Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ) |
حسنِ ادب
ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ)

ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعتیہ شاعری
ARI Id

1689952632807_56116844

Access

Open/Free Access

Pages

186

ڈاکٹرشہزاد احمد کی نعتیہ شاعری
نعت کی مختصر روایت
عربی میں نعت کے معنی ’’وصف‘‘ کے ہیں لیکن اُردو میں اس کا استعمال حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی ستائش وثنا کے لیے مخصوص ہے۔(۱)اصطلاح میں ہر وہ نثر پارہ یا منظوم کلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی مدح میں ہو نعت کہلاتا ہے، نعت گوئی وصف محمود کا دوسرا نام ہے۔ اس بارے میں ڈاکٹر رفیع الدین اشفاق رقم طراز ہیں:
’’نعت کے معنی یوں تو وصف کے ہیں لیکن ہمارے ادب میں اس کا استعمال مجازاً حضرت رسول سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے وصف محمودو ثنا کے لیے ہوا ہے جس کا تعلق دینی احساس اور عقیدت مندی سے ہے۔‘‘(۲)
نعت کا آغاز اللہ رب العزت نے خود کیا اور انبیاء ورُسل کو نبی آخر الزماںصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی آمد کی نوید سنائی۔ پھر قرآن مجید خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اوصاف حمیدہ اور سراپامبارک کے بیان سے مزین ہے۔ یہ سلسلہ قبل ازاسلام سے جاری ہے۔ تبع حمیری جو شاہ یمن تھا، اُس کے اشعار زبان زد عام ہیں ۔ راجا رشید محمود کے مطابق:
’’اولین نعت کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارے آقا و مولاصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اولین نعت گو تبان اسعدبن کلی کرب تھے جنھیں تبع، شاہ یمن کہا جاتا ہے اور وہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے کم ازکم سات سو سال پہلے ہوئے ہیں۔‘‘(۳)
بعدازا سلام عرب میں پہلی نعت جناب ابوطالبؓ نے سردارانِ قریش کے سامنے کہی۔ یہ نعت قصیدے کی صنف میں تھی۔ اس کے بعد حضرت حسان بن ثابتؓ، عبداللہ بن رواحہؓ، کعب بن مالک انصاریؓ اور کعب بن زہیرؓ کاروان نعت کے وہ خوش نصیب شعرا ہیں جنھوں نے حیاتِ رسولؐ میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔
کعب بن زہیرؓنے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے اظہارِ محبت کرتے ہوئے ایک قصیدہ لکھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے اُنھیں اپنی چادر عطا فرمائی۔ اس کے بعد مصر کے شہربوصیر کے شاعر امام شرف الدین محمد بن سعید کے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تشریف لائے اور چادر مرحمت فرمائی اوراُن کے جسم پر اپنا دستِ شفقت پھیرا جس سے انھیں شفا نصیب ہوئی۔ امام بوصیری کاوہ قصیدہ اب قصیدہ بُردہ شریف کہلاتا ہے۔
فارسی میں نعت کی روایت میں خواجہ فرید الدین عطارؒ، جلال الدین رومیؒ، شیخ سعدی شیرازیؒ، خواجہ ہمام الدین علا تبریزیؒ، امیرخسروؒ، خواجہ کرمانیؒ، عبدالرحمان جامیؒ، عرفی ، نظیریؒ اورقا آنی کے نام نمایاں ہیں۔
اُردو شاعری کا آغاز جنوبی ہند میں ہوا۔ وہاں کی اصناف شعری نعتیہ نمونوں سے خالی نہیں ہیں۔ اُس دور میں مثنوی یا قصیدے کے آغاز میں نعتیہ اشعار خیرو برکت کے لیے لکھے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ سراپامبارک اور معراج نامے لکھنے کا رواج تھا۔ قلی قطب شاہ، ملاوجہی، غواصی ، نصرتی ، شاہی دکنی اور ولی دکنی کے نام اس عہد کے نمائندہ ناموں میں سے ہیں۔ شمالی ہند میں میرتقی میرؔ ، درد، سودا، مصحفی، قائم چاندپوری، آتش، مومن اور کرامت علی شہیدی کے نام سرفہرست ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
میر تقی میر
جلوہ نہیں ہے نظم میں حسن قبول کا
دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسول کا(۴)
مرزار فیع سودا
ہوا جب کفر ثابت ، ہے وہ تمغائے مسلمانی
نہ ٹوٹی شیخ سے زناّر تسبیحِ سلیمانی(۵)
قائم چاند پوری
میں قصر قدر کی اُس کے کہوں سو کیا رفعت
کہ پہلی سیڑھی ہے جس کی نُہ آسماں کا یہ بام(۶)

مصحفی
اگر درکار ہو اس کو قبا تو بن کہے اُس کے
بنے جبریل کا شہپر گریباں ، آستیں ، دامن(۷)
مومن خان مومن
ہمیشہ عفو ترا طالبِ گنہ گاراں
مدام رحم ترا درد مند کا جاسوس(۸)
کرامت علی شہیدی
لبِ گوہر فشاں وا ہوں گے جب عرضِ شفاعت کو
تماشا گاہِ محشر میں ، تکیں گے نیک منہ بد کا(۹)
جنگ آزادی کے قریب باقاعدہ نعتیہ دواوین کی روایت کا آغاز ہونے لگا۔ اس عہد میں غلام امام شہید، مولانا لطف بریلوی، امیرمینائی ، محسن کاکوروی ، امام احمد رضا خاں، علامہ اقبال اورمولانا ظفر علی خاں کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد اسلامی ادب کی تحریک کے زیر اثر نعت کی صنف کو بطور خاص فروغ ملا۔ ماہر القادری ، نعیم صدیقی اور بہزاد لکھنوی جیسے نعت گو شعرا سامنے آئے۔ مہر اختر وہاب کے مطابق:
’’تحریک ادب اسلامی کے شعرا میں ماہر القادری بلند پایہ نعت گو شاعر تھے۔ انھوں نے روایتی نعت گو شعرا کے برعکس غلو عقید ت سے گریز کیا اور توحید ورسالت کی حدفاصل کو قائم رکھا۔‘‘ (۱۰)
ماہرالقادری کے ساتھ بہزاد لکھنوی ،اخترالحامدی ، سیماب اکبرآبادی ، حفیظ جالند ھر ی ، اقبال سہیل اور ضیاالقادری بدایونی کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔حفیظ جالندھری نے ’’شاہ نامہ اسلام ‘‘لکھ کر نعت اور صاحبِ نعت کی اہمیت کو اُجاگر کیا۔ اُنھوں نے یہ شاہ کار مثنوی کی ہیئت میں تخلیق کیا ہے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو:
مبارک ہو کہ ختم المرسلیں تشریف لے آئے
جنابِ رحمت للعالمیں تشریف لے آئے(۱۱)
ماہرالقادری نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی مدح میں ایک سلام لکھا جو خاصا مشہور ہوا۔ اس کا ایک شعر یوں ہے:
سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی(۱۲)
بہزاد لکھنوی بھی نعتیہ روایت کا درخشاں نام ہے۔
مدینے کو جائیں یہ جی چاہتا ہے
مقدر بنائیں یہ جی چاہتا ہے(۱۳)
اس عہد کی نعت سراپائے رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے موضوع سے نکل کر سیرت طیبہ کے دائرے میں داخل ہوئی اور مقصدیت کے تحت نعت کو تبلیغ دین کی ایک کڑی تصور کر لیا گیا۔ اب مقصد اور عقیدت ساتھ ساتھ محوسفر نظر آنے لگے۔ ایسے میں مظفر وارثی جیسے غزل گو بھی گلشن نعت کی سیر پر مائل ہوئے۔ مظفروارثی، احسان دانش اور احمد ندیم قاسمی نے غزل کے ساتھ نعت گوئی میں یاد گار اشعار کہے ۔ مظفر وارثی کا ایک شعر دیکھیے:
مفلسِ زندگی اب نہ سمجھے کوئی، مجھ کو عشق نبیؐ اس قدر مل گیا
جگمگائے نہ کیوں میرا عکس دروں ،ایک پتھر کو آئنہ گرمل گیا(۱۴)
اُرد و نعت کی روایت میں عبدالعزیز خالد اپنے منفرد اسلوب اورموضوعاتی تنوع کے لحاظ سے ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے اُردو نعت کو اساطیر ی حوالوں سے مزین کیا۔ بقول پروفیسرنویدعاجزؔ:
’’انھوں نے عربی، فارسی، عبرانی، ترکی، انجیل اور تورات سے قدیم الفاظ کو اپنی نعت کا حصّہ بنایا ہے۔۔۔انھوں نے سابقہ کتب سماوی میں مذکور حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اسمائے گرامی کو بڑی کاوش سے تلاش کیا ہے اور بڑی خوبی سے برتا ہے۔‘‘(۱۵)
اُن کے علاوہ حفیظ تائب ، حافظ لدھیانوی، راجا رشیدمحمود، ڈاکٹر سید ابوالخیر کشفی، محمد علی ظہوری، سیدانوار ظہوری، ریاض حسین چودھری، پروفیسر اکرم رضا، علیم ناصر ی، خالد علیم، ادیب رائے پوری، ریاض سہروردی، خالد محمود نقشبندی، ڈاکٹر عزیزاحسن ، سیدصبیح رحمانی، عزیز الدین خاکی اور شریف ساجد وہ نمایاں شعرا ہیں جنھوں نے نعتیہ روایت کو فروغ دیا۔ان میں سے چند شعرا کے نمونے کے اشعار ملاحظہ ہوں:
حفیظ تائب
شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
یہ کوچۂ حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ(۱۶)
راجا رشید محمود
پھول جب مدح محبوبِ حق کے کھِلے
دل کا صحرا مرا گلستاں ہو گیا(۱۷)
سید انوار ظہوری
محرمِ داور، ہم دل و ہم دم
طاہر و اطہر ، سرورِ عالم(۱۸)
ادیب رائے پوری
خدا کا ذکر کرے ، ذکر مصطفی نہ کرے
ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں ، خدا نہ کرے(۱۹)
صبیح رحمانی
کوئی مثل مصطفی کا کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا
کسی اور کا یہ رُتبہ کبھی تھا ، نہ ہے ، نہ ہو گا(۲۰)
بیسیویں صدی کی آخری دہائی نعتیہ ادب میں تنقید کے امکانات روشن کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہے۔ راجا رشید محمودکا ماہ نامہ ’’نعت‘‘ ، ڈاکٹر شہزاد احمد کا ’’حمدونعت‘‘ اور صبیح رحمانی کا کتابی سلسلہ ’’نعت رنگ‘‘ اُردو نعت کے حوالے سے نئی صبح کی نوید ثابت ہوئے۔ شعرا نے نعت میں فنی پختگی اور نئے اسلوب کی تلاش شروع کردی اورنئی اصناف سخن میں نعت کی طرف مائل ہوئے۔ اس دور میں فروغِ نعت کے اس سفر میں ڈاکٹر شہزاد احمد تحقیق وتنقید کے حوالے سے پیش پیش نظر آتے ہیں۔ذیل میں اُن کی نعتیہ شاعری کا فنی و فکری جائز ہ پیش کیا جا رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...