Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ) |
حسنِ ادب
ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ)

ڈاکٹر شہزاد احمدکی تدوین نگاری
ARI Id

1689952632807_56116841

Access

Open/Free Access

Pages

93

ڈاکٹر شہزاد احمد کی تدوین نگاری
تخلیق اور تدوین کا رشتہ ازلی اور ابدی ہے۔تخلیق کی افادیت سے اسی وقت بہرہ مند ہواجا سکتا ہے جب وہ منظر عام پر آجائے ۔ تدوین کار ہی ایک ایسا شخص ہوتا ہے جو تخلیق کو ماضی کے گم گشتہ اوراق سے حال کے اُجالوں میں لے آتا ہے۔ یوں لوگ اس فن پارے کی قدرومنزلت ، فکری علویت اور فنی معراج سے حظ اُٹھانے کے لیے تدوین کار کے مرہونِ منت ہوتے ہیں۔اگر تدوین کا عمل معطل کردیا جائے تو کچھ عرصے بعد ادبی تاریخ بھی تعطل کا شکار ہو جائے گی اور نئی نسل کے لیے اس خلا کو پُرکرنا مشکل ہو جائے گا۔نعتیہ ادب کی روایت کے شعبہ تدوین میں ڈاکٹر شہزاد احمد کانام ایک درخشندہ ستارے کی طرح تابناک نظر آتا ہے۔ اُنھوں نے نعتیہ ادب کے چند بڑے ناموں کے کلیات مرتب کرکے نعتیہ روایت کو جس طرح تقویت فراہم کی ہے وہ یقینا ایک کارنامہ سرانجام دینے سے کم نہیں۔ ’’کلیات ریاض سہروردی، کلیات شاہ انصار الٰہ آبادی، ارمغانِ ریاض سہروردی، خوشبوئے ادیب، مقصودِ کائنات ، قصیدہ رسولِ تہامی، حرف حرف خوشبو، نزول، ساقی کوثر ، جشنِ آمد رسولؐ ، کلیاتِ عزیزالدین خاکی اور کلیات صبیح رحمانی‘‘اُن کے نمائندہ کاموں میں سے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔
کلیات ریاض سہروردی
علامہ ریاض سہروردی کو اللہ رب العزت نے بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے۔ کوئی بھی شخص ہو جب وہ اپنے آپ کو اللہ اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ثنا کے لیے وقف کردیتا ہے تو اللہ پاک بھی ایسے بندے کو خا ص لوگوں میں شمار کرلیتا ہے۔ انھیں میں سے ایک حضرت ریاض سہروردی ہیں جو بیک وقت نعت خواں، نعت گو، عالم دین صوفی مشرب، مریدو خدمت گزار، معلم ومدرس، مولف کتب، بانیِ تنظیم اور پیر طریقت کے مناصب پر بھی فائز ہیں۔ شہزاداحمد آپ کی تاریخ پیدائش ، تعلیم، جوانی اور بڑھاپے اور علمی وادبی ہر طرح کی خدمات سے واقف ہیں اس سلسلے میں شہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’ پیدائشی نام سیدمحمدریاض الدین اور ریاض تخلص ہے۔ ابتدائی پہچان ریاض امرتسری اور ازاں بعد ریاض سہروردی زندگی بھر قائم رہی۔ رجب المرجب ۱۳۳۷ھ بمطابق ۴،اپریل ۱۹۱۹ء کو جے پور(بھارت) میں پیدا ہوئے۔(۱)
ریاض سہروردی نے بھارت سے ہجرت کرنے کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی جامع مسجد حنفیہ غوثیہ احمد دین میں بہت سال امامت کے فرائض سرانجام دیئے اور انجمن ’’مرکزی جمعیت حسان ‘‘ کی بنیاد بھی رکھی اور ۱۹۵۵ء کو پیرومرشد کے حکم سے کراچی میں سکونت اختیار کرلی۔۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن عندلیبان ریاض رسول ،کراچی پاکستان کی بنیاد رکھی جس کی ملک بھر میں ۲۴ شاخیں قائم ہوئیں۔‘‘(۲)
آپ ایک عظیم شخصیت کے حامل ہیں جنھوں نے سب سے پہلے ۱۰،اکتوبر ۱۹۸۰ء کونعت کالج کی بنیاد رکھی اور نوجوان طبقے کو اس طرح متوجہ بھی کیا اور ساتھ ساتھ ان کی راہنمائی بھی کرتے رہے ۔ اس کالج میں پیر اور جمعرات کو عصرتا مغرب باقاعدہ کلاسز ہوتی ہیں۔ اس بارے میں شہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’دارالعلوم سہروردیہ کراچی کی بنیاد نومبر ۱۹۶۸ء میں رکھی گئی۔ پھر نومبر ۱۹۸۶ء میں نام میں اضافہ کے سبب جامعہ سہروردیہ ریاض العلوم (ٹرسٹ) رکھا گیا۔‘‘(۳)
کلیات ریاض سہروردی شہزاد احمد کے بہتر ین اور عمدہ کلیات میںسے ایک ہے۔ اس کلیات میںجو مجموعے شامل ہیںاُن کے نام درج ذیل ہیں: ’’ کتب ریاض رسول(حصہ اوّل)، ریاض رسول (حصہ دوم) ، دیوان ریاض، ریاض رسول (حصہ سوم)، گلدستۂ نعت (اوّل)،گلدستۂ نعت (دوم)، گلدستۂ نعت(سوم) اور باقیات ریاض سہروردی۔ ‘‘ان کے علاوہ آخر میں ایک مجموعہ "Eulogizing The Prophet(PBUH)''کے نام سے انگریزی نظموں کا ہے۔
اس کلیات میںڈاکٹر شہزاد احمد نے بڑی کاوشوں کے ساتھ ریاض سہروردی کی نعت، ان کی علمی خدمات اور حالات زندگی کی ابتدا تا آخر تمام امور کو کامیابی سے یکجا کیا ہے۔ یہ کلیات دسمبر ۲۰۱۳ء میں انجمن عندلیبانِ ریاض رسول، کراچی کے زیراہتمام شایع ہوا ۔ یہ ۱۱۵۴صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر شہزاد احمد تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کلیاتِ ریاض سہروردی ، حضرت مولانا سید محمد ریاض الدین سہروردی کے مطبوعہ وغیر مطبوعہ نعتیہ کلام پر مشتمل ہے جسے راقم الحروف شہزاد احمد نے مرتب کیا ہے۔ اس کلیات میں ریاض سہروردی کے نو مجموعہ ہائے کلام شامل ہیں۔ چھوٹے بیٹے علامہ قاری سید محمد اعجاز الدین سہروردی کی نگرانی اور سر پرستی میں یہ کام مکمل ہوا۔ اس کے علاوہ راقم نے آئنہ ریاض سہروردی، ارمغانِ ریاض سہروردی اور حسنِ انتخاب بھی ترتیب دیا ہے۔ کلیات پر لکھنے والوں میں ڈاکٹر شہزاد احمد ، صبیح رحمانی، ڈاکٹر عزیز احسن، ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، عظیم ایم میاں، بدیع الدین سہروردی ، فصیح الدین سہروردی، اعجاز الدین سہروردی اور نجم الدین سہروردی شامل ہیں۔ ‘‘(۴)
حضرت ریاض سہروردی نے اپنی زندگی کے ساٹھ سال نعتیہ خدمات میں گزارے ہیں ۔ آپ کا سب سے پہلا نعتیہ کلام ’’ریاضِ رسولؐ ‘‘ کے نام سے شایع ہوا ہے۔ اس سلسلے میں شہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’ریاض رسولؐ حصہ اوّل کی نعتیں ابتدائی رنگ کلام سے عبارت ہیں۔ جس میں مولانا ریاض امرتسری نے مختلف عنوانات کے تحت نعتیں کہی ہیں۔‘‘ (۵)
پہلی نعت کا عنوان’’ جھولنا‘‘ ہے جس میں جھولنا کی شان وعظمت بیان کی گئی ہے۔ اسی میں پھر ولادتِ پاک کا ذکر ہے۔ ملائکہ کے درودوسلام کابیان بھی ہے۔ امت کی ناتوانی کو بھی موضوع سخن بنایا گیا ہے حضرت ریاض سہروردی کا ابتدائی نعتیہ کلام تمام تر کیفیات کا آئنہ دار ہے۔
ریاض رسولؐ (حصہ دوم) مولانا سیدمحمدریاض الدین سہروردی کا دوسرا نعتیہ مجموعہ کلام ہے۔ اس کے ناشر انجمن سہروردیہ ،کراچی ہیں۔ اس سلسلے میں شہزاد احمد رقم طراز ہیں۔
’’حضرت ریاض سہروردی کا یہ مجموعہ کلام ریاض رسولؐ حصہ دوم پاکستان میں شایع ہونے والااور ترتیب کے لحاظ سے دوسرا مجموعہ کلام ہے۔ ریاض رسول کا حصہ اوّل قیام پاکستان سے پہلے شایع ہوچکا تھا۔‘‘(۶)
ریاض رسول ؐ(حصہ دوم) کا کلام آغاز سلام بحضور خیرالانام صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے ہواہے ، یہ ۲۲۸صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں زیادہ تر نعتیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قصیدہ بہاریہ، قصیدہ معراجیہ، پنجابی نعتیہ کلام اور سلام ومناقب بھی اس مجموعہ میںموجود ہیں۔ ریاض رسول حصہ سوم (۱۹۸۶ئ)مولانا سیدمحمد ریاض الدین سہروردی کے نعتیہ کلام پر مشتمل ہے اس سلسلے میں ڈاکٹر شہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’ریاض رسول (حصہ سوم)کا انتساب سرورکائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی بارگاہ سے منسوب ہے۔‘‘(۷)
کلام ریاض ‘‘ جو ۲۰۰۶ء میں شایع ہوا تھا اس کی ترتیب وتدوین سمیع اللہ برکت نے کی ہے اس کا دوسرا ایڈیشن ۲۱مئی ۲۰۱۲ء کو مرتب کیا گیا ہے ’’آئنہ ریاض سہروردی‘‘ حضرت علامہ مولانا سید محمد ریاض الدین سہروردی کی نعتیں ، دینی وعلمی خدمات پر مشتمل ایک تعارف نامہ ہے جسے شہزاد احمد نے تحقیقی انداز میں مرتب کیا ہے۔ کلیات ریاض سہروردی کے لیے لکھا جانے والا یہ مقالہ آئنۂ ریاض سہروردی کے نام سے علیحدہ بھی کتابی صورت میں شایع کیا گیا ہے۔
’’حسنِ انتخاب‘‘ خانوادۂ ریاض سہروردی کا مختصر نعتیہ انتخاب ہے جس میں اس خانوادے کے چھ شعرا کا اجمالی تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔ شہزاداحمد نے اسے بھی مرتب کیا ہے۔ یہ ’’حسنِ انتخاب‘‘ہمیشہ یادگار رہے گاکیوں کہ کم صفحات میں زیادہ نعتیں شامل کی گئی ہیں ۔ ’’حسنِ انتخاب‘‘ ۱۲،اکتوبر ۲۰۱۳ء حضرت ریاض سہروردی کے سالانہ عرس کے موقع پر شایع کیا گیا۔ اس کے ناشر بھی مرکزی انجمن عندلیبانِ ریاض رسولؐ ،کراچی پاکستان ہیں۔ ارمغان ریاض سہروردی ۲۰۱۳ میں مرتب کیا گیا۔ اس سلسلے میں شہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’کلیات ریاض سہروردی کی طباعت میں سب سے پہلے آستانہ عالیہ سہروردیہ جامع بغدادی مسجد ٹرسٹ سے منسلک سہروردی حضرات متحرک ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ دیگر شخصیات منسلک ہوتی چلی گئیں۔‘‘(۸)
علامہ طاہرالقادری ،حضرت سہروردی کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’انجمن عندلیبانِ ریاض رسولؐ‘‘ نے حضرت علامہ سیدمحمد ریاض الدین سہروردی کی نگرانی میں دنیا بھر میں نعت خوانی کے لیے جو بھی کام کیا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ‘‘(۹)
کلیات ِریاض سہروردی کی تدوین کے حوالے سے شہزاد احمد کی خدمات بے حد اہمیت کی حامل ہیں کیوں کہ اس منفرد موضوع پر شہزاد احمد کی برسوں کی محنت نعت کے طلبہ کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔ آپ نے کمال محنت اور اپنی بے پناہ قابلیت سے تمام مسائل کو حل کیا اور کلیات کی ترتیب پہلے شایع ہونے والی کتابوں کے بالکل مطابق کر دی۔شہزاداحمد کی نعت سے بہت زیادہ وابستگی ہے اوران کے علمی وفکری کارنامے بہت زیادہ ہیں۔ نعت سے محبت اور نعت گو شعرا سے عقیدت کے تحت اُنھوں نے سہروردی صاحب کے کلیات کو مرتب کیا۔حضرت سہروردی کا انتقال ۲۸فروری ۲۰۰۱ء بمطابق ۴ ذی الحج ۱۴۲۱ھ میں ہوا ہے۔
کلیات ریاض سہروردی کے دوسرے حصے ریاض رسول (حصہ اوّل)میں ۳۳ نعتیں شامل ہیں جن میں شاعر نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے شفاعت کی اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ اُن کی داخلی وارفتگی عروج پر ہے۔یہی نہیں اُنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے فضائل کو بھی اپنی نعتوں میں سمویا ہے۔ مثال میں یہ اشعار دیکھیے:
محمد حشر میں جب نور کے دامن سے نکلیں گے
خوشی سے جھومتے سب امتی جوبن سے نکلیں گے(۱۰)

محمد مصطفیؐ کو سید ابرار کہتے ہیں
شہ ہر دو جہاں، کونین کا مختار کہتے ہیں(۱۱)
ریاض رسول(حصہ دوم) انجمن سہروردیہ ، کراچی نے شایع کیا۔ اس میں شامل (تین سلام ) مصطفی عبدِقادر پہ لاکھوں سلام، مصطفی جان ایماں سلام علیک ، مصطفی نورِ وحدت پہ لاکھوں سلام۔ نعتیہ کلام کی تعداد ۱۵۰ہے جس میں قصیدہ بہاریہ بہ ہیئت مخمس اور قصیدہ معراجیہ بہ ہیئت مسدس بھی شامل ہیں۔ قصیدہ فارسی میں نعتیہ کلام گیارہ پنجابی نعتیہ کلام کی تعداد گیارہ اور مناقبوںکی تعدا د ۴۳ ہے جو حضرت امام حسین وآئمہ اہل بیت ، حضرت امام علی ابن زین العابدین ، حضرت امام جعفر صادق، حضرت ابوبکر صدیقؓ ،حضور غوث پاک کی مدح میں ہیں ۔ اس کے علاوہ غزلیات کی تعداد پندرہ ہے۔ اُنھوں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے والہانہ اظہار عقیدت کیا ہے۔حسرت و ارماں میں ڈوبے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اے کاش ان کے عشق میں جینا نصیب ہو
جب موت کا ہو وقت مدینہ نصیب ہو
ہو جائوں پار بحرِ حوادث سے اے ریاضؔ!
گر اُن کی محبت کا سفینہ نصیب ہو(۱۲)
ڈاکٹرشہزاد احمد نے ریاض سہروردی کے فارسی نعتیہ کلام کو بھی مرتب کیا ہے۔اُن کا فارسی نعتیہ کلام فدائیت کے جذبے سے سرشار ہے۔اس کلام کی روانی دیکھ کر علامہ موصوف کی فارسی دانی کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر شہزاداحمد نے جس دقت نظری سے اُن کے فارسی کلام کو صحت کے ساتھ مدون کیا ہے، وہ قابلِ داد ہے۔ریاض سہروردی کے چند فارسی اشعار نمونے کے طور پر ملاحظہ فرمائیں:
لطف فرمودی اے جاناں سوئے بیمار آمدی
چہ قدر احسان کردی بہر تیمار آمدی
ظلمتان ہجر شد از پرتو تو کالعدم
مثلِ خورشید درخشاں در شب تار آمدی
می شود مسرور در عشقت ز نالیدن ریاضؔ
کردہ ای لطف فراواں در دل زار آمدی(۱۳)
کلیات حضرت ریاض سہروردی میں شامل ایک مجموعے کا نام’’ دیوانِ ریاض‘‘ ہے جو رومی پبلشنگ ہائوس ،کراچی نے شایع کیا ہے۔اس کا دیباچہ حضرت مولانا سید محمد فاروق احمد نے لکھا ہے۔ اس مجموعے میںدو حمدیں ، ۳۵۱ نعتیں اور چند مناقب شامل ہیں۔ اُن کے ممدوحین میں مخدوم شہاب الدین پیا، قصیدۂ سہروردیہ، منقبت حضرت حسنین کریمینؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ ،حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ ، خواجہ غریب نواز اجمیریؒ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ، حضرت خواجہ فریدالدینؒ شکر گنج اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاںکے نام نمایاں ہیں۔
ہیں حضور مظہر ذات حق یہ بڑے کمال کی بات ہے
وہ بھی نور ہے، یہ بھی نور ہے یہ عجب جمال کی بات ہے
وہ اذاں مدینہ سے جو چلی وہی عرش پر بھی سنی گئی
نہیں ذکر یہ کسی اور کا یہ فقط بلالؓ کی بات ہے(۱۴)
کلیات ریاض سہروردی میں شامل کتاب ریاض رسول (حصہ سوم) جس کی اشاعت مارچ ۱۹۸۶ء میں رومی پبلشنگ ہائوس، کراچی کے تحت ہوئی ۔ اس کتاب کے مشمولات میں نعتیہ کلام کی تعداد ۹۶ہے جو ریاض سہروردی کی عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے:
نعتیہ کلام کے چند اشعار دیکھیے:
ان کی نسبت ملی اور کیا چاہیے
بن گئے امتی اور کیا چاہیے
ان پر ایمان لانے کے باعث ہوئی
قبر میں روشنی اور کیا چاہیے(۱۵)
کلیات میں شامل گلدستہ نعت (اوّل) جس کو تنظیم سہروردیہ قلندریہ نے شایع کیا ہے اس گلدستۂ نعت میں ایک حمد باری تعالیٰ اور ۳۲ نعتیہ کلام شامل ہیں۔ حمد باری تعالیٰ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
کوئی نہیں نظیر تری رب ذوالجلال
ہے ہر تری تخلیق سے ظاہر ترا کمال

تو نے جنا کسی کو نہ تو خود جنا گیا
ہر شے کو ہے زوال مگر تو ہے لازوال(۱۶)
گلدستۂ نعت (دوم) میں شامل ایک حمد باری تعالیٰ ، بائیس نعتیہ کلام اور ایک سلام پر مشتمل ہے۔ نعت کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
ذکر رسول دہر میں پائندہ رہے گا
نام ان کا ہی تابندہ سے تابندہ رہے گا
مر جائے گا جو عشقِ رسالت مآب میں
مر کر بھی روزِ حشر تک وہ زندہ رہے گا(۱۷)
گلدستہ نعت (سوم) میں چھ حمد باری تعالیٰ اور ۱۲۲ نعتیہ کلام شامل ہیں۔اس کے بعد’’باقیات ریاض سہروردی‘‘کے نام سے اُن کا غیر مطبوعہ کلام شامل اشاعت کیا گیا ہے۔اس کو مرکزی انجمن عندلیبانِ ریاض رسولؐ نے شایع کیا ہے۔ اس میں حمد ، نعتیہ کلام ، مناجات ، نظم ، دعائیہ قطعہ اور عربی کلام شامل ہے۔ اس کے علاوہ کلیات حضرت ریاض سہرورد ی میں حسنِ انتخاب کو بھی شامل کیا گیا ہے جس کو شہزاد احمد نے بڑی لگن اورمحنت کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ حسن انتخاب میں حضرت ریاض سہروردی کے والد ،برادران اورآ پ کی اولاد کے بارے میں اور ان کی علمی وادبی خدمات کاذکر کیا گیا ہے اور اس میں حمد باری تعالیٰ اور نعتیہ کلام بھی شامل ہے۔
علامہ ریاض سہروردی کے ہاں انگریزی کلام بھی دستیاب ہے جو ایک حمد اور ۲۵ نعتوں پر محیط ہے۔ ان میں پانچ نعتیں وہ بھی ہیں جو پہلے کہیں شایع نہیں ہوئیں۔ اس مجموعے کے دیباچے میں اُنھوں نے کلام میں کسی بھی قسم کے لسانی نقص کے بارے میں پیشگی معذرت کی ہے،یہ امر محض ان کی کسرنفسی کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ انگریزی زبان کے اسرارو رموز سے کماحقہ ٗ واقفیت رکھتے تھے۔ وہ نعت کے ساتھ اپنی وابستگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''As for me, I consider myself as one of those fortunate ones who have been blessed with the ability to capture in words, some semblance of that great mystical vibration that is resonated in one by love Muhammad(peace be upon him)."
اُنھوں نے اپنی انگریزی نظموں میں انگریزی زبان میں مستعمل Rhyme Scheme کے علاوہ اُردو شاعری کی ہیئتوں کے بھی کامیاب تجربے کیے ہیں۔مثنوی کی طرز پر کہے گئے چند اشعار ملاحظہ ہوں:
''Muhammad,to Muslims God has gifted,
Blessed He, to himself obedience did.
Muhammad's love is the light of religion,
Brightens soul like the moon and the sun.(18)
اس کے علاوہ علامہ ریاض سہروردی نے انگریزی نعت کے لیے غزلیہ ہیئت اختیار کی ہے۔ اُن کے ہاں ایک نعت میں Deed، Leadاور Feed کے قوافی رسول عربی کی ردیف کے ساتھ اپنی بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔ اُن کی انگریزی نعتیہ غزل کے دو شعر ملاحظہ ہوں:
I am needy, you are my need Rasool-e-Arabi
I have done no good deed Rasool-e-Arabi
He will be obedient, who did obey you.
Definitely he will succeed Rasool-e-Arabi(19)
ان کی انگریزی نظموں کے مصرعے طوالت کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں ایک مصرعہ چار سطروں کا ہے تو دوسرا دو سطروں پر اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ اس بارے میں شاعر اور مدون دونوں نے دیباچے میں کوئی وضاحت نہیں دی۔مختصر یہ ہے کہ کلیات ریاض سہروردی کی اشاعت نعتیہ ادب کے سرمائے میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔
کلیات شاہ انصار الٰہ آبادی
شاہ انصار حسین پیدائشی نام ،انصار تخلص اور ادبی شناخت شاہ انصار الٰہ آبادی ہے۔ درگاہِ سید صاحب الٰہ آباد (یوپی) انڈیا میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا سالِ ولادت ۲۹،ربیع الثانی ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۵ مارچ ۱۹۱۵ء بروزجمعۃ المبارک ہے۔
تقسیم کے بعد دسمبر ۱۹۴۷ء میں کراچی آ گئے۔ ۹۵برس کی عمر میں ۸ذی الحجہ ۱۴۲۸ھ مطابق ۱۸دسمبر ۲۰۰۷ء کو خواب اجل سے دوچار ہو کر اس جہانِ فانی سے عالم جاودانی کی سمت روانہ ہوئے۔ ساری زندگی مسلک اہلسنت والجماعت کی عملی خدمت انجام دی۔ نعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی تحریک سے عوام وخواص بالخصوص نوجوانوں کی تربیت سازی کا فریضہ احسن طور پر انجام دیا۔ آپ کا مقصد حیات نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے فروغ سے عبارت ہے۔ڈاکٹر شہزاد احمد اس کلیات کی تدوین کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کلیات شاہ انصار الٰہ آبادی کے مرتب پیرزادہ سید خالد حسن رضوی امروہوی ہیں۔یہ کلیات حضرت شاہ انصار حسین رحمانی الٰہ آباد ی کے کلام پر مشتمل ہے۔ اس کلیات کا راقم الحروف مرتب ثانی ہے اس کی نظر ثانی اور مقدمہ لکھنے کی سعادت بھی مجھے میسر ہے۔ کتاب کے مرتب سید خالد رضوی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے شاہ انصار الہٰ آبادی کے منتشر کلام کو یکجا کیا۔ شاہ انصار الٰہ آباد ی نے ساری زندگی نعت اور مناقب کے فروغ میں بسر کی۔آپ کے شاگردوں کا کثیر حلقہ بھی شعبۂ نعت سے وابستہ ہے۔ اس کلیات پر بے شمار حضرات نے لکھا ہے۔ لکھنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ چند نام بھی نہیں دیے جا سکتے۔ صبیح رحمانی کی تحریک پر یہ کام میرے حصے میں آیا۔ ‘‘(۲۰)
’’کلیات شاہ انصار الٰہ آبادی ‘‘حضرت شاہ انصار حسین رحمانی الٰہ آبادی کی حمدونعت پر مشتمل ہے جس کو مرتب کرنے کا شرف پیرزادہ سیدخالدحسن رضوی امروہوی کو حاصل ہے کتاب مکمل مرتب ہونے کے بعد دوبارہ اس کو شہزاداحمد کی نگرانی میں ’’مقدمہ ‘‘ کے ساتھ ترتیب دیا گیا۔ جون ۲۰۱۴ء میں ادبستان انصار ، ۸۔اے بلاک اے نارتھ ناظم آباد کراچی نے اس کی حسین طباعت کا اہتمام کیا ہے۔ ۱۰۴۰ صفحات پر محیط اس کلیات کاہدیہ صرف دعائے صحت برائے نزہت نسیم رضوی زوجہ پیرزادہ سیدخالد حسن رضوی امروہوی و اہل خانہ ہیں۔
’’کلیات شاہ انصار الٰہ آبادی ‘‘ میں آپ کی نعتیہ شاعری کا مکمل کلام شامل ہے۔ تحفہ نظامی، ھل اتیٰ، سبحان اللہ الذی اسریٰ، صلوٰۃ وسلام ، اشک متبسم، آفتاب چشت، سراج السالکین ، مرقع غوثیہ، مرقع محبوبیت، فردِ فرید، صبغت اللہ ، کلامِ لاکلام، الحمداللہ الذی، مدینۃ العلم، مظہر العلوم (اوّل ودوم)اور فیض العظیم (غیرمطبوعہ)بھی اب مطبوعہ ہے۔ اس طرح سے آپ کے ۱۶مجموعہ ہائے کلام اس کلیات کی زینت ہیں۔
’’کلیات شاہ انصار الٰہ آبادی ‘‘ پر لکھنے والوں میں پروفیسر منظر ایوبی، پروفیسر سحرانصاری ، خواجہ رضی حیدر، علامہ عباس کمیلی ، مولانا محمد اصغر درس ، سیدصبیح الدین صبیح رحمانی ، جاوید وارثی، عقیل احمد عباسی، ڈاکٹر شہزاداحمد، پیرزادہ خالد حسن رضوی امروہوی، پروفیسر حسن اکبرکمال ، ڈاکٹر اخترہاشمی، ڈاکٹر عزیز احسن، حیات رضوی امروہوی، طاہر سلطانی، علامہ سیدشاہ تراب الحق قادری، علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی ، ابرار احمد رحمانی، الحاج شمیم الدین، حاجی حنیف طیب ، محسن اعظم ملیح آبادی، پروفیسر خیال آفاقی ، سیدناظر حسین رضوی، سیدآباد میاں چشتی، خورشیدحسن رضوی، ڈاکٹر اشرف اشرفی الجیلانی، نفیس القادری ،حافظ محمد مستقیم ، شاہد حسن القادری، عزیز لطیفی، عمران القادری اور یاسرحسن رضوی امروہوی شامل ہیں۔
’’کلیات شاہ انصار الٰہ آبادی ‘‘ کا سب سے پہلا مجموعہ ٔمناقب تحفہ نظامی ہے۔ اس کی پہلی حمد رب ذوالجلال ملاحظہ کیجیے:
اے خدائے جلیل روحِ جمال
تیرے ذرّے بھی آفتاب اجلال

دونوں عالم کی جان بن جائے
جو بھی ہو تیری راہ میں پائمال
کلیات صبیح رحمانی
ڈاکٹر شہزاد احمد کی تدوین کردہ کتب میں’’کلیات صبیح رحمانی‘‘ اہمیت سے خالی نہیں ہے۔ اس میں موصوف نے معروف نعت خواں سید صبیح رحمانی کے تین نعتیہ مجموعوں کو یک جا کر کے از سر نو منظر عام پر لانے کا اہتمام کیا ہے۔ صبیح رحمانی کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ ’’نعت رنگ‘‘ کے روح و رواں ہیں اور فروغِ نعت میں اپنی گراں قدر خدمات کی بدولت حکومت پاکستان کی طرف سے تمغۂ امتیاز سے نوازے جا چکے ہیں۔ انھوں نے نعت خوانی سے نعت گوئی کا سفر بڑی خوش اسلوبی سے طے کیا ہے اور اب شعبۂ نعت ہی میںتالیفات کی طرف بھی بڑی شدومد سے مائل ہو رہے ہیں۔ ان کا نعتیہ کلام اپنے موضوعات کی تاثیر کی بدولت دلوں میں اثر ونفوذ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی نعتیں مقبولیت کی سند حاصل کر چکی ہیں ۔اُن کے کلام کی اشاعت وقت کی ضرورت ہے۔ اسی ضرورت کے پیش نظر ڈاکٹر شہزاداحمد نے اُن کے تینوں مجموعے ’’ماہِ طیبہ‘‘ ، جادۂ رحمت اور سرکار کے قدموں میں‘‘ ترتیب دیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ صبیح رحمانی کی نعتیہ شاعری اگر چہ تعداد میں کم ہے مگر معیار، شہرت اور اثر پذیری کے حوالے سے بہت زیادہ ہے۔ کلیات صبیح رحمانی کی اشاعت وقت کی ضرورت ہے اور لوگوں کی تسکین کا باعث بھی ثابت ہو گی۔‘‘(۲۱)
اس کلیات کی ضخامت ۲۸۴صفحات پر محیط ہے۔’’ ماہ طیبہ‘‘ اولین مجموعہ نعت ہے جو ۱۹۸۹ء میں شایع ہوا۔ اس میں ایک حمد ، ۳۲نعتیں، ۱۰ آزاد نظمیں ، ایک سلام اور ۱۶ مناقب شامل ہیں۔اس کے مضمون نگاروں میں ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر منظور الدین احمد، فداخالدی دہلوی، مظفر وارثی، ادیب رائے پوری، اشتیاق اظہر، اقبال قادری، محمد قمر خان رحمانی اور مرزا منیر بیگ کے نام نمایاں ہیں۔
’’جادۂ رحمت ‘‘سید صبیح رحمانی کا دوسرا مجموعہ نعت ۱۹۹۳ء میں منظر عام پر آیا ۔ ڈاکٹر شہزاد احمد اس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’جادۂ رحمت کا آغاز ایک نعتیہ قطعہ سے ہوا ہے۔ ایک آزاد حمد یہ نظم ہے۔ غزل کی ہیئت میں دو حمدیں اور دو حمدیہ ہائیکو ہیں۔ اس کے بعد ایک نعتیہ قطعہ کے بعد چوبیس نعتیں غزل کے انداز میں ہیں۔ سترہ نعتیں پابند و آزاد نظموں کی صورت میں موجود ہیں۔ آخر میں دس نعتیہ ہائیکو بھی شامل ہیں۔(۲۲)
کلیات صبیح رحمانی میں زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر شہزاد احمد سے جب یہ پوچھا گیا کہ کلام کی الف بائی ترتیب کیوں روا نہیں رکھی گئی تو انھوں نے کہا کہ’’زمانی ترتیب سے شاعر کے فکری ارتقا کا پتا چلتا ہے۔ اُس کی ذہنی پختگی اور شعر کے فنی معیار میں بہتری کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ صبیح کے کلام میں فکری ارتقا کے زاویے عمودی سفر طے کرتے واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔‘‘(۲۳)
تیسرے نمبر پر ڈاکٹر صاحب نے ’’سرکار کے قدموں میں‘‘ کا تعارف پیش کیا ہے۔ یہ مجموعہ ۲۰۰۰ء میں شایع ہوا۔ ’’جادۂ رحمت‘‘ کا انگریزی ترجمہ سارہ کاظمی نے کیا ہے جب کہ ’’سرکار کے قدموں میں‘‘ کا انگریزی ترجمہ ڈاکٹر منیر احمد مغل نے انجام دیا ہے۔ آخر میں ’’اضافہ‘‘ کے عنوان سے تازہ کلام شامل ہے جو ایک حمد، تین نعتوں ، تین مناقب پر مبنی ہے۔ کلیات میں تینوں کتابوں کے علاوہ تین نئے مضامین کا اضافہ نظر آتا ہے ، ان کے عنوانات میں’’صبیح رحمانی کی نعت کا ادبی سفر‘‘ از ڈاکٹر عزیزاحسن،’’ کلام صبیح رحمانی ۔ حدیث جاں سے حدیث جہاں تک‘‘ از پروفیسر انوار احمد زئی، ’’صبیح رحمانی کی ہمہ جہت نعتیہ خدمات‘‘ از ڈاکٹر شہزاد احمد شامل ہیں۔ موصوف نے اپنے مضمون میں سید صبیح رحمانی کی شعبہ نعت کے حوالے سے چار نمایاں جہتوں نعت خوانی، نعت گوئی ، نعت فہمی اور نعت جوئی کو اُجاگر کیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے صبیح رحمانی کی شعبہ نعت سے وابستگی ، اساتذۂ ، سخن، نعتیہ مجموعوں کا تعارف ، ادارتی سرگرمیاں، مرتب کردہ نعتیہ انتخابات، تالیفات ، نعت ریسرچ سنٹر کی مطبوعات، نعت کے حوالے پر مبنی کتب ، بیرونی ممالک کے دورے اور اعزازات کی تفصیل نہایت باریک بینی سے بیان کرکے مقدمے کا حق ادا کردیا ہے
ڈاکٹر شہزاد احمد کی خوبی یہ ہے کہ جس موضوع پر قلم اُٹھاتے ہیں اُس کی جزئیات تک بیان کردیتے ہیں۔ قاری کے سامنے پوری تصویر رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اس کے علاوہ وہ حقائق کی حتمی صورت کے قائل ہیں ۔ حقائق کی اصل کی جمع آوری اور نعتیہ ادب کی تاریخ میں قطعیت پیدا کرنے کی روش اُن کے مزاج کا حصّہ ہے۔ اُن کی تحریروں میں یہ بات اکثر دیکھی گئی ہے کہ نعت کا پہلا مقالہ کون ساتھا یا پہلا ماہ نامہ کب شایع ہوا وغیرہ۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے وہ صبیح رحمانی کے کتابی سلسلے ’’نعت رنگ‘‘ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’نعت کے اُفق پر ’نعت رنگ‘ کا سب سے پہلا شمارہ اپریل ۱۹۹۵ء میں طلوع ہوا۔’نعت رنگ‘ صبیح رحمانی کی ادارت میں شایع ہوتا ہے۔ اس کے اب تک (۲۰۱۸تک) اٹھائیس شمارے شایع ہو چکے ہیں۔ ہر شمارہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ صوری اور معنوی ہر دو حوالے سے نعت رنگ کی اہمیت اور افادیت مسلم ہے۔‘‘(۲۴)
یہی نہیں اُنھوں نے ’نعت رنگ‘ کے خصوصی شماروں ’’تنقید نمبر ۱۹۹۵ئ، حمد نمبر۱۹۹۹ئ، امام احمد رضا نمبر۲۰۰۵ء اور سلور جوبلی نمبر ۲۰۱۵ء کا بھی خصوصیت سے ذکر کیا ہے۔
’’کلیات صبیح رحمانی ‘‘ دیدہ زیب سرورق اور عمدہ پروف خوانی کے بعد شایع ہوا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد نے اس میں املا کی کوئی خاص غلطی نہیں رہنے دی۔ اُن کی محنت ہر جگہ نظرآتی ہے۔ وہ جزئیات پر بھرپور توجہ مرکوز کرتے ہیں اور باریک سے باریک باتوں کی وضاحت حواشی میں ضروری خیال کرتے ہیں مگر اس کتاب میں انھوں نے صبیح رحمانی کے تخلص کے استعمال میں ہونے والی فنی لغزش کو واضح نہیں کیا۔ صبیح رحمانی نے بعض جگہ تخلص کو اس انداز میں برتا ہے کہ صبیح کی ’ح‘ گرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے پہلے کلام صبیح کے تخلص کی درست مثال ملاحظہ ہو:
تجھ سے بخشش کا ہے تمنائی
تیرا بندہ صبیحؔ رحمانی(۲۵)
اب دو مقطعے وہ دیکھیے جن میں صبیحؔ کو بروزن ’’فعو‘‘ باندھا گیا ہے اور ’ح‘ کی ادائیگی مجروح ہوئی ہے۔
صبیحؔ اُن کا ہوں میں اک نام لیوا
سو میرا نام ہے اہل ہنر میں(۲۶)
ہم کو بھی صبیحؔ اُس درِ رحمت نے نوازا
جس در سے ہوئے صاحب دستار بہت سے(۲۷)
ڈاکٹر صاحب نے کلام صبیح کے مقطعوں سے بھلے صرف نظر کیا ہو مگر شاعر کے کلام کو نہایت خوبی سے اُجاگر کیا ہے۔ وہ داد دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’صبیح رحمانی کے ہر مختصر نعتیہ مجموعہ کلام میں سے چند نعتیں ضرور زبانِ زدِ خاص وعام ہو جاتی ہیں۔ اُن کی گونج اکثر سنائی دیتی ہے۔ بعض شعرا کے تین تین اور چار چار مجموعہ ہائے کلام سے ایک یا دو نعتیں بھی قبولیت اور مقبولیت کے مقام سے کوسوں دُور رہتی ہیں۔ ایک دو نعتیں تو کجا ایک شعر بھی نعتیہ ادب کی زینت نہیں بن پاتا۔‘‘(۲۸)
ایک طرف تحسین کے یہ جملے تقابلی اندازِ فکر کے غماز ہیں تو دوسری طرف یہ امر بھی واضح کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر شہزاد مصدقہ حقیقت سے بے خبر نہیں۔ واقعی صبیح رحمانی کا نعتیہ کلام تاثیر اور پذیرائی کے بام عروج پر ہے جسے ڈاکٹرشہزاداحمد نے بجاطور پر آشکار کیا ہے۔ موصوف نے جو اشعار معروف و مقبول کلام کے دیے ہیں اُن میں سے چند ایک ملاحظہ ہوں:
کوئی مثل مصطفی کا کبھی تھا، نہ ہے ، نہ ہو گا
کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا(۲۹)

حضور! ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے(۳۰)

محبت کا سلیقہ دے دیا وحشی قبائل کو
مٹا صدیوں کی رنجش کا اثر آہستہ آہستہ(۳۱)
کعبے کی رونق ، کعبے کا منظر اللہ اکبر، اللہ اکبر
دیکھوں تو دیکھے جائوں برابر اللہ اکبر ، اللہ اکبر(۳۲)

حاضر ہیں ترے دربار میں ہم ، اللہ کرم ، اللہ کرم
دیتی ہے صدا یہ چشم نم ، اللہ کرم ، اللہ کرم(۳۳)
مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ’’کلیات صبیح رحمانی‘‘ ڈاکٹر شہزاد احمد کی محنت شاقہ کا وہ ثمر ہے جو نعتیہ ادب میں ایک گراں مایہ اضافہ ہے جسے کلام کی مقبولیت ، تاثیر اور اہمیت کے پیش نظر تادیر یاد رکھا جائے گا۔
قصیدہ ٔرسول تہامیؐ
تدوین متن ادبی وشعری سرمائے کو محفوظ کرنے کا عمل ہے جس سے ایک طرف ادبی تاریخ درست نہج پر ترتیب پاتی ہے تو دوسری طرف شاعر کا تشخص اُجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کے ہاں نعتیہ ادب کی تدوین کا اہم سرمایہ موجود ہے۔ اس کی ایک مثال ’’قصیدہ رسولِ تہامی‘‘ کی اشاعت ہے۔ حافظ عبدالغفار حافظ کا دوسو بارہ اشعار کا نعتیہ قصیدہ ۱۹۸۸ء میں انجمن ترقی نعت ،کراچی کے زیر اہتمام ڈاکٹر شہزاد احمد نے شایع کیا۔ اس کے چھے مطلعے ہیں۔ مطلع اول ملاحظہ ہو:
آج حافظ معجزہ ، دکھلائے خامہ آپ کا
جوڑ دے حسان سے اک بار رشتہ آپ کا
حافظ عبدالغفار حافظ کا تعلق کراچی سے ہے۔ وہ انڈیا کے صوبے مدھیہ پردیش (سی پی) کے ایک شہر کھنڈوہ سے ہجرت کرکے ۱۹۵۵ء میں پاکستان آئے۔ اُن کے والد کا نام عبدالرحیم ہے اور وہ ۱۹۴۸ء میں پیدا ہوئے(۳۴)
اُن کی شعری تخلیقات میں ’’ارمغانِ حافظ‘‘ ، قصیدہ رسولِ تہامی اور بہشت تضامین شامل ہیں۔
ڈاکٹر شہزاداحمد نے بڑے خوب صورت انداز میں اسے مرتب کیا اور یہ اس قدر سراہاگیا کہ اس کہ اس کا دوسرا ایڈیشن شایع کرنا پڑا۔ یہ ایڈیشن ضیاء الدین پبلی کیشنز نے شایع کیا تھا۔

حرف حرف خوشبو
وقارصدیقی کا شمار قادرالکلام اور زودگو اساتذۂ سخن میں ہوتا ہے۔ نعت میں اُن کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ بڑے سے بڑا نعت گو اُن کی نعتیہ شاعری کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انھیں اصلاح دینے میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ محض ایک لفظ کی تبدیلی سے مصرع کو شہ کار بنادیتے تھے۔ اُن کا المیہ یہ ہے کہ اُن کا نعتیہ کلام اُن کی زندگی میں شایع نہ ہو سکا جب کہ اُن کے شاگردوں کے مجموعے متواتر شایع ہوتے رہے۔ اُن کے کلام کی تدوین کا سہرا ڈاکٹر شہزاداحمد کے سرجاتا ہے۔ انھوں نے نہایت عرق ریزی سے اُن کے نعتیہ کلام میں سے ایک مجموعہ ’’حرف حرف خوشبو‘‘ کے نام سے ترتیب دیا ہے۔ اُن کا غزل کا اثاثہ اس سے الگ ہے۔ یہ مجموعہ ۱۹۹۸ء میں فرید پبلشرز ،کراچی کے زیر اہتمام شایع ہوا۔ اس کے اصل محرکات سے پردہ اُٹھاتے ہوئے ڈاکٹر شہزاد احمد یوں بیان کرتے ہیں:
’’اس کے اصل محرک وقار صدیقی کے ہونہار غزل گو شاگرد شکیل احمد ہاشمی ہیں۔ اُن کی وساطت سے کلام کی دستیابی ممکن ہوئی اور اُن کی ذاتی دلچسپی کی بدولت یہ مجموعہ ’’حرف حرف خوشبو‘‘ نعتیہ ادب میں محفوظ ہو سکا ہے۔ ایسے سعادت آثار شاگردوں کا ملنا ایک نعمت سے کم نہیں ۔‘‘(۳۵)
وقار صدیقی اجمیری کا اصل نام محمد عبدالغنی تاج ہے۔ وہ ۱۶،اکتوبر ۱۹۲۳ء کو مولانا عبداللطیف لطیف چشتی سلیمانی کے ہاں پیدا ہوئے۔(۳۶)
تابندہ مقدر کا ستارہ نظر آئے
جب آنکھ کھلے گنبد خضرا نظر آئے
اُن آنکھوں کا ورنہ کوئی مصرف ہی نہیں ہے
سرکار تمھارا رُخِ زیبا نظر آئے
اب ایسی سحر مجھ کو وقارؔ آئے میسر
اک اک سے کہوں میں شہ بطحا نظر آئے
اس نعتیہ مجموعے کے مضامین میں ’’تعارف از سیدرفیق عزیزی‘‘ ، ’’نعت کے نئے اُفق از ڈاکٹر سیدابوالخیر کشفی ‘‘، ’’نافۂ شوق از محمد شمیم‘‘ ، دیباچۂ نکہت از مولانا حسن مثنیٰ ندوی‘‘ شامل ہیں۔ اس مجموعے میں ۹۲، اشعار کا ایک مدحیہ قصیدہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے سراپا مبارک پر مبنی ہے جسے ’’محبت کاحرم‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ یہ قصیدہ شاعر کی قادرالکلامی کی خوب صورت مثال ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
مُو بہ مُو کتنے تحفظ ہیں سیہ کاروں کو
اُن کے گیسو ہیں خطا پوش تو زلف ابر کرم
اگر ابرو سے ہے قوسین کا واضح مفہوم
خم ابرو سے شرف یافتہ محراب حرم
ایک تنویر ازل، ایک ہے تقدیر ابد
دونوں عارض ہیں تجلی کا نظام محکم(۳۷)
مذکورہ قصیدے کو ڈاکٹر صاحب نے ’’نظم ‘‘کہا ہے اور قصیدے کے اختصاص کی طرف اشارہ نہیں کیا، حالاں کہ یہ موضوع،اسلوب ، شکوہ لفظی اور ہیئت میں مکمل قصیدہ ہے۔بہر حال ڈاکٹرصاحب کی کاوشوں کی بدولت ہی وقارصدیقی اجمیری کا نعتیہ کلام اشاعت آشناہوا ہے، اس لیے انھیں جتنی داد دی جائے اتنی کم ہے۔
مقصودِ کائنات
’’مقصودِ کائنات صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم‘‘ حضرت ادیب رائے پوری کا تیسرا نعتیہ مجموعہ کلام ہے جومدحت پبلشرز ، اے 837، بلاک ایچ ، شمالی ناظم آباد ،کراچی سے ۱۹۹۸ء میں شایع ہوا۔۴۰۰صفحات کے اس نعتیہ کلیات میں ادیب رائے پوری کے دو نعتیہ شعری مجموعے ’’اس قدم کے نشاں‘‘ 1977ء اور ’’تصویر کمال محبت ‘‘ 1979ء کا بھی تمام کلام موجود ہے۔ اسے آپ کسی حد تک کلیاتِ ادیب رائے پوری بھی کہہ سکتے ہیں۔ نعتیہ شاعری کے اُفق پر چمکنے والی شخصیت ادیب رائے پوری کی نعتوں کو شہرتِ دوام نصیب ہے۔ ملک کے طول وعرض میں آپ کے نعتیہ کلام کو یکساں پذیرائی حاصل ہے۔ آپ کی وہ تمام نعتیں جو مقبول خاص و عام تھیں، اس کتاب کی زینت ہیں۔ مقصودِ کائنات کی ترتیب وتدوین کا شرف ڈاکٹر شہزاداحمد کو حاصل ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے شاعر کا پورا تعارف کروایا ہے کہ حکیم سیدیعقوب علی کے چھوٹے پسر کو ادیب رائے پوری کے نام سے شہرت حاصل تھی اُن کا پیدائشی نام سید حسین علی ہے۔ ۱۹۲۸ء میںرائے پور ایم پی بھارت میں پیدا ہوئے ۔ ۱۳،اگست ۱۹۴۷ء کی رات ہندوستان سے کراچی پہنچے اور پہلے جشنِ آزادی میں شرکت کی۔(۳۸)
’’مقصودِ کائنات‘‘ میں ادیب رائے پوری کا ۱۹۹۸ء تک کا کلام موجود ہے۔ اس کے بعد کا کلام ’’ارمغانِ ادیب‘‘ میں شایع ہوا ہے۔ اس میں اُن کی مشہور نعتوں کا انتخاب ،تازہ کلام کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ادیب رائے پوری نے اپنے تیسرے مجموعے کا نام ’’تنویرجمالِ خدائی‘‘ رکھا مگر بعد میں یہی مجموعہ’’مقصودِ کائنات ‘‘کے نام سے شایع ہوا۔ڈاکٹر شہزاد احمد کے مطابق’’تنویرجمالِ خدائی‘‘ نام کی کوئی کتاب شایع نہیں ہوئی جب کہ سید محمد قاسم نے ’’پاکستان کے نعت گو شعرا‘‘ میں اپنی ناقص تحقیق کی بنا پر ’’تنویر جمالِ خدائی‘‘ کو ادیب رائے پوری کے مطبوعہ مجموعوں میں شامل کر دیا ہے۔(۳۹)
ادیب رائے پوری ایک قادرالکلام شاعر تھے ۔اُن کے ہاں جذبۂ عشقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلماپنے بھرپور تخلیقی وفور کے ساتھ سامنے آیا ہے۔مقصودِ کائنات سے ان کے غیر منقوط اشعار ملاحظہ ہوں:
رسول اللہ کی آمد سے اوّل
طلسم گمرہی ہر سُو مسلسل

گروہِ آدمی محصورِ آلام
ہوا و حرص کا حامل وہ ہر گام
خوشبوئے ادیب
خوشبوئے ادیب میں ادیب رائے پوری کا وہ کلام موجود ہے جو ابھی تک غیرمطبوعہ تھا۔اس کے علاوہ اس میں گزشتہ مجموعہ ہائے نعت سے منتخب کلام بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کے مرتب پروفیسر سید اصغرعلی ہیں جب کہ نظرثانی میں ڈاکٹر شہزاد احمد کانام شامل ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹرشہزاد احمد کہتے ہیںکہ :ادیب رائے پوری کے سگے بھتیجے پروفیسر سید اصغر علی میرے پاس تشریف لائے اور ادیب رائے پوری کے غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت کی خواہش کا اظہار کیا اور کلام کو ترتیب دینے کی ذمہ داری سونپ دی۔یوں میں نے اس اضافی نعتیہ کلام کو پروفیسر سید اصغر علی کی معاونت سے مرتب کیا۔(۴۰)
اُنھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ علامہ قاری سید اعجاز الدین سہروردی (صاحب زادہ علامہ ریاض سہروردی)نے ’’کلیات ادیب رائے پوری‘‘ کو شایع کرنے کی پیش کش کی ہے اوراس کلیات کے مدون بھی ڈاکٹر شہزاداحمد ہیں اور اس پر کام جاری وساری ہے۔
’’خوشبوئے ادیب ‘‘مدحت پبلشرز ، کراچی کے زیر اہتمام مارچ ۲۰۱۷ء میں منظرعام پر آیا۔ اس میں چار عنوانات کے تحت نعتیہ کلام ترتیب دیا گیا ہے۔
۱۔ خوشبوئے ادیب ۵۲نعتیں ۲۔ ارمغانِ ادیب ۱۴نعتیں
۳۔ مقصودِ کائنات ۲۴نعتیں ۴۔ نذرانۂ اشک ۳۳نعتیں
اس مجموعے میں ’’دیدۂ نم ، لذتِ غم اور گریۂ پیہم کے شاعر:حضرت ادیب رائے پوری ‘‘کے عنوان سے پروفیسر سید اصغر علی کا مختصر مضمون ہے۔ ’’شہرمدحت کے خوش نوا و خوش رقم شاعر‘‘ڈاکٹرشہزاداحمد کا تحقیقی مضمون ہے جس میں انھوں نے ادیب رائے پوری کی شخصی اور ادبی زندگی کے مختلف گوشے اُجاگر کیے ہیں۔ خوشبوئے ادیب کی اہمیت بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’حضرت ادیب رائے پوری کا تمام اضافہ شدہ نیا نعتیہ کلام ’’خوشبوئے ادیب کے نام سے شایع کیا جا رہا ہے۔ اس تمام نعتیہ کلام کی اشاعت کے بعد اب ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کلام ادیب کی طباعت تقریباً اب مکمل ہو چکی ہے۔‘‘(۴۱)
خوشبوئے ادیب میں نعت ، منقبت اور معراج نامے موجود ہیں۔ اس کی پہلی نعت سے دواشعار ملاحظہ ہوں جن میں عجز، انکساری اور محبت کی شمع روشن نظر آتی ہے :
کیا شان میں لکھے گا کوئی اُن کا قصیدہ
جیسے وہ ہیں ویسا نہ تو دیدہ نہ شنیدہ
جب یاد کیا قلب ہوا نافۂ آہو
جب نام لیا ہو گئے لب شہد چکیدہ(۴۲)
نزول
شفیق الدین شارق کا تعلق دبستان وارثیہ سے ہے۔ زودگوشاعر تھے۔ فی البد یہہ سخن کہنے پر قادر تھے۔ پڑھے لکھے شاعر تھے مگر صاحبِ فراش رہے۔ ہمہ وقت نعت کے حصار میں رہتے تھے۔ سنجیدہ طبع اور متین آدمی تھے۔
’’نزول‘‘ شفیق شارق کے نعتیہ کلام کا انتخاب ہے جسے ڈاکٹر شہزاد احمد نے مرتب کیا ہے۔ یہ کتاب سید صبیح الدین رحمانی کی تحریک پر ترتیب دی گئی۔ دیگر تدوین شدہ کتب کی طرح یہ کتاب بھی عمدہ انتخاب اور عمدہ پروف کے ساتھ منظرِ عام پر آئی۔ اس میں شاعر کا معروف کلام شامل ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...