Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ) |
حسنِ ادب
ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ)

ڈاکٹر شہزاد احمد بطور تذکرہ نگار
ARI Id

1689952632807_56116843

Access

Open/Free Access

Pages

126

ڈاکٹر شہزاد احمد بطور تذکرہ نگار
تذکرہ نگاری کا مفہوم
تذکرہ نگاری اُردو شاعری کی روایت کے فروغ کا ایک اہم سنگِ میل رہی ہے۔ اس صنف نے اُردو شاعری کے ساتھ نعتیہ ادب کو بھی احسن طریقے سے محفوظ کرنے کا بیڑا اُٹھایا ہے۔ نعتیہ تذکرہ نگاری میں ڈاکٹر شہزاد احمد کا نام درجۂ استناد رکھتا ہے۔ اس سے قبل ضروری ہے کہ تذکرہ نگاری کے لغوی واصطلاحی معانی مرتب کرلیے جائیں۔وارث سرہندی کے مطابق تذکرہ کے معنی ہیں:’’یاد کرنا ، ذکرکر نا، یادگار‘‘( ۱)
سید احمد دہلوی نے فرہنگِ آصفیہ میں تذکرے کے جو معنی بیان کیے ہیں ، وہ بھی ملاحظہ ہوں:
’’یاد داشت ،بیان، یادگار اور سرگزشت‘‘۔( ۲)
پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’’تذکرے کو بیاض کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہیں۔انھوں نے اپنے مقالے ’’ اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘ میں تذکرہ نگاری کے مفہوم کو واضح انداز میں پیش کیاہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تذکرہ بیاض سے آگے بڑھ کر نیم تاریخی، نیم تنقیدی اور نیم سوانحی فضا میں داخل ہو گیا۔ وقت اور ماحول کے تقاضوں کے تحت تذکرہ پر ادبی تاریخ ، تنقید اور سوانح نگاری کا رنگ گہرا ہوتاگیا اور رفتہ رفتہ تینوں رنگوں کا یہی آمیزہ جسے حقیقی معنوں میں نہ ادبی تاریخ کا نام دے سکتے ہیں، نہ تنقید کہہ سکتے ہیں اور نہ سوانح نگاری سے تعبیر کر سکتے ہیں، فن قرار پایا اور شعرا کے مختصر حالات ، کلام پر سرسری تبصرہ اور انتخاب اشعار کو اس فن کے عناصر ترکیبی میں شمار کیا گیا۔‘‘(۳)
مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تذکرہ ایک شاعر کے مختصر حالات و واقعات اُس کی زندگی کے نمایاں خدوخال اور نمائندہ کلام سے ترتیب پاتا ہے۔ چوں کہ اُردو کے ابتدائی دور میں تنقید نے زیادہ ترقی نہیں کی تھی اس لیے تذکرہ نگار شاعر کے حالات کے بعد اس کے کلام کے بارے میں تنقیدی اشارے بھی شامل کرنا اپنا فرض خیال کرتے تھے یہی تذکرے اُردو شاعری کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہیں اور اِنھیں میں اُردو تنقیدکے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔
یہ بات طے ہے کہ تذکرہ شعرا کے احوال وکلام کا مرقع پیش کرتا ہے لیکن جہاںتک تذکرے کی ترتیب اور پیش کش کا تعلق ہے تو اس میں تذکرہ نگاروں نے دو جداگانہ انداز اختیار کیے ہیں جو درج ذیل ہیں:
۱۔ زمانی ترتیب
۲۔ حروف تہجی کی ترتیب
زمانی ترتیب میں تذکرہ نگار شعرا کو تاریخ پیدائش کے حوالے سے مرتب کرتا ہے اور بعض اوقات اپنے تذکرے کو مختلف ادوار میں تقسیم کرتا ہے۔ محمد حسین آزاد نے’’آب ِ حیات‘‘ میں پانچ دور قائم کیے ہیں۔(۴)
بعض اوقات تذکرہ نگار وفات شدگان شعرا کی ترتیب میں تاریخ وفات کو کام میں لاتے ہیں۔
تذکرہ مرتب کرنے کا دوسرا طریقہ حروف تہجی کی ترتیب کا ہے جس میں شعرا کو تخلص کی الف بائی ترتیب سے شامل تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس ترتیب میں مرتب کو تاریخ پیدائش اور سال وفات تلاش کرنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی اور بڑے چھوٹے شاعر کے تعین سے بھی نبردآزما نہیں ہونا پڑتا۔ اس حوالے سے ’’خم خانۂ جاوید‘‘ کی مثال قابل ذکر ہے۔
تذکرہ نگاری کی مختصر روایت
اُردو شاعری کے حوالے سے جونمایاں تذکرے لکھے گئے ہیں ان میں میرتقی میرؔ کا ’’نکات الشعرا‘‘ (۱۷۵۲ئ)، سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ افضل بیگ نے ’’تحفہ الشعرا‘‘ (۱۷۵۲ئ)، قیام الدین قائم نے ’’مخزن نکات‘‘ (۱۷۵۴ئ) ، لطف، میرزاعلی لطف نے ’’ گلشنِ ہند‘‘ (۱۸۰۰ئ) ، مصطفی خان شیفتہ نے ’’گلشنِ بے خار‘‘( فارسی۔۱۸۳۴ئ) ،امام بخش صہبائی نے ’’انتخاب دواوین‘‘(اُردو۔۱۸۴۲ئ)، کریم الدین نے ’’گلدستہ ناز نیناں‘‘ (اُردو۔۱۸۴۴ئ) ، مینائی، امیراحمد نے ’’انتخاب یادگار‘‘ (اُردو۔۱۸۷۳ئ) ،محمد حسین آزادنے ’’آب حیات‘‘ (اُردو۔۸۰ ۸ ۱ ء ) ، سلطانہ مہر نے ’’سخنور‘‘ (چار حصے۔۱۹۸۰ئ)، سیدقاسم محمود نے ’’انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا‘‘(۱۹۹۸ئ)،نوراحمدمیرٹھی ’’تذکرہ شعرائے میر ٹھ (۲۰۰۳ئ) اور شاعر ، شاعر علی ، ’’سفیرانِ سخن‘ ‘ (چارحصے) ۲۰۰۵ء میں مرتب کیا۔
یوں تو ہر دور نعت رسول مقبول کے فروغ کا دور ہے اور ہر دور میں تخلیق نعت اور تدوین نعت کا کام جاری رہا ہے لیکن بیسویں صدی کی آخری دو دہائیاں اورا کیسویں صدی میں نعتیہ ادب خصوصیت سے پروان چڑھا ہے۔ حالیہ عہد میں نعتیہ رسائل وجرائد کے علاوہ نعتیہ تذکرے اور انتخابات لگن اور تسلسل سے مرتب ہو رہے ہیں۔
شعبۂ نعت میں نعتیہ تذکرہ نگاری کی روایت کا آغاز بیسویں صدی کی ۷۰ء کی نصف دہائی سے ملتا ہے۔ اگرچہ نعتیہ تذکرہ نگاری پر بہت کم کام ہوا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر طلحہٰ برق رضوی کا ’’اُردو کی نعتیہ شاعری‘‘(۱۹۷۴ئ) ، پروفیسر یونس شاہ گیلانی کا ’’تذکرہ نعت گویان اُردو‘‘ (۹۸۲ ۱ ) ، گوہر ملسیانی کا ’’عصر حاضر کے نعت گو‘‘(۱۹۸۳ئ) ، عبدالحفیظ تائب کا ’’گل چیدہ نمبر۱‘‘ (۱۹۸۳ئ)، پروفیسر اشفاق کا ’’شاعری از حسان بن ثابت‘‘ (۱۹۸۴ئ) ،ڈاکٹر اسماعیل آزاد فتح پوری کا ’’نعتیہ شاعری کا ارتقا‘‘ (۱۹۸۸ئ) ، ڈاکٹر شمس بدایونی کا ’’تذکرہ شعرائے بدایوں دربار رسولؐ میں (۱۹۸۸ئ)، غوث میاں کا ’’پاکستان کے نعت گوشعرا‘‘ (۹۹۲ ۱ ء ) ، نوراحمد میرٹھی، ’’بہرزماں بہرزباں‘‘ (۱۹۹۶ئ) ، قمر وارثی کا ’’جمال اندر جمال‘‘ (۱۹۹۸ئ) ، شاکر کنڈان کا ’’نعت گویان سرگودھا‘‘ (۲۰۰۶)، سید محمد قاسم کا ‘‘پاکستان کے نعت گو شعرا‘‘(۲۰۰۷ئ) اور عابد منہاس کا تذکرہ ’’چکوال میں نعت گوئی‘‘ (۰۰۸ ۲ ) معروف ہیں ۔
ڈاکٹر شہزاد احمد تذکرہ نگاری کے حوالے سے شعبۂ نعت کے صف اوّل کے تذکرہ نگاروں میں شامل ہیں۔ اُنھوں نے نعت میں ہونے والی ہر پیش رفت کو ممکنہ طور پر قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ بے شمار تذکرے مرتب کرچکے ہیں جن میں سے چند ایک کا مطالعہ یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اُنھوں نے جو تذکرے لکھے ہیں اُن کے نام درج ذیل ہیں:
٭ لاکھوں سلام
٭ شعبہ نعت کا اجمالی جائزہ
٭ اُردو کے یاد گار نعتیہ مجموعے
٭ حیدرآباد کے نعت گو
٭ کراچی میں نعت رسولؐ
٭ اردو کے چند اہم پاکستانی انتخابِ نعت
٭ نعتیہ کلیات کی روایت:ایک مطالعاتی جائزہ
٭ حسن انتخاب
٭ ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا
٭ خانوادۂ اعلیٰ حضرت کے نعت گو شعرا
٭ بارگاہِ رسالت کے نعت گو
لاکھوں سلام
’’لاکھوں سلام‘‘ ڈاکٹر شہزاد احمد کا مرتب کردہ ایک خوب صورت تذکرہ اور انتخاب ہے جس میں امام احمد رضا خاں بریلوی کے سلام کے منتخب اشعار پر دس شعرا کی تضمینات شامل ہیں۔ ۳۲ صفحات پر مبنی یہ انتخاب ۱۹۸۶ء کو انجمن ترقیِ نعت ، کراچی سے شایع ہوا۔ موصوف نے اُردو کے علاوہ سندھی ، پنجابی ، میمنی اور فارسی میں پچاس سے زائد تضامین کا انتخاب بھی مرتب کیا ہے مگر وہ تاحال غیر مطبوعہ ہے۔
’’لاکھوں سلام‘‘ کے تضمین نگاروں میں ’’علامہ شمس الحسن صدیقی بریلوی، علامہ سید محمد مرغوب اختر الحامدی ، سید محفوظ علی صابر القادری بریلوی، سید اشرف علی ہلال جعفری، اسلم بستوی، عزیز حاصل پوری، مولانا سید حبیب احمد نقشبندی محسنی تلہری، مولانا عبدالسلام شفیق ، محمد عثمان عارف نقشبندی اور صوفی مسعوداحمد رہبر محبوبی چشتی کشمیری ضیائی ‘‘ شامل ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد احمد کی مذکورہ کتاب چار خصوصیات کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ اول اس میں شعرا کے کلام کے بارے میں پانچ سے دس سطروں میں تنقیدی رائے دی گئی ہے۔ دوم : شعرا کا تعارف دیا گیا ہے۔ سوم: سلام رضا کے منتخب اشعار پر تضامین ہیں اور چہارم: ایک منفرد کام یہ کیا گیا ہے کہ فٹ نوٹ پر نعتیہ ادب کی معروف کتابوں کے نام درج ہیںجن کی تفصیل یوں ہے:
’’اردو میں نعتیہ شاعری از ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق ، عربی میں نعتیہ کلام از ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی ، کلام رضا کا تحقیقی اور ادبی جائزہ از شمس بریلوی ، اردو کی نعتیہ شاعری از ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، امام نعت گویاں از اختر الحامدی، شاعری اور حسان بن ثابت انصاری ازپروفیسر اشفاق احمد خان، مدارج النعت از ادیب رائے پوری، ارمغان نعت از شفیق بریلوی ، صلوا علیہ و آلہ از حفیظ تائب ، محمد ہی محمد از سید محمد امین علی شاہ نقوی ، تذکرہ نعت گویان اردو (اول) از پروفیسر سید محمد یونس شاہ گیلانی ، انامن الحسین ازرئیس امروہوی ، نقوش رُسول نمبرجلد دہم از محمد طفیل (مرتب) ،بزم رسالت از حاجی گل بخشالوی ، حمد از درد اسعدی ، اغثنی یا رسول اللہؐ از مولا نا محمد منشا تابش قصوری (مرتب) ، قدم قدم سجدے از خالد محمود نقشبندی ، صلی اللہ علیہ وسلم از راز کا شمیری (مرتب)،حسنت جمیع خصالہ از قمر الدین احمد انجم ، حدیثِ شوق از راجا رشید محمود ، دیوانِ ریاض از علامہ سید محمد ریاض الدین سہر وردی ، فیضان کرم از خواجہ عابد نظامی ، نیراعظم از محمدا عظم چشتی ،تذکرہ نعت گو شاعرات از ڈاکٹر ابو سلمان شا ہجہاں پوری ، سید الکونین از مسرور کیفی ، سلام رضا از شہزاد احمد (مر تب)۔‘‘
ڈاکٹر شہزاد احمد نے کتابوں کے تعارف میں کتاب کا نام ، مصنف کا نام، اشاعتی ادارہ، سال اشاعت ، قیمت ، سائز، ضخامت کے علاوہ مندرجات پر بھی خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے جس سے اس تذکرے کی افادیت دوچند ہو گئی ہے۔ اُن کے تعارفی اسلوب کی جھلک ملاحظہ ہو:
’’تذکرہ نعت گوشاعرات محقق: ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری ہدیہ: 20روپے ، 1984ئ،سائز:20x30=16 ادارۂ:تصنیف وتحقیق پاکستان 18086، کراچی،نعت گو شاعرات کا اولین مجموعہ بارگاہ رسالت مآب میں ڈاکٹر ابو سلمان صاحب کی تحقیقی رشحات فکر کا نتیجہ ہے۔ اس کی تالیف کے لیے فاضل مؤلف نے ایک سخت معیار مقرر کرکے انتہائی محققانہ طور پر اس تذکرے کو مرتب کردیا ہے جس میں شاعرات کے حالات، نعتیہ کتب اور اُن کے مختصر کام کو بھی شامل اشاعت کیا ہے۔‘‘(۵)
تعارف کتب کا یہ انوکھا سلسلہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ یقینا ذوق نعت کے حامل قارئین کے لیے ایک دل چسپ اقدام ہے۔ دوسری طرف اس امر سے ڈاکٹر صاحب کی نعت سے محبت اور والہانہ پن بخوبی عیاں ہے۔
ہر تضمین سے قبل شاعر کا مختصر تعارف ہے جو شاعر کے نام، شخصیت ، علمی خدمات اور دیگر کارہائے نمایاں کے بیان کا احاطہ کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے شعرا کی زندگی اور تصانیف کا گہرامطالعہ کیا ہے جس کی بنیاد پر اُن کی فراہم کردہ معلومات میں گہرائی، وسعت اور قطعیت ملتی ہے۔ وہ کتاب کے نام بتانے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بل کہ نام کے ساتھ اُس کے موضوع کی وضاحت کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ یوں یہ تعارفی سلسلہ اپنے اندر نعتیہ ادب کی قاموس کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ اس امر سے موصوف ڈاکٹر صاحب کی وسعت علمی کا اندازہ لگا نا مشکل نہیں رہتا۔ یہ تعارف اگرچہ طویل نہیں مگر شاعر کا شخصی و علمی خاکہ ضرور ہے۔ یہ معلومات شاعر کے کلام کو سمجھنے میں یقینا مفید اور مددگار ہیں۔ تعارف کے باب میں علامہ اختر الحامدی کی مثال ملاحظہ ہو۔ ڈاکٹر شہزاداحمد لکھتے ہیں:
’’حضرت علامہ سید محمد مرغوب المعروف اختر الحامدی رضوی رحمتہ اللہ علیہ دنیائے نعت میں کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں۔ مولانا موصوف نے ادب نعت کے ہر دو شعبہ جات نظم ونثر میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ آپ کا شماررضا اسکول کے خاص شعرائے کرام میں ہوتا ہے ۔ برصغیر پاک وہند میں آپ کی تضمین’’بہار عقیدت‘‘ کو شہرت دوام حاصل ہے۔ آپ کی مطبوعہ تصانیف ۔۱۔جمال رسول ّ(نعتیہ کلام) ، ۲۔نعت محل (آپ کا نعتیہ کلام اور متعدد کلام اعلیٰ حضرت پر تضمین ہائے گراں مایہ)، ۳۔بہارعقیدت (تضمین برسلام فاضل بریلوی)، ۴۔انوار عقیدت (تضمین برنعتِ اعلیٰ حضرت قصیدۂ نور)، ۵۔امام نعت گویاں (فاضل بریلوی کے نعتیہ کلام کی فنی خوبیوں پر مشتمل مقالہ) ، غیر مطبوعہ تصانیف ، ۱۔ہمارے اہل قلم، ۲۔ شرح حدائق بخشش، ۳۔ذکر جمیل نعتیہ دیوان بنام نعت نگر وغیر ہم۔‘‘(۶)
ڈاکٹر شہزاد نے تضمین کے اشعار میں انتخاب سے کام لیا ہے اور حاشیے میں جزئیات کی تصریح کردی ہے۔ امام احمد رضا بریلوی کا قصیدۂ سلام ۱۷۱ شعروں پر مبنی ہے۔ اختر الحامدی کے سترہ بند شامل کیے ہیں مگر یہ وضاحت کردی ہے کہ مولانا نے قصیدۂ سلامیہ کے جملہ اشعار پر تضمین کہی ہے۔(۷)
اس کے علاوہ اس کتاب میں شامل تضامین کے مآخذ بھی بیان کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ہلال جعفری کے بارے میں تضمین کے آخر میں بتادیا گیا ہے کہ یہ اُن کے مجموعے ’’جان رحمت‘‘ سے ماخوذ ہے اور یہ مجموعہ مکتبہ اہل قلم ملتان سے ۱۹۶۶ء میں شایع ہوا۔(۸)
اس مجموعے میں مختلف شعرا کے ہاں مختلف اشعار پر تضمین کے اشعار ملتے ہیں لیکن مقطع پر قریب قریب سبھی شعرا نے جو دت طبع کے جوہر دکھائے ہیں ۔یوں شعرا کا فکری تنوع اور اسلوب کی جداگانہ روش پورے طور پر اُجاگر ہوئی ہے۔ مثال میں حبیب نقشبندی کے یہ اشعار دیکھیے:
کاش برپا ہو جس وقت روزِ جزا
اور دولھا بنیں وہ شفیع الوریٰ
ہو کسی کی یہ پوری حبیبؔ التجا
مجھ سے خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضا
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام(۹)
اب عزیز حاصل پوری کا مقطع دیکھیے:
محفلوں میں بجے ساز صل علیٰ
نغمہ نغمہ لگے دو جہاں کی فضا
ہو عزیزؔ سخن بھی ترا ہمنوا
جب کہ خدمت کے قدسی کہیں ہاں رضاؔ
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام(۱۰)
ڈاکٹر شہزاداحمد کا یہ تذکرہ اپنے اند ر شعرا کے شخصی خاکے، نعت گوئی کے منظرنامے، شعرا کے کلام پر تنقید، تبصرے اور انتخاب کلام کی چاشنی سموئے ہوئے ہے۔ یہ اپنی طرز کامنفرد تذکرہ ہے جس میں پہلی بار امام احمد رضابریلوی کے سلام پر مبنی تضامین کو یک جا کیا گیا ہے ۔ مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ تذکرہ تضمین نگاری کی تاریخ کے اوّلین تذکروں میں جداگانہ مقام پر فائز رہے گا۔
شعبۂ نعت کا اجمالی جائزہ
یہ تذکرہ بین الاقوامی سطح پر نعتیہ ادب کے اجمالی جائزے پر مبنی ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کے ہم عصروں میں اس نوعیت کے کام کی سعادت کسی اور کے حصّے میں نہ آسکی۔ انھوں نے اس مختصر تذکرے میں نعتیہ ادب کے اہم ترین تحقیقی کاموں کا اجمالی جائزہ پیش کر کے نعت کے قارئین کو دل پذیر معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ مقالہ’ حضرت حسان نعت ایوارڈ ‘کی تقریب میں مارچ ۱۹۹۰ء کو پڑھاگیا جس کی صدارت مولانا سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی کے بیٹے نے کی۔ بعدازاں اسے مجلہ حضرت حسان نعت ایوارڈ میں ۱۹۹۱ء میں شایع کیا گیا ۔
اس تذکرے میں عربی ، فارسی، ترکی اور اُردو زبان میں نعت کے شعبہ میں اہم تحقیقی کاموں کا تعارف موجود ہے۔ پہلی کتاب جس کا تعارف اختصار سے کرایا گیا ہے۔ ’’المدائح النبویہ فی الادب العربی‘‘ کے نام سے ہے اور ڈاکٹر ذکی مبارک اس کے مصنف ہیں۔ ڈاکٹر شہزاداحمد لکھتے ہیں:
’’المدائح النبویہ فی الادب العربی مصنف ڈاکٹر ذکی مبارک ۔ یہ کتاب ۱۹۷۱ء میں مطبوعہ دارا لشعب قاہرہ مصر سے شایع ہوئی ۔ اس کتاب میں عربی نعتوں کے انتخاب کے علاوہ میلاد کی مروجہ رسموں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔‘‘(۱۱)
دوسری کتاب علامہ شیخ یوسف بن اسماعیل النبھا نی’’المجموعہ النبھانیہ فی المدائح النبویہ‘‘ ہے جس کی چار جلدوں میں عربی نعتیہ کلام شامل ہے۔ یہ کتاب بیروت سے شایع ہوئی۔
اس کے بعد ڈاکٹر عبداللہ عباس ندوی کی کتاب ’’عربی میں نعتیہ کلام‘‘ کا ذکر ہے جو عربی نعت کی روایت کو محیط ہے۔ پھر ۶۹فارسی شعرا کی نعتوں کا انتخاب ’’نعت حضرت رسول اکرمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم در شعر فارسی‘‘ از سید ضیا الدین دھشیری اور ’’ترکی نعتیہ اشعار‘‘از شیخ ابراہیم صدقی (مرتبہ) کا ذکر ہے۔
اس تذکرے میں اردو نعتیہ ادب کی سات تحقیقی و تنقیدی کتابوں کا ذکر ہے جس میں ’’اُردو میں نعتیہ شاعری از ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق، اُردو کی نعتیہ شاعری از ڈاکٹر فرمان فتح پوری، اُردو کی نعتیہ شاعری از ڈاکٹر طلحہ رضوی برق، اردو میں نعت گوئی از ڈاکٹر ریاض مجید، تذکرہ نعت گویان اُردواز پروفیسر سید محمد یونس شاہ گیلانی، مدارج النعت از سید حسین علی ادیب رائے پوری، تذکرہ نعت گو شاعرات از ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری‘‘شامل ہیں۔
اس کے علاوہ نعتیہ ادب کے سات محققین کا ایک ایک دو دو جملوں میں تعارف کروایا ہے۔ ان ناموں میں ’’حفیظ تائب ، خالد بزمی، ڈاکٹر ریاض مجید، راجا رشید محمود، ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ادیب رائے پوری شامل ہیں۔
یہ تذکرہ ڈاکٹر شہزاداحمد کے اولین تذکروں میں سے ہے۔ اس میں معلومات کم ضرور ہیں لیکن بنیادی نوعیت کی ہیں جو نعتیہ ادب کے قارئین کے لیے مفید ہیں۔ اس کی اہمیت عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں نعتیہ پیش رفت کے بیان سے اور بڑھ جاتی ہے۔ محققین کے تعارف میں کچھ بنیادی قسم کے کاموں کا ذکر ہو جاتا تو چاشنی اور بڑھ جاتی ۔ الغرض یہ تذکرہ اپنی مختصر مگر جامع معلومات کی بدولت ڈاکٹر شہزاد احمد کی شعبۂ نعت سے محبت کا آئنہ دار ہے۔اس کے بعد تذکروں میں خصوصاً وہ جو مجلہ اوج اور نعت رنگ میں شایع ہوئے ہیں ، ڈاکٹر صاحب موصوف کے فکری ارتقا کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
اُردو کے یاد گارنعتیہ مجموعے
یہ تذکرہ اُردو نعت کے آٹھ منتخب مجموعوں کے بارے میں ہے۔ اصل میں ڈاکٹر شہزاداحمد نے پچاس نعتیہ مجموعوں کے تعارف وتبصرے ایک کتاب کے لیے لکھے تھے۔ انھیں میں سے آٹھ کا ذکر ’’اُردو کے یاد گار نعتیہ مجموعے‘‘ کے عنوان سے مجلہ حضرت حسان نعت ایوارڈ کراچی کے ۱۹۹۲ء کے شمارے میں شامل ہے۔ ان کا اجمال درج ذیل ہے:
۱۔’’نقش سعادت‘‘ از ڈاکٹر ابولخیر کشفی اردو کے اکتالیس قدیم وجدید شعرا کا۴۸ صفحا ت کا انتخاب ہے۔ یہ زمانی ترتیب میں ہے اور ۱۹۶۶ء میں شائع ہوا۔
۲۔’’مدح رسولؐ‘‘ راجا رشید محمود کا مرتب کردہ انتخاب نعت ہے جو ۱۹۷۳ء میں شایع ہوا۔
۳۔’’خیرالبشرؐ کے حضور میں‘‘ ممتازحسین کا نعتیہ انتخاب ہے۔ اس میں ایک سو بتیس شعرا شامل ہیں اور یہ ۱۹۷۵ء میں شایع ہوا ۔
۴۔’’ارمغان نعت‘‘ نعت کی چودہ سوسالہ تاریخ پر مبنی شفیق بریلوی کا انتخاب ہے جسے ڈاکٹر شہزاد نے نعتیہ ادب کا پہلا مستند انتخاب قرار دیا ہے۔(۱۲)
۵۔’’گلدستہ نعت‘‘ ۲۴۰صفحات کا انتخاب ہے جسے نعت کے پانچ موضوعات’’ذکر میلاد، گل ہائے نعت، بحضور رسالتؐ، معراج النبیؐ اور ہدیۂ سلام‘‘ کے تحت ترتیب دیا گیا ہے۔ ضیا محمد ضیا اور طاہر شادانی اس کے مرتبین ہیں۔
۶۔’’مخزنِ نعت‘‘ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے صدر شعبہ اردو پروفیسر محمد اقبال جاوید نے مرتب کیا ہے۔ کتاب کے آخر میں حاشیہ ہے اور اس کو بھی ’’نغمات سرمدی، سلک عقیدت اور اعتراف عظمت ‘‘ کے عنوانات کے تحت سنوارا گیا ہے۔
۷۔’’بہارِنعت‘‘ میں حفیظ تائب نے زندہ پاکستانی شعرا کا کلام جمع کیا ہے جو ہائیکو، غزلیہ ہیئت اور آزاد نظموں کی صورت میں ہے۔
۸۔’’کشف العرفان‘‘ ڈاکٹر نور محمد ربانی نے ۱۹۹۱ء میں اعلیٰ کوالٹی کے آرٹ پیپر پر شایع کیا ۔
تذکرے کے آخر میں مسرورکیفی ، صبیح رحمانی ، صدیق اسماعیل اور سعید ہاشمی کے زیر ترتیب مجموعوں اور انتخابات کا ذکر ہے۔
ڈاکٹر شہزاد احمدنے ایک ایک بڑے صفحے پر مرتب اور اس کے نعتیہ انتخاب کا بھرپور تعارف کروایا ہے۔ ہر انتخاب کے مشمولات ، طرز ترتیب ، سال اشاعت، اشاعتی ادارے ، صفحات اور موضوعات وغیرہ دیے گئے ہیں۔ نمونے کے طور پر ’’کشف العرفان‘‘ کے تعارف سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’۲۳x۳۶=۱۶کے سائز میں یہ کتاب ۳۲۸صفحات کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی ابتدا مکتوب نبویؐ کے ایک عکس سے کی گئی ہے۔ یہ مکتوب بنام منذربن ساوی عربی رسم الخط میں تحریر ہے۔ اس کا علیحدہ سے عربی متن بھی دیا گیا ہے اور اس کا اردو زبان میں ترجمہ بھی موجود ہے۔ اس کے بعد معروف خوش نویس نوراحمد کی خطاطی میں شیخ سعدی کی رباعی موجود ہے۔۔۔ اس کتاب میں مندرجہ ذیل عناوین کے تحت منظومات کو ترتیب دیا گیا ہے۔ عربی حمد اور نعتیں ، فارسی حمد اور نعتیں، نعتیں و مقالات، رباعیات، اُردو حمد اور نعتیں، اُردو نعت گو شاعرات اور غیر مسلم اُردو نعت گو شعرا وغیرہ۔‘‘( ۱۳)
یہ تذکرہ اپنے اندر معلومات کی وسعت رکھتا ہے اور تمام انتخابات اپنے معیار اور ترتیب وتدوین کے لحاظ سے بلند مقام پر فائز ہیں۔ یہی اس تذکرے کی اہمیت ہے۔ ڈاکٹر شہزاداحمد نے اتنے خوب صورت انتخابات سے نعتیہ ادب کی دنیا کو متعارف کروایا، یہ شکر گزاری کا مقام ہے۔ بلاشبہ یہ تذکرہ نعتیہ ادب کے اہم تذکروں میں سے ایک ہے۔ جہاں تک ڈاکٹر شہزاد احمد کے اسلوب کا تعلق ہے، وہ تصنع سے پاک ہے۔ انھوں نے سادہ لب و لہجے میں ضروری اور بنیادی معلومات قاری تک پہنچائی ہیں۔ جزئیات پر پوری توجہ صرف کی گئی ہے۔ ایک انتخاب کا تذکرہ پڑھ کر اس انتخاب کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے، یہی تذکرہ نگار کی کامیابی ہے اور اس کے خلوص کی مظہر ہے۔
حیدرآباد کے نعت گو
ڈاکٹر شہزاد احمد کا یہ تذکرہ اٹھارہ شعرا پر محیط ہے جن کے نام درج ذیل ہیں : ’’نیرحامدی، اختر الحامدی، خلیل مارہروی، درد اسعدی، بسمل آغائی ، حبیب نقشبندی ، تہور زید ی، آباد محمدی، خادمی اجمیری، بدرساگری ، پیکر اکبرآبادی، ضامن حسنی، مقبول شارب، شبیر انصاری ، احمد میاں برکاتی، خان اخترندیم، صابر بن ذوقی، بیگم قمر القادری۔‘‘
یہ تذکرہ بھی حیدرآباد (سندھ) کے نعت گوشعرا کے حوالے سے اولیت کا حامل ہے۔ اس تذکرے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ڈاکٹر شہزاداحمد کے چشم دید احوال پر مبنی ہے۔ اصل میں موصوف کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ وہ وہیں پیدا ہوئے اور انھیں گلیوں میں اُن کا بچپن گزرا اور انھیں شعرا کو دیکھتے ہوئے وہ بڑے ہوئے اس لیے وہ تمام شعرا اوراُن کے کام سے بہتر طور پر واقف ہیں۔ اس بارے میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’حیدرآباد کے نعت گو شعرا کا یہ احوال صرف کتابی تذکرہ نہیں بل کہ یہ راقم الحروف کا آنکھوں دیکھا حال ہے کیوں کہ راقم کی پیدائش اور بود وباش حیدرآباد میں ہوئی ہے۔ اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران اس وقت جو حالات اور مشاہدات نظروں کے سامنے تھے اور موجودہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے جو نعتیہ رجحانات مرتب ہوئے ہیں، ان تمام کو اس نعتیہ تذکرے میں سمویا گیا ہے۔ ‘‘(۱۴)
اسی لیے اس تذکرے کے شعرا کے احوال میں اساتذۂ سخن، اُن کے مشاغل، ادبی سرگرمیوں اور تخلیقات کا ذکر تفصیل کے ساتھ ملتا ہے۔ یہی نہیں بعض شعرا کے سلسلۂ سخن کے بارے میں بھی تفصیلی معلومات دی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر اخترالحامدی کی پیدائش، مسلک، پیشے کے ساتھ ساتھ اساتذۂ سخن کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اختر الحامدی نے سب سے پہلے بیدل بدایونی سے اصلاح لی۔ اُن کے رحلت فرمانے کے بعد حضرت لسان الحسان علامہ ضیاء القادری بدایونی کی خدمت میں زانوئے ادب تہ کیا۔ واضح رہے کہ علامہ ضیاالقادری حضرت اسیر بدایونی کے شاگرد تھے اور حضرت اسیر بدایونی، غالب دہلوی کے تلامذہ میں شامل تھے۔‘‘(۱۵)
شعرا کے احوال کے علاوہ اس تذکرے میں ڈاکٹر شہزاد احمد نے اُن کی کتابوں کے تعارف کو مدنظر رکھا ہے۔ بعض جگہ تو مشمولات اور اصناف تک کی تفصیل دے دی گئی ہے۔ اختر الحامدی کی کتابوں ’’بہارعقیدت ، جمال رسول،کمال رسول، نعت محل، امام نعت گویاں، ہمارے اہل قلم، ذکر جمیل‘‘ کا تفصیلی ذکر ملتا ہے۔ مثال میں درد اسعدی کے مجموعے ’’ہمہ رنگ‘‘ کا تعارف دیکھیے:
’’ہمہ رنگ، درداسعدی کے مختلف النوع کلام کا مجموعہ ہے جس میں حمد ونعت کمیت کے لحاظ سے زیادہ ہیں ۔اس کے علاوہ ’ہمہ رنگ‘ میں مناقب وسلام بدرگاہِ خیرالانامؐ و خلفائے راشدینؓ وحضرات حسنینؓ و بزرگانِ دینؒ، نظمیں و قطعات، غزلیات کے علاوہ بہت سارے قطعات اور منتخب اشعار بھی شامل ہیں۔ یہ کتاب ۱۴۲ صفحات پر مشتمل ۱۹۸۱ء میں بزم شعر وادب حیدرآباد کے زیر اہتمام شایع ہوئی تھی۔‘‘(۱۶)
حیدر آباد کے سخن وروں میں ایک خاتون شاعرہ بھی شامل ہیں۔ یہ بیگم قمر القادری ہیں۔ ڈاکٹرصاحب نے ان کا سرسری تعارف کروایا ہے۔اُن کے بارے میں نامکمل معلومات دی ہیں اور صرف رسمی جملے لکھے ہیں، حالاں کہ یہ صاحب کتاب شاعرہ ہیں اور ان کا مجموعہ’’ لمعات قمر‘‘ کے نام سے شایع ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد نے بیگم قمرالقادری کے بارے میں صرف اتنا لکھا ہے کہ:
’’ بیگم قمر القادری ایک دین دار خاتون ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی محبت کو ایمان کا جزو قراردیتی ہیں۔ یہ تعلیم نسواں کی بھی مبلغ ہیں۔‘‘(۱۷)
ہمارے ہاں اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ بعض گھرانوں کی خواتین اپنے تعارف سے گریزاں ہی رہتی ہیں۔ہو سکتا ہے کہ موصوفہ کے ساتھ یہی معاملہ ہو کہ وہ خود کو نمایاں نہ کرنا چاہتی ہوں۔
تذکرہ ہذا کے آخر میں حمد ونعت کے موضوع پر شایع ہونے والی کتب کا تعارف دیا گیا ہے جن میں ’’ثنائے خواجہ کونین از درد اسعدی (مرتب)، حمد از درد اسعدی (مرتب)، کشکول عقیدت(اردو،سندھی نعتوں کا انتخاب) از خادمی اجمیری اور ضامن حسنی(مرتبین)، خزینۂ نعت از خان اختر ندیم (مرتب) ، نوری نعتیں از ابوالحسن سید مقبول احمد شاہ نوری العابدی(مرتب) ،فیضان نوری (نعتیہ انتخاب) ازنوری کرن،انتخاب نعتیہ قطعات از محمد میاں نوری، رحمتوں کا سایہ (نعتیہ کلام) از محمد مہروز اختر عاجز قادری‘‘ شامل ہیں۔
ان کتابوں میں زیادہ تر کتابیں انتخاب نعت پر مبنی ہیں ۔ وہ کس نے مرتب کی ہیں، ان کے صفحات کتنے ہیں اور کب شایع ہوئی ہیں، یہ ساری معلومات ڈاکٹر شہزاد احمد نے فراہم کردی ہیں تاکہ نعتیہ روایت کے مرتبین کے لیے سہولت پیدا ہو سکے۔ مثال کے طور پر ’’نوری کرن‘‘ کا تعارف ملاحظہ ہو:
’’یہ پاکٹ سائز میں مرتبہ محمد میاں نوری کا ایک انتخاب ہے جس میں انھوں نے نعت خواں حضرات کے لیے ایسے منتخب نعتیہ قطعات جمع کیے ہیں جو نعت خوانوں کے لیے بہت مفید ہیں۔ یہ کتاب فروری ۱۹۸۸ئ، میں مکتبہ قاسمیہ برکاتیہ حیدرآباد کے زیر اہتمام شایع ہوئی ہے۔‘‘(۱۸)
ڈاکٹر شہزاد صاحب نعتیہ کلام کے انتخاب میں زیادہ تر غزلیہ ہیئت کا کلام پیش نظررکھا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کچھ شعرائے نعت کے ہاں یہی ہیئت زیادہ مقبول ہے۔ بہر حال چند شعرا کا کلام بطور نمونہ ملاحظہ ہو:
تہور زیدی
شمیم گلستاں تم ہو ، بہار جاوداں تم ہو
حقیقت میں جہانِ رنگ و بو کی داستاں تم ہو
آباد محمدی:
حقیقت ہے نگاہ لطف جب اللہ کی ہو گی
میں دیکھوں گا مدینہ مجھ کو دنیا دیکھتی ہو گی(۱۹)
خان اختر ندیم:
جب بھی نازک مقام آتا ہے
آپ کا نام کام آتا ہے
بیگم قمر القادری:
مدینے کا سفر ہے اور میں ہوں
مرے آقا کا در ہے اور میں ہوں
بسمل آغائی:
گر طلب سے بھی کچھ ماسوا چاہیے
ان کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے
کراچی میں نعت ِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم
ڈاکٹر شہزاد اُردو کی تذکرہ نگاری میں قابل قدر مقام رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں اُردو نعت کی تاریخ اور روایت کو پروان چڑھانے والوں کی صف اوّل میں شامل ہیں۔ انھوں نے جو تذکرے مرتب کیے وہ مختلف حوالوں سے انفرادیت کے حامل ہیں۔ ’’کراچی میں نعت رسول‘‘ شہر قائد کے نعت گو شعرا کا اولین تذکرہ ہے ۔ اس سے قبل اس قدر جامع تذکرہ نہیں ملتا۔ اس تذکرے کے تخصص کے بارے میں تذکرہ نگار خود لکھتے ہیں:
’’کراچی کے نعت گو شعرا کا یہ تذکرہ اولیت کا حامل ہے۔ اس میں زیادہ تر وہ شعرائے کرام شامل ہیں جو نعت گوئی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں اور دنیا ئے نعت ان کی خدمات سے رخشندہ ہے۔‘‘ (۲۰)
اس تذکرے میں اکتیس شعرا کو زیر بحث لایا گیا ہے جن کے نام درج ذیل ہیں: اکبر وارثی میرٹھی، ضیا ء القادری بدایونی ، بہزادلکھنوی ، منور بدایونی، ماہر القادری ، ستار وارثی بریلوی، عارف اکبر آبادی، شفیق اکبرآبادی، تابش دہلوی، اقبال عظیم ، اقبال صفی پوری، فدا خالدی دہلوی، راغب مراد آبادی ، جمیل عظیم آبادی، حنیف اسعدی، سکندر لکھنوی، لطیف اثر ، محشر بدایونی، سرشارصدیقی، قمر انجم، ادیب رائے پوری، مسرور کیفی، سہیل غازی پوری، اعجاز رحمانی، ریاض سہروردی، خالد محمود نقشبندی، کلام رضوی، سعید وارثی، قمر وارثی، یامین وارثی، صبیح رحمانی۔‘‘
شعرا کے تعارف کے ساتھ نمونۂ کلام بھی دیا گیا ہے ۔ تعارف میں شاعر کے نام، تخلص ، جائے پیدائش اور تخلیقات کو بیا ن کیا گیا ہے لیکن سارے شعرا کے تذکرے میں یہ اصول کارفرما نہیں۔ بعض شعرا کا تعارف بہت سادہ اور سرسری انداز میں کرایا گیا ہے۔ احوال نہایت مختصر دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر سکندر لکھنوی کے تعارف میں مکمل نام ، تاریخ پیدائش اور دیگر بنیادی معلومات کا فقدان نظر آتا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’سکندر لکھنوی ایک زود گو شاعر ہیں۔ عرصہ دراز سے نعت گوئی کے باب میں اضافے کر رہے ہیں۔ نعتوںکے کئی مجموعہ ہائے کلام شایع ہو چکے ہیں۔ کراچی کے نعت گو شعرا میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔چند مطبوعہ مجموعوں ’’تسکین روح‘‘ ، ’’سحاب رحمت‘‘، ’’ممدوح کائنات‘‘ ، ’’سفینۂ دل‘‘، ’’سراجاًمنیراً،’’قاسم خلد‘‘، ’’امام القبلتین‘‘، ’’سید المرسلین‘‘، ’’نعت حبیب‘‘، ’’گلستانِ ثنا‘‘ اور ’’مختارِ کونین‘‘ شامل ہیں۔‘‘(۲۱)
اس تذکرے میںعام طور پر پانچ چھے سطروں کا تعارف ہے لیکن اکبروارثی ، ماہر القادری ، ضیا ء القادری بدایونی، بہزاد لکھنوی اور عارف اکبر آبادی کاتعارف پندرہ سے بیس سطروں پر محیط ہے جس میں حالات زندگی کی جزئیات نمایاں کی گئی ہیں۔ ضیا القادری بدایونی کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں یوںلکھتے ہیں:
’’مولانا ابتدائی عمر سے برصغیر کے ممتاز دینی رسائل اور جرائد خصوصاً رسالہ مولوی وپیشوا میں مذہبی نوعیت کے تحقیقی و علمی مقالے اورمضامین لکھتے رہے ۔ برصغیر پاک وہند کا شاید ہی کوئی ایسا ماہنامہ ہو گا جس میں مولانا کی حمد ونعت اور منقبت شایع نہ ہوتی رہی ہو۔ ماہنامہ آستانہ دہلی میں مولانا کے نام کے علاوہ شاعر آستانہ یا شاعرخصوصی آستانہ، کے نام سے برسوں ان کا کلام چھپتا رہا۔‘‘(۲۲)
جہاں تک نعتیہ کلام کے انتخاب کا تعلق ہے تو اس میں ہر شاعر کے تین سے چار اشعار نمونے کے طور پر دیے گئے ہیں۔ یہ نمونۂ کلام زیادہ تر مشہور نعتوں سے ماخوذ ہے۔ اس حوالے سے چند شعری مثالیں ملاحظہ ہوں:
جسے چاہا در پہ بُلا لیا ، جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
(منور بدایونی)
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دست گیری کی
سلام اُس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
(ماہر القادری)
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ ، لغزیدہ
(اقبال عظیم)
خدا کا ذکر کرے ذکر مصطفی نہ کرے
ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے
(ادیب رائے پوری)
کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمھارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
(خالد محمود نقشبندی)
حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے
(صبیح رحمانی)
اس تذکرے کے آخرمیں دوسو سے زائد کتابوں کی فہرست شامل ہے جن کا سال اشاعت بھی دیا گیا ہے۔ یہ کتابیں کراچی کے نعت گو شعرا کے علاوہ عمومی طور پر نعتیہ ادب کی تخلیقات پر مبنی ہیں۔ چند کتابیں الگ درج ہیں جن کا سالِ اشاعت ندارد ہے۔ اس کے علاوہ نعتیہ مقالوں اور نعت انتخابات کی فہرستیں بھی پیش کی گئی ہیں۔ سلام کے انتخابات ، نعتیہ انجمنوں کی طرف سے شایع ہونے والے نعتیہ مجلوں، معروف نعت خوانوں کے ناموں اور مشہور نعتیہ تنظیموںاور انجمنوں کی فہرستیں اس پر مستزاد ہیں۔
اس تذکرے کی اہمیت یہ ہے کہ پہلی بار کراچی کے نعت گو شعرا نعتیہ روایت کی لڑی میں پروئے گئے اور شہرقائد کے نعتیہ تشخص کو اُجاگر کیا گیا۔ معروف کلام سے تذکرے کو سجایا گیا ہے اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد نے خالص تذکرہ لکھا ہے، اسے حتی الامکان تنقیدی نقوش سے دُور رکھا ہے۔
ڈاکٹراسماعیل آزاد کا سرقہ
نعتیہ ادب میں ادب کے فروغ سے زیادہ خیروبرکت اور رضائے الٰہی کا حصول تخلیق کار کی ترجیح ٹھہرتا ہے۔ اس میں بددیانتی اعمال کو اکارت کرنے کے مترادف ہے اور اگر شب خون مارنے والا دنیائے تحقیق سے تعلق رکھنے والا ہو تو بددیانتی کا عمل اور بھی تکلیف دہ لگنے لگتا ہے کیوں کہ غیر جانب داری ، صداقت اور انصاف پسندی تحقیق کے بنیادی اُصول ہیں۔ ایک محقق اگر امانت داری اور دیانت داری سے کام نہیں لے گا تو ادب کی تاریخ مجروح ہو کر رہ جائے گی۔
یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ شعبۂ نعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو دیانت و امانت کے اصول کو پائوں کی ٹھوکر پہ رکھ کر چند روزہ سستی اور جھوٹی شہرت کو گلے لگانے سے نہیں چوکتے۔ ایک صاحب نے لطف بریلوی کے نعتیہ دیوان کے مقطعوں میں تخلص بد ل کر مجموعہ اپنے نام کر لیا اور چوری کے اس دیوان میں لکھا کہ اللہ اسے میرے لیے آخرت کا وسیلہ بنائے۔‘‘ اس چوری کا خلاصہ اور مؤاخذہ راجارشید محمود نے ماہ نامہ ’’نعت‘‘ میں اچھے سے کیا ہے۔ یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ڈاکٹر محمد اسماعیل آزادؔ جو شعبۂ نعت کے معروف محقق، کئی کتابوں کے مؤلف اور مہاتما گاندھی پوسٹ گریجویٹ کالج، فتح پور (انڈیا) سے صدر شعبہ اُردو کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔انھوں نے اپنی حالیہ تالیف ’’ہندو پاک کی اردو نعتیہ شاعری‘‘ میں ڈاکٹر شہزاد احمد کے اس تذکرے کو اپنے نام سے شامل کر لیا ہے اور انتساب میں لکھا ہے کہ:
’’راقم اپنی اس کتاب کو اپنے محترم و مکرم والد عالی جناب حافظ محمد جمیل کو منتسب کرتا ہے، جنھوں نے راقم کو وہ بنا دیا ہے جو وہ اس وقت ہے۔ راقم اپنے مشفق و معظم والد صاحب کو سب سے زیادہ چاہتا ہے جو اُسے وہ ساری دعائیں دیتے ہوئے عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف چلے گئے جو انھیں یاد تھیں۔‘‘(۲۳)
موصوف نے ڈاکٹر شہزاد احمد کے دو تذکروں ’’کراچی میں نعت رسولؐ‘‘ اور حیدرآباد کے نعت گو‘‘ سے استفادہ کرنے کے بجائے کھلے عام سرقہ کیا ہے اور نہ دیباچے میں کہیں مصنف کا ذکر کیا ہے اور نہ ہی فہرست میں تذکرے کے آگے تذکرہ نگار کا نام لکھنے کی زحمت گوارا کی ہے، البتہ عنوان میں تبدیلی کرکے ’’کراچی میں اُردو نعت‘‘ کر دیا ہے۔ آزاد صاحب اسم بامسمیٰ واقع ہوئے ہیں اور کہیں حوالہ جات لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ انھوں نے یہ نعتیہ روایت یوں مرتب کی ہے جیسے کاپی پیسٹ کرکے ایم اے کے سلیبس کی گائیڈ تیار کرتے ہیں۔
انھوں نے تالیف کے اصولوں کو یکسر بالائے طا ق رکھ چھوڑا ہے۔ آزاد صاحب کی اپنی زبانی اس تالیف کا احوال ملاحظہ کیجیے:
’’راقم نے اپنی ساتویں کتاب کے پانچویں باب میں جس میں پاکستانی شعرائے نعت سے متعلق راقم کے سارے کے سارے معروضات ماخوذ و مستعار ہیں، ہندوستان اور پاکستان کی اردو نعتیہ شاعری کا تقابلی مطالعہ اس طرح پیش کیا ہے کہ دونوں ملکوں کی نعتیہ شاعری کا باہمی فرق واضح ہو جائے۔‘‘(۲۴)
آزادؔ صاحب نے پانچویں باب کے معروضات کے مستعار ہونے کا سرسری ذکر کیا ہے لیکن کون سامتن کہاں سے ہے اور کس کا ہے، اس بارے میں نہیں بتایا۔ اب آتے ہیں ڈاکٹر شہزاد صاحب کے تذکرے کی طرف جو آزادؔ صاحب کی کتاب کے تیسرے باب میں شامل ہے اور اس امر کی کہیں صراحت نہیں کی ان تذکروں کے لکھنے والے کون اصحاب ہیں۔ ’’اوج‘‘ کے نعت نمبر میں چھپنے والے ڈاکٹر شہزاد کے تذکرے ’’کراچی میں نعت رسولؐ‘‘ اور اسماعیل آزادؔ کے ’’کراچی میں اُردو نعت‘‘ کے متنی اختلافات ملاحظہ ہوں تاکہ واضح ہو سکے کہ آزادؔ صاحب نے کتنی کاوش سے یہ تذکرہ مرتب کیا ہے۔
۱۔ ڈاکٹر شہزاد احمد تذکرے کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ
’’میں نعت گو کوکسی علاقے کے حوالے سے جاننے کا قائل نہیں ہوں مگر اس امر کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ نعت گوئی کے حوالے سے نابغۂ روزگار شخصیات کا ذکر ضرور ہونا چاہیے جنھیں کسی نہ کسی حوالے سے کراچی (سندھ) سے نسبت ہے۔‘‘(۲۵)
ڈاکٹر آزادؔ صاحب کے تذکرے میں یہ سطریں حذف کردی گئی ہیں۔
۲۔ ڈاکٹر اسماعیل آزاد نے اس تذکرے میں جو اضافے کیے ہیں وہ یہ ہیں کہ جہاں ڈاکٹر شہزاد نے تخلص کا لفظ استعمال کیا ہے ، وہاں موصوف نے قلمی نام کر دیا ہے۔ مثالیں دیکھیے:
٭ڈاکٹر شہزاداحمد:’’جمیل عظیم آبادی کا پیدائشی نام جمیل احسن اور تخلص جمیل عظیم آبادی ہے‘‘(۲۶)
٭ڈاکٹر اسماعیل آزاد :’’جمیل عظیم آبادی کا پیدائشی نام جمیل احسن اور قلمی نام جمیل عظیم آبادی ہے۔‘‘(۲۷)
یہ ایک مثال ہے ،ایسی کئی مثالیں اور بھی ہیں جن میں آزاد صاحب نے اپنی علمیت کے جوہر دکھا کر تخلص کی جگہ قلمی نام کردیا ہے۔
۳۔ ڈاکٹر اسماعیل آزادؔ نے اس کہاوت کو سچ کردکھایا ہے کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ڈاکٹر شہزاد احمد کے متن کو درست انداز میں نقل بھی نہیں کر پائے ۔ یہ مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
ڈاکٹر شہزاد احمد:حنیف اسعدی کا اصل نام حنیف احمد ہے۔‘‘(۲۸)
ڈاکٹر اسماعیل آزاد:’’حنیف اسعدی کا اصل نام حنیف اسعدی ہے۔‘‘(۲۹)
ڈاکٹر شہزاد احمد :قمرالدین احمد نام اور قمر انجم تخلص کرتے ہیں۔ ۱۹۲۶ء میں بھارت کے شہر ’’اودے پور‘‘ میں پیدا ہوئے ۔ ۱۹۴۷ء میںہجرت کے بعد کراچی کو اپنا مسکن بنالیا۔ (۳۰)
ڈاکٹر اسماعیل آزاد:’’قمر الدین احمد نام اور قمر انجم قلمی نام ہے۔ ۱۹۲۶ء میں ہجرت کے بعد کراچی کو اپنا مسکن بنا لیاہے۔‘‘(۳۱)
قمر انم ۱۹۲۶ء کو پیدا ہوئے مگر ڈاکٹر اسماعیل آزاد ۱۹۲۶ء میں انھیں ہجرت کروا رہے ہیں۔ اسی طرح ’’حیدرآباد کے نعت گو‘‘ میں آزاد صاحب نے ڈاکٹر شہزاداحمد کے تمہیدی پیراگراف سے سولہ سطریں حذف کرکے باقی متن کو شامل کتاب کیا ہے لیکن درست معلومات فراہم کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بدرساگری کے سال پیدائش ۱۹۳۶ء کو ۱۹۳۹ء کر دیا ہے۔ ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
’’آباد محمدی احسانی کا پیدائشی نام عبدالرحمن ہے۔۱۹۲۲ء میں بیاور نیا شہر ضلع اجمیر شریف (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ اجمیر شریف سے ہجرت کے بعد حیدرآباد (سندھ) کو اپنا مسکن بنایا۔‘‘(۳۲)
ڈاکٹر اسماعیل آزادؔ
’’آباد محمدی احسانی کا پیدائشی نام عبدالرحمن ہے۔ ۱۸۹۲ ء میں بیاور شہر ضلع اجمیر شریف سے ہجرت کے بعد حیدرآبادسندھ کو اپنا مسکن بنایا۔‘‘(۳۳)
ڈاکٹر اسماعیل آزاد نے آبادمحمدی احسانی کواُن کی پیدائش کے ساتھ ہی ہجرت کروادی ہے اور نیا شہر کو بغیر کسی وضاحت کے ’’بیاورشہر‘‘ لکھ دیا ہے۔ بہر حال سطر سطر سے ڈاکٹر اسماعیل آزاد کی ناقص تحقیق اور بددیانتی عیا ں ہے۔ اگر اُنھوں نے یہ تذکرہ خود لکھا ہوتا تو وہ سید صبیح رحمانی کے کلیات کا ذکر لازمی کرتے لیکن اس تذکرے میں جو ۱۹۹۲ء میں ڈاکٹر شہزاداحمد نے لکھا سید صبیح رحمانی کو صرف چار سے پانچ سطریں دی گئی ہیں اور اُن کے صرف پہلے مجموعے کا ذکر کیا گیا ہے۔اُس وقت صبیح رحمانی کا ایک ہی مجموعہ منظر عام پر آیا تھا۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ دونوں تذکرے ڈاکٹر شہزاد احمد کے ہیں اور ڈاکٹر اسماعیل آزاد نے سرقہ سے کام لیتے ہوئے انھیں اپنی کتاب ’’ہندوپاک کی اُردو نعتیہ شاعری :تقسیم سے اب تک‘‘میں شامل کرلیا ہے۔انھوں نے متن مستعار لیتے وقت نہ اجازت طلب کی، نہ اصل مصنف کا تذکرہ کیا بل کہ وہ تمام سطریں حذف کردیں جن سے ڈاکٹر شہزاداحمد کی شناخت واضح ہو رہی تھی۔ آزاد صاحب کی نعتیہ ادب میں یہ بددیانتی قابلِ مذمت ہے۔
اُردو کے چند اہم پاکستانی انتخاب نعت
ڈاکٹر شہزاد احمد تذکرہ نگاری کے مردمیدان ہیں۔ نعت کے شعبہ کے تمام کارہائے نمایاں پر اُن کی نظر ہے۔ وہ اپنی معلومات کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتے۔ اُن کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ اپنے حاصلات مطالعہ کو قارئین تک پہنچایا جائے۔ نعت رسول مقبول سے وابستگی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس کی ترویج کے ہر ممکنہ پہلو کو اجاگر کیا جائے۔ اس حوالے سے موصوف ڈاکٹر صاحب ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں:
’’اُردو نعت کے چند اہم پاکستانی نعت گو‘‘بھی فروغ نعت کے سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ تذکرہ ڈاکٹر شہزاداحمد کے وقتاً فوقتاً شایع ہونے والے نعتیہ انتخابات کے تعارفی سلسلوں کامجموعہ ہے۔ ایک جگہ جمع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بھرپور روایت سامنے آسکے۔ دوسرا مقصد نعت کے اہم انتخابات کو قارئین سے متعارف کروانا ہے۔ بقول ڈاکٹر شہزاداحمد:
’’اس مقالے میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اُردو کے نعتیہ ادب کے وہ اہم انتخابِ نعت جنھوں نے شعبۂ نعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے مرتبین کی گراں قدر اور لائق تحسین خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا جائے تاکہ نعتیہ ادب کے نئے قارئین ان حضرات کے فقیدالمثال کارناموں سے واقف ہو سکیں۔‘‘(۳۴)
ڈاکٹر صاحب نے ان انتخابات کا تذکرہ کرتے ہوئے زمانی ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے تاکہ ہر دور کی معروف نعتوں اورمرتبین کی کاوشوں کو اُجاگر کیا جا سکے۔ جن کتابوں کا تذکرہ اس مقالے میں دیا گیا ہے اس کا اجمال درج ذیل ہے:
نمبرشمار
نام انتخاب
مرتب
سال اشاعت
۱۔
نقش سعادت
ڈاکٹر سیدابولخیرکشفی
جولائی ۱۹۶۶ء
۲۔
مدحِ رسول
راجا رشید محمود
نومبر ۱۹۷۳ء
۳۔
ارمغانِ نعت
شفیق بریلوی
اپریل ۱۹۷۵ء
۴۔
خیرالبشر کے حضور میں
ممتازحسن
جنوری ۱۹۷۵ء
۵۔
گلدستہ نعت
ضیامحمد ضیا، طاہر شادانی
۱۹۷۸ء
۶۔
نعت مصطفی
یامین وارثی
۱۹۷۸ء
۷۔
مخزن نعت
پروفیسر محمد اقبال جاوید
مارچ ۱۹۷۹ء
۸۔
اغثنی یارسول اللہ
محمدمنشا تابش قصوری ضیائی
طبع دوم ۱۹۸۰ء
۹۔
جواہرالنعت
عزیز احسن
۱۹۸۱ء
۱۰۔
سُنّی مناجات مقبول
انیس احمد نوری
۱۹۸۶ء
۱۱۔
میرے آقا میرے حضورؐ
ریاض ندیم نیازی
۱۹۸۷ء
۱۲۔
کشکول عقیدت
خادمی اجمیری۔ضامن حسنی
۱۹۸۹ء
۱۳۔
سفینۂ نعت
ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی
جنوری ۱۹۹۰ء
۱۴۔
بہار نعت
حفیظ تائب
۱۹۹۰ء
۱۵۔
کشف العرفان
ڈاکٹر نور محمد ربانی سلامی
۱۹۹۱ء
۱۶۔
خزینۂ نعت
خان اخترندیم نقش بندی
۱۹۹۲ء
۱۷۔
ایوانِ نعت
سید صبیح رحمانی
۱۹۹۳ء
۱۸۔
یارسول اللہ
محمدصادق قصوری
۱۹۹۳ء
۱۹۔
نذرانۂ اشک
غزالہ عارف کابلی
۱۹۹۵ء
۲۰۔
انتخاب نعت
عبدالغفور قمر
۱۹۹۵ء
۲۱۔
خوشبو سے آسمان تک
اختر لکھنوی ، قمر وارثی
۱۹۹۵ء
۲۲۔
بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسول کا
ریاض احمد صابری
۱۹۹۵ء
۲۳۔
الہادیِ منیر
خواجہ احمد مستقیم
۱۹۹۷ء
۲۴۔
یارسول اللہ
مولانا محمد یعقوب خان قادری
۱۹۹۷ء
۲۵۔
نم دیدہ نم دیدہ
ملک امید علی بہلم
جولائی ۱۹۹۸ء
۲۶۔
گل چیدہ
ملک امیدعلی بہلم
۱۹۹۹ء
۲۷۔
عقیدت کا سفر
حمایت علی شاعر
۱۹۹۹ء
۲۸۔
حبیبی یارسول اللہ
عزیز الدین خاکی
۱۹۹۹ء
۲۹۔
رنگ ِرضا
محمد صدیق اسماعیل
۱۹۹۹ء
۳۰۔
انوار ِعقیدت
شہزاداحمد
جون ۲۰۰۰ء
۳۱۔
نعتوں کی بارات
سیدمحمد صداقت رسول
نومبر ۲۰۰۰ء
۳۲۔
خوشبوئے مدینہ
امید علی بہلم
۲۰۰۲ء
۳۳۔
ارمغانِ ادیب
شہزاد احمد
مارچ ۲۰۰۲ء
۳۴۔
چاراہم انتخابِ نعت
شہزاداحمد
جنوری ۲۰۰۲ء
۳۵۔
خواتین کی نعتیہ شا عر ی
غوث میاں
جنوری ۲۰۰۲ء
۳۶۔
مدحت شاہِ دوعالمﷺ
محمد ذکریا شیخ اشرفی
جنوری ۲۰۰۲ء
۳۷۔
محمد عربیﷺ
محمد ابرار حسین
جنوری ۲۰۰۳ء
۳۸۔
شافع محشرﷺ
ارسلان کیفی
مارچ ۲۰۰۳ء
۳۹۔
نعت کا سمندر
محمدمنور علی عطاری
ستمبر ۲۰۰۴ء
۴۰۔
صلی اللہ علیہ وسلم
طاہر سلطانی
۲۰۰۴ء
۴۱۔
نعتوں کی سوغات
عرفان ثاقب قادری
۲۰۰۵ء
۴۲۔
بجھے چراغوں کی روشنی
شاعر علی شاعر
۲۰۰۷ء
۴۳۔
راہِ نجات
غلام مجتبیٰ احدی
۲۰۱۱ء
۴۴۔
مدینہ ردیف کی نعتیں
شاعرعلی شاعر
۲۰۰۹ء
۴۵۔
نغمۂ حبیب
مولانا محمد شفیع اوکاڑوی
سن ندارد
نعتیہ کلیات کی روایت: ایک مطالعاتی جائزہ
تذکرہ نگاری اُردو شاعری کی قدیم روایات میں سے ہے۔ اس میں عام طور پر شاعر کے شخصی احوال اور ادبی زندگی کو موضوع بنایا جاتا ہے لیکن ڈاکٹر شہزاد احمد نے نعتیہ کلیات کی روایت کو تذکرے کا موضوع بنا کر ایک نئی طرح ڈالی ہے۔ انھوں نے صرف ایسے شعرا کا ذکر کیا ہے جو صاحب کلیات ہیں۔ اس تذکرے میں وہ نعتیہ ادب کی تاریخ کھنگالنے کے بجائے اُن شعرا کے کلیات کو موضوع بحث لائے ہیں جو نعت ریسرچ سنٹر کراچی (صبیح رحمانی) ، حمدونعت ریسرچ فائونڈیشن کراچی (ڈاکٹر شہزاد احمد) اور فیض پنجتن لائبریری (محمد عمران سلطانی) میں موجود ہیں۔
یہ تذکرہ نعتیہ کلیات کی روایت کا نقطۂ آغاز ہے اور اس نقطۂ نظر سے لکھا گیا ہے کہ شعبۂ تحقیق سے منسلک اسکالرز اس سے تحریک پکڑیں اور اسے موضوع تحقیق بنائیں۔ بقول ڈاکٹر شہزاداحمد:
’’وہ دن دُورنہیں جب نعت کے طالب علم ’صاحبِ دیوان شعرا ‘اور’ صاحب کلیات شعرا‘ کے موضوع پر علیحدہ علیحدہ تحقیقی کام کا آغاز کریں گے۔ راقم الحروف کا یہ مقالہ ’نعتیہ کلیات ‘ بھی اسی خوب صورت نعتیہ تحریک کا حسن آغاز ہے جب کہ آئندہ یہ عاجز ’صاحب دیوان نعت گوشعرا‘ کے حوالے سے بھی طالب علموں کے لیے بنیادی مہمیز فراہم کرے گا۔‘‘(۳۵)
گویا اس تذکرے کا مقصد نعتیہ ادب میں شایع ہونے والے مختلف کلیات کی روایت کی تحقیق اورجائزے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔ یہ امر بہت حدتک درست بھی ہے کیوں کہ جس رفتار سے نعتیہ کلیات منظرعام پر آرہے ہیں، وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ اُن پر تحقیقی کام سامنے لایا جائے۔ڈاکٹر شہزاد احمد نے مضمون کے آغاز میں کلیات اور دیوان کے فرق کو واضح کرکے اسکالرز کو دو الگ الگ موضوعات پر دریچۂ تحقیق وا کرنے کی دعوت دی ہے۔
اس تذکرے میں کل اکتیس کلیات ہیں جو زیر بحث آئے ہیں۔ ان کی فہرست درج ذیل ہے:
نمبر شمار
کلیات
مرتب
سن
1
کلیات نعت محسن کاکوروی
محمد نورالحسن
1982ء
2
کلیاتِ شائق
میر سیدعلی شائق دہلوی
1994ء
3
تمام وناتمام
ڈاکٹر عاصی کرنالی
1994ء
4
کلیاتِ راقب قصوری
محمد صادق قصوری
مئی 1996ء
5
مقصودکائنات(ادیب رائے پوری)
شہزاد احمد
اکتوبر1998ء
6
کلیاتِ ظہور (حافظ محمد ظہورالحق ظہو ر )
رئوف امیر
جولائی 1999ء
7
کلیاتِ بیچین
بے چین راجپوری بدایونی
2003ء
8
کلیاتِ اعظم
محمد اعظم چشتی
2005ء
9
کلیاتِ حفیظ تائب
حفیظ تائب
اپریل2005ء
10
کلیاتِ قادری(مولانا غلام رسول القاد ری)
ڈاکٹر فریدالدین قادری
جون2005ء
11
کلیاتِ عنبر شاہ وارثی
عشرت ہانی ونور محمد وارثی
مارچ2006ء
12
حمد رب علیٰ نعت خیرالوریٰ(راسخ عرفا نی )
ثاقب عرفانی
جون2006ء
13
طاہرین(سیدوحید الحسن ہاشمی)
ڈاکٹر سید شبیہ الحسن
2006ء
14
سرمایہ رئوف امروہوی(انتخاب کلام )
حامد امروہوی
2007ء
15
کلیاتِ منور(منوربدایونی)
سلطان احمد
2008ء
16
کلیات ِاظہر (اظہر علی خان اظہرؔ)
محمد سلیم
اپریل2009ء
17
کلیات ِنیازی
عبدالستار نیازی
مئی 2009ء
18
کلیات ِنعت
اعجاز رحمانی
مئی2010ء
19
زبورِ حرم(اقبال عظیم)
شاہین اقبال
2010ء
20
خلد نظر(عابد سعید عابد)
محمد سعید عابد
جولائی2011ء
21
نور سے نور تک(کلیات حمدونعت)
شاعر علی شاعر
فروری2012ء
22
کلیاتِ صائم چشتی(اُردو نعت)
تدوین:لطیف ساجد چشتی
2012ء
23
کلیاتِ بیدم وارثی
کلیات مظہر(حافظ مظہرالدین مظہر)
ترتیب: ارسلان احمد ار سل
2012ء
24
کلیاتِ ریاض سہروردی
ڈاکٹر شہزاداحمد
2013ء
25
کلیاتِ راہی(مولانا نذر محمد راہی)
ڈاکٹر محمداویس معصومی
2013ء
26
کلیاتِ شاہ انصارالٰہ آبادی
خالد رضوی۔ مرتب ثانی : ڈاکٹر شہزاد احمد
2014ء
27
کلیات ظہوری
محمد علی ظہوری
2014ء
ڈاکٹر شہزاداحمد نے نعتیہ کلیات کے حوالے سے جو معیارات سامنے رکھے ہیں اور جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے اگر اُن کا اجمالی جائزہ لیں تو سب سے پہلی بات کلیات کا تعارف ہے۔ اس بارے میںڈاکٹر صاحب باریک بینی سے کام لیتے ہوئے کاغذ، قیمت ، جلد، سرورق اور صفحات تک سب بیان کرتے ہیں تاکہ قاری کے سامنے سارا نقشہ تازہ ہو جائے۔ کلیات محسن کاکوروی کے تعارف سے ابتدائی سطریں ملاحظہ ہوں:
’’کلیات نعت محسن کاکوروی کے مرتب محمد نورالحسن ہیں۔ اس کلیات کا پہلا فوٹو آفسیٹ ایڈیشن ۱۹۸۲ء میں اُترپردیش اُردو اکادمی لکھنو(انڈیا) نے شایع کیا ہے۔ ۲۵۸صفحات پر مشتمل اس کی مجلد فوٹوکاپی میرے سامنے ہے۔ اس کی قیمت ۱۲روپے ہے۔ واضح رہے کہ’کلیات نعت مولوی محمد محسن‘ کے نام سے ۱۳۳۴ھ میں الناظر پریس واقع چوک لکھنؤ سے شایع ہوئی تھی۔‘‘(۳۶)
۲۳x۳۶=۱۶ کے سائز میں یہ کتاب ۳۲۸ صفحات پرمشتمل ہے ۔ کتاب کے تعارف میں دوسری چیز جسے ڈاکٹر شہزاداحمد نے ملحوظ خاطر رکھا ہے ، وہ ہے کتاب کے مشمولات اورمضمون نگاروں کے نام دینا۔ انھوں نے محض لکھنے والوں کے ناموں کا ذکر کیا ہے، مضامین کے عنوانات کی طرف اُن کا دھیان نہیں گیا۔ اس کے علاوہ کلیات میں شامل مجموعوں کا بھی بتایا ہے۔مثال میں ڈاکٹرعاصی کرنالی کے کلیات ’’تمام وناتمام‘‘ کے تعارف سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’کلیات شعری ’’تمام و ناتمام‘‘ میں آٹھ مجموعے شامل ہیں۔ ’’رگ جاں، جشنِ خزاں، چمن اور میں محبت ہوں‘‘ غزل کے مجموعے ہیں جب کہ چار ہی مجموعہ ہائے کلام نعتیہ’’ مدحت ، نعتوں کے گلاب، جاوداں اور حرف شیریں‘‘شامل ہیں۔۔۔اس کے علاوہ ایک کتاب علیحدہ سے ’’آوازِ دل‘‘ کے نام سے ۲۰۰۶ء میں شایع ہو چکی ہے جس میں ’’تمام و ناتمام‘‘ کے بعد کی نعتیں شامل ہیں۔ ۔۔’’تمام و ناتمام‘‘ پر لکھنے والوں میں سیدقمر زیدی، عبدالمجید سالک ، ماہر القادری، عاصی کرنالی، ڈاکٹر اسد اریب شامل ہیں۔‘‘(۳۷)
اس تذکرے کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شاعر کے مختصر حالات زندگی بھی دیے گئے ہیں ۔ تعلیم ، پیدائش، ادبی سرگرمیاں اور اساتذۂ سخن کا ذکر اجمالی طور پر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر شہزاداحمد نعتیہ ادب کی روایت اور تاریخ کے بارے میں کافی محتاط رویہ رکھتے ہیں۔ اس لیے تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات لازمی درج کرتے ہیں۔ سیدوحید الحسن ہاشمی کے کلیات ’’طاہرین‘‘ میں شاعر کا تعارف کرواتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’پیدائشی نام سید وحید الحسن، قلمی نام وحید ہاشمی اور تخلص وحید ہے۔ ۱۹۳۰ء جون پور ، یوپی (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ تعلیمی طور پر ایم اے ، بی ٹی، درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ اور ہیڈماسٹر تھے۔ اساتذۂ سخن میں صفاالٰہ آبادی ، آرزو لکھنوی، سہیل بلگرامی اور سیدآلِ رضا لکھنوی کے نام شامل ہیں۔ آپ کی ساری زندگی ادب پروری، صحافتی خدمات ، خطابات، اعزازات اور تقریبات پذیرائی سے عبارت ہے۔ آپ کا وصال ۲۰ نومبر ۲۰۰۱ء میں لاہور میں ہو چکا ہے۔‘‘(۳۸)
ڈاکٹر شہزاد احمد نے صاحبِ کلیات کے بارے میں ضروری اور بنیادی معلومات فراہم کردی ہیں لیکن مرتب کے بارے میں اُن کا قلم یکسر خاموش ہے۔ اُن کی ساری توجہ کلیات پر مرکوز نظر آتی ہے ۔ اس کے بعد تذکرہ نگاری کی روایت میں نمونۂ کلام شامل ہوا کرتا ہے تو اس کا اہتمام بھی اس تذکرے میں دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کلیاتِ بید م وارثی سے نمونے کے طور پر دیے گئے دو شعر دیکھیے:
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسولؐ
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسولؐ
عجب تماشا ہو میدانِ حشر میں بیدمؔ
کہ سب ہوں پیش خدا اور میں رُو بروئے رسولؐ(۳۹)
اس تذکرے میں کہیں کہیں تنقیدی اشارے بھی دیے گئے ہیں جو مضمون نگاروں کے اقتباس کی شکل میں ہیں۔ ڈاکٹر شہزاد احمد نے اپنی رائے دینے سے زیادہ ترگریز ہی کیا ہے۔ انھوں نے راسخ عرفانی کے بارے میں حفیظ تائب کی رائے پیش کی ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’راسخ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی محبت کو ایمان کی ضیا اور آپؐ کی ذات گرامی کو لفظ وبیاں کا نور سمجھتے ہیں۔ وہ تمام الفاظ کو منعوت جہاں کی امانت گردانتے ہیں اور نعت خوشنودی محمدؐ اور خدائے محمدؐ کے لیے لکھتے ہیں۔ وہ نعت کو ہجوم کرب میں سکون کی سبیل جانتے ہیں اور اپنے خون تک سے نعت سرکار لکھ جانے کے آرزو مند ہیں۔‘‘(۴۰)
تذکرہ ہذا کی ایک اہم خصوصیت ڈاکٹر شہزاد احمد کے وہ تحقیقی حواشی ہیں جو ’’ضروری نوٹس‘‘ کے عنوان سے کلیات کے تعارف کے آخر میں دیے گئے ہیں۔ ان حواشی میں تصریحات بھی دی گئی ہیں اور مختلف اغلاط کی تصحیح اور درستی کی طرف بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ ان سے تذکرے کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے اور ساتھ ہی ڈاکٹر شہزاد احمد کی تحقیق کے میدان میں علمی وسعت اور بالغ نظری ظاہر ہوتی ہے۔ وضاحتی حاشیے کی ایک مثال دیکھیے جو مولانا غلام رسول قادری کے کلیات کے بارے میں ڈاکٹر شہزاد احمد نے بیان کی ہے:
’’کلیات قادری میں مولانا غلام رسول قادری کے بارے میں معلومات موجود نہیں البتہ ڈاکٹر صاحبزادہ فریدالدین قادری نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اپنے جد بزرگوار کا تفصیلی ذکر خیر کیا ہے۔‘‘ (۴۱)
اسی طرح ایک جگہ طاہر سلطانی کے متن کی غلطی کی نشان دہی کرتے ہوئے درست متن حاشیے میں درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’طاہر سلطانی کا مرتب کردہ تذکرہ ’’اردو حمد کا ارتقا، مطبوعہ ، جہان حمد پبلی کیشنز، کراچی ، ۲۰۰۴ئ)۶۳۲صفحات پر مشتمل ہے۔ اس تذکرے کے صفحہ ۱۰۳پر طاہر سلطانی نے بیدم وارثی کے حوالے سے تحریر کیا ہے۔ ’بیدم وارثی ۱۳۰۳ھ میں پیدا ہوئے، ۱۳۶۳ھ میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ تذکرہ شعرائے وارثیہ کے مرتب ساگر وارثی کے مطابق بیدم وارثی ۱۲۹۳ء مطابق ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے اور تاریخ وصال ، رمضان المبارک ۱۳۵۵ھ مطابق ۲۴نومبر ۱۹۳۶ء ہے۔ متذکرہ سال پیدائش اور تاریخ وصال کی روشنی میں طاہر سلطانی کی دونوں باتیں درست نہیں۔‘‘(۴۲)
ڈاکٹر شہزاد احمد کا ۶۱صفحات کا یہ تذکرہ نعتیہ کلیات کی روایت کو دائرہ تحقیق میں لانے کی اوّلین کاوش ہے۔ اگرچہ اس تذکرے میں تمام کلیات شامل نہیں ہیں لیکن اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اس میں کلیات کی ہیئت ، اشاعت اورمشمولات سے متعلق ساری بنیادی معلومات فراہم کر دی گئی ہیں جو ایک محقق کی ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ تحریر سادہ اورعام فہم انداز میں ہے۔ یہ تذکرہ شعبہ نعت میں نئے موضوعات کے روح افزا پیغام سے کم نہیں۔ امید ہے کہ مستقبل میں محققین نعت نعتیہ کلیات اور نعتیہ دواوین کی روایت کے تحقیقی جائزہ پر ضرور اپنی توانائیاں صرف کریں گے۔
حسن انتخاب
’’حسنِ انتخاب‘‘ خانوادۂ ریاض سہروردی کے شعرا کا تذکرہ ہے جن کی تعداد چھے ہے۔ چونسٹھ صفحات کے حامل اس تذکرے میں جلال چشتی نظامی، ریاض سہروردی، گوہر زریانی سہروردی، نیر سہروردی، قاری اعجاز سہروردی اور نجم سہروردی شامل ہیں۔ اس میں شعرا کے تعارف کے ساتھ نعتیہ انتخاب بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس کا انتساب علامہ قاری اعجاز سہروردی اور نجم سہروردی وشہاب سہروردی کے نام ہے اور اس کی اشاعت اکتوبر ۲۰۱۳ء میں عمل آئی۔
ڈاکٹر شہزاد احمد’’کلیات ریاض سہروردی‘‘ کی تدوین بھی کر چکے ہیں۔ اس کی تدوین کے دوران میں انھیں اس خاندان کی علم دوستی اور سخن گوئی کے بارے میں آگاہی ہوئی تو انھوں نے اس خاندان کی علمی روایت کو محفوظ کرنے کی ٹھان لی۔ وہ رقم طراز ہیں:
’’کلیات ریاض سہروردی کی تدوین وتحقیق کے دوران راقم نے یہ فیصلہ کیا کہ مجھ سے اس خانوادے کے بارے میں جو کچھ ہو سکے گا وہ ضرور کروں گا۔ میں نے اپنی روایت سابقہ کو برقرار رکھتے ہوئے حضرت ریاض سہروردی کی نعتیہ ، دینی و علمی خدمات کو شرح وبسط کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔‘‘(۴۳)
’’حسن انتخاب‘‘ میں انتالیس سخن پارے شامل ہیں جن میں حمد و نعت اور مناجات نمایاں ہیں۔ خاندان ریاض سہروردی میں شامل شعرا کا تعارف کرواتے ہوئے ڈاکٹر شہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’مفتی محمد جلا ل الدین چشتی نظامی زریانی سراجی کاشمیری ممتاز عالم دین ، اردو، عربی، فارسی اور کاشمیری زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ کڑھ کرم سنگھ سڑک پر ’’باب العلم حنفیہ نظامیہ‘‘ کے نام سے ایک دینی درس گاہ قائم کی۔ امرتسر(بھارت) میں آپ جامع مسجد محمد شاہ مرحوم میں امام وخطیب تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب سیدنا بہائوالدین زریانی ؒسے بحوالہ حضرت سیدناامام جعفر صادق سے امام عالی مقام سیدنا امام حسین ؓ سے ہوتا ہوا خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضیٰؓ شیر خدا ، دامادِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے جا ملتا ہے۔‘‘(۴۴)
جلال چشتی نظامی
ان کے کلام میں سادگی پائی جاتی ہے۔ ان کا بے مثل نعتیہ کلام ہے جو مردہ دلوں کو زندگی بخشتا ہے انھوں نے ایک مناجات اور نونعتیں لکھی ہیں۔ مناجات بہ درگاہِ قاضی الحاجات سے چند اشعار نمونے کے ملاحظہ فرمائیے:
این زماں جاں آفریں فریاد رس
ذنب بخشش مذنبیں فریاد رس
مذنبے ام غرقہ اندر بحر ذنب
مستغیثم مستعیں فریاد رس(۴۵)
ریاض سہروردی
ریاض سہروردی ۱۸، رجب المرجب ۱۳۳۷ئ، ۴،اپریل ۱۹۱۹ء میں جے پور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے بچپن کا آغاز نعت خوانی سے ہوا اور یہی آپ کی شناخت ٹھہری اور وجہ شہرت بھی بنی۔ ۱۶، اکتوبر ۱۹۸۰ء کو کراچی میں سب سے پہلا نعت کالج قائم کیا۔ ان کی تخلیقات کی بابت ڈاکٹر شہزاد احمد نے عمد ہ تحقیق پیش کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’ریاض رسولؐ (حصہ اوّل)،ریاض رسولؐ (حصہ دوم) ، ریاض رسولؐ (حصہ سوم) ، دیوانِ ریاض، تعریف و ثنائے محمد(انگریزی میں نعتیہ کلام ) ، عربی کلام، پنجابی کلام، غیر مطبوعہ کلام نعتیہ اور کلیات ریاض سہروردی سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ گلدستہ نعت (۱) گلدستہ نعت(۲)، گلدستہ نعت(۳) گلدستہ نعت(۴) گلدستہ نعت بھی طبع ہو چکے ہیں۔ دیگر اداروں نے بھی آپ کی نعتیہ کتب کو شایع کیا ہے۔ جس میں مجموعہ کلام ریاض، دیوانِ ریاض اورخزینہ ریاض شامل ہیں۔‘‘(۴۶)
ان کی دو حمدیںاور نونعتیں اس انتخاب میں شامل ہیں جن کے چند اشعار نمونے کے ملاحظہ ہوں:
اے عشق نبی میرے دل میں بھی سما جانا
مجھ کو بھی محمدؐ کا دیوانہ بنا جانا
جو رنگ کہ جامی پر ، رومی پہ چڑھایا تھا
اس رنگ کی کچھ رنگت مجھ پہ بھی چڑھا جانا(۴۷)
گو ہر زریانی سہر وردی
گو ہر زریانی سہر وردی ۲۴جنوری۱۹۲۴ء کو امر تسر (بھارت) میں پیدا ہوئے ۔ عربی ، فارسی ، صرف ونحو ،قرآن و حدیث اور علوم روحانی کی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی ۔ آپ حضرت مفتی جلال دین چشتی کے صاحبزادے اور حضرت ریاض سہر وردی کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ ان کا غیر مطبوعہ کلام ’’فیضانِ گوہر‘‘ کے نام سے خلیفہ غلام مصطفی سہروردی رحمتہ اللہ علیہ نے مرتب کیا ہے۔ (۴۸)
فیضان گوہر دو ابواب پر مشتمل ہے پہلے باب میں سوانح حیات اور خاندانی پس منظر موجود ہے اور دوسرے باب میں نعت ، سلام اور مناقب ہیں ۔ ایک سلام بدرگاہ ِ خیر الانامؐا ور پانچ نعتیں اُن کے اس انتخاب میں شامل ہیں ۔ ’’سلام بہ درگاہِ خیر الا نام صلی اللہ علیہ و آ لٖہ و سلم ‘‘ سے چند اشعار نمونے کے طورپر ملا حظہ ہوں :
حمد ذاتِ کبریا ہے
وہی لائق ثنا ہے
خالقِ ارض و سما ہے
مالک ہر دو سرا ہے
یا نبیؐ سلام علیکٰ
محفل مولودِ شاہ ہے
آمدِ دین پناہ ہے
ذرہ ذرہ جلوہ گاہ ہے
وردِ لب شام و پگاہ ہے
یا نبیؐ سلام علیکٰ(۴۹)
نیّر سہر وردی
نیر سہر وردی ۱۹۲۶ ء میں امر تسر بھارت میں پیدا ہوئے ۔ حضرت مفتی جلال الدین چشتی کے سب سے چھوٹے لخت جگر ہیں ۔ بچپن میں آپ کا رجحان غزلیات کی طرف تھا مذہبی گھر انہ ہونے کی و جہ سے جلد ہی غزل گوئی کو خیر با دکہا اور نعت کی طرف راغب ہو گئے
’’ مد حتِ مولا ئے کل ‘‘ نیر سہر ورد ی کے نعتیہ کلام پر مشتمل ہے جس میں حمد و منا قب بھی شامل ہیں ۔ فروری ۸ ۹ ۹ ۱ ء میں اردو کتاب گھر اردو بازار لاہور نے اسے بہت اہتمام سے شائع کیا ۔ یہ کتا ب 36=16×23کے سائز میں مجلد شا ئع ہوئی ۔ اس کے کل صفحات ۳۰۴ ہیں ‘‘(۵۰)
’’ حسن انتخاب ‘‘ میں نیر سہر وردی کی حمد با ری تعالیٰ اور سات نعتیں شامل ہیں ۔ نیرسہر وردی کی نعت کے چند اشعار ملا حظہ ہوں :
بڑی اُمید ہے سرکارؐ قدموں میں بلائیں گے
کرم ہو گا کبھی ہم پر، مدینے ہم بھی جائیں گے
نظر میں اس کی جلوے عرش اعظم کے سمائیں گے
درِ سرورؐ پہ جو سجدے عقیدت کے لٹائیں گے
قاری اعجازالدین سہروردی
اعجاز سہروردی اپنے والد علامہ ریاض سہروردی کے نورِ چشم ہونے کے علاوہ اُن کے حقیقی جانشین اور خلیفۂ مجاز بھی ہیں۔ اعجاز سہروردی یکم جنوری ۱۹۶۷ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ آپ ممتاز عالم دین ہونے کے علاوہ ایک خوش فکر شاعر بھی ہیں۔ نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
مصطفی آپؐ ہیں ، مجتبیٰ آپؐ ہیں میرے رب کے ہیں دلبر خدا کی قسم
آپؐ ہی تو ہیں دھڑکن میرے قلب کی، آپ ؐ ہی تو ہیں سرور خدا کی قسم
نجم الدین سہروردی
سید محمد نجم الدین سہروردی قاری اعجاز سہروردی کے بیٹے اور ریاض سہروردی کے پوتے ہیں۔آپ ۴ نومبر ۱۹۹۲ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔اُن کا ایک شعر پیش خدمت ہے:
رکھ لیجیے مجھ کو بھی سرکار مدینہ میں
ہو جائے مِرے آقاؐ گھر بار مدینہ میں
ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا
ڈاکٹر شہزاد احمد کو اللہ پاک نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایک محب وطن ہونے کے ساتھ ساتھ عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بھی ہیں۔ اس حوالے سے انھوں نے ’’ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا‘‘ کا تذکرہ لکھا جس میں اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں اور نبی کریمؐ کے مقدس ناموں کو ننانوے اور ایک سو ایک کے اعداد کی خصوصی نسبت سے ظاہر کیا گیا ہے۔ انھی دوعظیم ہستیوں کی برکات سمیٹنے کے لیے پاکستانی نعت گو شعرا کا تذکرہ و انتخاب مرتب کیا گیا ہے۔
’’ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا‘‘ کو ڈاکٹر شہزاد نے تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب میں انتساب ، فہرست اور کتاب کا مقدمہ شامل کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میںجس شاعرکا انتقال پہلے ہوا ہے اس کو پہلے درج کیا گیا ہے اور جس کا انتقال بعدمیں ہوا ہے اس کا اندراج بعد میں کیا گیا ہے۔
مرحوم شعرا کے تذکرے میں پچپن ۵۵شخصیات شامل ہیں جن میں پہلے شاعر سیماب اکبر آبادی ہیں جو ۳۱جنوری ۱۹۵۱ء کوکراچی میں فوت ہوئے جب کہ آخری شاعر نصیر احمر ہیںجن کا انتقال ۷نومبر ، ۲۰۱۶ء کو ہوا۔ ان مرحوم شعرا کے نام درج ذیل ہیں:
’’سیماب اکبرآبادی، اکبر وارثی ، نیرحامدی، حامد بدایونی، ضیاء القادری بدایونی، بہزاد لکھنوی ، عزیز جے پوری، حافظ مظہر الدین، اختر الحامدی، منوربدایونی، ستار وارثی ، خلیل برکاتی، شاعر لکھنوی، درداسعدی ، صبااکبر آبادی، حبیب نقشبندی، عنبروارثی، اعظم چشتی، سکندر لکھنوی ،حبیب جالب، کوثر نیازی، محشر بدایونی، ڈاکٹرآفتاب احمد نقوی، شمس بریلوی، قمرالدین احمدانجم، محمد علی ظہوری، کاوش وارثی، شیخ محمد ابراہیم صائم چشتی، سیدمحمد شریف الدین نیر سہروردی، اقبال عظیم، ریاض سہروردی، فدا خالدی دہلوی، عبدالستار نیازی نقشبندی، مسرور کیفی، عبدالحفیظ تائب ، ادیب رائے پوری، احمد ندیم قاسمی، انصار الٰہ آبادی، رفیق عزیزی، عابد بریلوی، نصیر الدین گیلانی، رشید وارثی، راغب مراد آبادی، مظفر وارثی، جمیل عظیم آبادی، شفیق بریلوی، پروفیسر محمد اکرم رضا، رہبر چشتی، مہروجدانی، نذر صابری ، طارق سلطان پوری، سوزڈیروی، کوثر بریلوی اور نصیر احمر ہیں۔‘‘
باب سوم میں ترتیب کو شعرا کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے درج کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے پہلا نام ابوالامتیاز ع س مسلم کا ہے جن کی تاریخ پیدائش ۸،اپریل ۱۹۲۲ء کی ہے اور آخری نام سرور حسین نقشبندی کا ہے۔ وہ ۲۴،اپریل ۱۹۷۶ء کو پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہر شاعر کے لیے چار صفحات مختص کیے ہیں۔ ان میں سے دو پر تعارف درج کیا ہے اور دو میں نعتوں کا انتخاب پیش کیا ہے۔ اس تذکرے میں شامل حیات شعرا کے نام یہ ہیں:
’’ابوالامتیاز ع س مسلم، حسن عسکری، گوہر ملسیانی، شیخ صدیق اللہ ظفر ، اعجاز رحمانی، مرزا رفیع الدین بیگ راز، شارب محمود ،جاذب قریشی، جبران انصاری، خالد محمود، ریاض حسین رزمی، ریاض مجید ، افتخارعارف ، پروفیسر حسن اکبر کمال، خیال آفاقی، عزیز احسن، تنویرالدین احمد صدیقی پھول، رضی عظیم آبادی، حافظ عبدالغفار ، ڈاکٹر نثار احمد ، گستاخ بخاری، عطار قادری، شاکر کنڈان، رضوی امروہوی، نجمی ،جامی راہی چاٹگامی، ڈاکٹر احمد فاتح ، خالد عرفان ، ندیم نقشبندی، عزیزمعینی، احمدخیال، شاکر القادری، نصیربدایونی، یامین وارثی، صبیح رحمانی، منظر عارفی، عزیز الدین خاکی، شاعر علی شاعر، اعجاز سہروردی، محمد ابراہیم حسان ، ندیم نیازی، منظر پھلوری اور سرور نقشبندی۔‘‘
ڈاکٹر شہزاد احمد کی تذکرہ نگاری کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ شاعر کے ذاتی حالات کی جزئیات تک نہایت خوبی سے بیان کرتے ہیں۔ شاعر کی تاریخ پیدائش ، اُس کا خاندانی احوال، اس کا بچپن ، تعلیمی کوائف اور سماجی زندگی کا اُتار چڑھائو ، شاعر کے کلام کو سمجھنے میں مدد گار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جب کسی شاعر کا احوال بیان کرتے ہیں تو مذکورہ خصوصیات کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں۔ سیماب اکبر آبادی کے ابتدائی حالات کے بارے میں ڈاکٹر شہزاد احمد رقم طراز ہیں:
’’سیماب اکبر آبادی نے ابتدائی تعلیم اس دور کے جید اساتذہ سے حاصل کی۔ شاعری گھٹی میں پڑی تھی۔ عربی، فارسی کی کتابیں پڑھنے کے بعد انگریزی اسکول میں داخل ہوئے۔ ابھی وہ ایف اے کا آخری امتحان بھی نہ دینے پائے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ فرزند اکبر ہونے کی وجہ سے تمام بار اُن کے ناتواں کاندھوں پر آن پڑا۔ ریلوے میں ملازم ہو گئے۔ کچھ عرصہ کان پور اور اجمیر شریف میں بھی رہے۔‘‘(۵۱)
ان کے تذکروں میں جو خاصیت نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ شاعر کے بارے میں بنیادی معلومات اسناد کے ساتھ فراہم کرتے ہیں جیسے: شاعر نے اپنی زندگی کہاں اورکن کاموں میں بسر کی۔ شاعر کے سلسلہ تعلیم اور روزگار کے نشیب وفراز کو بنظر عمیق اُجاگر کرتے ہیں یوں موصوف شاعر کی عملی زندگی کے درجہ بہ درجہ ارتقا کی تصویر پیش کرتے جاتے ہیں۔ شمس بریلوی کی ملازمت کے سلسلہ میں ڈاکٹر شہزاد احمد رقم طراز ہیں:
’’شمس بریلوی نے تدریس کا آغاز سترہ سال کی عمر میں مدرسہ منظرالا سلا م میں ۱۹۳۵ء سے شعبہ فارسی میں بحیثیت استاد کیا اور ۱۹۴۵ء تک خدمات انجام دیں۔ جب انھوں نے مدرستہ منظرالاسلام کو۱۹۴۵ء میں خیرباد کیا تو اس وقت موصوف شعبہ فارسی کے صدر تھے۔ ۱۹۴۵ء تا ۱۹۵۴ء بریلی کے اسلامیہ کالج میں اُستاذ کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۵۶ء میں پاکستان تشریف لے آئے۔ کراچی ائیر پورٹ پر گورنمنٹ اسکول ائیرپورٹ میں ملازمت کا آغاز کیا اور ۱۹۷۵ء میں اس ملازمت سے سبک دوش ہوئے۔‘‘(۵۲)
ڈاکٹر شہزاد احمد نے اس تذکرے میں شعرا کے تخلیقی سفر کے تمام اہم سنگ میل بیان کردیے ہیں۔ انھوں نے جس عرق ریزی سے شعرا کی تخلیقات کے تعارف کو لازم پکڑا ہے۔ اُن کا یہ تذکرہ نعت کی ادبی تاریخ کا ایک مستند باب بن گیا ہے جس سے آئندہ نسلیں یقینا استفادہ کریں گی۔ وہ محض ایک شاعری کے مجموعے کا نام ہی نہیں بیان کرتے بل کہ سال اشاعت اور ناشر کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ مثال میں یہ اقتباس دیکھیے جس میں انھوں نے نیر سہروردی کی تخلیقات کا ذکر بڑے انہماک سے کیا ہے۔
’’نیر سہروردی کی ’’مدحت مولائے کل‘‘ کلام نعتیہ پر مشتمل ہے جس میں حمد و نعت اور مناقب بھی شامل ہیں۔ فروری ۱۹۹۸ء میں اُردو کتاب گھر اُردوبازار ،لاہور نے اسے بہت اہتمام سے شایع کیا۔ یہ کتاب 23x36=16کے سائز میں مجلد شایع ہوئی ہے۔ اس کے کل صفحات ۳۰۴ہیں۔ ان کی نعت گوئی میں جذب واثر کے اثرات موجود ہیں۔ اس عاجز نے خانوادہ ریاض سہروردی کا مختصر نعتیہ انتخاب ’’حسن انتخاب‘‘ کے نام سے مدون کیا ہے جس میں اس خانوادے کے چھ شعرا کا نعتیہ کلام اور اجمالی تعارف موجود ہے۔ حضر ت ریاض سہروردی کے خانوادے کے حوالے سے یہ ایک معلومات افزا کام ہے۔‘‘(۵۳)
ڈاکٹر شہزاد احمد کا یہ تذکرہ شعرا کے سوانحی خاکے اور تعلیمی کوائف کے علاوہ کلام کے بارے میں تنقیدی اشارات کا بھی حامل ہے۔ انھوں نے شاعر کے کلام پر اپنی رائے دیتے ہوئے نمائندہ محاسنِ سخن اُجاگر کرنے کی سعی کی ہے۔ اُن کے یہ تبصرے خالص تنقید میں شامل نہیں کیے جا سکتے۔ البتہ شاعر کے بارے میں رائے قائم کرنے میں معاون ضرور ہیں۔ عام طورپر انھوں نے شاعر کے لفظی اسلوب اورموضوعاتی فکر کی طر ف اشارے کیے ہیں:
خدا کا ذکر کرے ، ذکر مصطفی نہ کرے
ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے(۵۴)
(ادیب رائے پوری)
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے ، یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا(۵۵)
(احمد ندیم قاسمی)
سلام اس پر ، کہ نام آتا ہے بعد اللہ کے جس کا
سلام اُس پر مقام آتا ہے ، بعد اللہ کے جس کا (۵۶)
(راغب مراد آبادی)
اس کے علاوہ اس کتاب میں چند نئے شعرا بھی شامل ہیں۔ عہد موجود کے شعرا کے کلام کے انتخاب میں ڈاکٹر شہزاد نے اپنے ذوق نظر پر انحصار کیا ہے۔ چھوٹی بڑی بحریں دونوں اُن کے حسن انتخاب میں شامل ہیں۔ اُن کی منتخب کردہ نعتوں میں ترنم اور غنایت کا عنصر فراواں ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب خود خوش گلو نعت خواں ہیں۔ ان کا ذوقِ نعت خوانی اُن کے انتخاب سے جھلکتادکھائی دیتا ہے۔ مثال میں رہبر چشتی کے یہ مترنم اشعار دیکھیے:
والیل ضیائے زلف دوتا ، رُخسار کا عالم کیا ہو گا
اے ذاتِ رسالت رُخ کے ترے انوار کا عالم کیا ہو گا
جب اُن کے غلاموں کے در پر جھکتی ہے شہنشاہوں کی جبیں
یہ سوچتا ہوں پھر آقاؐ کے دربار کا عالم کیا ہو گا(۵۷)
اس تذکرے میں بعض شعرا ایسے بھی شامل ہیں جو صاحبِ کتاب نہیں لیکن نعتیہ ادب کے فروغ میں اُن کا کردار مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آفتاب نقوی کا کوئی نعتیہ مجموعہ شایع نہیں ہوا مگر وہ جذبۂ عشق رسول کریمؐ سے سرشار ہیں جس کا ثبوت ادبی مجلہ ’’اوج‘‘ کے نعت نمبر ہیں۔ ڈاکٹر شہزاد نے آفتاب نقوی کے کلام کو شامل انتخاب کرکے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور ساتھ ہی غیر مطبوعہ کلام کو محفوظ کرنے کا فریضہ بھی انجام دیا ہے۔ آفتاب نقوی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
جس کا قصیدہ خالق عرشِ بریں کہے
ایسا حسین حسن بھی جس کو حسیں کہے
ہے ماورائے عقل و خرد اُن کا مرتبہ
ذات اُن کی بے مثال ہے ، روح الامیں کہے(۵۸)
اسی طرح شاکر القادری بھی ایک معروف نام ہے ۔ وہ اٹک سے کتابی سلسلہ ’’فروغِ نعت‘‘نکالتے ہیں۔ اُن کا نعتیہ مجموعہ ابھی تک شایع نہیں ہوا۔ اُن کے بارے میں ڈاکٹر شہزاد احمد لکھتے ہیں:
’’سہ ماہی’’فروغِ نعت‘‘ میں آپ کی اکثر اردو اور فارسی نعتیں مشام جاں کو معطر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ آپ کا مجموعہ نعت ابھی طبع نہیں ہوا ہے۔‘‘(۵۹)
شاکر القادری کی نعت کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
کچھ ایسی لطف و کرم کی ہوا چلی تازہ
کہ میرے دل میں کھِلی نعت کی کلی تازہ
حرم کی تیرہ شبی جس سے مستنیر ہوئی
حرا کی کوکھ سے پھوٹی ہے روشنی تازہ(۶۰)
خانوادہ اعلیٰ حضرت کے نعت گو شعرا
یہ تذکرہ اعلیٰ حضرت کے خاندان کے چھے شعرا پر مبنی ہے۔ یہ تمام شعرا صاحب کتاب ہیں۔ ان میں مولانا احمد رضا خان بریلوی، مولانا حسن رضا خان بریلوی، مولانا حامد رضا خان بریلوی، مولانامحمد مصطفی رضا خان نوری بریلوی،مولانا محمد ریحان رضا خان بریلوی،مولانا اختر رضا خان الازہری بریلوی شامل ہیں۔
یہ تذکرہ معروف نعت خواں محمد صدیق اسماعیل کے مرتب کردہ نعتیہ انتخاب’’رنگ رضا‘‘ میں شامل ہے۔رنگِ رضا میں مرتب نے مذکورہ چھے شخصیات کے نعتیہ مجموعہ ہائے کلام یک جا کر کے ان نایاب نسخوں کو از سر نو زندہ کر دیا ہے۔ ڈاکٹر شہزاداحمد نے شعرائے خاندان رضا کے بارے میں بڑی اہم اور مفید معلومات فراہم کی ہیں۔ اُن کے شخصی حالات، دینی خدمات اور شعری تخلیقات کا تعارف اس تذکرے کی وقعت میں اضافہ کرتا نظر آتا ہے۔ اُنھوں نے شعرا کی کتابوں کے جو نام پیش کیے ہیں ان کی تفصیل ملاحظہ ہو:
٭ حدائق بخشش اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی
٭ ذوقِ نعت حضرت مولانا حسن رضاخان بریلوی
٭ بیاضِ پاک حجتہ الاسلام مولانا حامدرضاخان بریلوی
٭ سامانِ بخشش مولانا محمد مصطفی رضاخان نوری بریلوی
٭ ریحانِ بخشش حضرت مولانا محمد ریحان رضاخان بریلوی
٭ سفینۂ بخشش حضرت مولانا اختر رضاخان الازہری بریلوی
ڈاکٹر شہزاداحمد نے مذکورہ شعرا اور ان کی تخلیقات کے بارے میں بھرپور تعارف پیش کیا ہے۔ اُنھوں نے حسبِ روایت مجموعہ ہائے کلام کے اشاعتی ادارے ، سالِ اشاعت اور دیگر ضروری معلومات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہر مجموعے کے بارے میں ان کی معلومات گہری اور مستند ہیں۔وہ باریک سے باریک پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرتے۔سفینہ بخشش کے بارے میں تفصیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سفینہ بخشش کے نام سے حضرت مولانا اختررضاخان الازہری بریلوی مدظلہ العالیٰ کا کلام نعتیہ برکاتی پبلشرز کھارادر ، کراچی نے ستمبر ۱۹۹۰ء میں (پاکٹ سائزمیں) شایع کیا۔ اس سے پہلے یہ کلام ’’نغماتِ اختر‘‘ کے نام سے ہندوستان میں شایع ہوتا رہا۔ ’’سفینہ بخشش ‘‘(۱۴۰۷ھ) میں نعتیں، مناقب اور نظمیں موجود ہیں۔ ‘‘(۶۱)
بارگاہِ رسالت کے نعت گو
ڈاکٹر شہزاد احمد کا یہ تذکرہ ماہ نامہ ’’حمد ونعت‘‘ کراچی میں قسط وار شایع ہوا۔ یہ نعت کی روایت پر مبنی تذکرہ ہے اور اس میں ساری دنیا کے نعت گو شعرا شامل ہیں۔ یہ علاقائی اور لسانی حدبندیوں سے ماورا نعت کا آفاقی نوعیت کا تذکرہ ہے جو تا حال مکمل طور پر شایع نہیں ہو سکا۔ اس کی صرف تین اقساط اشاعت سے ہم کنار ہو ئی ہیں ۔ پروفیسر فیاض کاوش وارثی اور انوار عثمانی کی طرح اس میں اکثر شاعر کراچی سے باہر کے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی شعرا کو شامل تذکرہ کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر شہزاد احمد تذکرہ نگاری کے شناور ہیں ۔’’بارگاہ رسالت کے نعت گو‘‘ ایک ایسا تذکرہ تھاجس میں صدی بہ صدی نعت گوئی کا جائزہ پیش کیا جاتا۔ پہلی صدی ہجری کے اہم نعت گو شعرا، تعار ف اور خدمات کے ساتھ۔ اسی طرح سے دوسری صدی ہجری پھر یہ تذکرہ چودہ صدی ہجری تک دراز تھا۔ بلاشبہ بارگاہِ رسالت کے نعت گو ایک بین الاقوامی تذکرہ تھا جو صرف تین اقساط میں شائع ہوسکا۔
ایک انٹرویو میںاُنھوں نے کہا کہ ان شاء اللہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمت اور مہلت دی تو تذکرہ خواتین کی نعتیہ شاعری کے بعد ضبطِ تحریرمیں لایا جائے گا۔عہدِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے لے کر آج تک نعت گو شعرا کی ایک تاریخ رقم ہوگی۔ واضح رہے کہ اس میں عہدِ رسالت کی خواتین کے علاوہ دیگر نعت گو شاعر ات بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد احمد نے علاقائی نعتیہ تذکرے ’’کراچی میں نعت رسول‘ؐ‘ اور’’ حیدر آباد (سندھ) کے نعت گو‘‘ اور ملکی سطح پر ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا کے عنوان سے تذکرے ترتیب دیے ہیں جو اشاعت سے ہم کنار ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے تذکرے نعتیہ ادب میں اہمیت کے حامل ہیں اور ہمہ وقت موضوع بحث اور حوالے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔
ب:انتخاباتِ نعت کا جائزہ
کوئی بھی شعری انتخاب مرتب کے ذوق کا آئنہ دار ہونے کے علاوہ اُس عہد کی نمائندہ تخلیقات کا عکاس ہوتا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد نے شعبہ نعت میں اپنے عہد کے معروف نعتیہ کلام کو محبانِ نعت تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اُن کے نعتیہ انتخابات کی تعداد ۴۹ کے قریب ہے لیکن خوش آئند امر یہ ہے کہ یہ نعتیہ انتخابات یکسانیت کے حامل نہیں ۔ انھوں نے پہلی بار کسی نعت خواں کی پڑھی ہوئی نعتوں کا انتخاب کر کے ایک نئی طرز کی بنیاد رکھی ۔ اس کی مثال زمزمہ نعت ہے جو معروف نعت خواں نصراللہ نوری کی پڑھی ہوئی نعتوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے خواتین کی نعتیں ، پنجابی نعتیں، نعتیہ سلام اور تضامین کے انتخاب کر کے فروغِ نعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔نعتیہ ادب کی تاریخ پر مبنی اُن کا انتخاب ’’انوارِ عقیدت‘‘ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر مشتمل ہے۔فرداًفرداً سب کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں یہاں اُن کے مرتب کردہ انتخابات کی فہرست دی جا رہی ہے۔
فہرست انتخاب نعت، مرتبہ ڈاکٹر شہزاد احمد
نمبر شمار
نام انتخاب
اشاعتی ادارہ
سال اشاعت
صفحات
-1
ارمغان خاکی
مکتبہ حمدو نعت ، کراچی
2003ء
120
-2
اُن کا چرچا رہے گا
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
2001ء
64
-3
آقا مدینے والے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
2001ء
64
-4
پھرمدینے چلا
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
2001ء
64
-5
شاہِ زمنی مکی مدنی
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
2001ء
64
-6
مدینے کی تمنا
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
2001ء
64
-7
مدینے کی گلی
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
2001ء
64
-8
ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
2001ء
64
-9
نوائے رضا
مکتبہ غریب نواز، الٰہ آباد، انڈیا
1982ء
64
-10
نوائے رضاؔ
انجمن یارسول اللہ(ٹرسٹ) شاہ فیصل کالونی نمبر:3 ،کراچی
1982ء
: 64
-11
انوار عقیدت
انٹرنیشنل حمدونعت فائونڈیشن ،کراچی
2000ء
272
-12
سلام رضا
پاکستان بزم نعت، ہاجرہ آباد شاہ فیصل کالونی، نمبر :3، کراچی
1983ء
64
-13
النبی صلواعلیہ
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
: 96
-14
پیغام صبالائی ہے گلزارِ نبی سے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
96
-15
دھوم مچا دو آمد کی
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
96
-16
سلام رضا
انجمن ترقی نعت، اُردوبازار،کراچی
سن ندارد
64
-17
شہِ دیں کو دل میں
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
64
-18
میں سوجائوں یا مصطفی کہتے کہتے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
96
-19
آقا آقا بول بندے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
64
-20
آئی اجل کو ٹالنے والے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-21
آئی نسیم کوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-22
بگڑی بنائو مکی مدنی
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
64
-23
تیرے قدموں میں آ نا
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-24
جشن آمد رسول اللہ ہی اللہ
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-25
چراغِ بزم ایماں ہو
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
64
-26
خلق کے سرور شافع محشر
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-27
خواتین کی مشہور نعتیں
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
64
-28
خوشبو ہے دوعالم میں
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-29
درود لب پر سجاسجا کر
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندادر
32
-30
رحمت کا درکھلا ہے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-31
رسول مجتبیٰ کہیے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-32
روضۂ انور دکھائیے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
:
-33
صرف اُن کی رسائی ہے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-34
طیبہ کی زیارت
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-35
کملی میں چھپالو
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-36
گنبدخضرا نظر آئے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-37
محمد شمعِ محفل
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
64
-38
مشہور پنجابی نعتیں
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
64
-39
میرادل تڑپ رہا ہے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-40
میری جان مدینے والے
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-41
نعمتیں بانٹتاجس سمت
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-42
نوائے ر ضا( اضافہ شدہ)
انجمن ترقی نعت اردوبازار،کراچی
سن ندارد
64
-43
یا محمد محمد میں کہتا رہا
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-44
یارب تیرے محبوب کا
شمع بک ایجنسی ، اُردوبازار، کراچی
سن ندارد
32
-45
نوائے نعت
انجمن ترقی نعت اردوبازار،کراچی
1985ء
96
-46
لاکھوں سلام
انجمن ترقی نعت اُردو باز ا ر ، کر ا چی
1986ء
32
-47
منتخب نعتیں(ستار وار ثی)
انجمن ترقی نعت اُردو بازار ، کر ا چی
1992ء
112
-48
زمزمہ نعت (نصراللہ نوری کی پڑھی نعتیں)
انجمن ترقی نعت اردو بازار، کراچی
1981ء
104
-49
ارمغانِ ادیب
(ادیب رائے پوری)
قطب مدینہ، پبلشرز ،کراچی
2002ء
144
چند اہم انتخابات ِ نعت
ڈاکٹر شہزاداحمد کی ساری زندگی فروغِ نعت میں گزری ہے۔اُن کا پہلا نعتیہ انتخاب ۱۹۸۱ء میں منظر عام پر آیا جب اُن کی عمر اکیس برس تھی اور وہ آج تک اُسی جوش و جذبے سے نعتیہ ادب کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں کہ جس جذبے سے اُنھوں نے آغاز کیا تھا۔ اُن کے چند نعتیہ انتخابات کا خصوصی جائزہ ذیل کی سطور میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ان انتخابات کے نام درج ذیل ہیں:
٭ زمزمۂ نعت ٭ نوائے رضا
٭ سلامِ رضا ٭ انوارِ عقیدت
٭ ہمارا نبی ٭ چراغِ بزمِ ایماں ہو
٭ خواتین کی مشہور نعتیں ٭ پنجابی نعتیں
٭ وہی خدا ہے
زمزمۂ نعت
زمزمۂ نعت ڈاکٹرشہزاداحمد کے اس دور کا یادگار انتخاب ہے جب وہ نعت خوانی سے نعت شناسی کی طرف مائل ہو رہے تھے۔ یہ انتخاب۳جولائی ۱۹۸۱ء کو منظر عام پر آیا۔یہ انتخاب اس دور کے کم سن مگر مقبول ثنا خوانِ رسول نصراللہ خاںنوری کے لیے ایک ڈائری پر مرتب کیا گیا۔ اُن دنوں ڈاکٹر صاحب معروف خطاط اور نعت گو حکیم عبدالرشید پریمی اجمیری سے فن کتابت سیکھ رہے تھے۔ پریمی اجمیری روزنامہ جنگ کراچی میں معکوس نویس تھے۔ڈائری بھی ان کے فن کتابت کو پختہ کرنے کا ایک ذریعہ تھی۔اس لیے ڈاکٹر صاحب نے اس انتخاب کی کتابت کا فریضہ خودانجام دیا ۔
یہ انتخاب نعتیہ ۱۰۴صفحات پر مبنی ہے۔ اس میں ۱۱ حمدیں ، ۶۲نعتیں، ۱۳سلام بدرگاہِ خیر الانام، ۱۲مناقب خلفا ئے راشدین ، ۵ مناقب اہل بیت ،۱۰ مناقب اولیا اللہ ،۲ سلام بحضور سید نا امام عالی مقام شامل ہیں۔یہ انتخاب ہنوزتشنہ طبع ہے۔ اس کا ایک مسودہ حمد ونعت ریسرچ فائونڈیشن ،کراچی کے کتب خانے میںبھی محفوظ ہے۔ اس انتخاب میں موجود نعتوں کے شعرا اور اُن کے مآخذ کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ اس میں زیادہ تر نعتیں حدائق بخشش اور ذوقِ نعت سے اخذ شدہ ہیں۔
نوائے رضا
یہ نعتیہ انتخاب معروف شعرا کے نعتیہ کلام پر محیط ہے اور ۶۴ صفحات کا ہے۔ یہ انتخاب پہلی بار کراچی سے ۱۹۸۲ء میں شایع ہوا۔ اس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ انتخاب مشہور نعتوں پر مبنی ہے اور ڈاکٹر شہزاد احمد کے استاد محترم مولانا اختر الحامدی کی پہلی برسی کے موقع پر شایع کیا گیا۔(۶۲)
اس انتخاب کا عنوان مولانا احمد رضاخان بریلوی کی معروف نعت ’’لم یَاتِ نظیرک فیِ نظر‘‘ کے مقطع سے ماخوذ ہے۔ مقطع ملاحظہ ہو:
بس خامہ خام نوائے رضاؔ نہ یہ طرز مری نہ یہ رنگ مرا
ارشادِ احبا ناطق تھا ناچار اس راہ پڑا جانا( ۶۳)
اُس دور میں ڈاکٹر شہزاد احمد انڈیا کے نعتیہ ادب کے سرکردہ احباب سے رابطے میں رہتے تھے اور اُن کی ہر کتاب انڈیا کے نعتیہ حلقوں میں دیکھی جاتی تھی۔ مفتی شفیق احمد شریفی نے ’’نوائے رضا‘‘ کا دوسرا ایڈیشن جناب مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان نوری بریلوی کے پہلے عرس کے موقع پر مکتبہ غریب نواز اٹالہ الٰہ آباد سے ایک لاکھ کی تعداد میں شایع کیا(۶۴)
سلامِ رضا
سلام رضا (انتخاب سلام) انجمن ترقی نعت ، اے ۸، روشن آباد، شاہ فیصل کالونی نمبر ۵، کراچی کے زیراہتمام ۱۹۸۳ء میں شایع ہوا۔اس کے کل صفحات۶۴ہیں۔ زیر نظر مجموعہ ’’سلام رضا‘‘ قدیم وجدید شعرائے کرام کے وجد آفرین ومشہور زمانہ سلاموں پر مشتمل ہے۔ اس مجموعہ سلام کو نعت خواں حضرات کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔ مرتب کی اس سے پہلے بھی دوکتابیں ’’نوائے رضا‘‘ اور ’’نوائے نعت‘‘ (منتخب نعتیں) کے نام سے شایع ہوچکی تھیں۔ اس انتخاب سلام بدرگاہِ خیر الانام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خوبی یہ ہے کہ مرتب ماہِ رمضان المبارک میں ہر روز ایک نیا سلام بعد نمازِ فجر مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ ہر سلام نئی طرز اور مختلف شعرا کا ہوتا تھا جس سے صلوٰۃ وسلام پڑھنے کی ایک نئی تحریک شروع ہو گئی تھی۔
انوارعقیدت
انوارعقیدت ڈاکٹر شہزاداحمد کے چند معروف نعتیہ انتخابات میں سے ایک ہے ۔ یہ انتخاب انٹرنیشنل حمد و نعت فائونڈیشن (ٹرسٹ) کراچی کے زیر اہتمام جون ۲۰۰۰ء میں شایع ہوا۔ یہ غیر مجلد انتخاب ۲۷۲صفحات کا ہے اور اس میں ۲۹۹ شعرا کا کلام شامل ہے۔ یہ سہ لسانی انتخاب ہے۔ اس میں عربی ، فارسی اور اُردو کلام منتخب کیا گیا ہے۔
عربی شاعری میں’’حسان بن ثابتؓ، امام زین العابدینؓ، نعمان بن ثابتؒ (امام ابوحنیفہ) اور محمد بن سعید بوصیریؒ کا کلام لیا گیا ہے۔ فارسی میں جن شعرا کو شامل انتخاب کیا گیا ہے ان میں’’شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ ، خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیریؒ، مولانا جلا ل الدین رومیؒ، شیخ مصلح الدین سعدی شیرازیؒ، خواجہ نظام الدین اولیا محبوب الٰہیؒ ، حضرت امیر خسرو دہلویؒ، مولانا نورالدین عبدالرحمن جامیؒ، حاجی جان محمد قدسیؒ، شاہ نیاز بریلویؒ اور میرزا اسد اللہ خاں غالب ‘‘ شامل ہیں۔ اس انتخاب کی غرض و غایت کے بارے میں ڈاکٹر شہزاد احمد کتاب کے دیباچے ’’ اظہارخیال ‘‘میں لکھتے ہیں:
’’انوارِ عقیدت بارگاہِ رسالت مآبؐ میں پیش کردہ ایک عاجزانہ انتخاب نعت ہے جس میں کوشش کی گئی ہے کہ ہر دور کی نمائندہ نعتیں شامل ہو جائیں۔‘‘(۶۵)
انوارِ عقیدت کے پہلے اُردو شاعر میرتقی میر اور سب سے آخری شاعر ڈاکٹر شہزاد احمد خودہیں۔ ان دونوں نعتوں کے مطالع درج ذیل ہیں:
جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا
دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسولؐ کا
(ڈاکٹرشہزاداحمد )
چراغِ بزم ایماں ہو ، حبیبی یا رسولؐ اللہ
امیر بزمِ دوراں ہو ، حبیبی یا رسولؐ اللہ
یہ انتخاب ہندوپاک کے شعرا کے کلام کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس میں اُردو غزل کے چند معروف نام بھی شامل ہیں۔ ان میں اکبر الہ آبادی ، داغ دہلوی، حسرت موہانی، جگر مراد آبادی ، جمیل الدین عالی اور عارف عبدالمتین نمایاں ہیں۔ داغ کے دو شعر دیکھیے:
کرو غم سے آزاد یا مصطفی
تمھیں سے ہے فریاد یا مصطفی
زباں پر ترا نام جاری رہے
کرے دل تری یاد یا مصطفی(۶۶)
اب جگر مراد آبادی کی اُس نعت کے دو شعر دیکھیے کہ جسے پڑھنے سے پہلے مجمع شور مچاتا رہا اور جب جگر نے روتے روتے نعت پڑھی تو سارا مجمع زارو قطار رونے لگ گیا۔
اک رند ہے اور مدحت سلطانِ مدینہ
ہاں کوئی نظر رحمت سلطانِ مدینہ

تو صبح ازل آئنہ حُسنِ ازل بھی
اے صل علیٰ صورتِ سلطانِ مدینہ(۶۷)
ڈاکٹر شہزاد احمد کے اس انتخاب کو نہ صرف عوامی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی بل کہ شعبہ نعت کے نامور محققین نے بھی اس کی ستائش کی ہے۔ اُردو نعت کے سب سے پہلے پی ایچ ڈی پروفیسر ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق اپنے ایک خط میں ڈاکٹر شہزاداحمد کوحوصلہ افزا کلمات سے نوازتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آپ نے اپنے اس انتخاب کے ذریعے نہایت مفید کام انجام دیا ہے کہ جو معیاری نعتیہ کلام مختلف کتابوں میں تلاش اور کاوش کے بعد دستیاب ہوتا ہے ، اسے یکجا کر دیا ہے اور پڑھنے والوں کے لیے بڑی آسانی فراہم کر دی ہے۔ اس لحاظ سے اس انتخاب کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس تعلق سے آپ کی اس سعی بلیغ کی داد نہ دینا علمی و ادبی انصاف کے منافی ہے۔‘‘(۶۸)
نعتیہ ادب میں یہ ایک وسیع انتخاب ہے۔ اس میں عربی اور فارسی نعت کا انتخاب بڑا کم ہے لیکن اُردو نعت کی روایت پر خصوصی توجہ مرکوز کی گئی۔ کاروان نعت کے دور جدید کے سبھی بڑے نام اس انتخاب کا حصہ ہیں، البتہ اردو ادب کے آغاز سے جنوبی ہند اور شمالی ہند دونوں سے اہم نام شامل انتخاب نہیں ہیں۔ قدیم شعرا کی عدم موجودگی تشنگی کا باعث ٹھہری ہے۔ اس میں قلی قطب شاہ اور علی عادل شاہ ثانی شاہی جنھوں نے نعتیہ قصیدے لکھے ہیں وہ شامل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس دور کے دیگر بڑے نام نظر نہیں آتے۔ میرؔسے پہلے ولی اور میر کے بعد سوداؔ ، دردؔ، مصحفی ، آتش، ممنون اور مومن کے کلام کے بغیر ادھورے پن کا احساس نمایاں ہے۔ ان شعرائے مذکور کے ہاں خوب صورت نعتیہ کلام دستیاب ہے جسے شامل کیا جاتا تو انتخاب کی وقعت مزید بڑھ جاتی۔ یوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے زیادہ کاوش سے کام نہیں لیا۔ انتخاب کی خاص بات قیام پاکستان کے بعد کا نعتیہ منظر نامہ ہے جسے نہایت عرق ریزی سے مرتب کیا گیا ہے۔
عام طور پر غزلیہ ہیئت کی نعتیں اس کتاب میں شامل ہیں لیکن کوئی قید نہیں لگائی گئی کہ اور کوئی ہیئت شامل نہیںہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ مسدس اورسلام بھی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ عبدالرحمان عرف محمد میاں جو رحمان کیانی کے قلمی نام سے معروف ہیں۔ اُن کے مسدس سے ایک بند ملاحظہ ہو:
لوگو سنو! جناب رسالت مآبؐ میں
شانِ رسولؐ صاحبِ سیف و کتاب میں
ماحی لقب نبیِ ملاحم کے باب میں
کرتا ہوں فکر مدح تو جوش خطاب میں

مصرع زباں پہ آتا ہے زورِ کلام سے
تلوار کی طرح سے نکل کر نیام سے(۶۹)
انتخاب نعت کے لیے مرتب کا آداب نعت، موضوعات نعت ، نعت و منقبت میں حفظ مراتب کے لحاظ اور صوتی آہنگ سے آشنا ہونا ضروری ہے۔ مقام شکر یہ ہے کہ ڈاکٹر شہزاد احمد نعت خواں بھی ہیں، نعت گو بھی ہیں اور نعت شناسی کے بھی شناور ہیں، اس لیے انھوں نے جو کلام منتخب کیا ہے وہ شیرینی ، لطافت ، تاثیر اور سوزوگداز میں اپنی مثال آپ ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار دیکھیے:
اگر کوئی اپنا بھلا چاہتا ہے
اُسے چاہے جس کو خدا چاہتا ہے

درود اُن پہ بھیجو ، سلام اُن پہ بھیجو
یہی مومنوں سے خدا چاہتا ہے(۷۰)
(سعید ہاشمی)
دے ہنر کی بھیک ہنرورا کہ جمال فن مرا کم نہ ہو
میں تو آنسوئوں سے وضو کروں، تری نعت پھر بھی رقم نہ ہو(۷۱)
(امین راحت چغتائی)
اک شخص کائنات کا محور کہیں جسے
بندہ ہے لیک بندۂ اکبر کہیں جسے(۷۲)
(حمایت علی شاعر)
مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ انوارعقیدت اُردو نعتیہ ادب کی مکمل تاریخ ہے جس میں معروف شعرا کا معروف کلام اپنی جلوہ گری کی بہار دکھاتا نظرآرہا ہے۔ بلاشبہ یہ فروغِ نعت اور ترویج نعت کی ایک اہم کڑی ہے جو عشقِ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے جذبے سے سرشار ہو کر وجود میں آئی ہے۔
ارمغانِ ریاض سہروردی
ارمغانِ ریاض سہروردی ڈاکٹر شہزاد احمد کا مرتب کردہ انتخاب ہے۔پاکٹ سائز کی یہ کتاب ۴۲۲صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ریاض سہروردی کی معروف ومقبول عام نعتوں کو شامل کیا گیا ہے۔ پہلے نعتیہ کلام ہے اور آخر میںشاعر کی شخصیت ، سوانح، علمی، ادبی و دینی خدمات اور تخلیقات کے تعارف پر مبنی تفصیلی مضمون ہے۔ یہ انتخاب مرکزی انجمن عندلیبانِ ریاض رسول ، مارٹن کوارٹرز، کراچی کے زیر اہتمام ۲۰۱۴ء میں اشاعت سے ہم کنار ہوا۔
اس انتخاب میں ۲۲ حمدیں، ۱۲۵ نعتیں، ۱۳مناقب اور ۹ سلام بدرگاہ خیرالانام موجود ہیں۔ مناقب میں خلفائے راشدین، حضرت امام حسینؓ ، حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ،حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ، حضرت شہاب الدین بغدادیؒ ، امام احمد رضا رضاخان بریلویؒ، شیخ ابوالفیض قلندر علی سہروردیؒ اور مولانا سید محمد جلال الدین چشتیؒ کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ حضرت صدیق اکبرؓ کی منقبت سے یہ اشعار دیکھیے:
السلام اے حضرت صدیقِ اکبرؓ یارِ غار
تیری فرقت میں زمانے کی ہیں آنکھیں اشک بار
بے تردد تُو نے کی تصدیق معراجِ نبیؐ
کیوں نہ پھر صدیقؓ ہو تیرا خطاب باوقار
بعد حضرت تم قیامت میں اٹھو گے قبر سے
پھر جناب حضرت فاروقؓ شیرِ کردگار(۷۳)
ریاض سہروردی کا تعارف’’ایک انقلاب آفریں شخصیت‘‘ کے عنوان سے ہے جسے ڈاکٹر شہزاداحمد نے قلم بند کیا ہے اور اس میں علامہ موصوف کی شخصیت کو نعت خوانی ، نعت گوئی، صوفی مشرب، عالم دین ، مرید وخدمت گزار، معلم، مدرس، مؤلف کتب ، بانی تنظیم اور پیر طریقت کے عنوانات سے اُجاگر کیا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے علامہ صاحب کے سوانحی حالات بیان کیے ہیں جن میں پیدائش، خاندان ، سلسلہ نسب ، ابتدائی تعلیم و تربیت ، شرف بیعت، نعت کالج کا قیام اور انجمن کی خدمات کا ذکر کیا ہے، ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:
’’۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن عندلیبانِ ریاض رسول، کراچی پاکستان کی بنیاد رکھی ۔ انجمن کا بنیادی مقصد حُبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا پرچار، نعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا فروغ اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی جانب لوگوں کو راغب کرنا تھا۔ پہلی کل پاکستان محفل نعت نشتر پارک ،کراچی میں منعقد کی۔ آپ تاحیات انجمن ہذا کے بانی و صدر رہے۔ ہر سال ۲۲مارچ کو اس کل پاکستان محفل نعت کا انعقاد ہوتا ہے۔‘‘(۷۴)
یہ انتخاب ریاض سہروردی کے معروف کلام کے حوالے سے اہم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ نعتیہ ادب کی ترویج میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ریاض صاحب پُرگو شاعر تھے۔ اُن کے بہت سے مجموعہ ہائے نعت ہیں۔ قاری کے لیے مقبول نعتوں تک رسائی سہل نہیںتھی۔ اس انتخاب سے یہ سہولت پیدا ہو گئی ہے کہ نعت خواں اور محبان نعت کلام ریاض کے معروف گوشوں سے فوری لطف اندوز ہو سکیں گے۔ مضمون کی تفصیل میں ڈاکٹر شہزاداحمد نے جس طرح علامہ ریاض سہروردی کی شخصیت کو اُجاگر کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔
ہمارانبیؐ
’’ہمارا نبی‘‘ پُرکیف وایمان افروز نعتوں کا انتخاب ہے جسے شہزاد احمد ، ڈاکٹر نے ترتیب دیا ہے۔ ۶۴صفحات کایہ انتخاب شمع بک ایجنسی ، نوید اسکوائر ، اُردو بازار ،کراچی کے زیر اہتمام اگست ۲۰۰۱ء میں شایع ہوا۔ اس نوعیت کے آٹھ منتخبات ڈاکٹر شہزاد احمد نے بیک وقت ترتیب دیے تھے۔ اس سلسلے کا پہلا حمدیہ انتخاب ‘‘وہی خدا ہے‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ نعتیہ منتخبات مختلف ناموں سے شایع ہوئے(1) ہمارانبی(2)اُن کا چرچا رہے گا(3)مدینے کی تمنا(4)شاہِ زمنی مکی مدنی(5)مدینے کی گلی(6) آقا مدینے والے(7) پھر مدینے چلا۔ ان ساتوں نعتیہ منتخبات میں علیحدہ علیحدہ نعتیں شامل ہیں۔ ہر انتخاب شعبۂ نعت میں قابل قدر خدمات انجام دینے والوں سے منسوب کیا گیا ہے۔ جن شخصیات سے یہ انتخاب نعت علیحدہ علیحدہ منسوب کیے گئے ہیںاُن کے نام یہ ہیں:’’ ڈاکٹر سید رفیع الدین اشفاق، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر ریاض مجید، ادیب رائے پوری، حفیظ تائب ، ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی(شہید) ، راجارشیدمحمود‘‘۔
چراغِ بزمِ ایماں ہو
یہ انتخاب بھی۶۴صفحات پر مشتمل ہے اور اسے شمع بک ایجنسی ، نوید اسکوائر ، اُردو بازار ،کراچی نے بڑے اہتمام سے شایع کیا ہے۔شمع بک ایجنسی ،کراچی نے ڈاکٹر شہزا د احمد کے مرتب کردہ چارانتخاب نعت بیک وقت شایع کیے۔ یہ نعتیہ منتخبات ۱۔شہِ دیں کو دل میں۔۲۔ چراغِ بزمِ ایماں ہو(۳)آقا آقا بول بندے(۴)بگڑی بنائو مکی مدنی کے نام سے طبع ہوئے۔ یہ چاروں منتخبات نئی نعتیں نئی ترتیب (بااندازِ حروف تہجی) کے ساتھ شایع ہوئے۔ چاروں انتخاب نعت عام روایت سے ہٹ کر ترتیب دیے گئے ہیں۔ یہ چاروں انتخاب نعت شعبۂ نعت میں گراں قدر خدمات انجام دینے والوں سے منسوب کیے گئے ہیں جن میں پروفیسر ڈاکٹر عاصیؔ کرنالی، پروفیسر ڈاکٹر محمدسعید ، عبدالغفورقمر اور غلام مجتبیٰ احدی شامل ہیں۔
خواتین کی مشہور نعتیں
یہ انتخاب شمع بک ایجنسی ، نوید اسکوائر ، اُردو بازار ،کراچی کے زیراہتمام شایع ہوا۔یہ بھی ۶۴صفحات پر مشتمل ہے۔
’’خواتین کی مشہور نعتیں‘‘ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم میں شاعرات کا نذرانہ عقیدت ہے۔ اس کے مرتب ڈاکٹر شہزاداحمد ہیں۔ ’’خواتین کی مشہور نعتیں‘‘ یہ اپنی نوعیت کی عوامی انداز میں سب سے پہلی کاوش ہے۔ عصرِ حاضر میں خواتین کی حمد ونعت پر تحقیقی و علمی انداز سے معرکۃ الآراء کام ہو رہے ہیں۔ چند اہل دل اور درد مند حضرات نے اس جانب اپنی بھرپور توانائیاں صرف کی ہیں۔ زیر نظر خواتین کی نعت گوئی پر مشتمل انتخاب نعت بھی اسی سلسلۂ خیر کی ایک ادنیٰ سی کڑی ہے۔ اس کتاب کا انتساب پروفیسر ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کے نام ہے۔سرورق کی پشت پر والدۂ ماجدہ حضرت بی بی آمنہ سلام اللہ علیہا کی اوّلین نعت موجود ہے۔
مشہور پنجابی نعتیں
’’مشہور پنجابی نعتیں‘‘ کے مرتب بھی ڈاکٹرشہزاداحمد ہیں۔ یہ ایک جداگانہ اورمنفرد انتخاب نعت ہے جس میں پنجابی زبان کا مشہورو معروف اورمحافل نعت میں پڑھا اورسنا جانے والا معیار ی نعتیہ کلام یکجا کیا گیا ہے۔ پنجابی زبان کے یوں تو کئی نعتیہ منتخبات آپ کی نظروں سے گزرے ہوں گے مگر اس کی انفرادیت آپ ضرور محسوس کریں گے۔ اس انتخاب نعت میں آپ کو پنجابی زبان وادب کے ہر دور کا کلام نظر آئے گا۔ یہ انتخاب نعت پنجابی کے قدیم وجدید شعرا کا حسین امتزاج ہے۔ کتاب کا انتساب پروفیسر آفتاب احمد نقوی(شہید) کے نام کیا گیا ہے جنھوں نے ’’پنجابی نعت تحقیقی تے تنقیدی جائزہ‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھا ۔ سرورق کی پشت پر سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ کی ’’ادبیاتِ باہو‘‘ کا بھی انتخاب موجود ہے۔
وہی خدا ہے
’’وہی خدا ہے‘‘ مقبول عام مشہور حمدوں کا انتخاب ہے جسے ایڈیٹر حمد ونعت کراچی ڈاکٹرشہزاد احمد نے مرتب کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا انتخاب حمد ہے جسے عوام الناس کے حمدیہ ذوق و شوق کے تناظر میں ترتیب دیا گیا ہے جس میں عام طور پر محفل حمد ونعت میں پڑھی جانے والی حمدوں کو یکجا کیا گیا ہے۔
حمدوں کے انتخاب یوں تو بہت ہیں ۔مگر وہ عوام و خواص کی دسترس سے بہت دور ہیں۔ ایک تو ان کی قیمتیں زیادہ ہیں اور دوسرے وہ کسی ایک جگہ دستیاب نہیں ہوتے۔ ان تمام مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ ارازاں قیمت پر حمدیہ انتخاب شائع کیا گیا ہے تاکہ قارئین و شائقین حمدو نعت اپنے ذو ق و شوق کی آبیاری کرسکیں۔
’’وہی خدا ہے ‘‘معروف حمدوں کا دل نشین انتخاب ہے اس میں زیادہ تر حمدیہ کلام نعت خوانوں کی ضرورت کے تحت یہ حمدیں مترنم ہیں ۔ان میں موسیقیت اور غنائیت کے جملہ لوازمات شامل ہیں۔
شمع بک ایجنسی کراچی نے ڈاکٹر شہزاد احمد کے مرتب کردہ اس انتخاب’’ وہی خدا ہے‘‘ کو 12روپے ہدیہ کے ساتھ شائع کیاگیا ۔ ۶۴صفحات کی اس کتاب میں تقریباً ۶۰ حمد یں شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات وحواشی
۱۔وارث سرہندی،’’علمی اُردو لغت‘‘( علمی بک ڈپو ، لاہور)۲۰۱۲ء
۲۔سید احمد دہلوی،’’فرہنگ آصفیہ‘‘ (اُردو سائنس بورڈ ، لاہور)، ۲۰۱۰ء
۳۔فرمان فتح پوری، ڈاکٹر: ’’اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری‘‘(مجلس ترقی ادب ،لاہور)۱۹۷۲ئ، ص: ۱۱
۴۔آزاد ، محمد حسین ،’’آب حیات‘‘( نول کشور پرنٹنگ پریس، لاہور، ۱۹۰۷ء ) ص:۵
۵۔شہزاد احمد، ڈاکٹر، ’’ لاکھوںسلام‘‘(انجمن ترقی نعت ، کراچی ) ۱۹۸۶ئ، ص:۳۰
۶۔ایضاً۔ ص:۹
۷۔ایضاً۔ص:۹
۸۔ایضاً۔ص:۱۷
۹۔ ایضا ً ۔ص:۲۶
۱۰۔ایضاً۔ص:۲۴
۱۱۔ شہزاداحمد ، ڈاکٹر:’’ شعبہ نعت کا اجمالی جائزہ‘‘ مشمولہ: مجلہ( حسان نعت ایوارڈ، کراچی ) مدیر: غوث میاں، ۱۹۹۱ء ، ص:۵۶
۱۲۔ شہزاداحمد ، ڈاکٹر : ’’اُردو کے یادگارنعتیہ مجموعے‘‘ مجلہ( حسان نعت ایوارڈ، کراچی ) مدیر : غوث میاں،۱۹۹۲ئ،ص:۹۳
۱۳۔ایضاً۔ص:۹۸
۱۴۔شہزاد احمد ، ڈاکٹر: ’’کراچی میں نعت رسول‘‘مجلہ ’’اوج‘‘ نعت نمبر۱( گورنمنٹ کالج شاہدرہ ، لاہور)۹۳۔۱۹۹۲ئ،ص:۲۰۷
۱۵۔ایضاً۔ص:۲۰۹۔۲۰۸
۱۶۔ایضاً۔ص:۲۱۱
۱۷۔ایضاً۔ص:۲۱۸
۱۸۔ایضاً۔ص:۲۱۹
۱۹۔اوج نعت نمبر کے صفحہ ۲۱۴پر شعر کے مصرع ثانی میں ’’مجھ کو‘‘ کے بجائے ’’مجھ کہ‘‘ چھپا ہے۔
۲۰۔شہزاد احمد ، ڈاکٹر ’’کراچی میں نعت رسول‘‘،مجلہ ’’اوج‘‘ نعت نمبر۱( گورنمنٹ کالج شاہدرہ ، لاہور) ۹۳،۱۹۹۲ء ، ص:۲۲۳
۲۱۔ایضاً۔ ص:۲۳۱
۲۲۔ایضاً۔ ص:۲۲۴
۲۳۔آزاد، محمد اسماعیل ، ڈاکٹر: ’’ ہندو پاک کی اُردو نعتیہ شاعری‘‘( برائون پبلی کیشنز، نئی دہلی)۲۰۱۹ء
۲۴۔ایضاً ۔ص:۲۰
۲۵۔شہزاد احمد ، ڈاکٹر:’’کراچی میں نعت رسول‘‘مجلہ ’’اوج‘‘ نعت نمبر۱( گورنمنٹ کالج شاہدرہ ، لاہور) ۹۳،۱۹۹۲ء ، ص:۲۲۳
۲۶۔ایضاً۔ ص: ۲۳۰
۲۷۔آزاد، محمد اسماعیل ، ڈاکٹر: ’’ ہندو پاک کی اُردو نعتیہ شاعری‘‘( برائون پبلی کیشنز، نئی دہلی)ص: ۲۳۸
۲۸۔شہزاد احمد ، ڈاکٹر: ’’کراچی میں نعت رسول‘‘،مجلہ ’’اوج‘‘ نعت نمبر۱( گورنمنٹ کالج شاہدرہ ، لاہور) ۹۳،۱۹۹۲ء ، ص:۲۳۰
۲۹۔آزاد، محمد اسماعیل ، ڈاکٹر: ’’ ہندو پاک کی اُردو نعتیہ شاعری‘‘( برائون پبلی کیشنز، نئی دہلی)ص:۲۳۸
۳۰۔شہزاد احمد ، ڈاکٹر: ’’کراچی میں نعت رسول‘‘مجلہ ’’اوج‘‘ نعت نمبر۱(گورنمنٹ کالج شاہدرہ ، لاہور) ۹۳،۱۹۹۲ء ،ص:۲۳۲
۳۱۔آزاد، محمد اسماعیل ، ڈاکٹر: ’’ ہندو پاک کی اُردو نعتیہ شاعری ‘‘( برائون پبلی کیشنز، نئی دہلی)ص: ۲۴۱
۳۲۔شہزاد احمد ، ڈاکٹر: ’’کراچی میں نعت رسول‘‘مجلہ ’’اوج‘‘ نعت نمبر۱( گورنمنٹ کالج شاہدرہ ، لاہور) ۹۳،۱۹۹۲ء ، ص:۲۱۴
۳۳۔آزاد، محمد اسماعیل ، ڈاکٹر: ’’ ہندو پاک کی اُردو نعتیہ شاعری ‘‘( برائون پبلی کیشنز، نئی دہلی)ص:۲۲۱
۳۴۔نعت رنگ۔ شمارہ نمبر۲۲۔ مرتب ،سید صبیح رحمانی، کراچی ،اگست ،۲۰۱۲ئ،ص: ۲۲۰
۳۵۔نعت رنگ، شمارہ نمبر۲۵، مرتب ،سید صبیح رحمانی، کراچی ، اگست ،۲۰۱۵ئ، ص:۳۳۸
۳۶۔ایضاً۔ص:۳۴۲
۳۷۔ایضاً۔ ص:۳۴۶
۳۸۔ایضاً ۔ ص:۳۶۳۔۳۶۲
۳۹۔ایضاً ۔ صـ: ۳۷۹
۴۰۔ایضاً۔ ص:۳۶۱
۴۱۔ایضاً ۔ص:۳۵۸
۴۲۔ایضاً ۔ص:۳۸۰
۴۳۔شہزاد احمد، ڈاکٹر : ’’حسن انتخاب ‘‘ (مرکزی انجمن عندلیبانِ ریاض رسول ، کراچی)۲۰۱۳ئ، ص: ۷۔۶
۴۴۔ایضاً۔ ص: ۱۰۔۱۱
۴۵۔ایضاً۔ ص: ۱۳
۴۶۔ایضاً۔ ص: ۲۴
۴۷۔ایضاً۔ ص: ۲۹
۴۸۔ایضاً۔ ص: ۳۸
۴۹۔ایضاً۔ ص: ۳۹
۵۰۔ایضاً۔ ص: ۴۶
۵۱۔شہزاد احمد، ڈاکٹر: ’’ایک سو ایک پاکستانی نعت گو شعرا‘‘( رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی) ۲۰۱۷ئ، ص: ۴۹
۵۲۔ایضاً۔ص: ۱۴۲۔۱۴۱
۵۳۔ایضاً۔ ص: ۱۶۲
۵۴۔ ایضاً۔ص:۱۹۱
۵۵۔ایضاً۔ص:۱۹۵
۵۶۔ایضاً۔ص:۲۲۳
۵۷۔ایضاً۔ ص: ۲۴۴
۵۸۔ایضاً۔ ص: ۱۴۰
۵۹۔ایضاً۔ص: ۴۰۸
۶۰۔ایضاً۔ص: ۴۱۰
۶۱۔شہزاداحمد، ڈاکٹر:’’ اردو کے چند اہم پاکستانی انتخاب نعت‘‘ مشمولہ :نعت رنگ ، شمارہ نمبر :۲۲، کراچی، ۲۰۱۱ئ، ص:۲۶۰
۶۲۔ٹیلی فونک انٹرویو: ڈاکٹر شہزاد احمد ،کراچی، ۱۵ جون، ۲۰۲۰ء
۶۳۔ایضاً
۶۴۔ایضاً
۶۵۔شہزاداحمد، ڈاکٹر: ’’ انوار عقیدت‘‘( انٹرنیشنل حمد و نعت فائونڈیشن ، کراچی) ۲۰۰۰ئ، ص:۷
۶۶۔ایضاً۔ص:۳۴۔۳۳
۶۷۔ایضاً۔ ص:۵۶
۶۸۔شہزاداحمد، ڈاکٹر : ’’ اردو کے چند اہم پاکستانی انتخاب نعت‘‘ مشمولہ :نعت رنگ ، شمارہ نمبر :۲۲، کراچی، ۲۰۱۲ئ، ص:۲۶۲۔۲۶۱
۶۹۔شہزاداحمد، ڈاکٹر: ’’انوار عقیدت‘‘( انٹرنیشنل حمد و نعت فائونڈیشن ، کراچی) ۲۰۰۰ئ،ص:۱۰۵
۷۰۔ایضاً۔ص:۲۵۷
۷۱۔ایضاً۔ص:۲۲۰
۷۲۔ایضاً۔ص:۲۰۳
۷۳۔شہزاداحمد، ڈاکٹر: (مرتبہ)’’ ارمغانِ ریاض سہروردی‘‘( مرکزی انجمن عندلیبانِ ریاض رسول، کراچی) ۲۰۱۴ء ، ص:۲۵۶۔۲۵۵
۷۴۔ایضاً۔ص:۳۱۶
٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...