Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > اِیلافِ وفا > منصف ہاشمی کی نثری نظمیں

اِیلافِ وفا |
حسنِ ادب
اِیلافِ وفا

منصف ہاشمی کی نثری نظمیں
ARI Id

1689953282333_56116984

Access

Open/Free Access

منصف ہاشمی کی نثری نظمیں
نثر اور نظم میں کیا فرق ہے؟ نوراللغات میں ’’نثر‘‘ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے۔ ’’وہ عبارت جو نظم نہ ہو‘‘۔ یعنی لفظ ’’نثر ‘‘ کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسے’’ نظم‘‘کے منفیانہ یا تنسیخی معانی سے ہی پہچانا جائے۔۔۔ نثر کے لغوی معنی ہیں :’’پراگندہ‘‘، ’’بکھرا ہوا‘‘ ۔اس کی صفات میں’’ خشک‘‘، ’’غیر شاعرانہ‘‘ وغیرہ الفاظ تقریباً ہر لغت میں پائے جاتے ہیں۔ نثر کو نظم سے قریب ترلانے کے لیے جو حربے استعمال کیے گئے ان میں جملوں کے آخری الفاظ کا مقفیٰ ہونا شرطِ اول تھی۔ گویا نثر پر نظم کو مسلط کرنا شرطِ اول تھی، نہ کہ نظم پر نثر کی فوقیت کو جتانا۔ درحقیقت نثر نگاری دوسرے درجے کی ادبی کاوش ہے جب کہ نظم گوئی سرِ فہرست تھی۔ بیسویں صدی کے آخری تیس چالیس برسوں میں ’’نثری نظم ‘‘ کو ادبی جریدوں میں جگہ ملنی شروع ہوئی۔ لیکن اردو نے کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ’’ غزل گو‘‘یا ’’نظم گو‘‘کی جگہ ’’غزل نویس‘‘یا ’’نظم نویس‘‘ بطور اصطلاح تسلیم کیا جائے۔ ’’سخن‘‘ کا مطلب ’’بات‘‘ نہیں بلکہ’’موزوں بات‘‘ تسلیم کیا گیا ۔ا س کے لوازمات میں آہنگ ، لہجہ (صوت) ،زحافات کو صفِ اول میں جگہ دی گئی۔
منصف ہاشمی کو فیس بک اور رسائل کی وساطت سے میں دو دہائیوں سے پڑھ رہا ہوں۔ ارکان اور زحافات سے معرا ہونے کے باوجود ان کا آہنگ ایسے بیانیہ پر مبنی ہے جس میں نظم کی خصوصیات موجود ہیں۔ ترصیع، تجنیس، سجع، آہنگ اور سب سے بڑھ کر امیجری، شعر یات کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں۔ مترنم نہ ہونے کے باوجود ان کا بیانیہ شاعرانہ غنایت کا حامل ہے۔ ان کی نظمیں مضمون نگاری کے حوالے سے خیال بندی اور معاملہ بندی کی شرائط پر بھی پورا اترتی ہیں۔
موضوعات کے حوالے سے ان کی نظموں میں مجھے شروع جوانی کی ملائمت اور عمر کی پختگی سے حاصل شدہ زاویہ دار خمیدگی کا ایک انوکھا امتزاج نظر آیا ،جو بہت کم شعرا کے ہاں ملتا ہے۔ ان میں ایک طرف تو جہاں ( شخصی کم اور غیر شخصی زیادہ) تجربات اور انسانی رشتوں کے سلسلہ امکانات کو دیکھنے اور پرکھنے کے لیے ایک معصوم زاویہ نگاہ موجود ہے۔ وہاں کچھ ایسے عینی خصائص بھی ہیں جو جذبات سے کچھ آگے بڑھ کر ان کو دانش و فہم کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
کوئی بھی تخلیق (اور خصوصی طور پر نظم ) موضوع اور مضمون کے انتخاب کے علاوہ شاعر کی زبان دانی یا لسانی اہلیت کی ایک معتبر گواہ ہوتی ہے۔ زبان خود اپنی طرف قاری کی توجہ مبذول کروا لیتی ہے۔ یعنی جس موثر طریقِ کار سے زبان کا رکھ رکھائو خارج کے تناظر میں نہیں، بلکہ خود اپنے آپ میں قاری کے دھیان کو سمو کر، اسے آگے پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وہ طریق کار منصف ہاشمی بآسانی بروئے کار لاتے ہیں اور اس طرح قاری کو اپنی تحریر کی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔

ستیہ پال آنند

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...