Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ) > ڈاکٹر شہزاد احمد کی شاعری کا فنی جائزہ

ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ) |
حسنِ ادب
ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ)

ڈاکٹر شہزاد احمد کی شاعری کا فنی جائزہ
ARI Id

1689952632807_56116846

Access

Open/Free Access

Pages

207

ڈاکٹرشہزاد احمد کی شاعری کا فنی جائزہ
سہل ممتنع
ڈاکٹرشہزاداحمد نعت خوانی سے نعت گوئی کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ انھیں خیال آفرینی و مرصع کاری سے زیادہ ابلاغ کی فکر رہتی ہے۔ اس لیے وہ کلام میں سادگی کو اہمیت دیتے نظر آتے ہیں۔اُن کے کلام میں بھاری بھرکم تراکیب کی جگہ عام بول چال کے سادہ الفاظ ادائے مطلب کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ ان کی نعت کی مرکزی خصوصیت سہل ممتنع ہے جس کے بارے میں مولانا حسرت موہانی لکھتے ہیں :
’’سہل ممتنع سادگی وحسن بیان کی اُس صنف کا نام ہے جس کو دیکھ کر ہر شخص بظاہر یہ سمجھے کہ یہ بات میرے دل میں بھی تھی اور ایسا کہنا ہر شاعر کے لیے آسان ہے مگر جب کوشش کرکے ویسا لکھنا چاہے تو نہ لکھ سکے۔‘‘ (۲۴)
یہی سادہ اسلوب ہمیں ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت میں بڑے سلیقے سے برتا ہوا ملتا ہے۔ مثال میں دو شعر ملاحظہ ہوں:
آپ صرف اپنے محبوب کا
مجھ کو شیدا بنا دیجیے

پھر جہاں میں ہے تیرگی چھائی
اپنا جلوہ دکھائیے آقاؐ
غنائی لہجہ
شاعری میں موسیقیت نہ ہو تو کلام فصاحت سے کوسوں دُور رہتا ہے۔ موسیقیت کے لیے آواز کے زیرو بم کے استعمال سے واقفیت ضروری ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد چوں کہ نعت خوانی سے بھی وابستہ ہیں۔ اس لیے اُن کے کلام میں غنائیت کا عنصر اوج پر ہے۔ پروفیسرنویدعاجز ؔ اس بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’انھوں نے نعتیں محافل میں پڑھنے کے لیے لکھی ہیں، اس لیے اُن کی سب سے بڑی خوبی موسیقیت اور روانی ہے۔ ’’حبیبی یارسول اللہ، درودتم پر سلام تم پر اور بسم اللہ ‘‘ کی ردیف میں کہی گئی نعتیں مترنم لہجے کی حامل ہیں۔‘‘(۲۵)
ڈاکٹر شہزاداحمد کے کلام میں روانی اور مترنم لہجے کے اشعار کی کمی نہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
تمھاری یاد کو کیوں نہ قرارِ زندگی سمجھیں
قرار نور ساماں ہو، حبیبی یا رسول اللہ

کھلاتی ہے ہر اک دل میں حسیں گلزار بسم اللہ
درودِ پاک سے پہلے پڑھو ہر بار بسم اللہ

نہیں کوئی خطرہ مجھے اب کسی کا ، نشاں مل گیا ہے مجھے زندگی کا
ٹھکانہ نہیں ہے کوئی اب خوشی کا، مرے دل کی دنیا بسی جا رہی ہے
تلمیح کا استعمال
بعض اوقات شاعر کسی تاریخی یا قرآنی واقعہ کو کام میں لا کر شعر کو آراستہ کرتے ہیں ۔ یہ مہارت صنعت تلمیح کہلاتی ہے ۔ بقول ابوالاعجاز حفیظ صدیقی:
’’زبان کے ابتدائی دور میں چھوٹے چھوٹے سادہ خیالات اورمعمولی چیزوں کے بتانے کے لیے الفاظ بنائے گئے تھے۔ رفتہ رفتہ انسان نے ترقی کا قدم اور آگے بڑھایا۔ لمبے لمبے قصوں اور واقعات وحالات کی طرف خاص خاص اشارے ہونے لگے ۔ جہاں وہ الفاظ زبان پر آئے وہ قصے، وہ واقعے آنکھوں کے سامنے پھر گئے، ایسا ہر اشارہ تلمیح کہلاتا ہے۔‘‘(۲۶)
تلمیح کے باب میں کلام شہزاد احمد سے شعری مثالیں ملاحظہ ہوں:
والنجم وہ چہرہ ہے، والیل وہ زلفیں ہیں
یہ شان نبی دیکھو، اُس رب کے اشاروں میں

میں گدائے شہِ کونین اگر ہوتا کبھی
مرے قدموں میں سکندر ، کبھی دارا ہوتا

جو پہنچے مسجد اقصیٰ میں سارے انبیا بولے
چلے آئو ، چلے آئو ، شہِ ابرار بسم اللہ
مراعاۃ النظیر
مراعات جمع ہے ’’رعایت‘‘ کی اور نظیر کے معنی ’’مثال‘‘ کے ہیں۔ مراعات النظیر ایسی صنعت ہے جس میںشاعر ایک خاص لفظ کی رعایت سے باقی الفاظ کام میںلاتا ہے۔ مثال کے طور پر شعر میں ’’گلشن‘‘ کی مناسبت سے گل، بلبل، صبا اور باغ بان کا ذکر کیا جائے تو یہ صنعت مراعات النظیر ہو گی۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کے ہاں یہ صنعت خوب صورت انداز سے جلوہ گر نظر آتی ہے۔ مثالیں دیکھیے:
ہے متن ان کی ذات سیاق و سباق بھی
عشق رسولِ ہاشمی عنوان نعت ہے
مہکا رہا ہے زندگی کے بام و در وہی
محفل میں جو سجا ہوا گلدانِ نعت ہے
مذکورہ مثالوں میں متن کی رعایت سے سیاق و سباق اور عنوان کا ذکر کیا گیا ہے اور گلدان کی مناسبت سے مہک اور سجاوٹ کے الفاظ استعمال میں لائے گئے ہیں۔
صنعت تکرار
شعر میں الفاظ کو باربار اس طرح استعمال کرنا کہ شعر کے صوتی آہنگ کی شیرینی دوچند ہو جائے۔ تکرار کے بارے میںحسرت موہانی لکھتے ہیں:
’’تکرار الفاظ کے حسین یا قبیح ہونے کا کوئی قاعدہ یا ضابطہ مقرر نہیں ہے۔ اس بات کا فیصلہ کہ تکرار معیوب ہے یا مستحسن ، شاعر کے مذاق صحیح کے سوا اور کسی سے نہیں ہوتا۔‘‘(۲۷)
اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ تکرار کا تعلق شاعر کی حسِ جمالیات سے ہے۔ تکرارِ الفاظ اگر حسن شعر میں ترقی کا باعث ہوتو یقینا قابل ستائش ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر شہزاد احمدکا جمالیاتی ذوق بلند سطح کا ہے کیوں کہ اُن کے کلام میں تکرارِ الفاظ کی خوش نما مثالیں ارزاں دستیاب ہیں۔ مثال کے طور پر چند شعر دیکھے:
تمھارا آنا قرار لایا، بہار لایا ، نکھار لایا
خد اکی قربت میں جانے والے درود تم پر ، سلام تم پر

بلا لو ، بلا لو مجھے بھی مدینے
یہی التجا ہے شہِ انس و جاں سے

نہیں ہے، نہیں ہے فقط میری کاوش ، ہے میرے نبی کی یہ مجھ پر نوازش
کرم ہے بڑا ہی مرے مصطفی کا جو یہ نعت پیہم کہی جا رہی ہے
تضاد
تضاد بھی شاعری کی ایک خوب صورت صنعت ہے۔ مولوی نجم الغنی رام پوری کے مطابق:
’’ایسے الفاظ استعمال میں لانا جن کے معنی آپس میں ایک دوسرے کے فی الجملہ ضد اور مقابل ہوں۔‘‘(۲۸)
صنعت تضاد کو طباق سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ اس کی مزید دوقسمیں ہیں: ایک طباق ایجابی اور دوسرا طباق سلبی۔
طباق ایجابی میں براہِ راست متضاد الفاظ کام میں لائے جاتے ہیں جب کہ طباق سلبی میں حرف نفی کے ذریعے تضاد قائم کیا جاتا ہے۔ڈاکٹر شہزاد احمد کے کلام سے طباق ایجابی کی مثالیں دیکھیے:
اسے کیا ملے گا یہاں سے ، وہاں سے
ہوا دُور جو آپ کے آستاں سے
ہوں دیوانہ میں تو شہِ انبیا کا
مجھے کیا سر و کار سود و زیاں سے

یہاں محفل ذکر آقا سجی ہے، مری آج بگڑی بنی جا رہی ہے
دیے یاد سرکارؐ کے جل رہے ہیں، ہوئی روشنی تیرگی جا رہی ہے
تجنیس محرف
صنعت تجنیس میں ہم جنس الفاظ استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ علم بدیع کی اصطلاح میں دو ایسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو تلفظ میں مشابہ ہوں لیکن ان کے معنی مختلف ہوں۔ اگر الفاظ کے حروف کی تعداد یکساں ہو اور اُن میں حرکات و سکنات مختلف ہوں تو یہ تجنیس محرف ہو گی۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کے کلام سے مثال دیکھیے:
مدینے میں ، مَیں بھی بلایا گیا تھا
انھیں سے ذرا لَو لگا کے تو دیکھو
مذکورہ مثال میں پہلی بار لفظ ’’میں‘‘ حرف جار کے طور پر آیا ہے جب کہ دوسری بار ’’مَیں‘‘ ضمیر متکلم کے طور پر آیا ہے۔
خطابیہ انداز
نعت میں بیانیہ اور خطابیہ دونوں انداز مستعمل ہیں۔ حضور نبی کریمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے خطاب میں شعرا کو ایک دلی تسکین کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ استغاثہ کے لیے بھی یہی انداز موزوں ہے۔ ڈاکٹر شہزاداحمد نے صیغہ حاضر اور غائب دونوں میں اشعار قلم بند کیے ہیں۔ مثالیں دیکھیے:
تمھارے ذکر سے آقا زمانہ فیض پاتا ہے
بہار فیض ساماں ہو ، حبیبی یا رسول اللہ
اب بیانیہ انداز ملاحظہ ہو:
ہر دم ہے ثنا اُن کی دنیا کے دیاروں میں
ہم سر ہی نہیں اُن کا لاکھوں میں ہزاروں میں
ضمیر واحد متکلم کا استعمال
اُردو نعت میں ضمیر واحد متکلم ’’تُو‘‘، ’’تم‘‘ یا ’’تمھارا‘‘ کا استعمال متنازع رہا ہے۔ بعض ناقدین ’’آپ‘‘ کی ضمیراستعمال کرنے کے قائل ہیں۔ مولانا کوکب نورانی اور وفاقی سیرت ایوارڈ یافتہ شاعر سیدریاض حسین زیدی کے مابین ’’نعت رنگ‘‘ کے خطوط کے حصّے میں بحث موجود ہے۔ زیدی صاحب کا موقف ہے کہ علامہ اقبال نے ’’لوح بھی تُو، قلم بھی تُو‘‘ میں اور اعلیٰ حضرت نے ’’تیرا‘‘ کی ردیف میں ضمیر واحد متکلم استعمال کی ہے۔ اس لیے رعایت شعری میں یہ جائز ہے جب کہ مولانا کوکب نورانی، منظر عارفی اور پروفیسر شفقت رضوی ’’آپ‘‘ کی ضمیر کے حق میں ہیں۔ بہر حال ڈاکٹر شہزاد احمد کے ہاں دونوں طرح کی ضمیریں موجود ہیں۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ ’’تو ، تم یا تیرا‘‘ کی ضمیر کو شاعری میں عار نہیں سمجھتے۔ اُن کے کلام سے مثالیں دیکھیے:
تمھاری باتیں، تمھاری یادیں، تمھارے جلوے، تمھارے چرچے
نوید بخشش سنانے والے ، درود تم پر ، سلام تم پر
صنعت اشتقاق
اشتقاق کے لغوی معنی ’’شق کرنا اور نکالنا ‘‘کے ہیں۔ علم بدیع میں ایک ہی مصدر سے اسم اور فعل بنانے کا عمل صنعت اشتقاق کہلاتا ہے:
درد سنتے وہ مرا اور میں سناتا جاتا
زیست میں ایسا کوئی لمحہ خدارا ہوتا
مثالِ مذکورہ میں’’ سنتے اور سناتا‘‘کے الفاظ ’’سننا‘‘ مصدر سے مشتق ہیں۔ یہاں شاعر نے اشتقاق کی صنعت کو عمدگی سے نبھایا ہے۔ سننا اور سنانا کا باہمی ربط اپنے اندر ایک حسن اور تاثیر رکھتا ہے جو یقینا قابل داد ہے۔
شبۂ اشتقاق
کلام میں ایسے الفاظ لانا جن کے بارے میں شبہ ہو کہ ایک ہی مصدر سے ہیں۔ بقول پروفیسر نوید عاجزؔ:
’’کلام میں دو ایسے الفاظ لانا جن کا مادۂ اشتقاق بظاہر ایک معلوم ہو مگر اصل میں دونوں الگ الگ مصادر سے مشتق ہوں۔ ‘‘(۲۹)
ڈاکٹر شہزاداحمد کے کلام سے ایک شعر دیکھیے جس میں ‘‘درد‘‘ اور’’دوا‘‘ کے الفاظ میں اشتقاق کا شبہ واقع ہوا ہے:
درد کافور ہوا میرا دوا سے پہلے
جب لیا نامِ نبی میں نے دُعا سے پہلے
ردالعجز علی الصدر
شعر کے آخری الفاظ اگر شعر کے مختلف حصوں میں مکرر لائیں جائیں تو مختلف صنعتیں وجود میں آتی ہیں جو سراسر شعوری کاوش کا ہی نتیجہ قرار دی جا سکتی ہیں۔علم عروض میں شعر کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان حصوں یا ان اجزا کے باہمی تناسب سے مختلف صنائع وجود میں آتے ہیں جن کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولوی نجم الغنی رام پوری لکھتے ہیں:
’’عروضی بیت کے مصرع اول کو ’صدر‘ اور جزو آخر مصر ع اول کو ’عروض‘ کہتے ہیں اور جزوِ اول مصرعہ ثانی کو ’ابتدا‘ اور جزوِ آخر مصرع ثانی کو ’ ضرب وعجز‘ بولتے ہیں اور درمیانِ بیت میں جو کچھ رہا وہ ’حشو‘ ہے۔‘‘(۳۰)
ہوتا مجھ پر جو کرم میرے نبی کا شہزادؔ
پھر تو کعبہ ، کبھی طیبہ کا نظارا ہوتا
مذکورہ مثال میں شعر کے عجز میں ’’ہوتا‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور یہی لفظ شعر کے ’’صدر‘‘ میںبھی برتا گیا ہے۔ الفاظ کے استعمال کا یہ قرینہ ردالعجز علی الصدر کہلائے گا۔ایک اور شعر دیکھیے:
ہے متن اُن کی ذات سیاق و سباق بھی
عشقِ رسولِ ہاشمی عنوانِ نعت ہے
ردالعجز علی الابتدا
علم عروض میں شعر کے عجز میں استعمال ہونے والا لفظ مصرعِ ثانی میں شعر کی ابتدا میں بھی آئے تو اسے صنعت ردالعجز علی الابتدا کہیں گے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کے کلام سے مثال ملاحظہ ہو:
نعتِ شہ انامؐ کی خوشبو ہو چار سُو
ہے دل میں گر کوئی تو وہ ارمانِ نعت ہے
ردالعجز علی الحشو
شعر کے عجز میں استعمال ہونے والا لفظ شعر کے حشو میں بھی آئے تو اسے صنعت ردالعجز علی الحشو کہیں گے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کے کلام سے مثال ملاحظہ ہو:
کہیں اُن کا چہرہ ، کہیں اُن کی زلفیں ، کہیں اُن کے گیسو، کہیں اُن کی قسمیں
یہ قرآن میں جا بہ جا آ گیا ہے، یہ مدح پیمبر ہی کی جا رہی ہے
اس مثال میں ’’ہے‘‘ کا لفظ مصرع ثانی کے حشو اور عجز دونوں میں خوبی سے استعمال ہوا ہے۔
ردالعجز علی العروض
علم عروض میں شعر کے عجز میں استعمال ہونے والا لفظ شعر کے عروض میں بھی آئے تو اسے صنعت ردالعجز علی العروض کہیں گے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد کے کلام سے مثال ملاحظہ ہو:
نصیبے کو اپنے جگا کے تو دیکھو
شہ دیںؐ کو دل میں بسا کے تو دیکھو

کس سے بیان ہو گی بھلا مرتضیٰؓ کی شان
ارفع ہے ہر خیال سے شیرِ خدا کی شان
القاباتِ رسولصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم
شعرائے نعت نے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکو مختلف القابات سے یاد کیا ہے اور نئی تراکیب بھی وضع کرنے کا عمل جاری ہے۔ ڈاکٹر شہزاداحمد کے ہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکے لیے خوب صورت القابات کا استعمال دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ القابات قرآن وحدیث سے ماخوذ ہیں اور بعض جگہ انھوں نے اپنے تخیل کو بروئے کار لاتے ہوئے نئے القابات وتراکیب بھی وضع کی ہیں۔ ڈاکٹرصاحب کے ہاں چراغِ بزم ایماں، امیر بزم دوراں، جمالِ نورِ یزداں ، حبیبِ ذات رحماں ، رئیس بزم امکاں ، بہارفیض ساماں، قرار نور ساماں، شہ انس وجاں اور شافع دوجہاں‘‘ کے القابات عقیدت و محبت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ شعر ی مثال دیکھیے:
بلا لو ، بلا لو مجھے بھی مدینے
یہی التجا ہے شہ انس و جاں سے

تمھیں اللہ نے کس شان سے یہ مرتبہ بخشا
رئیس بزم امکاں ہو ، حبیبی یا رسول اللہ
ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت سادہ انداز میں جذبوں کا بے ساختہ اظہار ہے۔ انھوں نے مشکل پسندی سے دامن بچاتے ہوئے سیدھے سبھائو سادہ، رواں اور سہل اندا ز میں بارگاہِ رسالت میں گل ہائے عقیدت پیش کیے ہیں۔ سلاست ، ابلاغ ، نغمگیت اور شیریں لہجہ اُن کے نعتیہ اسلوب کی دیگر صفات ہیں۔ موضوعات میں فضائل رسول کریمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اور سیرت طیبہ اُن کی اولین ترجیحات میں ہیں نیز عشق رسول پاکصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا جذبہ صادقہ پورے کلام میں موج زن نظر آتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات وحواشی
۱۔نور الحسن نیرّ،مولوی: ’’(نوراللغات ، سنگ میل پبلشرز ، لاہور) ۱۹۸۹ء ، ص:۱۵۲۵
۲۔رفیع الدین اشفاق، ڈاکٹر: ’’ اُردو میں نعتیہ شاعری‘‘( ارد و اکیڈمی سندھ، کراچی) ۱۹۷۶ء ، ص:۳۰
۳۔محمود ،راجا رشید:’’ نعت کائنات ‘‘( جنگ پبلشرز ، لاہور) ۱۹۹۳ء ، ص: ۱۳
۴۔شہزا د احمد ، ڈاکٹر: (مرتبہ)’’ انوارِ عقیدت‘‘( انٹر نیشنل حمد و نعت فائونڈیشن، کراچی) ۲۰۰۰ئ،ص:۲۲
۵۔سودا، مرزا محمد رفیع: ’’کلیاتِ سودا، جلد دوم‘‘ مرتبہ ، ڈاکٹر محمد شمس الدین صدیقی( مجلس ترقی ادب، لاہور) ۲۰۰۶ئ، ص:۳
۶۔قائم چاند پوری:’’کلیاتِ قائم، جلد دوم‘‘ مرتبہ ، اقتدا حسن( مجلس ترقی ادب ، لاہور) ۱۹۶۵ئ، ص:۸۰
۷۔نور الحسن نقوی، ڈاکٹر: (مرتبہ)، کلیاتِ مصحفی، جلد نہم( مجلس ترقی ادب ، لاہور) ۱۹۹۹ئ،ص:۴۱
۸۔مومن خان مومن:’’کلیاتِ مومن‘‘ مرتبہ ، کلب علی خان فائق’’ مجلس ترقی ادب ، لاہور‘‘ ۲۰۰۸ئ،ص:۲۹۸
۹۔شہیدی، کرامت علی: ’’ دیوانِ شہیدی‘‘ مرتبہ ، سید عامر علی ( بیکن بکس ، ملتان) ۲۰۰۲ئ، ص:۳۳
۱۰۔مہر اختر وہاب :’’ اردو میں اسلامی ادب کی تحریک‘‘( پورب اکادمی، اسلام آباد) ص:۱۱۰
۱۱۔حفیظ جالندھری ، ابولاثر: ’’ شاہ نامہ اسلام‘‘( مکتبہ تعمیر انسانیت ، لاہور) ۱۹۸۵ئ،ص:۱۱۳
۱۲۔شہزاد احمد ، ڈاکٹر: ’’کراچی میں نعت رسول‘‘مجلہ ’’اوج‘‘ نعت نمبر۱( گورنمنٹ کالج شاہدرہ ، لاہور) ۹۳،۱۹۹۲ء ، ص:۲۲۶
۱۳۔محمد متین خالد:(مرتبہ)’’ مرا پیمبر عظیم تر ہے‘‘(علم و عرفان پبلشرز، لاہور)۲۰۰۹ئ، ص:۸۱
۱۴۔مظفر وارثی:’’ نورازل‘‘(ماورا پبلشرز ، لاہور) ۱۹۸۸ء ، ص:۶۷
۱۵۔نویدعاجز، پروفیسر: ’’ سید ریاض حسین زیدی، کی نعتیہ شاعری‘‘( الاشرق پبلی کیشنز ، لاہور) ص:۵۸۔۵۷
۱۶۔گوہر ملسیانی:’’ عصرحاضر کے نعت گو‘‘جلداول( کتاب سرائے، لاہور)۲۰۱۳ئ،ص: ۲۰۵
۱۷۔راجا رشید محمود: ’’اقامت نعت‘‘(مدنی گرافکس ،لاہور) ۲۰۱۲ئ، ص:۱۰
۱۸۔انوار ظہوری، سید: ’’ حرف منزہ‘‘ (ظہوری اکیڈمی، لاہور)۱۹۹۳ئ،ص:۲۵۲
۱۹۔محمد متین خالد: (مرتبہ)’’ مرا پیمبر عظیم تر ہے‘‘( علم و عرفان پبلشرز، لاہور) ۲۰۰۹ئ،ص: ۶۳
۲۰۔صبیح رحمانی، سید: ’’ کلیاتِ صبیح رحمانی‘‘مرتبہ :ڈاکٹر شہزاد احمد (دارالسلام ،لاہور) ۲۰۱۹ئ، ص: ۷ ۱۹
۲۱۔ڈاکٹر خواجہ یزدانی نقوش رسول نمبر ،جلد دہم کے صفحہ ۱۵۵ پر اپنے مضمون ’’فارسی نعت ایک سرسری جائزہ ‘‘میں یہ شعر نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اُن کا یہ شعر سینکڑوں شعروں پر بھاری ہے لیکن اس لحاظ سے وہ بدقسمت ہیں کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ شعر اُن کا ہے ۔ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں یہ جس کسی نے بھی اس شعر کے آخری ٹکڑے ’’مرانمی شاید ’’کو‘‘ کمالِ بے ادبیست ‘‘ میں بدل دیا ہے، اُس نے کمال کردیا ہے۔
۲۲۔ عاجز،نویداحمد ، پروفیسر: ’’ ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت‘‘ ماہنامہ ’’کاروان نعت‘‘لاہور،جولائی ۲۰۲۰، شمار ہ نمبر ۷ (۱۳۶)،جلد نمبر ۱۲(۱۵)ص۲۸تا۴۰۔
۲۳۔علم بن حجاج قشیری:’’صحیح مسلم ‘‘( نور محمد اصح المطابع، کراچی ) ۱۳۷۵ھ ، ص:۲۶۱
۲۴۔حسرت موہانی :’’ نکات سخن‘‘(الفیصل ناشران کتب، لاہور)۲۰۱۴ئ، ص:۲۷۴
۲۵۔ عاجز،نویداحمد ، پروفیسر: ’’ ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت‘‘ ماہنامہ ’’کاروان نعت‘‘لاہور،جولائی ۲۰۲۰، شمار ہ نمبر ۷ (۱۳۶)،جلد نمبر ۱۲(۱۵)ص۲۸تا۴۰۔
۲۶۔حفیظ صدیقی، ابوالاعجاز:’’کشاف تنقیدی اصطلاحات ‘‘(مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد) ۱۹۸۵ئ،ص:۴۷
۲۷۔حسرت موہانی :’’ نکات سخن‘‘(الفیصل ناشران کتب، لاہور) ۲۰۱۴ئ، ص:۱۷۹
۲۸۔نجم الغنی ، رام پوری، مولوی: ’’ بحرالفصاحت‘‘(جلد:ششم ، ہفتم) مرتبہ، سید قدرت نقوی( مجلس ترقی ادب ، لاہور) ۲۰۰۷ئ، ص:۱۸۰
۲۹۔نوید عاجز، پروفیسر: ’’ سید ریاض حسین زیدی کی نعتیہ شاعری‘‘(الاشراق ، لاہور)۲۰۱۴ئ، ص:۱۷۴
۳۰۔نجم الغنی ، رام پوری، مولوی: ’’ بحرالفصاحت‘‘(جلد:ششم ، ہفتم) مرتبہ، سید قدرت نقوی( مجلس ترقی ادب ، لاہور) ۲۰۰۷ئ،ص:۶۷
٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...