Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ) |
حسنِ ادب
ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ)

ڈاکٹر شہزاد احمد: احوال وآثار
ARI Id

1689952632807_56116838

Access

Open/Free Access

ڈاکٹر شہزاد احمد:احوال و آثار
ڈاکٹر شہزاد احمد کاروانِ نعت کے وہ سرخیل ہیں جنھوں نے فروغِ نعت کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنارکھا ہے۔ وہ پچاس سا ل سے نعت کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں۔ نعتیہ ادب کا شعبہ تحقیق ہو، شعبہ تدوین ہو یا تنقید ، وہ ہر میدان میں پیش پیش ہیں۔ یہ مقالہ اُن کی علمی وادبی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس میں اْن کی نعتیہ خدمات کا جائزہ ، تخلیقات کا تعارف اور اُن کی شخصیت کے مختلف گوشوں کواُجاگر کرنے کی سعی کی گئی ہے۔
خاندانی پس منظر
ڈاکٹر شہزاد احمد کا خاندان رواداری ، تقویٰ ، طہارت اور اکل حلال کے حصول کے لیے بہت مشہور ہے۔ آبائواجداد کا تعلق حبیب گنج علی گڑھ (انڈیا) سے ہے۔ یہ خاندان پٹھانوں کے قبیلے ’’یوسف زئی‘‘ سے تعلق رکھتا ہے جب کہ ڈاکٹر شہزاد احمد کی والدہ محترمہ کی نسبت ’’آفریدی‘‘ قبیلے سے ہے۔ والد کے خاندان کے مورثِ اعلیٰ حافظ نتھے خان تھے جو پابندِ شریعت اور صوم وصلوٰۃ کے دل دادا تھے انھیں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم وراثت میں ملا تھا۔ صحیح العقیدہ مسلک حق اہل سنت والجماعت کے پیروکار تھے۔ تمامی انبیائے کرام علیہم السلام ، اہل بیت اطہارؓ، صحابہ کرامؓ، اولیائے کاملینؒ بالخصوص حضرت پیران پیر ، روشن ضمیر ، غوث الاعظم دستگیر رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ خواجگان، سلطان الہند ، حضور غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔
اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ قبلہ حافظ صاحب کے چار فرزند ارجمند تولد ہوئے: اصغر خان ، اکبر خان ، صفدر خان، اشرف خان۔ان سطور میں صرف ڈاکٹر شہزاد احمد کے دادا صفدر خان کا ذکر خیر مقصود ہے جو حافظ صاحب کے تیسرے نمبر کے صاحبزادے ہیں ۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے سات صاحبزادوں اور دو صاحبزادیوں سے نوازا ہے۔
صفدر خان کی اولادوں میںبالترتیب عبدالسلام خان، عبدالجمیل خان ( و الد گرا می ڈاکٹر شہزاد احمد) عبدالصمد خان، ظہور فاطمہ، عبدالرالعلی خان، عبدالقدیر خان، عبدالسمیع خان ، نور فاطمہ اور عبدالوسیع خان کے نام شامل ہیں۔
صفدر خان کی خوش نصیبی ہے کہ ان کا خاندان سب بھائیوں سے زیادہ کثیر العیال ہے۔ اس سے قبل کی سطورمیں صفدر خان کی اولادوں کے اسمائے گرامی رقم ہوئے ہیں۔ اب صفدر خان کے دوسرے نمبر کے صاحبزادے عبدالجمیل خان مرحوم ومغفور کا ذکر مقصود ہے، عبدالجمیل خان ،ڈاکٹر شہزاد احمد کے والد ماجد ہیں۔
عبدالجمیل خان(ولدصفدرخان) کی زوجہ رئیسہ بیگم مرحومہ ہیں۔ ڈاکٹر شہزاد احمد والد کی طرف سے ’’یوسف زئی‘‘ اور والدہ محترمہ کی جانب سے ’’آفریدی‘‘ پٹھان ہیں یعنی مادر پدر دونوں حوالوں سے ’’خان‘‘ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد احمد کے والد گرامی عبدالجمیل خان مرحوم کے ہاں سات اولادیں تولد ہوئیں۔ ان کی تفصیل علیٰ الترتیب درج ذیل ہے:شکیل احمد خان ، نفیس احمد خان ، کشور جہاں (چھمی بیگم )،مہزرجہاں(ستارہ بیگم) ، نواب احمد خان ، کوثر جہاں اور شہزاد احمد خان۔
۱۔عبدالجمیل خان، مرحوم ومغفور کی اولادوں کی تفصیل مختصر انداز میں ضبطِ تحریر میں لائی جارہی ہے۔ عبدالجمیل خان کے سب سے بڑے فرزند شکیل احمد خان(زوجہ سعیدہ بیگم) ہیں۔ ساری زندگی کشیدہ کاری کے فن سے وابستہ رہے۔ لاولد تھے۔ اپنے چھوٹے بھائی نواب احمد خان سے ایک بیٹا کامران احمد خان گودلے لیا تھا۔ شکیل احمد خان انتقال کر چکے ہیں۔ اب کامران احمد خان اپنی والدہ کے ساتھ ہیں۔
۲۔نفیس احمد خان (زوجہ نسیم بیگم) عبدالجمیل خان کے دوسرے نمبر کے صاحبزادے ہیں۔ یہ بھی لا ولد تھے۔ ساری زندگی ملازمت کی ۔ملر اینڈپف سے وابستہ رہے۔ مالکان سے بگاڑ کے بعد یونین کے کیس بھی نمٹاتے رہے۔ بعد ازاں سیلز مین کے طور پر دوائیں سپلائی کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کی چھوٹی بیٹی سعدیہ شہزاد کو گود لینا چاہتے تھے کہ میں اس کی پرورش اور تربیت کروں گا لیکن ڈاکٹر شہزاداحمد کی والدہ ماجدہ اس امر کے لیے تیار نہ ہوئیں۔ نفیس احمد خان کا بھی انتقال ہو چکا ہے۔
۳۔چھمی بیگم(زوجہ عبدالسلام خان مرحوم) ڈاکٹر شہزاد احمد کی بڑی بہن ہیں۔ حیدرآباد (سندھ)کے علاقے ہیر آباد نزد ڈاکٹر کالونی میں قیام پذیر ہیں۔ عبدالسلام خان ریڈیو اور ٹی وی کے زبردست ماہر تھے۔ اس کام کے حوالے سے صفِ اوّل کے لوگوں میں شامل تھے۔ چھمی بیگم کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑا بیٹا عبدالقادر خان عرف شاہد پپو، منجھلا بیٹاعبد السلیم خان عرف ببو(انتقال کر چکا ہے) ، محمد ندیم خان اور بیٹیوں میں بڑی بیٹی بے بی اور چھوٹی بیٹی امرین شامل ہیں۔ ندیم کے علاوہ سب شادی شدہ اورصاحب ِاولاد ہیں۔
۴۔مہزرجہاں(زوجہ سردار نبی خان مرحوم)ڈاکٹر شہزاد احمد کی منجھلی بہن ہیں۔ شاہ فیصل کالونی نمبر۳ کراچی میں مقیم ہیں۔ سردار نبی خان پی آئی اے میں اکاونٹینٹ تھے۔ اولاد کی تعلیم وتربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے لڑکوں میں جاوید سردار خان، نوید سردار خان، عادل سردار خان، راشد سردار خان، کاشف سردار خان، راحیل سردار خان جب کہ لڑکیوں میں رانی ارم، کرن اور صبا شامل ہیں۔ ستارہ بیگم کے تمام بچے شادی شدہ اور ایک کے علاوہ صاحبِ اولاد ہیں۔
۵۔نواب احمد خان(زوجہ شہناز بیگم) تیسرے نمبر کے صاحبزادے ہیں۔ نواب احمد خان کی اولاد میں عدنان احمد خان، کامران احمد خان، عمران احمد خان، عرفان احمد خان اور ثوبیہ بیگم شامل ہیں۔ نواب احمد ڈرائیونگ کے شعبے سے وابستہ رہے۔ زندگی مشکلات میں رہتے ہوئے گزاری۔ زیادہ تر گھر سے باہر رہے ۔ انتقال کر چکے ہیں۔ تمام بچے اور بچی ماشاء اللہ شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر شہزاد احمد کے تینوں بڑے بھائی انتقال کرچکے ہیں۔
۶۔کوثرجہاں(زوجہ محمد حنیف خان) ڈاکٹر شہزاد احمد کی بڑی بہن ہیںلیکن وہ ترتیب کے لحاظ سے بہنوں میں چھوٹی ہیں۔ ان کے شوہر محمد حنیف خان پرائیویٹ نوکریوں پر گزارا کرتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی نے کافی محنت اور لگن سے اپنے بچوں کی تربیت کی ہے۔ چار بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ مستقل قیام لطیف آباد نمبر ۱۰ حیدرآباد سندھ میں ہے۔
۷۔ڈاکٹر شہزاد احمد (زوجہ فرزانہ یاسمین) بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں اُن کے چار بچے ہیں۔ڈاکٹر صاحب کے چاروں بچے نعت خوانی سے جڑے ہوئے ہیں۔اُن کا تعارف آئندہ سطور میں کیا جائے گا۔
پیدائش
شہزاد احمد صاحب کا پورانا م شہزاد احمد خان ہے۔ وہ ۲۴، اکتوبر ۱۹۶۰ء کو حیدرآباد (سندھ) ریشم گلی میں پیدا ہوئے۔ اْن کے والد عبدالجمیل خان یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیںجب کہ اُن کی والدہ رئیسہ بیگم آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ڈاکٹر شہزاد احمد کے آبائواجداد ہندوستان کے علاقے حبیب گنج علی گڑھ کے رہنے والے تھے۔(۱)
ڈاکٹر شہزاد احمد کا خاندان ہجرت کے بعد حیدرآباد (سندھ) میں رہائش پذیر ہوگیا۔یہاںاُن کے والد کا نکل پالش کا ایک کارخانہ تھا۔ اُن کے والد صاحب قائداعظم کی سیاسی جماعت مسلم لیگ سے دلی لگائو رکھتے تھے۔ جب مہاجروں کا بحری جہاز بمبئی سے کراچی کے لیے رخصت ہونے لگا جس میں اُن کے والدین سوار تھے تو قائداعظم نے انھیں خود رخصت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ سے اُن کی وابستگی آخری دم تک برقرار رہی۔(۲) وہ نماز کے پابند تھے اور اولیا ء اللہ سے محبت کرنے والے تھے۔ دوستوں ، رشتہ داروں اور تعلق داروں سے خوش اخلاقی سے ملتے تھے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد اپنے چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔
گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے والدصاحب ڈاکٹر شہزاد احمد سے بہت محبت کرتے تھے اور ہر طرح سے اُن کا خیال رکھتے تھے۔ قوالی کی محفلوں کے لیے اجازت بھی ڈاکٹر شہزاداحمد کو باآسانی مل جایا کرتی تھی جب کہ عام دنوں میںڈاکٹر شہزاد احمد کے لیے مغرب سے پہلے گھر آنا ضروری ہوتا تھا۔ ان کے والد خود محفل میں جا کر دیکھتے تھے اور اُنھیں سنتے تھے۔ یہ اُن کے والدکی تربیت کا ایک انداز تھا۔ وہ اپنے بچوں کے ماحول پر گہری نظر رکھتے تھے۔
۱۹۷۶ء میں ڈاکٹر شہزاداحمدحیدرآباد سے کراچی آگئے اور شاہ فیصل کالونی نمبر۳ میں مقیم ہوئے۔چارسال کے بعد اُن کے والدین بھی کراچی منتقل ہو گئے اور یہیں ۶،اکتوبر ۱۹۸۳ء میں اُن کے والد عبدالجمیل خان نے وفات پائی اور عظیم پورہ شاہ فیصل کے قبرستان میں مدفون ہوئے ۔(۳)
تعلیم
ڈاکٹر شہزاد احمد نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم حیدرآباد (سندھ) سے حاصل کی۔ اُنھوں نے ۱۹۷۵ء میں میٹرک بھی حیدرآباد کے گورنمنٹ ماڈرن ہائی اسکول لطیف آباد نمبر ۹ سے کیا۔ اس کے بعد وہ کراچی چلے آئے۔ ۱۹۷۹ء میں بورڈ آف انٹر میڈیٹ کراچی سے ایف اے کیا۔ سندھ یونی ورسٹی جام شورو سے پرائیویٹ امیدوارکے طور پر ۱۹۸۲ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد اْنھوں نے ۱۹۸۶ء میں ایم اے اسلامیات کیا۔ یہ ڈگری اْنھوں نے وفاقی اْردو یونی ورسٹی ، کراچی سے حاصل کی۔
اُن کی تعلیمی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز پی ایچ ڈی (اسلامیات) ہے۔ اُنھیں ۲۶ستمبر ۲۰۱۲ء میں کراچی یونی ورسٹی ، کے شعبہ معارف اسلامیہ کی جانب سے پاکستان میں نعتیہ شاعری کی تاریخ اور ارتقا کے تحقیقی جائزے کے حوالے سے ’’اُردو نعت پاکستان میں‘‘ کے موضوع پر ایک وقیع مقالہ تحریر کرنے پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا گیا۔ اُن کا یہ مقالہ قیامِ پاکستان کے بعد کے نعتیہ منظرنامے کا جامع اور تفصیلی احاطہ کیے ہوئے ہے جس کاجائزہ آئندہ ابواب میں پیش کیا جائے گا۔
شادی واولاد
ڈاکٹر شہزاد احمد۱۶فروری ۱۹۸۹ ء میں فرزانہ یاسمین کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ اْن کی اہلیہ نے B.Sc تک تعلیم حاصل کی ہے اور اب وہ بچوں کی پرورش اور گھر ،گھرہستی میں مشغول رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو اللہ رب العزت نے دو بیٹیوں اور دو بیٹو ں سے نواز ا ہے۔ ان کے نام درج ذیل ہیں:
۱۔ عائشہ کنول شہزاد ۲۔سعدیہ شہزاد ۳۔محمد حسان شہزاد ۴۔محمد بلال شہزاد
سب سے بڑی بیٹی عائشہ کنول ۷دسمبر ۱۹۸۹ء کو شاہ فیصل کالونی نمبر ۲ کراچی میں جمعرات کے دن پیدا ہوئیں۔یہ پہلی اولاد ہونے کی وجہ سے دادی جان کی چہیتی،ماں کی لاڈلی اور باپ کی نورِ نظر ٹھہریں۔ عائشہ کنول بچپن سے ہی ذہین تھیں۔ اُن کی سنگت کتابوں سے رہی۔ کتب بینی کے ساتھ گھر کی ذمہ داریوں کو بھی انھوں نے خوبی سے نبھایا۔ اپنی عمر سے بڑے کام کیے۔عائشہ کنول نے ٹیکسٹا ئل انجینئر نگ میں BE کی ڈگری NEDیونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔ اُن کی شادی ارسلان احمد قریشی (BE ٹیکسٹائل انجینئر) کے ساتھ ہوئی ہے۔ وہ شادی کے بعد کینیڈ ا میں مقیم ہیں۔ان کو اللہ نے دوبیٹیوں سے نوازا ہے۔وہ خوش الحان نعت خواں ہیں اور کینیڈ ا میںبھی اپنی نعت خوانی کی میراث کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
سعدیہ شہزاددوسری بیٹی ہیں وہ ۱۵دسمبر۱۹۹۱ بروزاتوار لیاقت نیشنل ہسپتال نیشنل سٹیڈیم روڈ کراچی میں بوقت دوپہر ایک بجے اس کارخانۂ قدرت میں تولد ہوئیں۔دوسری بیٹی ہونے کی وجہ سے اور اپنی معصوم شرارتوں کے سبب سب کی توجہ اُنھیں حاصل رہی۔بچپن ہی سے اپنی بڑی بہن پر رعب جمایا۔ جس کھلونے سے عائشہ کنول کھیلتی تھیں وہی کھلونا اب سعدیہ شہزاد کو بھی چاہیے ہوتا تھا۔ ہر چیز مفاہمت یا پیار سے نہیں بل کہ چھین جھپٹ کر حاصل کرلینا عادت بن گئی تھی مگر ان باتوں میں بھی محبت کا عنصر شامل ہوتا تھا۔
سعدیہ شہزاد میں بَلاکی پھرتی اور ہمہ وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی عادت فطری طور پر ودیعت تھی۔ دونوں بہنیں مل کر خوب کھیلتیں اور لڑتی رہتی تھیں۔ بچپن میں دونوں کی معصومانہ باتیں اور شرارتیں سب کا دل موہ لیا کرتی تھیں۔ پڑھائی کو اپنے اوپر سوار نہیں کیا۔ کتابوں سے دور رہ کر بھی اچھے نمبروں سے امتحانات پاس کرتی رہیں۔ سعدیہ شہزاد نے ’’ماس کمیونی کیشن‘‘ میں ماسٹرز کیا ہے۔ اس کے علاوہ BE انجینئر نگ مکمل کی ہے اور اب ’’ماس کمیونی کیشن‘‘ کے ایڈور ٹا ئزنگ کے حوالے سے ایک پرائیویٹ ادارے میں ملازمت کر رہی ہیں۔
دو بیٹیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحب کو محمد حسّا ن شہزادکی صورت میں بیٹے سے نوازا۔محمد حسان ۷جون ۱۹۹۴ء کو منگل کے دن صبح تقریباً گیارہ بجے شاہ فیصل کالونی نمبر۱ ،کراچی میں پیدا ہوئے۔بقول ڈاکٹر شہزاد احمد:’’ دوبیٹیوں کے بعد گھر میں بیٹے کی پیدائش دیدنی تھی۔ہر کوئی مبارک باد اور سلامتی کی دعائیں دے رہا تھا۔غرض کہ ہر طرف سے تحسین کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ صرف اپنے ہی نہیں بل کہ اس میں پرائے بھی حصہ ملا رہے تھے۔ صحت مند بہت تھے، گول گول اور بڑی آنکھیں سب کو متوجہ کر لیتی تھیں۔ جسے دیکھو وہ آنکھوں کے سحر میں کھو جایا کرتا تھا۔ ‘‘ اُنھوں نے انٹر کے بعد ذاتی کاروبار سے وابستگی اختیار کرلی ہے۔یہ بڑا بیٹا ہے اور گھر کی ذمہ داریوں میں والد کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے۔
محمد بلال شہزاد بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ ۱۲ اگست ۱۹۹۶ء کوسوبھراج میٹرنٹی ہسپتال ، برنس روڈ ، اردو بازار ، کراچی میں صبح پونے گیارہ بجے کے قریب پیدا ہوئے۔ اپنے تینوں بڑے بھائی بہنوں کے حصار میں رہے۔ چھوٹے ہونے کی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے رہے، دادی جان کے ساتھ کھیلنا، کھانا اور سونا اُن کے معمولات میں شامل تھا۔ بہت زیادہ سمجھ دار ، ذہین اور حساس طبیعت بچپن سے پائی تھی۔زبان سے زیادہ نظروں کے اشاروں کو سمجھتے تھے۔ وہ اپنی تعلیمی زندگی جاری رکھے ہوئے ہیں اور سافٹ وئیر انجینئر نگ کے آخری سال میں ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد احمدکے چاروں بچے ماشاء اللہ نعت خواں ہیں۔انھوں نے اپنے بچوں کو نعت خوانی کے رستے پر چلانے کے لیے ان کی تربیت کا باقاعدہ انتظام فرمایاہے۔ معروف نعت خواں سید عبدالرحمان قادری مرحوم نعت خوانی میں ان کے بچوں کے اُستاد ہیں۔وہ ڈاکٹر صاحب کے گھر تشریف لا تے اور بچوں کو نعت خوانی کی مشق کروایا کرتے تھے۔محمد بلا ل شہزادمختلف ٹی وی چینلز پر نعت خوانی کی سعادت حاصل کرچکے ہیں جن میں میٹروٹی وی اور کیپیٹل ٹی وی قابلِ ذکر ہیںنیز وہ مرکزی انجمن عندلیبانِ ریاضِ رسولؐ ، کراچی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی سالانہ ’’کل پاکستان محفلِ نعت ‘‘ میں بارہا شرکت کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔(۴) محمد حسان شہزادنعت خوانی کے ساتھ نقابت کا بھی ذوق رکھتے ہیں۔ اکثر محافل میں انھیں نقیبِ محفل کی حیثیت سے مدعو کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شہزاد احمد کے گھر کا ماحول نعت کے رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ وہ نعت پڑھتے ہیں ، نعت لکھتے ہیں اور نعت سنتے ہیں۔ اگر کوئی مہمان بھی آجائے تو موضوعِ سخن نعت ہی ہوتا ہے۔کبھی نعت کا کوئی مجموعہ کلام یا دیوان مرتب ہو رہا ہوتا ہے تو کبھی نعت کا تذکرہ ترتیب دیا جا رہا ہوتا ہے۔الغرض اُن کے بچوں نے نعت کے اس پاکیزہ ماحول میں پرورش پائی ہے۔اسی باعث سارا گھرانہ جذبہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے سرشار ہے۔
ملازمت
ڈاکٹر شہزاداحمد ۲،فروری ۱۹۸۲ء کو ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہوئے۔ اکتوبر ۲۰۲۰ء میں وہ ساٹھ سال پورے کرنے کے بعد اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ انھوں نے اپنی ساری سروس نہایت فرض شناسی سے مکمل کی۔
نعت خوانی
ڈاکٹر شہزاد احمد ۱۹۷۲ء سے نعت خوانی سے وابستہ ہیں۔نعت سے محبت اْنھیں نعت گوئی اور پھر تحقیق وتدوین کی طرف لے آئی۔ میٹرک سے قبل اپنے لڑکپن میں وہ قوالی سننے گئے اور وہاں’’ عبدالرحمن کانچ والے‘‘ سے متاثرہو گئے۔ یوں وہ اپنی قوال پارٹی میں شوقیہ کانچ بجانے لگے۔ واقعہ یوں ہے کہ اْن کا گھر لطیف آباد۱۲نمبر ائیرپورٹ روڈ پر واقع تھا۔ وہ انکروچمنٹ میں آگیاتو قدمچے اْٹھاتے ہوئے اْن کی دائیں ٹانگ ٹخنے اور پنجے کے درمیان سے ٹوٹ گئی۔ دوسال بستر پر رہنا پڑا۔ اس کے بعد بیساکھیوں پر چلنے لگے۔ ۱۹۷۲ء میں شبِ برات کو ایک دوست کے ساتھ جامع مسجد اقصیٰ میں نعت خوانی سننے گئے تو نقیب محفل نے اْنھیں بھی نعت پڑھنے کی دعوت دے دی۔ اْنھوں نے جھجکتے ہوئے پہلی بار قوالی کے یہ نعتیہ اشعار پیش کیے:
نہ کلیم کا تصور نہ خیالِ طورِ سینا
میری آرزو محمد ، میری جستجو مدینہ
اس کے بعد جھجھک دُور ہو گئی اور وہ باقاعدہ نعت خوانی کی محافل میں شریک ہونے لگے۔ اْن کے اِس ذوق نعت کو مزید تقویت اْن کے شفیق اساتذہ سے ملی۔(۵)
اساتذہ کرام
ڈاکٹر شہزاد احمد کو ایسے اساتذہ میسر آئے جو جذبۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار تھے۔ اْن میں پہلا نام مولانا اختر الحامدی کا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پہلی سے نویں جماعت تک مولانا سے تعلیم حاصل کی۔حضرت علامہ سید محمد ہاشم فاضل شمسی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت مولانا عبدالقدوس قادری (خطیب وامام )مرکزی جامع مسجد لطیف آباد نمبر ۸کی خصوصی شفقت بھی اُن کے شامل حال رہی۔ ایسے نیک طینت اساتذہ نے ڈاکٹر صاحب کے دل میں عشقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شمع روشن کردی۔ اْنھیں کراچی میں علامہ شمس بریلوی کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔اس کے علاوہ بابا سید رفیق عزیزی یوسفی تاجی رحمتہ علیہ اور ڈاکٹر صاحب کے مقالے کے نگران پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید (پرنسپل طارق بن زیاد کالج)کی معیت اور سرپرستی کا اعزاز حاصل ہے۔ ادارہ تحقیقات امام احمد رضاخان بریلوی میں منعقد ہونے والی ابتدائی محافل میں سب سے اہم اور کم عمر نعت خواں ڈاکٹر شہزاداحمد ہی ہوتے تھے۔
فنِ نظامت
ڈاکٹر شہزاد احمد کے فن نظامت کا سلسلہ ۱۹۷۲ء میں حیدرآباد سے شروع ہو گیا تھا مگر اس سلسلے کوپرواز کراچی آنے کے بعد ملی۔ کراچی میںرہائش پذیر ہونے کے بعد ڈاکٹر شہزاد احمد نعت خوانی کی محافل میں نہ صرف شریک ہوتے بل کہ نظامت کے فرائض بھی انجام دیتے۔ ایک بار رمضان شریف کے تیس روزوں میں تیس سلام پڑھنے کا اہتمام کیا گیا جس سے اُنھیں یہ سلام جمع کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ ’’سلام رضا‘‘ کے عنوان سے سلاموں کا ایک انتخاب ڈاکٹر شہزاد احمد صاحب کے ذوق سلام کی تکمیل کی ایک کڑی ہے۔ انھوں نے نعت خوانی اور فن نظامت کو اپنے تک ہی محدود نہیں رکھا بل کہ نوجوان نسل میں بھی اسے منتقل کیا۔ اس حوالے سے اْن کے شاگردوں میں شہزاد ندیم(انجینئر) ، محمد عرفان عرفی(صحافی)، ڈاکٹر نثار احمد (حیدرآباد)، انصار احمد (حیدرآباد) ، عبدالقیوم (حیدرآباد) ، محمد طارق قریشی، فیاض احمد اور ابرار حسین(کراچی) کے نام نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ڈاکٹر صاحب کے بے شمار شاگرد ہیںجو اپنی اپنی بساط کے مطابق فروغ نعت کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔
نعت گوئی
نعت خوانی کی محافل میں تواتر سے شرکت نے ڈاکٹر شہزاد احمد کی توجہ نعت گوئی کی طرف مبذول کرائی۔ ۱۹۸۸ء میں اْن کے دوست محمد عالم صدیقی کے چھوٹے بھائی نے شاہ فیصل کالونی نمبر۵ کراچی میں منعقدہ ساٹھ روزہ محفل نعت میں اپنی نعت لکھ کر اصلاح کے لیے ڈاکٹر صاحب کو دی۔ اْس نوجوان کی نعت ایسی پْرسوز اور اثرآفریں تھی کہ اْسی زمین میں ایک نعت ڈاکٹر صاحب کی بھی ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب کی اس پہلی نعت کا مطلع یوں ہے:
نصیبے کو اپنے جگا کے تو دیکھو
شہ دیں کو دل میں بسا کے تو دیکھو(۶)
اگلے روز ڈاکٹر صاحب نے دونوں نعتیں محقق نعت رشید وارثی کودکھائیں تو اْنھوں نے حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اْنھیں نعت گوئی کی طرف توجہ کرنے کا کہا۔ اس حوصلہ افزائی کے باوجود اْنھوں نے نعت گوئی کو مستقل طور پر نہیں اپنایا۔ اْن کا زیادہ تر نعتیہ کلام مختلف محافل میں دیے گئے مصرع ہائے طرح پرمشتمل ہے یا کسی خاص تحریک پر لکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر عزیزالدین خاکی جب ’’یا رسول اللہ‘‘ کی ردیف میں نعتیہ انتخاب ’’حبیبی یا رسول اللہ‘‘ ترتیب دینے لگے تو اْنھوں نے ڈاکٹرصاحب سے بھی نعت لکھنے کی فرمائش کی، ساتھ یہ بھی کہا کہ ’’آپ کی نعت کے بغیر انتخاب شایع نہیں کروں گا۔‘‘ یوں ڈاکٹر صاحب نے جو نعت لکھی، اس کا مطلع درج ذیل ہے:
چراغِ بزم ایماں ہو ، حبیبی یا رسول اللہ!
امیر بزم دوراں ہو، حبیبی یا رسول اللہ!
عزیز الدین خاکی کے اس نعتیہ انتخاب کا عنوان ڈاکٹرصاحب کی مذکورہ نعت کی ردیف ’’حبیبی یا رسول اللہ‘‘ پر ہے اور واضح رہے کہ اس انتخاب میں حبیبی یا رسول اللہ کی ردیف میں صرف ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت ہے ۔(۷)
ڈاکٹر شہزاد احمد نے اپنی شاعری کو کبھی اولین ترجیح نہیں دی۔ اسی باعث ان کا نعتیہ کلام منظرعام پر نہیں آسکا۔ جو کلام مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہو گیا وہی محفوظ ہے۔ پروفیسر نوید عاجز نے اُن کے غیر مطبوعہ کلام میں سے حمد ، نعت اور مناقب پر مبنی ایک مختصر انتخاب فنی محاسن کے ساتھ ترتیب دیا ہے جس کی کاپی راقم کے پاس موجود ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کا کچھ غیر مطبوعہ نعتیہ کلام ماہنامہ’’ کاروان نعت‘‘ لاہور کے شمارہ نمبر ۷جولائی۲۰۲۰ میں پروفیسر نوید عاجز کے مضمون’’ ـڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت‘‘ کے عنوان سے شایع ہو چکا ہے ۔
نعتیہ سرگرمیاں
نعت سے ڈاکٹرشہزاداحمد کی وابستگی کئی عشروں پر محیط ہے۔ وہ اسکول کے زمانے سے ہی نعت خوانی کی محافل میں دلی رغبت سے شریک ہوتے رہے ہیں۔ نعت سے اُن کی محبت میںعمر بڑھنے کے ساتھ اضافہ ہی ہوا ہے۔ایک بات اور جس کی وضاحت یہاں ناگزیر ہے، وہ ہے اُن کی قائدانہ صلاحیت ۔ڈاکٹر شہزاد احمد ہر کام کو ایک خاص نظم وضبط کے ساتھ انجام دینے کے عادی ہیں۔ اُنھوں نے بچپن میںا سکول اور محلے کی سطح پر دوستوں کے ساتھ مل کر مذہبی بیداری اور فروغِ نعت کے سلسلے میں تنظیم سازی کر رکھی تھی۔ا سکول کی اس ابتدائی تربیت سے انھوں نے آگے چل کر نعت خوانی کے میدان میں خاص طور پر نمایاں خدمات انجام دیں۔ ایک ہی وقت میں نعت خوانی اور فنِ نظامت کے پچاس پچاس طلبہ اُن کے زیرِ تربیت رہے۔ اُن کی فروغ نعت کے حوالے سے بنائی گئی چند تنظیموں اور دیگر نمایاں خدمات کا اجمالی جائزہ پیش خدمت ہے۔
۱۔بزم محبانِ رسول (لطیف آباد ،حیدرآباد )
ڈاکٹرشہزاد نے ۱۹۷۲ء میں مرکزی جامع مسجد لطیف آباد یونٹ نمبر۸ میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد مبارک راتوں میں مسجد میں چراغاں کرنا،مسجد کی صفائی کرنا اور ہر جمعے بچوں کو نعت خوانی سکھانا اوراصلاحِ نماز تحریک کو عام کرنا تھا۔ یہ ڈاکٹر صاحب کے بچپن کی یادگار تحریک ہے۔
۲۔بزم غلامانِ رسول( لطیف آباد، حیدر آبا د)
۱۹۷۴ء میں سکول کی سطح پر بین المدارس نعت خوانی کے مقابلے منعقد کروانے کے لیے بنائی گئی۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۵ء میں ڈاکٹر صاحب کے میٹرک کرکے فارغ التحصیل ہونے کے باعث اختتام پذیرہوا۔
۳۔انجمن یارسول اللہ (شاہ فیصل کالونی،کراچی)
جون ۱۹۷۸ء میں شاہ فیصل کالونی نمبر ۳، کراچی میں نعت خوانی کے فروغ کے لیے اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ بچوں کی دینی تعلیم کے لیے پہلے مدرسہ تعلیم القرآن اورپھر مدرسہ منہاج القرآن قائم کیا یہ پہلے کرائے کی دکانوں میں تھابعد میں اس کے لیے ۶۵ہزار روپے میں ایک کارنربلڈنگ خریدی۔ یہ مدرسہ آج بھی حفظ وناظرہ کی قرآنی تعلیم کوعام کررہا ہے۔
۴۔پاکستان بزم نعت(کراچی)
۱۹۸۰ء میں مدرسہ منہاج القرآن میں نعت کے فروغ کے لیے الگ سے اس تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ اس کا مقصد لائبریری کا قیام ، نعت خوانی کا فروغ اور اشاعت نعت تھا۔
۵۔بزم حیات النبیؐ(کراچی)
۱۹۸۰ء میں جب ڈاکٹر شہزاد احمد کے والدین حیدرآبادسے کراچی آئے اور شاہ فیصل کالونی نمبر۵ میں مقیم ہوئے تو یہاں ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۸۳ء میں تنظیم ہذا کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے ذمے محافل میلاد اور سیرت کے جلسوں کا انعقادہوتا تھا۔ اس دور میں ڈاکٹر شہزاد احمد نے نعت خوانی کو نئی تحریک کی صورت عطا کردی اور ربیع الاوّل میں نعت خوانی کی محافل روزانہ کی بنیاد پر گھر گھر منعقدہونے لگیں۔ اس بارے میں ڈاکٹر شہزاد احمد بتاتے ہیں:
’’جب میں شاہ فیصل کالونی نمبر۵ میں رہائش پذیر ہوا تو وہاں نعت خوانی کا کوئی ماحول نہیں تھا۔البتہ کبھی کبھی میلاد خواںگلزار صاحب کی محفلیں دیکھنے کو ملتی تھیں یا کہیں کوئی قوالی کی محفل منعقدہوجاتی تھی۔ میں نے یکم ربیع الاول سے ۱۲،ربیع الاول تک روزانہ کی بنیادوں پر محفل نعت خوانی کا اہتمام کیا۔ یہ محفل ہر روز کسی نہ کسی دوست کے گھر میں منعقد ہوتی۔ ان محافل کو اتنی پذیرائی ملی کہ آئندہ سالوں میں یہ سلسلہ ۳۰ روزہ سے بھی بڑھ کر مسلسل ۶۰ روزہ محفل نعت کی صورت اختیار کرگیا۔‘‘(۸)
۶۔انجمن ترقی نعت (ٹرسٹ)کراچی
ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۸۵ء میں فروغ نعت کی غایت سے’’ انجمن ترقی نعت ٹرسٹ‘‘ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس ٹرسٹ میں پچاس کے قریب نعت خوانوں کی تربیتی کلاسز کا اہتمام کیا گیا۔ہفت روزہ درسِ قرآن اور محفل نعت کا انعقاد تسلسل سے جاری رہا ۔ نقابت کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ یہاں سے مستفیض احباب میں محمد فیاض احمد ، محمد ابرارحسین، محمد طارق قریشی ،افضال حسین، زاہد حسین، عبدالرحمن قمر اور نقی زیدی کے نام نمایاں ہیں۔ یہاں نعت کی ایک شاندار لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایاگیا۔ جہاں بہت سے محبانِ نعت اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرصاحب کی مرتب کردہ کئی کتابیں اس کے تحت شایع ہوئیں۔
۷۔نعتیہ کتب کی اشاعت
ڈاکٹر شہزاداحمد نے ۱۹۸۹ء میں خالص نعتیہ کتب کی اشاعت کی غرض سے اردوبازار کراچی میں العائشہ کمپوزنگ سنٹر اور ایچ بی آرٹ پرنٹرزقائم کیے۔
۸۔ماہنامہ حمدونعت کراچی کا اجرا
جون ۱۹۸۹ء میں ڈاکٹرشہزاداحمد نے دنیائے نعت کے تیسرے ماہنامے ’’حمدو نعت‘‘ کراچی کا اجراکیا۔ یہ ماہنامہ تسلسل کے ساتھ شایع نہ ہو سکا۔ مختلف اوقات میں اس کے ۱۲شمارے منظرعام پر آئے۔ آخری شمارہ ۲۰۱۷ء میں چھپا۔ ۲۰۱۵ء میں عارضۂ قلب میں مبتلا ہونے کے باعث اب اس کی اشاعت کاکام سست روی کا شکار ہے۔
۹۔حمدونعت ریسرچ فائونڈیشن
حمد و نعت کے شعبہ میں نئے محققین کی راہنمائی کے لیے ڈاکٹر شہزاداحمد نے ۲۰۰۱ء میں ’’حمدونعت ریسرچ فائونڈیشن‘‘قائم کی۔ یہ پاکستان کی سب سے پہلی نعت لائبریری ہے جو حیدرآباد میں قائم ہوئی اور بعدازاں ڈاکٹر صاحب اسے کراچی لے آئے۔ اب تک سینکڑوں ایم فل اور پی ایچ ڈی اسکالرز ریسرچ فائونڈیشن کی لائبریری سے استفادہ کرچکے ہیں۔ اس میں ہزاروں نعتیہ کتب اور رسائل وجرائد موجود ہیں اور یہ ملک اور بیرون ملک کے طلبہ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ واضح رہے کہ یہ انجمن ترقی نعت ٹرسٹ کے زیر اہتمام قائم ہے ۔
۱۰۔پی ایچ ڈی کا اعزاز
’’اُردو نعت پاکستان میں‘‘ ڈاکٹر شہزاد احمد کا پی ایچ ڈی اسلامیات کا مقالہ ہے جس میں پاکستانی نعت کی مختلف جہات عمدگی سے بیان ہوئی ہیں۔ یہ مقالہ پروفیسر محمد سعید(پرنسپل طارق بن زیاد کالج ، کراچی) کی زیرنگرانی مکمل ہوا۔ اس مقالے پر ۲۶ستمبر ۲۰۱۲ء میں جناب شہزاداحمد ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے نوازے گئے۔
تخلیقات
ڈاکٹر شہزاد احمد نعتیہ ادب کی تدوین ، تذکرہ ، تحقیق اور تنقید کے مردِمیدان ہیں۔ اْنھوں نے بیسیوں کتابیں مرتب کی ہیں اور نعتیہ شاعری کو محفوظ کرنے کی سعی کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ نعتیہ صحافت سے بھی وابستہ ہیں۔آپ ماہ نامہ ’’روحانی ڈائجسٹ ‘‘ (کراچی) میں سب ایڈیٹر ، ماہ نامہ ’’نوائے نعت‘‘ (کراچی) میں سب ایڈیٹر ، ماہ نامہ ’’مینٹل ہیلتھ‘‘ (کراچی) میں سب ایڈیٹر ، ، ماہ نامہ ’’المفکر‘‘ (کراچی) میں سب ایڈیٹر رہے اور اب ماہنامہ ’’حمدونعت‘‘ (کراچی) کے موسس اور ایڈیٹر ہیں نیز طارق بن زیاد کالج شاہ فصل کالونی نمبر۳ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔آپ نے ماہ نامہ ’’حمد ونعت‘‘ کراچی ،جولائی ۱۹۹۰ء میں جاری کیا۔ بارہ شمارے شایع ہوئے جن کا تفصیلی تعارف اُن کی صحافتی و ادارتی خدمات کی ذیل میں کیا جائے گا۔مختلف شعبوں میں آپ کی مطبوعہ کتب درج ذیل ہیں:
تحقیق
۱۔’’اردو نعت پاکستان میں‘‘ (مقالہ پی ایچ ڈی) حمد ونعت ریسرچ فائونڈیشن ،کراچی، ۲۰۱۴ء
۲۔’’اساسِ نعت گوئی‘‘ رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی ، ۲۰۱۶ء
۳۔’’اردو میں نعتیہ صحافت ‘‘ رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی ، ۲۰۱۶ء
۴۔’’نعت رنگ کے پچیس شمارے‘‘ (اجمالی تعارف ) نعت ریسرچ سینٹر ،کراچی ، ۲۰۱۵ء
۵۔ ’’شاعرعلی شاعر کی نعتیہ وادبی خدمات مع مختصر انتخاب ‘‘ رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی ،۲۰۱۶ء
تذکرہ نگاری
۱۔تذکرہ ’’لاکھوں سلام‘‘(سلام رضا کے تضمین نگار شعرا)انجمن ترقی نعت (ٹرسٹ) کراچی ،۶ ۱۹۸ء
۲۔تذکرہ’’کراچی میں نعت‘‘ (مقالہ) مجلہ اوج ،لاہور، نعت نمبر ،جلداول۔مطبوعہ ،۱۹۹۲ء
۳۔تذکرہ ’’حیدرآباد سندھ کے نعت گو‘‘ (مقالہ) مجلہ اوج ،لاہور، نعت نمبر، جلد، اول۔ مطبوعہ ، ۱۹۹۲ء
۴۔تذکرہ’’بارگاہِ رسالت کے نعت گو‘‘ ۔ ماہ نامہ ’’حمدو نعت‘‘،کراچی ، مطبوعہ ، ۱۹۹۶ء
۵۔تذکرہ ’’حسنِ انتخاب‘‘ (خانوادۂ ریاض سہروردی کے چھے شعرا) انجمن عندلیبانِ ریاض رسول ، کراچی،۲۰۱۴ء
۶۔تذکرہ’’ایک سو ایک پاکستانی نعت گوشعرا‘‘ رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی ،۲۰۱۷ء
غیر مطبوعہ تذکرے
۱۔تذکرہ’’شاعرات کی نعت گوئی‘‘(صاحب کتاب شاعرات)
۲۔تذکرہ’’بارگاہِ رب العزت کے حمد گو شعرا‘‘
انتخابِ نعت
۱۔’’زمزمۂ نعت‘‘ (۳جولائی ۱۹۸۱ئ، )
۲۔’’نوائے رضا‘‘ (۱۹۸۲ئ)
۳۔’’سلامِ رضا‘‘ (۱۹۸۳ئ)
۴۔’’نوائے نعت‘‘ (۱۹۸۴ئ)،
۵۔’’انوارِ عقیدت ‘‘(جون۲۰۰۰ئ) ضخیم انتخاب نعت
اس کے علاوہ اُنھوں نے بے شمار نعتیہ انتخاب ترتیب دیے ہیںجن میں سے نمایاں نام یہ ہیں:’’وہی خدا ہے‘‘(حمد)، ’’ہمارا نبی‘‘ ،’’اُن کا چرچا رہے گا‘‘، ’’مدینے کی تمنا‘‘ ، ’’شاہِ زمنی مکی مدنی‘‘، ’’مدینے کی گلیاں‘‘، ’’آقا مدینے والے‘‘ ، ’’پھر مدینے چلا‘‘ ،’’محمدشمعِ محفل ‘‘، ’’خلق کے سرورشافعِ محشر‘‘ ، ’’نعمتیں بانٹتا جس سمت‘‘، ’’صرف اُن کی رسائی ہے‘‘ ’’آئی نسیمِ کوئے محمد‘‘،’’میری جان مدینے والے‘‘ ، ’’آئی اجل کو ٹالنے والے‘‘، ’’رسولِ مجتبیٰ کہیے‘‘،’’رحمت کا درکھلا ہے‘‘، ’’خوشبو ہے دو عالم میں‘‘ ، ’’تیرے قدموں میں آنا‘‘ ، ’’یامحمد محمد میں کہتا رہا‘‘ ، ’’یارب ترے محبوب کا‘‘ ، ’’گنبد خضرا نظرآئے‘‘، ’’طیبہ کی زیارت‘‘، ’’ درود لب پر سجا سجا کر‘‘، ’’جشنِ آمد رسول اللہ ہی اللہ ‘‘، ’’ کملی میں چھپالو‘‘، ’’مرادل تڑپ رہاہے‘‘ ،’’روضۂ انور دکھائیے‘‘اور ’’خواتین کی مشہور نعتیں۔‘‘

نعتیہ کلیات نعتیہ مجموعہ کلام انتخاب نعت
’’قصیدہ رسولِ تہامی‘‘ (حافظ عبدالغفار حافظؔ) ۔’’منتخب نعتیں‘‘(ستاروارثی بریلوی)۔ ’’حرف حرف خوشبو‘‘( وقار صدیقی اجمیری)۔’’مقصودِ کائنات ‘‘(ادیب رائے پوری)۔ ’’نزول‘‘(شفیق الدین شارقؔ)۔’’مشکوٰۃ النعت‘‘ (ادیب رائے پوری)۔ ’’ستونِ نعت‘‘ (قمرالدین انجم) ۔ ’’رہبرنعت ‘‘(صوفی مسعود احمد رہبر چشتی) ۔ ’’جشن آمد رسول ‘‘( عابد بریلو ی) ’’کلیات ریاض سہروردی‘‘(مولانا سید محمد ریاض الدین سہروردی) ’’کلیات شاہ انصارالٰہ آبا د ی ‘ ‘ (شاہ انصار الہٰ آبادی)۔ ’’کلیات عزیزالدین خاکی‘‘ (عزیزالدین خاکی)۔’’ارمغانِ ادیب‘‘ (ادیب رائے پوری)، ’’ارمغانِ خاکی‘‘ (عزیزالدین خاکی)’’ارمغان ریاض سہروردی‘‘(مولانا سید محمد ریاض الدین سہروردی)، ’’کلیات صبیح رحمانی‘‘(سید صبیح رحمانی)۔
غیر مطبوعہ کلیات
’’کلیات ضیاالقادری‘‘۔ ’’کلیات عزیز الاولیا‘‘ ۔ ’’کلیات بہزاد لکھنوی‘‘۔’’کلیات اختر الحامدی‘‘، ’’کلیات ادیب رائے پوری‘‘۔ ’’کلیات قمر انجم‘‘ ۔ ’’کلیات احمد خیال ‘‘ ۔
تنقیدی مضامین
ڈاکٹرشہزاداحمد نے کثیر تعدادمیں مضامین لکھے ہیں جن میں تنقیدی،تعارفی اور تاثراتی مضامین شامل ہیں۔اُن کے یہ مضامین ایک الگ مقالے کے متقاضی ہیں۔اُن کے مضامین کے بارے میں منظرعارفی لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر شہزاداحمد نے بہت سے نعتیہ مجموعوں پر تنقیدی اور تقریظی مضامین قلم بند کیے۔ کئی نعت خوانوں کے تعارف اورخدمات تفصیل سے تحریرکیں۔ کئی شخصیات تو ایسی ہیں جن پر کئی جہتوں سے لکھا۔ اس حوالے سے ۷۶مقالوں کی فہرست تو میرے سامنے ہے جس کے بارے میں خود ڈاکٹر شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ’’نامکمل ہے‘‘ میں ان مقالوں کا ذکر کسی اور مقام پر کروں گا۔ ‘‘(۹)
’’نعت رنگ‘‘ ،کراچی میںشایع شدہ مضامین
۱۔نعتیہ تذکرہ نگاری اور ’’نعت رنگ‘‘ شمارہ نمبر۲۱ ۲۰۱۱ء
۲۔اُردو کے چند اہم پاکستانی انتخابِ نعت شمارہ نمبر۲۲ ۲۰۱۲ء
۳۔اذکاروانوارِ حدائق بخشش شمارہ نمبر۲۳ ۲۰۱۳ء
۴۔پاکستان میں نعتیہ صحافت ایک جائزہ شمارہ نمبر۲۴ ۲۰۱۴ء
۵۔نعتیہ کلیات کی روایت:ایک مطالعاتی جائزہ شمارہ نمبر۲۵ ۲۰۱۵ء
جہانِ حمد،کراچی میں شایع شدہ مضامین
۱۔شعرائے حیدرآباد (سندھ) کی حمدنگاری شمارہ نمبر۱
۲۔اُردو میں حمد نگاری شمارہ نمبر۱
۳۔اُردو میں حمد نگاری شمارہ نمبر۲
۴۔مالک ارض وسما شمارہ نمبر۳
۵۔صاحب مجموعہ نعت گو شعرا کا حمدیہ کلام شمارہ نمبر۳
۶۔بیگم قمر القادری کا ’’لمعاتِ قمر‘‘ شمارہ نمبر۴
۷۔فروغ حمدونعت :اہم نعتیہ مقالے، کتب اور شخصیات شمارہ نمبر۶
۸۔محشربدایونی کی نعت گوئی شمارہ نمبر۷
۹۔مولانا کوثرنیازی بحیثیت نعت گو شمارہ نمبر۷
۱۰۔بہزادلکھنوی اور کراچی کے نعت گو شمارہ نمبر۸
۱۱۔حمد و نعت کی بہاریں سمیٹنے والے طاہر سلطانی شمارہ نمبر۱۴
۱۲۔اُردو میں نعت نگاری شمارہ نمبر۱۷
۱۳۔صاحب قرآن کے محامدو محاسن شمارہ نمبر۱۸
۱۴۔سلام رضا کی تضمین نگاری شمارہ نمبر۱۹
اس کے علاوہ ڈاکٹر شہزاد احمد کے مضامین کی ایک فہرست منظرعارفی نے اپنی کتاب ’’کراچی کے اہل قلم ‘‘میں دی ہے ۔وہ بھی ملاحظہ ہو:
۱۔’’شعبہ نعت کا اجمالی جائزہ‘‘(حضرت حسان نعت ایوارڈ ،کراچی ، مجلہ ،۱۹۹۱ئ)
۲۔’’چند اہم نعتیہ مقالے ، کتب اور شخصیات‘‘ (لیلتہ النعت، کراچی، مجلہ، ۱۹۹۱ئ)
۳۔’’پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری‘‘ (سلورجوبلی ایوارڈ، کراچی ، مجلہ ، ۱۹۹۲ئ)
۴۔’’ایوانِ نعت ، صبیح رحمانی کی روزوشب کی کاوشوں کا آئنہ دار‘‘(ایوانِ نعت ،کراچی ، مجلہ اگست،۱۹۹۲ئ)
۵۔’’نعت گو شعرا کے غیر مطبوعہ نعتیہ دواوین‘‘(لیلۃ النعت، کراچی ،مجلہ ،۱۹۹۳ئ)
۶۔’’مجلہ اوج ،لاہورکا نعت نمبر‘‘ (لیلۃ النعت، کراچی ،مجلہ ،۱۹۹۲ئ)
۷۔’’اردو میں حمد نگاری‘‘ (حمد یہ شاعری کے حوالے سے شایع ہونے والی کتابیں ، جون ۹۸ ۱۹ ئ)
۸۔’’شعرائے حیدرآباد (سندھ)کی حمد نگاری ‘‘(جہانِ حمد ،کراچی، کتابی سلسلہ، جون ،۹۸ ۹ ۱ئ)
۹۔’’اردو میں حمد نگاری‘‘ (جہانِ حمد ،کراچی ، کتابی سلسلہ، دسمبر، ۱۹۹۸ئ)
۱۰۔’’ماہ نامہ ’’نعت‘‘ ،لاہور کے ابتدائی چوبیس شماروں کا اجمالی جائزہ(دنیائے نعت ، کراچی، کتابی سلسلہ ، اگست ،۲۰۰۱ئ)
۱۱۔’’رفیق عزیزی کی علمی وادبی خدمات کا اجمالی جائزہ‘‘(دنیائے نعت ،کراچی ، سیدرفیق عزیزی نمبر ، اکتوبر ،۲۰۰۲ئ)
۱۲۔’’لیلۃ النعت ، مرکزی گل بہار نعت کونسل پاکستان کے نعتیہ مجلے ‘‘ (لیلۃ النعت، کراچی ، مجلہ ، سلور جوبلی نمبر، ۲۰۰۳ئ)
۱۳۔’’دبستان وارثیہ کی حمد یہ تحریک ‘‘(دنیائے نعت ،کراچی ، نعت نمبر، مارچ ۲۰۰۴ئ)
۱۴۔’’حمد ونعت کی بہاریں سمیٹنے والے طاہر سلطانی‘‘(اردو حمد کا ارتقا، تذکرہ ،اگست ۰۴ ۰ ۲ ء )
۱۵۔’’اردو نعت میں تذکرہ نگاری کی روایت ‘‘ (پاکستان کے نعت گو شعرا، جلد دوم ،۲۰۰۷ئ،
معارف اسلامیہ ،کراچی ،مجلہ ، ۲۰۱۲ئ)
۱۶۔’’نعتیہ تذکرہ نگاری اور نعت رنگ‘‘ (نعت رنگ اہل علم کی نظر میں ۲۰۰۹ئ)
۱۷۔’’نوراحمد میرٹھی کی تحقیقی وتالیفی خدمات کا اجمالی جائزہ‘‘ (سر بکف،کراچی ، دوماہی، نومبر ، دسمبر،۲۰۱۱ء ۔ نیز عالمی رنگ ادب ،کراچی ، کتابی سلسلہ ،سالِ اشاعت ندارد)
۱۸۔’’انوارِ شہر شفاعت نگر‘‘(حدائق بخشش کی روشنی میں شانِ شفاعت)،(معارفِ رضا، کراچی ،ماہ نامہ ، دسمبر ،۲۰۱۱ئ)
۱۹۔’’حدائق بخشش۔ ایک مطالعہ‘‘ (معارفِ اسلامیہ ،کراچی ،مجلہ ،جنوری تا جون ۲۰۱۲ئ)
آخر میں ڈاکٹر شہزاد احمدکی نعتیہ خدمات کے عہد بہ عہد ارتقا سے متعارف ہونے کے لیے اُن کی نعت شناسی کی ایک جھلک پیش کی جا رہی ہے :
سال
مضمون/ مقالہ/تذکرہ
مجلہ/ کتاب/کتابی سلسلہ
1991ء
شعبہء نعت کا اجمالی جائزہ
حضرت حسان نعت ایوارڈ،کراچی، مجلہ
1991
چند اہم نعتیہ مقالے ،کتب اور شخصیات
لیلتہ النعت،کراچی، مجلہ
1992
پروفیسر ڈاکٹرفرمان فتح پوری
سلورجوبلی ایوارڈ ،کراچی، مجلہ
1992
اْردو کے یادگار نعتیہ مجموعے
حضرت حسان نعت ایوارڈ،کراچی ، مجلہ
اگست،1992
''ایوانِ نعت''صبیح رحمانی
ایوان نعت، کراچی، مجلہ
93۔1992
کراچی میں نعت رسول(تذکرہ)
اوج، لاہور، مجلہ(نعت نمبرجلد :اول)
93۔1992
حیدرآباد(سندھ)کے نعت گو(تذکرہ)
اوج، لاہور، مجلہ(نعت نمبرجلد :اول)
1993
نعت خوانی ، سعیدہاشمی، بلبل بستانِ مصطفی
سعیدہاشمی، سلورجوبلی ، کراچی، مجلہ
1993
نعت گو شعرا کے غیر مطبوعہ نعتیہ مجموعے
لیلتہ النعت، کراچی، مجلہ
1993
خواجہ صوفی مسعود احمد رہبر چشتی ضیائی
رہبر رہبراں (نعتیہ مجموعہ کلام)
جولائی 1994
تعارف، عزیزالدین خاکی القادری
ذکر صل علیٰ (نعتیہ مجموعہ کلام)
اگست 1994
صوفی مسعود احمد رہبرچشتی
رہبر رہبراں ،کراچی، مجلہ
اکتوبر1994
پذیرائی۔ صبیح رحمانی
پذیرائی، کراچی مجلہ
1994
نعتیہ کتب کے مرتب ،محمد یامین وارثی
بنائے کن فکاں، کراچی، مجلہ
1994
کراچی کے نعت گو(تذکرہ)
لیلتہ النعت، کراچی ، مجلہ
ستمبر 1995
مجموعہ نعت سے نبی الحرمین تک
نبی الحرمین(نعتیہ مجموعہ کلام)
1995
حیدرآباد(سندھ) کے نعت گو (تذکرہ)
لیلتہ النعت ،کراچی، مجلہ
اگست 1996
نوجوان ہردلعزیز نعت گو عزیزالدین خاکی
نغمات طیبا ت (نعتیہ مجموعہ کلام
1996
مقیاسِ خاکی۔۔۔۔مقیاس عقیدت
مقیاس خاکی(تذکرہ وانتخاب نعت)
1996
عزیزالدین خاکی ،خوش الحان نعت گوشاعر
مقیاس خاکی(تذکرہ وانتخاب نعت)
1996
نوجوان ہر دلعزیز ،نعت گو، عزیزالدین خاکی
نغمات طیبات(مجلہ)
1996
مجلہ اوج، لاہور کا ''نعت نمبر''
لیلتہ النعت، کراچی، مجلہ
اکتوبر 1997
نیرحامدی ضیائی رضوی جیلانی جودھپوری
نعت نیر(نعتیہ مجموعہ کلام)
1997
بہرزماں بہرزباں (نوراحمد میرٹھی)
(تعارفی مجلہ)
مئی 1998
حکیم عبدالرشید پریمی اجمیری
رنگ نکہت روشنی(نعتیہ مجموعہ کلام)
جون 1998
اْردو میں حمد نگاری (حمدیہ کتب)
جہانِ حمد ،کراچی ،کتابی سلسلہ
جون 1998
شعرائے حیدرآباد(سندھ) کی حمدنگاری
جہانِ حمد ،کراچی ، کتابی سلسلہ
اگست،1998
ادیب رائے پوری کی خدمات
(تعارف نامہ)
اکتوبر 1998
ادیب رائے پوری کی تحقیقی خدمات
مقصود کائنات(کلیات نعت)
دسمبر1998
اْردو میں حمد نگاری
جہانِ حمد، کراچی ، کتابی سلسلہ
1999
دنیائے حمد ونعت کی بین الاقوامی شخصیت ادیب رائپوری
تعارف نامہ تفصیلی
1999
یارسول اللہ انظرحالنا
(انتخاب نعت)
اگست2001
محمد فیصل حسن نقشبندی(نعت خواں)
دنیائے نعت، کراچی، کتابی سلسلہ
اگست 2001
کتابوں پر تبصرے
دنیائے نعت، کراچی، کتابی سلسلہ
اگست 2001
ماہنامہ’’ نعت‘‘ لاہور، ابتدائی چوبیس شماروں کا اجمالی جائزہ
دنیائے نعت، کراچی، کتابی سلسلہ
اگست 2001
محمد اسلم سیال وارثی(بانی بزم ثناخوانِ مصطفی)
دنیائے نعت، کراچی، کتابی سلسلہ
مارچ 2002
ادیب رائے پوری نعتیہ خدمات کے آئنے میں ارمغانِ ادیب
ارمغان ادیب (منتخب نعتیہ کلام)
اپریل 2002
عزیز الدین خاکی کی تصنیفی وتالیفی خدمات کا اجمالی جائزہ
تعارف نامہ۔ کتابچہ
جولائی 2002
امیدعلی بہلم کے مرتب کردہ نعتیہ منتخبات
خوشبوئے مدینہ(انتخاب نعت)
اکتوبر 2002
محترمہ خورشیدفاطمہ شجیع
جانِ کون ومکاں(نعتیہ مجموعہ کلام)
اکتوبر 2002
رفیق عزیزی کی علمی وادبی خدمات کااجمالی جائزہ
دنیائے نعت ،کراچی، (سیدرفیق عزیزی نمبر)
جنوری 2003
عزیزالدین خاکی کی تصنیفی وتالیفی خدمات
ارمغانِ خاکی(منتخب نعتیہ کلام)
مئی 2003
مسرورکیفی کی نعتیہ خدمات
راہِ نجات ،کراچی(نعت نمبر)
مئی 2003
قمرانجم۔حیات وخدمات
راہِ نجات ،کراچی (نعت نمبر)
جولائی2003
حیدرآبادکے نعت گو(مختصر تذکرہ)
عبارت، حیدرآباد،سہ ماہی
2003
مرکزی گل بہارنعت کونسل پاکستان کے نعتیہ مجلے
لیلتہ النعت ،کراچی (سلورجوبلی نمبر)
جنوری 2004
صوفی رہبرچشتی ، خدمات کے آئنے میں
رہبرغزل(مجموعہ غزل)
مارچ 2004
مسرورکیفی کی نعتیہ خدمات اورنعتیہ ادب کی زندہ تحریک
دنیائے نعت،کراچی (نعت نمبر)
مارچ2004
دبستانِ وارثیہ کی حمدیہ تحریک
دنیائے نعت، کراچی(نعت نمبر)
اپریل 2004
خان اخترندیم کی نعتیہ خدمات کااجمالی جائزہ
ساقی کوثر(نعتیہ کلام)
اگست 2004
حمدونعت کی بہاریں سمیٹنے والے طاہرسلطانی
اْردو حمد کا ارتقا(تذکرہ)
ستمبر 2004
عابدبریلوی۔۔۔تعارف وخدمات
جشنِ آمد رسول (نعتیہ مجموعہ کلام)
2004
ایک قابل تقلید کارنامہ
(مرتب طارق بن آزاد)
2004
حمدرب اور نعت مصطفی کا سچا مبلغ
(انتخاب نعت)
مارچ 2006
خان اخترندیم نقشبندی کی نعتیہ خدمات کا اجمالی جائزہ
میلاد حسان(میلادنامہ)
جون 2006
محمد اسلم سیال وارثی(بانی وصدربزم ثناخوانِ مصطفی)
سلور جوبلی محفل نعت، کراچی، مجلہ
جنوری 2007
شاعرعلی شاعر کی ادبی ونعتیہ خدمات
بجھے چراغوں کی روشنی(انتخابِ نعت)
اگست 2007
اردو نعت میں تذکرہ نگاری کی روایت
پاکستان کے نعت گوشعرا(جلد دوم)
2007
عزیز الدین خاکی کی حمدیہ ونعتیہ خدمات
بینات (نعتیہ مجموعہ کلام)
مارچ 2009
خوش فکر وہمہ رنگ شاعر
رنگ ادب ، کراچی (نعت نمبر)
جون 2009
ارادت کے گلاب (قاری غلام زبیر نازش )
(نعتیہ مجموعہ کلام)مضمون: نزول نعت
اپریل 2009
تاثرات، اظہر علی خان اظہر
کلیاتِ اظہر(نعتیہ ودیگرکلام)
2009
نعتیہ تذکرہ نگاری اور نعت رنگ
نعت رنگ اہل علم کی نظرمیں
جنوری 2010
انوار مسرورکیفی اور نعتیہ ادب کی زندہ تحریک
آبشارِ نور(نعتیہ اشعار)
ستمبر 2001
اردو کے چند اہم پاکستانی انتخاب نعت
نعت رنگ ،کراچی کتابی سلسلہ
دسمبر2011
نوراحمدمیرٹھی کی تحقیقی وتالیفی خدمات کا اجمالی جائزہ
سربکف ، کراچی ، دوماہی
دسمبر2011
انوارِ شہر شفاعت نگر(حدائق بخشش کی روشنی میں شان شفاعت)
معارف رضا ،کراچی ،ماہنامہ
جون2012
حدائق بخشش۔ایک مطالعہ
معارف اسلامیہ ،کراچی ، مجلہ
فروری2012
شاعرعلی شاعر کی ادبی ونعتیہ خدمات کا اجمالی جائزہ
نورسے نور تک (کلیات حمدونعت)
اگست2012
اذکارو انوارِ ''حدائق بخشش''
نعت رنگ ، کراچی، کتابی سلسلہ
2012
اردو نعت میں نعتیہ تذکرہ نگاری کی روایت
معارف اسلامیہ ، کراچی ،مجلہ
س ن
نور سخن اور نوراحمد میرٹھی
نور سخن، کراچی،(تعارفی مجلہ)
س ن
خوش نصیب ،سعادت مند نوجوان
الھادی منیر(انتخاب نعت)
س ن
تعارف ،عزیز الدین خاکی
ذکر صل علیٰ(تعارفی مجلہ)
س ن
نوراحمد میرٹھی کی تحقیقی وتالیفی خدمات کا اجمالی جائزہ
عالمی رنگ ادب، کراچی(کتابی سلسلہ)

شخصیت
ڈاکٹر شہزاداحمد جاذب نظر شخصیت کے مالک ہیں۔ گول گندمی چہرہ، پست مونچھیں، سرخ ہلکی داڑھی، ستواں ناک، بالوں کے درمیان سے نکلی ہوئی مانگ اور پْرعزم آنکھیں اْن کی شخصیت کے نمایاں خدوخال ہیں۔ اْن کا قد درمیانہ اورجسم بھراہوا ہے۔ ایک پائوں ایکسڈنٹ کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ اب پیدل چلنے پھرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ شستہ اُردو بولتے ہیں۔ ٹی وی پروگرامز اور نعتیہ محافل میں جناح کیپ اْن کی شخصیت کی شان بڑھاتی نظر آتی ہے۔علم دوست انسان ہیں۔ اُن کی شخصیت کا ایک پہلو مہمان نوازی ہے۔ اس بارے میں پروفیسرنوید عاجز بیان کرتے ہیں:
’’جب میں اپنے مقالے’’اُردو میں نعتیہ قصید ہ نگاری‘‘ کے لیے کراچی گیا تو استاد محترم ڈاکٹر شہزاد احمد کے ہاں قیام رہا۔ صبح میں انجمن ترقی اُردو کی لائبریری میں جاتا، شام کو ڈاکٹر صاحب گاڑی میں لینے آجاتے، جس روز میں اکیلے لوٹتا، وہ میرے آنے تک کھانا نہیں کھاتے تھے۔ کھانا سادہ اور لذیذ ہوتا۔ رات کو قصائد کی دستیابی کی بابت پوچھتے۔ لائبریریوں کے متعلق راہنمائی کرتے۔ الغرض اتنی شفقت فرماتے کہ گھر سے دوری کا احساس رفع ہو گیا۔ ‘‘(۱۰)
ڈاکٹر صاحب نے ساری زندگی محنت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ اُن کی یہ محنت ادبی زندگی میں بھی نظر آتی ہے۔ اس بارے میں غوث میاں کہتے ہیں:
’’ڈاکٹر شہزاد احمد ایک محنتی اورا نتھک شخصیت ہیں۔ اْنھوں نے انجمن ترقی نعت پاکستان کی بنیاد رکھی۔ منہاج القرآن ٹرسٹ کے بانیوں میں سے ہیں، یہاں اْنھوں نے ایک پبلک لائبریری بنائی۔ سب سے بڑھ کر انتہائی محنت سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جس میں نعتیہ ادب کی ایک تاریخ رقم کردی ہے ۔ یہ مقالہ آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتا رہے گا۔‘‘(۱۱)
شاعرعلی شاعرکراچی کی ادبی روایت کا ایک معروف نام ہے۔ اُنھوں نے ڈاکٹر شہزاد احمد کو قریب سے دیکھا ہے بلکہ ڈاکٹر شہزاد احمد کی کئی کتب اُنھی کے ادارے رنگ ادب پبلی کیشنز کے زیراہتمام شایع ہوئی ہیں۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے تحقیقی مقام اور شخصی راست بازی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹرشہزاد احمد کو بحیثیت ایک محقق نعت جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ اُن کے نعتیہ ادب کی تحقیق میں وقیع کام سے نہ صرف اُردوادب کا دامن مالامال ہوا ہے بلکہ اُن کا زیادہ تر تحقیقی اور تجز یاتی کام تاریخِ ادب اُردو کا حصہ بن گیا ہے۔ وہ ایک حمدونعت گو شاعر ، ادیب ، محقق، تذکرہ نگار اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے ،سچے اور وضع دار انسان ہیں۔ ‘‘(۱۲)
شریف ساجد پاک پتن سے تعلق رکھنے والے ایک معروف شاعر ہیں۔ وہ پاک پتن میں ڈاکٹر شہزاد احمد کی آمد کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’ڈاکٹر شہزاد احمد سے پروفیسر نوید عاجز کے گھر ایک نعتیہ مشاعرے میں ملاقات کا موقع میسر آیا ۔ وہ جب بھی کوئی ایسا شعر سنتے جس میں مدینے کی حاضری اور شفاعت رسول کا پہلو نمایاں ہوتا تو فوراً آبدیدہ ہو جاتے۔ اُن کی دل گدازی کی یہ کیفیت قابلِ رشک ہے۔یہ نعمت عشق رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔‘‘(۱۳)
ڈاکٹر شہزاد احمد عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم میں ڈوبے ہوئے راست گو انسان ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے درد دل کی صفت سے بدرجہ اتم نواز رکھا ہے۔ وہ خلوص کے بندے ہیں ۔ اُن کی نگرانی میں کام کرنے والے پی ایچ ڈی کے اُردو اسکالر نوید عاجز کہتے ہیں کہ:
’’میں چار پانچ سال ڈاکٹر شہزاد احمد سے کام کی راہنمائی کے سلسلے میں وابستہ ہوں۔ آج تک انھوں نے مجھ سے کسی قسم کی دنیاوی منفعت کی بات نہیں کی۔ اپنے طلبہ کے ساتھ اُن کا رشتہ خلوص اور صرف خلوص پر مبنی ہے۔ ایسے اساتذہ واقعی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔‘‘(۱۴)
ڈاکٹر شہزاد کی نجی، ادبی اور شخصی زندگی کے اہم واقعات کے بعد آئندہ ابواب میں ہم نعتیہ ادب میں اُن کی خدمات کا جائزہ پیش کریں گے۔

حوالہ جات
۱۔منظرعارفی:’’کراچی کے اہلِ قلم‘‘(جلداوّل)( رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی) ۷مارچ ، ۲۰۲۰ئ،ص:۲۵۶
۲۔ٹیلی فونک انٹرویو:ڈاکٹر شہزاد احمد از راقم، کراچی ۷مارچ ،۲۰۲۰ء
۳۔ایضاً
۴۔ایضاً
۵۔ایضاً
۶۔ایضاً
۷۔ایضاً
۸۔ایضاً
۹۔منظرعارفی:’’کراچی کے اہلِ قلم‘‘(جلداوّل)(رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی) ۲۰۱۹ء ، ص:۲۶۱۔۲۶۰
۱۰۔ انٹرویو :نوید عاجز از راقم(طالب علم ڈاکٹر شہزاد احمد)،پاک پتن۔۲فروری ۲۰۲۰ء
۱۱۔ٹیلی فونک انٹرویو: غوث میاں از راقم(دوست ڈاکٹر شہزاد احمد) ، کراچی،۵، مئی ۲۰۲۰ء
۱۲۔شاعرعلی شاعر:بیک فلیپ’’ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا‘‘(رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی)۲۰۱۷ء
۱۳۔انٹرویو: شریف ساجداز راقم(دوست ڈاکٹر شہزاد احمد)، پاک پتن۔۲فروری ۲۰۲۰ء
۱۴۔ انٹرویو :نوید عاجزاز راقم(طالب علم ڈاکٹر شہزاد احمد)،پاک پتن۔۲فروری ۲۰۲۰ء
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...