لگا کر ہل کو زمین کے اندر گھسا دیا۔ جھنگی کے اوپر ہاتھ کا دباؤ ڈال کر بیلوں کو پچکاری ماری اور کھیت میں ہل چلانا شروع کر دیا۔ مکھن اپنے کام میں دوبارہ مصروف ہو چکا تھا۔بیلوں نے اپنا زور لگانا شروع کر دیا اور ہل کا چوڑا پھالا مٹی کے ڈھیلوں کو الگ الگ کرتا گیا اور کھیتوں کے اردگرد سیاڑبناتا گیا۔ پہلے سیاڑ کے ساتھ کچھ فاصلہ چھوڑنے کے بعد کے اُس نے ہل کی مدد سے دوسرا سیاڑ شروع کیا۔ اُسی طرح زمین میں ہل چلانے لگا۔ پھالوں کے آگے آتی ہوئی جڑی بوٹیوں کے اوپر پاؤں رکھتا گیا۔ اُس کو لگا کی پوہلی کے پودے کے کانٹے اُس کے پاؤں میں چبھ گئے ہیںلیکن اِس کے باوجود اُس نے کام جاری رکھا مگراگلا چکر پورا ہونے تک اُس کے پاؤں میں درد کی ایک شدید لہر اُٹھی۔پاؤں میں اُٹھتی ہوئی درد کے ساتھ اُس نے کھیت کے اردگرد ایک چکر مزید لگا لیا۔ لیکن اُس وقت تک درد اُس کی ٹانگ میں پہنچ چکا تھا اور اُس کے جسم میں درد کی وجہ سے آگ لگ گئی۔ اُس نے ہل کو روکا اور اپنے پاؤں کے آگے والے حصے کو مسلا اور درد والی جگہ پر تھوک لگایا۔پاؤں کا آگے والا حصہ جہاں پر کانٹا چبھا تھا وہ اب سرخ ہو چکا تھا اور سوجتا جا رہا تھا۔ اُس کے پاؤں کا درد بڑھتا گیا۔ اُس نے کچھ دیر کے لیے لکڑی کے ساتھ ٹیک لگائی لیکن درد بڑھتاہی گیا۔ اُس نے ہل چھوڑا اور بیلوں کو آگے لگا کر گاؤں کی طرف چل پڑا۔ دوپہر ہو چکی تھی اور گرمی زوروں پر تھی۔وہ ویسے بھی چھوڑنے ہی والا تھا۔ اُس نے لکڑی کے ساتھ مٹی سے بھرے ہوئے جوتے کو صاف کیا لیکن اُس کا سوجا ہوا پاؤں جوتے کے اندر نہ جا سکا۔ اُس نے سوجے ہوئے پاؤں والے جوتے کو ہاتھ میں پکڑا اور اپنی پگڑی کے ساتھ پسینے والے منہ اور مونچھوں کو صاف کیا۔
درد بڑھتا ہوا اُس کے پاؤں سے ٹانگ میں چلا گیا۔ وہ حوصلے اور ہمت کے ساتھ لنگڑاتا ہوا چلتا رہا۔ کچھ دیر بعد وہ رکا اور گرم مٹی میں اپنے پاؤں کو رگڑا۔اُس کو اس سے کچھ ٹکور محسوس ہوئی لیکن پاؤں کے درد میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ زبان کو دانتوں میں دبا کر اپنے گھر کی رہ چلتا رہا۔ گھر پہنچ کر بیلوں کی جوڑی کو کھولے بغیر مکھن چارپائی پر گر پڑا۔ شیر جیسا بیٹا چارپائی پر پڑا درد سے نڈھال تھا۔ پاؤں کی سوجن ٹانگ کو چڑھتی جا رہی تھی۔لکھی دوڑتا ہوا جانے نائی کے پاس گیا جو سمجھ دار آدمی تھا۔وہ زخموں پر کاغذی ،مرہم وغیرہ لگا لیتا تھا۔ جانے نائی نے غور سے پاؤں دیکھا ،ایک جگہ چھوٹا سا زخم محسوس ہوا جس کا منہ سرخ نظر ا? رہا تھا۔پھر اُس نیساری ٹانگ کو دھیان سے دیکھا اور کچھ دیر خاموش رہا جیسے وہ کچھ سوچ رہا ہو۔پھر اُس نے تاباں کی طرف منہ کرکے کہا " بھا بھی! دودھ اور گھی گرم کر کے لاؤ۔رب سچا خیر کر ے گا۔‘‘ تاباں میلے ڈوپٹے کے ساتھ آنسو صاف کرتے ہوئے گھی اور دودھ کا کٹورا بھر کر لے آئی۔لکھی اور جانے نے درد سے بے ہوش مکھن کو سہارا دے کر اٹھایا۔ تاباں نے کہا "بیٹا، ہوش کر و دردھ پی لو۔ ماں مر جائے"۔ مکھن نے بڑی مشکل سے دو چار گھونٹ دودھ پیا اور منھ موڑ لیا۔ اُس کی آنکھیں لال سرخ ہو گئی تھیں۔ اُس نے خالی خالی نظروں سے اِدھر ُادھر بیٹھے ہوئے لوگوں کو دیکھا جیسے اُن کو پہچان رہا ہو۔فوجا سنگھ سر کو جھکائے ساتھ والی چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا۔دیپو بپاؤں کی طرف دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی پتا نہیں کیا سوچ رہی تھی۔جانے نائی نے پیڑھی سردار فاجا سنگھ کی چارپائی کے قریب کر کے جھنڈے اور لکھی کو نزدیک آنے کا اشارہ کیا۔درد سے بے ہوش پڑے مکھن نے درد بھری آواز میں کہا،" ہائے میری ٹانگ گئی۔"
دیپو کا سارا جسم کانپ گیا۔ تاباں کا کلیجہ کسی نے مٹھی میں لے لیا۔ وہ دکھ سے نڈھال ہو کر مکھن کی چارپائی کے قریب زمین پر بیٹھ گئی، جیسے گر گئی ہو۔ حوصلہ کر تاباں بہن۔ سچے بادشاہ نے سب ٹھیک کر دینا ہے"۔ جندا ں نے اپنی چادر کے ساتھ مکھن کے منہ سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا۔
’’ مکھن کا جسم بخار میں سلگ رہا ہے۔" جوان اور کمانے والے بیٹے کی ماں کس طرح حوصلہ کر سکتی تھی؟ وہ دکھ سے نڈھال تھی۔" میرے خیال میں سردار مکھن سنگھ کو کوئی تنکا چبھ گیا ہے۔" جانے حجام نے آہستہ سے لوگوں کو بتایا مگر تنکا چبھنے سے نہ تو سوجن ہوتی ہے اور نہ ہی بخار ۔پھر جیسے اپنے آپ سے باتیں کرتے کہنے گا "کیڑا۔۔۔۔۔۔"
"راجہ ! کیا کہہ رہے ہو؟"
فوجا سنگھ نے خوف زدہ ہو کر پوچھا۔’’کچھ نہیں میں نے کہا ہے کہ بیلے سے کسی کیڑے مکوڑے نے نہ کاٹ لیا ہو۔جانے نے آہستہ سے کہا کہ کہیں عورتیں نہ سن لیں۔
"کیڑا ؟ مطلب سانپ؟ "لکھی نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔
’’اِِس علاقے کے سانپوں کو تو بابا گرونانک نے مچھلیاں بنا دیا تھا۔ آپ نے سنا نہیں کہ اِس علاقے کے سانپوں کا زہر بابا گرونانک نے ختم کر دیا تھا۔‘‘جانے نے اپنے علم سے سرداروں کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔"
’’ سنا تو ہے۔ لیکن اِس کا کوئی دوا دارو تو ہو گا ؟"فوجا سنگھ نے کہا۔" اگر یہ کیڑا ہی ہے تو اِس کی دوا بھلے گاؤں سے ہی ملے گی۔‘‘
’’سردار جی جتنے مرضی زہریلے سانپ نے کاٹا ہو بھلے گاؤں سے آرام آ جاتا ہے۔‘‘
’’وہاں سے کچی ڈھیری کی مٹی لے کر مٹی کو مٹی کے کورے برتن میں بھگو کر پانی پلاتے ہیں اور برتن میں نیچے بیٹھی ہوئی چکنی مٹی کا زخم پر لیپ کر دیں تورب سچا مہربانی کر دیتا ہے۔‘‘
جانے نے ایک مرتبہ پھر اپنے علم سے اُنہیں تسلی دینے کی کو شش کی لیکن مکھن کو اِس حالت میں بھلے گاؤں کیسے لے کر جائیں؟۔ فوجا سنگھ جیسے اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے بول رہا تھا۔ "لیکن بھائی جان محمد! یہ کیڑے والی بات ہی ہے نا؟ "
"نہیں جناب!پکی بات کا مجھے بھی نہیں پتا۔سچ پوچھتے ہو تو بات میری سمجھ سے باہر ہے۔سردار جی ! حکیم لبھورام بہت سمجھدار ہے پھر اُس کو بلا لیتے ہیں۔" جانے نے کہا۔
اور لکھی لبھورام کا نام سنتے ہی ایسے اٹھا جیسے نیند سے جاگا ہو۔ اپنی ڈھیلی پگ کو سر پر باندھتے ہوئے ہوا کی طرح دوڑتا ہوا حویلی چلا گیا اور جاتے ہوئے کہہ گیا" میں حکیم کو لے کر ابھی آتا ہوں "۔وہ بغیر کاٹھی کے گھوڑے پر سوار ہو کر پانچ میل دور حکیم لبھورام کے پاس پہنچ گیا۔ جب لکھی حکیم لبھو رام کو لے کر آیا تو شام ہو چکی تھی۔واپس تو شاید وہ جلدی آ جاتا لیکن گاؤں میں اُسے حکیم نہ ملا۔اپنے گاؤں سے کوئی دو میل دور کسی بیمار کو دیکھنے گیا ہوا تھا۔
حکیم بوڑھا اور کمزور تھا۔ اُس نے اُسے گھوڑے پر بیٹھایا اور آرام آرام سے آتے ہوئے رات ہو گئی۔ دیپو نے سرسوں کے تیل کے دیے کے علاوہ روشنی کے لیے مٹی کا دیا بھی جلادیا۔مکھن بے ہوش تھا اور سوجن اُس کے سارے جسم تک پہنچ چکی تھی اور منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔حکیم نے غور سے دیکھا اور سر ہلایا، زہر سارے جسم میں پھیل چکا تھا اِس لیے مکھن حکیم کے علاج سے باہر تھا۔ نواب ،اندر اور کئی دوسرے آدمی پاس بیٹھے تھے اور عورتیں بھی کچھ دور گھنڈ نکال کر بیٹھی تھیں۔تاباں بیٹے کی چارپائی کے پاس بیٹھی غم سے نڈھال تھی۔دیپو بے ہوش بھائی کاہاتھ پکڑ کر ایسے بیٹھی تھی،جیسے اُسے ڈر ہو کہ بھائی کہیں چلا نہ جائے۔ حکیم نے کوئی دوا پانی میں حل کر کے مکھن کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی۔مگر ساری دوائی منہ سے باہر نکل آئی۔ حکیم نے پھر دوائی پانی میں ملا کر لکھی اور جھنڈے کی مدد سے بے ہوش مکھن کے منہ میں زبردستی ڈال دی۔ مکھن درد اور تیز بخار میں ترپ رہا تھا،" میرے اندر آگ لگی ہوئی ہے۔" اُس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’زہر سارے جسم میں پھیل چکا ہے اور بہت دیر ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
حکیم نے ایک اور دوائی بناتے ہوئے اپنے آپ سے یا لوگوں سے کہا۔وہ مکھن کو بچانے کے لیے اپنا پورا زور لگا رہا تھا۔ آدھی رات کو مکھن کی جان نکل گئی۔ مکھن کی بیوی زارو قطار روتی ہوئی مکھن کے اوپر گر گئی جیسے وہ جاتے ہوئے مکھن کو روکنے کی کوشش کر رہی ہو۔ تاباں نے سر سے چادر اتار کر پھینک دی اور سینہ پیٹتی ہوئی گر پڑی۔ " میرا تو کچھ نہیں رہا۔ لوگو! میں برباد ہو گئی ہوں۔" اُس کی آہ و پکار دالان کی چھت پھاڑ کر آسمان تک جا رہی تھی۔ دیپو نے اپنا سر دیوار کے ساتھ مارا اور مکھن کے اوپر گر کر بے ہوش ہو گئی: جیسے مر گئی ہو۔ مردوں میں بیٹھا ہوا فوجا سنگھ بیٹے کی موت کا سن کر بیٹھا، پیچھے جا گرا۔ پھر وہ جوان لڑکوں کی طرح چھلانگ مار کر اُٹھا اور روتا ہوا آ کر بیٹے کی لاش پر جاگر ااور روتے ہوئے بولا، "اے دشمن کہا جا رہا ہے ؟ہمیں چھوڑ کر ۔‘‘ایسے لگا جیسے فوجا سنگھ نے پورا زور لگا کر جاتے ہوئے مکھن کو آواز دی ہو۔لکھی اور جھنڈے نے روتے گرتے فوجا سنگھ کو اٹھا کر چارپائی پر لا بیٹھایا۔اندر، نواب اور دوسرے سارے مرد اور عورتیں مکھن کی جوان موت پر زارو قطار رو رہے تھے۔ اندر نے روتے ہوئے کہا: ’’اے جوان !چلے تم گئے ہو۔ جانے کے دن ہمارے تھے۔ بڑی زیادتی کی ہے تم نے ہمارے ساتھ۔بہت دھروںکر کے چلے گئے ہو۔‘‘
vvvvv

مرنے والوں سے زندہ کا دکھ زیادہ ہوتا ہے۔ دیپو یہ بات لکھی کو کہا کرتی تھی جب وہ اپنے باپ کو یاد کر کے روتا تھا اور اُس کا بدلہ نہ لے سکنے پر کڑھتا تھا۔ تب دیپو کی یہ بات کبھی لکھی کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ مگر مکھن کے مرنے کے بعد پیچھے رہ جانے والوں کا غم اور دکھ دیکھ دیکھ کر اُسے دیپو کی یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آگئی۔ واقعی بالکل سچ ہے کہ مرنے والوں سے زندہ کا دکھ زیادہ ہوتا ہے۔
مرنے والا تو پَل دو پَل دکھ سہہ کر چلا جاتا ہے مگر پیچھے رہ جانے والوں کو زندہ درگور کر جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ پیچھے رہ جانے والے ویسے تو زندہ لوگوں میں شمار ہوتے ہیں مگر گیلے اُپلوں کی طرح سلگ سلگ کر راکھ بن جاتے ہیں۔
پہاڑ جیسا حوصلہ رکھنے والا فوجاسنگھ بوڑھا جس نے ساری زندگی بڑی مشکل اور دشوار گزاری تھی مگر پھر بھی جواں ہمت تھا۔ جوان بیٹے کی موت کے بعداُٹھنے کے قابل بھی نہ رہا۔ دِ نوں میں اُس کے کندھے جھک گئے اور وہ کبُا ہو گیا۔ وہ لاٹھی کے بغیر چل بھی نہیں سکتا تھا۔ چند دنوں میں اُس کی ڈھول کی طرح تنی ہوئی جلد ڈھیلی پڑ گئی اور اُس کی ہڈیاں اُس کی جلد سے علیٰحدہو گئیں۔ُاسے بالکل چپ لگ گئی اور وہ ننگے سر حیران،پریشان کھیس میں منہ سر لپیٹ کر خاموشی سے لیٹا رہتا ۔ مہینے ڈیڑ ھ کے بعد بوڑھا زمیندار ایک دن بیل لے کر بیلے گیا اور کھیتوں میں ہل جوت لیا۔ مکھن سے مانوس اُس کا ہاتھ پہچاننے والے بیل ،ڈولتے قدموں سے پیچھے آنے والے فوجا سنگھ سے کیسے قابو آتے ؟ فوجا سنگھ سے اپنا پاؤں اُٹھا کر آگے نہیں رکھا جاتا تھا ۔وہ بیلوں کی رفتار کا ساتھ کیسے دیتا؟ ہل چھوڑ کر اپنا سر پکڑ کر کھیت میں بیٹھ گیا۔لکھی نے پیار سے فوجا سنگھ کو بازو سے پکڑ کے اُٹھایا اور لا کر کھیت کی وٹ پر بیٹھا دیا اور کہا:
"مجھے اِس لیے پالا تھا کہ میرے زندہ ہوتے ہوئے تم اپنی ہڈیاں رولتے پھرو چاچا!میں زندہ ہوں۔" فوجے کے دُکھ سے روتے لکھی نے مکھن کے ہل کی جہنگی کو پکڑ لیا۔ پہاڑ سے بھاری وزن فوجے کا بڈھا اور کے دکھوں کامارا جسم نہیں اْٹھا سکتا تھا۔ وہ غم کی بھاری گٹھڑی لکھی نے ہنس کر اٹھا لی۔ یاروں سے میل میلاپ،میلے ٹھیلے چھوڑ کر دنیا جہاں سے منہ موڑ کر لکھی نے مکھن کا سارا کھیتی باڑی کا کام سنبھال لیا۔
’’چاچا!میں مکھن نہیں بن سکتا۔" خاموشی سے لیٹے فوجاسنگھ کے پاس بیٹھ کر لکھی کبھی کبھی کہتا،" اور نہ میں بھائی مکھن کو واپس لے کر آسکتا ہوں مگر گورو کی قسم میں تمہیں بھی اُس کی کمی محسوس ہونے دوں تو مجھے وریام کا بیٹا نہ کہنا بلکہ کسی چوہڑے کا بیٹا کہنا"۔
فوجا سنگھ کہتا،’’ بیٹا !تم میرے لیے مکھن جیسے ہی ہو۔" اور پھر لکھی کا بازو پکڑ کر اُسے پاس بیٹھا لیا اور کہا "جیتے رہو ۔ تم تو مکھن سے بھی اچھی کھیتی باڑی کرتے ہو۔ مال مویشی بھی پہلے سے صحت مند ہیں اور ہاڑی ساونی کی پیداوار بھی پچھلے سال سے زیادہ ہے۔" لکھی جس نے چھو ٹے موٹے کام کے علاوہ کبھی بھی کھیتی باڑی کا کوئی کام نہیں کیا تھا وہ مٹی کے ساتھ مٹی ہو گیا۔ اُس کے بوسکی کے کرُتے، لٹھے کی کڑکڑاتی چادریں ،سچے تِلے والی ساری جوتیاں، کلف لگی ماتھے پر باندھی ہوئی شملے والی ٹیرھی پگڑی ،ہاتھ میں ہروقت چمکتے پھل والی چھوی اورنیچے نہایا دھویا، سجاہوا گھوڑا ،سب لوگوں کو ایک خواب اور خیال کی باتیں محسوس ہوتی تھیں۔
میلے کچیلے کپڑے پہنے ،سر پر میلی سی پگ، موٹی کھل کا بھار ی جوتا پاؤں میں پہنے ہوئے سارا دن کام کاج میں مصروف جٹ رْل گیا لیکن وہ خو ش تھا۔مکھن کا سارا کام اْس نے مکھن بن کر سنبھال لیا۔ رات کو وہ حویلی میں فوجا سنگھ کے پاس سوتا تھا کیونکہ مکھن کی موت کے بعد فوجا سنگھ حویلی میں سونے لگا تھا۔ باہر کی دنیا سے لکھی کے سارے رشتے ناطے ٹوٹ گئے۔ چر اغ تو تاباں کا بجھا تھا، باقی گاؤں اْسی طرح قائم دائم تھا۔ دائرے کی رونقیں بھی ویسی ہی تھیں۔ بوڑھے پہلے کی طرح ہی گرمیوں کی لمبی دوپہر یں پچھلے دنوں کی باتیں کر کر کے گزار دیتے تھے اور لڑکے موج مستیوں میں مصروف رہتے اور بوڑھوں کی باتیں سنتے اور آنے والے وقت کے خواب دیکھتے مگر اِدھر اْدھر کی باتوں کے بعد ٹھنڈی میٹھی ہوا کے جھونکے کی طرح مکھن اُن کی باتوں میں آ جاتا اور ہر ایک کو اُداس کر جاتا۔کوئی کہتا یارو !مکھن ہیرا تھا ہیرا۔ کبھی کسی کو اُس نے برا بھلا نہ کہا۔ بالکل گائے تھا۔ بھلا مانس ، بہت کام کرنے والا۔ صاف ستھری کھیتی باڑی کرنے والا جوان تھا۔ دوسرا پاس سے بولتا :بیٹے کی موت نے تو فوجے کی کمر ہی توڑ ڈالی ہے۔ "ہاں بھئی!‘‘ کوئی اور کہتا،" بڑھاپے میں جوان بیٹا ہاتھ میں پکڑی ہوئی لاٹھی کی طرح سہارا اور آنکھوں کی روشنی ہوتا ہے۔اگر وہ نہ رہے تو پیچھے کچھ نہیں بچتا انسان کے پاس۔بڑا حوصلہ ہے فوجا سنگھ کا جو ابھی تک صحیح سلامت چل پھر رہا ہے۔" بات آگے بڑھتی ہوئی لکھی تک جا پہنچتی۔کوئی کہتا" بھئی! سچی بات پوچھو تو پکا یقین تھا کہ لکھی دس نمبر کا بد معاش بنے گا یا بہت بڑا ڈاکو۔اللہ نے اِس جوان کو کیاشے دی تھی ۔عقل ، شکل، ہاتھ پیر اور حوصلہ۔ابھی تو ننگلی والوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے ہی لگا تھا۔ اگر اُس راستے پر چل پڑتا تو بڑا نام کماتا مگر دیکھیں ر ب کے رنگ اُسے کیسے عقل آگئی ہے؟ اتنی اچھی کھیتی باڑی کرتا ہے۔ فوجا سنگھ کا سارا بوجھ اُس نے اُٹھا لیا ہے ور نہ کون کسی کے لیے اپنے آپ کو اسطر ح مار لیتا ہے۔ بھئی جوانو!یہ بہت بڑی بات ہے۔ہے نا؟ اور آگے سے کوئی بولتا،" فوجا سنگھ نے بھی وریام کے بعد دوستی نبھا کر دکھا دی تھی اپنی ساری عمر ضائع کر دی ۔ اکیلا آدمی اور دو گھروں کی کھیتی باڑی اور پھر اُس کے بیٹے بھی پال دیے۔" درمیان میں کوئی بوڑھا سیانا بولتا،" انسان نے انسان کو کیا پالنا ہوتا ہے۔یہ سب تو کرتار خود کرواتا ہے۔ انسان کا تو بس نام ہوتا ہے۔ نہ سمجھو !"
’’لو اور سن لو اِس کی بات؟ ارے بابا !کبھی تمھارا کر تا ر تمھارے پیچھے ناشتہ لے کر آیا ہے ؟ اور کبھی اُ س نے آکے تمھارے ہل بھی چلائے ہیں بندہ ہی بندے کے کام آتا ہے۔تم ہر بات میں کرتا ر کو شامل کر لیتے ہو؟ "اور کوئی سر پھیرا جٹ بولتا۔ پہلا بات پیچھے کی طرف لے جا کر کہتا۔ ’’ سچی بات ہے۔ آج کل کون کسی کی نیکی یاد رکھتا ہے مگر وریام سنگھ کے بیٹے کا یہی حق بنتا تھا جو آج لکھی کر رہا ہے۔" پھر سے وریام کی باتیں شروع ہو جا تیں اور پھر سے کوئی سیانا پچھلی ساری باتیں نکال کر باہر رکھ دیتا اور کہتا" بھئی! میرا تو اندازہ ہے کہ فوجے نے لکھی کو رشتہ بھی دے دینا ہے۔" کوئی اور کہتا ! "ہو سکتا ہے بھئی اور یہی عقل مندی ہے۔فوجے کا گھر بھی آباد رہے گا اور مکھن کا بیٹا بھی پل جائے گا۔"پچھلا پھر کہتا " میں نے کہا تھا نا ؟ بندہ ہی بندے کے کام آتا ہے۔ عقل مند بھائیو!‘‘ایسے میں ہی ایک نے دوسرے سے کہا تھا :
"رب ورگا آسرا تیرا
وسدا رہو مترا"
ننگلی والی ویر کور کی موت نے لکھی کے اندر پہلی دراڑ ڈال دی تھی۔ ویر کور کی موت پر لکھی بڑے دن خاموش سا،خوف زدہ سا اور اداس سا رہا۔ سارا دن اِدھر ادھر گھوم پھر کر گزارتا اور رات کو بھی باہر ہی رہتا۔کبھی وہ اپنے آپ کو ویر کور کی موت کا ذمہ دار سمجھتا اورکبھی اُسے پاگل قرار دیتا۔اور وہ تھی بھی پاگل سی۔ ساری دنیا سے انوکھی اور بڑی آن اور شان والی ، اُس جیسی آن بان والی رانی کسی بادشاہ کے محل میں ہوگی۔ لکھی کے دوست احباب اور سجن یار اُس کے اِس طرح چپ چاپ اور خاموش رہنے پر حیران ہوتے۔
احمد خان نے ایک دن لکھی کو کہا بھی : " بھائی! تمہارے اندر کیا ہے جسے تم اندر ہی اندر دبا رہے ہو ؟"
" دھرم کی قسم کچھ بھی نہیں۔"
لکھی جھوٹی قسم کھا جاتا۔
ویر کور کی موت کے اگلے دن ہی دیپو نے اُس کو آن پکڑا۔دیپوسے اُس کی اُداسی اور چپ نہ دیکھی گئی تو ہمیشہ لکھی کے پسینے کی جگہ اپنا خون گرانے کو تیار ہوتی۔ لکھی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگی۔
" لکھی تمہیں کیا ہوا ہے ؟ "
" کچھ نہیں "۔
" ارے ویر کور کے مرنے کا تو مجھے بھی بڑا دکھ ہوا ہے۔ کتنی اچھی ،گڑیا جیسی لڑکی تھی۔"
لکھی نے کوئی جواب نہ دیا۔
دیپو نے اُسے مزید کریدا۔
" تم تو روز ننگلی جایا کرتے تھے اُن کے ہاں۔ تمہاری تو بڑی آؤ بھگت کر تی ہو گی ؟‘‘
" پھر؟"لکھی نے بے زاری سے پوچھا۔
" پھر تمھیں تو اْس کے مرنے کیابڑاصدمہ پہنچا ہے۔ "
"ہاں ۔"
’’لکھی ایک بات تو بتاؤ اْس نے زہر کیوں کھایا ؟"دیپو نے ایک دم سیدھا حملہ کیا۔اُس کی تو کبھی کوئی بات بھی نہیں سنی تھی ۔‘‘
دیپو جانچتی ہوئی نظروں سے لکھی کو اندر تک پڑھ رہی تھی۔ لکھی نے آنکھیں دوسری طرف کر لیں اور آہستگی سے کہنے لگا۔" دیپو! مرنے والوں کو برا نہیں بولتے۔"
’’میں نے اْسے برا کب کہا ہے " دیپو بولی،" دھرم سے لکھی ! میرا دل کہتا ہے کہ تمھیں اُس راز کا پتا ہے اور میں کسی دن تمہارے اندر سے اِس راز کا کھوج نکال لوں گئی۔"
مگر جیسے تھوڑا درد زیادہ کے سامنے اور چھوٹا دکھ بڑے کے سامنے دب جاتا ہے، اسی طرح ویر کور کی موت کا دْکھ مکھن کی موت کے بڑے دْکھ کے نیچے دب گیا۔ لکھی کومکھن تو اپنے بھائی جھنڈے کی طرح تھا، بلکہ اِس سے بھی بڑھ کے۔ مکھن ہمیشہ لکھی کو سگے بھائیوں کی طرح سمجھتا تھا۔ مکھن کی موت پر تو شمنوں کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے ہوں گے۔لکھی کو کبھی تو یہ لگتا کر اْسکے اپنے جسم کا ایک حصہ مر گیا ہے اور کبھی پیچھے رہ گئے، مر نے والوں سے بھی زیادہ شدید زندہ لوگوں کے دْکھ میں لکھی کو محسوس ہوتا کہ وہ خودمر گیا ہے۔ مکھن کے سب پیارے ،باپ،ماں، بہن ، بیوی اور گھر کی ہر چیز گھر کے مال مویشی ،گھر کی کھیتی باڑ ی ، سب کو مکھن کے جانے کی بڑی کمی محسوس ہوئی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ،سوچ کر لکھی کا دل بہت دکھتا۔ لکھی سے اُن کا دکھ نہ دیکھا جاتا تھا۔ ہر ایک کا حال دوسرے سے بْرا اور قابل رحم تھا۔
لکھی کو کچھ سمجھ نہ آتی کہ وہ کیا کرے ؟ اگر انسان ایک دوسرے سے موت بدل سکتا تو وہ ہنسی خوشی مکھن سے موت بدل لیتا اور اُس کی جگہ خود مر جاتا ۔ایک بار نہیں بلکہ سو دفعہ ایسا کرتا مگر ہر کسی نے اپنی اپنی زندگی جینا ہے، اپنے حصے کے دکھ سہنے ہیں اور اپنی موت مرنا ہے۔ پھر بھی بلند حوصلے والے،جرأت والے ، بہادر اور جوان آدمی دوسروں کے دْکھ ہنسی خوشی اپنے سر لے لیتے ہیں ، دْکھوں کے اِس سیلاب میں بہتے ہو ئے فوجا سنگھ، تاباں، دیپو، تارو اور مکھن کے دو سال عمر کے بیٹے رتو کو لکھی پکڑتا، آسرا دیتا، تیرتا اور خود بھی ڈوبتا چلا جاتا۔ اْس وقت لکھی کو پتا لگا کہ کیسے زندہ لوگوں کا دْکھ مرنے والوں کے دکھ سے زیادہ ہوتا ہے مگر برا وقت ابھی بھی اْن کے سروں سے نہیں ٹلا تھا۔
مکھن کے مرنے کے ڈیڑھ سال بعد ایک اور بہت بڑا سیلاب آیا ، ا یک اور اندھی آندھی آئی۔ کوئی اور ایک دفعہ پھر جٹ کی مرلی کو آگ لگ گئی۔ ایک بار پھرفوجے اور وریام کے گھروں پر تقدیر نے حملہ کر دیا۔ دیہات میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں اچھے بھی اور بر ے بھی، دوست بھی اور دشمن بھی۔ اِس طرح کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہر کسی کا بھلا سوچتے ہیں ۔ سب کی خیر مانگتے ہیں اور کچھ اِس طرح کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو اُلو کی طر ح بارہ بارہ میل تک اْجاڑ مانگتے ہیں اور جو تیلی لگا کر تماشا دیکھنے کے شوقین ہوتے ہیں۔
دوآبے میں ایسے کئی لوگ تھے جو امن و امان اور سکھ نہیں بلکہ اْجاڑما نگتے ہیں ، جو دوسروں کے تنکوں کو تیلیاں لگا کر آگ تاپتے اور خوش ہوتے تھے۔ اُس دن بھی دائرے میں بیٹھے کسی اسی طرح کے انسان نے تیلی لگا دی ساتھ ہی دو دْکھی گھر جو پہلے ہی اجڑے ہوئے تھے، انہیں بھی جلا کر راکھ کر دیا۔
"واہ بھئی واہ !‘‘تیلی لگانے والے نے کہا " فوجے کی عقل کی داد دینی پڑے گی پہلے وریام کے بعدساری عمر اُس کے گھر کو کھاتا رہا ہے اور اب اْس کے بیٹے کو کھا رہا ہے۔ ایسے اُس کو اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے۔"
اِس کے بعد کسی بزرگ نے جواب دیا۔
" میرے بھائی ! پنچایت میں بیٹھ کر بڑی انصاف کی بات کی ہے ؟ فوجابچارا نہ زندوں میں شامل ہے نہ مردوں میں۔ اْس نے وریام کے بعد اْس کا ملازم بن کر ساری عمر گزاری دی ہے۔اب اْس کے بْرے وقت میں اگر چار دن وریام کے بیٹے لکھی نے اْس کی ذمہ داری اُٹھا لی ہے تو کون سی آفت آگئی ہے؟ اور پھر میرے بھائی! دکھ سکھ تو ہر کسی کے ساتھ ہیں۔ انسان کو مشکل وقت میں دوسرے کا بازو تھام لینا چاہیے۔ و اہگوروسچی سرکار سب پر اپنی خیر کرے۔ بڑھاپے میں جو دکھ فوجے کو ملا ہے وہ کسی دشمن کو بھی نہ ملے۔شیر جیساجوان بیٹا دنیا چھوڑ کر چلا گیا ہے پھر جوان بیٹی اور جوان بہو گھر بیٹھی ہیں ! پہاڑ جیسی لمبی زندگی سامنے پڑی ہے۔ فوجا کون سا زندوں میں شمار ہوتا ہے۔ ارے اْس اوپر والے سے ڈرا کرو۔"
’’لکھی کی تو موج ہو گی ؟‘‘ تیلی لگانے والے نے ایک طرف سے پھر دانا پھینکا اور راجندرے نے اٹھا لیا۔سوداگر ے کے بے وقوف بیٹے راجندرے نے بغیر سوچے سمجھے کسی کے پھینکے دانے کو منہ مار لیا۔ اپنی بھی بربادی کر لی۔
" بھائی شکل اچھی نہ ہو تو بات تو اچھی کرنی چاہیے۔"بزرگ نے کہا " لکھی بے چارے کی موج کیسے ہوگئی۔سخت مشقت میں پھنسا ہے بچارا۔"
’’ٹھیک ہے چاچا۔"راجندر ہنستا ہوا مزے لے لے کر چاروں طرف سننے والوں کو دیکھ کر کہنے لگا۔" پہلے لکھی کے فوجے کی بیٹی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔ اب اُس کی بہو بھی مل گئی ہے۔ہے نا اْس کی موج یا نہیں ؟ "
کسی نے غصے اور دْکھ سے کہا ،
" اْس نیلی چھت والے سے ڈرو!بڑے پھنے خانو۔"
لکھی نے آگے سے اور کچھ نہ سنا اور نہ اْس سے کچھ سنا جاتا تھا۔ اْس کے اندر اٹھنے والی آندھی نے اُسے اندھا اور بہرہ کر دیا۔ راجندر دشمن اور بات بہن ، بیٹی کی۔ اور وہ بھی دن دیہاڑے دائرے لوگوں میں بیٹھ کر !لکھی کو اِس بات پر شدید طیش آیا۔اْس کے اندر قہر و نفرت و غصے کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ مکھن کی کھیتی باڑی میں پڑ کر وہ لڑائی جھگڑوں سے بچتا تھا۔ چھوٹی بات کو تو نظر انداز کر دیا کرتا تھا مگر را جندر ے کی بات تیروں کی طرح اُس کے آر پار ہوگئی۔ اُْس کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا اور کانوں میں آندھی کی شاں شاں سنائی دینے لگی۔ درانتی ہاتھ سے پھینک کر پیچھے کھڑے گڈے کا منّا کھینچ کر وہ مست اونٹ کی طرح بلبلایا۔
"او ئے تمھاری کنواری لڑکیاں نکال لاؤں۔راجندر!"
راجندر نے لکھی کو تیزی سے موت کی شکل میں آتے دیکھا۔ لوگ ڈر کر اِدھر اُدھر بکھر گئے۔ راجندر چھلانگ مار کر اُٹھا۔لکھی اْس کے سر پر پہنچ کر ایک دفعہ پھر للکارا جسے سارے گاؤں والوں نے سنا۔ ’’آج میں سوداگرے کی پوری نسل ختم کر دوگا۔"
راجندرے کے لاٹھی سنبھالنے سے پہلے ہی لکھی نے ایڑھیاں اٹھا کر پورے زور سے اْسکے تالو میں منّادے مارا اورکچے برتن کی طرح راجندر ے کے سر کو مسل دیا۔اُس کے سرکا پٹاخہ دور تک کا نپتے ، بھاگتے لوگوں نے سنا۔ راجندر چار چار انچ ز مین میں گڑ گیا اور لکھی کے ہاتھ میں مناں بھپتی بھپتی ہو گیا۔ راجندرا اونچی سانس نکالے بغیر کٹے ہوئے درخت کی طرح منہ کے بل زمین پر آ گرا۔
منے کا ٹکڑا پھینک کر لکھی نے راجندر ے کی لاٹھی پکڑ لی اور ساتھ ہی سوداگر کے گھر کی طرف منہ کر کے بھوکے بگھیاڑ کی طرح دانت پیس کر پورے زور سے للکارا۔
"بات شروع کر دی ہے تو باہر آ جاؤ بڑیبدمعاشوں ! میں تم کو اپنا کھیل دکھاؤں۔ میں تمہاری کنواری لڑکیاں نکال لاؤں گا،سود گرا" راجندرے کی لاش پر لکھی کتنی دیر اْس اجاڑاور سنسان دائرے میں کھڑا رہا۔ گاؤں کے گھروں کے دروازے بند ہو گئے۔ ایک پل میں جو ہوا اْس کا سارے گاؤں کو پتا لگ گیا ۔ چاند نکلے تو ہر کوئی دیکھ لیتا ہے۔ جب اندھی بہری آندھیاں آئیں تو مائیں کب اپنے بچوں کو باہر نہیں نکلنے دیتی ہیں؟
بھائیوں سے بڑا کوئی رشتہ نہیں، سر پر لگنے والی چوٹ سے بڑی کوئی چوٹ نہیں اور بیٹی کی گالی سے بڑی کوئی گالی نہیں۔ مگر پھر بھی سوداگر سنگھ کے خاندان میں سے کوئی بھی اُس وقت گھر سے باہر نہ نکلا۔
vvvvv

قتل کا مقدمہ اور بیماری گھروں کے گھر اُجاڑ دیتی ہے۔ دونوں طرف سے پیسے پانی کی طرح بہائے گئے ۔سوداگر کی اولاد نے جھنڈے اور لکھی کو پھانسی لگوانے کے لیے اور فوجا سنگھ اور جنداں نے اپنے بیٹوں کی ہتھکڑی کھلوانے کی بھرپور کوشش کی۔
لکھی اور جھنڈے پر اُس کے دشمنوں نے زبردست قسم کا مقدمہ دائر کروایا۔ قتل کے اُس مقدمے میں وہ فوجے کا نام بھی شامل کروانا چاہتے تھے لیکن سوداگر کی بیوی اُس بات پر رضا مند نہ تھی۔ اُن کے کچھ ہمدردوں اور چاہنے والوں نے بھی یہی مشورہ دیا:
" وہ تو پہلے ہی مصیبتوں کا مارا ہوا ہے اور اب تم نے اُسے کیا مارنا ہے؟ ویسے بھی اپنا پرچا خراب نہ کرو"
سوداگر کا بڑا بیٹا جو نمبردار بھی تھا، کہتا:
" دشمن گر قابو میں آ جائے تو اُسے زندہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔"
"نہیں نہیں بیٹا! پلے مرے کو کیوں ماریں۔"
سردارنی شاید خود مرنے کے قریب تھی اِس لیے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
رات کو پولیس نے چھاپہ مارا تو اردگرد کے دیہات کے لوگ بھی آئے اور دو آبہ گاؤں کے سارے لوگ بھی جمع تھے۔تھانیدار نے سارے لوگوں سے الگ الگ تفتیش کی تو ہر ایک نے یہی بتایاکہ جھنڈا لڑائی میں موجود نہیں تھا۔ وہ تو اُس وقت گاؤں سے باہر دو میل دور اپنی زمینوں پر تھا۔ سردار کرنیل سنگھ ننگلی والے نے تھانیدار کے ہاتھ سے ہاتھ ملایا اور تھانیدار دو ہزار روپے لے کر جھنڈا کو مقدمے میں بے گناہ کرنے کے لیے راضی ہو گیا۔
"لیکن وہ بے گناہ عدالت جا کر ہی ہو گا۔"
تھانیدار نے کرنیل سنگھ کو سمجھایا مگر کرنیل سنگھ ایسے کاموں میں تھانیدار سے بھی زیادہ جانتا تھا، مسکرا کر کہنے لگا:
" جناب عالی ! اِدھر بھی آپ نے ہی بے گناہ کرنا ہے اور عدالت میں بھی آپ نے ہی بے گناہ کروانا ہے۔"
فوجا،نواب نمبردار، کرنیل سنگھ، اندراور شیرا دائرے سے اُٹھ کر حویلی آ کے کچھ مشورہ کرنے لگے۔جنداں آ کر اُن کے پاس کھڑی ہو گی اور کہنے لگی:
" چاہے تو میری ساری زمین بیچ دو ،سارے مال مویشی اور زیورات تک فروخت کر دو لیکن مقدمے کی پیروی میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے۔ مجھے اپنے بیٹوں سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں۔ "
" فوجے نے دھیمی سے آواز میں کہا: " بہن جنداں کورے!پیسے اور زمین بہت ہے میرے پاس۔ بس اللہ کی رحمت ہونی چاہیے۔ وہ بہتر کرئے گا۔ تم فکر نہ کرو۔قسم سے ! مقدمہ! ایسے لڑوں گا گیسے لڑنے کا حق ہے۔" جھنڈے کی بیوی جب اپنی ایک سال کی بیٹی کو گود میں اُٹھائے رو رہی تھی تو جنداں نے اْسے دیکھ کر بہت سخت لہجے میں کہا۔
’’ لڑکی! میرے بیٹوں پر اللہ کی رحمت ہے ،تمہیں پریشان ہو کر رونے کی ضرورت نہیں ہے۔آج اگر وہ جیل جا رہے ہیں تو کوئی بات نہیں واپس آجائیں گے۔صحیح سلامت۔ آج کے بعد تم نے اِس گھر میں رونا نہیں ‘‘۔ بہو کو چپ تو نہ کر سکی لیکن آنسو پونچھ کر اندرچلی گئی۔
تاباں بھی جنداں کو تسلی دینے کے لیے آئی اور دھکارے بھرتے بولی:
" آج اگر بھائی زندہ ہوتا تو اِن کے ساتھ کھڑا ہوتا لیکن یہ سب رب ّہ کی مرضی ہے۔آپ حوصلہ رکھیں بہن! رب مہربانی کرے گا۔وہ بہتر کرے گا۔"
کسی اور عورت نے جنداںکو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
"اے بہن! بیوہ ہو کر ساری زندگی بچوں کو پالا پوسا،ظالم پولیس ان کو اب لے چلی ہے میری مانو! کچھ دے دلاکر سوداگر لوگوں سے صلح صفائی کر لو۔ ضرورت کے وقت انسان کو جھکنا ہی پڑتا ہے۔کبھی کبھی بندے کو اپنے کام کی خاطر جھکنا ہی پڑتا ہے۔ بیٹوں کے بغیر تمہارا گھر ویران ہو جائے گا اور سوداگر لوگ تم سے زیادہ اثر
و رسوخ والے ہیں۔"
سردارنی جنداں بہت حوصلے والی خاتون تھی جس نے بیوہ ہونے کے باوجود اپنی برادری میں مردانگی اور بہادری سے زندگی گزاری تھی۔عزت شان سے زندگی گزاری، کبھی مصیبتوں کی وجہ سے نہ گھبرائی۔عورت کی باتیں سن کر غصے میں آ گئی ،لیکن اپنے غصے پر قابو پا کر ذرا آہستہ ،نرم لہجے کے ساتھ ساری برادری کی آئی ہوئی تمام عورتوں کو سنا کے اُس عورت کو جواب دینے لگی:
"کیا ہوا اگر میرے بیٹے آج جیل جا رہے ہیں تو؟ کسی کے گھر ڈاکہ تو نہیں ڈال کے جا رہے ہیں بلکہ دشمن کو مار کے جا رہے ہیں۔ مالک نے چاہا تو جلد واپس آجائیں گے،خوشی خوشی تھوڑے دنوں کی تو بات ہے۔ بہن میری ! جٹ میں غیرت ہی تو ہوتی ہے۔ زمین زیادہ یا کم ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ کم جائیداد والا زیادہ والے کے آگے جھکتا نہیں۔ جٹ کی عزت ،اس کی آن ،حوصلے اور شان سے ہوتی ہے ،مال زیادہ یا کم ہونے سے فرق نہیں پڑتا۔ بی بی! مال کے ساتھ عزت نہیں ملتی۔مال کا کیا ہے؟ پیسے تو کنجروں کے پاس بھی بڑے ہوتے ہیں۔ لیکن زندگی تو وہی ہے جس میں عزت ہو۔ اگر جٹ میں غصہ اور جلال نہ ہو تو وہ کسی کام کا نہیں پھر تو وہ ایسے ہی ہے جیسے باہمن ہو۔ لوگ اُسے گالیاں دیں اور وہ آگے سے مسکرائے،لالچی لوگوں کی طرح پیسے جوڑتا رہتا ہے۔"
جنداں نے بات کرنے والی عورت کو کھری کھری سنا دیں۔
" میرے بیٹے نے اُس دشمن کا سر کچل ڈالا جو لوگوں کی عزتوں پر کیچڑ اْچھالتاتھا۔وہ بہت زیادہ مال و دولت ،زمینوں اور برادری والے اپنے سگے بھائی کی مدد کے لیے گھر سے نہ نکلے۔یہی فرق ہے امیر اور غریب کا اور عزت مند اور بے غیرت کتے کا۔"
تاباں کہنے لگی۔" جی بالکل !دشمن کے آگے کیوں جھکنا ؟ کل کیا ہو گا؟ یہ سب توو ہی جانتا ہے۔ اُس کے ہاتھ میں ہی ہے سب کچھ۔میری بہن ! کبھی جٹ نے کل کی فکر کی ہے؟اُس مالک کاشکر کرنا چاہیے۔ آگے جو ہو گا اُسے خود ہنسی خوشی برداشت کریں گے۔ "
جنداں نے پولیس کے آنے پر ملنے کے لیے آنے والے بیٹوں سے کہا:
’’بیٹا ! نئے کپڑے پہنو، مایا لگی ہوئی پگڑیاں سروں پہ باندھو اچھے طریقے سے۔ "
" کون سا سسرال جا رہے ہیں بے بے ؟‘‘ جھنڈے نے مسکرا کر جواب دیا۔
" میرے بیٹے! سردار جی !" جنداں بیٹوں کو حوصلہ اور دلیری دیتے ہوئے بولی : " آپ کو پتا ہی نہیں ہے کہ جٹ کب نئے کپڑے پہنتا ہے؟ کچہری تاریخ پر ، میلے جائے یا سسرال جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔اور بیٹا ! جیل بھی تو جوانوں کے لیے سسرال ہی ہوتا ہے۔"
لکھی اونچی آواز میں ہنس کر کہنے لگا:
" قسم گورو کی ! اماں کرتی ہے مردوں والی بات!"
جنداں نے مسکرا کر لکھی سے کہا:
" اِس دھرتی کے اپنے رواج اور طور طریقے ہیں اور ہم نے انہیں کے مطابق زندگی گزارنی ہے ۔ یہاں بہادری سے دن گزارنے پڑتے ہیں۔ جو وقت بھی گزرے اچھا گزرے۔ اِس دنیا سے اور کیا لے کر جانا ہے۔"
گھر سے بن سنور کر جانے لگے تو لکھی کے ساتھ چمٹ کر دیپو رونے لگی۔’’لکھی ! پہلے بھائیاناراض ہو کر چلا گیا اور اب تم بھی ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہو۔ "
اور لکھی پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھرتے ہوئے اُسے چپ کرواتا ہے اور اُسی دوران سونے کے تین تعویز جو لال رنگ کے ریشمی دھاگے میں پروئے ہوتے تھے دیپو کے ہاتھ میں دے کر دھیمی سی آواز میں کہنے لگا:
" اِن کو سنبھال کر رکھنا اور کبھی کبھی گلے میں ڈال کر ہمیں یاد کرنا۔"
اپنی زندگی میں پہلی دفعہ لکھی نے دیپو کے ساتھ اس طرح پیار سے بات کی تھی۔ " تم شاد آباد رہو اور ہم چلے۔ "
’’ ہم کیسے شاد آباد رہیں گے۔لکھی!‘‘ دیپو نے اپنے آنسو چھپانے کے لیے چہرہ دوسری طرف کر لیا۔
مکھن اور جھنڈے کا سالا کنڈا سنگھ آوارہ جواری اور کسی نہ کام کا قتل کی خبر سن کر راتوں رات آ گیا تھااور جھنڈے سے کہنے لگا:
" بھائیو ! پچھلے معاملات سے آپ نے ذرا پریشان نہیں ہونا۔میں زمین اور مال مویشی سب کچھ سنبھال لوں گا۔
جھنڈے نے کمزور اور لاغر، چھوٹے قد والے نکمے کنڈے کی طرف دیکھا اور جواب دیا۔
" ہماری زمین تو حصے پہ دے دینا۔اگر تم نے محنت کی ٹھان ہی لی ہے تو چچا فوجے کی زمین خود کاشت کر لینا اور اُس کے مال مویشی کا بھی خیال رکھنا۔"
کنڈے نے ہلکی سی آواز میں کہا "ذرا بھی گھبرائیں نہیں۔" اپنی ماں جنداں کو جھنڈے نے جاتے ہوئے کہا:
" ماں جی فالتو جانور فروخت کر دینا،پیارو کے پاس جو زیور ہے وہ بھی بیچ دینا اور اگر ضرورت پڑے تو تھوڑی سی زمین بھی گروی رکھوا دینا۔ آ کر چھڑوا لیں گے لیکن چاچا فوجے کو اب ہمارے اوپر پیسے نہ لگانے دینا۔ اُس کے پہلے ہی بہت احسانات ہیں ہم پر۔"
’’ بالکل صحیح کہا ہے تم نے بیٹا ! ‘‘جنداں نے یہ کہہ کر آہ بھری۔جب جانے لگے تو دائر ے میں بیٹھے لوگوں نے لکھی اور جھنڈے نے ہتھکڑی لگے ہاتھوں سے سلام کیاتو دوست اور محبت کرنے والوے رونے لگ پڑے۔ لکھی نے چار چوفیرے کھڑے لوگوں پر نظر دوڑا کر اونچی آواز میں کہا:
" کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دینا۔ "
’’وریام اور فوجے کے گھر آج اْجڑے ہیں"۔اُن کے جانے کے بعد لوگوں میں سے کسی نے آہستہ سے کہا۔
vvvvv

پنجابی کی کہاوت ہے پھس گئی دا پھٹکن کی؟ جنداں نے بہت حوصلے اور بڑی بہادری سے مقدمے پر پیسہ بہایا۔زیورات،جانور ، چار کلے زمین سب کچھ بیچ دیامگر ماتھے پر بل نہ آیا اور نہ ہی فوجا سنگھ کو مقدمے پر پیسہ لگانے دیا۔وہ فوجا سنگھ کو کہتی:
"بھائی تمہارے ہم پر پہلے کچھ کم احسان ہیں؟بہت کچھ کیا ہے تم نے ہمارے لیے۔ اتنا کم ہے کہ اس عمر میں بھی بچوں کے لیے جگہ جگہ کی خاک چھان رہے ہو۔ "
فوجا سنگھ کہتا،" میں کون سا تیر مار لیتاہوں مقدمے کی پیشی پر جا کر۔"
وہ دن رات مقدمے کے لیے ایک کیے ہوئے تھا جیسے اُس کے بدن میں کوئی نئی طاقت آ گئی ہو۔ تقریبا سال بھر دھکے کھا کر، وکیلوں اور منشیوں کے گھر بھر نے کے بعد آخر کار مقدمے کا فیصلہ ہو گیا۔ تھانے دار کو دی ہوئی رشوت کام آ گئی اور جھنڈا بری ہو گیا مگر مکھی کو عمر قید کی سزا ہو گئی۔
جند اں کی ایک آنکھ اشکبار جبکہ دوسری خشک تھی۔ آدھا دل سلامت جبکہ آدھا دل شکستہ تھا۔ فوجا سنگھ کو لگا جیسے وہ اندھا ہو گیاہو اور پھر چارپائی کے ساتھ لگ گیا۔ دیپو کو لگا جیسے اُس کے اندر سے سب کچھ ٹوٹ گیا ہو اور کسی نے اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اُسے اندھے کنوئیں میں پھینک دیا ہو۔ کرنیل ،شیریاوراحمدو کے لیے ساری دنیا میں اندھیرا چھا گیا۔
جب جھنڈا بریت پاکر واپس گھر آ کر تو جیل اور لکھی کی باتیں سنانے لگا اُس وقت جنداں کے سیلاب آگے باندھے سارے بندھ ٹوٹ گئے اور اُس کی آنکھیں آنسوبہانے لگیں۔
"واہ گورو خوش رکھے۔ سمجھ لکھی بری ہو کر ابھی آیا۔" جھنڈے نے ماں کو حوصلہ دینے کے لیے کہا۔" شکر کرو اُس کی جان بچ گئی ہے۔ سوداگراے لوگوں نے تو اُسے پھانسی لگوانے کے لیے پورا ٹل لگایا تھا۔"
’’ پھانسی ہو انہیں۔ کسی کوے یا کتے کی موت مریں۔"
لمحہ بھر صبر کر کے جنداں پھر بولی۔ "اے جھنڈے !میرے تو اُس بیٹے کا کچھ بھی نہیں بنا۔ اُس بچارے نے اِس دنیا کا کیا دیکھا۔"
جھنڈے نے کہا۔ " ماں جی کچھ دنوں کی ہی بات ہے لکھی رہا ہو کر آ جائے گا"۔
’’ارے بیٹا ! نصیبوں کی ماری ماں نے کب تک جینا ہے؟ کیا پتا ہمیں موت کا بلاوا کب آجائے۔پر میں نے اپنے دکھی اور مصیبت مارے بیٹے کا کیا دیکھا۔‘‘جنداں دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی،’’چلو جیسے رب کا فیصلہ۔زندہ تو ہے نا آنکھوں سے دور ہے تو کیا ہوا۔‘‘
جھنڈے نے بتایا :
" ماں جی عمر قید کی سزا سن کر تو بڑے بڑوں کے پیروں تلے سے زمین نکل جاتی ہے مگر ہمارالکھی تو سزا سن کر بھی مسکراتا رہا دلیری اور حوصلے سیباہر آ کر اپنے دوستوں اورپیشی پر آ ئے دوسرے لوگوں کو ہنستے ہوئے کہنے لگا۔:
’’مزید چار دن سسرالی گاؤں رہنا پڑ گیا ہے۔ دوستو! ابھی اچھی طرح سے خاطر تواضع نہیں ہوئی اُن سے۔ کہتے ہیں داماد ہوں کچھ دن اور رک جاؤ۔ ارے میرے بھائیو،میں تو اب اچھی خاصی خاطر تواضع کرواؤں گا۔"
سبھی لوگ لکھی کی بات سن کر ہنس پڑے اورخود لکھی بھی ہنسنے لگا۔ ''ہاں بیٹا!" جنداں آہ بھرتے ہوئے بولی" وہاں اگرانسان حوصلے میں نہ رہے تو ایک دن بھی نہیں گزرتا۔میرے بیٹے نے تو ساری زندگی گزارنی ہے۔ "
" کیسے ساری عمر ماں جی۔بمشکل دس بارہ سال۔" جھنڈے نے وکیل سے سنا ہوا بتایا یاشاید اپنی معلومات کے مطابق بتانے لگا۔
’’بیٹا! دس بارہ سال کون سا کم ہوتے ہیں"۔ جند اں نے کہا۔فوجا سنگھ لکھی کو سزا ہونے کے بعد سے پھر بیمار ہو گیا اورلکھی کی اپیل نامنظور ہونے کے بعد تو اُس کی آنکھیں اور گھٹنے جواب دے گئے۔ وہ سارا دن منہ سرلپیٹ کر لیٹا رہتا۔ اور باہر اور گھر والوں سے ہوں ،ہاں کے علاہ بات نہ کرتا تین مہینے ہی گزرے تھے کہ اُس نے جنداں کے مشورے سے ہیرے جیسی دیپو کی شادی نکمے،بد شکل ، پست قامت کنڈا سنگھ سے کروا دی گئی اور ساری جمع پونجی ، زرخیز زمین اور مویشی کے حوالے کر کے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اُس رنڈوے کنڈے سنگھ کو تو کبھی کسی نے دھتکارے ہو ئے کتے کی طرح روٹی کا ٹکڑا تک نہ دیا تھا۔ جسے پریوں جیسی خوبصورت ،قد آور لڑکی اور مال دار گھرانہ مل گیا۔اُس خاندانی سگھڑ اور فرمانبردار لڑکی نے اپنے ماں باپ کے فیصلے پر سر تسلیم خم کیا۔ لکھی کی قسمت اور اُس کے نام کو فوجا سنگھ نے گدھے کے گلے میں ڈال دیا۔ اگر لکھی کو عمر قید کی سزا نہ ہوئی ہوتی تو فوجا سنگھ نے لکھی اور دیپو کی شادی کا پکا پروگرام بنا رکھا تھا۔مگر انسان سوچتا کچھ ہے اور تقدیر میں کچھ ہوتا ہے۔
فوجا سنگھ اور تاباں کا حال تو سحری کے اُن ستاروں جیسا تھا جن کے جلنے بھجنے اور ڈوبنے کا کوئی پتہ نہیں ہوتا۔فوجے کو اُس بات کا پتا تھا۔ اپنی بیٹی کو مشکل میں ڈال کر بوڑھا فوجا سنگھ شادی کے چوتھے دن ابدی نیند سو گیا۔ دسں دن ہی گزرے تھے کہ تاباں بھی خاوند کے بعد چلتی بنی۔ اپنی پیاری اور بیٹوں سے لاڈلی بیٹی کو رونے کے لیے پیچھے چھوڑ گئے۔
جب کبھی دیپو جند اں سے ملتی تو اُس کے گلے لگ کریوں روتی جیسے وہ جنداں کے نہیں لکھی کے گکے لگ کر رو رہی ہو۔ اُسے جنداں میں سے لکھی کی خوشبو آتی محسوس ہوتی تھی۔ دیپو کے ظاہر باطن کے دکھوں سے آشنا سردارنی جند کور خود بھی حواس باختہ بچی کی طرح رونے لگتی۔ وہ لاکھ دیپو کو دلاسے دیتی مگر بے سود۔دیپو اپنے گھر بار والی ہو کر بھی تنہا گم شدہ تھی۔
گھر داماد کنڈا سنگھ کی تو موجیں تھی۔ مکھن کی بیوہ کا بھائی ، دو سال کے یتیم رْتو کا ماموں اور دیپو کا شوہر گنڈا صرف گھر کا ہی نہیں بلکہ ان تینوں بد قسمتوں کا بھی مالک بن گیا تھا۔ دیپو اور گنڈا سنگھ کی شادی ،چچا فوجا سنگھ اور ماں جیسی چاچی تاباں کی موت کا علم لکھی کو بیک وقت ہوا تو وہ تو گم سم ہو گیا۔۔
یہ کیا ظلم ہوا؟
اُس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔ کئی دن وہ چپ چاپ گم سم رہا۔ مر جانے والے پر تو انسان چار دن رو دھو کر صبر کر لیتا ہے مگر اپنے سامنے اپنے پیارے سجن کے چھن جانے کا دکھ نہ تو بھولتا ہے اور نہ اس پر صبر آتا ہے اس کی تمام آسیں اور امیدیں ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئیں۔
vvvvv

 

دس سال میں ہر چیز کتنی تبدیل ہوگئی ہوگی؟ لکھی ڈھیلی پگڑی کو سمیٹتے ہوئے چاروں اطراف میں دیکھکر کچھ سوچنے لگا۔ پانچ میل پیدل چلنے کے بعد وہ تھک گیا۔ اُسے وسیع و کشادہ کچی سڑک کچھ بدلی نظر آرہی تھی۔ وسیع سڑک اُسے پہلے سے تنگ نظر آ رہی تھی۔ سڑک کے آس پاس کے زمین کے مالکان نے اُسے اپنی زمینوں میں شامل کرلیا تھا۔ سڑک کے دو رویہ شیشم کے درخت بھی غائب تھے۔ سڑک سے دورچلنے والابسنتر نالا بھی کچھ نزدیک آگیا تھا۔ وہاں کھڑے، سامنے درختوں میں گھرا، چھپا اپنا گاؤں اُسے نظر آنے لگا۔ وہ اپنے گاؤں سے اِس طرح اُداس لگتا جیسے کوئی بچہ اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہو۔ اپنا گاؤں اُسے جب بھی یاد آتا تو اُس کی آنکھوں سے آنسو تیرنے لگتے۔ وہ گاؤں جس کی مٹی سے اُس کا جسم بنا ہوا تھا اور جہاں وہ پیدا ہوا، پرورش پائی اور جوان ہوا تھا۔
اُسی صبح وہ جیل سے نکل کر آزاد ہوا تھا۔ آج دس سال کے طویل عرصے بعد ایک بار باہر نکلتے ہوئے اُسے لگا جیسے وہ جدا ہو گیا ہو، گم ہو گیا ہو۔ جیل کی دس سال سے ساتھی کوٹھڑی سے ، اُن بیرکوں سے، فرش کی اینٹوں سے ،اُن دوست احباب سے جن کے ساتھ وہ دس سال تک رہا۔وہ اپنی پرانی دنیا کو چھوڑ کر نئی دنیا میں آ رہا تھا اور صبح سے ہی اُس کا دل کچھ پریشان لگ رہا تھا اور سارا دن گاڑی میں بیٹھا بھی وہ گم سم سا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پچھلی یادوں اور اگلے خیالوں میں۔
وہ بسنتر کے کنارے کھڑا اِدھر ُادھر دیکھنے لگا۔ وسیع کھیتو ں اور درختوں کو پہچانتے ہوئے اُس کا دل کچھ ٹھکانے آیا۔ سڑک سے اُتر کر وہ بسنتر کی طرف چل پڑا اور خشک بسنتر میں پھیلی ریت پر چلنے لگا۔ تھوڑی دور اُسے ایک گڑھا نظر آیا تو وہ اس کی طرف چل پڑا۔ خشک، اوپر سے گرم اور نیچے سے ٹھنڈی ریت جب اُس کے جوتے میں چلی گئی اور اُس کے پاؤں میں لگی تو اُسے چلنے میں مزا آیا۔ گڑھے کے کنارے جوتا اُتار کر ٹھنڈی ریت پرچلتے چلتے وہ پانی کے کنارے جا کے بیٹھ گیا۔ کب سے کھڑا پانی اُوپر سے صاف ،نتھرا ہوانظر آرہا تھا۔
قمیض کے آستین چڑھا کر اُس نے پگ کو تھوڑا سا اوپر کیا اور دونوں ہاتھ پانی میں ڈالتے ہوئے پانی کو ہلانے لگا۔اِتنی جگہ سے پانی گدلا ہو گیا تو وہ میلے پانی سے نکل کر آگے بڑھ گیا اور صاف پانی میں ہاتھ ڈال کر پھر کھیلنے لگا۔پھر چادر قابو کر کے گھنٹے گھنٹے تک پانی میں چلا گیا۔ اُس نے نیچے چھک کر ٹھنڈے پانی کے دو چار چھینٹے منہ پر مارے اور پانی سے باہر آ گیا۔اُسے جیسے کچھ یاد آگیا ہو۔
اُس نے پیچھے ہو کر پانی کے کنارے سے ریت نکالنی شروع کی۔ گیلی ریت میں گڑھا بننا شروع ہو گیا، وہ گہرا ہوتا گیا، اِتنا گہرا کہ اُس میں سے پانی نکلنا شروع ہو گیا اور نکلتے نکلتے وہ گڑھا آدھا پانی سے بھر گیا۔اِس طرح پانی صاف نظر آنے لگا تو اُس نے گھنٹے ٹیک کر اُس گڑھے میں سے دو گھونٹ پانی پیا۔ پانی میٹھا اور ٹھنڈا تھا مگر اُسے پیاس نہیں تھی۔ اُس نے ہاتھ منہ دھو کر جوتا پہن لیا ۔پھر نتھرے ہوئے پانی اور بچوں کے بنائے ہوئے ریت کے گھروں کی طرف دیکھنے لگا۔
بچپن میں ریت کے گھر بناتے تھے، مویشی چرایا کرتے تھے تو پیاس لگنے پر اِسی طرح پانی صاف کرکے پیا کرتے تھے۔ اُس نے چاروں طرف دیکھا مگر اُس کے بچپن والے کام دیکھنے کے لیے کوئی نہیں تھا۔ وہ ہنسا اور خوب ہنسا مگر اُسے اپنی ہنسی کچھ عجیب سی لگی۔اصیل مرغے کی طرح گردن اونچی کر کے وہ مست سے ٹہلتے ہوئے سور کی طرح وہ آہستہ آہستہ نشے اور سرور میں چلتا گیا۔ جیسے جیسے وہ گاؤں کے قریب آتا گیا اُسے لگا جیسے گاؤں اور زیادہ کشش سے اُسے اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔
اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ اندھیرا ہونے کا انتظار کرنے کے بجائے وہ ایک لمبی دوڑ لگا کر اپنے گاؤں پہنچ جائے۔ صبح جیل سے نکلتے ہوئے بھی اُس کا دل کر رہا تھا کہ اُسے پر لگ جائیں اور وہ اُڑ کر اپنے گاؤں پہنچ جائے۔بسنتر کنارے کھڑے ہوئے غروب ہوتے سورج کی چمک سے سرخ نظر آتے پانی کو دیکھتے ہوئے اْسے سوداگر سنگھ اور راجندر سنگھ کا سرخ خون یاد آ گیا۔ اُس کے دل میں ایک اُبال اٹھا ،اُبال آ گیا اور خون میں جیسے آگ لگ گئی۔دشمنوں میں یہ دس سال اکیلے کیسے گزارے ہوں گے۔مگر اُس نے سوچا کہ جیل کے ابتدائی تین چار سال تو جھنڈا ، احمد خان اور شیر اُس سے ملاقات کے لیے آتے تھے اور اُسے گاؤں کے لوگوں کی خبر دیتے رہتے تھے مگر پھر اُس کا تبادلہ ایک دور کے شہر کی جیل میں ہو گیا اور باہر کی دنیا کے ساتھ جڑا ہوا تھوڑا سا تعلق بھی ختم ہوگیا۔اپنے کاموں میں مصروف رہنے والے قبیل دار جٹ بھلا اِتنے فارغ کیسے ہوتے ہیں اور پتانہیں کیوں اُس نے آنے جانے والے بھائی اور دوستوں کو بھی آنے سے منع کر دیا۔ بھلا اُسے جیل میں کس چیز کی ضرورت ہوتی تھی؟مگر پھر بھی شانو کے بندے مہینے میں ایک دو مرتبہ اُس کی ملاقات کے لیے آتے اور شاید شانو نے لکھی سے اپنا پیار جیل میں ہی پا لیا۔
اندھیرا اور سردی آہستہ آہستہ بڑھتے جا رہے تھے اور وہ آہستہ آہستہ اپنے گاؤں کے نزدیک آتا جا رہا تھا۔ اَب اُسے گاؤں کی آبادی اور اُس میں زندگی کی آوازیں سنائی دینا شروع ہوگئی تھیں۔ اُس کی ناک میں گوبر کی جلائی آگ پر پکتے کھانے کی مہک آرہی تھی۔ اُس نے کمبل درست کرکے منہ اُس میں چھپا لیا۔ اُس کا دل کر رہا تھا کہ وہ چادر اتار کر دور پھینکے اور منہ پر دونوں ہاتھ رکھ کے گاؤں کی طرف منہ کر کے زور سے آواز لگا کر کہے :
" دوآبے گاؤں والو! بھائیو!سنو! میں آگیا ہوں"۔
سارے کا سارا گاؤں، گاؤں کے لوگ، سارے دوست اور دشمن،ساری کچی پکی دیواریں، سارے جانور گاؤں کے اردگرد اور صحنوں میں لگے درخت اُس کی آواز سنیں اور سب کو پتہ چل جائے کہ لکھی آ گیا ہے۔ دشمن اُس کی آواز سن کر ہوشیار ہوجائیں۔احباب اور رشتہ دار دوست گلاب کے پھول کی طرح کھل اُٹھیں اور اُسے سڑک سے لینے آ جائیں جیسے اُسے جیل جاتے وقت سارے گاؤں والے سڑک تک چھوڑنے آئے تھے۔
"تم کون سا قلعہ فتح کر کے آئے ہو؟ سالے!"اُس نے ہنس کر اپنے آپ سے کہا اور سڑک سے اُتر کر گاؤں کی کچی سڑک پر چل پڑا۔چلتے ہوئے رفع حاجت کے لیے کئی لڑکیاں اور عورتیں اُس کے پاس سے گزریںَ اُس نے ہر ایک کو پہچاننے کی کوشش کی مگر اندھیرے کی وجہ سے وہ کسی کو بھی نہ پہچان سکا اور نہ کوئی اُسے پہچان سکی۔ گاؤں پہلے کی طرح ہی آباد تھا۔
گاؤں کی کچی گلیوںمیں بہنے والی نالیوں کے کیچڑ سے گزر کر وہ اپنے گھر کے پرانے دروازے کے پاس جا کھڑا ہوا۔ دروازہ کھلا تھا۔ ایک جھجک نے اندر جاتے ہوئے اُس کے قدموں کو روک دیا تھا مگر پھر اُس نے لمبی چھلانگ بھر کے، بنا آواز دئیے اور دروازہ کھٹکھٹائے اپنے گھر کے صحن میں داخل ہوگیا۔ صحن بالکل خالی تھا۔
’’بھا ئی! بے بے!‘‘ اُس نے اونچی آواز دی مگر اُس کی آوازگلے میں دب کر رہ گئی۔ باورچی خانے میں سے دھواں نکل رہا تھا۔ اُس نے پھر آواز دی۔’’ بھائی !‘‘ وہ آواز اتنی اونچی تھی کہ ساتھ والے دو گھروں نے بھی سنی۔ باورچی خانے میں سے ایک بچہ باہر نکلا ِپھر دوسرا اور اس کے پیچھے ہی دس بارہ سال کی ایک لڑکی۔ سارے بچے اُس لمبے ، چوڑے چادر والے بندے کو دیکھ کر حیران تھے اورشاید ڈرے ہوئے بھی تھے۔بچی نے آگے آکر پوچھا، " بھائی !تو کون ہے؟"
اُس نے آگے بڑھ کر بچوں کے سر پر اپنے چوڑے اور کھردرے ہاتھ پھیرے۔ اُس نے سوچا یہ جھنڈے کے بچے ہوں گے اور پھر اُس نے دردکھڑی لڑکی سے پوچھا، بیٹا! تمہارا باپ کدھر ہے؟"
’’ باہر۔"
حیران و پریشان لڑکی باورچی خانے میں واپس گھس گئی۔ آنکھیں صاف کرتی ،دھویں کے پاس سے اُٹھ کر پیارو آٹے کا پیڑا ہاتھ میں پکڑے باہر آئی۔ لڑکی اُس کے پیچھے پیچھے تھی۔
’’کون ہو بھائی؟‘‘ پیارو نے پوچھاتوچادر میں چھپے لکھی کا تو اُسے گمان بھی نہ تھا۔
’’ماتھا ٹیکتا ہوں بھابھی!" لکھی نے اپنے اندر اٹھنے والے اُبال کو روکتے ہوئے موٹی اور بھاری آواز میں کہا،" میں لکھی ہوں! بھابھی۔"
"لکھی !" پیارو کے ہاتھ سے آٹے کا پیڑا نیچے گر گیا نہ وہ آگے بڑھی اور نہ لکھی کے سر پر ہاتھ پھیرا۔اُسے لگتا تھا جیسے دیور کو دیکھ کر بھابھی وہیں کی وہیں جم گئی ہو۔
"بھائی کدھر ہے بے بے کدھر ہے؟ "لکھی بولا ضرور مگر اسے اپنی آواز اپنی نہ لگی۔’’ تمہارا بھائی سے صبح سے شہر گیا ہے۔ ‘‘پیارو ہوش میں آ کر کہنے لگی۔"خوش آمدید! بھائی"۔ پھر بچوں کو بتانے لگی " تمہارے چاچا آئے ہیں۔"
لڑکی شرماتی ہوئی مگر پیار سے لکھی کی طرف بڑھی اور لکھی نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اُسے پیار کیااور کہنے لگا،" جب میں گیا تھا تو تم ماں کی گود میں تھیں اور اب تم کتنی بڑی ہو گئی ہو۔چڑیل !"اُس نے بچی کو سینے سے لگا لیا۔پیارو ینس پڑی اور کہنے لگی،
’’بھائی! میرا تو دماغ ہی چل گیا ہے، مگر تم کیوں غیروں کی طرح وہیں کھڑے ہوئے؟ اندر کمرے میں چلو۔ اماں اندر ہی ہے۔میں تمہارے لیے کھانا لاتی ہوں۔ "پھر وہ بچی کو کہنے لگی۔
"بیٹا، چاچے کو اندر اماں کے پاس لے چلو اور اندر سے گھی والا برتن لے آؤ"۔
وہی دالان تھا۔ وہی بھڑولے، سامنے دیوار پر چھوٹی سی انگیٹھی تھی اور ِاس پر برتن ویسے کے ویسے تھے وہی دیواریں مگر دیواروں پر رنگ کیا ہوا تھا۔بچی اُسے دالان کے ساتھ والی کوٹھڑی میں لے گئی جہاں سرسوں کے تیل کا دیا جل رہا تھا۔کوٹھڑی بھی ویسی کی ویسی ہی تھی۔
" امّاں! چاچا لکھی آیا ہے۔" لڑکی نے ذرا اونچی آواز سے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
بوڑھی جنداں ہڈیوں کا ڈھانچہ ، پہلے تو لکھی کو میلے سے لحاف میں بیٹھی نظر ہی نہ آئی۔پھر لکھی، بچوں کی طرح قریب ہو کر اماں کے پاس بیٹھ گیا۔ لحاف میں سے اُس نے اپنی اماں کے پاؤں ڈھونڈے اور اپنے طاقتور چوڑے ہاتھ اپنی ماں کے چھوٹے چھوٹے پیروں پر رکھ دیے۔ ایک بار تو اُس کے جی میں آیا کہ اسی طرح وہ ماں کے پیروں پر سر رکھ کے سو جائے ہمیشہ کے لیے۔ ماں نے لکھی کو دیکھا تو اُس کی کمزور پانی بھری آنکھیں لکھی کے ساری جسم سے گھوم کر اُس کے چہرے پر تھم گئیں۔پھر اُس نے کمزور بازوں سے اُس کی گردن پر ہاتھ رکھ کر اُسے اپنے قریب کر لیا اور لکھی کا سر، منہ، ماتھا اور آنکھیں چومتے ہوئے اُس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ اپنی ماں کی سانسوں کی آواز لکھی کو اپنے خون میں رچی ہوئی محسوس ہوئی۔
"میں مر جاؤں، میرا بیٹا! میرا چاند! میں قربان جاؤں!"۔ جنداں نے ابھی بھی اُس کا چہرہ سینے سے لگایا ہوا تھا۔ جیسے اُسے ڈر ہو کہ اگر ابھی چھوڑ دینے پروہ اُسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ ساتھ ساتھ وہ آہستہ سے باتیں کرتی جا رہی تھی۔
"اِس نیلی چھت والے کے صدقے جاؤں جس نے مجھے میرا بچھڑا بیٹا ملا دیا ہے۔ میں اُن راہوں کے واری جاؤں جہاں سے میرا بیٹا گزر کر آیا ہے۔ میں صدقے جاؤں۔"
لکھی کی آنکھوں میں آنسوں کا سیلاب آ گیاتھا۔اُس کا سر، منہ ابھی بھی جنداں کے سینے سے لگا تھا۔ آنسو لکھی کے کپڑوں اور چادر کو بھگو رہے تھے۔ اُسے ماں کے ساتھ چمٹے ہوئے ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو، مگر جنداں ابھی تک اپنی کوکھ کے جنے بیٹے کو سینے سے لگائے بیٹھی تھی پھر لکھی کا چہرہ اوپر کر کے سر، ماتھا چوم کر کمزور ہاتھ لکھی کی کھردری داڑھی میں اور چہرے پرپھیرتے ہوئے کہنے لگی۔
"بیٹا! اُس پیارے رب کے صدقے آج میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی !گیارہ سال بعد تو روڑی کی بھی دعائیں سنی جاتی ہیں۔ اُس بے پرواہ ذات نے میری بھی سن لی۔ مرنے کے قریب پہنچی ہوئی ہوں۔ میں نے موت کو بھی دور رہنے کا کہہ دیا تھا اور اِس طرح دس سال گزارے کہ تم آؤ گے تو مروں گی۔ اب بھلے ابھی موت آجائے۔ میں نے جیتے جی اپنے بیٹے کا منہ دیکھ لیا ہے۔" لکھی چپ چاپ بیٹھا رہا جیسے وہ اپنے حواس بحال رہا ہو۔
جنداں پوچھنے لگی،" میرے چاندسناؤ ٹھیک رہے ہو۔ خوش ہو۔"
’’ ہاں بے بے ٹھیک رہا ہوں۔ نہ فکرنہ کام بس کھا لیا اور سوگیا۔بس اماں تم سے دور تھا اور تو کوئی دکھ نہیں تھا وہاں۔"
"نہیں بیٹا!‘‘ جنداں کو پتہ تھا۔" رب کسی دشمن کو بھی وہاں نہ رکھے۔" پیارو گھی کے بنے پراٹھے لائی اور ساتھ ساگ، گھی میں ملی شکر،لکھی کے سامنے رکھ کر کہنے لگی۔
"لو بھائی! پہلے روٹی کھاؤ۔"
لکھی کو اپنے گھر کے گھی اور گندم کی روٹی کی مہک جو اُسے اتنے سالوں بعد نصیب ہوئی تھی اپنی روح میں رچتی ہوئی محسوس ہوئی۔اُس نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا۔ویسے بھی صبح کا بھوکا تھا۔بعد میں گھی لگے ہاتھ اُس نے داڑھی اور مونچھوں میں پھیرے اور پھر اپنی قمیض کی آستین اوپر کر کے بازوں پر مل کے ہاتھ صاف کر لیے۔ اُس کی ماں کے دکھوں کی کہانی بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔’’بیٹا! مالک ہی یہ بھید جانتا ہے کہ اچھے دن کیوں نہیں آتے؟اور آتے بھی ہیں تو ساون بھادوں کے بادلوں کی طرح آئے اور گزر گئے اور بندہ پھر اُن کے آنے کے انتظار میں راہ دیکھے دیکھے مر جاتا ہے۔"جنداں کہہ رہی تھی۔
"دن سدا ایک جیسے نہیں رہتے۔ اماں!‘‘ لکھی نے ڈکار مار کر حکم سنگھ سیاسی سے سیکھی بات عقل مندی کی بات ماں کو بتانے لگا " اچھا اور برا وقت انسان کے ساتھ ہی ہوتا ہے نہ اچھے دن سدا رہتے ہیں نہ برے دن۔ انسان کو ہر حال میں بس حوصلے سے رہنا چاہیے۔"
"ارے بیٹا!" جنداں حیران بھی ہوئی اور خوش ،بھی" تم نے بڑی عقلمندوں والی سیانی بات کی ہے۔‘‘
’’اماں !بندہ جیل میں سب کچھ سیکھ جاتا ہے۔ جس کو دیکھو وہ اپنے سے دوگنااور دوسروں سے بھاری وزن لیے پھرتا ہے۔ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔اچھے بھی برے بھی، بندہ چاہے تو سادھو بن جائے۔ چاہے تو سانپ۔ وہ بھی دنوں میں۔"
دودھ کا ہاتھ جتنا لمبا گلاس پیارو بھر لائی اور لکھی کو پکڑا کر پوچھنے لگی،" بھائی راضی خوش رہے ہو؟"
اماں کہنے لگی،’’ بیٹی! بندہ جیل میں راضی خوش کیسے رہ سکتا ہے؟ دس سال گزر گئے میرے بیٹے نے کیا کیا دیکھا ہے؟ دکھ اور مصیبتوں میں عمر جیل میں گزار آیا ہے۔مگر جٹ کا بیٹا ہے دیکھ لو، لوہے کی طرح طاقتور کھڑا ہے۔ بس تھوڑا سا کمزور ہوگیا ہے۔ وہاں کون تھی پکا کر دینے والی؟"پھر بہو کو کہنے لگی " بیٹی ! کسی طرح کمرے میں ایک چارپائی اور ڈال دو۔ اِدھر میرے پاس۔ ماں بیٹا رات کو باتیں گے۔میں اپنے بیٹے کو کہانی سناؤں گی۔" پھر پاس بیٹھے لکھی کی پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگی "کیوں بیٹا ! یاد ہے؟ کتنی کہانیاں میں سناتی تھی"۔
" جی۔ " لکھی نے ہنس کر کہا۔" مگر اماں میں اب کوئی بچہ ہوں؟ جسے تم کوے اور چڑیا کی یا پھر جٹ اور فاختہ کی کہانی سناؤ گی"۔
مگر لکھی کو وہ سب کہانیاں یاد تھی جو اُسے ماں سردیوں کی لمبی راتوں میں سناتی تھیں۔ جب وہ چھوٹا تھا۔وہ اُسے اپنی چھاتی پر لٹا کر کہانیاں سناتی تھی۔ایک مرتبہ پھر اُس کا دل چاہا کہ وہ بچہ بن جائے اور ماں اُسے پھر اپنے نرم جسم اور ملائم چھاتی کے ساتھ لگا کر لحاف میں لپیٹ لے۔ہر ایک مصیبت اور ہر ایک دکھ سے دور۔مگر پھر وہ خود اپنے خیال پر ہنس پڑا۔ دیے کی روشنی میں جنداں نے بیٹے کو ہنستے ہوئے دیکھا تو خوش ہو کر کہنے لگی :’’ بیٹا!ماؤں کے لیے تو بیٹے بچے ہی ہوتے ہیں۔ بے شک وہ بوڑھے ہو جائیںَ "۔جھنڈے کے دونوں چھوٹے چھوٹے بیٹے اب لکھی کے کچھ قریب ہوئے مگر اب بھی آنکھیں پوری طرح کھول کر اُسے دیکھے جا رہے تھے۔ لکھی کا بڑا جی چاہا کہ وہ بچوں کو گود میں اٹھا کر پیار کرے۔ اُن سے باتیںکرے اور اُن کی چھوٹی چھوٹی ، میٹھی میٹھی باتین سنے مگر بچے ابھی تک اجنبیت محسوس کر رہے تھے اور لکھی خود بھی ابھی تک ہچکچاہٹ محسوس کر رہا تھا۔ دونوں بچے آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے دادی کے لہاف میں جا گھسے۔ جنداں نے اُنھیں ساتھ بیٹھا لیا اور کہنے لگی:
"بیٹا جلدی جلدی کھا پی کر اپنے چچا لکھا سنگھ کی طرح جوان بن جاؤتاکہ مشکلات کچھ کم ہوں۔"
لکھی اونچی آواز میں ہنسا! ماں انہیں بھی بچپن مین ایسا ہی کہتی تھیں۔پھر دادی کے لحاف سے منہ نکالے چھوٹے بچوں کو پیار سے دیکھتے ہوئے اُن سے مخاطب ہوا:
"نکلو! یہاں سے۔ تم نے تو میری جگہ پر قبضہ کر لیا ہے"
باہر صحن میں داخل ہونے والے جھنڈے کو پیارو کہہ رہی تھی:
’’آج گھر میں ایک نیا مہمان آیا ہے۔؟"
"مہمان؟ "اُس کا شوہر اونچا ہنسنے لگا اور بولا،" ویران گھروں میں مہمان کہاں آتے ہیں۔لکھی تھا تو گھر میں خوب رونقیں تھیں اب یہاں پر کس نے آنا ہے۔"
لکھی نے سنا تو اُسے بہت تکلیف ہوئی۔ بھائی تھا۔ یاد کیوں نہ کرتا؟ اُس کی آواز میں بہت درد تھا۔لکھی باہر نکلنا چاہتا تھامگر اِس سے پہلے ہی پیارو اپنے شوہر کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اندر لے آئی۔
"پہچانیں ؟مہمان کو، کون ہے بھلا؟‘‘
لکھی کو دیکھ کر وہ ایک بار توجھنڈا پتھر کا بت بن گیا اور پھر جیسے ایک دم اُس کے جسم میں جان آگئی۔ دوڑ کر لکھی کے گلے جا ملا۔اُن دونوں کی آنکھوں سے آنسو نکلنے شروع ہوگئے۔دونوں ڈرے ہوئے بچوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے تھے۔
’’ ہم خوش قسمت ہیں! ہم خوش قسمت ہیں !آج پھر ہم زندہ لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ ‘‘
جھنڈا آہستہ آہستہ لکھی کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
vvvvv

"ارے بچے! ُاجڑے ویران باغوں کے گالہڑ پٹواری۔ یہ سب خدا کے رنگ ہیں۔ بھائی فوجا سنگھ کے گھر کا سربراہ تھا گنڈا۔ اپنے گاؤں کے لوگ جسے جوتے مارتے تھے،اب اُس گھر کا مالک بن بیٹھا ہے۔ فوجا سنگھ کا تو گھر ہی اُجڑ گیا۔ نیست و نابود ہوگیا۔فوجا سنگھ بیچارے نے زندگی میں بڑے دکھ دیکھے۔مشکلات اور دکھوں نے آخری وقت بھی ساتھ نہ چھوڑا۔ معلوم نہیں کس کیے کا پھل ملا۔ اُس نے کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا اور نہ ہی کسی کو بْرا بھلا کہا۔ زندگی میں کبھی کسی کو ناحق کانٹے جتنی تکلیف بھی نہیں دی۔ پتٓ نہیں کس کی کرنی اُس کے آگے آئی؟سمجھ نہیں آتی۔شاید مقدر میں یہی لکھا تھا۔ سارے غم بڑے حوصلے کے ساتھ برداشت کیے۔بیٹا! فوجا سنگھ جیسے انسان روز روز پیدا نہیں ہوتے۔مجھے اُس کی موت کا گہرا دکھ ہے۔ بہت دکھی ہو کر مرا۔ جاتے وقت اپنی پریوں جیسی خوبصورت بیٹی کوریچھ جیسے کے پلے باندھ گیا۔ پر وہ کرتا بھی کیا؟مگر ہوا تو وہ بھی نہ، بلکہ الٹ ہو گیا۔ اگر سیدھا ہی ہونا ہوتا تو مکھن مرتا کیوں ؟‘‘
جنداں دکھ کا سوت کات رہی تھی اور اپنے آپ سے باتیں کرتی جا رہی تھی۔ ساتھ والی چارپائی پر نئے بسترے میں سویا لکھی اپنے چچا فوجا سنگھ کے گھر انے کا حال پوچھ بیٹھا تھا۔ جھنڈا کافی دیر لکھی کے پاس بیٹھ کر حویلی سونے چلا گیا تھا۔ دالان میں پیارو کب کی بچوں کے ساتھ سو چکی تھی۔ دس سالوں کے بعد لکھی کو چارپائی اور نرم گرم بستر نصیب ہوا تھا مگر اُس کی آنکھوں میں نیند نہ تھی اور جنداں اُسے درد بھری داستان سناتی جا رہی تھی۔ ’’بیٹا! سنا نہیں تم نے؟ مالک کے بغیر ساون میں بھی فصل پیاسی رہتی ہے۔اگر مالک نہ ہو تو مال مویشی کی طرح زمین بھی بھوکی پیاسی مر جاتی ہے۔ کھیتی باڑی کرنا کوئی آسان کام ہے؟ بے شک زمین جٹ کی ماں جیسی ہوتی ہے مگر بیٹیوں سے زیادہ توجہ اور بیٹوں سے خدمت مانگتی ہے۔مگر یہ گنڈا دھوکے باز نکلا۔کسی کتے کا بچہ!بیچارے فوجا سنگھ نے اپنی بیٹی دیپو کو اُس کے ساتھ بیاہا کہ اُس کے گھر کا دروازہ کھلا رہے۔ باپ دادا کی زمینیں آباد رہیں۔ گھر بسا رہے۔ لڑکیوں کے سر ڈھکے رہیں اور مکھن کا ٹبر اپنے ننھیال نہ خوار ہوتا رہے۔ اِسی لیے گنڈا کو بھرا گھر، حویلی ،زمینیں اور زیورات سب دے گیا۔ پر گنڈا اُس کا دشمن نکلا۔پہلے ہی سال زمین حصے پر دے دی اور سفید پوش بن کر بیٹھ گیا۔ باقی سب زیورات وغیرہ جوابازی میں گنوانے لگا۔ پھر زمین کو ہاتھ لگا لیا اور آدھی سے زیادہ فروخت کرکے کھا گیا۔مکھن کے بیٹے کو پڑھائی کے بہانے سے اُس کے ننھیال چھوڑ دیا۔اصل بات یہ ہے کہ نہ لڑکا پاس ہو اور نہ اس کے کرتوت دیکھے۔ مہینے میں وہ ایک آدھ بار گھر آتا ہے،ا ور اِس دھوکے باز ماموں کو اپنا بڑا ہم درد سمجھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹا! دیپو کا کیا بتاؤں؟ کلیجہ پھٹ سا جاتا ہے اِس بچی کو دیکھ کر۔اِتنی سلیقہ شعار، اِتنی عقل مند، اِتنے بڑے آدمی کی بیٹی گلیوں کی خاک کی مانند ہو گئی۔ جب گنڈے کو زمین فروخت کرنے سے منع کرتی ہے تو کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ شراب پی کر ہر روز مارتا ہے اور اِس بیچاری کا تماشا لگاتا ہے۔ جس دیپو کو بھائی فوجا سنگھ نے پھولوں کی طرح پالا تھا روز مار مار کر ادھ موا کر دیتا ہے۔ اوپر سے بہن بھی اپنے بھائی کا ساتھ دیتی ہے۔ دیپو بیچاری کوؤں کے درمیان کوئل ہے۔ اندر ہی اندر گھلتی جا رہی ہے پر اپنے صابر باپ کی بیٹی ہے خاموشی سے سب برداشت کرتی ہے۔ کہتے ہیں گھر داماد کو کتے کے برابر سمجھا جاتا ہے مگر یہ تو شیر بنا بیٹھا ہے۔ نہ کسی کا ڈر نہ خوف نہ کوئی منع کرنے والا نہ روکنے والا۔"
"بھائی جھنڈا اُسے کچھ نہیں کہتا؟" غصے اور نفرت سے کھولتے ہوئے لکھی نے پوچھا۔
"بیٹا! تمہیں تو پتہ ہے کہ ایک تو جھنڈا ویسے ہی شریف انسان ہے اوپر سے کاشتکاری سے اُسے فرصت نہیں ملتی۔ تمہارے بعد تو وہ مصروف ہی بہت ہوگیا ہے۔ ایک دن پھر وہی تماشا۔گنڈا شراب پی کر دیپو کو مارنے لگا۔ اُس بیچاری کو روئی کی طرح دھنک کر رکھ دیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح نہ بولی ،نہ بھاگی اور نہ گنڈے کا ہاتھ پکڑا۔ سارا گاؤں تماشہ دیکھتا رہا پر کوئی بھی آگے ہو کر چھڑوانے نہیں گیا۔ جھنڈا گیا اور اُس نے گنڈے کو برا بھلا کہتے ہوئے سمجھایا۔
’’بہن بیٹی پر ہاتھ اٹھاتے شرم آنی چاہیے بندے کو۔"اُس پر اس بد تمیز نے کہا "بہن بیٹی تمہاری ہے، میری نہیں۔ میں تو اچھے برے پر کہوں گا۔"
جھنڈا دیپو کو گھر لے آیا کیونکہ اگر گنڈے پر ہاتھ اٹھاتا تو لوگ کہتے کہ اپنے گھر کے داماد پر ہاتھ اٹھایا ہے۔کبھی اُس نے اپنی داستان نہیں کہی۔ غریب بچی بے زبان پر گنڈا کتے کی دم ہے ساری عمر ٹیڑھی کی ٹیڑھی جو کبھی سیدھی نہیں ہوتی۔ایک دن میں نے اُس بد خصلت کو کہا، " تو ہر روز اس کو لاوارث سمجھ کر بد تمیزی کرتا ہے۔ تجھے شرم نہیں آتی۔ اِس کی وجہ سے سب جائیداد کا مالک بنا ہے اور اِسی کو مارتا ہے۔ جس تھالی میں کھاتے ہو اسی میں پیشاب کرتے ہو۔" میں داماد سمجھ کر اس کا لحاظ کرتی تھی مگر اُس دن اُسے کھری کھری سنائیں مگر وہ مینڈک کا بچہ کہنے لگا ، چچی ! اپنے گھر ہم جو جی چاہے کریں دوسرے کون ہوتے ہیں اس میں دخل دینے والے؟ ہر ایک کو اپنے دائرے میں رہنا چاہیے"
"بیٹا اب تو ہی بتا !ایسے بدتمیز اور بد قماش کے منہ کون لگے ؟ اُس کے بعد بیٹا ! ہم نے نہ اُسے بلایا ہے اور نہ ہی وہ ہم سے بولنا چاہتا ہے۔ دیپو کا دل کرتا ہے وہ وقت ملنے پر گھڑی دو گھڑی کے لیے آ بیٹھتی ہے مگر اپنے حالات پر بات نہیں کرتی۔ بیچاری شریف، صابر ،بے زبان مگر گنڈا کتے کی دم کی طرح ٹیڑھا کا ٹیڑھا۔"
"دیپو کا کوئی بچہ ہے؟" لکھی کب سے پوچھنا چاہ رہا تھا۔
"نہیں بیٹا !اِس نصیب جلی ،بدقسمت کا کہاں سے آیا۔‘‘ جنداں نے گول مول سا جواب دے کر لکھی کو کچھ بھی پوچھنے سے روک دیا۔
’’خدا کی مرضیــــــ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ جنداں بات کو گھما کر کہنے لگی۔’’ بیٹا! ابھی تو تم خیر سے گھر آئے ہو۔گھر بار سنبھالو۔ جٹ کا گھر اُس کے کھیت کھلیان ہوتے ہیں۔دیکھو جھنڈابچارا بالکل اکیلا مٹی کے ساتھ مٹی ہو گیا ہے۔ اوپر سے تمہارے مقدمے نے گھر کے معاملات بگاڑ دئیے ہیں۔مگر میں تو پھر بھی نیلی چھت والے کے قربان جاؤں کہ میرے بچے تو بچ گئے ہیں۔کمی بیشی اور ضرورتیں تو زندگی کا حصہ ہیں۔"پھر ایک لمبی سانس کھینچ کر بولی۔"دیکھو! تمہیں نہیں لگتا کہ جھنڈایہ کام کرکے آدھا رہ گیا ہے۔زمین پر پھر پھر کر سہاگا بھی گھس جاتا ہے۔"
لکھی بولا"ماں تم کیوں پریشان ہوتی ہو؟میں ساری کھیتی باڑی سنبھال لوں گا۔ بھائی اب آرام کرے اور مزے کرے۔ قرضہ بھی اُتاردوں گا۔ گروی رکھی اپنی زمینیں بھی چھڑوا لوں گا۔تم بس دیکھتی جاؤــــ۔۔۔۔۔۔۔۔"
جنداں نے کہا" بیٹا! کہیں تمہارا گھر بھی بسے۔تیری نسل بھی بڑھے۔میری یہ خواہش ہے کہ تمہاری نسل آگے بڑھے تو میں سکھ سے مروں۔ "
لکھی صبح دیر سے اٹھا۔ پگڑی باندھ کر باہر جانے لگاتوصحن میں اُس کی ماں کے پاس دو تین عورتیں بیٹھی ہوئی تھیںَ لکھی باہر نکلنے لگا تو جنداں نے لکھی کو پیچھے سے آواز دی۔
"بیٹا! تمہاری بہنیں کب سے آ کے بیٹھی ہوئی ہیں، تمھیں سے ملنے کے لئے۔" لکھی "پاؤں پڑتا ہوں" کہہ کر رکا نہیں بلکہ چلتا چلا گیا۔
’’لکھی ،بخیر و عافیت تو رہے ہو نا؟‘‘
لکھی کے پاؤں گویا زمیں نے جکڑلیے۔اُس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ لکھی تو پچاس سال کے بعد بھی اُس کی آواز کو سنتا تو پہچان لیتا۔وہ دیپو کی آواز تھی۔لکھی کو محسوس ہوا کہ اُس کا دل گویا ٹھہر سا گیا ہے اورپھر یوں لگا جیسے دل ابھی چھاتی پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔ اُس کے اندر ایک سیلاب سا امڈ آیا اور بسنتر کی ریت کی طرح اُس کی خشک آنکھوں میں نمی آگئی۔ ڈولتے قدموں سے وہ پیچھے کو پلٹا۔اُسے یوں لگا جیسے آنکھوں کے آگے دھند کی چادر آ گئی ہو۔
اُسی لمحے اُس کے کانوں میں جنداں کی آواز آئی۔" بیٹا !بہن کو پیار دے۔ "پیچھے مڑ کر لکھی نے اندھوں کی طرح دونوں ہاتھ آگے بڑھائے۔ جنداں نے آگے بڑھ کر لکھی کے ہاتھ پکڑ کر بیٹھی دیپو کے سر پر رکھ دیے۔
لکھی کے ہاتھ جیسے دیپو کے سر پر جم سے گئے ہوں اور دیپو کو وہ ہاتھ رب کی طرح لگے۔ لہو رنگ ہوکے آنکھوں کے رستے بہتے ہوئے دل کے ساتھ اُس نے لکھی کے سہارا دینے والے محافظ اور سارے جہاں سے بڑھ کر آسرا دینے والے ،اپنے سر پر رکھے ہاتھوں کو سدا آباد رہنے کی دعا دی۔
"دیپو!مجھے چچا چچی کے چھوڑ کے جانے کا بہت افسوس ہوا ہے۔ اُن کے جانے سے مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے اپنے والدین چلے گئے ہوں۔اُن کے جانے سے مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے اپنے بزرگ چلے گئے ہوں۔ "لکھی کے منہ سے ایسی آوازنکلتی جیسے اندھے کنویں میں کوئی ڈوبنے والا بول رہا ہو۔
دیپو چپ چاپ پتھر بنی بیٹھی رہی۔ اُس کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو لکھی کو دکھائی نہ دیئے اور نہ ہی ایسے اندھے، بہرے، شخص کو ایسی نازک چیز دکھائی دے سکتی تھی۔ اُسے تو دیپو کا زرد پڑتا چہرہ بھی بمشکل دکھائی دیا۔ دیپواُسے کوئی اُکھڑی ہوئی، مرجھائی ہوئی بیل لگی۔
’’اُس قادر مطلق کے سامنے بندے کا کیا بس چلتا ہے۔" جنداں بولی ۔
’’پہلے شیر جیسے جوان بیٹے کی موت اور اُس کے بعد لکھی کے مقدمے نے بھائی فوجا سنگھ کو ختم کر دیا۔ اْس جیسے لوگ روز پیدا نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی اُس کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ بہنو! بچیؤ!!" ہم تو اُس کے احسان کا بدلہ ہی نہیں چکا سکتے۔"
vvvvv

سارے دو آبے کا تو پتہ نہیں مگر لکھی کے آنے سے جنداں کا گھر ،جھنڈے کی سونی حویلی اور عزیزو اقارب کے دل پھرسے آباد ہو گئے۔اُس کے آنے سے گاؤں کی گلیاں بھی آباد ہو گئیں جن میں سے دن رات اور رات دن پیدل ، گھوڑوں،گھوڑیوں اور اونٹنیو ں پر بیٹھے اچھی ،بری شکلوں والے انسان دور اور نزدیک سے لکھی کو ملنے ا? رہے تھے۔ اس کے جیل سے آنے کی خبر ہرا?ندھی کی طرح پھیل گئی۔ آنے جانے والوں کی وجہ سیجھنڈے کی حویلی میں رونق لگی رہتی تھی۔ آنے والوں میں دور نزدیک کے لوگ ،واقف کار ، جیل کے ساتھی اور کئی طرح کے لوگ تھے۔اسے ملنے کے لیے رات کے اندھیرے میں شانو اور ابرا بھک بھی آئے اور دن کی روشنی میں حکم سنگھ سیاسی بھی آیا۔ وہ دو دن لکھی کے پاس رہ کر گیا۔ جھنڈا اور لکھی آنے جانے والوں کی اپنی ہمٹ ست بڑھ کر بہت خدمت کرتے۔ دیہاتوں میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا پرانی روایت ہے۔ جو لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہوں، دکھ سکھ کے وقت وہ بھی آ جاتے ہیں۔ مگر پندرہ سولہ دن گزر نے کے بعدگنڈا سنگھ لکھی کو ملنے نہیں آیا۔لکھی اگلے دن ہی شام کو اس سے ملنے گیا تھا۔تھوڑی دیر تارو اور دیپو کے پاس بیٹھا اور اپنے چچا فوجا سنگھ اور تاباں کا افسوس کر کے آیا مگر گنڈا کہیں باہر گیا ہوا تھا۔
جیل کاٹ کر آنے کی لکھی کو جتنی خوشی تھی اُتنا ہی دکھ اُسے دیپو کا حال دیکھ کر اور گنڈے کی زیادتیوں کے بارے میں جان کر ہوا۔اُس کے دل میں کئی بار خیال آیا کہ اِس سے تو بہتر تھا کہ وہ گاؤں نہ آتا۔فوجا سنگھ سردار کی بیٹی دیپو تو لکھی کو دنیا کی ہر چیز اور ہر بندے سے پیاری تھا۔ وہ اِتنی مشکل میں ہو ، اِتنی تکلیف میں ہو، اِتنے دکھ میں تو لکھی کو کیا کرنا چاہیے؟اِس بارے میں لکھی کے ذہن میں کئی خیال آئے۔
پہلے تو غصے سے بھرے ہوئے لکھی کا دل چاہا کہ گنڈے کی گردن مروڑ دے اور اُسے کتے کی موت ماردے ، مگر وہ دیپو کا شوہر تھا اور لکھی دیپو کو سکھ دینا چاہتا تھا، دکھ نہیں۔ وہ تو دیپو اور مکھن کے بیٹے کی بچی کھچی زمین حصہ دار سے لے کر خود کاشت کرنا چاہتا تھا تاکہ دوونوں گھروں کی خواتین کچھ سکون لے سکیں اور دیپو کے گھر کے حالات بھی بہتر ہوں۔ وہ مکھن کے بیٹے کی پرورش بھی خعد کرنا چاہتا تھا۔اپنی کھیتی باڑی کے ساتھ ان کی کھیتی باڑی اور خدمت کرنا چاہت تھاجس طرح فوجا سنگھ نے ان کی خدمت کی تھی۔ یہ فیصلہ کر کے لکھی کو کچھ تسلی ہوئی۔ اب دیپو لا وارث نہیں اور نہ ہی اب گنڈے کی ہمت ہو گی کہ وہ دیپو کو پہلے کی طرح مارے پیٹے۔
جس دن سے لکھی آیا تھا وہ آنے جانے والوں میں مصروف تھا اس لیے وہ کہیں بھی نہ جا سکا۔نہ چچا اندر سنگھ کی طرف نہ نواب خاں نمبردار کی طرف نہ ہی ننگلی اور نہ ہی کسی اور طرف۔بس وہ گھر سے حویلی اور حویلی سے گھر تک محدود تھا۔ آنکھیں نیچے کر کے اور سر جھکا کر وہ گلی میں سے گزر جاتا تھا۔ اگر راستے میں کوئی سلام دعا کر لیتا تو وہ جواب دے دیتا ورنہ چپ چاپ گزر جاتا۔ دائریمیں بیٹھے باتیں کرتے لوگ بھی اُسے گزرتے دیکھ کر سہم جاتے۔ نوجوان لڑکے جو اُس کے جیل جانے کر بعد جوان ہوئیتھے وہ اگر آتے جاتے اُسے دیکھتے تو ڈر کر راستہ چھوڑ دیتے،ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے لڑکے اُسے دیکھ کر خاموش ہوجاتے۔گاؤں کے لوگ بھی اُس کے ساتھ بات کرتے خوفزدہ نظر آتے۔ شاید لکھی کوئی ڈراونی چیز بن گیا تھا۔
اُس دن دوپہر کو احمد خان اور شیرا اُٹھ کر گئے تو لکھی گھر کی طرف آیا مگر راستے سے فوجا سنگھ کی حویلی کو چلا گیا۔حویلی اُجڑی ہوئی تھی۔ جانوروں کے چھپر اور رہائشی کمرہ گر چکے تھے۔حویلی میں ایک کمزور گھوڑی اور قریب المرگ بھینس باندھی ہوئی تھی۔ ایک لڑکا ہاتھ کے ٹوکے سے چارا کتر رہا تھا۔لڑکا لکھی کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ لکھی نے لڑکے سے پوچھا ،’’جوان بتاؤ بھینس دودھ دیتی ہے۔‘‘
’’ہاں دن میں ایک دفعہ۔ یہ جواب دینے والی ہے۔‘‘
"کوئی اور جانور ؟"
’’نہیں سرکار۔‘‘
"کس کے بیٹے ہو؟"
’’مہندے کابیٹا ہوں۔"
"مہندا اچھا آدمی تھا۔، نیک اور محنتی ۔‘‘نوجوا لڑکا لکھا سنگھ کے منہ سے اپنے باپ کی تعریف سن کو خوش ہو گیا۔ جانوروں اور انسان سے بھری حویلی کو اِس طرح اُجڑا، ویران ، اور بے آباد دیکھ کر لکھی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔" کبھی یہ حویلی بڑی آباد تھی۔" لکھی نے اونچی آواز میں خود کلامی کی۔
’’ مقدر والے چلے گئے اور اب یہاں گنڈا سنگھ سردار کا راج ہے"۔لڑکے نے بے خوف ہو کر لکھی کو دل کی بات بتا دی۔
’’اِس طرح نہیں کہتے بیٹا۔ "لکھی نے لڑکے کو سمجھایا۔لڑکا کچھ ڈر گیا۔ لکھی اُ سے پیار سے تھپتھپا کر کہنے لگا۔" گنڈا سنگھ مالک ہے جو چاہے کرے۔" اِتنی دیر میں دیپو حویلی آ گئی۔ ایک دفعہ تو ایسا لگا کہ وہ لکھی کو دیکھ کر واپس پلٹ چلی ہے لیکن پھر اندر آگئی۔ کام والا لڑکا چارے کی گٹھڑی بھینس کے آگے پھینک کر چادر اور درانتی لے کر گھوڑی کے لیے چارا لینے چلا گیا۔ جس حویلی میں دونوں کھیل کھیل کر جوان ہوئے تھے اب اُس میں دونوں ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنے کھڑے تھے۔
"اُجڑی حویلی دیکھ کر بڑا دکھ ہو۔ا"لکھی نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
دیپو چپ چاپ کھڑی کسی اور طرف دیکھ رہی تھی۔
"زمین حصے پر کیوں دے دی ہے؟"
"مالکوں کی مرضی۔"
"مالک کون ہے؟ تم نہیں؟"
"نہیں۔ میں اب کس چیز کی مالک ہوں؟ "
"میں نے سنا ہے گنڈے نے کافی ساری زمین جوئے میں ہار دی ہے۔"
"اُس کی مرضی! وہ مالک ہے۔"
"میں نے سنا ہے تمہارے شوہر کا رویہ تمہارے ساتھ اچھا نہیں ۔تمہیں مارتا ہے۔"
’’مالک جو ہوا! سر دار جی۔"
"مگر کیوں؟"
’’دو برتن بھی آپس میں ٹکرا جاتے ہیں اگر نزدیک نزدیک پڑے ہوں تو۔گھر میں تو سو باتیں ہو جاتی ہیں۔ "دیپو نے گنڈے کی صفائی پیش کی۔لکھی کو پتا تھا کہ دیپو جھوٹ بول کر پنجاب کی صابر بیٹیوں کی طرح خاوند کے عیبوں پر پردے ڈال رہی ہے۔
"اب اگر گنڈے نے تم پر ہاتھ اٹھایا تو میں اس کی ہڈیاں توڑ دوں گا۔" لکھی نے سچ میں کہا۔دیپو کو پتا تھا کہ لکھی سچ کہہ رہا ہے۔ وہ تڑپ کر اُس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ خوف سے اُس کا بھولوں جیسا چہرہ ذرد پڑ گیا اور وہ بھاری آواز سے بولی :
’’اگر میں تمہاری کچھ لگتی ہوں تو تمہیں میری قسم اُسے کبھی کچھ نہ کہناورنہ مجھے باپ کی قسم ،میں جیتے جی تمھاری شکل نہیں دیکھوں گی۔گنڈا سنگھ کچھ بھی ہو، میرا شوہر ہے۔" اور حویلی سے نکل گئی۔
vvvvv

لکھی کو عمر قید کی سزا کاٹنے کے بعد جیل سے رہا ہوئے اٹھارہواں دن تھا کہ وہ طوفان آیا جس میں نہ تو کوئی قتل ہوا،نہ کوئی درخت جڑ سے اْکھڑا نہ کسی ڈھارے کی چھت گری مگر پھر بھی انہونی دوآبے میں اپنا کام کر گئی۔
اُس دن سورج غروب ہونے والا تھا جب دیپو اور گنڈے کی چیخ و پکار کا شور مچ گیا۔ گنڈا شراب میں دھت ایسی گالیاں دے رہا تھا کہ سننے والے توبہ توبہ کرنے لگے۔ دیپو کی بلند چیخوں اور گنڈے کی گالیوں کی آواز سارا گاؤں سن رہا تھا۔ عورتیں بھاگ کر چھتوں پر چڑھ گئیں اور آس پاس کے سارے مکانوں کی چھتیں بھر گئیں۔ دیکھنے والوں کا ہجوم تھا۔ کچھ دیر تو لکھی صبر کیے بیٹھا رہا مگر دیپو کے رونے اور گالیوں کی آواز مزید تیز اور اونچی ہوتی گئی۔ روٹی کھاتے لکھی نے روٹی کا توڑا ہوا نوالا رکھ دیا اور خالی ہاتھ دیپو کے گھر کی طرف چل پڑا۔
"بیٹا! واپس آ جاؤ! رب اِس شیطان کو اٹھا کیوں نہیں لیتا۔" جنداں نے جاتے ہوئے لکھی کو ادھر جانے سے منع کیااور اپنی بہو سے کہے لگی،’’ بیٹی !لکھی کو پکڑو،خواہ مخواہ فساد ہو جائے گا۔ اُس بدبخت نے بدزبانی سے باز نہیں آنا اور لکھی سے برداشت نہیں ہو گا۔"
اِِتنی دیر میں لکھی دیپو کے گھر میں داخل ہوگیا تھا۔
شراب کے نشے میں دھت گنڈا دیپو کو چارپائی کے ٹوٹے ہوئے بازو مار کر اُس کی روئی کی طرح دُھنائی کر رہا تھا۔لاش کی طرح بے سدھ پڑی دیپو مار کھائے جا رہی تھی اور روئے جا رہی تھی۔تارو دور بے حال کھڑی روتی ہوئی دہائی دے رہی تھی۔ لکھی نے جا کر گنڈے کے ہاتھوں سے ڈنڈاچھین لیا اور دوسرے ہاتھ سے شراب کے نشے میں شیر بنے سردار گنڈا سنگھ کو گردن سے پکڑ کر اُوپر اٹھایا اور گری ہوئی دیپو کے اوپر سے اتار کر آرام سے ایک طرف ایسے کر دیا جیسے کن کھجورے کو چمٹے سے پکڑ کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک آتے ہیں۔
گنڈا نشے میں اندھا تھا۔ للکارا:
"کتیا ! اپنے حمایتی کو بلا لیا۔" اور دوڑ کر دالان سے برچھی نکال لایا "میں آج تیری اور تیرے حمایتیوں کی۔۔۔۔۔" چھوٹے سے قد کے، بدخصلت، بد صورت اور بدزبان سردار گنڈا سنگھ کے آگے لکھی نے ہاتھ جوڑ دیے۔
"تم طاقتور ہو گنڈا! داماد جو ہوئے۔" لکھی نے کہا۔
"میں اِس بدمعاش کے ٹکڑے کر دوں گا۔" گنڈے نے بڑھک ماری اور برچھی سیدھی کرتا لکھی کی طرف آیا۔ لکھی کے ہاتھ ابھی تک جڑے ہوئے تھے۔ اُس نے بڑے آرام، بڑی تسلی اور بڑے حوصلے سے آ ہستہ سے کہا:"بھائی گھر کا تماشا لوگوں کو مت دکھاؤ۔میں ہاتھ جوڑتا ہوں۔ رُک جاؤ۔"
اور لکھی بڑچھی کی سیدھ سے ہٹ گیا۔دیپو دوڑ کر گنڈے کی طرف گئی مگر وہ سور کی طرح سیدھا لکھی کی طرف آیا۔ اِس مرتبہ لکھی نے ہاتھ بڑھا کر بڑچھی پکڑ ی اور جھٹکا مار کر اپنی طرف کھینچتے ہوئے گنڈے سے چھین لی۔گنڈا اِس جھٹکے سے سامنے والی دیوار سے جا لگا۔لکھی نے بڑچھی دور پھینک دی اور دیوار کے ساتھ گر کر اُٹھنے کی کوشش کرنے والے گنڈے کو گردن سے پکڑ کر زمین سے تین فٹ اوپر اٹھا لیا۔ایک مرتبہ تو اُس کے جی میں آئی کہ گنڈے کو دیوار کے ساتھ مار کر اُس کا پٹاخہ نکال دے۔موت کے خوف سے ڈرتے، کانپتے گنڈے کا سارا نشا ہر ن ہو گیا تھا۔اُس کے منہ پر موت کے سائے لہرانے لگے تھے۔گنڈا لکھی کے ہاتھ میں ایسے لٹکا ہوا تھا جیسے کوئی گڈویا کسی بچے کی انگلیوں میں پکڑا لٹک رہا ہو۔لکھی نے ایک مرتبہ دیپو کی طرف دیکھا اور گنڈے کی گردن چھوڑ دی۔گنڈا دھڑام سے زمین پر گرا اور سنبھلتے ہی لکھی کے پاؤ ں پکڑ لیے۔ وہ مرتے ہوئے کتے کی طرح سانس لے رہا تھا۔ دیپو دوڑ کر آئی اور گنڈے کو بچانے کے لیے اُس کے اوپر گر پڑی۔
" اگر تو نے اب کبھی اِس بے زبان پر ہاتھ اُٹھایا تو میں تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گاَ" لکھی نے گنڈے کی کمر میں ایک زور دار ٹْھڈا مار کر کہا۔
" لکھی ! مجھے نا مارنا ! اگر میں اِسے کچھ کہوں تو قسم سے یہ میری ما ں بہن ہوئی۔" گنڈا کانپتے ہوئے منت کر کے کہنے لگا۔
چھتوں پر کھڑی عورتیں گنڈے کی طبیعت صاف ہونے پر خوش تھی۔ ایک عورت نے تو لکھی کو آواز دے کر کہا :
" لکھی! اِس کو چار جوتے اور لگاؤ۔ بیچاری کو لاوارث سمجھ کر بڑا بہادر بنا ہوا تھا۔" مگرلکھی نے گنڈے کو کچھ نہ کہا۔
دور گری ہوئی برچھی اٹھا کر دیپو لکھی کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔ اُس کا زرد چہرہ مار اور غصے کی وجہ سے لال بھبھوکا ہو گیاتھا اور اُس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔اُس کے سر سے چادر پتا نہیں کہاں گر گئی تھی ؟وہ لکھی کو قہر اور نفرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر کہنے لگی:
"نکل جاؤ! میرے گھر سے بدمعاش، قاتل!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آئندہ کبھی اِس گھر میں قدم نہ رکھنا۔"
مارے شرم کے لکھی اُس گھر کے صحن سے ایسے نکالاگیا، اُسے لگا کہ وہ اُس سرخ آندھی میں زمین او رآسمان کے درمیان کوئی تنکاہو۔
غصے سے آگ بگولااور شرمندگی کے پسینے سے شرابور لکھی نا معلوم کس وقت گاؤں سے نکل پڑا۔ ساری رات وہ بگولے کی طرح چلتا رہا۔
اُس کا گاؤں جس میں پیدائش سے اُس شام تک اُس کی جان اٹکی رہتی تھی اَب پتا نہیں کیوں اُسے اپنا گاؤں نہ لگ رہا تھا۔ رات گزرتی گئی وہ چلتا رہا۔ سیاہ رات کے وجود سے صبح کا اُجالا طلوع ہونے لگا۔ جی ہاں! دن نکل رہا تھا وہ چلتا رہا اور آگے اور آگیـــ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور جیسے جیسے وہ آگے بڑھتا جاتاتھااُس کا گاؤں مزید دور ہوتا جاتا تھا۔ لیکن وہ پیچھے مڑ کے دیکھے بنا چلتا گیا اور۔۔۔۔۔۔۔۔ چلتا گیا۔ آخر کار وہ ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں سے راستہ دو سڑکوں میں تقسیم ہو رہا تھا۔ایک راستہ شانوکی طرف جاتا تھااور دوسرا حکم سنگھ سیاسی کی طرف۔ وہ کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سردیوں کی اُس ٹھنڈی صبح کو بھی اُس کا خوبصورت چہرہ پسینے سے تر تھا۔ طلوع ہوتے سورج کی دھوپ میں پسینے کے موتی چہرے پر چمک رہے تھے۔ اُس نے چادر کے میلے پلو سے منہ کا پسینہ صاف کیا۔ پھر اپنی محبوب شانو اور دوست اَبرے بھک کی طرف جاتے راستے کو دیکھا جس پر پیار، دولت، طاقت اور خوشیاں اُس کی منتظر تھیں۔ دوسری بار اُس نے حکم سنگھ سیاسی کی راہ کی طرف دیکھا جس پہ دکھ، بھوک، سختیاں اور مصیبتیں تھیں۔ پھر وہ حکم سنگھ سیاسی کے راستے پر چل پڑا۔ آہستہ آہستہ چڑھتا سورج اُس کی طرف آنے لگاتھا۔ وہ آہستہ سے مسکرایا۔ تازہ ،دلکش ،گرم ،مہربان سورج کی روشنی میں اُس کا دمکتا چہرہ، بادامی آنکھیں اور موتیوں کی مانند سفید دانت آس پاس کی خوبصورت سرزمین کی طرح بہت حسین لگنے لگیـــ۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...