Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ) > ڈاکٹر شہزاد احمد بطور محقق و نقاد

ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ) |
حسنِ ادب
ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ)

ڈاکٹر شہزاد احمد بطور محقق و نقاد
ARI Id

1689952632807_56116839

Access

Open/Free Access

Pages

34

ڈاکٹرشہزاد احمد بطور محقق و نقاد
(الف)اُردو نعت پاکستان میں: ایک جائزہ
شعبۂ نعت کا ہر گوشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے محبت اور عقیدت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے محبت کے اظہار کے لیے اپنے تحقیقی مقالے (نعتیہ شاعری کا تحقیقی جائزہ پاکستان کے خصوصی حوالے سے )یعنی ’’اُردو نعت پاکستان میں‘‘ کو وسیلہ بنایا ہے۔ یہ موصوف کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس پر جامعہ کراچی نے ڈاکٹر یٹ کی سند سے نوازا ہے۔ یہ مقالہ موضوعات کی اہمیت اور معلومات کے استناد کی بدولت اُردو نعت شناسی کا ایک اہم سنگ میل ہے۔ کوئی محقق اس مقالے سے صرف نظر کرکے نعت کی حالیہ روایت سے کماحقہ آشنا نہیں ہو سکتا۔ اس مقالے کی تکمیل ۲۰۱۲ء میں ہوئی۔ حافظ عبدالغفار حافظ نے اس کی جو تاریخ نکالی ہے، وہ ملاحظہ ہو:
کیجیے حافظ رقم تاریخ اجرائے سند
روشنی طبع ’’اُردو نعت پاکستان میں‘‘
۲۰۱۲ء
-iنعت گوئی کا تحقیقی و تجزیاتی مطالعہ
پہلا باب ’’نعت گوئی کا تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ‘‘ نعت کی روایت پر مبنی ہے۔ اس میں عربی اورفارسی نعت کے ارتقا کے ساتھ اُردو نعت کے شعرا کا بھی بھرپور ذکرکیا ہے۔اس کے علاوہ اس باب کے مباحث میں ’’شاعری اور قرآن کریم ، خالق کائنات سب سے پہلا وصاف رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم، اولین نعت میں محققین کی ترجیحات ، اولیات نعت، مدینے کی بچیوں کا خیرمقدمی گیت، حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب ، حضرت عاتکہ بنت عبدالمطلب ، حضرت خنسا ، شعرالجنی یا شعرا لمجہول، مبشرات کی اہمیت ،نعت کی افادیت، نعت کا مجموعۂ اوّل ام الکتاب قرآن مجید، قرآن پاک میں نعت، احادیث نبوی میں نعت، نعت کے لغوی واصطلاحی معانی، عہد نبوی میں نعت اورخلفائے راشدین کے نعتیہ اشعار شامل ہیں۔
یہ مقالہ چوں کہ شاعری سے متعلق ہے، اس لیے ڈاکٹر شہزاد احمد نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی احادیث اور قرآن کریم کی روشنی میں پہلے شاعری کے منصب اورافادیت کا تعین کیا ہے۔ اُن کا انداز بیاں توضیحی اورمدلل ہے۔ اُنھوں نے بتایا ہے کہ شعرگوئی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے شایانِ شان نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے کبھی شعر نہیں کہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمنے لبیدؓ کے شعر کو پسند فرما کر ثابت کردیا کہ فکرو نظر کی تربیت کرنے والی شاعری مستحسن ہے۔ لبید کا وہ شعر یوں ہے:
اَلا کل شی ما خلا للہ باطل
و کل نعیم لا محالہ زائل
یہی نہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے شاعری کو پسند فرمایا ہے بل کہ شعرا کو انعامات سے نواز کر اُن کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر شہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’حضور علیہ الصلوٰۃ السلام نے مسجد نبوی میں سیدنا کعب بن زہیرؓ سے نعت سن کر بطور انعام اپنی چادر مبارک عطا فرما دی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے امام بوصیری کے خواب میں جلوہ افروز ہو کر قصیدہ بردہ کی فرمائش کی۔ اس موقع پر اپنی ردائے مبارک عطا فرمائی جس کی برکت سے آپ کا لاعلاج مرض دور ہو گیا۔‘‘(۱)
الغرض باب کا آغاز شاعری کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر سے ہوا ہے اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام لہوولعب سے پاک شاعری کو استحسان کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کو سب سے پہلا وصاف رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ٹھہرایا گیا ہے اور قرآن پاک کو نعت کا مستند ماخذ قراردیا ہے۔ اولین نعت کے بارے میں ڈاکٹر طلحہٰ رضوی برق ، ڈاکٹر سید شمیم احمد گوہر قادری ابوالعلائی اورراجا رشید محمود کی تحقیق کا ذکر کیا گیا ہے۔ راجا رشید محمود سے استفاد ہ کرتے ہوئے ڈاکٹرشہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے پہلے نعت گو تبع اوّل حمیری (تبان اسعد بن کلیکرب) ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اجداد میں سے پہلے نعت گو حضرت کعب ؓبن لوی ہیں۔ حضور حبیب خداوند کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی پیدائش کے بعد سب سے پہلے نعتیہ اشعار حضرت عبدالمطلب کے ملتے ہیں۔ خواتین میں سب سے پہلے نعتیہ اشعار سیدہ آمنہؓ کے ملتے ہیں۔‘‘(۲)
اس کے بعد مدینے کی بچیوں کی نعت، شعرالجنی اور کتب سابقہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے مبشرات کی اہمیت کا ذکر ہے۔ پھر قرآن وحدیث میں نعت کی اہمیت اورمضامینِ نعت بیان کرکے نعت کے لغوی واصطلاحی معانی کی طرف توجہ کی ہے۔ نعت کے مفہوم کی وضاحت کے لیے ڈاکٹر شہزاد احمد نے ’’مولانا سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، راجا رشید محمود، ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، ڈاکٹر عاصی کرنالی ، ڈاکٹر سید شمیم احمد گوہر قادری، ڈاکٹر ابو الفتح محمد صغیر الدین ،پروفیسر سید محمد یونس شاہ گیلانی، رشید وارثی، ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری، ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی، باباسید رفیق عزیزی، ڈاکٹر شوکت زریں چغتائی اور ادیب رائے پوری ‘‘ کی آرا کو حوالے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ادیب رائے پوری نے نعت کے باب میں لکھا ہے کہ حضرت آدمؑ نے عرش اعظم کے ستونوں پر کلمہ طیبہ لکھا دیکھا۔ اس لیے کلمہ طیبہ حمدو نعت ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر شہزاد ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت آدم‘‘ نے تو لفظ ’محمد‘ کلمے کے ساتھ عرشِ اعظم کے ستونوں پر لکھا دیکھا تھا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ جب لفظ ’محمد‘ انتخاب کیا گیا یا منتخب ہوا تب ہی سے نعت کا آغاز ہو چکا تھا کیوں کہ لفظ محمد کے معنی (بہت تعریف کیا گیا ، نہایت سراہا گیا) کے ہیں اور لفظ نعت کے معنی بھی تعریف و توصیف کے ہیں۔‘‘(۳)
جہاں تک نعتیہ روایت کا تعلق ہے تو اس میں ڈاکٹر صاحب نے عربی، فارسی اور اُردو کو شامل کیا ہے۔ اوّل خلفائے راشدین کا نمونۂ کلام دیا ہے پھر عربی کے ۳۹شعرا کا کلام دیا ہے جن میں’’حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ،حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ،حضرت اسیدبن ابی ایاس الکنانی رضی اللہ عنہ،حضرت مالک بن النمط رضی اللہ عنہ،حضرت ابوعزۃ الجمحی رضی اللہ عنہ،حضرت مالک بن عوف النصری رضی اللہ عنہ،حضرت عمر بن سبیع الرہاوی رضی اللہ عنہ،حضرت اصیدبن سلمۃ السلمی رضی اللہ عنہ،حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ،حضرت العباس بن مرداس اسلمی رضی اللہ عنہ، حضرت ابوسفیان بن الحارث رضی اللہ عنہ،حضرت اعشیٰ بکر بن وائل رضی اللہ عنہ،حضرت کلیب بن اسیدالحضرمی رضی اللہ عنہ،حضرت نابغہ الجعدی رضی اللہ عنہ،حضرت قیس بن بحرالاشجعی رضی اللہ عنہ،حضرت فضالتہ اللیثی رضی اللہ عنہ،حضرت ماذن بن الغضویتہ الطائی رضی اللہ عنہ،حضرت عبداللہ بن الزبعری رضی اللہ عنہ،حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ،حضرت کعب بن زہیر مکی رضی اللہ عنہ،حضرت ابوطالب بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ،حضرت حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم رضی اللہ عنہ،حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا،حضرت ابوسفیان بن الحارث بن عبدالمطلب ابن عم النبی رضی اللہ عنہ، اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا،حضرت عمر (جن)،امام زین العابدین علی السجاد بن الحسین،امام اعظم ابوحنیفہ ، نعمان بن ثابت،ابن العربی ابوبکر محی الدین (الشیخ الاکبر)،بوصیری شرف الدین ابوعبداللہ محمد بن زید،ابن خلدون ولی الدین عبدالرحمن،مولاناشاہ ولی اللہ محدث دہلوی،آزادبلگرامی سید غلام علی حسینی واسطی،مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی ابن شاہ ولی اللہ،مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی ابن شاہ ولی اللہ،مولانا محمد فضل حق خیرآبادی،مولانا حامد حسن قادری (بچھرایونی) اور ابومحمد طاہر سیف الدین‘‘ کے نام ملتے ہیں۔ ساتھ مختصر سا تعارف نما تذکرہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر حضرت حسان بن ثابتؓ کے بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’بارگاہِ رسالت کے معروف ومقبول شاعرہیں۔ بڑے خلوص سے حضورؐ کی شان میں قصیدے کہے۔ آپ کو یہ اعزازحاصل ہے کہ خود نبی کریمؐ نے اُن کو حکم دے کر بھی قصیدے پڑھوائے ہیں۔‘‘(۴)
اس عبارت کے ساتھ ہی یہ شعر بھی درج ہے:
یار کن معتمد و عصمۃ لائذ
و ملاذ منتجع و جار مجاور
اسی طرح حضرت اصید بن سلمۃ السلمیؓ کا تعارف پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عرب کے نامو ر شعرا میں شمار کیے جاتے تھے۔ بارگاہِ رسالت میں اشعار کہتے تھے ۔ بنوسلیم کے ساتھ اسیر ہو کر مدینہ منورہ آئے اور اسلام قبول کیا۔‘‘( ۵)
فارسی نعت میں شعرا کا نمونہ کلام مختصر تعارف کے ساتھ دیا گیا ہے۔ ان شعرا میں ایران کے علاوہ ہندوستانی شعرا بھی شامل ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں: ’’فردوسی، ابوالقاسم حسن بن شرف شاہ طوسی،سنائی غزنوی ، مجدالدین ابوالمجد،خیام، عمربن ابراہیم،سید نا محی الدین عبدالقادر جیلانی (الغوث الاعظم)،خاقانی ، افضل الدین ابراہیم،نظامی گنجوی، نظام الدین، خواجہ قطب الدین بخت یارکعکی،خواجہ معین الدین حسن چشتی سنجری اجمیر ی ، عطا ر نیشاپوری ، خواجہ فریدالدین،تبریز شمس الدین،رومی، مولانا جلال الدین،سعدی ، شیرازی ، شیخ مصلح الدین،مولانا شہاب الدین مہمیرہ بدایونی،بوعلی شاہ قلندر پانی پتی، شیخ شرف الدین،خواجہ نظام الدین اولیا، بدایونی ثم الدہلوی، امیرخسروابن ابی الحسن لاچین ، عراقی ہمدانی، شیخ فخرالدین ابراہیم ابن شہریار،جامیؔ، مولانا نورالدین عبدالرحمن،شہنشاہ نصرالدین ہمایوںعرفیؔ ، مولانا جمال الدین فیضیؔ، ابوالفیض، خواجہ باقی باللہ نقش بندی ، محمد رضی الدین نظیریؔ نیشا پوری،شیخ عبدالحق حقی محدث دہلوی اور قدسیؔ ، حاجی جان محمد۔‘‘
فردوسی سے جان محمد قدسی تک ۲۵ شعرا اپنے کلام کی بہار دکھاتے نظرآتے ہیں۔ ان میں کہیں کہیں ڈاکٹرصاحب نے موضوعات کو بھی جگہ دی ہے ۔مثال کے طور پر سنائی غزنوی کا تعارف ملاحظہ ہو:
’’حکیم سنائی سلجوقی دور سے منسلک ہے۔ اس دور میں صوفیانہ شاعری پروان چڑھی۔ غزنوی دربار سے منسلک تھا۔ دربار سے اپنے تعلقات منقطع کرکے صوفیانہ مسائل اور نعتیہ مضامین کو شعری جامہ پہنانے میں پوری عمر بسر کردی۔‘‘(۶)
شعری مثال میں جان محمد قدسی کے دوشعر دیکھیے:
مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
من بیدل بجمال تو عجب حیرانم
اللہ اللہ چہ جمالست بدیں بوالعجبی(۷)
آخر میںاُردو نعت کی روایت ہے جس کا آغاز سیدمحمد حسینی گیسو دراز بندہ نواز ہیں۔ انھیں ڈاکٹرصاحب نے اُردو نعت کانقش اوّل بھی قرار دیا ہے۔ اس روایت کا آخری نام اخترشیرانی ہے۔ نعت کے اس بابرکت کارواں میں جنوبی اورشمالی ہند کے تقریباً سبھی قابل ذکر شعرا شامل ہیں
’’سیدمحمد حسینی ،سیدمحمد اکبر حسینی،فخردین نظامی،صدرالدین (م۔۸۷۶ھ)،محمد قلی قطب شاہ (م۔ ۲۰ ۱۰ھ/ ۱۶۱۱ئ) ، ملاو جہی (۱۰۰۱ھ۔۱۱۰۰ھ)،عبداللہ قطب شاہ(م۔۱۰۸۳ھ/ ۷۲ ۱۶ء )، نصر تی بیجاپوری(م۔۱۰۸۵ھ)،ولیؔ دکنی(۱۰۶۰ھ/ ۱۱۱۹ھ)،محمود بحری(۱۱۲۹ھ/ ۱۷۱۷ئ)،فراقیؔ بیجاپوری، سیدمحمد(م۔۱۱۴۴ھ/ ۱۷۳۱ئ)،سراج اورنگ آبا دی (م۔ ۷۷ ۱۱ھ/ ۷۶۳ ۱ئ)، مرزامحمد رفیع سودا(م۔۱۱۹۵ھ/ ۱۷۸۰ئ)،میرحسن دہلوی(م۔ ۱۲۰۴ھ/ ۱۷۹۰ئ)،میرتقی میر(م۔ ۱۸۱۰ء ) ، جرأت،شیخ قلندر بخش(م۔۱۲۲۵ھ/ ۱۸۱۰ئ)،انشائؔ، انشاء اللہ خاں(م۔۱۲۳۳ھ/ ۱۸۱۷ئ)، غلام ہمدانی مصحفیؔ(م۔ ۱۲۴۰ھ/ ۱۸۲۴ئ)،سچلؔ سرمست، حافظ عبدالوہاب سچے ڈنہ(۱۱۵۲ھ/ ۱۲۴۲ ء ) ، نظیر ؔاکبر آبادی، ولی محمد(م۔۱۲۴۶ھ/ ۱۸۳۱ئ)،رنگینؔ دہلوی، سعادت یار خاں (م۔۱۸۳۵ء )، مائل، میرغلام علی(۱۱۸۱ھ/ ۱۲۵۱ھ)،ناسخؔ لکھنوی، شیخ امام بخش(م۔ ۱۲۵۴ھ1838/ئ)، ؔ میر کرامت علی شہیدی (م۔۱۲۵۶ھ1840/ئ)،غمگین ؔ دہلوی ‘ سید علی شاہ (م۔ 1851/ئ)،مو منؔ دہلوی ‘ حکیم سید حبیب اللہ علوی (م۔ ۱۲۶۹ھ1852/ئ)،ذوقؔ دہلوی ‘شیخ محمد ابر اہیم (م۔ 1854ء ) ، کا فیؔ شہید ‘ مو لا نا کفایت علی مراد آبا دی (م۔۱۲۷۴ھ1858/ئ)،ظفرؔ ؔ ‘ بہا در شا ہ ‘ سراج الدین (م۔ ۱۲۷۹ھ1862/ئ)،غا لبؔ دہلوی میرزااسد اللہ خاں(م۔ ۱۲۸۵ھ1869/ئ)، شیفتہؔ دہلوی ‘ نو اب مصطفی خا ں(م۔۱۲۸۶ھ1869/ئ)،حا فظ پیلی بھیتی ‘ خلیل الدین حسن ‘ (م۔۱۲۹۰ھ1873/ئ)،انیسؔ لکھنوی ‘ میر ببر علی (م۔۱۲۹۱ھ1874/ئ)،دبیرؔ لکھنؤی‘ مر زاسلامت علی(م۔۱۲۹۲ھ1875/ئ)،نصرؔ پھلواری ‘ شاہ محمد علی حبیب (م۔۱۲۹۵ھ1878/ء ) ، شہیدؔ امیٹھوی ‘ غلام اما م (م۔۱۲۹۶ھ1879/ئ)،قلقؔ میر ٹھی ‘ حکیم غلا م مولیٰ عر ف مو لا بخش (م۔۱۲۹۶ھ1879/ئ)،لطف ؔبر یلوی ‘ حا فظ لطف علی خاں‘(م۔۱۲۹۸ھ1881/ئ) ، نساخؔ عظیم آبادی ‘عبد الغفور(م۔۱۳۰۶ھ 1888/ئ)، وحیدؔہسوی ‘ سید واحد علی (م۔۱۳۱۶ھ)، مو لا نا حا جی امداد اللہ مہا جر مکی (م۔۱۳۱۷ھ)، بیانؔ ویز دانیؔ میر ٹھی ‘ سید محمد مرتضیٰ(م۔۱۳۱۷ھ1900/ء )، امیرؔ مینا ئی لکھنو ی ‘ مفتی امیر احمد (م۔۱۳۱۸ھ 1900/ ء داغؔ دہلوی ‘ نو اب مرزا خا ں (م۔۱۳۲۲ھ1905/ئ)،محسنؔ کاکوروی ‘مو لوی محمد محسن (م۔۱۳۲۳ھ 1905/ئ)، حسنؔرضابر یلو ی مولا نا حسن ر ضا خاں (م۔۱۳۲۶ھ1908/ئ)، شبلیؔ نعمانی ‘ مولانا (م۔۱۳۳۲ھ1914/ئ)،حا لیؔ پا نی پتی ‘ مولانا خو اجہ الطا ف حسین (م۔ ۱۳۳۳ھ 1914/ئ)،آسیؔ غا زی پو ری ‘ مو لا نا محمد عبد العلیم رشیدی (م۔۱۳۳۵ھ 1916/ئ)، رضاؔ بر یلوی ‘مولا نا احمد رضا خاں ،عشقیؔ حید رآبا دی ‘ غلا م مصطفی (۱۴۰۰ھ)،جو ہرؔ رامپو ری ‘ مو لا نا محمد علی (م۔۱۳۴۹ھ1931/ئ)،عزیزؔ لکھنوی ‘ میرزا محمد ہا دی (م۔۴ ۱۳۵ ھ 1935/ئ)،اصغرؔ گو نڈوی ‘ اصغر حسین (م۔۱۴۵۵ھ 1936/ ، علامہ محمداقبال (م۔۱۳۵۷ھ 1938/ئ)،کیفؔ ٹو نکی ‘ محمد عا لمگیر خا ن ‘ حا فظ (م۔۱۴۵۹ ھ 1940/ء )، اکبرؔ الٰہ آبا دی ‘ سید اکبر حسین (م۔۱۳۶۰ھ 1941/ئ)،خلقؔ ‘ نو اب بہا در یا ر جنگ (م۔1944 ء )، بیدمؔ شاہ وارثی ‘ سید غلا م حسنین (م۔۱۳۶۳ھ 1944/ئ)،سا ئلؔ دہلوی ‘ نو اب سراج الدین احمد خا ں (م۔۱۳۶۴ھ1945/ئ)،سہیلؔ اعظیم گڑھی ‘ اقبال احمد خان (م۔۱۳۶۵ ھ 1946/ئ) ، جلیلؔ مانک پوری ‘ جلیل حسن (م۔۱۳۶۵ھ 1946/ ) اخترؔ شیر انی ‘ محمد دائو د خا ں ٹو نکی (م۔۱۳۶۷ھ 1948/ئ)۔‘‘
اس حصّے میں نمونۂ کلام تو دیا گیا ہے لیکن مختصر تعارف یہاں مفقود ہے۔ ہر شاعر کے نام کے ساتھ سالِ وفات کا اہتمام کیا ہے۔ شعرا کی ترتیب زمانی ہے۔ مثال میں مولانا محمد عبدالعلیم رشیدی المعروف آسی غازی پوری (م ۔۱۳۳۵ھ/ ۱۹۱۶ئ) کا نمونے کا شعر دیکھیے:
وہاں پہنچ کے یہ کہنا صبا سلام کے بعد
تمھارے نام کی رٹ ہے خدا کے نام کے بعد(۸)
’’اُردو نعت پاکستان میں‘‘ نعت کی روایت پر محیط ہے۔ اس میں شعرا زمانی اعتبار سے ترتیب دیے گئے ہیں۔ اُن کی وفات کے لحاظ سے اُن کا مقام مرتب کیا گیا ہے۔ عربی اور فارسی شعرا کا مختصر تعارف اور نمونۂ کلام دیا گیاہے مگر اُردو نعت کی روایت میں صرف نمونے کے اشعار پر اکتفا کیا گیا ہے۔ غالبؔ اُردو روایت میں شامل ہے مگر اُس کا فارسی نعت کا شعر دیا گیا ہے۔ یہاں سہو ہوا ہے، غالبؔ کو اپنی فارسی شاعری پر بڑا ناز تھا اور اُس کی فارسی نعت ’’حق جلوہ گر ، زطرز بیان محمد است‘‘ عشق رسولصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے سرشار ہے۔ اسی لیے اُسے فارسی روایت میں بھی شامل ہونا چاہیے تھا۔ نعت کی روایت میں ڈاکٹر شہزاد احمد نے بنیادی مآخذ سے زیادہ ثانوی مآخذ پر انحصار کیا ہے۔ زیادہ تر اشعار نقوش اور ارمغان نعت سے اخذ شدہ ہیں۔ تحقیق کے دیگر حوالہ جات مستند اوربنیادی مآخذ سے ہیں۔ بعض مقامات پر حواشی کے ذریعے اہم علمی نکات کی صراحت موجود ہے جس سے کام کے علمی وقار میں اضافہ ہوا ہے۔
۲۔قیام پاکستان اور استحکام پاکستان میں نعت گو شعرا کا حصہ
دوسرے باب میں اُن ۲۰ شعرا کا تذکرہ ہے جو قیام پاکستان سے پہلے کے حالات کے چشم دیدگواہ ہیں اور اُن کے نعتیہ کلام میں حالیؔ کے استغاثہ کی جھلک موجود ہے۔ یہ دور نعت کی بدلتی قدروں کا ترجمان ہے۔ اس میں سراپائے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے زیاہ سیرت طیبہ کی طرف مراجعت کا احساس نمایاں نظر آتا ہے۔ اب اسلام کے آفاقی پیغام کو اولیت ملنے لگی اور نعت کو اشاعت دین کے ذریعے کے طور پر برتا جانے لگا۔ ڈاکٹر شہزاد احمد نے اس باب کی تمہید میں بیسیویں صدی کی ابتدائی مشکلات اور آزمائشوں کو نعت کے موضوعات میں نئے خیال و آہنگ کا پیش خیمہ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’شہرآشوب اور آشوب ملت بھی اس دور کی نعت کا مقصود ومحور ہے۔ کہیں داد رس سے داد رسی کی درخواست ہے تو کہیں دہائی اور آہ ونالہ ہے تو کہیں ظلم و زیادتی کی شکایت ہے۔ کہیں حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے نظرکرم کی درخواست ہے تو کہیں ان مشکل حالات میں امداد طلبی کا حصول شاعر کے لیے طمانیت کاباعث ہے۔‘‘(۹)
اس عہد کی نعت روحانی تقویت کے ساتھ مسلمانان وطن کو آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے یعنی مذہبی شعور اورملی جذبہ قدم بہ قدم ساتھ ہیں اور استحکام پاکستان کے لیے اپنا کردار ادا کرتے نظرآتے ہیں ۔ اس کارواں میں 20شعرا میں ایک نام ظفرعلی خان کا ہے جو سیاسی تحریک میں ایک مثالی مقام رکھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے بھی سرشار ہیں۔ ان شعرا میں ’’ سیماب اکبرآبادی،ظفر علی خان،ملک نصراللہ خاںعزیز ، اُفق کاظمی امروہوی،قمرمیرٹھی،حفیظ جالند ھر ی ، منوربدایونی ،عبدالکر یم ثمر، عبرت صدیقی،غنی جبل پوری،طفیل ہوشیارپوری،عاقل اکبر آبادی،کرم حیدری، ماجدالباقری ، جنوںؔ بنارسی،قصریؔ کان پوری،ضمیر جعفری،جمیل نقوی،اصغر سودائی،شمیم ملیح آبادی‘‘ شامل ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد اکثر شعرا کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی۔ ہجرت کے کرب ناک عمل میں کسی کا گھر بار لٹا تو کسی کے خاندان کے افراد شہید کردیے گئے۔ ان شعرا نے کشت وخون کے بازار گرم ہوتے ہوئے دیکھے تو ان کے اندر تشویش کی لہر کیسے بیدار نہ ہوتی۔ وہ کیسے نہ شہرآشوب لکھتے ہیںاور کیوں نہ فریاد کرتے۔ ان مشکل حالات میں فریاد رسی کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی بارگاہ کا انتخاب عین فطری تھا۔ قمر میرٹھی کو بذات خود، ہجرت کا کرب سہنا پڑا ۔ اُن کے احوال بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر شہزاد احمد یوں رقم طراز ہیں:
’’تحریک پاکستان کے دور میں قمر میرٹھی نے ہندوشعرا کی مسلم دشمن نظروں کا ترکی بہ ترکی جواب دیااور اپنی تڑپا دینے والی اور قلب کو گرما دینے والی نظموں سے تحریک پاکستان کو ایک ولولہ تازہ بخشا۔ قراردادِ پاکستان کے بعد کانگریس، احرار، جمعیت علما ہند اور دیگر پاکستان دشمن جماعتوں کے مذموم پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیا۔‘‘(۱۰)
قمر میرٹھی کے ہاں نعت میں بھی ملی شاعری کے عناصر موجود ہیں۔ وہ اپنی ایک نعتیہ مخمس’’بحضور رحمت تمام صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ‘‘ میں اُمت مسلمہ کی کم کوشی اور بدحالی کا نقشہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ایسے بجھے چراغ شام، اختر شب بھی سو گئے
جن سے توقعات تھیں، وہ بھی فضا میں کھو گئے
غیر تو خیر غیر تھے اپنے بھی غیر ہو گئے
بگڑی ہے یوں جہاں میں اب ،بنتی نہیں بنائے بات
میرے حضورؐ التفات، میرے حضورؐ التفات
اس باب میں نعتیہ اشعار کے علاوہ شعرا کی ملی نظموں کے حوالے بھی کثرت سے ملتے ہیں۔ ان کی تحریکِ پاکستان کے حوالے سے خدمات کا بھی ذکر ہے ، وطن عزیز پر جاں نثاری کے جذبے کا اظہار بھی ہے اور محسنوں کو خراج تحسین پیش کرنے کی پاسداری بھی ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد نے اس ضمن میں سیماب اکبر آبادی کے مجموعے ’’قائد کی خوشبو‘‘ میراُفق کاظمی کی نظم’’ہمارا ماضی وحال‘‘ ظفر علی خاں کی نظم’’چرخہ اور تلوار‘‘، حفیظ جالندھری کی نظم ’’آزادی کی اولین عید الفطر‘‘ ، منور بدایونی کی ’’نغمۂ وطن ‘‘ ، عبدالکریم ثمر کی ’’مسلمان سے خطاب‘‘ پروفیسر کرم حیدری کی ’’شب پاکستان‘‘ ، جمیل نقوی کی ۱۴،اگست اور اصغر سودائی کی نظم ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘ کے اقتباسات استحکام پاکستان میں نعت گوشعرا کے موثر کردار کے طور پر پیش کیے ہیں۔ کاروانِ نعت کے شعرا بجاطور پر اپنی ذمہ داریوں سے نہ صرف آگاہ تھے بل کہ انھوں نے اپنے زورِ قلم سے انھیں بخوبی نبھایا بھی ہے۔ نعت اور صاحبِ نعت سے محبت گویا شاعر کے ذہن ودل کی بیداری کا پیغام ٹھہری اور شعرانے نعت کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ اوروطن کے مسائل کو اپنے دل کی آواز بنالیا۔ یہ شاعری جوش وجذبے اورعزم جواں کی نوید بن کر ابھری۔ ماجدالباقری کی نظم ’’دل کی آواز‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
تبلیغِ نبیؐ، احکام خدا ، قرآن نہ بدلا جائے گا
ہوں کفر کے حملے لاکھ مگر ایمان نہ بدلا جائے گا

دستورِ زباں بندی کیوں ہے جب اہل نظر پر روشن ہے
یہ قید نہ بدلی جائے گی، دربان نہ بدلا جائے گا
نعتیہ روایت کی بہ نسبت یہاں ڈاکٹر شہزاد احمد نے شعرا کے تعارف پر بھرپور توجہ صرف کی ہے۔ مآخذات بھی بنیادی نوعیت کے دیے ہیں۔ نمونۂ کلام میں حمدیہ، نعتیہ اور ملی اشعار سے کام لیا گیا ہے۔ شاعر کی پیدائش کی تاریخ، سال، تعلیم، ملازمت ، ہجرت اورمطبوعات تک کااجمالی ذکر کیا ہے۔
تنقید کا پہلو بہت کم ہے۔ شعرا کی شاعری کے اختصاصی پہلوئوں سے زیادہ اُن کے تذکرے کا پہلونمایاں ہے۔ اگر کہیں تنقید وتبصرے کی ضرورت پیش آئی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے شعرا کی مطبوعات کے مبصرین کی آرا کو ترجیح دی ہے۔ عملی تنقید سے انھوں نے پہلوتہی سے کام لیا ہے۔ البتہ تذکرہ نگاری میں وہ یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ معلومات کی فراہمی، اُن کی ترتیب اور زبان و بیان کے سارے مرحلے ڈاکٹر صاحب نے بخوبی سرکیے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے موقف کے حق میں موثر اور مستحکم دلائل پیش کیے ہیں۔ مجموعی طور پر انھوں نے اپنے موضوع کو عمدگی سے نبھایا ہے۔
۳۔پاکستان کے معروف نعت گو شعرا کا تذکرہ
یہ باب مقالے کا مرکزی باب ہے۔ اس میں ایسے نعت گو شعرا کا تذکرہ کیا گیا ہے جو شعبۂ نعت میں شہرت کے حامل ٹھہرے اور ساتھ ہی انھوں نے نعت کی ترویج واشاعت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان شعرا کی تعداد ۶۴ ہے اور ان کے اسمائے گرامی ہیں:
’’ اکبروارثی،ضیاالقادری،نیر حامدی،بہزادلکھنوی،عزیز جے پوری،شکورؔ کمبل پوش نظامی،ماہر القادری، اخترا لحامدی، منور بدایونی،ستاروارثی،خلیلؔ مارہروی،بسملؔ آغائی، عارفؔ اکبرآبادی، حبیب نقش بندی،عنبر شاہ وارثی،اعظم چشتی، سکندر لکھنوی، محشربدایونی، قمرالقادری،اختر لکھنوی،خادمی اجمیری،محمد طفیل داراؔ،انجم، قمرالدین احمد، اقبال صفی پوری،کاوشؔ وارثی،حافظ لدھیانوی،اثر لطیف،اقبال عظیم،ریاض سہروردی ، فدا خالدی ، ہلال جعفری ، مسرور کیفی، عبدا لحفیظ تائب ، تابش دہلوی، ادیب رائے پوری،حنیف اسعدی،صابر براری،انصارالٰہ آبادی ، رشید وارثی،راغب مرادآبادی،عاصی کرنالی،مظفر وارثی، جمیل عظیم آبادی،رہبر چشتی، سرشار صدیقی، ضامن حسنی،ایاز صدیقی،سہیل غازی پوری،اعجاز رحمانی،قمر یزدانی ، شارب، مقبول حسین،راجا رشیدمحمود،خالد محمود نقش بندی،ریاض مجید ، سعیدوارثی، عزیزاحسن ، منیر قصوری،قمر وارثی،حافظ البرکاتی، طاہر سلطانی، ندیمؔ نقش بندی،یامین وارثی،صبیح رحمانی،خاکی القادری۔‘‘
مذکورہ شعرا کی نعت گوئی اور نعتیہ خدمات سے پہلے ڈاکٹر صاحب نے قیام پاکستان کے بعد نعتیہ ادب کے فروغ کے حوالے سے تذکرہ نگارانِ نعت کا جائزہ پیش کیا ہے۔ نعتیہ تذکرہ نگاری میں ۱۹۷۰ء کی دہائی کو نقطۂ آغاز قراردیتے ہوئے انھوں نے ’’ڈاکٹر طلحہ رضوی برق ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر سیدرفیع الدین اشفاق، علامہ شمس الحسن صدیقی، شمس بریلوی ، علامہ سیداخترالحامدی اور ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی‘‘ کی خدمات کو سراہا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد نے جن نعتیہ خدمات کا ذکر کیا ہے اُن کے نام یہ ہیں:
کتب
مصنف
تاریخ
اُردو کی نعتیہ شاعری
ڈاکٹر طلحہ رضوی برق
۱۹۷۴ء
اُردو کی نعتیہ شاعری
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
۱۹۷۴ء
اُردومیں نعتیہ شاعری
ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق
۱۹۷۶ء
کلام رضا کا تحقیقی وادبی جائزہ
شمس بریلوی
۱۹۷۶ء
امام نعت گویاں
اخترالحامدی
۱۹۷۷ء
اردو میں نعتیہ شاعری کے سات سو سال
حمایت علی شاعر
۱۹۷۸ء
ماہنامہ شام و سحر نعت نمبر ، لاہور
مدیر :خالد شفیق بٹ
۱۹۸۱ء
تذکرہ عندلیبان ریاض رسولؐ
نظیر لدھیانوی
۱۹۸۱ء
تذکرہ نعت گویان اُردو(جلد اول)
پروفیسرسید یونس شاہ گیلانی
۱۹۸۲ء
تذکرہ نعت گویان اُردو(جلد دوم)
پروفیسر سید یونس شاہ گیلانی
۱۹۸۴ء
عصر حاضرکے نعت گو
گوہر ملسیانی
۱۹۸۳ء
گل چیدہ نمبر۱
حفیظ تائب
۱۹۸۳ء
تذکرہ نعت گو شاعرات
ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہا نپوری
۱۹۸۴ء
اُردو میں نعت گوئی
ڈاکٹر ریاض مجید
۱۹۹۰ء
اُردو کے صاحب کتاب نعت گو
راجارشید محمود
۱۹۹۰ء
پاکستان کے نعت گو شعرا
غوث میاں
۱۹۹۲ء
مجلہ اوج نعت نمبر، لاہور
ڈاکٹرآفتاب احمد نقوی
۹۳۔۱۹۹۲ء
پاکستان کے نعت گوشعرا (جلداوّل)
سیدمحمد قاسم
۱۹۹۳ء
پاکستان کے نعت گوشعرا(جلددوم)
سیدمحمد قاسم
۲۰۰۷ء
پاکستان کے نعت گوشعرا(جلدسوم)
سیدمحمد قاسم
۲۰۱۰ء
اذان دیر (غیر مسلم حمد گو شعرا)
طاہر سلطانی
۱۹۹۷ء
اس کے بعد ڈاکٹر شہزاداحمد نے شعرا کو زیر بحث لاتے ہوئے کم وبیش تذکرے کا انداز اختیار کیا ہے۔ شاعر کا تعارف مکمل اور بھرپور دیا ہے۔ پیدائش سے وفات تک کے اہم واقعات کو قلم بند کیا ہے۔ بعض جگہ تو مرض الموت اور وفات کے وقت کا بھی ذکر کیا ہے۔ مثال میں عنبر وارثی کا احوال دیکھیے، ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں :
’’عنبر وارثی نے بدھ کی صبح ۸بجے ،۵مئی ۱۹۹۳ء کو ایک طویل علالت کے بعد داعیِ اجل کو لبیک کہا اور جونادھوبی گھاٹ کے قبرستان میوہ شاہ کراچی میں مدفون ہیں۔‘‘( ۱۱)
اسی طرح اعظم چشتی کے بارے میں ’’تحریکِ پاکستان گولڈ میڈل‘‘ سے نوازے جانے، نعت خوانی اور نعت گوئی کے تعارف کے بعد لکھتے ہیں:
’’معروف نعت گو ونعت خواں اعظم چشتی آخری وقت میں دل اور گردے کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے۔ انھوں نے ۷۲ سال کی عمر پائی تھی۔ ۱۰صفر المظفر ۱۴۱۴ھ مطابق ۳۱جولائی ۱۹۹۳ء بروز ہفتہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ موصوف کو میاں میر ،لاہور کے قبرستان میں سپردخاک کیا گیا۔‘‘(۱۲)
اس کے علاوہ شاعر کی تخلیقات کے تعارف میں بھی ڈاکٹرصاحب کی تحقیقی کاوشیں دکھائی دیتی ہیں کہ وہ کتاب کے نام، ادارے اور سال اشاعت کا اہتمام لازمی کرتے ہیں۔ یہی نہیں وہ کتابوں کی ترتیب بھی زمانی لحاظ سے لگاتے ہیں۔ یہ ایک اچھے تذکرہ نگار کی خوبی ہے کہ وہ جزئیات کو احسن طریقے سے بیان کرے اور ڈاکٹر شہزاد احمد کے ہاں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔ لطیف اثر کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’۱۹۳۶ء سے باقاعدہ شعرگوئی کا آغاز کیا۔ حضرت سید شاہ ابومحمد علامہ ثاقب کانپوری (سجادہ نشین شاہ غلام رسول ،رسول نما عرف دادامیاں) سے اصلاح سخن لیتے تھے۔ لطیف اثر کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔صحیفہ نعت ۱۹۸۹ئ، صحیفہ ذات (حمد) ۱۹۹۲ئ، صحیفۂ نور ۱۹۹۲ء چراغ راہِ حرم ۱۹۹۴ء ، سرکارِ دوعالمؐ (غیر منقوط)، ۱۹۹۵ء ، شافع محشرؐ ۱۹۹۵ئ، اللھم (غیر منقوط) ۱۹۹۶ئ،طلوع حمد ،۲۰۰۰ء کے علاوہ بھی کتب شایع ہوئی ہیں جب کہ غیر مطبوعہ کتب اس کے علاوہ ہیں۔ لطیف اثر کی تمام کتابیں وقاص اکیڈمی بینا ہائوس ، ۹۔بی بلاک آئی نارتھ ناظم آباد ،کراچی سے شایع ہوئی ہیں۔‘‘(۱۳)
کلام کے آخر میں ہلکے پھلکے تنقیدی جملوں کا اہتمام دیکھنے میں آیا ہے۔ زیادہ طویل تبصرے سے گریز کیا گیا ہے۔ مثال میں چند جملے دیکھیے:
٭’’تابش صاحب زبان کی صحت کے پابند ہیں۔ معنی آفرینی آپ کی شناخت ہے۔‘‘(۱۴)
٭ ’’مسرور کیفی کی نعتیہ شاعری توعامیانہ سی تھی مگر اس میںعشق رسول کی شدت زوروں پردکھائی دیتی ہے۔‘‘(۱۵)
٭ ’’ادیب رائے پوری کی نعتوں میںعلمی دیانت ، ادبی متانت ، روایت کی پاسداری اور بیان کی ذمہ داری پُر شکوہ انداز میں دکھائی دیتی ہے۔ قرآن کریم، حدیث پاک اور سیرت طیبہ کے وسیع مطالعے کو انھوں نے اپنے فن نعت میں سمودیا ہے۔‘‘ (۱۶)
اس باب میں فروغِ نعت کے خدمت گار شعرا کے بیان کے بعد محافل ذکر رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اور بزرگانِ دین کے ایّام کا ذکر کیا گیا ہے کیوں کہ نعت گوئی کی تحریک میں ان عوامل کا بھی بڑا کردار رہا ہے۔ نعت خوانی کی محافل کا انعقاد بزرگانِ دین کی محبت کا آئنہ دار ہے۔ نعت کی ترویج وتحریک میں ڈاکٹر شہزاداحمد نے جن عوامل کا ذکر کیا ہے ۔ وہ درج ذیل ہیں:
۱۔ صوفیائے کرام کے عرس پر نعت خوانی کا انعقاد
۲۔ اہل عشق کے ہاں محافل میلاد کا انعقاد
۳۔ ریڈیو کی نشریات کا تلاوت ونعت سے آغاز
۴۔ نعت گو شعرا کے ریڈیو پر خصوصی پروگرامز
۵۔ پی ٹی وی پر نعت خوانی کے مقابلے
۶۔ ربیع الاوّل میں نعت خوانی اور نعتیہ مشاعروں کا اہتمام
۷ رسائل ،جرائد اور اخبارات کے نعتیہ ایڈیشن
۸۔ رسائل کے نعت نمبر، رسول نمبراور رحمت اللعالمین نمبر کا اہتمام
یہ باب جس قدر اہمیت کا حامل تھا ، ڈاکٹر شہزاد احمد نے اُسی قدر محنت اور توجہ سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ معروف نعت گو شعرا کے معروف کلام اور مؤثر تبصروں نے اس تذکرے کی اہمیت بڑھا دی ہے جب کہ بنیادی ماخذات تک رسائی اس پر مستزاد ہے۔ اُن کے دیے حواشی میں بھی اُن کی تحقیق وجستجو کی جھلک واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ اکبروارثی کے سالِ وفات کے بارے میں ڈاکٹر شہزاد احمد حاشیے میں لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر سیدرفیع الدین اشفاق نے اپنی کتاب ’’ اُردو میں نعتیہ شاعری‘‘کے صفحہ ۵۲۵ پر اکبر وارثی کے لیے لکھا ہے کہ کراچی میں غالباً سنہ ۱۹۵۳ء میں انتقال کیا۔ شفیق بریلوی (مرحوم) نے اپنے مرتب کردہ نعتیہ انتخاب ’ارمغانِ نعت‘ میں اکبر میرٹھی کا سال وفات ۱۳۴۸ھ/۱۹۳۰ء لکھا ہے۔‘‘ (۱۷)
اسی طرح پروفیسر محمد یونس شاہ گیلانی اور راجا رشید محمود نے بھی سال وفات ۱۹۳۰ء بتایا ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید نے سال وفات دیا ہی نہیں۔ ڈاکٹر شہزاداحمد اس گتھی کو سلجھاتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ان کا سال وفات سب نے غلط در غلط تحریر کیا ہے۔ میں ان کے مزار کے پاس لٹکی ہوئی تختی پر لکھی عبارت من و عن درج کر رہا ہوں تاکہ کسی بھی احتمال کی گنجائش باقی نہ رہے۔ مزار اقدس ، مداح رسول، خواجہ اکبر وارثی میرٹھی مصنف (میلاداکبر) سن وفات ۱۳۷۳ھ ۶رمضان المبارک (۸مئی ۱۹۵۴ئ) اور دوسری طرف اُن کے خادم حاجی عبدالکریم مدفون ہیں۔‘‘(۱۸ )
اس سے ڈاکٹر صاحب کے طرز تحقیق اور انتھک محنت کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں ، انھوں نے دیگر تذکرہ نگاروں جیسے طاہر سلطانی ، غوث میاں اور سید محمد قاسم کی اغلاط کی بھی نشان دہی کرتے ہوئے نعتیہ روایت کو صحت سے بیان کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر شہزاد احمد نے پاکستان میں نعتیہ ادب اور اس کے محرکات کوعمدگی سے بیان کیا ہے ۔ حواشی اور تنقیدی تبصروں سے اس کی اہمیت میں قابل داد اضافہ ہو گیا ہے۔
۴۔نعت کی نمایاں شخصیات،تنظیمیں ، مکتبے اور ادارے
اس باب میں ڈاکٹر شہزاد احمد نے پاکستان میں نعت خوانی کی تاریخ کا اجمالی جائزہ پیش کیا ہے اور تمہید میں اُن شخصیات کا ذکر کیا ہے جو شعبۂ نعت خوانی کے فروغ میں پیش پیش رہیں۔ ان شخصیات میں’’اکبر وارثی میرٹھی، ضیاء القادری بدایونی ، بہزادلکھنوی ، قمرانجم ، ادیب رائے پوری اور ریاض سہروردی کے نام نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مطابق اکبر وارثی نے پورے ملک میں میلاد اور نعت کی فضاقائم کی۔ بہزاد لکھنوی نے اپنے منفرد انداز میں نعت خوانی اور نعت گوئی سے بلند مقام حاصل کیا۔
ضیاء القادری بدایونی اور اُن کے تلامذہ نے فروغ نعت میں اہم کردار ادا کیا۔قمر انجم کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’قمر انجم صرف نعت خواں اور نعت گوہی نہیں نعت کا ایک ادارہ ہیں۔ کتنے ہی غزل گو شعرا ان کی تحریک پر نعت لکھنے لگے اور ان میں سے بعض نے تو غزل کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا اور مجاز سے حقیقت کی طرف پیش قدمی کی۔ بہت سے وہ نوجوان جو اپنی اچھی آوازوں کو فلمی دھنوں میں الجھائے ہوئے تھے نعت خواں بن گئے۔‘‘ (۱۹)
فروغِ نعت کے حوالے سے ادیب رائے پوری کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان خدمات کا عہد بہ عہد جائزہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر شہزاد احمد رقم طراز ہیں:
’’ادیب رائے پوری نے ۱۹۶۶ء میں بزم فروغ نعت ومناقب کے زیر اہتمام دیگر افراد کے ساتھ مل کر پہلی کل پاکستان محفل نعت کا انعقاد کیا۔۔۔ اس کے بعد ۱۹۷۰ء میں پاکستان نعت کونسل کی بنیاد رکھی۔۔۔بعد ازاں ادیب رائے پوری نے ۱۹۸۰ء میں پاکستان نعت اکیڈمی کی بنیاد رکھی اور ۱۹۸۲ء میں پہلی عالمی نعت کانفرنس کراچی میں منعقد کی۔‘‘(۲۰)
ادیب رائے پوری کے علاوہ علامہ ریاض سہروردی کی شخصیت فروغ نعت میں اہم مقام پر فائز ہے۔انھوں نے ’’مرکزی انجمن عندلیبانِ ریاض رسول‘‘ کے ذریعے ذکر رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو عام کیا۔ اس کے زیراہتمام ۱۹۷۲ء میں پہلی کل پاکستان محفل نعت نشترپارک ،کراچی میں منعقد ہوئی۔ اس کے بعد جن شخصیات کو زیر بحث لایا گیا ہے ، اُن کے نام درج ذیل ہیں:
٭ الحا ج سید غلا م مجتبیٰ احدی ٭ حا جی قا در بخش(مر حو م )
٭ حا جی محمد اسحا ق میمن ٭ حکیم منظور احمد ہمدا نی مرحوم
٭ صو فی شوکت علی قا دری ٭ شیخ ثاقب شہزاد
الحاج سیدغلام مجتبیٰ احدی ’’راہِ نجات‘‘ کے عنوان سے نعتیہ انتخاب نکالتے آرہے ہیں۔ وہ محافل نعت میں باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں اور معروف نعتوں کو اپنے ذخیرے میں محفوظ کرلیتے ہیں۔ ’’راہ نجات‘‘ کا پہلا ایڈیشن ۱۹۹۳ء میں شایع ہوا۔ اس کا پندرھواں ایڈیشن ۲۰۱۱ء میں منظر عام پر آیا۔ اب اس کا سولھواں ایڈیشن تیاری کے مراحل میں ہے۔ احدی صاحب نئے ایڈیشن کے لیے پرانی نعتوں کو نکال کر چند نئی نعتیں شامل کرلیتے ہیں۔ اس انتخاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مفت تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ’’نماز کی آسان کتاب‘‘ اور ’’ذکر حبیب و آداب معاشرت‘‘ کے ذریعے ذکر وفکر رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کو عام کرنے کی سعی کی ہے۔
حاجی قادر بخش (مرحوم) پیٹھے والے حیدرآباد (سندھ) میں لطیف آباد، یونٹ نمبر۸ کے رہائشی تھے اور گیارہ ربیع الاوّل کی رات کو سالانہ محفل میلاد النبیؐ کا اہتمام کرتے تھے۔ یہ محفل ۱۹۷۰ء سے تواتر سے منعقد ہوتی رہی۔ ان کے انتقال کے بعد اس کا اہتمام حاجی صاحب کے بڑے بیٹے حاجی محمد اقبال کرتے تھے۔ اب یہ محفل ختم ہو چکی ہے۔
حاجی محمد اسحاق میمن برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوںنے ۱۹۴۴ء میں کراچی میں ’’انجمن فروغ نعت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ‘‘ قائم کی۔ اس انجمن کے تحت چار نعتیہ کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ ڈاکٹر شہزاداحمد نے فروغِ نعت کے ان معماروں کی نعتیہ خدمات کے تعارف کے ساتھ ان کی شخصی زندگی کا بھی تعارف کرایا ہے۔ خاص طور پر اُن کی خوشحالی کا ذکر اہتمام سے کیا ہے۔ اسحاق میمن کے بارے میں وہ یوں رقم طراز ہیں:
’’حاجی اسحاق پر اللہ تعالیٰ کا بے حدکرم ہے کہ دنیا و دین دونوں میں سرخ رُو ہیں۔ دنیاوی اعتبار سے آپ کراچی کے ساحلی علاقہ گڈانی میں بلوچستان شپ بریکنگ کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ بسااوقات جہاز کی فروختگی کی اطلاع ملنے پر یورپ کا سفر بھی کرتے ہیں۔۔ ۔ وہ اپنے رزق کی فراوانی کے لیے عقیدہ رکھتے ہیں کہ ’’یہ سب تمھارا کرم ہے آقاؐ‘‘۔(۲۱)
حاجی اسحاق اور اُن کے اہل وعیال سب دل وجان سے نعتیہ محافل کے انعقاد میں شریک ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر شہزاد احمد خود نعت خواں بھی ہیں اور برسوں سے محافل نعت کا حصّہ بنتے آرہے ہیں۔ انھوں نے شعبۂ نعت کے اُس گوشے کو اُجاگر کرنے کی خوش آئند کوشش کی ہے۔ محافل نعت کے منتظمین اور نعت خواں احباب پر ایسی سنجیدہ کاوش شاید ہی کسی نے کی ہو۔ فروغِ نعت کے تقریباً سبھی ادارے ڈاکٹر صاحب کی نظر میں ہیں اور انھوں نے ہر ایک کا بھرپور انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ ’’چند معروف نعت خواں حضرات‘‘ کے عنوان سے انھوں نے ملکی ، صوبائی اور علاقائی سطح پر شہرت کے حامل نعت خوانوں کے نام اور نمبرز دیے ہیں ۔ اس فہرست میں کراچی، لاہور، فیصل آباد ، پاک پتن ،ملتان، راول پنڈی، گوجرانوالہ، خانیوال، اسلام آباد ، راجن پور، کوئٹہ ، حیدرآباد اور پشاور وغیرہ کے نعت خواں شامل ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین ثنا خوانانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے نام اور رابطہ نمبروں کا بھی اہتمام ہے۔ یہ تمام خواتین کراچی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کے بعد ۴۹نقیبانِ محفل کی فہرست شہر اور رابطہ نمبروں کی تفصیل کے ساتھ مہیا کی ہے جس میں پاکستان کے گوشے گوشے سے معروف نام شامل ہیں۔
فروغِ نعت میں جہاں محافل نعت کا کردار اہمیت کا حامل ہے وہاں نعتیہ ادب کی تنظیموں کی خدمات سے بھی انکار ممکن نہیں یہ تنظیمیں ماہانہ یا سالانہ بنیادوں پر نعتیہ مشاعروں ، نعتیہ انتخاب اور نعتیہ رسائل کی صورت میں نعت کی ترویج و ترقی میں بساط بھر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان کی تعداد ملک بھر میں کافی زیادہ ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے چند اہم تنظیموں کی فہرست مرتب کی ہے جو درج ذیل ہے:
٭ ادارہ فروغ ادب کندن اسٹریٹ کر اچی
٭ بزم حمد و نعت کراچی (نعتیہ ادب کی زندہ تحریک )
٭ پا کستا ن نعت اکیڈمی (قیا م 1980ئ)
٭ حرا فا ؤنڈ یشن پاکستان (رجسٹرڈ) کر اچی( قا ئم شدہ 25دسمبر 1981ئ)
اسی باب کے آخر میں ’’نعتیہ مکتبوں اور اداروں کا جائزہ‘‘ کے عنوان سے نعتیہ کتب چھاپنے والے اداروں کو موضوع بنایا ہے۔ یہ موضوع اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد موضوع ہے جسے ڈاکٹر صاحب نے درخورِاعتنا جانا ہے۔ طوالت کے باعث یہاں ہر ادارے کی شایع شدہ کتب کا ذکر ممکن نہیں۔ یہاں صرف فروغ نعت کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کے نام دینے پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔
٭ فر وغ ادب اکا دمی گو جرانوالہ (قا ئم شدہ 1983ئ)
٭ ادارہ فکر ِ نو ، کر اچی ( پہلی کتاب 1987ئ)
٭ نعت اکا دمی فیصل آباد (قا ئم شدہ 1987ئ)
٭ نعت اکا دمی ، فیصل آبا د کی کتب
٭ اختر کتا ب گھر ، لا ہو ر 1987ء
٭ مکتبہ ایوان نعت رجسٹر ڈ، لا ہور
٭ نعت کدہ ،لا ہور
٭ مد نی انٹر پر ائز رز، پبلشر ز ڈیزائنر ، لا ہور
٭ مجلس سخن ،لا ہور
٭ دبستا ن وا رثیہ فائونڈیشن ،کراچی (قائم شدہ ۱۹۹۰ئ)
٭ ادارۂ چمنستان حمدونعت(ٹرسٹ) اور جہانِ حمد پبلی کیشنز، کراچی
٭ اقلیم نعت اور نعت ریسرچ سنٹر ،کراچی، پاکستان
٭ المدینہ دارالاشاعت ،لاہور
مختصر یہ ہے کہ ڈاکٹر شہزاد احمد نے اس باب میں نعتیہ ادب کے معروف ناموں کا تذکرہ احسن انداز میں کیا ہے اور معلومات استناد کے ساتھ بیان کی ہیں جو قابلِ تحسین ہیں۔ انھوں نے فروغِ نعت کے ایسے گوشوں کو بھی عمدگی سے اُجاگر کیا ہے جنھیں پہلے درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا ۔ نعت گوئی کے ساتھ نعت خوانی اور محافل نعت کے منتظمین کو خراجِ تحسین پیش کرنا واقعی ایک منفرد اور مستحسن عمل ہے۔ اُن کی تحقیقی کاوشوں میں وسعت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ انھوں نے ملک کے کونے کونے میں موجود نعتیہ تنظیموں اور اشاعت نعت کے اداروں کو عرق ریزی سے بیان کیا ہے۔ نعت خوانوں کی ڈائریکٹری ایک الگ خوش آئندعمل ہے جو پذیرائی کے عمل کی ایک کڑی ہے۔
۵۔پاکستان میں اُردو نعت گوئی کے آئندہ اثرات
اس باب میں الیکٹرونک میڈیا کے حوالے سے نعت کے مستقبل کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد نے جن عنوانات کے ذریعے اس بحث کو سمیٹا ہے وہ عنوانات ملاحظہ ہوں:
٭ نعت اور انٹرنیٹ
٭ نعت، موبائل ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کا استعمال
٭ نعت اور ٹیلی ویژن
٭ نعت اور ریڈیو
٭ اُردو نعت سے انٹرنیٹ کا خزانہ خالی ہے
٭ پاکستان سے شایع ہونے والی نعتیہ کتب
ریڈیواور ٹی وی کی نشریات ،زیادہ تر ایف ایم چینلز کی شکل میں تفریح طبع کا باعث بن رہی ہیں۔ رمضان المبارک میں خاص طور سے نعتیہ پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں ٹی وی کی افادیت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ پی ٹی وی نعت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کر رہا ہے۔ مختلف پروگرامز میں علمائے کرام مدعو کیے جاتے ہیں۔ نجی ٹی وی چینلز فروغ نعت میں پی ٹی وی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ ڈاکٹر شہزاد احمد ان چینلز کے کردار سے قدرے مطمئن ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ان نجی چینلز میں بعض چینلز تومکمل طور پر پاکستان میں نعت کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ کیو ٹی وی، مدنی چینل ، حق ٹی وی، میڑوون ٹی وی، لبیک ٹی وی، اسلامک ویژن (کیبل چینل) میں نعتیہ محافل ، نعتیہ مذاکرے ، نعتیہ کتب ، نعت خواں، نعت گو اور ریسرچ اسکالرز کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ نعت کے چھوٹے بڑے پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں۔‘‘( ۲۲)
آج کل ٹی وی کی نسبت انٹرنیٹ معلومات کا تیز ترین ذریعہ بن گیا ہے۔ دنیا بھر کی معلومات تک پلک جھپکنے میں رسائی ممکن ہے لیکن ڈاکٹر شہزاد احمد نعت کے حوالے سے مطمئن نہیں۔ اُن کی تشویش بجا ہے کیوں کہ نعت شناسی اورنعت فہمی کے بارے میں کوئی بڑی سائیٹ موجود نہیں ۔ چند چھوٹی چھوٹی سائٹس نعت کے پیغام کو عام کرنے کا حق ادا نہیں کر رہیں۔ وہ’ وکی پیڈیا ‘پر نعت کی فراہم کردہ معلومات بیان کرتے ہوئے عدم اطمینان کا شکار ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’انٹرنیٹ پر (نعت ۔ وکی پیڈیا) کے نام سے یہ مواد موجود ہے۔ ’’نعت ‘‘ کے عنوان سے بہت مختصر تعریف ہے تاریخ کے عنوان سے نعت کی ابتدا بیان ہوئی ہے۔ ’صحابہ نعت گو شعرا‘‘ کے عنوان سے صرف سات صحابہ کرام کے نام درج ہیں۔’علمانعت گوشعرا‘ کے عنوان سے کل ۸شعرا کے نام دیے گئے ہیں۔ ’نعت خوانی اولیا اللہ کی نظر میں‘ ساڑھے چار لائن کی تعریف کے بعد ۹ اولیاء اللہ کے صرف اسمائے گرامی کو تحریر کیا گیا ہے۔’ مسلم نعت گوشعرا‘کے عنوان سے کل ۲۷شعرائے کرام کے نام درج ہیں۔’غیر مسلم نعت گوشعرا ‘ کے عنوان سے ساڑھے چار لائن اور کنور مہندر سنگھ بید ی اور رانا بھگوان داس کے اشعار شامل ہیں۔ ’نعت خواں‘ کے عنوان جلی سے کل ۱۲ نعت خوانوں کے نام دیے گئے ہیں۔ کل چار صفحات میں یہ مبہم تذکرہ شامل ہے۔‘‘ (۲۳)
اس باب آخر میں پاکستان میں شایع ہونے والی نعتیہ کتب کی ایک طویل فہرست دی ہے۔ ۳۲ صفحات میں ۷۷۵ سے زائد کتابوں کا تذکرہ ہے جن کے ساتھ مصنفین اور سنین اشاعت بھی درج ہیں:
ڈاکٹر شہزاد احمد نے اس باب میں الیکٹرونک میڈیا پر نعت کے مستقبل کا جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انٹرنیٹ اورموبائل ٹیکنالوجی پر نعتیہ ادب کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ مغربی میڈیا کے اسلام دشمن پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے نعت کوبطور ہتھیار بنایا جا سکتا ہے اور تبلیغ دین میں بھی نعت کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ میڈیا کو نعت سے روشناس کرایا جائے۔
۶۔پاکستان میں نعتیہ صحافت : ایک جائزہ
ڈاکٹر شہزاداحمد نعتیہ صحافت سے جڑے ہوئے ہیں۔انھوں نے نعت کی دنیا کا تیسرا ماہنامہ ’’حمد ونعت‘‘ کراچی سے جاری کیا۔ نعتیہ ادب کے تقاضے، اُس کے فروغ اور اشاعت کے جملہ اسباب وعلل سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ اس باب میں انھوں نے صحافت کی تعریف ، نعتیہ صحافت کی خدمات، نعتیہ ماہناموں کے اجرا اورنعت نمبروں کی تاریخ کا تحقیقی جائزہ بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا ہے۔ جن عنوانات کے تحت یہ جائزہ لیا گیا ہے وہ ملاحظہ ہوں:
٭صحافت کا آغاز
٭اسلامی صحافت کا کردار
٭پاکستان میں نعتیہ صحافت کے موضوع پر ہونے والے کام
٭نعتیہ ماہنامے: آغاز و ارتقا تک
٭دنیا کا سب سے پہلا نعتیہ ماہنامہ
٭ماہنامہ ’’نوائے نعت‘‘،کراچی ،جنوری ۱۹۸۴ء
٭ماہنامہ ’’نعت‘‘ ،لاہور ،جنوری ۱۹۸۸ء
٭ماہنامہ ’’نعت ‘‘، لاہور
٭ماہنامہ ’’حمد ونعت‘‘ ، کراچی ،جولائی ،۱۹۹۰ء
٭ماہنامہ ’’ارمغانِ حمد‘‘ ،کراچی ، فروری ،۲۰۰۴ء
٭ماہنامہ ’’کاروانِ نعت‘‘ ،لاہور، نومبر ،۲۰۰۴ء
نعتیہ صحافت کو انھوں نے اسلامی صحافت کی ایک کڑی قرار دیا ہے جس کا مقصد مسلمان قوم کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنا ہے۔ انھوں نے شعبۂ نعت کے تعلیم یافتہ کارکن کو صحافی کہنے کے بعدمدیر کی درج ذیل صفات بیان کی ہیں:
’’۱۔اعلی تعلیم، ۲۔اعلیٰ جسمانی صحت، ۳۔اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں، ۴۔ دینی اوردنیاوی علوم پر مہارت ، ۵۔ملکی اور غیر ملکی زبانوں پر عبور ، ۶۔زودنویس، ۷۔چاق و چوبند، ۸۔ حقیقت پسندی، ۹۔اعلیٰ کردار، ۱۰۔سماجی اور سیاسی شخصیات سے تعلقات، ۱۱۔مستعدی، ۱۲۔ قوتِ فیصلہ، ۱۳۔ قوت مشاہدہ ، ۴۱۔سچی لگن، ۱۵۔محنتی، ۱۶۔حالاتِ حاضرہ سے واقفیت، ۷۱۔ذخیرہ معلومات، ۱۸۔اعلیٰ یادداشت، ۱۹۔ ذہنی رُجحان‘‘ (۲۴ )
اُن کا مؤ قف ہے کہ موجود ہ صحافت میں ان خوبیوں کے حامل افراد اب ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے البتہ نعتیہ صحافت سے وابستہ صحافیوں میں خلوص اور مشنری جذبہ کافی زیادہ ہے۔ یہاں ذاتی منفعت کانام و نشان تک نہیں۔ اس لحاظ سے نعتیہ صحافت عام دنیاوی صحافت سے کہیں آگے ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے چار حوالوں سے نعتیہ صحافت کا جائزہ پیش کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
۱۔ نعتیہ ماہنامے ۲۔ کتابی سلسلے
۳۔ نعتیہ اخباری سلسلے ۴۔ رسائل وجرائد کے نعت نمبر
نعتیہ ماہناموں میں انھوں نے سب سے پہلے دنیائے نعت کے پہلے ماہنامے اور اس کے مدیر کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’دنیا کا سب سے پہلا نعتیہ ماہنامہ ’نوائے نعت‘ جنوری ۱۹۸۴ء میں ادیب رائے پوری مرحوم کی ادارت میں مرکز حمدونعت شہر کراچی سے شایع ہوا۔۔۔۔ ادیب رائے پوری نے اپنی ہمہ جہت اور بے مثال صلاحیتوں کو شعبۂ نعت کی ترقی و ترویج کے لیے وقف کردیا تھا۔‘‘(۲۵)
نعتیہ ادب کا دوسرا ماہنامہ راجارشیدمحمود نے ’’نعت‘‘ کے نام سے ۱۹۸۸ء میں لاہور سے جاری کیا۔ یہ ماہنامہ اپنے تسلسل اورمعیار کے لحاظ سے صف اوّل میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے خصوصی نمبر مختلف موضوعات پر شایع ہوئے۔ ان میں ’’درود و سلام، خواتین کی نعت گوئی، غیرمسلموں کی نعت گوئی، اردو نعتیہ شاعری کا انسائیکلو پیڈیا، تحفظ ناموسِ رسالت اور شہید ناموس رسالت‘‘ نمایاں ہیں۔ اس ماہنامے نے فروغ نعت میں اہم کردار ادا کیا اور نعتیہ ادب پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔
ڈاکٹر شہزاد کے مطابق تیسرا نعتیہ ماہنامہ ’’حمد و نعت‘‘ اُنھی کی ادارت میں جولائی ۱۹۹۰ء میں جاری ہوا۔ اس کے اب تک بارہ شمارے منظرعام پر آچکے ہیں۔ اسی مقالے میں گیارہ شماروں کا ذکر ہوا ہے ایک شمارہ بعد میں شایع ہوا۔ ڈاکٹرصاحب نے اِن شماروں کی تفصیل میں سالِ اشاعت اورصفحات کی تعداد کا ذکر کرنے کے علاوہ مضمون نگاروں اور اس کے مشمولات کا بھی تعارف کرایا ہے۔ اس کے بعد طاہر سلطانی کے ماہنامہ ’’ارمغان حمد‘‘ کراچی کا ذکر ہے جس کا پہلا شمارہ فروری ۲۰۰۴ء میں تکمیل آشنا ہوا اور یہ ۱۲۸صفحات پر محیط تھا۔ اس شمارے کے تمام مشمولات بیان کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے کا آخری ماہنامہ جس کا تذکرہ ڈاکٹر صاحب نے کیا ہے وہ ابرار حنیف مغل کا ماہنامہ ’’کاروانِ نعت‘‘ ہے۔ یہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ اس کا پہلا شمارہ نومبر ۲۰۰۴ء کو لاہور سے شایع ہوا۔ اس کا تعلق بالرسول نمبر ۲۰۰۸ء میں منظر عام پر آیا۔ محمد عمران انیس طاہری نے کاروانِ نعت کا موضوعاتی اشاریہ مارچ ۲۰۰۶ء سے جون ۲۰۰۸ تک ترتیب دیا ہے۔
نعتیہ کتابی سلسلے بھی فروغ نعت میں بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے ارتقائی سفر کی روداد ڈاکٹر صاحب نے نہایت احسن انداز میں بیان کی ہے۔ ان کتابی سلسلوں کے نام درج ذیل ہیں:
٭ گل چیدہ نمبر۱، اپریل ،۱۹۸۳ء
٭ سب سے پہلا باقاعدہ کتابی سلسلہ’’ایوانِ نعت‘‘ ، لاہور ،نومبر، ۸۷ ۱۹ء
٭ کتابی سلسلہ ’’نعت رنگ‘‘ ، کراچی ، اپریل ،۱۹۹۵ء
٭ کتابی سلسلہ ’’جہانِ حمد‘‘، کراچی ، جون ۱۹۹۸ء
٭ کتابی سلسلہ ’’سفیر نعت‘‘ ، کراچی ،جون ،۲۰۰۱ء
٭ کتابی سلسلہ’’دنیائے نعت‘‘،کراچی، اگست ،۲۰۰۱ء
٭ کتابی سلسلہ ’’راہِ نجات‘‘،کراچی ،مئی ۲۰۰۲ء
٭ کتابی سلسلہ ’’عقیدت‘‘ ، سرگودھا، ۲۰۰۴ء
٭ کتابی سلسلہ’’نعت نیوز‘‘ ،کراچی ،اپریل ،۲۰۰۶ء
٭ کتابی سلسلہ ’’معین ادب‘‘ فیصل آباد ، اپریل ،۲۰۰۷ء
٭ کتابی سلسلہ ’’خوشبوئے نعت‘‘ ،سرگودھا ،اپریل ، ۲۰۰۷ء
٭ کتابی سلسلہ ’’مدحت‘‘ ،لاہور، مارچ ،مئی،۲۰۱۰ء
نعتیہ اخباری روزنامے
٭ روزنامہ’’پبلک‘‘کراچی
٭ روزنامہ’’ڈیلی یارن‘‘فیصل آباد
٭ ’’فریدی نیوز‘‘ فیصل آباد، پندرہ روزہ
روزنامہ ’’پبلک‘‘ میں رفیق انصاری، پبلک نعت گیلری‘‘ کے عنوان سے نعتیہ سلسلے کے انچارج تھے اور اس میں شعبۂ نعت کی خبریں چھپتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ’’فریدی نیوز‘ ‘ کے بارے میں بھرپور تبصرہ کرتے ہوئے اس کی خدمات کو سراہا ہے۔ اس کے مدیر پروفیسر افضال احمد انور نے اس پندرہ روزہ اخبار میں ’’گوشہ حمدونعت‘‘ کا اہتمام کیا۔ ڈاکٹر شہزاد احمد ۱۶ تا ۲۸ فروری ۲۰۰۶ء کے پرچے کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عرض مدیر کے بعد پروفیسر افضال احمد انور نے اپنا ایک طویل حمدیہ مسدس’’لاشریک لہ‘‘ دیا ہے۔ یہ حمدیہ مسدس وحدہٗ لاشریک کی وحدانیت کا علم بردار ہے۔ اُردو حمدیہ ادب کے حوالے سے یہ ایک نایاب اضافہ ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید کی ایک حمد اور ایک نعت بھی اس گوشۂ حمدو نعت کی زینت ہے۔ تبصرہ نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر ریاض مجید کی ادبی ونعتیہ تخلیق ’اللھم بارک علیٰ محمد‘ اور سید ریاض حسین زیدی کا پہلا نعتیہ مجموعہ، ’جمال سید لولاک‘ منتخب کیا گیا ہے۔ دونوں کتابوں پر ڈاکٹر افضال احمد انور کی بصیرت افروز تبصرہ نگاری موجود ہے۔ محمد یوسف ورک قادری کی نعت لائبریری کا اشتہار اور ضروری اعلان برائے قارئین کرام کا اشتہار بھی شامل اشاعت ہے۔ غرض یہ پورااخبار کا صفحہ پروفیسر ڈاکٹر افضال احمد انور کی حمد و نعت شناسی کا مظہر ہے۔‘‘( ۲۶)
آخر میں ڈاکٹرشہزاد نے نعت نمبروں کی اولیت کے بارے میں مختلف محققین کی رائے پیش کی ہے اور نعت نمبروں کے ساتھ نعتیہ مجلوں کا تعارف بھی کروایا ہے۔ وہ عنوانات ملاحظہ ہوں جن کے تحت ساری بحث سمیٹی گئی ہے:
’’ڈاکٹرریاض مجید کی تحقیق۔۔۔۱۹۹۰ئ٭غوث میاں کی تحقیق۔۔۔۱۹۹۲ئ٭راجا رشیدمحمود کی تحقیق۔۔۔۱۹۹۲ئ٭ڈاکٹرآفتاب احمد نقوی کی تحقیق۔۔۔۱۹۹۳ئ٭راجا رشیدمحمود کی مزید تحقیق ۔۔ ۔۔ ۹۴ ۱۹ ء ٭غوث میاں کی مزیدتحقیق۔۔ ۱۹۹۴ء ٭ڈاکٹرآفتاب احمد نقوی کی مزید تحقیق ۔۔ ۔ ۹۵ ۱۹ ء ٭پروفیسر محمد اقبال جاوید کی تحقیق۔۔۔۱۹۹۹ئ٭محمد اقبال نجمی کی خوب صورت کاوش۔۔۲۰۰۵ئ٭محمد اقبال نجمی کی مزید معلوماتی کوشش ۔۔ ۔ ۲۰۰۸ئ٭پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کے نعت نمبر٭نور احمد میرٹھی کی تحقیق۔حقیقی اولین نعت نمبر٭’’گونج‘‘ نظام آباد(بھارت) ماہنامہ ، ’’نعت نمبر‘‘ ۱۹۹۸ئ٭’’گلبن‘‘ احمد آباد(بھارت) ۔ دوماہی نعت نمبر، ۱۹۹۹ئ٭’’ندائے شاہی‘‘ مرادآباد(بھارت) نعت نمبر ماہنامہ ،اپریل، ۲۰۰۵ئ٭’’نعت نمبر‘‘ جولائی ،۲۰۰۷ئ(شکاگو، امریکہ)٭’’نعت نمبر‘‘ کی درست تعریف اور و ضاحت٭نثری نعت نمبر٭شعبۂ نعت کا اولین ’’نعت نمبر‘‘ کون سا ہے؟٭شعبہ نعت کا دوسرا ’’نعت نمبر‘‘٭پاکستان کا اولین ’’نعت نمبر‘‘ کون سا ہے؟٭پاکستان کا دوسرا’’نعت نمبر‘‘٭نعت نمبروں کی موجودہ فہرست۔‘‘
٭ نعت نمبروں کے بارے میں ڈاکٹر شہزاد احمد کا حاصل تحقیق یہ ہے کہ ماہنامہ ’’کیلاش‘‘ ہوشیار پور(انڈیا) دنیا ئے نعت کا پہلا نعت نمبر ہے جو اگست ۱۹۴۰ء میں شایع ہوا۔
٭ دوسرا نعت نمبر عزیز حسن بقائی کی ادارت میں اپریل ۱۹۴۱ء میں دہلی سے ماہنامہ ’’پیشوا‘‘ کی صورت میں شایع ہوا۔
٭ پاکستان میں اوّلیت کا اعزاز ماہنامہ ’’نور وظہور‘‘ قصور کو حاصل ہے۔یہ نعت نمبر اگست، ستمبر ۱۹۶۱ء کو محمدعلی ظہوری کی ادارت میں شایع ہوا۔
ڈاکٹرشہزاد احمد نے اپنی تحقیق سے نعتیہ ادب میں کئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر ریاض مجید نے ’’اُردو میں نعت گوئی‘‘ میں ہفت روزہ ’’سیرو سفر‘‘ ملتان کو پہلا نعت نمبر قرار دیا ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر شہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’اب جدید تحقیق کی روشنی میں سب سے پہلا نعت نمبر ماہنامہ ’’نور وظہور‘‘ قصور کا ہے جس کا سالِ اشاعت ستمبر ۱۹۶۱ء ہے جب کہ ڈاکٹر ریاض مجید کی تحقیق کے مطابق ہفت روزہ ’’سیر وسفر‘‘ ملتان کا ’’نعت نمبر‘‘ اگست ۱۹۶۳ء اب نقشِ ثانی کے منصب پر فائز ہوچکا ہے۔‘‘(۲۷)
ڈاکٹر شہزاد احمد نے نعت نمبروں کی ایک ضخیم فہرست زمانی اعتبار سے مرتب کی ہے جس میںحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حیات مقدسہ تریسٹھ سالوں پر محیط اسی نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ۶۳شماروں کا ذکر کیا ہے یہ فہرست اُن کے ذوقِ تحقیق اور فروغ نعت سے وابستگی کا اظہار تو ہے ہی، اس میں نعت کے قارئین اور نئے محققین کے لیے راہنمائی کا پورا سامان بھی موجود ہے ، اس لیے یہاں اس فہرست کا اظہار موزوں معلوم ہوتا ہے۔
کیلاش ،ہوشیار پور(بھارت)
ماہنامہ، نعت نمبر ۱۳۶
مدیر:ایم پی چورسیا
اگست،۱۹۴۰ء
پیشوا(حصہ دوم) دہلی (بھارت) ماہنامہ، نعت نمبر ۱۳۷
مدیر: عزیز حسن بقائی
اپریل،۱۹۴۱ء
نوروظہور، قصور، ماہنامہ ، نعت نمبر۱۳۸
مدیر: محمد علی ظہوری
اگست، ستمبر،۱۹۶۱
سیر وسفر ، ملتان ہفت روزہ نعت نمبر ۱۳۹
مدیر: عارف دہلوی
اگست ۱۹۶۳ء
کتاب لڑی، پگڈنڈی، لاہور،
نعت شریف نمبر
مدیر: اخترکاشمیری
دسمبر،۱۹۶۴ء
محبوب، لاہور، ماہنامہ ، نعت نمبر
مدیراعلیٰ: صائم چشتی
مئی ۱۹۷۲ء
صریرخامہ، سندھ یونی ورسٹی جامشورو، مجلہ، نعت نمبر
مرتب: حمایت علی شاعر
۱۹۷۸ء
اقراء ، گورنمنٹ ایم اے اوکالج ،لاہور، مجلہ ،نعت نمبر
مدیران:حفیظ صدیقی،
محمد یونس احقر
۱۹۸۰ء
شام وسحر ماہنامہ ، لاہور، نعت نمبر
مدیر: خالدبٹ(خالد شفیق)
جنوری، ۱۹۸۱
کارواں، گورنمنٹ کالج جھنگ ، مجلہ نعت نمبر
مدیراردو: پروفیسر محمدحیات خان سیا ل
۱۹۸۱ء
شام و سحر ، ماہنامہ، لاہور، نعت نمبر
مدیر: خالد بٹ(خالدشفیق )
جنوری، ۱۹۸۲
الہام ، بہاول پور، ہفت روزہ ، نعت نمبر
مدیر: مسعودحسن شہاب دہلوی
دسمبر۱۹۸۲ء
شام و سحر، لاہور، ماہنامہ ، نعت نمبر
مدیر: خالد بٹ(خالدشفیق )
جنوری، ۱۹۸۳
کتاب لڑی، لکھاری ،لاہور، نعت نمبر،
اشرف پال،اقبال زخمی، افضل باقی طفیل خلش
فروری ۱۹۸۳ء
نقوش،رسول نمبر(جلد دہم) لاہور، نعت نمبر
مدیر:محمدطفیل
جنوری ۱۹۸۴ء
تحریریں، ماہنامہ، لاہور، نعت نمبر
مدیراعلیٰ:اخترامام رضوی
اپریل ۱۹۸۴ء
لفظ ہمارے، لودھراں مجلہ ، نعت نمبر
مدیر: مبشر وسیم لودھی
جون ۱۹۸۴ء
تحریریں، لاہور، ماہنامہ، نعت نمبر
مدیرہ: زاہدہ صدیقی
جنوری ۱۹۸۵ء
اقلیم، ساہیوال ، ششماہی ، نعتیہ انتخاب نمبر
مدیر:اکرم کلیم
مئی ۱۹۸۹ء
محراب ومنبر، کراچی ، سہ ماہی، نعت نمبر
مدیر: صاحبزادہ فریدالدین قادری
اکتوبرتادسمبر۱۹۸۹ء
تحریریں، لاہور ماہنامہ ، نعت نمبر۵
مدیرہ:زاہدہ صدیقی
ستمبر، ۱۹۹۱ء
الرشید ،(اول۔دوم)لاہور، ماہنامہ ، نعت نمبر
مدیرمسؤل عبدالرشد ارشد
نومبر۱۹۹۰ء
اوج،(جلد اول، دوم) لاہور، مجلہ ، نعت نمبر
تدوین:ڈاکٹرآفتاب احمد نقوی
۹۳۔۱۹۹۲ء
سیرت طیبہ ،(حصہ اول) کراچی ، سہ ماہی ، نعت نمبر
مدیر:عبدالعزیزعرفی، ایڈووکیٹ
اگست تااکتوبر۱۹۹۳
سیرت طیبہ ،(حصہ دوم) کراچی ، سہ ما ہی ، نعت نمبر
مدیر: عبدالعزیز عرفی، ایڈوو کیٹ
نومبر۹۳تا ۱۹۹۴ء
القول السدید، لاہور، ماہنامہ ، نعت نمبر
مدیران، محمد طفیل،جاوید اکبر قا د ر ی
مارچ تامئی ۱۹۹۴ء
ہلال، راول پنڈی ، نعت نبی المکرم نمبر
مدیر: محمد ممتاز اقبال ملک
مئی ۱۹۹۴ء
حضرت حسان نعت ایوارڈ ،کراچی، مجلہ ، نعت نمبر
مدیراعلیٰ:غوث میاں
۱۴۱۵ھ/۱۹۹۴ء
تحریریں، لاہور ،ماہنامہ ، نعت نمبر ۷
ایڈیٹر:زاہدہ صدیقی
فروری ۱۹۹۵ء
تحریریں، لاہور ،ماہنامہ ، نعت نمبر ۸
ایڈیٹر:زاہدہ صدیقی
اگست ،ستمبر۱۹۹۵ء
تحریریں، لاہور ،ماہنامہ ، نعت نمبر ۹
ایڈیٹر:زاہدہ صدیقی
اکتوبر ۱۹۹۵ء
الفرقان، ربوہ ،نعت نبوی نمبر
مدیر:ندارد
دسمبر ۱۹۹۵ء
نوائے انجمن ، اسلام آباد ، نعت نمبر ۱۴۲
مدیر: سید مقصود علی شاہ
۱۹۹۵ء
نعت،(حصہ اول) لاہور، ماہنامہ ،نعت نمبر
ایڈیٹر: راجا رشید محمود
مارچ ۱۹۹۶ء
تحریریں، لاہور ،ماہنامہ ، نعت نمبر ۱۶
ایڈیٹر: زاہدہ صدیقی
جولائی ۱۹۹۷ء
گونج ،نظام آباد ، ماہنامہ ،نعت نمبر
مدیر:جمیل نظام آبادی
۱۹۹۸ء
علم وقلم، سیالکوٹ، مجلہ ، نعت نمبر
مدیر: محمد ارشد سلیم قادری
۲۰۰۰ء
جہان حمد، کراچی ، کتابی سلسلہ،
خواتین حمد ونعت نمبر
مرتب: طاہر حسین طاہر سلطانی
اپریل ۲۰۰۰ء
بیاض، لاہور، ماہنامہ ،نعت نمبر
مدیر: خالد احمد، عمران منظور
۲۰۰۰ ئ،۲۰۰۱ء
خیال و فن، لاہور،دوحہ، خلیجی ،نعت نمبر
مدیراعلیٰ: محمد ممتاز راشد
۲۰۰۱ء
جہان حمد ،کراچی کتابی سلسلہ نعت نمبر ۶
مرتب: طاہر حسین سلطانی
مئی ،۲۰۰۱ء
جہان حمد ،کراچی کتابی سلسلہ نعت نمبر ۷
مرتب: طاہر حسین سلطانی
مئی ۲۰۰۱ء
راہ نجات ،کراچی ، کتابی سلسلہ ، نعت نمبر
مدیراعلیٰ: غلام مجتبیٰ احدی
مئی ۲۰۰۳ء
دنیائے نعت، کراچی ،کتابی سلسلہ ، نعت نمبر
مرتب: عزیزالدین خا کی القادری
مارچ، ۲۰۰۴ء
ارمغانِ حمد، کراچی ، ماہنامہ، نعت نمبر
مرتب: طاہر حسین طاہر سلطانی
اپریل ۲۰۰۴ء
جہان حمد ،کراچی کتابی سلسلہ نعت نمبر
مرتب: طاہر حسین طاہر سلطانی
مئی ۲۰۰۴ء
مفیض ،گوجرانوالہ ، سہ ماہی ، نعت نمبر
مدیراعلیٰ: محمد اقبال نجمی
۲۰۰۵ء
ندائے شاہی، مراد آباد (بھارت) ، نعت نمبر
مرتب: محمد سلمان منصور پوری
اپریل ۲۰۰۵ء
لکھاری(پنجابی) ،لاہور، ماہنامہ ،نعت نمبر
ایڈیٹر: میاںاقبال زخمی
اگست ۲۰۰۵ء
کاروانِ نعت، لاہور، ماہنامہ، نعت خو ا نی نمبر
مدیر: محمد ابرار حنیف مغل
۲۰۰۷
اردو کلچرل سوسائٹی شکاگو ،امریکہ، نعت نمبر
مدیر: ندارد
جولائی ۲۰۰۷ء
مفیض ، گوجرانوالہ ،سہ ماہی نعت تبصرہ نمبر
مدیراعلیٰ: محمد اقبال نجمی
۲۰۰۸ء
’’المدینہ‘‘ کراچی ، ماہنامہ ،حمد ونعت نمبر
ایڈیٹر: قاری حامد محمود قادری
اپریل۲۰۱۰
الاصلاح ، مقام اشاعت ندارد، نعت نمبر ۱۴۳
مدیر : ندارد
سال اشاعت :ندار د
باب کے آخر میں نعتیہ مجلوں کے مختلف شماروں کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ ان چند اہم نعتیہ مجلوں میں درج ذیل نام شامل ہیں:٭مجلہ ’’لیلۃ النعت‘‘ کراچی ۱۹۸۷ ء ٭مجلہ حضرت حسان نعت ایوارڈ،۱۹۹۱ئ٭پہلامجلہ حضرت حسان نعت ایوارڈ، ۱۹۸۸ ۔ ۱۹۸۹ئ٭دوسرا مجلہ حضرت حسان، نعت ایوارڈ ، ۱۹۹۲ئ٭تیسرا مجلہ ’’نعت نمبر‘‘ حضرت حسان ، نعت ایوارڈ ،۱۹۹۴ئ۔‘‘
مختلف تنظیمیں اپنی سالانہ نعتیہ کارکردگی اُجاگر کرنے کے لیے تواتر سے مجلوں کا اہتمام کرتی ہیں جو زیادہ ترمستقل عنوانات کے تحت شایع ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے حسب معمول مجلے کے مضمون نگاروں اورمشمولات کا تعارف دیا ہے۔ بعض جگہ خامیوں کو بھی اُجاگر کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ باب پاکستان میں نعتیہ صحافت کے مختلف گوشوں کا بھرپور احاطہ کرتا ہے۔
۷۔پاکستان میں نعتیہ تذکرہ نگاری کی روایت
تذکرہ نگاری ادب کی اہم اصناف میں سے ہے۔ کلاسیکی ادب کا ایک بڑا ذخیرہ تذکروں کی صورت میں محفوظ ہے۔ تخلیق کے ساتھ جب تک تخلیق کار کا تذکرہ شامل نہ ہو، تفہیم ادھوری رہتی ہے ۔ تذکرے کی مختلف اقسام ہیں۔ اب شخصیات کے علاوہ کلیات ، دواوین اور کتابوں کے الگ تذکرے بھی مرتب ہونے لگے ہیں۔ اس باب میں ڈاکٹر شہزاد احمد نے نعتیہ تذکرہ نگاری کو موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے درج ذیل عنوانات کے تحت نعتیہ ادب کی روایت کا تذکرہ کیا ہے:
’’لفظ ’’تذکرہ‘‘ معنی و مفہوم کی روشنی میں٭نعتیہ تذکرہ نگاری کی روایت کا آغاز٭عام اُردو غزل گو شعراء کے تذکرے اور تذکرہ نگاری٭تذکرہ اور تذکرہ نگاری کا فن ٭تذکروں اورتذکرہ نگاری کی ترجیحات٭اُردو میں نعتیہ تذکرہ نگاری کی روایت کا آغاز وارتقائ٭چند معروف مشاہیر نعتیہ تذکرہ نگار٭چند تقویت دینے والے نعتیہ تذکرہ نگار٭مستقل لکھنے والے نعتیہ تذکرہ نگار٭نعتیہ تذکرہ نگاری کی حامل کتب٭رسائل وجرائد اورنعت نمبروں کی نعتیہ تذکرہ نگاری٭ صریرخامہ ، ۱۹۷۸ئ٭مہک ،۹۸۰ ۱ ء ٭’’شام و سحر‘‘ نعت نمبر، ۱۹۸۱ئ٭نقوش’رسول نمبر‘‘ لاہور(جلد دہم) ۱۹۸۴ء
٭ماہنامہ’’نعت‘‘لاہور،جنوریِ۱۹۸۸ئ٭مجلہ’’اوج‘،لاہور،۹۳۔۱۹۹۲ء ٭مجلہ’’اوج‘‘ لاہور(نعت نمبر ۱)٭ مجلہ’’اوج‘‘ لاہور(نعت نمبر ۲)٭’’نعت رنگ‘‘،کراچی، ۱۹۹۵ئ٭حمدونعت کی بہاریں، ۲۰۰۴ئ۔‘‘
ڈاکٹرشہزاد احمدنے نعتیہ تذکرہ نگاری سے پہلے اُردو تذکرہ نگاری کے فن اور روایت کو بیان کیا ہے۔ پھر نعت کے مستقل خدمت گاروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ میرؔ کے ’’نکات الشعرا‘‘(فارسی ۔ ۱۵۲)سے لے کر شاعرعلی شاعر کے ’’سفیران سخن، چار حصّے ( ۰۵ ۲۰ ئ) تک کل ۳۸ تذکروں کی فہرست دی ہے۔ ان تذکروں میں نعت گو شعرا کا ذکر بھی ملتا ہے مگر زیادہ گہرائی سے نہیں۔
نعتیہ تذکرہ کا آغاز کرنے والوں میں ڈاکٹر صاحب نے ’’پروفیسر یونس شاہ گیلانی، گوہرملسیانی، ڈاکٹر انعام الحق کوثر، ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری، پروفیسر اشفاق احمد ، ادیب رائے پوری، حفیظ تائب ، ڈاکٹر سیدشمیم گوہر، افضال نقوی ،فضل فتح پوری، پروفیسر اکرم رضا، ڈاکٹر ریاض مجید ، پروفیسر محمد شعیب ، ڈاکٹر شاہ رشادعثمانی، راجا رشیدمحمود ، ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری، ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی، ڈاکٹر مظفر عالم جاوید ، ڈاکٹر عاصی کرنالی اور حمایت علی شاعر کے نام پیش کیے ہیں۔(۲۸)
یہ وہ تذکرہ نگار ہیں جنھوں نے اُردو ادب میں اپنی خدمات انجام دیں اور نعت پر بھی توجہ دی۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اُن تذکرہ نگاروں کے اسمائے گرامی بیان کیے ہیں جن کی اوّل وآخر وابستگی نعت سے ہے۔ خالص نعت سے منسلک ان تذکرہ نگاروں میں’’نور احمد میرٹھی، راجا رشید محمود، شہزاداحمد ، پروفیسر شفقت رضوی اور سیدمحمد قاسم‘‘ کے نام شامل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے نعتیہ تذکرہ نگاری پر مبنی کتب کی فہرست بھی دی ہے۔ ۷۰کتابوں پر مبنی اس فہرست میں ایسی کتابیں بھی شامل ہیں جن میں نعتیہ تذکرہ نگاری کے شواہد موجود ہیں یہ تذکرہ نگاری کے عمل میں کسی نہ کسی طرح سے معاون ہیں۔ فہرست ملاحظہ ہو:
۱۔برق، طلحہ رضوی ، ڈ ا کٹر ،اردو کی نعتیہ شاعری،دانش اکیڈمی ملکی محلہ، آرہ بہار، بھا ر ت،جنوری ۱۹۷۴ء
۲۔فرمان فتح پوری، ڈ ا کٹر،اُردو کی نعتیہ شاعری،آئینہ ادب، چوک انارکلی، لاہور،۱۹۷۴ء
۳۔اشفاق،رفیع الدین،سید ، ڈاکٹر،اُردومیں نعتیہ شاعری ،(ڈاکٹریٹ)،مدینہ پبلشنگ کمپنی، ایم اے جناح روڈ ،کراچی،۱۹۷۶ء
۳۔شمس بریلوی ، علامہ ،کلام رضا کا تحقیقی اور ادبی جا ئزہ، مدینہ پبلشنگ کمپنی، کراچی،۱۹۷۶ء
۴۔اعوان، ملک شیر محمد ،مولانا احمد رضا کی نعتیہ شا عری، مرکزی مجلس رضا، لاہور، بارچہارم ،۶ ۷ ۹ ۱ء
۵۔اخترالحامدی ضیائی، علا مہ،امام نعت گویاں،مکتبہ فریدیہ ، جناح روڈ ، سا ہیو ال،۱۹۷۷ء
۶۔محمود، راجا رشید،اقبال واحمد رضا مدحت گران پیغمبر، اختر کتاب گھر ، لاہور، آخری ایڈیشن، ۱۹۷۷ء
۷۔ندوی، عبداللہ عباس ، ڈاکٹر،عربی میں نعتیہ کلام ، میزانِ ادب، کراچی (باراوّل)۸ ۱۹۷ء
۸۔بخت آور،آنحضرت کے دور کی نعتیہ شاعری، پاکستان ادبی سنگت ، لاہور،س ن
۹۔گیلانی، یونس شاہ، سید ، پروفیسر،تذکرہ نعت گویانِ اردو، (حصہ اوّل)،مکہ بکس ، ۵۔بخشی اسٹریٹ متصل چوک اردوبازار ،لاہور،۱۹۸۲ء
۱۰۔گوہرملسیانی،عصرحاضر کے نعت گو، گوہر ادب پبلی کیشنز، صادق آباد ،۱۹۸۳ء
۱۱۔تائب ، عبدالحفیظ ،گل چیدہ نمبر۱م، سیرت مشن پاکستان ، ۹۰نبی بخش پارک ، شادباغ ،لا ہو ر ۳ ۸ ۹ ۱ء
۱۲۔کوثر، انعام الحق ، ڈاکٹر،نبی کریم کا ذکر بلوچستان میں، اسلامک پبلی کیشنزلمیٹڈ ، ۱۳،ای شاہ عالم مارکیٹ ، لاہور،۱۹۸۳ء
۱۳۔گیلانی، یونس شاہ ، سید، پروفیسر،تذکرہ نعت گویانِ اُردو ،(حصہ دوم)،مکہ بکس، ۵،بخشی اسٹریٹ ، اردو بازار، لاہور،۱۹۸۴ء
۱۴۔شاہجہانپوری، ابوسلمان، ڈاکٹر،تذکرہ نعت گو شاعرات،ادارہ تصنیف وتحقیق ، پاکستان ، کراچی،۱۹۸۴ء
۱۵۔اشفاق احمد، پروفیسر،شاعری اورحسان بن ثابت،ثاقب پرنٹرزاینڈپبلشرزعقب گھنٹہ گھر ملتان،۱۹۸۴ء
۱۶۔ادیب، لطیف حسین ، سید، ڈاکٹر،تذکرہ نعت گویانِ بریلی،روشن پبلی کیشنز روشن محل سوتھابدایوں (انڈیا)،۱۹۸۶ء
۱۷۔شہزاداحمد ، ڈاکٹر،لاکھوں سلام (تذکرہ تضمین نگار شعرائ)، مکتبہ حمد ونعت ، ۲۴ نوشین سینٹر ، دوسری منزل ، اُردوبازار ،کراچی،۱۹۸۶ء
۱۸۔ادیب رائے پوری،مدارج النعت،A-837بلاک ’ایچ‘ شمالی ناظم آباد، کراچی،۱۹۸۶ء
۱۹۔آزاد، فتح پوری، محمد اسماعیل ، ڈاکٹر،نعتیہ شاعری کا ارتقائ،صدرشعبہ اُردو، مہاتما گاندھی پوسٹ گریجویٹ کالج، فتح پور،(یوپی) انڈیا،۱۹۸۸ء
۲۰۔شمس بدایونی، ڈاکٹر،تذکرہ شعرائے بدایوں ،دربارِ رسول میں،محمد عبدالستار بدایونی،کراچی، ۱۹۸۸ء
۲۱۔گوہر، شمیم ،سید، ڈاکٹر،نعت کے چند شعرائے ،متقدمین،سیدابوطاہر، خانقاہِ حلیمیہ ابوالعلائیہ ، ۱۲۷، چک ، نیاحجرہ، الٰہ آباد ، انڈیا،۱۹۸۹ء
۲۲۔فضل فتح پوری ، افضال حسین نقوی،اردو نعت تاریخ و ارتقائ،ڈارپبلی کیشنز،کراچی نمبر ۲ ،۹ ۸ ۹ ۱ ء
۲۳۔رضا، محمد اکرم ،پروفیسر،کاروانِ نعت کے حدی خواں،فروغ ادب اکادمی، گوجرانوالہ ۱۹۸۹ء
۲۴۔ریاض مجید، ڈاکٹر،اُردو میں نعت گوئی ،(ڈاکٹریٹ)،اقبال اکادمی ، پاکستان، لاہور،۱۹۹۰ء
۲۵۔شعیب ،محمد ،پروفیسر،اسلامی نعتیہ شاعری اور شاہ ولی اللہ،شاہ عنایت قادری اکیڈمی ، لاہور ،۱۹۹۱ء
۲۶۔عثمانی، شاہ رشاد ،ڈاکٹر،اُردو شاعری میں نعت گوئی (ڈاکٹریٹ ،ایک تنقیدی مطالعہ،مجلس مصنفین اسلامی ، شانتی باغ، نیا کریم گنج ، گیا، بہار (انڈیا)،۱۹۹۱ء
۲۷۔غوث میاں،پاکستان کے نعت گوشعرا،حضرت حسان حمد ونعت بک بینک پاکستان، کراچی، ۹۲ ۱۹
۲۸۔آزاد، فتح پوری، محمد اسماعیل ، ڈاکٹر اُردو شاعری میں نعت،ڈاکٹریٹ، دوجلدیں، اول ابتداء سے عہد محسن تک ، دوم حالی سے حال تک)،نسیم بک ڈپو، ۲۵۔جی بی مارگ، لکھنو،، انڈیا،۱۹۹۲ء
۲۹۔ادیب رائے پوری،مشکوٰۃ النعت،اُردو میں عربی کی نعتیہ شاعری کا جائزہ،۱۹۹۲
۳۰۔شہزاد احمد ،کراچی کے نعت گو(تذکرہ)،مجلہ اوج ، گورنمنٹ ڈگری کالج شاہدرہ لاہور، ۹۳ ۔ ۲ ۹ ۱۹ء
۳۱۔شہزاداحمد ،حیدرآباد (سندھ) کے نعت گو (تذکرہ)،مجلہ اوج، گورنمنٹ کالج شاہد رہ لاہور،۹۳ ۔ ۲ ۹ ۱۹ء
۳۲۔مجلہ ’لیلۃ النعت‘‘ مرکزی گل بہار نعت کونسل ،پاکستان، ٹرسٹ گل بہار ، کراچی، ۱۹۹۳ء
۳۳۔قاسم ،محمد ، سید،پاکستان کے نعت گوشعراء (حصہ اوّل)،ہارون اکیڈمی،کراچی،۱۹۹۳ء
۳۴۔آفتاب نقوی، احمد ، ڈاکٹر،مجلہ ’’اوج ‘‘ (ہر دونعت نمبر)،گورنمنٹ کالج شاہدرہ ، لاہور ۳ ۹۔ ۲ ۱۹۹ء
۳۵۔محمود، راجا رشید،غیرمسلموں کی نعت گوئی ،(تذکرہ، انتخاب)،نیو شالامارکالونی ملتان روڈ ، لا ہو ر،۱۹۸۴ء
۳۶۔محمود، راجا رشید،پاکستان میںنعت ،طارق محمود،ایجوکیشنل ٹریڈرزپبلشرز، اُردو بازار ،لاہور، ۱۹۹۴ء
۳۷۔رئیس احمد ،حریم نعت (تذکرہ، انتخاب)،اقلیم نعت ٹی اینڈ ٹی فلیٹ فیز ۵، شادمان ٹائون شمالی، کراچی،۱۹۹۵ء
۳۸۔محمود، راجا رشید،خواتین کی نعت گوئی (تذکرہ انتخاب )،اظہر منزل مسجد اسٹریٹ نمبر۵،نیو شالامارکالونی ملتان روڈ ۔ لاہور،پاکستان،۱۹۹۵ء
ْْ۳۹۔قمر وارثی، اختر لکھنو ی ،خوشبو سے آسماں تک (تذکرہ و ردیفی انتخاب نعت)،دبستانِ وارثیہ، ۱۲۔ایل، ۴۴۶،اورنگی ٹائون ، کراچی،۱۹۹۵ء
۴۰۔شہزاد احمد ،بارگاہِ رسالت کے نعت گو،ناشر:ماہنامہ’’حمدونعت‘‘کراچی، ۲۴،نوشین سینٹر، دوسری منزل، اردو بازار، کراچی،۱۹۹۶ء
۴۱۔سلیم،چودھری ،محمد،شعرائے امرتسر کی نعتیہ شاعری،مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی، ۷۹۳،این ، سمن آباد، لاہور،۱۹۹۶ء
۴۲۔قمروارثی،جلوے حیات آراستہ (تذکرہ ردیفی انتخاب نعت)،دبستانِ وارثیہ، ۱۲، ایل، ۴۶ ۴ ، اورنگی ٹائون، کراچی،۱۹۹۶ء
۴۳۔میرٹھی، نوراحمد،بہرزماں بہرزباںﷺ، (غیرمسلم شعرا کا عالمی نعتیہ تذکرہ)،ناشر:ادارہ فکر نو، کراچی ۔بی ۔ 11/78,35، کورنگی ،کراچی،۱۹۹۶ء
۴۴۔قمروارثی،آب وتابِ رنگ ونور (تذکرہ ردیفی انتخاب نعت)،دبستانِ وارثیہ، ۱۲، ایل، ۴۶ ۴ ، او رنگی ٹائون، کراچی،۱۹۹۷ء
۴۵۔شاکرکنڈان،اُردونعت اور عساکر پاکستا ن ما ہنامہ نعت، کرا چی ، اظہر منزل مسجد اسٹریٹ نمبر۵ ، نیو شالامارکالونی ملتان روڈ ۔ لاہور،پاکستان،۱۹۹۷ء
۴۶۔طاہرسلطانی،اذانِ دیر(غیرمسلم حمد گوشعرا)،ادارہ چمنستان حمد ونعت 38/26،بی ون ایریا، لیاقت آباد کراچی،۱۹۹۷ء
۴۷۔صدیقی، مظفرعالم جاوید، ڈاکٹر،اُردو میں میلاد النبی ،فکشن ہائوس،۱۸،مزنگ روڈ ، لا ہو ر ۱۹۹۸ء
۴۸۔قمروارثی،جمال اندرجمال (تذکرہ و ردیفی انتخاب نعت)،دبستانِ وارثیہ، ۱۲، ایل، ۴۴۶ ، اورنگی ٹائون، کراچی،۱۹۹۸ء
۴۹۔شاعر، حمایت علی،عقیدت کا سفر(سات سوسالہ نعتیہ شاعری کا جائزہ)،دنیائے ادب، سی بی ، الفلاح سوسائٹی، فیصل کالونی، کراچی،۱۹۹۹ء
۵۰۔طاہر سلطانی،حریم ناز میں صدائے اللہ اکبر (شاعرات کی حمد گوئی)،ادارہ چمنستان حمد ونعت 38/26،بی ون ایریا، لیاقت آباد کراچی،۱۹۹۹ء
۵۱۔نشیطؔ،یحییٰ، سید ،ڈا کٹر ،اُردو میں حمدومناجات (حمدیہ نثری ادب)،ناشر: فضلی سنز(پرائیویٹ) لمیٹڈ، اردوبازار، کراچی،۲۰۰۰ء
۵۲۔گوہر، سیدشمیم احمد، ڈا کٹر،اُردو کانعتیہ ادب (اور انتخاب، قصائد نعتیہ)،ناشر:سیدحیات احمد، 183/ 127 چک، نیاحجرہ ، الہٰ آباد، یوپی، انڈیا،۲۰۰۱ء
۵۳۔عاصی کرنالی، ڈاکٹر،اُردو حمدونعت پر فارسی شعری روایت کا اثر ،اقلیم نعت ، ۵۰۔ بی ،سیکٹر ۱۱ ۔ اے نارتھ کراچی، کراچی ، پاکستان،۲۰۰۱ء
۵۴۔شفقت رضوی، پرو فیسر،اُردو میں حمد گوئی (چند گو شے )،جہانِ حمد پبلی کیشنز، 38/26بی ون ایریا ، لیاقت آباد، کراچی،۲۰۰۲ء
۵۵۔شفقت رضوی، پرو فیسر ،اُردو میں نعت گوئی (چندگوشے)،جہانِ حمد پبلی کیشنز، 38/26بی ون ایریا ، لیاقت آباد، کراچی،۲۰۰۲ء
۵۶۔قریشی ، محمد اسحاق، ڈاکٹر،برصغیر پاک وہند میں عربی نعتیہ شاعری (ڈاکٹریٹ)،ناشر:مرکز معارف اولیاء ،محکمہ اوقاف ، حکومت پنجاب، لاہور،۲۰۰۲ء
۵۷۔اُجاگر، نثارعلی،سدابہار نعتیں،دعوتِ اسلام پبلی کیشنز، ضرب اسلام ہائوس، 1/2نزدآئی آئی چندریگر روڈ،کراچی،۲۰۰۳ء
۵۸۔قمررعینی،تذکرۂ نعت گویانِ راولپنڈی، اسلام آباد،ناشر: انجم پبلشرز، راولپنڈی، ۲۰۰۴ء
۵۹۔طاہرسلطانی،اُردو حمد کا ارتقاء (حمد گو شعرا کا تذکرہ)،جہانِ حمد پبلی کیشنز، 38/26بی ون ایریا ، لیاقت آباد، کراچی،۲۰۰۴ء
۶۰۔تائب، حفیظ،حمد ونعت کی بہاریں،ناشر: روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور میں قسط وار۔ مجلہ لیلۃ النعت،کراچی میں یکجا شایع ہوا ،۲۰۰۴ء
۶۱۔طاہرسلطانی،گلشن حمد (غیر مسلم حمد گو شعرا کا اولین تذکرہ)،جہانِ حمد پبلی کیشنز، 38/26بی ون ایریا ، لیاقت آباد، کراچی،۲۰۰۵ء
۶۲۔شاکرکنڈان،نعت گویانِ سرگودھا،ادارۂ فروغِ ادب، -132بی ، استقلال آباد، سرگو د ھا ، ۲۰۰۶ء
۶۳۔میرٹھی، نوراحمد،گلبانگ وحدت (غیر مسلم حمد گو شعرا کا تذکرہ)،ادارہ فکر نو، کراچی ۔بی ۔ 11/78,35، کورنگی ، کراچی،۲۰۰۷ء
۶۴۔طاہرسلطانی،خوشبوئوں کا سفر (تذکرہ نعت گویانِ پنجاب)،جہانِ حمد پبلی کیشنز، نوشین سینٹر، سیکنڈفلور، روم نمبر۱۹، اردوبازار ،کراچی،۲۰۰۷ء
۶۵۔قاسم،محمد، سید،پاکستان کے نعت گوشعرا، (حصہ دوم)،شبیراحمد انصاری ، حرا فائونڈیشن، پاکستان (رجسٹرڈ)کراچی،پی او بکس 7272،کراچی،۲۰۰۷ء
۶۶۔رضا ،محمد اکرم، پروفیسر،قافلہ شوق کے مسافر (نعت گوشعرا سے متعلق نعتیہ مضامین،فروغِ ادب اکادمی، ۸۸۔بی، سیٹلائٹ ٹائون گوجرانوالہ،۲۰۰۷ء
۶۷۔منہاس ،عابد،چکوال میں نعت گوئی،ناشر:کشمیرپبلی کیشنز اینڈ بک ڈپو، تلہ گنگ، چکوال،۲۰۰۸ء
۶۸۔شوکت زریں چغتائی ، ڈاکٹر،اردو نعت کے جدید رجحانات،(ڈاکٹریٹ) بزم تخلیق ادب پاکستان، پوسٹ بکس نمبر17667،کراچی،۲۰۱۱ء
۶۹۔محمود، راجا رشید،اُردو کے صاحب کتاب ،نعت گو (چارحصے)،اظہر منزل ، مسجد اسٹریٹ نمبر۵، نیوشالامار کالونی، ملتان روڈ، لاہور،۱۹۹۰ء
اس باب کے آخری حصّے میں ڈاکٹر صاحب نے رسائل وجرائد اور نعت نمبروں کی تذکرہ نگاری کے حوالے سے ’’صریرخامہ‘‘ ۱۹۷۸ئ، ’’مہک‘‘ ۱۹۸۰، ’’شام و سحر‘‘ ۱۹۸۱ء ، ’’نقوش‘‘رسول نمبر۱۹۸۴ئ، ماہنامہ ’’نعت‘‘ ۱۹۸۸ء ، مجلہ ’’اوج‘‘ ۹۳۔۱۹۹۲ئ،’’نعت رنگ‘ ‘ ۱۹۹۵ء اور ’’حمد ونعت کی بہاریں ‘‘ ۲۰۰۴ء کا جائزہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے مذکورہ رسائل میں تذکرہ نگاری کے مضامین کے عنوانات الگ نکال کربیان کردیے ہیں۔ رسالے کا سال اشاعت اور مدیر کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ’’نعت رنگ ‘‘ کے۲۵ شماروں کی الگ فہرست مرتب کی گئی ہے۔ مضامین رسالے میں کس صفحے سے شروع ہو کر کس صفحے پر اختتام پذیر ہو رہے ہیں ، یہ وضاحت بھی کی گئی ہے۔ اس سے ڈاکٹر صاحب کی محنت کا اندازہ توہوتا ہی ہے لیکن یہ بات بھی عیاں ہے کہ انھوں نے بنیادی ماخذ تک خود رسائی حاصل کی ہے۔
اُن کا یہ تحقیقی مقالہ پاکستان کے نعتیہ ادب کے ارتقا کی ایک مستند دستاویز ہے۔ اس کی اہمیت کے بارے میںمشمولہ مجلہ جہان حمد ونعت اکادمی کشمیر میں ابن عبداللہ لکھتے ہیں:
’’ڈاکٹر شہزاداحمد برس ہابرس سے اپنے متعلقہ موضوع پر کام کرتے آئے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف خود اس موضوع پر اپنی زندگی وقف کردی بل کہ متعدد طلبا میں بھی اس موضوع کی دل چسپی و اہمیت کو فروغ دیا۔۔۔اُن کی نیت شوق اور مسلسل محنت کا ایک عملی نمونہ یہ تحقیقی مقالہ ہے جس کو نعتیہ تحقیق کے میدان میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل رہے گی۔‘‘(۲۹)
حاصلِ کلام یہ ہے ’’اُردو نعت پاکستان میں‘‘ ڈاکٹر شہزاد احمد کا عشق ہے جسے پاکستانی نعت کا انسائیکلوپیڈیا قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ یہ اُن کی نعتیہ ادب سے پچاس سالہ وابستگی کا ثمر ہے، جو انھیں جذبۂ عشقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے صلے میں عطا ہوا ہے۔ اس مقالے میں نعتیہ صحافت کی تاریخ ، ارتقا اور پاکستانی نعت گو شعرا کے جذبہ حب الوطنی کو جس جامعیت سے بیان کیا ہے وہ نعتیہ تحقیق کے آسمان پر روشن ستارے کی مانند چمکتے رہیں گے۔
اساسِ نعت گوئی
اساس نعت گوئی، نعتیہ ادب کی روایت پر محیط ہے اور اس میں عربی، فارسی اور اُردو نعت کا ارتقا پیش کیا گیا ہے۔ ۱۰۴صفحات پر مبنی یہ کتاب پیپر بیک کے ساتھ رنگ ادب پبلی کیشنز ، کراچی کے زیر اہتمام ۲۰۱۶ء میں شایع ہوئی۔ اس کا انتساب ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق کے نام ہے ۔ اس میں ڈاکٹر شہزاد احمد نے اُن کے مقالے کو نعتیہ ادب کا مستند حوالہ قرار دیا ہے۔ انتساب کی عبارت ملاحظہ ہو:’’اُردو نعت کے موضوع پر سب سے پہلے پی ایچ ڈی اور اُردو نعتیہ ادب کی راہیں متعین کرنے والے پروفیسر ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق کے نام جن کا تحقیقی و علمی مقالہ ’’اُردو میں نعتیہ شاعری‘‘ آج بھی بنیادی معلومات کا مستند حوالہ ہے۔‘‘
اس کتاب میں پہلے نعت گو کا مختلف حوالوں سے ذکر کیاگیا ہے۔ مبشرات کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ نعت کے لغوی واصطلا حی مفاہیم کے ساتھ نعت کی اہمیت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں نعت کی صورتیں قلم بند کی گئی ہیں۔ اس کے بعد عربی نعت میںخلفائے راشدین کے نعتیہ کلام کے نمونے دیے گئے ہیں۔ پھر ’’عربی نعت‘‘ کے عنوان کے تحت حضرت حسان بن ثابت سے ابومحمد طاہر سیف الدین تک عربی زبان کے ۳۹نعت گو شعرا کا تذکرہ مع نمونہ کلام کیا ہے۔ شعرا کا تعارف انتہائی مختصر اور اُدھورا ہے البتہ کلام کے حوالے ہر جگہ موجودہیں جس سے کتاب کی افادیت اور استناد میں شک نہیں رہ گیا۔
اس کے بعد فارسی کے نعت گوشعرا کا ذکر کیا گیا ہے۔ فردوسی سے جان محمد قدسی تک پچیس شعرا فارسی نعت کی روایت میں شامل نظر آتے ہیں۔
آخر میں’اُردو نعت‘‘ کے عنوان کے تحت کم و بیش چونسٹھ شعرا کا نمونہ کلام زمانی ترتیب سے جلوہ گر نظر آتا ہے ۔ اس میں سید محمد حسینی خواجہ بند نواز گیسو دراز سے ۱۹۴۸ء تک کے شعرا جمع ہیں۔ آخری نعت گو ، اختر شیرانی ، محمددائو دٹونکی (متوفی: ۱۹۴۸ئ) ہیں۔ اس باب کے آغاز میں سید محمد حسینی کو اُردو کا پہلا نعت گو قرار دیا گیا ہے نیزیہ بتایا گیا ہے کہ فخردین نظامی کی مثنوی کدم رائو پدم رائو میں نعت کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹرمحمد اسماعیل آزاد فتح پوری کی نئی تحقیق کا ذکر ہے ،موصوف لکھتے ہیں:
’’اُردو کی سب سے پہلی تصنیف ملادائود کی ’’مثنوی چندائن‘‘ ہے جو اُردو زبان کا اولین لسانی وادبی نمونہ ہے۔ ملا دائود نہ صرف یہ کہ اُردو کے پہلے شاعر ہیں بل کہ وہ اُردو کے پہلے نعت گو بھی ہیں۔‘‘( ۳۰)
’’اساس نعت گوئی‘‘ نعت کے معنی و مفہوم ، نعت کے ابتدائی نمونوں اور قیام پاکستان تک کی نعتیہ روایت کا اجمالی تعارف ہے۔ یہ تعارف اصل میں ڈاکٹر شہزاد احمد کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا پہلا باب ہے اور اس کی اہمیت یہ ہے کہ نعتیہ روایت پر طلبہ اور قارئین نعت کے لیے الگ سے کوئی کتاب دستیاب نہیں ،یہ اس کمی کو پورا کرتی نظر آتی ہے اور یہ مختصر تعارف نعت شناسی اور نعت فہمی کے فروغ کے حوالے سے اہمیت سے خالی نہیں۔
اُردو میں نعتیہ صحافت
ڈاکٹر شہزاد احمد اُردو نعت کے تقریباً تمام گوشوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ نعتیہ صحافت کے آغاز وارتقا پر اُن کی نظر گہری ہے۔ اُن کی یہ کتاب ۱۷۵صفحات پر محیط ہے اور رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی نے اسے ۲۰۱۶ء میں شائع کیا ہے۔ اس کے مشمولات درج ذیل عنوانات کے تحت ترتیب دیے گئے ہیں:
۱۔ صحافت کا آغاز
۲۔ اسلامی صحافت کا کردار
۳۔ نعتیہ صحافت کے موضوع پر ہونے والے کام
۴۔ نعتیہ ماہ نامے: آغاز و ارتقا تک
۵۔ نعتیہ کتابی سلسلے
۶۔ ضمیمہ
۷۔ نعتیہ اخباری روزنامے
۸۔ دنیائے نعت میں نعت نمبروں کا آغاز
۹۔ پاکستان میں نعتیہ مجلوں کی روایت
ڈاکٹر شہزاد احمد تحقیق کے شعبہ میں قطعیت کے حامی ہیں۔ اسی باعث انھوں نے نعتیہ صحافت کے اولین ماہناموں اور کتابی سلسلوں کو واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ اپنے موقف کومستند بنانے کے لیے وہ دیگر احباب کی تحقیق کو بھی بطور سند پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں وہ رقم طراز ہیں:
’’اس میں نعتیہ صحافت کی اولیات کو نہ صرف واضح کیا گیا ہے بل کہ اولیات کے ضمن میں از خود پیدا کردہ ابہام کو بھی ختم کیا ہے تاکہ حقائق وشواہد کی روشنی میں نعتیہ صحافت کے حقیقی منظر نامے کو دوام حاصل ہو۔ ‘‘ ( ۱ ۳)
اپنی اس تحقیق میں انھوں نے ادیب رائے پوری کے نعتیہ ماہنامے ’’نوائے نعت، کراچی، ۱۹۸۴ء کو جہان نعت کا پہلا ماہ نامہ قرار دیا ہے اورپھر ترتیب سے ماہ نامہ ’نعت‘ لاہور، ماہ نامہ ’’حمد و نعت‘‘ ،کراچی ، ماہ نامہ ’’ارمغانِ حمد‘‘ کراچی اور ماہ نامہ ’’کاروانِ نعت‘‘ لاہور کا ذکر کیا ہے۔
نعتیہ کتابی سلسلے میں وہ ’’ایوانِ نعت ‘‘ لاہور ۱۹۸۷ء کوپہلا باقاعدہ کتابی سلسلہ قرار دیتے ہیں۔ دیگر کتابی سلسلوں کے نام یہ ہیں:
۱۔ ایوانِ نعت لاہور ۱۹۸۷ء
۲۔ نعت رنگ کراچی ۱۹۹۵ء
۳۔ جہانِ حمد کراچی ۱۹۹۸ء
۴۔ سفیرنعت کراچی ۲۰۰۱ء
۵۔ دنیائے نعت کراچی ۲۰۰۱ء
۶۔ راہِ نجات کراچی ۲۰۰۲ء
۷۔ عقیدت سرگودھا ۲۰۰۴ء
۸۔ نعت نیوز کراچی ۲۰۰۷ء
۹۔ معین ادب فیصل آباد ۲۰۰۷ء
۱۰۔ خوشبوئے نعت سرگودھا ۲۰۰۷ء
۱۱۔ مدحت لاہور ۲۰۱۰ء
۱۲۔ فروغِ نعت اٹک ۲۰۱۳ء
۱۳۔ نعتیہ ادب اٹک ۲۰۱۳ء
۱۴۔ جہانِ نعت انڈیا ۲۰۱۳ء
۱۵۔ جہانِ نعت کراچی ۲۰۱۴ء
ڈاکٹرشہزاد احمد کی یہ کتاب اصل میں اُن کے پی ایچ ڈی کے مقالے کا باب ششم ہے جس میں اضافہ کرکے اُسے حالیہ نعتیہ پیش رفت سے مزین کیا گیا ہے۔ کتابی سلسلوں کے ضمیمے میں’’فروغ نعت، نعتیہ ادب، جہانِ نعت ، کراچی اور جہان نعت انڈیا‘‘ کا ذکر ہے اور دیباچے میں ہندوستان سے جاری ہونے والے ایک نئے رسالے کی نوید سنائی ہے ،وہ لکھتے ہیں :
’’جہانِ نعت ‘ ہندوستان کا پہلا حمدو نعت کا ادبی ششماہی مجلہ ہے جس کی اشاعت جاری ہے۔ ابھی حال ہی میں میرے ایک کرم فرما فیروز اے سیفی (نیویارک،امریکہ) نے بذریعہ ٹیلی فون مجھے یہ خوش خبری دی ہے کہ ہندوستان سے ایک اور نعتیہ رسالہ، ’دبستانِ نعت‘ کے نام سے شایع ہورہا ہے جس کا پہلا شمارہ ترتیب کے مراحل سے دوچار ہے۔‘‘(۳۲)
اُردو میں نعتیہ صحافت کی خوبی یہی ہے کہ اس میں ڈاکٹر صاحب نے تازہ ترین نعتیہ سرگرمیوں سے قارئین کو باخبر کیا ہے۔ یہ نعت کے ایک الگ گوشے کا جامع احوال ہے۔ اس لیے اسے الگ کتابی صورت میں قارئین تک پہنچانا ایک مستحسن عمل ہے۔
کتابی سلسلوں کے علاوہ تین نعتیہ اخباری روزنامے، پبلک، کراچی، ڈیلی یارن، فیصل آباد اور فریدی نیوز (پندرہ روزہ ) فیصل آباد‘‘ کا بیان ہے۔ پھر نعت نمبروں کی تفصیل ہے جس میں اولین نعت نمبر کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے نور احمد میرٹھی کی تحقیق کے مطابق ہندوستان کے ماہ نامہ ’’کیلاش‘‘ کے اگست ۱۹۴۰ء کے شمارے کو پہلا نعت نمبر قرار دیا ہے ۔ (۳ ۳)
کتاب کے آخر میں پاکستان میں شایع ہونے والے نعتیہ مجلوں کی روایت بیان کی گئی ہے۔ ان مجلوں میں ’’لیلتہ النعت‘‘ کراچی ،مجلہ ’’حضرت حسان نعت ایوارڈ، کراچی کے مختلف شماروں کا ذکر ہے۔ یہ کتاب نعتیہ صحافت کے باب میں روایت کو جمع کرنے کی اپنی نوعیت کی منفرد اور جامع کوشش ہے۔ ابھی تک نعتیہ صحافت کے حوالے سے ایسا جامع کام دیکھنے میں نہیں آیا۔
نعت رنگ کے پچیس شمارے:ایک اجمالی تعارف
نعت رنگ عہد حاضر میں نعتیہ ادب کی ترویج کا سب سے اہم اور مرکزی کتابی سلسلہ ہے۔ اس نے اپنے معیار کی بدولت اردو ادب کے ثقہ ناقدین کو نعتیہ ادب پر خامہ فرسائی کی طرف مائل کیا ہے۔ شعبۂ نعت میں ایک عرصے تک تنقید کو شجرممنوعہ کی حیثیت حاصل رہی۔اس جمود کو توڑنے میں نعت رنگ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور اب یہ فروغ نعت کی ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اگرنعتیہ ادب اور صحافت کی تاریخ مرتب کی جائے تو نعت رنگ سرفہرست قرار پائے گا۔سید صبیح رحمانی کے اس کتابی سلسلے ’نعت رنگ‘ کا اجمالی تعارف ڈاکٹرشہزاد احمد نے ’’نعت رنگ کے پچیس شمارے‘‘کے عنوان سے پیش کیا ہے۔
نعت رنگ کا تعارف
نعت رنگ کا پہلا شمارہ اپریل 1995میں شایع ہوا۔ بیس سال کے طویل عرصے اور وقفے وقفے کے ساتھ اس کے پچیس شمارے منظرعام پر آ چکے ہیں۔ نعت رنگ کے خصوصی شما رو ں میں علیٰ الترتیب تنقید نمبر : 1995، حمد نمبر :1999، امام احمد رضا نمبر: 2005 اور سلور جوبلی نمبر: 2015کی حیثیت سے منظرعام پر آئے۔ نعت رنگ کے مدیر سیدصبیح الد ین صبیح رحمانی ہیں ۔ رسالہ ''نعت رنگ'' نے نعتیہ شاعری کی تحقیق وتنقید پر نہایت بلند پا یہ مقالات پیش کیے ہیں۔
نعت رنگ میں مشاہیر نعت کی تحریروں کے علاوہ اردو ادب کے ثقہ اور انتہائی معتبر حضرات کی تحریریں نمایاں طور پر شامل کی جاتی رہی ہیں۔ نعت رنگ میں شایع ہونے والی کتب کو ڈاکٹر شہزاداحمد نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں :
’’اولاًوہ مطبوعہ کتب جو نعت رنگ کی افادیت و اہمیت کے حوالے سے شایع ہوئیں۔ ثانیاً وہ مطبوعہ کتب جو نعت رنگ میں چھپنے والے مواد پر مشتمل ہیں اور ثالثاً نعت رنگ پر ہونے والے تحقیقی نوعیت کے وہ کام جو مختلف یونیورسٹیز کی سطح پر سامنے آرہے ہیں۔ ‘‘(۳۴)
ڈاکٹرشہزاد احمد نے ’’نعت رنگ‘‘ کے اجمالی تعارف میں مذکورہ مطبوعہ کتب اور تحقیقی کاموں کی فہرست مہیاکی ہے اور ان پچیس شماروں کے مشمولات کا مختصر تذکرہ کیا ہے۔یہ ایک طرح کا اشاریہ بن گیا ہے اور تحقیق کے شعبہ سے وابستگان کے لیے مضامین تک رسائی آسان ہو گئی ہے۔ پہلے نعت رنگ کے حوالے سے مطبوعات کی فہرست ملاحظہ ہو:
۱۔نعت اور آداب نعت 2003 علامہ کوکب نورانی
۲۔موضوعاتی اشاریہ السیرہ العالمی اور نعت رنگ2003 حافظ محمد اظہر سعید
۳۔نعت رنگ کا تنقیدی وتحقیقی مطالعہ 2003 پروفیسر شفقت رضوی
۴۔اشاریہ ''نعت رنگ'' 2009 ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
۵۔ نعت رنگ: اہل علم کی نظر میں 2009 ڈاکٹرشبیر احمد قادری
۶۔ فن اداریہ نویسی اور نعت رنگ 2010 ڈاکٹرافضال احمد انور
۷۔ نعت نامے 2014 ڈاکٹر محمد سہیل شفیق
اب وہ مطبوعہ کتب ملاحظہ ہوںجو نعت رنگ میں چھپنے والے مواد پر مشتمل ہیں۔ ان کتابوں کی تعداد ۱۴ہے اور ان کے عنوانات درج ذیل ہیں:
۱۔اردو نعت اورجدید اسالیب 1998 عزیزاحسن
۲۔اردو میں حمدومناجات 2000 ڈاکٹر سید محمد یحییٰ نشیط
۳۔ نعت کی تخلیقی سچائیاں 2003 عزیز احسن
۴۔ مہرعالم تاب نعت 2005 پروفیسرمحمد اکرم رضا
۵۔ رنگِ نعت 2006 پروفیسر محمد فیروز شاہ
۶۔ ہنرنازک ہے 2007 عزیز احسن
۷۔ کلام اعلیٰ حضرت ترجمان حقیقت 2009 علامہ کوکب نورانی
۸۔ نعت اور تنقید نعت 2009 ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی
۹۔ غالب اور ثنائے خواجہ 2009 صبیح رحمانی(مرتب)
۱۰۔اردو نعت کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ 2010 رشید وارثی
۱۱۔نعت کے تنقیدی آفاق 2010 عزیزاحسن
۱۲۔ نعتیہ ادب کے تنقیدی نقوش 2012 پروفیسر محمد اکرم رضا
۱۳۔نعتیہ ادب کے تنقیدی زاویے 2014 ڈاکٹر عزیز احسن
۱۴۔ اردو نعت تجلیات سیرت 2014 صبیح رحمانی(مرتب)
نعت رنگ پر ہونے والے تحقیقی نوعیت کے کاموں میںاب تک ایم فل سطح کے تین مقالے منظرعام پر آچکے ہیں۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔نعتیہ شاعری کے فروغ میں جریدہ نعت رنگ کی خدمات
مقالہ نگار : حلیمہ بی بیِ نگرانِ مقالہ: ڈاکٹر سفیان صفیِ ہزارہ یونی ورسٹی ، مانسہرہ
۲۔ نعت رنگ کا توضیحی اشاریہ مقالہ نگار : عثمان یوسف
نگرانِ مقالہ: ڈاکٹرمحمد یار گوندل سرگودھا یونی ورسٹی ، پنجاب
۳۔ اردو نعتیہ ادب کے فروغ میں رسالہ ''نعت رنگ'' کا کردار
مقالہ نگار :مصباح فردوس نیازی نگرانِ مقالہ: ڈاکٹرمسرور احمد زئی
ایسٹ یونی ورسٹی ، حیدرآباد(سندھ)
مذکورہ تفصیلات کے بعد ڈاکٹر شہزاد احمد نے ’نعت رنگ‘ کی نمایاں خصوصیات بیان کی ہیں تاکہ اس کتابی سلسلے کی اہمیت اُجاگر ہو سکے۔ انھوں نے ’نعت رنگ‘ کو نعت کے ادبی فروغ کی ایک عظیم تحریک قراردیا ہے جو صنف نعت پر تحقیقی کام کرنے والے طلبہ ، اساتذہ اور اہل ذوق کو نہ صرف مہمیز فراہم کرتا ہے بل کہ ان کی معاونت اور سرپرستی کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ’نعت رنگ‘ کی اشاعت میں ہر روز نئے اور معروف لکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔نعت رنگ کی چند نمایاں خصوصیات ملاحظہ ہوں:
۱۔نعت رنگ ایک کتابی سلسلہ نہیں بل کہ یہ ایک ادبی تحریک ہے۔
۲۔نعت رنگ میں الفاظ کا چناؤ بہت معیاری قسم کا ہے جو دلوں کو سرور بخشتا ہے۔
۳۔نعت رنگ ایسا نور ہے جو اپنی چمک دمک اور مقناطیسیت سے ہر کسی کو اپنے حصار میں لے لیتا ہے۔
۴۔ نعت رنگ نے نعتیہ ادب میں جس طرح کام کو اْجاگر کیا ہے اس سے پہلے کسی نے بھی نہیں کیا ہے۔
۵۔نعت رنگ نعتیہ ادب کی ایسی روشن مثال ہے جس میں بہت تھوڑے سے وقت میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
۶۔نعت رنگ موجودہ دور میں نعت کا ایک مستند حوالہ ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی دستاویز ہے۔
۷۔نعت رنگ میں اہل ذوق کے لیے اس پر ہونے والے تحقیقی مقالات کو الگ الگ شائع کیا گیا ہے۔
اس کے بعد’ ’نعت رنگ اہل علم کی نظر میں ‘‘کے عنوان سے ڈاکٹر صاحب نے ناقدین فن کی مختصر آرا کو شاملِ تحریر کیا ہے۔ان میںڈاکٹر جمیل جالبی ، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزو، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، ڈاکٹر نجم الاسلام، ڈاکٹر ریاض مجید ، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی ، مشفق خوا جہ، پروفیسر حفیظ تائب اور پروفیسر شفقت رضوی‘‘شامل ہیں۔’نعت رنگ‘ ایک اہم کتابی سلسلہ ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اہل علم نے بھی اس کی گواہی دے رکھی ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر جمیل جالبی یوں رقم طراز ہیں:
''آپ نے جس سلیقے اور عمدگی سے ''نعت رنگ'' مرتب وشایع کیا ہے وہ یقیناً قابل تعریف ہے۔ معیار اور حسنِ طباعت کے اعتبار سے بھی اب کوئی دوسرا رسالہ میری نظر سے نہیں گزرا۔''(۳۵)
نعت رنگ کے سلسلہ میں ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں:
''یہ ایک حقیقت ہے کہ تنقید نعت کے ایک باقاعدہ دبستان کی شکل ''نعت رنگ ''کی صورت میں سامنے آئی ہے جس میں اس صنف کے مختلف پہلوؤں کو زیر مطالعہ لایا گیا ہے۔ معاصر نعت گو شعرا کے ساتھ ساتھ کلاسیکی نعتیہ رویوں ،کتابوں ، شاعروں اور نعت پاروں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ یوں ''نعت رنگ '' ایک ایسے فورم کی شکل اختیار کر گیا ہے جہاں نعت کاروںکو اپنے تنقیدی خیالات و افکار کے باضابطہ اور مستقل اظہار کی سہولیات میسر ہوئیں۔''(۳۶)
نعت رنگ کے پچیس شماروں کی تفصیل دیتے ہوئے ڈاکٹر شہزاداحمد نے نعت رنگ میں شامل مضامین ومقالات ، تنقید و تبصرے اور وقیع نعتیہ معلومات درج کی ہیں:
۱۔فہرست میں نعت رنگ کا شمارہ نمبر، سال اشاعت اور صفحات کی تعداد بتائی گئی ہے۔
۲۔مواد کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ تلاش کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
۳۔فہرست کو تین کالموں میں درج کیا گیا ہے پہلے کالم میں مضمون کا عنوان ، دوسرے کالم میں مضمون نگار اور تیسرے کالم میں صفحہ نمبر درج ہے۔
اُنھوں نے جس انداز میں شماروں کے مشمولات کا ذکر کیا ہے اس کی ایک جھلک کے لیے ’’نعت رنگ‘‘ کے شمارہ نمبر2 کے لوازمات درج کیے جاتے ہیں،تاکہ حسن ترتیب کا اندازہ لگایا جا سکے:
نعت رنگ ،کراچی
شمارہ ۲، دسمبر ۱۹۹۵
صفحات ۳۲۰
دھنک
ابتدایہ
صبیح رحمانی
۹
تمجید
اے خدا
احمد ندیم قاسمی
۱۳
حمدیں
حفیظ تائب، صبیح رحمانی
۱۴
مقالات
نعت کا مثالی اسلوب نظم
حافظ محمد افضل فقیر
۱۵
اردو حمد و نعت پر فارسی شعری روایت کے اثرات
عاصی کرنالی
۲۷
اردو نعت میں شانِ الوہیت کا استخفاف
رشیدوارثی
۳۸
نعت اور شعریت
عزیز احسن
۶۳
گلبنِ نعت
پروفیسر سحر انصاری
۱۱۹
جدید نعتیہ ادب اور بارگاہِ رسالت میں استمداد
شبیر احمد قادری
۱۲۳
استغاثہ فریاد

عصرحاضر میں نعت نگاری
شفیق الدین شارق
۱۳۵
دبستانِ کراچی کی نعتیہ شاعری
صبیح رحمانی
۱۶۷
حریم حرف
گوشہ ڈاکٹرمحمد اسلم فرخی

۱۷۹
گوشہ شبنم رومانی

۱۸۳
مطالعات نعت
عہد جدید کی نعت نگاری
مذاکرہ
۱۸۷
حاصل مطالعہ
حنیف اسعدی
۱۹۷
’’اوج‘‘ نعت نمبر
حفیظ تائب
۲۰۵
نعت رنگ ایک جائزہ
شفیق الدین شارق
۲۰۷
ماہنامہ نعت کی آٹھویں سالگرہ
حفیظ تائب
۲۱۳
فکر و فن
ہشام علی حافظ کی نعتیہ شاعری
سیدمحمد ابوالخیر کشفی
۲۱۷
نذیر قیصر ۔۔ایک قابل قدر مسیحی نعت گو
محمد اقبال جاوید
۲۲۳
مدحت
صبااکبر آبادی، تابش دہلوی، نیر مدنی ، حنیف اسعدی، نعیم تقوی، عاصی کرنالی، سحرانصاری، جاذب قریشی، راجا رشیدمحمود، بشیر حسین ناظم، ریاض حسین چودھری، انورشعور، احسان کاکوروی، حسن اختر جلیل ، سعید بدر، سید بوالحسنات حقی، سیدنعیم حامدعلی ، ابرار کرتپوری، مصور لکھنوی، شفیق الدین شارق، عزیز احسن، سیدآل احمدرضوی، لیاقت علی عاصم، کوثر علی، وضاحت نسیم، نفیس القادری، قمر عباس قمر، معراج حسن عامر، شاہنواز مرزانواز، صبیح رحمانی، محمد یعقوب غزنوی۔
منظو م تراجم
نقش ہے وجدان پر میرے
ڈاکٹر سیدابوالخیر کشفی
۲۵۳
خاکہ
محبت کی گواہی
بلقیس شاہین
۲۵۵
گوشہ ڈاکٹر سید آفتاب احمد نقوی
گوشہ آفتاب احمد نقوی
صبیح رحمانی
۲۶۲
ڈاکٹرآفتاب احمد نقوی ایک نظر میں

۲۶۳
ڈاکٹرآفتاب احمد نقوی
عطاء الحق قاسمی
۲۶۴
ایک آنسو ڈاکٹرآفتاب نقوی کی المناک حادثاتی موت پر
میرزاادیب
۲۶۷
آہ ڈاکٹرآفتاب احمد نقوی
ڈاکٹر ظہور احمد اظہر
۲۶۹
منظوم خراج عقیدت
ریاض حسین چودھری
۲۷۱
ڈاکٹرآفتاب احمد نقوی کی یاد میں
حافظ لدھیانوی
۲۷۲
ڈاکٹرآفتاب احمد نقوی کے لیے چند آہیں۔ چند آنسو
حفیظ تائب
۲۷۵
آفتاب میرا ساتھی
پروفیسر رانا اصغرعلی
۲۷۷
علم و ادب کا قتل
اخلاق عاطف
۲۸۰
تعزیت نامے خطوط
ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر طاہرالقادری، احمد ندیم قاسمی، تابش دہلوی، منیرنیازی، انتظار حسین، ڈاکٹر سلیم اختر ، شہزاد احمدلاہور ، انور سدید، پروفیسر عبدالکریم خالد، امجداسلام امجد، ڈاکٹر معین الرحمن ، ظفر اقبال، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی ، سحر انصاری، حنیف اسعدی ، ڈاکٹر مظفر عباس، ڈاکٹر تحسین فراقی، ڈاکٹر شہباز ملک، جعفربلوچ، سید مرتضیٰ زیدی، حسن رضوی، صائم چشتی، ڈاکٹر ریاض مجید، ڈاکٹر اسلم رانا، خالد شفیق، امان خان اجمل ، سیدآل احمد رضوی، رشیدوارثی، عزیز احسن، شبیر احمد قادری، قمر رحمانی ، غوث میاں۔حکیم محمد سعید ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی، راغب مرادآبادی ، شاہ مصباح الدین شکیل، مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی، شبنم رومانی، مشفق خواجہ ، حفیظ تائب ، مظفر وارثی، ریاض حسین چودھری عرش ہاشمی ، مجید فکری ، شاہنواز مرزا۔
ڈاکٹر شہزاد احمد نے نعت رنگ کے پچیس شماروں کی ایک فہرست بھی مرتب کی ہے جس میں شمارہ نمبر اور اس کی اشاعت کا سال درج کیا گیا ہے۔فہرست درج ذیل ہے:
1۔"نعت رنگ''،کراچی ،تنقید ، اپریل 1995، صفحات :332
اجمال، تحقیق نعت، تنقیدنعت اورفکر وفن
2۔"نعت رنگ''،کراچی،دسمبر، 1995، صفحات :320
دھنک ، مقالات، حریم حرف، مطالعات نعت ، فکروفن ، مدحت، منظوم وتراجم، خاکہ، گوشہ ڈاکٹر سیدآفتاب احمد نقوی ، تعزیت نامے اور خطوط
3۔"نعت رنگ''،کراچی،ستمبر ، 1996، صفحات: 360
دھنک ، مقالات، فیچر، فکروفن ،مطالعات نعت، حریم حرف، خاکہ، منظوم تراجم، مدحت، ہائیکو اور خطوط
4۔"نعت رنگ''،کراچی،دسمبر، 1997،صفحات: 352
دھنک ، تمجید ،مقالات، حریم حرف ،مضامین، منظوم تراجم، فکروفن ، مدحت ، خاکہ مطالعات نعت ، سموم وصبا(خطوط)اور اشاریہ نعت رنگ
5۔"نعت رنگ''،کراچی، دسمبر 1998، صفحات: 348
دھنک، تمجید، مقالات، علاقائی زبانیں اور نعت :تجزیاتی مطالعہ ، فکروفن ، مدحت،مطالعات نعت اور خطوط
6۔"نعت رنگ''،کراچی،ستمبر، 1998، 448
دھنک ،تمجید، مقالات و مضامین ،حریم حرف، تجزیاتی مطالعہ، فکرو فن، خصوصی مطالعہ، مطالعات حمد و نعت، بازیافت ، مدحت، منظوم تراجم اور خطوط
7۔"نعت رنگ''،کراچی،(حمدنمبر) اگست 1999، 288
دھنک، مقالات ومضامین ، حمدیہ نظمیں، فکروفن ، تجزیاتی مطالعہ، حمدیں اورمطالعہ کتب
8۔"نعت رنگ''،کراچی،ستمبر 1999، صفحات: 272
دھنک ، مقالات و مضامین ، فکروفن ، علاقائی زبانوں میں نعت، خصوصی مطالعہ ، تذکرہ نگاری، مدحت ، شخصیت ، مطالعات نعت اور خطوط
9۔"نعت رنگ''،کراچی،مارچ ، 2000، 256
دھنک ، مقالات ومضامین حریم حرف ، فکروفن، مطالعات نعت، یادنگاری، خصوصی مطالعہ ، نعتیں اور خطوط
10۔"نعت رنگ''،کراچی،اپریل ،2000، صفحات:256
دھنک ، مقالات ومضامین ، منظوم تراجم، مطالعات نعت، فکروفن اور نعتیں
11۔"نعت رنگ''،کراچی،مارچ : 2001،صفحات 416
دھنک، مقالات ومضامین ، شخصیت وفن ، تجزیاتی مطالعہ، بازیافت، مطالعات نعت، نعتیں ، خطوط اور انتظاریہ
12۔"نعت رنگ''،کراچی،اکتوبر ، 2001، صفحات: 340
دھنک ، مقالات ومضامین ، منظوم تراجم، مطالعہ نعت، مدحت ، گوشہ غالب ، تضمین بر اشعار غالب، غالب کی فارسی نعت کے منظوم تراجم، غالب کی زمینوں میں اور خطوط
13۔"نعت رنگ''،کراچی،دسمبر، 2002،صفحات: 320
دھنک، مقالات ومضامین، نعتیں اور خطوط
14۔"نعت رنگ''،کراچی،دسمبر، 2002،صفحات:332
دھنک، مقالات ومضامین، نوادر، فکروفن ،مطالعات نعت اور مدحت
15۔"نعت رنگ''،کراچی،مئی ،2003،صفحات:498
دھنک ،مقالات ومضامین ، فکروفن ، مدحت ، مطالعات نعت اور سموم و صبا
16۔"نعت رنگ''،کراچی،فروری، 2004،صفحات:432
دھنک، مقالات ومضامین، مطالعات نعت، فکروفن ،مدحت اور خطوط
17۔"نعت رنگ''،کراچی،نومبر،2004،صفحات:512
دھنک ، مقالات ومضامین ، فکروفن، گوشہ حفیظ تائب ، مذاکرہ ، مدحت اور خطوط
18۔"نعت رنگ''،کراچی،(امام احمدرضا نمبر)،دسمبر،2005،صفحات:804
دھنک ، فکروفن ، مضامین برکلام رضا، خصوصی مطالعہ ، رنگ رضا، کلام رضا کے تحقیقی زاویے، مذاکرہ اور خطوط
19۔"نعت رنگ''،کراچی،دسمبر2006،صفحات:624
دھنک ، تنقید ، مقالات ، تحقیقی مقالات ، فکروفن ، تذکرے، مطالعات نعت ،مدحتیں اور خطوط
20۔"نعت رنگ''،کراچی،اگست،2008،صفحات:592
دھنک، تحقیقی مقالات، فکروفن ، گوشہ آفتاب کریمی، مطالعات نعت ،مذاکرہ، مدحتیں اور خطوط
21۔"نعت رنگ''،کراچی،دسمبر،2009،صفحات:704
دھنک، مقالات ومضامین، نعت شناسی، فکروفن ، مطالعات نعت، مدحتیں اور خطوط
22۔"نعت رنگ''،کراچی،ستمبر، 2011،صفحات:560
دھنک تمجید ،مقالات فکروفن ،نعت شناسی، مطالعات نعت ، مدحتیں اور خطوط
23۔"نعت رنگ''،کراچی،اگست،2012،صفحات:640
دھنک ، تمجید ،مقالات فکروفن، مطالعات ، نعت شناسی ، خصوصی گوشہ ، یاد نگاری، مدحتیں اور خطوط
24۔"نعت رنگ''،کراچی،جولائی، 2014،صفحات:560
دھنک ، تمجید، مقالات فکروفن، خصوصی مطالعہ، مطالعات نعت، مدحت اور خطوط
25۔"نعت رنگ''،کراچی،(سلورجوبلی نمبر)جولائی،2015،صفحات :950
دھنک ، باب تمجید، مقالات ، حریم عقیدت ، فکروفن مطالعات نعت ، ایوانِ مدحت اور نعت نا مے
نعت ریسرچ سینٹر کی مطبوعات
آخر میں نعت ریسرچ سنٹر کے زیر اہتمام شایع ہونے والی کتب کی فہرست ہے جس میں اکتالیس کتب شامل ہیں ان میں تنقید کی تعداد چودہ، شعری مجموعہ کی تعداد 9 ، میلادنامہ ایک، مضامین کی تعداد ایک، کتابیات کی تعداد ایک، کلیات نعت ایک، انگریزی مجموعہ ، انگریزی ترجمہ، بیس شمارے، مجموعہ حدیث ، اقبالیات ، تحقیقی مقالہ، مجموعہ مکاتیب اور سیرت کی ایک ایک کتاب شامل کی گئی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...