Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اِیلافِ وفا |
حسنِ ادب
اِیلافِ وفا

موسم
ARI Id

1689953282333_56116985

Access

Open/Free Access

موسم
موسم بنیادی طور پر خود نظر نہیں آتا لیکن یہ اپنی نشانیوں کی وجہ سے محسوس و معلوم ہوتا ہے۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے، گردشِ ایام کی حدود و قیود کو خیالات اور اعمال احساسات کی نظریاتی تشکیل و ترکیب کا سبب بناتا رہتا ہے۔ یہ اسراری امکانات کے منکر ین سے چند سوالات رکھتا ہے ۔ پھر ثابت حیثیت کے زمان و مکان کی تشریح میں مہاجر پرندوں کی مثالیں سمو کر، اعتراضات کو جذبات میں تقسیم کر دیتا ہے۔ زمانی نظریات کو طبیعی فکر کے متوازی رکھتا ہے۔ کھلتے پھولوں میں سوچ جھنجھوڑ کر جگاتا ہے ۔ پھر عقل کل کے معانی کو فکر کل کے دائروں سے ملاتے ہوئے ، مرکز شعور تک لا کر ، پہلی پہچان سے اُبھرنے والی سرگوشیوں کو خواب زدہ بڑبڑاہٹ یا رویا کی حالت سے روشناس کرا دیتا ہے ۔ یہاں ذہنی کیفیت بدلتی رہتی ہیں ۔کچھ لوگ اسے ہزیان۔۔۔تو کچھ لوگ اسے ذہنی روشنی کے معیار میں ڈوبی زمانی خصوصیت قرار دے کر ، ظاہری مماثلت اور باطنی تغیرات کے حقیقی یقین کا ثبوت سمجھتے ہیں جو طرزِ بیان میں ، تعلقات شعور کے نظام احساسات میں شمسی جنوں، قمری فسوں کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
تعمیری عقیدتوں میں جن ستاروں کی نشان دہی ہوتی ہے وہ فطری ادراک کی تعریف میں درد کے صحیفوں کا ذکر کرتے ہوئے ، اُن پودوں سے بھی ملاقات کرواتے ہیں جن کی ایک ہی شاخ پر پھول اور زرد سبز پتے ہوتے ہیں، جبکہ پھولوں کا رنگ پتوں سے مختلف ہوتا ہے ۔ حالانکہ خوراک روشنی ،ہوا اور پانی دونوں کو ایک ہی زمین اور ماحول میں دستیاب ہوتی ہے۔ اُسی پودے کی جڑوں میں گھاس پھونس اور جڑی بوٹیاں بھی موجود ہوتی ہیں ۔ وہ بھی اُسی ماحول اور زمین سے اپنی ضروریات پوری کر رہی ہوتی ہیں۔ لیکن اُن کی تاثیر اور کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ اس کی وضاحت مختلف جزیروں سے آنے والے پرندے اور تتلیاں بھی کر دیتے ہیں۔ پرندوں کی وجہ سے مختلف سوچیں بیدار ہو کر ، حقیقت و مجاز کا فرق واضح کرتی ہیں۔
جذباتی کیفیت کی تفہیم میں اعزازی معجزہ بھی رونما ہوتا ہے۔ جو فطری قانون کے تحت بہتے چشموں میں تڑپتی سبز حقیقت بیان کرتے ہوئے ، دائم بقا کی تلاوت کرتا ہے ۔ پھول پتوں میں موجود روح کی تشریح کرتے ہوئے ، بہار کے دائرے عمل اور ردِ عمل کے فطری علم کے دروازے کھولتا رہتا ہے۔ مطالعاتی تعلق کو مشاہدہ ، فہم، بیان اور سلسلہ اسلوب قریب لاتا ہے۔ پھر بیان سے وضاحت تک لاتے ہوئے ، پیش گوئی کی طاقت بھی عطا کر دیتا ہے۔ آنے والے دور میں تحقیقات ، مشاہدات اورنفسیات کے منظر بدل جاتے ہیں۔ پھر بھی اعتبار ، فطری کیفیت کے سینے سے لگ کررہتا ہے۔ جس کی وجہ سے گل دائودی سے گل مریم تک راستے ہموار ہو جاتے ہیں۔ چاندنی راتوں میں خماریوں اور اختر شماریوں کی تشریح ہونے لگتی ہے۔ اسی فسوں میں جو ابدیت کے صحیفوں میں معبودیت کی حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں وہ گلاب و شبنم کے ساتھ خوشبو کے مفسر، شارع کو پاگل کہتے رہتے ہیں۔لیکن مجھے ایسے سلسلوں میں پرندوں کے گیتوں، شمس و قمر کی سرگوشیوں سے محبت تھی۔ شاید میرے خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے ایسا تھا؟
میں مدتوں سے خانہ بدوش ، سیلانی، آوارہ کرنوں کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے، ہوائوں کے ساتھ محوِ سفر تھا۔جہاں کہیں ثبوت خلیل کے ساتھ کوئی منظر بلاتا۔۔۔میں چلا جاتا ۔۔۔!
پڑائو کی کیفیت میں رنگ جلیل کے والہانہ تبسم کا رشک جمال کی رحل پر صحیفہ کھول کر ، تلاوت کرنے لگتا۔ خانہ بدوشی میں آوارگی پیاس کی طرح بڑھتی ہی رہی جس کی وجہ سے شہروں اور بستیوں سے نکل کر ، سیاہ پہاڑیوں کے سلسلے سے بھی آگے نکل گیا تھا۔ کبھی کوئی قافلہ یا صحرائی آدمی مل جاتا جس کی وجہ سے حقیقت کی سادگی میں گرفتار بھوک کی پیچیدگیوں سے بچ کر ، بہت سی مشکلات سے بچ جاتا۔ ایک دن صحرا میں اسی آوارگی کی حالت میں ہوا کا دامن پکڑے محوِ سفر تھا کہ یکا یک مجھے ایک غار کی دہلیز پر اپنے گھٹنوں میں سردیے ۔۔۔ایک شخص نظر آیا۔ وہ نہ جانے کن خیالوں کی گتھیاں سلجھا رہا تھا۔ میں صحرائی ریت میں چھپے پتھروں سے ٹھوکریں کھاتے ہوئے ، اُس کے قریب چلا گیا۔ میں نے قریب جا کر ! اُسے سلام کیا۔۔۔! اُس نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور صرف سر ہلایا۔
میں اپنا تعارف کراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔!
مجھے نہیں معلوم ، میرا نام کیا ہے؟ لیکن میرا باپ مجھے کبھی ابنِ آدم ۔۔۔کبھی عبداللہ کہتا تھا ۔ اور جب مجھے ڈھونڈنے نکلتا، تو انھی ناموں سے پکارتا تھا۔ وہ بہت غریب تھا لیکن مجھے غربت کا احساس ہونے نہیں دیتا تھا۔ وہ اکثر مجھے دو سانسوں کے بیچ وقفے کے بارے میں سوچنے پر اُکساتا۔ وہ سانسوں میں فرق کرنے پر بھی بولتا۔ اندر جانے والی سانس کیسی ہے؟ باہر آنے والی سانس کیوں باہر آتی ہے؟ سانسوں کے بیچ وقفہ کیوں ہے؟ اس کے بیچ چاند نہ ہو تو رات کی حقیقت کیا؟ رات نہ ہو تو چاند کی حقیقت کیا ؟ اس طرح کے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی نصیحت کرتا۔ جبکہ میں صرف اتنا سوچتا، کہ مصروفیت ہونے کی وجہ سے انسان اس طرح کے سوالوں کے جواب ڈھونڈ نہیں سکتا، کیونکہ بچپن کی اپنی مصروفیات ۔۔۔اور نوجوانی ، جوانی اور بڑھاپے کی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں۔ بچپن یاد نہیں۔۔۔جوانی کسے کہتے ہیں؟ یہ دیکھنے کا موقع ملا نہیں۔ جس کے ساتھ رہنا چاہتا تھا :وہ آسماں پر ہی کہیں رہ گئی۔ میں زمیں پرسہمے ہوئے ،سیلانی آوارہ ہونے کی تہمتیں جھیلنے کے لیے آ گیا۔
میں کچھ دیر کے لیے خاموش ہوا۔ پھر اُس اجنبی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
’’آپ کا نام۔۔۔؟‘‘
وہ انتہائی نرم لہجے میں بولا۔۔۔’’لوگ مجھے بہلول کہتے ہیں۔‘‘
مجھے صرف اتنا یاد ہے میری حویلی کے سامنے دریا بہتا تھا ۔ حویلی میں صبح کے وقت پرندے آتے تھے۔ سارا دن جمالی فطرت کی تشریح کرتے ، شام کو چلے جاتے تھے۔
میں اُس کے پاس ہی ریت پر بیٹھ گیا۔
کافی دیر خاموش رہنے کے بعد۔۔۔میں نے پوچھا۔۔۔!
میں آپ کو کس نام سے پکاروں۔۔۔؟
بہلول۔۔۔صرف بہلول کے نام سے۔۔۔اُس نے کہا اور پھر گھٹنوں پر سر رکھ کر، بانہوں کا ہالا سا بنا لیا۔
لمحے رات کی ڈوری پکڑے بھاگ رہے تھے۔ جس کی وجہ سے رات کی تاریکی گہری ہوتی جا رہی تھی۔ بہلول جیسے بیٹھا تھا ۔ویسے ہی بیٹھا رہا۔ مجھے نہ جانے کب نیند آ گئی ۔ میں کب سے، کب تک سویا۔۔۔ ؟ کچھ معلوم نہیں۔
میں سویا تھا؟ کسی کشتی میں سفر کر رہا تھا۔۔۔؟ کیا تھا؟ معلوم نہیں۔
لیکن جب آنکھ کھلی تو معلوم ہوا۔ بہلول مجھے جھنجھوڑ کر اُٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
آنکھ کھلی تو آسمان پر ہلکی ہلکی سفیدی شفق کے طلوع ہونے کے ساتھ نئے دن کے آنے کا اعلان کر رہی تھی۔
بہلول نہ جانے کیا کرتا پھرتا تھا۔ لیکن اُس کی آواز مسلسل میرے کانوں میں آ رہی تھی۔
وہ کہہ رہا تھا ، کہ جب انسان اصل اور خواب میں فرق محسوس کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر اسے آرزو کی رنگینی سے موسم کی حریت تک ! آبرو کے ذائقے آفاقی خمار سے روشناس کراتے ہیں۔ حقیقی کیفیت میں نبی، علی، ہری اور کرشن و شنکر خواب بدلنے کی حقیقت کو جھوٹی تسلی کہتے ہیں۔ ہاں اگر ازلیہ عقل کے دائروں میں سربسجود کون و مکان کو دیکھیں ، تو خواب میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے ، کہ ہم خواب کی حالت میں ہیں۔ اگر خواب میں بھی انسان یہ یاد رکھے۔۔۔ یہ خواب ہے۔۔۔!تو اُلجھنوں اور اذیتوں سے نجات مل جائے گی۔ حقیقت کو یاد رکھنا، پھر اُس کی تسبیح کرتے ہوئے مسلسل پرانی روش کی طرف آنا، پھر واپس حقیقت کی طرف لوٹ جانا، یہ بالکل ایسا ہی ہے ایک بستی سے دوسری بستی کی جانب چلے جانا۔ جب یہ حقیقت کھل کر طلسم کے مناظروں میں عصرِ رواں کے بھید کھولنے کے قابل ہو جاتی ہے تو پھر انسان خواب میں بھی خواب کے مسائل حل کر لیتا ہے۔ یہی وہ کائناتی مقام محمودہے جہاں خواب حقیقت میں بدل جاتا ہے ۔ اسی مقام پر بہار پھولوں کی خالق ہے۔۔۔۔خزاں پھولوں کی قاتل ہے۔۔۔!
انسان اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہو جاتا ہے۔ پھر یہی انسان اذان، نماز، ملکوت، جبروت، لاہوت، برزخ، یداللہ، آہٹ اورسبز لہجے کی ، اس طرح باتیں کرتا ہے۔ جیسے یہ بالکل اُس کے سامنے ہو۔
تم نے کبھی محسوس کیا ۔۔۔تم ایک خواب کی باتیں کرتے ہوئے، دوسرے خواب میں داخل ہو گئے؟ تمھارے بالوں میں مختلف صحرائوں کی ریت چمک رہی ہے۔ جس سے تمھاری صحرانوردی کا پتہ چلتا ہے۔ تم نے سراب بھی دیکھے ہوں گے ۔کبھی غور کیا؟ سراب میں کیاکیا نظر آتا ہے؟حالانکہ یہ سب دھوکہ ہوتا ہے۔لیکن میرے نزدیک جسے تم سراب سمجھتے ہو، وہ دھوکہ نہیں ہوتا۔ وہ تمھارا شعور ہوتا ہے جو ذہن کی غلام گردشوں میں ٹھوکریں کھاتی سوچ اور دل کی وادیوں میں بھٹکتی آرزو کی تصویر دکھا کر، روح کی کیفیت اور بدن کے اضطراب سے ذہن اور دل کو ایک محور کے قریب لانا چاہتا ہے۔ لیکن تمھیں جو نظر آتا ہے تم اُس کی فکر میں گم رہتے ہو۔ شعور کے نزدیک بھی نہیں آتے۔ لیکن یہ ذہن، دل، دھڑکن کو نہیں بھولتا ۔شعور کو جس طرح ذہن اور دل میں رکھنا چاہیے ، تم ویسے نہیں رکھتے، اسی وجہ سے سراب میں اُلجھ کر ، مزاج فطرت کے جمالی نظریات اور جلالی ثبوتوں سے بے خبر رہتے ہو۔ یہ تمھیں گردشِ ایام کے سرخ سبزخیموں میں ایسے شبنمی گیت سناتا ہے جس سے گزرتے لمحوں پر وجد طاری ہو جاتا ہے۔ پھر اسی دوران جب انسان مشکوک مجاز سے تسلیمی صادق معانیوں کی طرف آتے ہوئے، سورج چاند اور ستاروں کی گرہیں کھولنے کے قابل ہوتا ہے توپھر اُس کی زبان پر۔۔۔!
تو مثال گل شاخوں سے نکل کر!
تہذیب وصال کی آئینہ داری میں!
جمال کائنات کے منظروں کو سجاتا ہے
تو پھولوں کی رگوں میں سماتے ہوئے!
صحرا میں باب آرزو کی دلیلیں اُتارتے ہوئے!
اے ربِ کریم!
وارفتگی کی محراب پر ترتیب عصر سنوارتے ہوئے!
سحر کے معانیوں میں تکوین جہاں کے پرندے بلاتا ہے۔
مکمل موسم کے گرد سبز آہٹوں کا حصار کھینچ کر!
شام کے سینے میں اُتر کر!
اذانوں کے سینے سے اُبھر آتا ہے۔
روح کے زخموں پر اثبات وفا کا مرہم بن جاتا ہے۔
اس طرح کی نثری نظموں کا وِرد جاری ہو جاتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...