Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اِیلافِ وفا |
حسنِ ادب
اِیلافِ وفا

المدد
ARI Id

1689953282333_56116988

Access

Open/Free Access

Pages

17

المدد
(ارادھنا)
زندگی بھی، موت بھی تو دیتا ہے
موسموں کے راستے سنوار کر۔۔۔!
ابابیلوں ، بلبلوں اور کبوتروں کو بھیجتا ہے
اے عشق۔۔۔!
پتھروں کو موم کرتے ہوئے بیاباں کو لالہ زار کرنے والے
میں تجھے سبز پتوں پر خط لکھ کر۔۔۔!
لذتِ حقیقت میں ڈوبے چشموں کا۔۔۔،
طواف کرنے والی ہوائوں کے سپرد کروں
تیرے زائروں کی ۔۔۔!
صبح و شام خانقاہی دیواروں کو چومتا پھروں
تو تاثیرِ وصل کی انتہا۔۔۔
تو جوازِ ہجر کا مدعا
خواب کو جھنجھوڑتی ۔۔۔تعبیر کی رگوں میں دوڑتی وفا
اے شافی۔۔۔!
تو ہی بیمار کرتا ہے۔۔۔ تو ہی شفا دیتا ہے
اے خالقِ ارض و سما۔۔۔ اے طبیب ِ کون و مکاں۔۔!
میرا وسیلہ ہے خیر الوریٰ۔۔۔ المد دالمدد۔۔!
یا محصی ، یا محیطُ۔۔۔ المد دالمدد

میں بہلول کی باتیں اطمینان سے سنتا رہا کیونکہ اس کی باتوں میں کہیں کہیں نثری نظم کا اسلوب خوب صورت انداز میں نظر آیا تھا۔ وہ سامنے والے شخص کی فکر آلود سوچ کو معنویت کے ساتھ ، شفق کی تعلق داری میںلے آنے کا ماہر نظر آتا تھا۔ اسی لیے میں نے اپنے قیام کوطویل کرنے کا سوچا ۔ شاید وہ میری سوچ کو پڑھ چکا تھا۔ اسی لیے وہ میرے بولنے سے پہلے بول پڑا۔
اُس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔خوشبو قید نہیں ہو سکتی۔ شاخیں ہوں گی تو پھول کھل سکے گا۔ بصورتِ دیگر صرف اک بیج ہے جس میں ساری دنیا قید ہے۔ اگر بیج کو سازگار موسم ، زمین ، روشنی اور پانی ملے گا تب ہی وہ روشنی، ہوا کے ساتھ پرندوں کو اپنی طرف بلانے کے قابل ہو گا۔ اسی لیے میں ایک جگہ رہ نہیں سکتا۔ آج ہوائوں کے ساتھ سورج سے باتیں کر رہا ہوں۔۔۔کل نہ جانے کہاں۔۔۔ستاروں کے ساتھ سرگوشیاں کرتے ہوئے، کس حالت میں پڑا ہوں گا۔۔۔!تم یہ سب چھوڑو! یہ بتائو تم کیا کرتے ہو۔۔۔؟
میں نے تمہید، دورانیہ ، بیانیہ سب چھوڑ دیا۔ بس اتنا بتایا ، کہ میں نثری نظم لکھتا ہوں۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔خوب صورت ۔۔۔! لگتا ہے، کہ تم اساطیر سے محبت کرتے ہوئے، ایسے غاروں میں سونا پسند کرتے ہو جہاں سے محبتوں اور چاہتوں کے صحیفے ملتے ہیں۔ تم ایسے برگد کے پیڑ کے نیچے بیٹھنا اور قیام کرنا چاہتے ہو جہاں سے نروان ملتا ہے۔ تم اُن وادیوں میں جانا چاہتے ہو ۔۔۔جہاں ہوائیں گل بنفشہ سے گلے مل کر، ہمالیہ کی طرف بہار کے صحیفے کی تلاوت کرتے ہوئے چلتی ہیں۔ پھر گنگا جمنا کے دو آبے سے راوی اور چناب کے دو آبہ رچنا میں آتی ہیں، وہاں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد چنار و صنوبر کا طواف کرتے ہوئے، کوہ لبنان کے دامن میں پھیلے صندلی جنگلوں میں جگنوئوں سے سرگوشیاں کرتی ہیں۔ پھر چند پھول پتے کوہ قبیس کے غاروں میں کوہ سینا کے دامن میں رکھتے ہوئے ، کچھ عرصہ شمال مشرق اور جنوب مشرق کی وادیوں میں گھومتے ہوئے اک تکون بناتی ہیں۔ پھر فرات کے ساحلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ اکثر ایسے بھی ہوتا ہے ۔ وہ علم کے دروازے نجف اشرف سے داخل ہو کر، شہرِ علم مدینہ کی طرف لوٹ آتی ہیں۔ وہ شہرِ علم کی زیارت کرتے ہوئے !دشتِ نینوا کی مسافتوں میں چند خیموں کے نقشے بنا کر۔۔۔!
چند خانقاہوں کا طواف کرنے لگتی ہیں۔
یہ ایسا سفر ہے جس میں ہوائیں نثری نظموں کی طرح سرگوشیاں کرنے کے ساتھ ، بادلوں کو کندھوں پہ اُٹھائے ، نثری نظمیں ترتیب، دینا نہیں بھولتیں۔ وہ جدھر سے بھی گزرتی ہیں، نثری نظموں کا خوب صورت ہالا سا بناتی چلی جاتی ہیں۔ یہ سبز شعور کے حضور ارادھنا کرتی ہیں۔ انسانی ذہنوں کو سرور سے آشنا کر کے، خمار کی وادیوں میں لذت حرف و معانی کے پھولوں کی خوشبو سے روشناس کراتی ہیں۔ کہیں مشتری ، کہیں زہرہ کی طرح سعد تسدیس میں مشغول رہتی ہیں ۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...