Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ) > نعتیہ ادب میں ڈاکٹر شہزاد احمد کامقام و مرتبہ

ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ) |
حسنِ ادب
ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت شناسی (ایک اجمالی جائزہ)

نعتیہ ادب میں ڈاکٹر شہزاد احمد کامقام و مرتبہ
ARI Id

1689952632807_56116847

Access

Open/Free Access

Pages

218

نعتیہ ادب میں ڈاکٹر شہزاد احمد کامقام و مرتبہ
نعت ہر دور اور ہر دیار میں لکھی گئی ہے۔ نعت گو شعرا بارگاہِ رسالتصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم میں اپنے اپنے انداز میں عقیدت ومحبت کے پھول پیش کرتے رہے ہیں۔ نعت کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ اُردو زبان نعت کے تخلیقی سرمائے سے مالامال ہے اور دنیا کی دیگر زبانوں سے نعت کے معاملے میں کسی طرح پیچھے نہیں۔ دکنی دور میں نعت معراج ناموں جنھیں چرخیات سے بھی موسوم کیا جاتا ہے، کی صورت میں اور سراپائے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمکے روپ میں صورت پذیرہوتی رہی۔ اسی دور میں نعت، قصیدے، مثنوی اور پھر غزل کی ہیئت میں بھی پنپتی رہی۔ عہدموجود میں نعت کے نمونے ہر صنف سخن میں دستیاب ہیں لیکن نعت کو جو مقبولیت غزل کی ہیئت میںملی وہ کسی دوسری ہیئت کو میسر نہ آسکی۔ گزشتہ صدی میں تخلیق نعت کا سفر ماضی کی نسبت بہت تابناک نظر آتا ہے۔ اس میں نعت نے تخلیق سے تحقیق اور تنقید کے شعبوں میں بھی قابل قدر پیش رفت کی ہے۔ نعت کے الگ رسائل کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا۔ نعتیہ تذکرے لکھے جانے لگے، نعتیہ مقالات کی طرف توجہ مرکوز کی گئی۔ نعتیہ صحافت کا آغاز ہوا اور نعتیہ انتخابات کا اہتمام ہونے لگا۔ نعت کے مختلف شعبوں میں مختلف شخصیات نے خدمات انجام دی ہیں۔ ان شخصیات میں ایک اہم نام ڈاکٹر شہزاد احمد کا ہے۔ انھوں نے شعبۂ نعت کے ہر شعبے میں گراںقدر خدمات انجام دی ہیں۔
ڈاکٹر شہزاداحمد نعت کے میدان میں بیک وقت ایک محنتی محقق، خوش ذوق تذکرہ نگار، خوش مذاق مدون، خوش الحان نعت خواں، نکتہ رس نقاد، راست باز صحافی او ر منکسر المزاج شاعرکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ حیدر آباد کے اسکول میں انھیں مولانا اختر الحامدی اوربعد ازاں کراچی میں علامہ شمس بریلوی جیسے اساتذہ میسرآئے، جنھوں نے اُن کے دل میں عشق رسول کریمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی شمع روشن کردی۔ بچپن سے لے کرآج تک ڈاکٹر شہزاد احمد نے نعت کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ فروغِ نعت کے صفِ اوّل کے خدمت گاروں کی اگر فہرست مرتب کی جائے تو اُن کا نام ضرور شامل ہوگا۔ ان کی شخصیت کے درج ذیل نمایاں پہلو ہیں:
۱۔ محقق ۲۔ مدون
۳۔ تذکرہ نگار ۴۔ مدیر
۵۔ نقاد ۶۔ شاعر
ڈاکٹر شہزاد احمد کا اوّل وآخرعشق نعتیہ ادب کی خدمت ہے۔ نعت سے عشق دراصل عشق سرکارصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اظہار کا ایک قرینہ کہہ لیجیے ۔ ہر مسلمان کی طرح وہ اپنے نعتیہ سرمائے کی ایک ایک سطر کی قبولیت کے منتظر ہیں۔ انھوں نے پاکستانی نعت پر پہلا مقالہ ’’اُردو نعت پاکستان میں‘‘ میں لکھ کر ڈاکٹریٹ کا اعزاز حاصل کیا لیکن اس مقالے سے بہت پہلے وہ ہندو پاک کے نعتیہ حلقوں میں اپنی پہچان بناچکے تھے۔
بہرحال اُن کے تحقیقی کاموں میں مقالہ ہذا کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ آٹھ ابواب پر مبنی اس مقالے میں انھوں نے عربی، فارسی اور اُردو نعت کی مختصر روایت کو بیان کرنے کے بعد پاکستانی نعت کے ارتقا کو تفصیلی انداز میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے پاکستان کے قیام میں نعت گو شعرا کو موضوع بناتے ہوئے اُن کی شاعری میں ملی تشخص کی جڑیں تلاش کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ انھوں نے پاکستانی نعت کی فکری بنیادیں کھوجنے پر توجہ صرف نہیں کی البتہ انفرادی سطح پر شعرا کے فکری نظام کو ضرور اُجاگر کیا ہے۔
ڈاکٹر شہزاد کے طرز تحقیق کو تاریخی تحقیق کا نام دیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے نعتیہ مؤرخ کا فریضہ بطریق احسن انجام دیا ہے۔ اُن کے پیش نظر شعرا کے مقام و مرتبے سے زیادہ اہم کام پاکستان کے نعتیہ ادب کی تاریخ مرتب کرنا ہے۔ اُن کی زیادہ ترتوانائی نعت میں اولیت کا قضیہ سلجھانے میں صرف ہوئی ہے۔ دنیائے نعت کے پہلے ماہنامے کی بات ہو یا پہلے کتابی سلسلے کی، پہلے نعت نمبر کا ذکر ہو یا پہلے رسول نمبر کا وہ ہر نئی تحقیق سے اپنے مقالے کے نتائج کو باوقار اور مستند بناتے نظر آتے ہیں۔
اُن کی تحقیق سے سامنے آنے والے حقائق اس لیے بھی مستند ہوتے ہیں کہ وہ مختلف ناقدین کی تحقیق پیش کرنے کے بعد حتمی رائے قائم کرتے ہیں اور پھر نتیجے کا اعلان قطعیت کے ساتھ کرتے ہیں۔ ’’نعت نمبر‘‘کے آغاز وارتقا کے بارے میں انھوں نے پہلے ’’ڈاکٹر ریاض مجید، غوث میاں، راجا رشید محمود، ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی، پروفیسر محمد اقبال جاوید ، محمد اقبال نجمی اور نوراحمد میرٹھی‘‘ کی تحقیقی کاوشوں کا ذکر کیا ہے اور پھر ڈاکٹر ریاض مجید کی تحقیق ’’سیر و سفر‘‘ ملتان(۱۹۶۳) کو رد کرتے ہوئے ماہنامہ ’’نور ظہور‘‘قصور(۱۹۶۱) کو پاکستان کا پہلا نعت نمبر قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر شہزاد احمد کے اس تحقیقی مقالے کو اگر نعتیہ ادب کا انسائیکلو پیڈیا قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انھوںنے نعتیہ روایت کی اغلاط کو رفع کرنے کے بعد مختلف شعبہ ہائے نعت کی فہرستیں جس انداز میں مرتب کی ہیں وہ اُن سے پہلے سامنے آنے والے نعت کے مقالوںمیں نظر نہیں آتیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے ۶۳نعت نمبروں کی زمانی اعتبار سے ایک جامع فہرست فراہم کی ہے جو شعبۂ نعت کے محققین اور قارئین کے لیے یقینا دل چسپی سے خالی نہیں ہے۔ اسی طرح کی ایک فہرست نعتیہ ادب کے تذکروں پر مشتمل ہے جس میں ۷۰ نعتیہ تذکروں کو سال اشاعت اور اشاعتی اداروں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ پاکستان سے شایع ہونے والی نعتیہ کتب کی یہ ضخیم فہرست ۳۲صفحات پر محیط ہے۔
نعت گوئی اپنے آغاز سے ہی ناقدین کی توجہ کا مرکز رہی ہے اور شعرا ئے کرام اپنے فن کی داد سمیٹتے رہے ہیں لیکن نعت خواں طبقہ نظرانداز ہوتارہا ہے۔ ڈاکٹر شہزاد احمد نے کسی حدتک اس محرومی کا ازالہ کرنے کی ایک ابتدائی مگر اوّلین کوشش کی ہے۔ انھوں نے پاکستان کے معروف مرد اور خواتین نعت خوانوں کا تذکرہ یوں کیا ہے کہ اُن کے نام کے ساتھ شہر کا نام اور رابطہ نمبر بھی دے دیا ہے۔ دراصل وہ خود نعت خواں ہیں۔ اُن کی ساری زندگی نعت خوانی میں گزری ہے، اس لیے انھوں نے نعت خوانوں کا تذکرہ کرکے اس موضوع کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے۔
نعتیہ صحافت کا جائزہ ڈاکٹر شہزاد احمد کی تحقیق کا ایک منفرد اورنہایت اہم موضوع ہے۔ انھوں نے نعتیہ صحافت کے آغاز وارتقا پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کے علاوہ عہد موجود کی نعت پر ٹیکنالوجی کے اثرات کاجائزہ لیتے ہوئے انھوںنے انٹرنیٹ پر نعت کی ترویج کی اشد ضرورت پر زور دیا ہے۔
انھوں نے ادیب رائے پوری کے ماہنامہ’’نوائے نعت‘‘ ،کراچی کو دنیائے نعت کا سب سے پہلا نعتیہ ماہنامہ قرار دیا ہے۔ کتابی سلسلے میں حفیظ تائب کے ’’گل چیدہ نمبر۱‘‘ ، اپریل ۱۹۹۳ء کی اولیت تسلیم ضرور کی ہے لیکن اس کی اشاعت میں تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ’’ایوانِ نعت ‘‘لاہور کو پہلا باقاعدہ نعتیہ کتابی سلسلہ قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے نعتیہ کتابی سلسلوں اور نعتیہ مجلوں کے نام اور کام گنوائے ہیں نیز اُن اخبارات کا ذکر کیا ہے جنھوں نے باقاعدگی سے نعت کے لیے گوشے مختص کیے۔ دنیائے نعت کا تیسرا نعتیہ ماہنامہ ڈاکٹر شہزاد احمد نے جاری کیا۔ اس کا نام ماہنامہ ’’حمدونعت‘‘ کراچی ہے اور اب تک اس کے بارہ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں چوں کہ وہ خود نعتیہ صحافت سے وابستہ ہیں، اس لیے اس ضمن میں اُنھوں نے وقیع اور جامع کام کیا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے نعتیہ صحافت کی روایت ترتیب دیتے ہوئے کسی دوسرے رسالے یا مجلے سے کوئی فہرست نہیں اُٹھائی اور نہ وہ ایسا کر سکتے تھے کیوں کہ ایسا منظم کام پہلے کسی نے کیا ہی نہیں تھا۔ اُن کے مآخذات بنیادی نوعیت کے ہیں اور زیادہ تر وہ پاکستانی نعت کے چشم دیدگواہ ہیں۔ ’’زمزمۂ نعت‘‘ ۱۹۸۱ء سے عہد موجود تک ۳۹سال سے وہ وادی نعت کے سائر چلے آ رہے ہیں۔
ڈاکٹر شہزاد احمد کو تذکرہ نگاری سے خاص لگائو ہے بل کہ اگر یوں کہا جائے کہ وہ بنے ہی تذکرے کے لیے ہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔اُن کے کام کا ایک ضخیم حصہ نعتیہ تذکرہ نگاری پر محیط ہے۔ انھوں نے شعرا کے تذکرے لکھے جو بہت معروف ہوئے۔ اُن کے اولین تذکروں میں’’حیدرآباد کے نعت گو‘‘ اور ’’کراچی میں نعت رسولؐ‘‘ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ دونوں تذکرے ڈاکٹر آفتاب احمد نقوی نے مجلہ ’’اوج‘‘ نعت نمبر، لاہور ۹۳۔۱۹۹۲ء میں شایع کیے ہیں۔ ان میں جو حوالہ جات حذف ہیں بعد میں مجلہ ’’لیلۃ النعت‘‘ ، کراچی میں اپنے مکمل مآخذات کی تفصیل کے ساتھ چھپے۔ ان میں ۱۹۹۲تک حیدرآباد(سندھ) اور کراچی کے سبھی معروف نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر اسماعیل آزاد فتح پوری نے یہ دونوں تذکرے اپنی تازہ کتاب ’’ہندوپاک کی اُردو نعتیہ شاعری: تقسیم سے اب تک‘‘ ۲۰۱۹ء میں اپنے نام سے چھاپ لیے ہیں۔ آزاد صاحب نے دیباچے میں یا فہرست میں تذکرہ نگار کا نام ظاہر نہیں کیا۔ اسی طرح انھوں نے ’’اوج‘‘ سے کئی اور مضامین بھی مختلف احباب کے سرقہ کیے ہیں جو نعتیہ ادب میں صریحاً گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔ بہر حال ڈاکٹر شہزاد احمد نے ’’ایک سو ایک پاکستانی نعت گوشعرا‘‘ کے نام سے ۲۰۱۷ء میں مرتب کیا ہے۔ اس کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں ۵۵مرحوم شعرا کا تذکرہ وکلام ہے، اس کے بعد حیات شعرا شامل کیے گئے ہیں۔
ڈاکٹر شہزاداحمد جب کسی شاعر کا ذکر کرتے ہیں تو اُس کا جزوکل احوال بیان کردیتے ہیں۔ شاعر کی اہمیت، اس کی پیدائش، وفات ، تدفین ، تعلیم، ادبی سرگر میا ں اور تخلیقات کا بھرپور تعارف اُن کے تذکروں میںآسانی سے دستیاب ہوجاتا ہے۔ اُن کے پیش کردہ تعارفی خاکے شخصی مقالے معلوم ہوتے ہیں۔انھیں پڑھنے کے بعد مزید تشنگی نہیں رہتی۔ وہ جزئیات پیش کرنے کے رسیا ہیں۔ وہ کبھی کبھی شاعر کے مسلک ومشرب، تعلق داری اورمیل جول کے بارے میںایسی باریک معلومات سے بھی آگاہ کرتے ہیں کہ اُن پر خاکہ نگار کا گمان ہونے لگتا ہے۔ پھر اُن کے تذکروں کی زبان سادہ، شستہ اور رواں ہے جس میں بلاوجہ علمیت بگھارنے کا شائبہ تک نہیں ملتا۔
اُنھوں نے خالص تذکرہ نگاری کے اوصاف کو ملحوظ رکھا ہے۔ وہ اس میں تنقیدی روش کو ناپسند کرتے ہیں۔ انھوں نے شعرا کے کلام پر تبصرے کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیا۔ بعض مقامات پر شاعر کی سادہ زبان اورمقبولیت کے بارے میں ایک آدھ جملہ بے ساختہ قلم پر آگیا تو پھر انھوں نے اسے روکا نہیں ہے۔ دانستہ انھوں نے اپنے تذکروں کو تنقید سے پاک ہی رکھا ہے۔
تذکرہ نگاری کے باب میں ڈاکٹر صاحب صرف شعرا تک ہی محدود نہیں رہے بل کہ انھوں نے ’’نعتیہ انتخاب ‘‘ اور ’’نعتیہ کلیات‘‘ کی روایت پر بھی تذکرے لکھ کر تذکرہ نگار ی میں ایک نیا دریچہ وا کیا ہے۔ آئندہ اِس جہت میں بھی اِن شاء اللہ محققین نئی روایات مرتب کریں گے۔ کتابی سلسلہ ’’نعت رنگ‘‘ شمارہ نمبر ۲۵مطبوعہ ۲۰۱۵ء میں اُن کا تذکرہ ’’نعتیہ کلیات کی روایت: ایک مطالعاتی جائزہ‘‘ جو ۳۱ کلیات کے تعارف پر مبنی ہے، اُسے اس باب میں نقطۂ آغاز کی حیثیت حاصل ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ ’’نعتیہ کلیات‘‘ اور ’’نعتیہ دواوین‘‘ پر مستقبل میں تحقیق سے وابستہ احباب کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اچھے محقق کے اوصاف میں سے ہے کہ وہ جب کسی جہت پر کام کرتا ہے تو تشنہ تحقیق جہتوں کی راہنمائی بھی کرتا جاتا ہے۔ موصوف کے ہاں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔
اسی طرح ’’نعت رنگ‘‘ شمارہ نمبر۲۲ میں ڈاکٹر صاحب کا ایک اور تذکرہ ’’اُردو کے چند اہم پاکستانی انتخاب نعت‘‘ کے نام سے شایع ہوا ہے۔ اس میں پاکستان سے شایع ہونے والے ۴۴ سے زائد نعتیہ انتخابات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔ اُن میں ’’شفیق بریلوی کا ارمغان نعت ، ڈاکٹر ابوالخیرکشفی کا سفینہ نعت، حفیظ تائب کا بہارِ نعت، راجا رشید محمود کانعت کائنات، صبیح رحمانی کا ایوانِ نعت ، عبدالغفور قمر کا انتخاب نعت، (۱۳ضخیم جلدیں) ،حمایت علی شاعر کا عقیدت کا سفر، محمد صدیق اسماعیل کا رنگ رضا ، ڈاکٹر شہزاد احمد کا انوار عقیدت اور غوث میاں کا’’ خواتین کی نعتیہ شاعری‘‘ نمایاں ہیں۔ اُن کے تعارف میں ڈاکٹر صاحب نے تمام بنیادی معلومات فراہم کی ہیں کہ انتخاب کتنے صفحات کا ہے، کب اور کہاں سے شایع ہوااور یہ کہ اس انتخاب کی خصوصیت کیا ہے؟اور اسے کیوں شامل انتخاب کیا گیا ہے؟۔ اس کے علاوہ انتخاب میںشامل شعرا کی ترتیب کے بارے میں بھی قاری کو آگاہ کرتے نظر آتے ہیں۔
فروغ نعت کے حوالے سے تذکرہ نگاری کے علاوہ ڈاکٹر شہزاد احمد کی شخصیت کا ایک نمایاں اور سرکردہ پہلو شعرا کے کلام کی تدوین کی ہے۔ یہ ایک ایک کام فروغ نعت میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کلیات ریاض سہروردی ، کلیات شاہ انصارالٰہ آبادی ، کلیات عزیز الدین خاکی اور کلیات صبیح رحمانی اُن کے یاد گار کا مو ں میں سے ہیں جب کہ کلیات قمر انجم پریس میں گیا ہوا ہے اور اشاعت کے لیے تیار ہے۔ ابھی تدوین کا یہ سلسلہ تھما نہیں ہے’’کلیات ضیاء القادری بدایونی اور کلیات بہزاد لکھنوی ‘‘ پر کام جاری ہے۔
ا س کے علاوہ انھوں نے ساقی کوثر ازخان اخترندیم ، جشن آمد رسولصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم از عابد بر یلو ی، نزول از شفیق الدین شارق، قصیدہ رسولِ تہامی ازحافظ الغفارحافظ ، حرف حرف خوشبو از وقار صدیقی اجمیری ، ارمغانِ ریاض سہروردی‘‘کو مدون کرکے فروغ نعت میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے زیادہ ترمرتب کردہ کلیات میں کتابوں کو زمانی ترتیب دی ہے۔ اُن کا نظریہ ہے کہ اس طرح شاعر کے فکری ارتقا سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔ کلیات صبیح رحمانی میں بھی کتابوں کی زمانی ترتیب کو روا رکھا گیا ہے۔
ڈاکٹر شہزاد احمد کے ہاں فروغ نعت کے حوالے سے نعتیہ انتخابات کی ایک کثیر تعداد ملتی ہے جو اُن کے مرتب کردہ ہیں۔ انھوں نے پہلا نعتیہ انتخاب ’’زمزمۂ نعت‘‘ ۱۹۸۱ء میں ترتیب دیا جب اُن کی عمر صرف اکیس برس تھی۔ اُن کا ایک اور نعتیہ انتخاب ’’نوائے رضا‘‘ ۱۹۸۲ء میں شایع ہوا۔ یہ بعد میں ہندوستان سے بھی اشاعت سے ہم کنار ہوا۔اُن کے نعتیہ انتخابات کی تعداد ۴۹سے زائد ہے جنھیں مختلف انداز کی درجہ بندی میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
اوّل: ایسے انتخاب ہیں جو کسی نعت خواں کی پڑھی ہوئی نعتوں پر مبنی ہیں جیسے ’’زمزمۂ نعت‘‘میں انھوں نے نصراللہ نوری(نعت خواں) کی پڑھی ہوئی نعتوں کو جمع کیا ہے۔ یہ انتخاب انھوں نے اکیس سال کی عمر میں کیا تھا۔ انھوں نے پہلی بار مختلف نعت خوانوں کی پڑھی ہوئی نعتوں کا انتخاب کرکے نئی طرح ڈالی ۔
دوم: ایسے انتخاب نعت ہیں جن میں کسی ایک شاعر کے کلام سے منتخب نعتیں شامل کی گئی ہیںان میں ’’ارمغانِ خاکی‘‘ اور ’’ارمغان ادیب‘‘ قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں انتخاب باالترتیب عزیز الدین خاکی اور ادیب رائے پوری کے منتخب نعتیہ کلام پر مبنی ہیں۔’’منتخب نعتیں‘‘ ستاروارثی کا منتخب کلام ہے۔
سوم: تاریخ نعت کا احاطہ کرنے والے نعتیہ انتخاب جیسے ’’انوار عقیدت‘‘ جو ۲۹۶ شعرا کے کلام پر مبنی ہے اور اس میں عربی ، فارسی اور اُردو زبانوں کاحامل کلام شامل ہے۔
چہارم: صنف سخن کے لحاظ سے کیے جانے والے انتخاب جیسے ’’لاکھوں سلام‘‘۔ اس میں سلام رضا پر لکھی گئی نعتیہ تضامین جمع کی گئی ہیں ۔یہ اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد انتخاب ہے۔ ایک انتخاب سلاموں پر مبنی ہے، اُس کا نام ’’سلامِ رضا‘‘ (۱۹۸۳ئ) ہے۔
پنجم: خواتین نعت گو شعرا کے معروف کلام پر مبنی انتخاب ہے جس کی مثال ’’خواتین کی مشہور نعتیں‘‘ سے دی جا سکتی ہے۔ان کے علاوہ بھی بہت سے نعتیہ انتخابات ڈاکٹر صاحب نے مرتب کیے ہیں۔ ان انتخابات میں چند تو خالص نعتیہ ادب کی روایت کو اُجاگر کرنے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں جب کہ ان میں سے اکثر نعتیہ انتخابات کا مقصد نعت خوانوں کو معروف کلام سے متعارف کروانا اور درست متن تک نعت خوانوں کی رسائی کو ممکن بنانا تھا جوں ہی ڈاکٹر صاحب کسی شاعر سے یا کسی محفل سے نیا نعتیہ کلام سنتے وہ اسے بیاض میں محفوظ کر لیتے۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے نعتیہ انتخابات سامنے آگئے۔ نعتیہ ادب کے فروغ میں اُن کی یہ کاوشیں اُن کے جذبۂ تحرک کی غماز ہیں اور بلاشبہ انھیں یہ تحریک عشق رسول کریمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلمسے ملی ہے۔
ڈاکٹر شہزاد احمد نے نعتیہ صحافت کے باب میں دنیائے نعت کا تیسرا ماہنامہ’’حمد ونعت‘‘ جاری کیا جس کا پہلا شمارہ ۱۹۹۰ء میں اشاعت سے ہم کنار ہوا۔ یہ شمارہ تسلسل کے ساتھ شایع نہ ہو سکا۔ اس کا بارہواں شمارہ فروری ۲۰۱۷ء میں سامنے آیا ۔ اس شمارے میں ڈاکٹر شہزاداحمد نے ’’غیر محتاط نعت گو‘‘ کے نام سے ایک سلسلہ شروع کررکھا تھا جس میں مختلف اہلِ فن نعت گوشعرا کی لغزشوں پر گرفت کرتے تھے۔گویا نعتیہ تنقید کے اوّلین معماروں میں موصوف کانام بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے خود بھی تنقیدی مضامین لکھے ہیں لیکن اُن کا زیادہ ترتنقیدی سرمایہ سامنے نہیں آ سکا۔ اُن کی تنقید کے نمونے اُن کے تذکروں ہی میںشامل ہیں۔ ’’لاکھوں سلام‘‘ اُن کے اولین دور کے تذکروں میں سے ہے۔ اس میں ہر شاعر کی تضمین سے پہلے ایک آدھ صفحے پر اُنھوں نے اپنی تنقیدی آرا ، شاعر کے بارے میں بیان کردی ہیں۔ اکثر اُن کے تذکروں کے حواشی میں جو اصلاحیں انھوں نے کی ہیں یا جو تصریحات پیش کی ہیں۔ وہی ان کی تنقیدی بصیرت کی عکاس ہیں۔ انھوں نے باقاعدہ طور پر عملی تنقید کی طرف بہت کم توجہ کی ہے۔ ’’حمد ونعت‘‘ فروری ۲۰۱۷ء کے شمارے میں انھوں نے سید محمد قاسم کے نعتیہ تذکرے ’’پاکستان کے نعت گو شعرا‘‘ کا جائزہ پیش کیا اور قاسم صاحب کی اغلاط پر نہ صرف کڑی گرفت کی ہے بل کہ سند کے ساتھ اصلاح بھی کر دی ہے۔ نعتیہ ادب کی تاریخ پر ڈاکٹر صاحب کی گہری نظر ہے، اس لیے وہ اصلاح کی پوری پوری صلاحیت رکھتے ہیں لیکن یہاں اُن کے تبصروں کی زبان جذباتیت کی لپیٹ میں آگئی ہے اور وہ شدت جذبات سے دامن نہیں بچا سکے۔ اس سب کے باوجود انھوں نے قاسم صاحب کی تحقیق پر جو سوالات اُٹھائے ہیں، وہ درست ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ قاسم صاحب نے تحقیق کے لوازمات پورے نہیں کیے۔
شعبۂ نعت میں ڈاکٹر شہزاد احمد کی شناخت کا ایک حوالہ نعت گوئی بھی ہے جس کی طرف انھوں نے کبھی خاص توجہ نہیں کی۔ اُن کا سارا نعتیہ کلام مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام دیے گئے مصرع ہائے طرح پر لکھا گیا ہے۔ اُن کی نعت کا انفرادی پہلو نکالا جائے تو سادگی اور روانی کے الفاظ سامنے آتے ہیں۔ انھوں نے اپنے نعتیہ کلام میں سیدھے سبھائو اپنے جذبۂ عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اُن کی تمنا ہے کہ بارگاہِ رسالتصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے مدح نگاروں کی صف میں اُن کا نام شامل ہو جائے۔ اُن کے نعتیہ مضامین میں ’’قرآن میں نعت، آمد رسول کریمصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے اثرات ، تعلیمات نبوی، ختم نبوت، افضلیت ، محبوبیت ، امام الانبیا، قاسم نعمت ، نسبت کا اعزاز، یادِ نبی، جذبۂ عشقِ رسولصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ، نورانیت، آداب نعت، رحمت للعالمینی، باعث تخلیق کائنات، عالم گیر شریعت، اسم نبی کی تاثیر اور فیضان نعت‘‘ نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ مدینے میں روضۂ رسولصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی حاضری کی تمنا کا پُرسوز بیان بھی انھیں مرغوب ہے۔ اُن کے ہاں سیرت طیبہ کے مضامین زیادہ ہیں جب کہ کہیں کہیں سراپا مبارک کے بیان میں بھی اشعار مل جاتے ہیں۔
وہ قرآن مجید فرقانِ حمید کو نعت کا بنیادی اور مستند ماخذ تسلیم کرتے ہیں۔ اپنے اشعار میں انھوں نے قرآن پاک کو کتابِ نعت سے اور اللہ تعالیٰ کو پہلے وصافِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم سے تعبیر کیا ہے۔ اُن کے خیال میں اعجازِ قرآن کے سامنے انسان کی گویائی گنگ ہے۔ اسی لیے اُن کے ہاں عاجزی کا نمایاں احساس دیکھنے کو ملتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
کیا اُن کی ثنا ہو گی عاجز ہیں بشر سارے
اوصاف نبی دیکھو قرآن کے پاروں میں
ڈاکٹر شہزاد احمد کی نعت میں عصری شعور کی جھلک بھی پوری شدت کے ساتھ دکھائی دیتی ہے۔ وہ اُمت مسلمہ کی زبوں حالی کو نہ صرف محسوس کرتے ہیں بل کہ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلممیں استغاثہ واستمداد پیش کرکے اپنی تشویش کا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ امت مسلمہ کا درد انھیں اپنی ذات کا درد محسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اُن کی نعت کی ایک خصوصیت حفظ مراتب کی پاسداری بھی ہے۔ وہ عبد اور معبود کے فرق کو ملحوظ رکھنے کے قائل ہیں۔ وہ ایک عرصے سے شعبۂ نعت سے منسلک ہیں اور نعت کے تقاضوں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ا س لیے اُن کے ہاں آداب نعت کا بھرپور ا اہتمام دیکھنے کو ملتا ہے۔
مختصر یہ ہے کہ ڈاکٹر شہزاد صاحب حمد و نعت کے وہ خدمت گار ہیں جن کی تحقیقی کاوشوں کو تادیر یاد رکھا جائے گا ۔خاص طور پر پاکستانی نعت پر اُن کا تحقیقی مقالہ ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی مستند معلومات نعتیہ ادب کی تاریخ کے سلجھائو میں یقینا مدد گار ہیں۔ اُن کی تدوینی خدمات فروغ نعت کے باب میں اس لیے ناقابلِ فراموش ہیں کہ انھوں نے چند اہم نعت گو شعرا کے کلیات مرتب کیے ہیں ۔ وہ اپنی ذات میں فروغ نعت کی ایک تحریک ہیں۔ اللہ رب العزت اُن کی کاوشوں کو قبول فرمائے ، آمین!
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...